“Death of A Dream” Short Story by Sigrid Undset

Articles

ایک خواب کی موت

سیگرواُنڈسیت


گرجا گھر کے دروازے پر ہاتھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں لے کر راہبائیں آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔خوف نے کرستین کے پورے ہوش و حواس کو اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔اسے لگا جیسے چلتے ہوئے وہ کچھ تو اپنے آپ کو ڈھورہی ہے اور کچھ دوسروں کے سہارے بڑھ رہی ہے۔دروازے سے گزر کر وہ سفید دیواروں والے کمرے میں داخل ہوگئے،جہاں موم بتیاں اور سرخ دیودار کی مشعل کی ملی جلی پیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور قدموں کی آہٹ سمند رکی لہر وں جیسی آوازیں پیداکررہی تھیں۔اس قریب المرگ عورت کو محسوس ہورہا تھا جیسے اس روشنی کی ہی طرح اس کی زندگی کی لو بھی بس اب بجھنے والی ہے اور ان قدموں کی آواز کے ساتھ ہی جیسے موت اس کے قریب آتی جارہی ہے۔
موم بتی کی روشنی پھر کھلے میں پھیل گئی تھی۔اب وہ برآمدے میں آگئے تھے۔چرچ کی بھورے پتھروں کی دیواروں اور اونچی اونچی کھڑکیوں سے اب موم بتی کی روشنی کھیلنے لگی تھی۔ اس وقت وہ کسی کی بانہوں کے سہارے تھی۔یہ سہارا ولفؔ ہی کا تھا۔مگر اس وقت تو وہ ان سبھی لوگوں جیسا دکھائی دے رہا تھا،جو اسے سہارا دیتے آئے ہیں۔ جب کرستین نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں حائل کردیں اور اپنا گال اس کی گردن سے لگالیا تو لگا جسیے وہ پھر سے بچی بن گئی ہے اور اپنے والد کے ساتھ ہے۔ساتھ ہی اسے ایسا بھی لگا،جیسے وہ کسی بچے کو اپنے سینے سے لگارہی ہے۔ اس کے کالے سر کے پیچھے سے لال روشنی دکھائی دے رہی تھی،ایسے لگ رہا تھا جیسے اک آگ کی لپٹ ہو جوہر طرح کے پیار کے لیے ضروری ہو۔
تھوڑی دیربعد اس نے آنکھیں کھولیں۔اب اس کے ذہن میں انتشار نہیں تھا۔اب وہ ایک کمرے میں اپنے بستر پر تکیے کے سہارے بیٹھی تھی۔ایک راہبہ کپڑے کی پٹی لیے اس پر جھکی ہوئی تھی۔اس میں سے سِرکے کی بو آرہی تھی۔وہ سِسٹر ایگنیس تھی۔کرستین نے اسے اس کی آنکھیں اور ماتھے کے لال مسّے سے پہچان لیا تھا۔دن اوپر چڑھ آیا تھا اور کھڑکی کے چھوٹے سے کانچ میں سے چھن کر پوری روشنی کمر ے میں آرہی تھی۔
وہ بھیانک درداب نہیں تھا،مگر وہ پسینے سے پوری طرح بھیگی ہوئی تھی۔سانس لیتے ہوئے اس کی چھاتی بہت زور سے آگے پیچھے ہورہی تھی۔جو دواسِسٹرایگنیس نے اس کے منہ ڈالی اس نے چپ چاپ نگل لی۔اس کا بدن بالکل ٹھنڈا تھا۔
