13 August 1980 A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

تیرہ اگست 1980

علی امام نقوی

گنگاجمنی اینٹوں سے چنا ہوا مکان پوری طرف خوف و ہراس اور گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ صحن میں دستی نل کی ہودی سے قدرے ہٹ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے کو کمر پر لپیٹنے کے بعد اس کے دونوں سروں میں گرہ لگا رہی ہے۔ گرہ لگانے کے بعد خالی خالی نظروں سے اس نے مقابل کھڑی بڑی بیٹی کو دیکھا وہ اپنی شلوار کو نیفے میں اُڑاس کر اونچا کر رہی تھی۔ادھیڑ عمر عورت نے جھک کر چوڑی دار پائجامے کو ٹخنوں سے اوپر چڑھایا۔ قریب پڑے پھاوڑے کے دستے کو پکڑ تے ہوئے اس نے دالان پر نگاہ ڈالی۔ گنگاجمنی اینٹوں سے چنا ہوا مکان پوری طرف خوف و ہراس اور گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ صحن میں دستی نل کی ہودی سے قدرے ہٹ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے کو کمر پر لپیٹنے کے بعد اس کے دونوں سروں میں گرہ لگا رہی ہے۔ گرہ لگانے کے بعد خالی خالی نظروں سے اس نے مقابل کھڑی بڑی بیٹی کو دیکھا وہ اپنی شلوار کو نیفے میں اُڑاس کر اونچا کر رہی تھی۔ادھیڑ عمر عورت نے جھک کر چوڑی دار پائجامے کو ٹخنوں سے اوپر چڑھایا۔ قریب پڑے پھاوڑے کے دستے کو پکڑ تے ہوئے اس نے دالان پر نگاہ ڈالی۔ دالان میں اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کھبی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی،کبھی اپنی اپیا کواور کبھی زمین پر پڑی اپنے ابّو اور جوان بھائی کی لاشوں کو۔ ایک کے سینے پر گولی لگی تھی اور دوسرے کے سر میں ۔ دونوں کے سفید کرتے خون میں سنے ہوئے تھے اور اب تو خون کی رنگت بھی بدل چکی تھی۔ ماںنے اپنی نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔ بڑی بیٹی کو دیکھا ، آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں نے کچھ طئے کیا، پھاوڑے والا ہاتھ بلند ہوا اور پوری قوّت سے زمین کی چھاتی میں پھاوڑ ا دھنس گیا۔دھپ کی آواز ، دالان میں بیٹھی تینوں بہنوں نے سنی، تینوں ہی نے سہم کر ایک دوسرے کو دیکھا۔چھوٹی نے اضطرار کے عالم میںباپ کے لاشے کی پنڈلی تھام لی، سہمی سہمی نگاہ اس نے ماں پہ ڈالی ، جس کا پورا وجود ایک بار پشت کی طرف جھکا ، دونوں ہاتھ بلند ہوئے ، پھاوڑا نیم کی شاخوں تک پہنچا اور دھپ کی آواز کے ساتھ ہی دور کہیں گولی چلنے کی آواز تینوں نے سنی۔ گولی چلنے کی آواز کااثر گڑھا کھودنے والی ماں اور بیٹی پر نہیں ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے کان قوّت سماعت سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں کے حلقوں میں اب ڈھیلے بھی نہیں رہے۔ بس انہیں یاد تھا تو اتنا کہ دالان میں بچیوں کے پاس دو لاشیں پڑی ہیں اور شہر میں بے مدت کرفیو لگا ہے۔ اگر لاشیں یوں ہی پڑی رہ گئیں تو تعفن کے مارے گھر میں بیٹھا نہ جاسکے گا اور گھر سے باہر نکلنے کی پاداش میںدائیں ،بائیں یا کسی اونچے مکان کی چھت سے گولی چلے گی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھاوڑے اور بیلچے نے زمین کی تہیںکھولنی شروع کر دی تھیں ، پھاوڑے کی ہر ضرب خوف ناک سناٹے کی چادر کو تانتی چلی جا رہی تھی، ماں اور بیٹی بلارکے گڑھا کھود رہی تھیں۔انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ رات نے کرفیو زدہ شہر پر کب سیاہی پھیری ۔ دالان میں بیٹھی تلے اوپر کی تین بہنوں میں سے ایک نے صحن میں پھیلتے اندھیرے کو محسوس کیا تو اٹھ کے اس نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ چند لمحوں بعد وہ ڈھبری جلارہی تھی۔دوسرے ہی پل گہرا زردی مائل اجالا دالان اور صحن میں پھیلنے لگا۔ لمحے بھر کی خاطر گڑھا کھودنے والی ماں اور بیٹی کے ہاتھ رکے ، چہرے گھومے ، دونوں نے قمیضوں کی آستینوں سے چہرے کا پسینہ پونچھاٹھیک اسی وقت دالان میں بیٹھی دونوں بہنوں نے ڈر کے مارے سر جھکالئے، یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری اپیا تو نہیں۔ یہ امّی تو ہر گز نہیں ہیں۔ انہوں نے سوچا۔ تو کسی اور دنیا کی عورتیں ہیں۔امّی اور اپیا کا چہرہ اتنا دہشت ناک تو نہ تھا۔ٍ اپیا کی مٹھیوں میں دبا بیلچہ زمین میں دھنسا ، مٹی کی تہہ نل کی ہودی کی طرف ڈھیر ہوئی اور ماں کا پھاوڑہ پوری قوّت سے زمین کی چھاتی پر پڑا۔ بس ۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اپیا کی اپنی چھاتی میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی۔ اس نے ماں کا پھاوڑہ زمین میں دھنسا دیکھا ۔ شاید وہ کچھ اور بھی سوچتی پر بے گور کفن باپ اور بھائی کی لاش کا خیال آتے ہی وہ چونکی۔بیلچے کی کھچ کھچ اور پھاوڑے کی بھد بھد کے بیچ ہی ایک تیسری آواز بھی کافی دیر سے سنائی دے رہی تھی۔دالان کی مشترکہ دیوار میں موجود کھڑکی کی کنڈی مسلسل مگر احتیاط سے بج رہی تھی۔لیکن ماں بیٹی کے ہاتھوں کی مصروفیت اور ماحول پر مسلط خوف کی وجہ سے دالان میں بیٹھی بہنوں نے اس پر توجہ ہی نہ دی۔ اب کی مرتبہ کنڈی قدرے زور سے بجائی گئی ، تب اس لڑکی نے جو کچھ دیر پہلے ڈھبری جلا چکی تھی، پہلے گڑھے کو، پھر فرش پہ پڑی لاشوں کو دیکھااور صحن میں گڑھا کھودنے میں مصروف ماں اور اپیا کو۔گویا اسے ان کی اجازت مطلوب ہو۔لیکن انہیں اپنے کام میں منہمک پا کر اس نے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ، کھڑکی کے قریب پہنچی۔اور چٹخنی گرادی۔ کھڑکی کے اس پار ماسی کھڑی تھیں۔اپنا غم زدہ چہرہ لیے۔ دونوں کی نظریں ملیں، ماسی نے شفقت بھرا ہاتھ بچّی کے سر پر رکھا۔داہنا پیر اٹھا کر کھڑکی کی راہ وہ پڑوس میں چلی آئیں۔ پھر بائیں ہاتھ سے سانکل پکڑے وہ جھکیں اور اپنی اور سے تشا اٹھا کر تیزی سے صحن کی طرف بڑھ گئیں۔ دالان میں بیٹھی سب سے چھوٹی بچی نے سامنے کی دیوار پر صحن کی طرف بڑھتی ہوئی ماسی کا سایہ دیکھا تو ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔وہ کافی دیر سے ڈھبری کی زرد روشنی میں اپنے ہی سائے کو عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ بس ، چند لمحوں کی خاطر بیلچے اور پھاوڑے نے زمین کی پرتیں ادھیڑنی چھوڑ دی تھیں ۔ماں اور بیٹی نے پڑوسن کو دیکھا دونوں کے دل پھڑ پھڑائے، اس سے پہلے کہ دونوںکے دل سے بخارات اٹھ کر آنکھوں کی راہ بہہ نکلتے ماں نے پھاوڑہ سر سے بلند کیا،دھپ کی آواز آئی۔کافی مٹی پھاوڑے پر آگئی تھی فوراََ ہی پڑوسن نے تشا آگے بڑھا دیا۔ اب کام بٹ گیاتھا۔ان کی ہمتیں بلند ہو گئی تھی۔پر اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔چھے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔۔ ڈھبری کی زرد روشنی میں ان تینوں کے سائے غسل خانے کی دیوار پر پڑ رہے تھے۔چھوٹی بچی کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو چلی تھیں۔اس کی پلکیں موندھتی ہی چلی جارہی تھیں کہ ماحول کے سکوت نے اس کے ذہن کو بیدار کر دیا۔آنکھیں کھول کر اس نے دیکھا۔ امّی اپیااور ماسی کے ہاتھ رکے ہوئے ہیں۔ ماں کے ہاتھ میں ایک ہڈّی ہے اور ایک ادھوری انسانی کھوپڑی مٹی کے ڈھیر پر پڑی ہوئی ہے۔ ایک گھٹی گھٹی سی چیخ اس کے اندر سے ابھری مگر حلقوم تک آتے آتے دم توڑ گئی، کچھ لمحے بعد بچی کی پلکوں کے کواڑ پھر بند ہونے لگے۔ یکبارگی دروازہ دھڑ دھڑا کر کھل گیا۔ ڈر کے مارے سب کی چیخیں بلند ہو گئیں ۔ پڑوسی شرما جی کے لڑکے انیل نے بھیا کو کندھے پر اٹھا رکھا ہے اور ابّو نڈھال سے زمین پر تڑپ رہے ہیں۔ ’’اپیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئو۔۔۔بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنبھالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔عید گاہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے گولی لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچا انہیں اٹھائے بھاگ رہے تھے۔اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔گلی کے موڑ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤاپیا ۔جلدی آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح ساڑھے سات بجے دونوں باپ بیٹے سفید کرتے پائجامے پہن کر عید گاہ گئے تھے اور اب انیل نے اس کے ویراکو کندھے پر سہاررکھا تھا۔اس کے ابو خون میں لت پت پڑے تھے۔سانسیں اکھڑ چلی تھیں ، اپیا اور امی بولا کر ان کی طرف بڑھیں ، جیسے تیسے انہوں نے ان دونوں کو دالان میں پہنچایا۔دروازے سے دالان تک پہنچے میں ابو نے آنکھیں بند کر لیں۔انیل بجھے دل کے ساتھ سر جھکائے مکان سے نکلااور ٹھیک اسی وقت گولی چلنے کی آواز ان لوگوں نے سنی ۔ کئی چیخیں انہوں نے سنیں۔پر ایک چیخ ان سب سے بلند تھی۔ اپیا نے دروازہ بند کرتے ہوئے گلی میں تڑپتے انیل کو دیکھ لیا تھا۔دور کہیں لائوڈ اسپیکر پر پولس والے بے مدت کرفیو کا اعلان کر رہے تھے اور پھر ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔ گھبرا کر وہ جاگ اٹھی ۔ محراب کے کھولے سے لگے لگے اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔وہ اس کی اپیا کی چیخ تھی۔ جو کرفیو زدہ رات کا سینہ چیرنے کے بعد خاموشی کا ایک حصّہ بن گئی۔ اس نے نندا سی آنکھوں سے دیکھا، اپیا، امّی، ماسی، ابو اور بھیّا، کی لاشیں گڑھے میں اتر چکی ہیں۔ دونوں لاشیں برابر لٹانے کے بعد امّی نے کمر پر بندھا دو پٹہ کھولا ہے اور لاشوں پر ڈال دیا ہے۔ اپیا نے گھڑونچی پر رکھا اپنا دوپٹہ اٹھایا۔ ماسی کی مدد سے اسے پھیلایا اور میّتیں ڈھک دیں۔ ایک مرتبہ پھر بیلچہ اور پھاوڑا مصروف ہوا۔ادھر ادھر پھیلی مٹی سے گڑھا بھرا گیا۔اپیانے ، پھر آستین سے پسینہ پونچھا گھڑونچی کے قریب پہنچیں ۔بالٹی اٹھائی اور نل کی طرف بڑھنے لگی۔ایک بچّی دوڑ کرنل کے قریب پہنچی اور ہتھّی چلانے لگی۔ بالٹی بھر جانے کے بعد اپیا نے باپ اور بھائی کی مشترکہ قبر پر پانی چھڑکا ۔ا مّی نے غور سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور نڈھال سی دالان کی طرف بڑھیں ۔ لیکن وہ چند ہی قدم چلی تھیںکہ چکر اگر گر پڑیں ۔ ماسی دوڑیں ۔چلوّمیں پانی لے کر ان کے منھ پر چھینٹے دیئے۔امّی نے آنکھیں کھول کر ماسی کو دیکھا ۔ اک ذرا سا ہاتھ اٹھا کے انہیں اطمینان دلایا۔تب ماسی نے گھٹنوں پر ہتھیلیوں کا دبائو ڈالا ۔ اٹھیں ، اپنا تشا اٹھا کر اپیا کو حسرت بھرے انداز میں دیکھااور پھاوڑے کی طرف بڑھادیا۔ اپیا اپنی اجڑی آنکھوں سے ماسی کو دیکھ رہی تھی۔اس نے دیکھا ماسی کی آنکھوںسے آنسو رواں تھے اور وہ تھکے قدموں سے دالان کی مشترکہ کھڑکی کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ پل بھر میں اپیا نے ایک فیصلہ کیا۔اپنا بیلچہ اٹھا کر وہ بھی ماسی کے پیچھے چل پڑی ۔ محراب کے کھولے سے لگی بچی نے اپیا کو دوسری طرف جاتے ہوئے دیکھا ۔ کچھ دیر بعد برابر کے مکان سے کھچ کھچ اور دھپ دھپ کی آواز آرہی تھیں ۔ بچّی کی پلکوں کے پٹ پھر بھڑنے لگے تھے۔اور مندتی ہوئی پلکوں کی جھری سے وہ دیوار پر پڑتے سائے کو دیکھ رہی تھی ۔ اپنے ہی سائے کو۔ جو کبھی ایک جگہ تھم جاتا۔کبھی لہراتا اور کبھی طوفانی انداز میں اپنے ہی جیسے دوسرے سایوں پر حملہ کر بیٹھتا تھا۔دور کہیں پھر گولی چلی تھی اور ایک چیخ بھی بلندہوئی تھی۔