“One Day” A short Story by Anatole France

Articles

ایک دن

اناتولے فرانسس


میں اندر داخل ہوا تو پائولن دے لوزیؔ نے ہاتھ ہلاکر میرا استقبال کیا۔پھر چند لمحات تک خاموشی طاری رہی۔ا سکارف اور تولیوں کا بنا ٹوپ آرام کرسی پر بے ترتیب پڑے تھے۔
’’مادام!‘‘میں نے اپنی بات ذرا کھل کر کہی،’’کیا آپ کو یاد ہے ٹھیک دو سال قبل،آج ہی کے دن ،پہاڑ کے دامن میں بہتی ندی کے کنارے،وہیں جہاں آپ کی آنکھیں اس وقت دیکھ رہی ہیں،آپ نے کیا کہا تھا؟کیا آپ کو یادہے کہ کسی فرشتے کی طرح اپناہاتھ ہلاتے ہوئے آپ میرے قریب آئی تھیں۔میرے عشق کے اقرار کو آپ نے میرے لبوں کے اندر ہی روک دیا تھا اور مجھے انصاف و آزادی کی خاطر جینے اور لڑنے کے لیے چھوڑدیا تھا۔مادام،آپ کے جس ہاتھ کو میں بوسہ دیتے ہوئے اپنے آنسوئوں سے بھگودینا چاہتاتھا،اسی سے آپ نے مجھے باہر کا راستہ دکھایا اور میں بنا کچھ کہے لوٹ گیا تھا۔میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔دو سال سے میں بے وقوف کنگالوں کے ساتھ رہتا آیا ہوں،جن کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عدم دلچسپی ہی ہوتی ہے۔ جو دکھاوے کی ہمدردی کے پر تشددمظاہروں سے لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور جو چڑھتے سورج کو ہی سلام کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اپنے ہاتھ کے ایک اشارے سے اس نے مجھے خاموش کردیااور پھر اشارہ کیا کہ اس کی بات سنوں۔پھر باغیچے سے اس خوشبودار کمرے میں پرندوں کی چہچہاہٹ کے درمیان دورسے چیخیں سنائی دیں۔’’مارو!ان شریف زادوں کو پھانسی پر چڑھادو۔ان کی گردنیں اتاردو۔‘‘
اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘میں نے کہا،’’کسی کمینے کو سبق سکھایا جارہا ہوگا۔یہ لوگ چوبیس گھنٹے پیرس میں گھرگھر جاکر گرفتاریاں کررہے ہیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ یہاں داخل ہوجائیں۔تب میں کچھ نہیں کرپائوں گا۔حالانکہ پھر بھی میں اب ایک خطرناک مہمان ہوتا جارہا ہوں۔‘‘
دوسری مرتبہ چیخوں نے شام کی خاموش ہوا کو چیرا۔پھر ایک چیخ ابھری،’’راستے بند کردو، وہ بدمعاش بھاگنے نہ پائے۔‘‘
خطرہ جس قدر قریب آگیاتھا،اس کا تصور کرکے مادام دے لوزی کچھ زیادہ ہی پرسکون دکھائی دے رہی تھی۔
’’آئو دوسرے منزلے پر چلتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔ڈرتے ہوئے ہم نے دروازہ کھولاتو سامنے سے ایک شخص نیم برہنہ حالت میں بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔اس کے چہرے پر دہشت بُری طرح پھیلی ہوئی تھی۔اس کے دانت بھنچے ہوئے تھے اور گھٹنے آپس میں ٹکرارہے تھے۔گھٹی گھٹی آواز میں وہ چیخ رہا تھا،’’مجھے بچالو!کہیں چھپالو!وہ وہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے میرا دروازہ توڑدیا ہے، باغیچہ اجاڑدیاہے۔اب وہ میرے پیچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مادام دے لوزی نے اس شخص کو پہچان لیاتھا۔وہ پلانچو ؔتھا،ایک بوڑھا شخص،جو پڑوس میں ہی رہتا تھا۔مادام نے سرگوشی والے اندازمیں کہا،’’کہیں میری نوکرانی کی نظر تم پر تونہیں پڑگئی؟ وہ بھی جیکو بِن ہے۔‘‘