کرستین نے اپنی پشت تکیے سے لگالی۔اب اسے یاد آیا کہ پچھلی رات کو کیاکیا وقوع پذیر ہوا تھا۔وہ مایاجال سے بھرا بُرا خواب بیت گیا ہے،لیکن وہ حیران بھی تھی۔پھر بھی یہ ٹھیک ہی ہوا کہ کام ہوگیا کہ اس نے بچے کو بچالیا اور ان بے چارے لوگوں کی روحوں کو اس نفرت انگیز کام سے دور ہی رکھا۔وہ سمجھتی تھی کہ اس کی وجہ سے اسے خوش ہونا چاہیے،کیوں کہ مرنے سے قبل اسے یہ اچھا کام کرنے کا موقع نہیں ملاتھا۔دن بھر کے کام کرنے کے بعد شام کو یورنؔ گارد کے گھر میں،اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے اسے جتنی طمانیت کا احساس ہوتاتھا،اس وقت اس سے زیادہ طمانیت کا احساس ہورہا تھا۔ اس کے لیے اسے ولفؔ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔جب وہ ولف کا نام لے رہی تھی تو شاید وہ دروازے کے پاس ہی کہیں بیٹھا تھا،کیوں کہ اسی وقت وہ اندر آیا اور بستر کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔کرستین نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھادیا۔اس نے ہاتھ اسی وقت اپنے ہاتھ میں لیااور مضبوطی سے تھام لیا۔
اچانک بستر مرگ پر پڑی کرستین بے چین ہوگئی اور اس کے ہاتھ اپنے گلے پر بندھی پٹی سے الجھ گئے۔
’’کیا ہوا کرستین؟‘‘ولف نے پوچھا۔
’’یہ کراس۔‘‘اس نے سرگوشی میں کہا اور نہایت تکلیف کے ساتھ اپنے والد کا سونے کا پانی چڑھا کراس کھینچ کر باہر نکال دیا۔تبھی اسے یاد آیا کہ اس نے کل بے چاری استینن کی روح کو سکون حاصل ہونے کے لیے کوئی تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔تب اسے کہاں پتہ تھا کہ دنیا میں اس کے لیے اب زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا ہے۔اس کے پاس دینے کے لیے اب کچھ نہیں بچا تھا،سوائے اس کراس کے، جو اس کے والد کا تھا اور اس کی شادی کی انگوٹھی کے جواب بھی اس کی انگلی میں پڑی تھی۔ اس نے انگوٹھی کو انگلی سے باہر نکالا اور اسے غور سے دیکھنے لگی۔اس کے کمزور ہاتھوں کو یہ کافی بھاری لگ رہی تھی،کیوں کہ یہ خالص سونے کی تھی اور بڑا سا لال پتھر اس پر جڑا ہواتھا۔ بہتر ہوگا کہ اسے بھی وہ کسی کو دے دے۔دینا تو چاہیے ،مگر کسے؟ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور انگوٹھی ولف کی جانب بڑھادی۔
’’تم یہ کسے دینا چاہتی ہو؟‘‘اس نے پوچھا اور جب کرستین نے کوئی جواب نہیں دیا تو خود ہی کہنے لگا،’’تمہارا مطلب ہے کہ میں اسے،کُلے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کرستین نے نفی میں سرہلایا اور پھر آنکھیں مضبوطی سے بند کرلیں۔
’’استینن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لیے کچھ دوں گی۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اس انگوٹھی کو اپنی نظروں سے تلاش کرنے لگی،جو ولف کی بھاری بھرکم ہتھیلی پر رکھی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گی۔اسے محسوس ہوا،جیسے وہ پہلی بار اس علامت کا مفہوم سمجھی ہو۔جو ازدواجی زندگی اس انگوٹھی نے اسے دی،جس کے خلاف اُسے اتنی شکایتیں رہی ہیں،جس کے خلاف وہ ہر دم سر گوشیاں کرتی رہی،جس پر اسے اتناغصہ رہا ہے اور جس کی وہ مخالفت کرتی رہی ہے۔