2 ZabaneN, 2 SHAIR, 1 Khayal

Articles

دو زبانیں، دو شاعر، ایک خیال

ڈاکٹر ذاکر خان

اردو اور انگریزی شعر و ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد دو باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں کہ اردو شعر وادب نے انگریزی شعر وادب کو اور انگریزی شعر و ادب نے اردو شعر و ادب کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ اس کی آبیاری کے لیے مناسب ماحول بھی فراہم کیا ہے۔دونوں ہی قسم کے شعر و ادب میں بے شمار مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی اس قسم کے شکوک و شبہات بھی ابھرنے لگتے ہیں کہ ایک زبان وادب کے فنکار نے دوسری زبان و ادب کے فنکار کی یاتو نقل کی ہے یا ادبی سرقہ کیا ہے۔کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف زبانوں کے فنکار ایک دوسرے کے فن اور شخصیت سے بالکل ہی ناآشنا ہوں مگر دونوں کے فن میں یکساں محرّکات کارفرما ہوں، یکساں خیالات و افکار کا سیلان ہو، یکساں حالات کی عکاسی کی گئی ہو۔حقیقت یہ بھی ہے کہ انیسویں صدی تک اردو شعراء، انگریزی شعر و ادب سے تقریباً نابلد تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ غیر منقسم ہندستانیوں اور انگریزوں کے درمیان نفرت کے جذبات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔ان حالات میں ہندوستانیوں کی انا اور عزتِ نفس کبھی انہیں انگریزوں کی نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔اسی طرح انگریزی ادب بھی احساسِ برتری کا شکار تھا پھر وہ کس طرح غلام ہندوستانیوں کے خیالات و افکار کی ہو بہو نقل کرتا؟لیکن اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کے توسط سے اردو شعر و ادب انگریزوں تک برابر پہنچ رہا تھا۔اسی طرح دوسری جانب سرسید، حالی اور آزاد کی کوششوں سے انگریزی خیالات و افکار کی درآمدگی سہل ہوچکی تھی۔ کرنل ہالرائڈ اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے اور اقبال آرنالڈ سے متاثر ہوچکے تھے۔ ان حالات میں اردو کے انگریزی پر اثرات اور انگریزی کے اردو پر اثرات مکمّل نہ سہی، کم کم، ہی پڑنے لگے تھے۔
الفاظ اور خیالات ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں ، ان ہی دونوں کے اختلاط سے فن پاروں کا جنم ہوتا ہے۔شاعری ایک ایسی صنف ہے جو شاعر کو خوابوں میں بھی کافکا کی طرں جھنجوڑتی ہے، ایلیٹ کی طرح سوچنے پر مجبور کرتی ،ورڈس ورتھ کی طرح خوبصورت نظاروں کی سیر کراتی ہے۔اور کولرج کی طرح چبھتے ہوئے جذبات کی عکاسی کرواتی ہے۔یہی چبھتے ہوئے جذبات، اسٹیفن گل اور فراق گورکھپوری کی شاعری پر مبنی میرے مقالے کی اساس ہیں۔
فراق کا جنم گورکھپور میں ہوا جبکہ اسٹیفن گل پاکستان میں پیدا ہوئے ہندوستان میں پرورش پائی اور کنیڈا میں سکونت اختیار کی۔ فراق کی طرح اسٹیفن گل بھی شاعر اور نقاد ہیں ۔آپ تقریباً ۰۲ کتابوں کے مصنف ہیں جس میں ناول ، تنقید اور شعری مجموعے شامل ہیں۔ گلِ نے اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں شاعری کی ہے۔ ان کی نثر اور نظم دونوں کو ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار پبلشر شائع کرچکے ہیں۔ہند و پاک کے مختلف گلوکاروں نے آپ کی شاعری کو اپنی آواز دی ہے۔
فراق اور گِل دونوںنے اپنی شاعری کی ابتدا بچپن ہی سے کردی تھی۔گل نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی شاعری کی اساس بنایا ہے۔کے کے سری واستو دونوں کے ساتھ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
