Goodby Mom A short Story by Albert Camus

Articles

الوداع ماں

البیئر کامو

ماں کا آج انتقال ہوگیا یا شاید کل ہواہو،کہہ نہیں سکتا۔اولڈایج ہوم سے ٹیلی گرام آیا اس میں لکھا تھا ،”آپ کی والدہ چل بسیں،آخری رسومات کل ادا کی جائیں گی۔اس دکھ کی گھڑی میں آپ سے گہری ہمدردی ہے۔“اس سے کچھ پتہ نہیں چلتا ،ہوسکتا ہے یہ کل ہواہو۔
اولڈ ایج ہوم مورنگو میں ہے۔الجیئرس سے تقریباً پچاس میل دور،دو بجے کی بس سے میں رات سے قبل پہنچ جاﺅں گا،پھر رات وہاں گزارسکتاہوں۔تابوت کے پاس رَت جگے کی رسم کے لیےپھر کل شام تک واپس،میں نے اپنے مالک سے دو دن کی چھٹی کی بات کرلی ہے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ منع نہیں کرسکتاتھا۔پھر بھی مجھے محسوس ہوا کہ وہ غصے میں ہے۔میں نے بنا سوچے ہی کہہ دےا،”سوری سر،آپ جانتے ہیں،اس میں میرا قصورنہیں ہے۔“
مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ایسا کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔معافی مانگنے کی توکوئی وجہ ہی نہ تھی۔دراصل اسے مجھ سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیے تھا،پرسوں جب میں سیاہ لباس میں دفتر جاﺅں گا تو شاید وہ ایسا کرے گا۔ابھی تک تو خود مجھے ہی نہیں لگ رہا ہے کہ ماں واقعی نہیں رہی۔شاید آخری رسومات کے بعد یقین ہوجائے گا۔
میں نے دو بجے کی بس پکڑی ۔چلچلاتی دوپہرتھی۔ہمیشہ کی طرح میں سیلسئے کے ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے اترا۔سبھی محبت سے پیش آئے۔سیلسئے نے مجھ سے کہا،”ماں جیسی کوئی امانت نہیں۔“جب میں وہاں سے چلا تو وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے۔میں جلدبازی میں چل پڑاتھا، اس لیے مجھے اپنے دوست ایمبنوئل سے اس کی کالی ٹائی اور ماتم کے وقت باندھی جانے والی کالی پٹی مانگ کر لانی پڑی۔کچھ ماہ پہلے ہی اس کے چاچا چل بسے تھے۔
میں نے قریب قریب دوڑکر بس پکڑی۔اس بھاگ دوڑ ،چلچلاتی دھوپ اور گیسولین کی بدبو نے مجھے بیچین کردیا تھا۔راستہ بھر میں سوتا رہا۔جب اٹھا تو دیکھا میں ایک فوجی پر لڑھکا پڑا تھا۔ اس نے معلوم کرنا چاہا کہ کیا میں کسی لمبے سفر سے آرہا ہوں؟میں نے صرف گردن ہلائی، تاکہ بات چیت آگے نہ بڑھے۔میں باتیں کرنے کے موڈ میں قطعی نہیں تھا۔
گاﺅں سے اولڈ ایج ہوم میل بھر دور ہے،میں پیدل ہی چل پڑا۔وہاں پہنچتے ہی میں نے ماں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔مگر دربان نے پہلے وارڈن سے ملنے کےلیے کہا۔وہ مصروف تھے۔ مجھے کچھ دیر تک انتظارکرنا پڑا۔
اس دوران دربان میرے ساتھ گپ شپ کرتا رہا،پھر دفتر لے گیا،وارڈن چھوٹے قد ، بھورے بالوں والا آدمی تھا۔اپنی گیلی نیلی آنکھوں سے اس نے مجھے بڑی دیر تک دیکھا۔پھر ہاتھ ملایا اور میرا ہاتھ اتنی دیر تک پکڑے رکھا کہ میں اچھی خاصی الجھن محسوس کرنے لگا۔اس کے بعد ایک رجسٹر میں تحقیقات کی اور بولا،”مادام میئر سالٹ تین برس قبل اس ہوم میں آئی تھیں،ان کی اپنی کوئی آمدنی نہیں تھی اور وہ پوری طرح تم پر منحصر تھیں۔“
مجھے لگا وہ مجھے ملزم ٹھہرا رہا ہے۔اس لیے میں صفائی دینے لگا۔مگر اس نے میری بات کاٹ دی۔
”ارے بیٹے،صفائی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں نے ریکارڈ دیکھا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تم ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔انہیں پورے وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی اور تمہاری طرح کی نوکری میں نوجوانوں کو بہت زیادہ تنخواہ نہیں ملتی۔ دراصل وہ یہاں کافی خوش تھیں۔“
”ہاں سر، مجھے پورا یقین ہے۔“میں نے کہا۔
وہ پھر بتانے لگا،”جانتے ہو،یہاں ان کے کئی اچھے دوست بن گئے تھے۔ سبھی ان کی عمر کے ہیں۔ویسے بھی ہم عمر لوگوں کے ساتھ زندگی اچھی گزرتی ہے۔تم عمر میں چھوٹے ہو، اس لیے ان کے دوست تو نہیں بن سکتے تھے۔“