باوجود ان سب کے جسے اس نے پیارکیا ہے،جس سے اس نے حِظ اٹھایا ہے چاہے وہ سکھ کے دن رہے ہوں یا دکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولف اور راہبہ نے کچھ بات کی،جسے وہ سن نہ سکی اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔کرستین نے چاہا کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھاکر اپنی آنکھیں پونچھ لے مگر وہ ایسا نہ کرسکی اورہاتھ اس کے سینے پر ہی پڑا رہا۔ اندرونی کرب نے اس کے ہاتھ کو اتنا بھاری بنادیا تھا،جیسے لگتا تھا کہ وہ انگوٹھی ابھی اس کی انگلی میں ہی ہے۔ا س کا دماغ پھر دھندلانے لگا۔اسے یہ جانناہی چاہیے کہ انگوٹھی واقعی چلی گئی ہے اور اس کاجانا اس نے خواب میں دیکھاہے۔اب سب کچھ غیر متوقع سا لگ رہا تھا۔کل رات بھی جو کچھ واقع ہوا،اس کے بارے میں بھی توقع نہیں تھی کہ واقعی کچھ ہوجائے گا۔یا پھر اس نے صرف خواب دیکھا تھا۔اپنی آنکھیں کھولنے کی طاقت بھی اس میں باقی نہیں تھی۔
’’سِسٹر!‘‘راہبہ نے اس سے کہا،’’اب آپ کو سونا نہیں چاہیے۔ولف آپ کے لیے پادری کو بلانے گیا ہے۔‘‘
ایک جھرجھری لے کرکرستین پوری طرح جاگ گئی۔اب وہ مطمئن تھی کہ سونے کی انگوٹھی جاچکی تھی اور اس کے بیچ والی انگلی پرا نگوٹھی پہننے کی جگہ پر سفید نشان بن گیا تھا۔
اس کے دماغ میں ایک اور واضح خیال گردش کررہا تھاکہ اس نشان کے مٹنے سے قبل اسے مرجانا چاہیے۔اس خیال سے وہ خوش تھی۔اسے محسوس ہواکہ یہ اس کے لیے ایک ایسا معمہ ہے جس کی گہرائی وہ جان نہیں پائی ہے،لیکن وہ یقینی طور سے جانتی تھی کہ خدا اس کے اوپر محبتوں کی بارش کرتا ہوا، اس کی جانکاری کے بناہی اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے اس کی آرزوئوں کے خلاف، اسے جلد ہی اپنے پاس بلارہا ہے۔وہ خدا کی بندگی تو کرتی رہی مگر ضدی اور آزاد طبع بھی تھی۔جس کے دل میں کوئی اعتقاد نہیں تھا،کاہل اور بے پرواہ،اپنے کام میں من نہ لگائے رکھنے والی۔پھر بھی خدا نے اسے اپنی بندگی سے الگ نہیں کیااور چمکدار سونے کی انگوٹھی کے نیچے اپنا پاکیزہ نشان بنائے رکھا۔یہی نشان تو ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی،ساری دنیا کے پروردگار کی باندی رہی ہے اور وہی خدا اب پادری کے پاکیزہ ہاتھوں کے روپ میں آرہا ہے تاکہ اسے نجات ملے۔
پادری سراایلیوؔ کے ہاتھوں سے تیل کاجلتا ہوا دیالینے کے تھوڑی دیر بعد کرستین پھر بے ہوش ہوگئی۔خون کی الٹیوں کے دوروں اور تیز بخار نے اسے بے ہوش کردیاتھا۔ اس کے پاس کھڑے پادری نے راہبائوں کو بتایا کہ وہ جلد ہی اس جہاں سے کوچ کرنے والی ہے۔
