Articles

نجیب محفوظ کی ادبی زندگی اورنوبل پرائز

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

نجیب محفوظ 11 /دسمبر1911 سے 30/ اگست2006
نجیب محفوظ ایک مصری مصنّف ہیں جنھیں 1988 میں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔توقیق الحکیم کے ساتھ ساتھ نجیب محفوظ ایک ایسے عربی مصنف ہیں جنھوں نے وجود کے نظریے پر بات کی ہے۔نجیب محفوظ نے اپنے 80 سالہ کرئیر میں 5ڈرامے،بےشمار فلمی اسکرپٹ، 350 سے زائد کہانیاں اور 34 ناول شائع کئے ہیں ۔ مصری اور بیرونی فلموں میں نجیب محفوظ کی تحریروں کا سہارا لیا گیا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمEarly life and education
نجیب محفوظ کی پیدائش قاہرہ کے ایک نچلے متوسط طبقے میں ہوئی۔وہ پانچ بھائیوں اور دو بہنوں کے خاندان میں ساتویں نمبر پر تھے۔یہ خاندان دو مشہور شہروں میں رہا۔ پہلے الغمالیہ، اسکے بعد 1942 میں یہ عباسیہ منتقل ہوگیا۔اور آخر کار قاہرہ کے نئے مضافات میں سکونت اختیار کرلی۔یہیں نجیب محفوظ نے اپنی بیشتر تخلیقات مکمل کیں۔اپنے والد کی طرح نجیب محفوظ نے بھی سرکاری ملازمت اختیار کی۔وہ حافظ نجیب، طحہ حسین اور سلامہ موسیٰ سے کافی متاثر تھے۔1919 کے انقلابِ مصر نے نجیب محفوظ پر گہرا اثر ڈالا۔سکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد نجیب محفوظ کو کنگ فہد یونیورسٹی میں داخل کردیا گیا۔جسے آج قاہرہ یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔یہاں انھوں نے 1934 میں فلسفے سے گریجویشن پھر 1936 میں پوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔اُس کے بعد انھوں نے ایک پیشہ ور مصنف بننے کا ارادہ کرلیا۔بطور جرنلسٹ نجیب نے الہلال اور الحرم نامی رسالے میں کام کیا۔ The Satanic Verses کے شائع ہوتے ہی نجیب کے ناول Children of Gebelawi کا تنازعہ دوبارہ زندہ ہوگیا۔ اور محفوظ کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔1994 میں اسلامی بنیاد پرست ایک 82 سالہ مصنف کو قاہرہ میں اُسی کے گھر کے سامنے گردن پر چھرا مارنے میں کامیاب ہوگئے۔نجیب اس حملے میں بچ تو گئے لیکن اُن کے سیدھے ہاتھ کی رگیں مستقل طور پر متاثر ہوگئیں۔اس حادثے کے بعد محفوظ چند منٹ سے زیادہ لکھنے کے قابل نہ رہے۔اس طرح سے اُن کی تحریریں کم سے کم تر ہوتی گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اہرامِ مصر کے سائے میں جس طرح ہزاروں سال کی آسیب زدہ تاریخ کروٹیں لیتی ہے۔جس کے باطن کی بھول بھلیّوں میں سربستہ اسرار روز کسی نئی کہانی کے تہہ خانے کی سیڑھیوں سے کوئی اینٹ سرکا دیتے ہیں اور کوئی خوفزدہ کرنے والا شگون جاگ اٹھتا ہے۔ مصر میں ایک اُس سے بھی عظیم تر بُرے شگون کا ایک دائرہ ہے جس نے نجیب محفوظ جیسا عظیم قلمکار تاریخ کے سپرد کردیا۔ قاہرہ کے حالا برج کا وہ سبز لان جہاں قاہرہ کے کچھ اہلِ قلم نوجوان سال ہا سال تک گھاس پر ایک دائرے کی صورت میں بیٹھتے تھے اُس بیٹھک کا نام انہوں نے بُرے شگون کا دائرہ رکھا تھا۔اہلِ مصر نجیب محفوظ کو اُسی برے شگون کے دائرے کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔
نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز سلامہ موسیٰ کے میگزین “المجلہ الجدید “سے کیا۔ اِ س میں اُن کی پہلی تحریر شائع ہوئی ، یہ اُن کے مزاج میں ترقی پسندی کے رجحان کاپہلا اعلان تھا۔اگرچہ کہ 1939میں اُن کی شائع ہونے والی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں ہیں۔مگر وہاں ترقی پسندی کے جراثیم کسی خوردبین کے بغیر بھی نظر آتے ہیں۔ 1945میں جب اُن کا پہلا ناول خان الخلیلی شائع ہوا تب پوری عرب دنیا میں ایک ناول نگار کے طور پر اُن کی حیثیت تسلیم کرلی گئی۔مگر خود اپنے ملک مصر میں انہیں اُس وقت تسلیم کیا گیاجب 1957جب اُن کی ایپک قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار المیہ کہانیوں کی اشاعت ہوئی۔تین ہزار صفحات پر مشتمل اِس جنگ نامے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی عکّاسی کی گئی ہے۔ اس ایپک کے شائع ہوتے ہی انھیں نوجوان نسل کا بہت بڑا ناول نگار قرار دیدیا گیا۔یہ دراصل تین باہم مربوط ناول ہیں پہلے ناول کا نام Palace Walkمحل کی سیردوسرے ناول کا نام Palace of Desireخواہشات کا محل اور تیسرے ناول کا نام Sugar Streetچینی گلی ہے۔اُن کی تخلیقات کے انگریزی، فرانسیسی، روسی، جرمن اور اردو زبان میں تراجم ہو چکے ہیں۔حقیقی طور پر دنیا اُن کی طرف اُس وقت متوجہ ہوئی جب 1988میں انھیں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔
نجیب محفوظ کی تخلیقات کو مشرق و مغرب کے درمیان رابطے کا پل بھی کہاجاسکتا ہے۔اُن کی تخلیق کی اِسی خصوصیت نے انھیں نوبل انعام کا حق دار بنا دیا۔ پرل ایس بک کو بھی نوبل انعام اسی وجہ سے ملا تھا۔اُس کا بھی تما م تخلیقی کام مشرق و مغرب کے اتصال سے نمو پذیر ہوتا ہے۔وہ بھی دو تاریخوں کی مورخ تھی ، دو تہذیبوں کی کہانی کار تھیں۔دو ثقافتوں کو ساتھ لیکر چلتی تھیں، دو فکری دھارے اُس کی شخصیت میں ایک ہوجاتے تھے۔ بالکل اُسی طرح جیسے نجیب محفوظ کے یہاں آکر مابعد الطبیعیات اور سائنسی سماجیات آپس میں گھل مل گئی ہیں۔
ایک اہم ترین بات نجیب محفوظ کے حوالے سے یہ ہے اور جس سے کوئی لکھنے والا صرف نظر نہیں کرسکتاکہ جس کام پر انھیں نوبل پرائز دیا گیا وہ اُن کا تیس سال پرانا کام تھا۔کیا اہلِ مغرب کو نجیب محفوظ کو سمجھنے میں تیس سال لگ گئے تھے یا نوبل پرائز دینے والوں نے جو معیار مقرر کر رکھا تھا اُس پر پہنچتے پہنچتے نجیب محفوظ کو تیس سال لگ گئے تھے۔اُن کا ناول The Children of Gebelawiجبلاوی کی اولاد، مذہبی نقطہءنظر سے بہت متنازعہ ناول ہے۔اُس کے قسط وار شائع ہونے پر مذہبی حلقوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔کسی انتہا پسند نے انھیں قتل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔جامعہ الازہر نے 1959میں اُن کے ناول پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی کہ اُن میں پیغمبر اور خدا، کرداروں کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔نجیب محفوظ نے اِس کے جواب میں جو کالم لکھا تھا اُس میں دوسرے حوالوں کے ساتھ علامہ اقبال کے فارسی مجموعہ کلام جاوید نامہ کا حوالہ دیا تھاجس میں اقبال نے اپنی شاعری میں جنّت و دوزخ کی ڈرامائی تشکیل کی ہے۔