“گل نے میرے پہلے مجوعہ کلامIneluctable Stilnessکی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہاری شاعری میں جینت مہاپاترا کو پاتا ہوں جبکہ فراق نے ملاقات کے وقت مجھ سے کہا تھا کہ کبھی یوں بھی ہوسکتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کے درمیان رہو جو تمہارے برابر نہ ہو تب بھی اس طرح کا برتاﺅ کرو کہ وہ تمہیں اپنے برابر نظر آنے لگے۔ فراق اپنی اس عظمت سے واقف تھے”
وہ کہتے ہیں کہ
اب اکثر چپ چپ سے رہے ہیں، یوں کبھی منہ کھولے ہیں
پہلے فراق کو دیکھا ہوتا، اب تو بہت کم بولے ہیں
اسٹیفن گِل کبھی فراق کی طرح کھل کر سامنے نہیں آئے، ان کی شاعری پوری انسانیت پر چھائی ہوئی اداسی، مایوسی اور حسرت کی ترجمان ہے۔وہ جذبات کی گہرائی تک پہنچ کر انہیں آشکار کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ
storms hid the glow with dust
when the albatross of violence
flies over the flower
(You are not There)
جنگ جدید تہذیب و تمدّن کے ماتھے پر موجود ایک بدنما داغ ہے، فراق اور گِل دونوں بھی ہمیںجنگ اور اس کی تباہ کاریوں پر فکر مند نظر آتے ہیں۔دونوں ہی جنگ کو ایسی لعنت ملامت تصور کرتے ہیںجس کے چلتے فرار کے سوا کوئی دوسری راہ نہ ہو
فراق کہتے ہیں
کاریگر، مزدور کسان
کھریال اور بگرل جوان
کاندھے سے کاندھا جوڑیں گے
دنیا پر دھاوا بولیں گے
(نئی دنیا)
دوسری جگہ فراق کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ
تیرے لیے دنیا ہے، دنیا کے لیے تو ہے
ہاں خود پر نظر کر کے دنیا پر نظر کر
(ہاں اے دل افسردہ)
جب جنگ چھڑی دیشوں میں
جو بھی پڑی ہم پر ہی پڑی
بھس میں چنگی دے کر ساتھی
دیکھ جمالو دور کھڑی
(مزدوروں کاریگروں شپکاروں کی للکار)
اسٹیفن گل اس سے آگے بڑھ کر وحشیوں اور درندوںکو امن قائم کرنے دعوت دیتے ہیں۔اس سے ان کی اندرونی تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک جنگ زدہ حالات بدلنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں
let us ask all beings
even the beast
give us their hands
let us not surrender
(Seekin the Dove of Peace)
کبھی وہ کہتے ہیں کہ
When
harmony was fused
into my mind, soul heart
and every other organ of the body
the human was created (When)
for which of those sins
offences and crime
have we lost the time to breathe
no hope, no spark
to own own your tranquil eyes (Hramony and Peace)
ہند پاک جنگ کے تناظر میں فراق نے کہا تھا کہ
ہم نے تم نے اپنی ہی بیٹیوں کا سہاگ مٹایا
اپنے بیٹوں کو خود ہی
کیا ہے یتیم
بھائی نے بھائی کے خون سے ہولی کھیلی
کیا ہمیں مل گیا گیا تمہیں مل گیا
ان ہی خیالات کو اسٹیفن گل کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
if the nuclear bombs drop
will the dawn be born again
will the players play again
will the children swim again
تشدّد ان دونوں شعراءکو اس قدر کچوکے لگاتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح کے اشعار کہنے سے روک نہ سکے
صدیوں کے بنے کام بگڑ جائیں گے
دھرتی پر عالم موت کے گر جائیں گے
اسٹیفن کہتے ہیں
the willful ghosts of sorrow
have not dissolved
nor have the fogs of ignorance
will float over the cold tombs
rather
they have grown in strength
in the gloom of violence
(New Year)
ان ہی خطوط پر T.S. Eliotکہتا ہے کہ
“گزشتہ سال کے الفاظ کا تعلق گزشتہ سال کی زبان سے ہوتا ہے، آئندہ سال کے الفاظ کسی دوسری نئی آواز کے منتظر ہوتے ہیں”
آفاقی شاعر ہونے کے ناطے اسٹیفن گل کو کسی ایسے نظام کی تلاش ہے جو سماج و معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کردے۔ وہ ایسی آواز کی حمایت کرتا ہے جسے پوری دنیا میں سنا اور سمجھا جا سکے۔وہ آواز امن اور محبت کی آواز ہو۔ وہ آواز بین الاقوامی اتحاد کی آواز ہو۔ گل کی نظمیں مختلف معنی و مفاہیم کا احاطہ کرتے ہوئے مختلف النّوع جذبات کی ترسیل کا کام انجام دیتی ہیں