یہ حقیقت تھی۔کیونکہ جب ہم ساتھ رہتے تھے تو ماں مجھے دیکھتی رہتی۔ مگر ہم شاید ہی کوئی بات چیت کرتے۔اولڈایج ہوم کے ابتدائی دنوں میں وہ خوب رویا کرتی تھی۔مگر یہ حالت کچھ دنوں تک ہی رہی۔اس کے بعد یہاں اس کا دل لگ گیا۔ایک آدھ مہینے بعد تو اگر اسے اولڈایج ہوم چھوڑنے کے لیے کہا جاتا تو وہ یقینا رونے لگتی،کیونکہ یہاں سے بچھڑنے کاا سے دکھ ہوتا۔ اس لیے پچھلے سال میں شاید ہی اس سے کبھی ملنے آیا۔ملنے آنا یعنی پورا اتوار کھپادینا۔بس سے سفر کرنا،ٹکٹ کٹوانا اور آنے جانے میں دو دو گھنٹے گنوانے کی تکلیف سو الگ۔
وارڈن بولتا ہی چلاگیاپھر اس کے پیچھے چل دیا،جب ہم سیڑھیوں سے اترنے لگے تو اس نے کہا،”میں نے ان کے جسد خاکی کو یہاں کے چھوٹے مردہ خانے میں رکھوادیا ہے۔ تاکہ دوسرے بوڑھے لوگ دُکھی نہ ہوں،تم سمجھ سکتے ہونا؟یہاں جب بھی کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو دو چار دنوں تک یہ سبھی غمزدہ و بے چین رہتے ہیں۔ظاہر ہے اس سے ہمارے اسٹاف کاکام بے حد بڑھ جاتاہے، اور دیگر پریشانیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔“
ہم نے برآمدہ پارکیا،جہاں کئی بوڑھے چھوٹے چھوٹے گروپ میں کھڑے ہوکر باتیں کررہے تھے۔ہم ان کے قریب پہنچے تو وہ خاموش ہوگئے۔جوں ہی ہم آگے بڑھے ان کی باتیں شروع ہوگئیں۔ان کی سرگوشیاں سن کر اچانک مجھے پنجرے میں بند طوطوں کی یاد آگئی۔ ان کی آوازیں ضرور اتنی تیکھی اور اونچی نہیں تھیں۔ایک چھوٹی،کم اونچی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر پہنچ کر وارڈن رک گیا۔
”جناب میئر سالٹ،یہاں میں تم سے اجازت لیتاہوں۔اگر کوئی کام ہو تو میں اپنے دفتر میں ملوں گا۔کل صبح ماں کی آخری رسومات اداکرنا ہے۔اس سے تم اپنی ماں کے تابوت کے پاس رات گزار سکو گے اوریقینا تم ایسا کر نا چاہوگے۔ایک آخری بات ،تمہاری ماں کے ایک دوست سے مجھے پتہ چلا کہ ان کی خواہش تھی کہ انہیں چرچ کے رسم و رواج کے مطابق دفنایا جائے۔ یوں تو میں نے سارے انتظامات کرلیے ہیں،پھر بھی تمہیں بتانا مناسب سمجھا۔“
میں نے وارڈن کا شکریہ ادا کیا،جہاں تک میں ماں کوجانتا تھا،حالانکہ وہ لامذہبی خیالات کی نہیں تھی۔مگر اس نے زندگی میں مذہب وغیرہ کو کبھی ترجیح نہیں دی تھی۔
میں مردہ خانے میں داخل ہوا،یہ پُتی ہوئی دیواروں اور کھلے روشن دان والا صاف ستھرا چمکدارکمرہ تھا۔فرنیچر کے نام پر یہاں کچھ کریاں اور صوفے رکھے تھے۔کمرے کے درمیان میں دو اسٹولوں پر تابوت کو رکھ دیاگیاتھا۔تابوت کا ڈھکن بند تھا۔مگر اسکرو کو بغیر پورا کَسے ہی چھوڑدیا گیاتھا۔ جس سے وہ لکڑی پر ابھرے ہوئے تھے۔
ایک عربی خاتون جو شاید نرس تھی،تابوت کے قریب بیٹھی تھی۔ اس نے نیلا کرتا پہن رکھاتھااور ایک بھڑکیلا سا اسکارف سر پر باندھ رکھا تھا، اسی پل میرے پیچھے ہانپتا ہوا دربان آپہنچا۔ ظاہر تھا کہ وہ بھاگتا ہوا آیا تھا۔
”ہم نے ڈھکن لگادیاتھا۔مگر مجھے ہدایت دی گئی تھی کہ آپ کے آنے کے بعد میں اسے کھول دوں، جس سے آپ ان کا دیدارکرسکیں۔“یہ کہہ کر وہ تابوت کھولنے کے لیے آگے بڑھا لیکن میں نے اسے منع کردیا۔
”کیا آپ نہیں چاہتے کہ“
”نہیں۔“میں نے کہا۔
اس نے اسکرو ڈرائیور جیب میں رکھا اور مجھے گھورنے لگا۔تب مجھے احساس ہوا کہ منع نہیں کرنا چاہیے تھا۔میں شرم محسوس کرنے لگاتھا،کچھ لمحات تک مجھے گھورنے کے بعداس نے پوچھا، ”کیوں نہیں؟“مگر اس کے لہجے میں حیرت نہیں تھی۔وہ بس یوں ہی جاننا چاہتا تھا۔
”دراصل میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔“میں نے کہا۔
وہ اپنی سفید مونچھوں کو ایٹھنے لگا،پھر میری جانب دیکھے بنا آہستگی سے بول اٹھا،”میں سمجھ سکتا ہوں۔“