بستر مرگ پر پڑی اس عورت کو ایک دوبار ہلکا ساہوش آیااور اس نے ایک دوچہروں کی اور دیکھا۔اس نے سِرا ایلیو کو پہچاناپھر ولف کو بھی پہچان لیا۔اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ پہچان رہی ہے۔اور اس کے پاس آنے اور اس کے لیے دعا کرنے کے لیے وہ ان سب کی شکر گزار ہے۔مگر جو لوگ آس پاس کھڑے تھے،انھیں لگ رہا تھا جیسے موت کی سختی سے وہ اپنا ہاتھ چھٹپٹانا چاہتی ہے۔
ایک بار اسے اَدھ کھلے دروازے میں سے جھانکتا اپنے چھوٹے بیٹے موننؔ کا چہرہ دکھائی دیا پھر اس نے اپنا چہرہ پیچھے کرلیا۔اور ماں خالی دروازے کو گھورتی رہ گئی۔اس امید پر کہ لڑکا پھر سے وہاں دکھائی دے گا۔مگر اس کے بدلے ایک راہبہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک گیلے کپڑے سے اس کا چہرہ پونچھنے لگی۔یہ بھی اسے اچھا لگا۔پھر سب چیزیں کالے لال کہرے میں کھوگئیں۔اور ایک غراہٹ پہلے بڑے ڈرائونے ڈھنگ سے شروع ہوئی اور مدھم پڑتی چلی گئی۔ لال کہرا بھی ہلکا ہوتا چلاگیا اور آخر میں وہ طلوع آفتاب سے قبل ہلکے کہرے میں بدل گیا۔ساری آوازیں بند ہوگئیں اور وہ جان گئی کہ وہ مررہی ہے۔
سراابلیو اور ولف اس موت والے کمرے سے ساتھ ساتھ باہر نکل آئے۔تھوڑی دیر کے لیے وہ گرجا گھر کے دروازے پررکے۔برف باری ہوچکی تھی۔جس وقت وہ عورت موت کے ساتھ نبرد آزما تھی،اس کے آس پاس کھڑے ہوئے لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ برف باری ہورہی ہے۔ چرچ کی ڈھلوان چھت سے آنے والی سفید چمک سے چندھیاتے دو لوگ۔ہلکے بھورے رنگ کے آسمان کے بیچ میں چرچ کا بڑا سا برج چمک رہا تھا۔کھڑکیوں کے چھجوں پرسے مہین برف پڑی تھی۔لگتا تھا جیسے وہ دونوں اس لیے رک گئے ہیں کیوں کہ وہ نئی پڑی ہوئی برف کی چادر کو اپنے قدموں کے نشانات سے بگاڑنا نہیں چاہتے ہوں۔
انھوں نے ہوا میں گہری سانس لی۔کسی بھی بیمار کے کمرے میں بھری رہنے والی بدبودار ہوا کی بہ نسبت یہ ہوا ٹھنڈی اور میٹھی تھی۔
برج کا گھنٹہ پھر سے بجنے لگا تھا۔دونوں نے اوپر دیکھا ۔ہلتے ہوئے گھنٹے پر سے برف کے ذرات نیچے گرتے ہوئے ننھے ننھے قطروں میں تبدیل ہورہے تھے اور گول چکر کاٹتے ہوئے نیچے آرہے تھے۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

—————————————————-

سیگروانڈسیت ۱۸۸۲ء میں ناروے میں پیدا ہوئیںاور ۱۹۴۰ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’کرسٹن لورانسٹر‘‘کے لیے ۱۹۲۸ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے تقریباً دس برس تک ایک دفتر میں کام کیا تھا۔اس لیے دفتر میں کام کرنے والی خواتین کے موضوع کو انہوں نے اپنی تخلیقات میں بہتر انداز سے پیش کیا۔ان کے دکھ ،سکھ کو فطری انداز میں پیش کرنے کا سہرا سیگروانڈسیت کے سر جاتا ہے۔ان کی تصانیف میں ماسٹر آف ہیٹ ویکین،جینی،گنارس،ڈاٹر،دَبرننگ بُش،امیجینران اے مِرر،دَوائلڈ آرچڈ،اِڈا ایلیزبیتھ وغیرہ شامل ہیں۔