نجیب محفوظ بےشک بیسویں صدی میں عربی ادب کے افق پر سب سے بڑی شخصیت تھے۔ اُن کے کام میں جس بات نے انھیں سب سے زیادہ ممتاز رکھا وہ اپنی زمین کے ساتھ اُن کی وابستگی تھی۔ قاہرہ اُن کے رگ و پے میں خون بن کر ڈوڑتا تھا۔ انھوں نے قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی جس انداز میں عکّاسی کی ہے وہ کمال اُن ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔انہوں نے قاہرہ کی گلیوں میں جاگتی ہوئی زندگی کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھال کر یوں زندہ و جاوید کردیا ہے کہ وقت چاہے اُن گلیوں کو کھنڈرات میں ہی کیوں نہ بدل دے وہ آنکھوں کو آباد دکھائی دیتی رہیں گی۔وہ صاحبِ اسلوب نثر نگار تھے۔ اُن کا اسلوبِ نگارش اُن کی تحریر کی تہہ داری سے جنم لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔محفوظ کا نثر اُس کے خیال کی صاف صاف پیروی کرتا ہوا نظر آتاہے۔
Washington Post کا ماننا ہےکہ
“Throughout Naguib Mahfouz’s fiction there is a pervasive sense of metaphor, of a literary artist who is using his fiction to speak directly and unequivocally to the condition of his country. His work is imbued with love for Egypt and its people, but it is also utterly honest and unsentimental.”
محفوظ کا پورا فکشن ہمیں ایک ایسے ادبی فنکار کا دلوں میں سرایت کرجانے والا استعارہ نظر آتا ہے جو غیر مشکوک طریقے سے اپنے فکشن میں بلاواسطہ اپنے ملک کے حالات کی عکاسی کرتا ہو۔اُس کی تحریریں مصر اور اُس کے لوگوں کی محبّت سے بھری ہوئی ہیں۔لیکن یہ مکمل طور پر ایماندارانہ اور غیر جذباتی ہے۔”
نجیب محفوظ کے یہاں بےشمار موضوعات ہیں۔جن میں socialism, homosexuality اور خدا بھی شامل ہے۔ اِن میں سے کچھ موضوعات مصر میں ممنوع قرار دئیے گئے ہیں۔اپنی تخلیقات میں محفوظ نے بیسویں صدی میں مصر کی ترقی اور مشرق و مغرب کے ذہنی اور تہذیبی ارتباط کا ذکر کیا ہے۔جوانی کے دور ہی سے محفوظ، مغربی جاسوسی کہانیوں، روسی داستانوںاور جدید مصنفین سے متاثر تھے۔ Kafka، James Joyceکا شمار انہی مصنفین میں ہوتا ہے۔محفوظ کی کہانیوں کا محلِ وقوع مصر کے شہری کوارٹر ہوتے ہیں جہاںعام انسان اُس کے کردار ہیں جو جدیت سے مقابلہ آرائی اور مغربی لالچ کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
Newsweekکا کہنا ہے کہ
“The alleys, the houses, the palaces and mosques and the people who live among them are evoked as vividly in Mahfouz’s work as the streets of London were conjured by Dickens.”