وہ نیلی آنکھوں والا بھلا سا ہنس مکھ آدمی تھا،اس نے تابو ت کے نزدیک میرے لیے ایک کرسی سرکائی اور میرے قریب ہی پیچھے بیٹھ گیا۔نرس اٹھی اور دروزے کی جانب چل دی۔ جب وہ جانے لگی تو دربان میرے کان میں بُدبُدایا،”بے چاری کو ٹیومر ہے!“
میں نے اسے غور سے دیکھا،تب پتہ چلا کہ آنکھوں کے ٹھیک نیچے سر پر پٹی بندھی تھی، جس سے اس کا تھوڑا سا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔
اس کے جاتے ہی دربان بھی کھڑا ہوگیا،”اب میں آپ کو اکیلاچھوڑدیتا ہوں۔“
میں نہیں جانتا کہ میں نے کوئی حرکت کی یا نہیں،مگر جانے کے بجائے وہ کرسی کے پیچھے ہی کھڑارہا۔پیٹھ پیچھے کسی کی موجودگی سے میں بڑی بے چینی محسوس کررہا تھا۔سورج ڈھلنے لگاتھا اور کمرہ خوشنما روشنی سے بھراٹھاتھا۔نیند سے میری آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔دیکھے بغیر میں نے دربان سے یوں ہی پوچھاکہ وہ کتنے برسوں سے یہاں کام کررہا ہے۔
”پانچ برسوں سے۔“اس نے فوراً جواب دیا،جیسے وہ سوال کا ہی منتظر تھا۔
بس پھر وہ شروع ہوگیا اور باتیں کرنے لگا،دس برس پہلے اگر کسی نے اس سے کہاہوتا کہ وہ اپنی زندگی مورےگو کے اولڈ ایج ہوم میں گزارے گا تو اسے یقین نہ ہوتا۔وہ چونسٹھ سال کا تھا اور پیرس کا رہنے والا تھا۔
”اوہ!تو تم یہاں کے نہیں ہو؟“میں نے یوں ہی کہہ دیا۔
تب مجھے یاد آیا کہ وارڈن کے پاس جانے سے پہلے اس نے ماں کے بارے میں کچھ کہا تھا کہ انہیں دفنانے کی رسم جلد سے جلد پوری کرنی ہوگی،کیونکہ اس حصے میں خاص طور پر میدانی علاقے میں اچھی خاصی گرمی رہتی ہے۔
”پیرس میں جسد خاکی کو تین دن ،کبھی کبھار چاردن بھی رکھا جاتا ہے۔“
اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ایک طویل عرصہ پیرس میں گزاراہے اور وہ دن اس کے زندگی کے بہترین دن تھے۔ جنہیں وہ کبھی بھلا نہیں سکتا،یہاں سب کچھ جلدی سے نبٹایا جاتاہے۔
”آپ اپنے عزیز کی موت کو پوری طرح قبول بھی نہیں کرپاتے کہ آخری رسومات کی جانب آپ کو بڑھادیا جاتا ہے۔“
اسی پل اس کی بیوی نے اسے ٹوکا ،”بس بھی کرو۔“
وہ بوڑھا گھبراکر معافی مانگنے لگا۔دراصل وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، وہ مجھے اچھا لگ رہا تھا،میں نے پہلے ان باتوں پر غور نہیں کیاتھا۔
پھر وہ بتانے لگا کہ کیسے ایک عام انسان کی طرح وہ بھی اولڈ ایج ہوم آیا تھا۔ تب وہ کافی صحت مند تھااور تندرست بھی۔اس لیے جب دربان کی جگہ خالی ہوئی تو اس نے یہ نوکری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
جب میں نے اس سے کہا کہ اوروں کی طرح وہ بھی یہاں کا ایک ’باسی‘ہے تو اسے یہ با ت ناگوار لگی۔وہ ایک خاص عہدے پر تھا۔میرے دھیان میں آیا کہ وہ لگاتار انہیں’وہ اور بوڑھے لوگ‘ کہہ کر مخاطب کررہا تھا،حالانکہ وہ خود ان سے کم بوڑھا نہ تھا۔پھر بھی اس کی بات میں دم تھا۔ایک دربان کے روپ میں اس کی حیثیت تھی،دوسروں سے اوپر اس کے حقوق تھے۔
اسی وقت نرس لوٹ آئی۔رات بہت جلد اتر آئی تھی۔اچانک محسوس ہوا جیسے آسمان پر اندھیرا چھاگیا ہے۔دربان نے بتیاں روشن کردیں۔ روشنی سے آنکھیں چکاچوند ہوگئیں۔
اس نے مشورہ دیا کہ مجھے باورچی خانہ جاکر کھانا کھالینا چاہیے۔مگر مجھے بھوک نہیں تھی۔ اس نے کافی پینے کی پیش کش کی ۔چونکہ مجھے کافی پسند تھی،میں نے شکریہ کہہ کر حامی بھری اور چند ہی منٹوں میں وہ ٹرے لے کر آیا۔میں نے کافی پی،پھر مجھے سگریٹ کی طلب ستانے لگی۔
لیکن کیا ان حالات میں سگریٹ پینامناسب ہوگا؟ماں کے تابوت کے پاس؟دراصل اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا،یہ سوچ کر میں نے دربان کی طرف بھی ایک سگریٹ بڑھائی اور ہم دونوں سگریٹ پینے لگے۔اس نے پھر باتیں شروع کردیں۔