’’نہیں،مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘
’’سب خدا کی مہربانی ہے۔‘‘
وہ اسے اپنے بیڈروم میں لے گئی۔میں ان دونوں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ صلاح مشورہ ضروری ہوگیاتھا۔چھپنے کی کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنی ہی پڑے گی،جہاں پلانچو کو کچھ دن نہیں تو کچھ گھنٹوں کے لیے ہی چھپایا جاسکے۔
انتظار کے لمحات میں وہ خود کو کھڑا نہ رکھ سکا۔دہشت سے اسے جیسے لقوہ مارگیاتھا۔
وہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس پر ماسیودے کجوتؔ کے ساتھ مل کر قانون کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام ہے۔ساتھ ہی دس اگست کو اس نے پادری اور بادشاہ کے دشمن کو بچانے کے لیے ایک تنظیم بنائی۔یہ سب الزامات سراسر غلط تھے۔سچائی یہ تھی کہ لیوبِنؔ اپنی منافرت کا اظہار کررہا تھا۔لیوبِن ایک قصائی تھا،جسے وہ ہمیشہ ٹھیک تولنے کے لیے کہتا رہا۔کل کاوہ دکاندار آج اس گروہ کا سربراہ ہے۔
اور تبھی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آوازیں آنے لگیں۔مادام دے لوزی نے جلدی سے چٹخنی چڑھائی اور اس بوڑھے کو پیچھے دھکیل دیا۔دروازے پر مسلسل دستک سے اور آواز سے پائولن نے پہچان لیا کہ وہ اس کی نوکرانی ہے،وہ دروازہ کھولنے کے لیے کہہ رہی تھی اور بتارہی تھی کہ باہر گیٹ پر بلدیہ کے افسران نیشنل گارڈس کے ساتھ آئے ہیںاور احاطے کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں۔
’’وہ کہتے ہیں۔‘‘وہ عورت بتارہی تھی،’’پلانچو اس گھر کے اندر ہے۔میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ یہاں نہیں ہے،میں جانتی ہوں کہ آپ ایسے بدمعاش کو پناہ نہیں دیں گی،مگر یہ لوگ میرا یقین نہیں کرتے۔‘‘
’’ٹھیک ہے،انھیں اندر آنے دو۔‘‘دروازہ کھولے بنامادام د ے لوزی نے کہا،’’اور گھر کا ایک ایک گوشہ دکھا دو۔‘‘
یہ بات سنتے ہی بزدل پلانچوپردے کے پیچھے ہی بے ہوش ہوکر گرپڑا۔اسے ہوش میں لانے میں کافی دقت ہوئی۔اس کے چہرے پر پانی چھڑکا،تب کہیں جاکر اس نے آنکھیں کھولیں۔
جب وہ ہوش میں آگیا تو وہ عورت اپنے بوڑھے پڑوسی کے کانوں میں سرگوشی والے انداز میں بولی،’’دوست مجھ پر بھروسہ رکھو،یہ مت بھولو کہ عورت بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہوتی ہے۔‘‘
پھر اس نے بڑے اطمینان سے جیسے وہ معمول کے مطابق گھر کا کام کررہی ہو، پلنگ کو تھوڑا سا کھسکایااور تین گادیوں کو اس طرح رکھاکہ بیچ میں ایک آدمی کی جگہ بن جائے۔
جب وہ یہ سارے انتظامات کررہی تھی،سیڑھیوں پر سے جوتوں اور بندونوں کی کھٹ کھٹ کی آوازیں سنائی دیں۔ہم تینوں کے لیے یہ خطرناک لمحات تھے۔اور پھر وہی شور اوپر چڑھتا ہوا ہلکا ہوگیا۔وہ اوپر کی منزل پر گئے تھے۔ہم جان گئے کہ جیکوبن نوکرانی کی رہنمائی سے پہلے ہی وہ اٹاری کو چھان ماریں گے۔چھت چرمرائی۔خوفناک قہقہے گونج اٹھے تھے،جوتوں اور سنگینوں کی ضرب کی آوازیں ہم تک آرہی تھیں۔ہم نے راحت کی سانس لی۔لیکن ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے ایک بھی لمحہ نہیں تھا۔میں نے پلانچو کو گادیوں کے درمیان خالی جگہ پر گھسنے میںمدد کی۔