“گلیاں، گھر، محلّات، مساجداور اُن میں رہنے بسنے والے لوگ محفوظ کی تخلیقات میں اُسی طرح روشن نظر آتے ہیں جس طرح Dickensکی تحریروں میں لندن کی گلیوں میں لوگ نظر آتے ہیں۔”
۰۶ اور ۰۷ کی دہائی میں محفوظ نے آزادانہ طور پر ناول لکھنا شروع کیا۔ Miramar (1967)میں لکھے گئے ناول میں ایک سے زائد راویوں multiple first-person narration.کا تجربہ کیا۔ یہاں چار راوی الگ الگ طرز پر سیاسی خیالات بیان کرتے ہیں۔کہانی کے وسط میں ایک خوبصورت لڑکی کو بطور نوکرانی رکھا گیا ہے۔ محفوظ کی زیادہ تر تخلیقات کا تعلق سیاست سے ہے۔انھیں خود اِس بات کا اقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
“تمھیں میری تمام تحریروں میں سیاست ملےگی۔ تمھیں ایسی کہانی تو مل سکتی ہے جو محبّت یا کسی اور موضوع کو نظر انداز کردے مگر سیاست کو نہیں۔ یہ ہماری سوچ کا بنیادی محور ہے”
اپنی بےشمار تخلیقات میں محفوظ نے مصری قومیت کی زوردار حمایت کی ہے اور عالمی جنگوں کے بعد کے دور پر ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔ جوانی کے دور میں وہ سماجی اور جمہوری رجحانات سے بھی کافی متاثر تھے۔Khana Al-Khalili اور اُس کے بعد کی کچھ تخلیقات میں ہمیں اُن کے سماجی رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔جمہوریت اور شوشلزم کی تعریف اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ اخوان المسلمین کے ذریعے پھیلائی گئی مذہبی شدت پسندی سے نفرت کرتے تھے۔اپنی تحریروں میں انھوں نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔اور پہلے دو ناول میں شوشلزم کے فوائد اور مذہبی شدت پسندی کے نقصانات بتانے کی کوشش کی ہے ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں نے جو کام کیا اُسے کلیات کے طور پر پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ مگر یہ اُن کا آدھا کام بھی نہیں ہے۔انھوں نے نے اپنے ۰۷ سالہ کرئیر میں ۵ ڈرامے،بےشمار فلمی اسکرپٹ، ۰۵۳ سے زائد کہانیاں اور ۴۳ ناول شائع کئے ہیں ۔
نوبل پرائز
نوبل پرائز سویڈن کے نامور سائنسداں الفریڈ نوبل سے منسوب ہے جن کے دم سے آج دنیا ڈائنامائٹ جیسی نعمت سے لطف اندوز ہو رہی ہے ۔ نوبل پرائز خواہ امن کے لئے ہو یا ادب کے لئے بارود سے اِس کا گہرا رشتہ ہے۔
محفوظ کو ۸۸۹۱ میں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔وہ اکیلے ایسے عرب مصنف ہیں جنھیں اِس اعزاز سے سرفراز کیا گیاانعام حاصل کرنے کے فوراً بعد محفوظ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ
“The Nobel Prize has given me, for the first time in my life, the feeling that my literature could be appreciated on an international level. The Arab world also won the Nobel with me. I believe that international doors have opened, and that from now on, literate people will consider Arab literature also. We deserve that recognition.”
“نوبل انعام مجھے دےدیا گیا میری زندگی میں پہلی مرتبہ ادب کے تعلق سے میرے جذبات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ۔میرے ساتھ ساتھ عرب دنیا نے بھی نوبل انعام حاصل کرلیا۔میرا یقین ہے کہ بین الاقوامی دروازے کھل چکے ہیں اور اب تعلیم یافتہ لوگ ادبِ عرب پر بھی غور کریں گے۔ہم اِس شناخت کی اہلیت رکھتے تھے”
نجیب محفوظ کو نوبل انعام سے سرفراز تو کردیا گیا لیکن یہ انعام اپنے پیچھے بےشمار سوالات چھوڑ گیا۔مثلاً نوبل پرائز کا اسلام فوبیا سے کیا تعلق ہے۔اور مسلم ممالک میں جن شخصیات کو ابتک اس باوقار انعام سے سرفراز کیا گیا اُن کی مشترکہ خصوصیات کیا تھیں۔ انور سادات، نجیب محفوظ، یاسرعرفات، ڈاکٹر احمد زویل،ڈاکٹر محمد البرادعی، وی۔ایس۔نائپول اور اورھان باموک کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا جن کی بودوباش مسلم ممالک میں تھی۔ لیکن یہ تمام صاحبِ اعزاز مسلم مخالف رویے کے لیے کافی مشہور ہیں۔انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رو سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیا۔یاسر عرفات اوسلو پیکٹ کے سبب بدنام ہوئے جسے عام فلسطینی فلسطین کی فروخت مانتے ہیں۔ڈاکٹر احمد زویل کی پیدائش مصر میں ضرور ہوئی لیکن اِن کی مکمل خدمات امریکہ کے لئے وقف تھیں آپ نے نہ کبھی مصر اور نہ ہی کسی دوسرے اسلامی ملک کے لئے کوئی خدمت انجام دی۔کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اسرائیل کی میزائل ٹکنالوجی میں بھی آپ نے مدد کی۔مصر ہی کے ڈاکٹر محمد البرادعی IAEA کے دو مرتبہ ڈائرکٹر رہے ، عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں اِس ادارے کی ابتدائی رپورٹس نے اہم ترین کردار ادا کیا۔وی ایس نائپول اسلام کو استعمار سے بھی بدتر کہتا ۔اس کے نزدیک اسلام فرد کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے۔نائپول کے ناولوں کا مستقل موضوع اسلام اور مسلم شخصیات پر کیچڑ اچھالنا ہے اُس کی نظر میں بابری مسجد کا سانحہ درست ہے۔اورہان باموک ترکی میں پیدا ہوئے لیکن وہیں کی حکومت پر بےشمار ناجائز الزامات عائد کئے۔
جہاں تک نجیب محفوظ کا تعلق ہے وہ اپنے استاد سلامہ موسیٰ کے افکار سے حد درجہ متاثر تھے اور سلامہ موسیٰ کی عربوں سے نفرت چھپی ہوئی نہیں ہے۔ سلامہ موسیٰ مغرب سے نسبت جوڑنے میں اور مصر میں مغربی تہذیب کا بیج بونے میں سب سے نمایاں نام ہے۔نجیب محفوظ اُس سے بھی ایک قدم آگے مصر کا رشتہ عربوں اور اسلام سے توڑتے ہوئے فرعونی تہذیب سے جوڑنے میں سب سے بڑا نام ہے۔جس وقت نجیب محفوظ کو ادب کے نوبل پرائز کے لئے منتخب کیا گیا تھا اُس وقت فرعونی تہذیب کے احیا میں سب سے اونچی آواز نجیب محفوظ کی ہوا کرتی تھی۔نوبل پرائز کے انتخاب تک نجیب محفوظ کا تخلیقی کام مصر اور عربی اخلاقیات کی قدروقیمت گھٹانے تک محدود تھا ۔ وہ اِس بات کے داعی تھے کہ انسان پر اخلاقی پابندیاں نہیں ہونی چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ
اِنّہُ لیس من مصلحة الانسان اَن یعیش فی قفص من الواجبات الاخلاقیة
یہ بات انسان کی بھلائی میں نہیںکہ وہ اخلاقی اقدار کی بہت سی پابندیوں کے قید خانے میں دب کر زندگی گذارے۔
مسئلہءفلسطین کے لئے نجیب کے پاس کوئی حل نہیں ہے بلکہ کہ اُن کی رائے سے فلسطین کے کاز کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے وہ خود کہتے ہیں کہ میں انور سادات سے پہلے ہی کیمپ ڈیوڈ طرز کے کسی معاہدے کا خواہش مند تھا۔مصر اسرائیل معاہدہ طئے پانے میں نجیب کے بیانات کافی اہمیت رکھتے ہیں۔نجیب محفوظ کا ناول اولاد ِحارتنا جس پر انہیں نوبل پرائز دیا گیا بذاتِ خود سیکڑوں تنازعات کا شکار ہے۔نجیب محفوظ کے پورے کام میں یہودیوں پر کہیں کوئی تنقید نہیں ملتی ، جہاں تک اُن کی تعریف کا تعلق ہے تو وہ واضح طور پر خان الخلیلی، زقاق المدق جیسے ناولوں میں موجود ہے۔
یقیناً نجیب محفوظ ایک بڑے فنکار، زبردست نثر نگار اور بے پناہ صلاحیتوں کے حامل موّرخ بھی ہیں لیکن اِن حالات میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قابلیت کے ساتھ ساتھ نوبل پرائز کا دوسرا معیار کیا ہے۔


تدوین و تہذیب: ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر, نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

رابطہ:

[email protected]

09987173997