”جانتے ہو،جلد ہی تمہاری ماں کے دوست آئیں گے، تمہارے ساتھ تابوت کے پاس رت جگا کرنے کے لیے۔جب بھی کوئی مرجاتا ہے تو ہم سبھی اسی طرح رت جگا کرتے ہیں۔میں جاکر کچھ کرسیاں اور کالی کافی کا جگ بھرکر لے آﺅں۔“
سفید دیواروں کی وجہ سے تیز روشنی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی میں نے دربان سے ایک دو بتیاں بجھانے کے لیے کہا،”ایسا کچھ نہیں کرسکتے،انھیں ایسا لگایا گیا ہے کہ سبھی ایک ساتھ جلتی ہیں اور ایک ساتھ بجھتی ہیں۔“اس کے بعدمیں نے روشنی کی طرف دھیان دینا چھوڑدیا۔ وہ باہرجاکر کرسیاں لے آیا اور تابوت کے چاروں اور لگادیں۔ایک پر اُس نے کافی کا جگ اور دس بارہ پیالے رکھ دیئے۔ پھر ٹھیک میرے سامنے تابوت کی دوسری جانب بیٹھ گیا۔
نرس کمرے کے دوسرے سرے پر تھی۔میری جانب اس کی پیٹھ تھی،میں نہیں جانتا،وہ کیا کررہی تھی،مگر اس کے ہاتھ ہل رہے تھے اس سے میں نے اندازہ لگاےیا کہ وہ کچھ بُن رہی تھی۔میں اب مطمئن تھا،کافی نے میرے اندر تازگی بھر دی تھی کھلے دروزے سے پھولوں کی خوشبو اور ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا۔
کانوں میں عجیب سی سرسراہٹ سے میں جاگ اٹھا۔کچھ دیر تک آنکھیں بند تھیں۔اس لیے روشنی پہلے سے بھی زیادہ تیز لگنے لگی۔کہیں بھی اوٹ نہیں تھی،اس لیے ہر ایک چیز پوری شدومد کے ساتھ واضح ہورہی تھی۔ماں کے بوڑھے دوست آگئے تھے۔میں نے ان کی گنتی کی،کل دس تھے۔ کوئی آہٹ کیے بنا میں نے کسی کو اس قدر قریب سے نہیں دیکھا تھا،ایک ایک عضو،ہاﺅ بھاﺅ،نین نقش، لباس وغیرہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھے۔پھر بھی میں انہیں سن نہیں پارہا تھا۔وہ واقعی موجود ہیں، اس بات کا یقین کرنا مشکل تھا۔
تقریباً سبھی خواتین نے ایپرن پہن رکھاتھا،جس کی ڈوری کمر پر کس کر بندھی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے پیٹ اور بھی باہر اُبھر آئے تھے۔میں نے اب تک غور نہیں کیا تھا کہ اکثر بوڑھی خواتین کے پیٹ کافی بڑے ہوتے ہیں۔اس کے بر خلاف سبھی بوڑھے دُبلے پتلے تھے اور چھڑی لیے ہوئے تھے۔
ان کے چہروں کی جس بات نے سب سے زیادہ متوجہ کیا،وہ ان کی آنکھیں تھیں، جو بالکل ندارد تھیں، جھریوں کے درمیان بس ہلکی سی،دھندلی سی چمک بھر تھیں۔
بیٹھتے وقت سبھی نے مجھے دیکھا اورعجیب ڈھنگ سے سرہلایا۔ان کے ہونٹ دانتوں کے بغیر مسوڑھوں کے بیچ چُسکی کی حالت میں بھینچے ہوئے تھے۔میں طے نہیں کرپارہا تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی جتارہے ہیں یا کچھ کہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ ان کے بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔بعد میں میں نے مان لیا کہ شاید کسی رواج کے مطابق وہ میرا خیر مقدم کررہے ہیں۔دربان کے اِردگرد بیٹھے سبھی بوڑھوں کو پر تجسس نگاہوں سے مجھے دیکھنا اور سرہلانا واقعی عجیب لگ رہا تھا۔پل بھر میں مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے کٹ گھر ے میں کھڑاکرنے آئے ہوں۔
کچھ دےیر بعد ایک عورت رونے لگی۔وہ دوسری قطار میں تھی اور اس کے آگے ایک عورت بیٹھی تھی،اس لیے میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پارہا تھا۔تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کا گلا رُندھ جاتا اور لگتا کہ وہ کبھی رونابند نہیں کرے گی۔کوئی اور اس پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔سبھی خاموش بیٹھے تھے۔ اپنی اپنی کرسیوں میں دھنسے وہ کبھی تابوت کو تو کبھی اپنی گھڑی یا کسی دوسری چیز کو گھورنے لگتے اورپھر ان کی نظریں وہیں جم جاتیں۔
