Life and Work of Rashidul Khairi

Writers

Life and Work of Rashidul Khairi

ڈاکٹر قمر صدیقی

راشد الخیری جنوری ۸۶۸۱ء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حافظ عبد الواحد اور دادا کانام مولانا عبد القادر تھا۔ والدہ کا نام امیر بیگم بی بی رشید الزمانی تھا۔ یہ نواب فضل رسول خاں کی بیٹی تھیں۔ دادیہال کی طرف سے راشد الخیری کا خاندان علما و مشائخ میں شمار ہوتا تھا اور ننھیال کی طرف سے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر سے رشتہ داری تھی۔ گویا ایں خانہ تمام آفتاب است۔ راشد الخیری کے والد حافظ عبد الواجد خاندان کے پہلے شخص تھے جنھوں نے خاندانی روایت سے انحراف کرکے انگریزی تعلیم حاصل کی اور سرکاری ملازمت کی۔البتہ ملازمت کبھی جم کر نہ کرسکے۔ آخری ملازمت نواب آف حیدرآباد کی تھی جہاں وہ بندوبست کے مہتمم کے عہدے پر فائز تھے۔ راشد الخیری کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں۔ تاہم انھں تاریخی واقعات، بادشاہوں کے حالات، سبق آموز کہانیاں اور اردو اشعار خوب یاد تھے۔ وہ گاہے بہ گاہے ان اشعار و واقعات کو راشد الخیری کو سناتی تھیں۔ اس طرح بچپن ہی سے گھریلو تربیت کے باعث خوفِ خدا اور عظمتِ رسولؐ کا نقش دل پر ایسا بیٹھا کہ ساری زندگی جاہلانہ و باطلانہ نظریات اور رسم و رواج کے خلاف جہاد بالقلم کرتے رہے۔ راشد الخیری کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا مولانا عبد القادر کی نگرانی میں ہوئی۔ چونکہ ان کے والد بہ سلسلہ ملازمت باہر رہتے تھے اس لیے راشد الخیری کی تربیت کی ساری ذمہ داری ان کے دادا نے ادا کی۔ قرآن کریم اپنی دادی بڑی استانی کی نگرانی میں مکمل کی اور فارسی کی تعلیم بھی گھر پر ہی ہوئی۔ بعد ازاں دلی کے عربک اسکول میں داخل ہوئے لیکن انگریزی کے علاوہ کسی مضمون میں دلچسپی نہ تھی لہٰذا اسکول سے اکثر غائب رہنے لگے۔ اسکول میں اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ اردو فارسی کے استاد خواجہ الطاف حسین حالی تھے۔ وہ راشد الخیری کی علمی لیاقت سے بہت خوش تھے۔ حالی کے علاوہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر خواجہ شہاب الدین اور انگریزی کے استاد مرزا احمد بیگ بھی ان سے خوش تھے۔ اس کے باوجود اسکول میں ان کا جی نہ لگتا تھا۔ گھر کے تمام بزرگوں کی تاکید اور دباؤ کے باوجود نویں جماعت سے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ یہ صورت حال تمام اہل خانہ کے لیے تشویس ناک تھی۔ باب اور دادا کا انتقال ہوچکا تھا لہٰذا ان کی دادی اور والدہ ان حالات کے مدنظر بہت پریشان ہوئیں۔ اس دوران ڈپٹی نذیر احمد جو کہ راشدالخیری کے پھوپھا تھے حیدآباد (دکن) سے دہلی آئے۔ راشدلخیری کی دادی نے راشد الخیری کو ان کی نگرانی میں دے دیا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انھیں پڑھنے لکھنے کا سلیقہ سکھایا۔جب ڈپٹی نذیر احمدحیدر آبادجانے لگے تو انھوں نے راشد الخیری کے چچا خان بہادر ڈپٹی عبد الحامد کو خط لکھ اپنے پاس بلانے کی سفارش کی۔ ان کے چچا ان دنوں اورئی(یو پی) میں ملازم تھے۔ انھوں نے راشد الخیری کو وہاں بلا لیا اور ان کا داخلہ گورنمنٹ اسکول میں کرادیا۔لیکن یہاں بھی ان کا دل اسکول میں نہ لگا۔ کچھ دنوں بعد چچا کا تبادلہ اناؤ ہوگیا اور وہ چچا کے ساتھ اناؤ چلے گئے۔ اس طرح ان کا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔اس کے بعد انھوں نے جو صلاحیت اور لیاقت حاصل کی وہ ذاتی مطالعہ کی بنیاد پر کی۔ راشد الخیری کی بہن زاہدہ بیگم کی شادی کے بعد ان کی والدہ کو راشد الخیری کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ان کی والدہ نے اپنے پڑوسی عبد الرحیم کی بیوہ کی بیٹی فاطمہ خانم سے ان کی شادی طے کردی۔ ۵/ جنوری ۰۹۸۱ء کو حافظ سیّد محمد، امام جامع مسجد نے نکاح پڑھایا۔ راشد الخیری کی چار اولادیں راشدہ بیگم، رازق الخیری، واجدہ بیگم اور صادق الخیری نے لمبی حیات پائی البتہ ایک بیٹا عبد الخالق اٹھارہ سال کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال کرگیا۔ راشدہ بیگم سب سے بڑی تھیں اور والد سے قریب بھی۔ ۵۱۹۱ء میں ان کی شادی عبد الغفور سے ہوئی۔ رازق الخیری ان کے بعد تھے۔ بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔ ۳۲۹۱ء میں ان کی شادی خاتون اکرم سے ہوئی جو نئی نسل کی معروف ادیبہ تھیں۔ لیکن دوسال بعد ہی خاتون اکرم کا انتقال ہوگیا۔ دوسری شادی ۹۲۹۱ء میں آمنہ نازلی سے ہوئی۔رازق الخیری نے راشد الخیری کی زندگی میں ہی عصمت، بنات اور جوہرِ نسواں کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ لکھنے پڑھنے کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ تقریباً ۸کتابوں کے مصنف تھے۔ ہجرت کے بعد عصمت اور بنات کوپاکستان سے باقاعدگی سے شائع کرتے رہے۔ واجدہ بیگم کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور وہ باسلیقہ خاتون تھیں۔ ان کی شادی سردار محمد خاں کے ساتھ ہوئی۔ صادق الخیری سب سے چھوٹے تھے۔ ۷۳۹۱ء میں فلسفہ میں ایم۔ اے کیا۔ افسانے اور تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ ترقی پسند ادیبوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تقریباً ۹کتابوں کے مصنف تھے۔ شادی کے چند ماہ بعد راشد الخیری کو ان کے چچا عبد الحامد جو کہ اناؤ میں ڈپٹی کلکٹر تھے کی کوششوں سے محکمہ بندو بست میں کلرک کی ملازمت مل گئی۔ لیکن یہ ملازمت راشد الخیری کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی تھی اور دفتری کاموں میں ان کی طبیعت نہیں لگتی تھی۔ دوران ملازمت ان کی دوکتابیں ”صالحات“ اور ”منازل السائرہ“ شائع ہوکر مقبول ہوچکی تھیں۔ لہٰذا ان کی طبیعت تحریر و تصنیف کی طرف زیادہ مائل رہتی تھی۔ گھریلو وجوہات کی بنا پر بھی دور دراز تبادلے پر بھی انھیں تامل ہوتا تھا۔اس لیے کہیں جم کر ملازمت نہیں کی۔ ان کی آخری ملازمت دلی کے پوسٹل آڈٹ آفس میں تھی۔جب انھوں نے رسالہ ”عصمت“ جاری کیاتو سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے رسالے میں ان کا نام شائع ہونے میں قانونی دشواری پیش آئی لہٰذا۰۱۹۱ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو پوری طرح اردو زبان و ادب کے لیے وقف کردیا۔وہ اردو کے ان چند خوش قسمت مصنفوں میں تھے جن کی کتابیں کثیر التعداد ہونے کے ساتھ ہی قبول عام کی سند حاصل کر چکی تھیں۔ راشد الخیری کا انتقال ۶۳۹۱ء میں ہوا۔ اردو افسانے کے تعلق سے جو تحقیق اب تک سامنے آئی ہے اُس کے نزدیک راشد الخیری کے افسانہ ”نصیر اور خدیجہ“ مطبوعہ رسالہ ”مخزن“، لاہور، شمارہ ۳، جلد ۶، دسمبر ۳۰۹۱ء کو اولیت حاصل ہے۔ یہی افسانہ راشد الخیری کی کتاب ”مسلی ہوئی پتیاں“ کی اولین اشاعت ۷۳۹۱ء، مطبوعہ عصمت بک ڈپو، دہلی کے صفحہ ۸۲تا۲۳میں ”بڑی بہن کا خط“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ڈاکٹر نجیب اختر نے راشد الخیری پر جومونوگراف دہلی اردو اکادمی کے لیے تحریر کیا ہے اس میں انھوں نے اس تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے: ”راشد الخیری کے دو طبع زاد افسانے ”نصیر اور خدیجہ“ اور ”بدنصیب کا لال“ دسمبر۳۰۹۱ء سے اگست۵۰۹۱ء تک شائع ہوچکے تھے۔ یلدرم کے دو افسانے ”دوست کا خط“ اور ”غربت وطن“ اکتوبر۶۰۹۱ء میں شائع ہوئے۔ سلطان حیدر جوش کا ”نابینا بیوی“ دسمبر ۷۰۹۱ء میں اور پریم چند کا پہلا افسانہ ”عشق دنیا اور حب وطن“ اپریل۸۰۹۱ء میں شائع ہوا۔ یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ پریم چند کے جس افسانے (دنیا کا سب سے انمول رتن) کو اردو پہلا افسانہ شمار کیا جاتا رہا وہ ۸۰۹۱ء میں شائع ہوا اور تاریخی اعتبار سے اردو کے طبع زاد افسانوں میں اس کا نمبر گیارہواں ہے۔“ اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ راشد الخیری اردو کے اولین افسانہ نگار ہیں۔ افسانہ نگاری سے پہلے وہ بطور ناول نگار اردو میں اپنی شناخت قائم کرچکے تھے۔ راشد الخیری کے افسانے کے مطالعے سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک نوع کے مقصدی اور اصلاحی لہر کے حامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ راشد الخیری کی شخصیت اور کارنامے میں مقصدیت کو اولیت حاصل تھی اور وہ افسانے کے ذریعے بھی اصلاح معاشرہ کا کام لینا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان کے افسانے میں اصلاحی اسلوب حاوی نظر آتا ہے۔انھوں نے اردو افسانے میں متوسط طبقے کے مسائل، عورتوں کی تعلیم و تربیت اور حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے کے رجحان کو جلا بخشی۔