فراق اور گل دونوں کا شمار شاعرِ امن آشتی اور شاعرِ محبت و انسانیت میں ہوتا ہے۔دونوں ہمیں عوام الناس کے آپسی اتحاد کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔دونوں کی شاعری میں جذبات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔دونوں ہی اپنی شاعری میں ماں کی یادوں میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فراق اپنی نظم “جگنو “میں کچھ یوں کہتے ہیں کہ
وہ ماں جو دودھ بھی اپنا مجھے پلا نہ سکی
وہ ماں جو ہاتھ سے اپنے مجھے کھلا نہ سکی
وہ ماں جو میرے لیے تتلیاں پکڑ نہ سکی
جو بھاگتے ہوئے میرے بازو پکڑ نہ سکی
ان ہی یادوں کو گل کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
images of sacrifice
message of hope
you are highly prized
the gift of this life
I owe to you
اکثر و بیشتر محبوبائیں تنہائی میں شعراءکے تخیّل پر وارد ہوتی ہیں۔ ان ہی کے جلوے کبھی تخلیقات میں اور کبھی تخلیقات سے پرے نظرآتے ہیں۔لیکن محبت کا حلقہ شاعری میں مکمل طور پر جلوہ گر ہوتا ہے۔فراق اور گل نے بھی اپنی تنہائی کے لمحات اپنی اپنی شاعری میں پیش کیے ہیں۔ دونوں کے جذبات کی مماثلت قارئین کو چونکا دینے والی ہے۔
فراق کہتے ہیں
وہ چپ چپ آنسو بہانے کی راتیں
وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں
شبِ ماہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم
ترے حسن کے کسمسانے کی راتیں
گل نے اسی خیال کو کچھ یوں باندھا ہے
In the ruin of lonesome hours
she knocks
at the doors of my dreams
and shyly sits
beside me (Haunting Melody)
نظم “ہنڈولا “میں شعور کی رو میں بہتے ہوئے فراق اپنے بچپن کو یاد کرتے ہیں ، یوں لگتا ہے جیسے فراق کے خواب بکھر گئے ہوں ، خواب خواب نہ بلکہ فریب نظر ہوں
مجھے گماں پرستانیت کا ہوتا تھا
ہر چیز کی وہ خواب ناک اصلیت
مرے شعور کی چلمن سے جھانکتا تھا کوئی
لیے ربوبیتِ کائنات کا احساس
ہرایک جلوے میں غیب و شہود کا وہ ملاپ
ہراک نظارہ اک آئینہ خانہ¿ حیرت
گل، فراق اور D.H. Lawrenceکی طرح پریوں کی دنیا میں سیر کرتے ہوئے شخص اور کائنات کے درمیان کا ربط تلاش کرتے ہوئے کہتا ہے
I wish to harvest
a ripened manna of wonders
of the youthful bloom
for the courtof enlightenment
to vakidatethe claim
those outgrowths
from diversityof landscape
stem from the cosmic order
of the same source
(To Be)
گل جمہوری طرز حکومت کے حامی تھے وہ کہتے ہیں کہ
I am aware of the dangers
from the east and the west
I know I am surrounded
by the demons of repression
اسی انداز میں فراق سوشلزم کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
وہ علم کیا جو ضامنِ فردہ نہ ہو سکے
جو آئینے میں آج کے کل کو نہ دیکھ لے
Mathew Arnold نے کہا تھا کہ شاعر کو سمجھنے کے لیے شاعرانہ دل چاہیے۔ Walt Whitman کہتا ہے کہ اچھے شاعر پیدا کرنے کے لیے اچھے قارئین کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ ممکن ہو تب ہی قارئین اسٹیفن گل اور فراق کی شاعری سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ دونوں کی شاعری انسانی جذبات، خواہشات اور یاداشت کی ترجمانی کرتے ہوئے، Benedict De Spinoza کی طرح اتحاد کی تبلیغ کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عظیم اذہان، ذات پات، سماج و معاشرہ، زبان و ادب، ملک ملّت، اور علاقوں سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بھلائی کے لیے یکساں خطوط پر سوچ سکتے ہیں


مضمون نگار نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09987173997