وہ عورت اب بھی سسکیاں بھررہی تھی۔مجھے واقعی حیرت ہورہی تھی،کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھی؟میں چاہتا تھا کہ وہ رونا بند کردے،مگر اس سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔کچھ دیر بعد دربان اس کی جانب جھکا اور کان میں کچھ سرگوشی کی ۔اس نے محض سرہلایا۔ دھیمے سے کچھ کہا،جو میں سن نہ سکا اور پھر وہ اسی طرح رونے لگی۔
دربان اٹھا اور میرے پاس کرسی سرکاکر بیٹھ گیا،کچھ دیر خاموش رہا،پھر میری جانب دیکھے بغیر سمجھانے لگا،”وہ تمہاری ماں سے بےحد قریب تھی،وہ کہتی ہے،اس دنیا میں ماں کے سوا اس کا کوئی نہیں ،وہ اب اکیلی رہ گئی ہے۔“
میں بھلا کیا کہتا۔کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔اس خاتون کی سسکیاں اب کچھ کم ہونے لگیں۔پھر ناک صاف کرنے کے بعد کچھ دیر وہ ہچکیاں لیتی رہی،پھر خاموش ہوگئی۔
حالانکہ میری نیند اڑچکی تھی،مگر میں بے حد تھکان محسوس کررہاتھا۔پیر بری طرح کھینچے جارہے تھے۔ماحول میں ایک عجیب سی آواز تھی،جو کبھی کبھارسنائی دے جاتی،میں پہلے تو کافی الجھن محسوس کررہا تھامگر غور سے سننے کے بعد سمجھ گیا کہ ماجرا کیا ہے؟دراصل بوڑھے اپنے گالوں کے اندر چسکی لے رہے تھے،جس سے سُڑ سُڑ کی عجیب سی آواز پیدا ہورہی تھی۔وہ اپنے خیالوں میں اس قدر مگن تھے کہ انھیں کسی بات کا ہوش نہیں تھا۔یکبارگی مجھے لگا کہ ان کے بیچ رکھی یہ بے جان لاش کوئی معنی نہیں رکھتی مگر یہاں میں شاید غلط تھا۔
ہم سبھی نے کافی پی جو دربان لایا تھا۔اس کے بعد مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں۔رات کسی طرح کٹ گئی۔مجھے بس وہ ایک پل یاد ہے،جب اچانک میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا ایک بوڑھے کو چھوڑکر سبھی اپنی اپنی کرسیوں پر جھکے اونگھ رہے تھے۔اپنی چھڑی پر دونوں ہاتھ باندھے،تھوڑی ٹکائے وہ بوڑھا مجھے دیکھ رہا تھا۔جیسے میرے جاگنے کا منتظر ہو۔میں پھر سوگیا۔تھوڑی دیر بعد دونوں پیروں میں بے انتہا درد کی وجہ سے میں جاگ پڑا۔
روشن دان سے صبح کی لالی چمکنے لگی تھی،پل بھر کے بعد ہی ایک بوڑھا جاگ کر کھانسنے لگا، وہ بڑے سے رومال میں تھوکتااور ہر بار اُبکائی جیسی آواز آتی۔آواز سن کروہ سب جاگ اٹھے تھے۔ دربان نے انہیں بتایا کہ چلنے کا وقت ہوگیاہے۔وہ ایک ساتھ کھڑے ہوئے۔اس طویل رات کے بعد ان کے چہرے مرجھاگئے تھے۔مجھے واقعی حیرت ہوئی۔جب ہر ایک نے مجھ سے ہاتھ ملایا، جیسے ساتھ گزاری ہوئی ایک رات سے ہی ہم نے آپس میں ایک رشتہ قائم کرلیا ہو۔حالانکہ ایک دوسرے سے ہم نے ایک لفظ نہیں بولاتھا۔
میں کافی بجھ سا گیا تھا۔دربان مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔میں نے خود کو ٹھیک ٹھاک کیا۔اس نے مجھے تھوڑی اور سفید کافی دی۔جس سے میں تازگی محسوس کرنے لگا۔جب میں باہر نکلا، سورج چڑھ چکا تھا اور مورےنگو اور سمندر کے درمیان پہاڑیوں کے اوپر آسمان سرخی مائل ہورہا تھا۔صبح کی خنک ہوا چل رہی تھی،جس میں خوشنما نمکین مہک تھی،جو ایک خوشگواری کا احساس دلارہی تھی۔ ایک طویل عرصے سے میں دیہات میں نہیں آیا تھا۔دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اگر ماں کا مسئلہ نہیں ہوتا تو کتنی بہترین تفریح ہوسکتی تھی۔
میں آنگن میں ایک پیڑ کے نیچے انتظار کرنے لگا۔مٹی کی مہک میرے اندر بھرنے لگی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اب مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔پھر میں دفتر کے دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا۔اس وقت وہ لوگ دفتر جانے کی تیاری کررہے ہوں گے۔دن کا یہ وقت مجھے سب سے بے کار لگتا۔تقریباً دس منٹ میں انہیں خیالوں میں گم رہا۔
اچانک عمارت کے اندر سے گھنٹی کی آواز آنے لگی اس کے سبب میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹا۔کھڑکیوں کے پیچھے کچھ ہلچل دکھائی دی۔پھر سب خاموش ۔سورج چڑھ آیا تھا۔تلوﺅں میں جلن محسوس ہورہی تھی۔دربان نے مجھے بتایا کہ وارڈن مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں ان کے دفتر گیا۔اس نے چند کاغذات پر دستخط کروائے۔وہ کالی پوشاک زیب تن کیے ہوئے تھا۔ریسیور اٹھاکر میری جانب دیکھنے لگا۔
”آخری رسومات کا انتظام کرنے والے کچھ دیر قبل یہاں آئے تھے۔وہ لوگ وہاں جاکر تابوت کے اِسکرو کس دیں گے۔کیا میں انہیں رُکنے کے لیے کہوں؟تاکہ تم اپنی ماں کا آخری دےدار کرسکو؟“
”نہیں۔“میں نے کہا۔
”اس نے دھیمی آواز سے ریسیورمیں کہا،”ٹھیک ہے،فیگی ایف،اپنے آدمیوں کو ابھی بھیج دو۔“
پھر اس نے بتایا وہ بھی ساتھ چل رہا ہے۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ڈیوٹی پر جو نرس ہے اس کے علاوہ صرف ہم دو ہی آخری رسومات میں شریک ہوں گے۔یہاں کا قاعدہ ہے کہ یہاں رہنے والے آخری رسوما ت میں شامل نہیں ہوسکتے۔حالانکہ رات میں تابوت کے پاس بیٹھنے سے کسی کو روکا نہیں جاتا۔
”ایسا ان کی بھلائی کے لیے ہی کیاجاتاہے۔“اس نے واضح کیا،”تاکہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو،مگر اس مرتبہ میں نے تمہاری ماں کے ایک پرانے دوست کو ساتھ آنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کا نام ہے تھامس پریز۔“وارڈن مسکرایا۔”اصل میں یہ ایک چھوٹی سی دل کو چھولےنے والی کہانی ہے۔تمہاری ماں اور اس کے درمیان بڑی اپنائیت تھی۔یہاں تک کہ سبھی بوڑھے پریز کو اکثر چھیڑا کرتے تھے کہ وہ اس کی منگیتر ہے،وہ اس سے اکثر پوچھتے کہ تم اس سے شادی کب کررہے ہو؟ وہ ہنس کر ٹال دیتا ،ظاہر ہے ماں کی موت کے بعد اسے بے حد تکلیف پہنچی ہے،اس لیے آخری رسومات میں شامل ہونے سے میں انکار نہ کرسکا۔حالانکہ ڈاکٹر کے مشورے پر اسے پچھلی رات تابوت کے پاس بیٹھنے سے روک دیاتھا۔“
کچھ دیر ہم یوں ہی خاموش بیٹھے رہے۔پھر وارڈن کھڑکی کے پاس جاکر کھڑاہوگیا، اچانک بولا،”ارے مورےنگوکے پادری وقت کے بڑے پابند ہیں۔“
انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ گاﺅں میں موجود گرجا گھر تک پیدل پہنچنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوگا۔ہم سیڑھیاں اترنے لگے۔قبرستان کے قریب ہی پادری انتظار کررہے تھے۔ان کے ساتھ دو لوگ تھے ایک کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھیں۔پادری جھک کر چاندی کی زنجیر کی لمبائی کو ٹھیک کررہے تھے۔ہمیں دیکھتے ہی وہ سیدھے کھڑے ہوگئے اور میرے ساتھ کچھ باتیں کی۔مجھے وہ بیٹا کہہ کر مخاطب کررہے تھے،پھر ہمیں وہ قبر کی اور لے جانے لگے۔
پل بھر میں میں نے دیکھا کہ تابوت کے پیچھے سیاہ لباس پہنے چار لوگ کھڑے تھے۔ اسی پل وارڈن نے بتایا کہ جنازہ پہنچ چکا ہے۔پادری نے عبادت شروع کردی۔سیاہ کپڑے کی پٹی پکڑے چار لوگ تابوت کے قریب پہنچے جبکہ پادری ،لڑکے اور میں قطار میں چلنے لگے۔ایک عورت جسے میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا دروازے پر کھڑی تھی۔وارڈن نے اس سے میرا تعارف کروایا۔ میں اس کانام تو سمجھ نہیں سکا مگر یہ جان گیا کہ وہ اولڈ ایج ہوم کی نرس ہے۔میرا تعارف سن کر اس نے سرکوجھکاکر میراخیر مقدم کیا،مگر اس کے لمبے دبلے پتلے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نہیں تھی۔ ہم ایک گلیارے سے ہوتے ہوئے صدر دروازے تک آئے۔جہاں تابوت کو رکھا گیا تھا۔مستطیل نما ،چمکیلے کالے رنگ کے تابوت کو دیکھ کر مجھے اچانک آفس میں رکھے کالے پین اسٹینڈ کی یاد آگئی۔
تابوت کے پاس انوکھی سج دھج کے ساتھ ایک چھوٹے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اس کا کام آخری رسومات کے وقت پورے انتظام کی دیکھ بھال کرنا ہے۔بالکل ماسٹر آف سیری منی کی طرح۔اس کے قریب خوفزدہ سا مسٹر پریز کھڑاتھا،ماں کا خاص دوست۔اس نے ہلکے رنگ کی چوڑے کنارے والی گول ٹوپی پہن رکھی تھی۔جب درواز ے سے تابوت لے جایا جانے لگاتو اس نے بڑی پھرتی سے ٹوپی کو اوپر اٹھایا۔پینٹ جوتوں سے کافی اوپر تھی اوراونچے کالر والی سفید شرٹ پر بندھی کالی ٹائی ضرورت سے زیادہ چھوٹی تھی۔اس کی موٹی چوڑی ناک کے نیچے ہونٹ لرزرہے تھے۔ مگر جس چیز نے مجھے  متوجہ کیا وہ تھے اس کے کان۔سرخی مائل،پنڈولم نما اس کے کان جو زرد سے رخساروں پر مہر بند کرنے کے لاکھ کے لال گولے  کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔جیسے ریشمی سفید بادلوں کے درمیان انھیں گاڑدیا گیا ہو۔
منتظم کے ذریعے ہر کام کے لیے رکھے ہوئے ایک نوکر نے ہمیں اپنی اپنی جگہوں پر کھڑاکیا۔تابوت کے آگے پادری ،تابوت کے دونوں طرف کالے کپڑے پہنے ہوئے چار آدمی۔ ان کے پیچھے وارڈن ،میں اور ہمارے پیچھے پریز اور نرس۔
آسمان پر سورج دہکنے لگاتھا۔ہوا میں تپش بڑھ گئی تھی۔پیٹھ پر آگ کے تھپیڑے محسوس ہونے لگے تھے۔اس پر گہرے رنگ کی پوشاک نے میری حالت بدتر کردی تھی۔ نہ جانے کیوں ہم اتنی دیر رکے ہوئے تھے؟ بوڑھے پریز نے ٹوپی دوبارہ اتارلی۔میں ترچھا ہوکر اسے دیکھ رہاتھا،تبھی دربان مجھے اس کے بارے میں مزید باتیں بتانے لگا۔مجھے یاد ہے دربان نے مجھے بتایا کہ بوڑھا پریزاور میری ماں شام میں اکثر دوردورتک سیر کرنے جایا کرتے تھے۔کبھی کبھی چلتے چلتے وہ گاﺅں کے قریب پہنچ جاتے۔مگر ہاں،ان کے ساتھ نرس بھی رہتی تھی۔
میں نے اس دیہاتی علاقے،دورافق اور پہاڑیوں کی ڈھلوان پر سرو کے درختوں کی طویل قطاروں،چمکیلے ہرے رنگ سے رنگی اس زمین اور سورج کی روشنی میں نہائے ایک اکیلے مکان پر بھرپور نظر ڈالی۔میں نے جان لیا،ماں کیا محسوس کرتی ہوگی؟اس علاقے میں شام کا وقت سچ مچ کس قدر اداس اور بے چین کردیتاہوگا۔صبح سورج کی اس چلچلاتی دھوپ میں،جب سب کچھ تپش کی شدت میں لپ لپارہا تھا،تو کہیں کچھ ایساتھا،جو اس فطری نظام کے بیچ میں بھی غیر انسانی اور مایوس کردینے والا تھا۔
آخر ہم نے چلنا شروع کردیا،تبھی میں نے دیکھا کہ پریز ہلکا سا لنگڑاکر چل رہاتھا۔ جوں جوں تابوت تیزی سے آگے بڑھنے لگتا،وہ بوڑھاپچھڑتاچلاگیا۔مجھے واقعی حیرت ہوئی کہ سورج کتنی تیزی سے آسمان پر چڑھتا جارہا ہے۔اسی پل مجھے سوجھا کہ کیڑے مکوڑے کی گونج اور گرم گھاس کی سرسراہٹ کافی دیر سے ہوا میں ایک دھمک پیداکررہی ہے۔میرے چہرے سے بے حساب پسینہ ٹپک رہا تھا۔میرے پاس ٹوپی نہیں تھی،اس لیے میں رومال سے ہی چہرے پر ہواکرنے لگا۔منتظم کے آدمی نے پلٹ کر کچھ کہا،جو میں سمجھ نہ سکا۔اسی وقت اس نے اپنے سر کے کراﺅن کوبھی رومال سے پونچھا، جو اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑرکھاتھا،اس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا۔
”آج بے حد گرمی ہے،ہے نا؟“
”ہاں۔“میں نے کہا۔
کچھ دیر بعداس نے پوچھا،”وہ آپ کی ماں ہیں،جنہیں ہم دفنانے جارہے ہیں؟کیا عمر تھی ان کی ؟“”وہ بالکل تندرست تھی۔“میں نے کہا،”دراصل میں خود بھی ان کی صحیح عمر کے بارے میں نہیں جانتاتھا۔“
اس کے بعد وہ خاموش ہوگیا،جب میں مڑا تو دیکھا کہ پریز تقریباً پچا س گز کے فاصلے پر لنگڑاتا چلاآرہا تھا۔تیز چلنے کی وجہ سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹوپی بری طرح سے ہل رہی تھی۔ میں نے وارڈن پر بھی ایک نظر ڈالی،وہ نپے تلے قدموں سے متوازن ہاﺅبھاﺅ کے ساتھ چل رہا تھا،ماتھے پر پسینے کی بوندیں تھیں،جو اس نے پونچھی نہیں تھیں۔مجھے لگاکہ جنازے کے ساتھ چلنے والے کچھ زیادہ ہی تیزچلنے لگے ہیں۔جہاں کہیں بھی نگاہ ڈالی،ہر طرف وہی سورج سے نہایا ہوا دیہاتی علاقہ دکھائی دیا۔سورج اس قدر چمکدار تھا کہ میں آنکھیں اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا تھا۔پاﺅں چلچلاتی گرمی میں ہر قدم کے ساتھ زمین پر دھنس جاتے اور پیچھے ایک چمکدار کالا نشان چھوڑدیتے۔آگے کوچوان کی چمکیلی کالی ٹوپی تابوت کے اوپر رکھے اسی طرح کے لیس دار مادے کے لوندے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔یہ ایک حیرت انگیز خواب کا احساس تھا۔اوپر نیلی سفید چکاچوند اور چاروں جانب یہ گہرا سیاہ پن،چمکدار کالا تابوت ،لوگوں کی کالی پوشاک او رسڑک پر سنہرے،کالے گڑھے اور دھوئیں کے ساتھ ماحول میں گھلی ملی گرم مکڑے اور گھوڑے کی لید کی بو؟ان سب کی وجہ سے،اور رات کو نہ سونے کی بنا پر میری آنکھیں اور خیال دھندلے پڑتے جارہے تھے۔
میں نے دوبارہ پیچھے مڑکر دیکھا،پریز بہت پیچھے رہ گیاتھا۔اس تپتی دھند میں تقریباً اوجھل ہی ہوگیاتھا۔کچھ پل اسی ادھیڑ بن میں رہنے کے بعد میں نے یوں ہی اندازہ لگایاکہ وہ سڑک چھوڑکر کھیتوں سے آرہا ہوگا۔تبھی میں نے دیکھا،آگے سڑک پر ایک موڑ تھا۔ظاہر ہے پریز نے،جو اس علاقے کو بخوبی جانتا تھا،ایک پگڈنڈی پر چل رہا تھا۔ہم جیسے ہی سڑک کے موڑ پر پہنچے،وہ ہمارے ساتھ شامل ہوگیا۔لیکن کچھ دیر بعد پھر پچھڑنے لگا۔اس نے پھر شارٹ کٹ لیا اور پھر ہم میں شامل ہوگیا۔دراصل اگلے آدھے گھنٹے تک ایسا کئی بار ہوا۔پھر جلد ہی اس میں میری جودلچسپی تھی وہ جاتی رہی۔میراسر پھٹاجارہا تھا۔میں بہ مشکل خود کو گھسیٹ رہا تھا۔
اس کے بعد بہت کچھ جلدبازی میں کیا گیا کہ مجھے کچھ یاد نہیں۔ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ جب ہم گاﺅں کی سرحد پر تھے تو نرس کچھ بولی تھی،اس کی آواز سے میں بری طرح چونک پڑاتھا۔ کیوں کہ اس کی آواز اس کے چہرے سے قطعی میل نہیں کھاتی تھی۔اس کی آواز میں موسیقی اور کپکپاہٹ تھی۔اس نے جو کچھ کہاتھا وہ کچھ اس طرح تھا،”اگر آپ اس قدر آہستہ آہستہ چلیں گے تو لو لگنے کا ڈر ہے، مگر تیز چلیں گے تو پسینہ آئے گااور چرچ کی سرد ہوا سے آپ کو زکام ہوجائے گا۔“اس کی بات میں دم تھا۔نقصان ہر طرح سے طے تھا۔تابوت کے ساتھ چلتے ہوئے کچھ یادیں میرے ذہن میں چسپاں ہوگئی ہیں۔مثلاً اس بوڑھے پریز کا چہرہ جو گاﺅں کی سرحد پر ہی آخری بار ہم سے آملا تھا،اس کی آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو جو تھکان کی وجہ سے تھے یا غم کے سبب،یا پھر دونوں کی وجہ سے۔مگر جھریوں کی وجہ سے نیچے ٹپک نہیں پارہے تھے۔آڑے ترچھے ہوکر کان تک پھیل گئے تھے اور اس بوڑھے ،تھکے چہرے کو ایک پیاری سی چمک سے بھردیاتھا۔
مجھے یاد ہے وہ گرجا گھر،سڑکوں سے گزرتے دیہاتی،قبروں پر کھلے لال رنگ کے پھول، پریز پر بے ہوشی کا دورہ،چیتھڑوں سے بنی کسی گڑیاکی مانند اس کا سکڑجانا۔ماں کے تابوت پر سنہری بھوری مٹی کا ٹپ ٹپ گرنا،لوگ بے شمار لوگ،آوازیں،کافی،رےستوراں کے باہر انتظار، ریل انجن کی گڑگڑاہٹ،روشنی سے نہائی الجیئرس کی سڑکیں اور ان پر قدم رکھتے ہی میرا خوشی سے بھرجانا اور پھر تخیل میں ہی سیدھے بستر پر جاکر نڈھال ہوجانا،لگاتار بارہ گھنٹے بے ہوشی کی نیند!
مجھے یہ سب یاد ہے !
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

البیئرکامو1913میں فرانس میں پیدا ہوئے اور1960میں انتقال فرمایا۔انہیں ”پلیگ“ ناول کے لیے 1957 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔کامو نے اپنی 47 برس کی مختصر زندگی میں نہ صرف اپنے ملک اور یورپ میں بلکہ عالمی ادب میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے مضامین،ناول،ڈرامے اور دیگر اصناف سے عالمی ادب میں اضافہ کیا۔ان کی تخلیقات میں کئی خوبیاں ہیں مگر سب سے اہم خوبی انسان کی تنہائی ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں موت،تکالیف،لامذہبیت اور ارتداد کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی تصانیف میں لاپسیٹ،لاشوٹ،لے جسٹس،لاہوم ریولئے وغیرہ اہم کتابیں شامل ہیں۔