ہمیں یہ کرتے دیکھ مادام دے لوزی نے انکارمیں سر ہلایا۔بستر اس طرح سے بے ترتیب ہوگیاتھا کہ کوئی بھی شک کرسکتا تھا۔اس نے خود جاکر ٹھیک کرنا چاہا مگر بے کار۔وہ فطری نہیں لگ رہا تھا۔’’مجھے خود ہی بستر پر لیٹنا پڑے گا۔‘‘اس نے کہا۔چند لمحات تک وہ سوچتی رہی پھر بڑے اطمینان سے اور شاہانہ لاپرواہی سے اس نے میرے سامنے ہی اپنے کپڑے اتارے اور بستر پر لیٹ گئی۔ پھر اس نے مجھ سے بھی اپنے جوتے اور ٹائی اتارنے کے لیے کہا۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے،بس تمہیں میرے عاشق کاکردار ادا کرنا ہوگا۔اس طرح ہم انھیں دھوکا دے سکتے ہیں۔‘‘ہمارا انتظام مکمل ہوگیا تھا اور ان لوگوں کے نیچے اترنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔وہ چیخ رہے تھے،’’ڈرپوک!چوہا!‘‘
بدقسمت پلانچو کو جیسے لقوا مارگیاہو۔وہ اس قدر بری طرح کانپ رہا تھا کہ پورا بستر ہل رہا تھا۔اس کی سانسیں اتنی زور سے چل رہی تھیں کہ باہر سے کوئی بھی آدمی سن سکتا تھا۔’’کتنی دکھ کی بات ہے۔‘‘مادام دے لوزی نے آہستگی سے کہا،’’اپنی تھوڑی سی چالاکی سے میں سمجھتی تھی کہ کام بن جائے گا۔پھر بھی کوئی بات نہیں۔ہمت تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔خدا ہماری حفاظت کرے۔‘‘
کسی نے دروازے پر زور سے گھونسا مارا۔
’’کون ہے؟‘‘پائولن نے پوچھا۔
’’اس ملک کے نمائندے۔‘‘
’’کیا کچھ دیر تک رک نہیں سکتے؟‘‘
’’جلدی کھولو۔نہیں تو ہم دروازہ توڑڈالیں گے۔‘‘
’’جائو دوست،دروازہ کھولو۔‘‘
اچانک ایک جادوسا ہوا۔پلانچو نے کانپنا اور لمبی سانسیں لینا بند کردیا۔
سب سے پہلے لیوبن اندرآیا۔وہ رومال باندھے ہوئے تھا۔اس کے پیچھے پیچھے تقریباً ایک درجن لوگ ہتھیار اور برچھے لیے اندر داخل ہوگئے۔پہلے مادام دے لوزی اور پھر مجھے گھورتے ہوئے وہ زور سے چیخے۔’’اُف!لگتا ہے ہم عاشقوں کی تنہائی میں مخل ہوگئے ہیں۔خوبصورت لڑکی ہمیں معاف کردینا۔‘‘پھر وہ بستر پر آکر بیٹھ گیااور پیار سے اس اونچی نسل کی عورت کا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے بولا،’’یہ تو صاف ظاہرہے کہ اتنا خوبصورت چہرہ رات دن خدا کی عبادت کے لیے نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا تو کس قدر دکھ کی بات ہوتی۔لیکن پہلے اپنے مادرِوطن کا کام،باقی کام بعد میں۔ابھی تو ہم وطن کے غدار پلانچو کو ڈھونڈ رہے ہیں۔وہ یہیں ہے،یہ میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں۔ میں اسے ڈھونڈ کر رہوں گا۔میں اسے پھانسی پرچڑھادوں گا۔ا س سے میری قسمت سنور جائے گی۔‘‘
’’تو پھراسے ڈھونڈو۔‘‘
انھوں نے میزوں اور کرسیوں کے نیچے جھانکا۔پلنگ کے نیچے اپنے برچھے چلائے اور گادیوں میں سنگینیں گھونپیں۔میں انھیں تہہ خانے میں لے گیا۔وہاں انھوں نے لکڑی کے ڈھیر کو بکھیر دیا اور شراب کی کئی خالی بوتلیں خالی کردیں۔کافی دیر تک شراب پیتے رہے اور اودھم مچاتے رہے۔جب وہ پیتے پیتے تھک گئے تو باقی بچی شراب کی بوتلوں کوبندوق کے دستوں سے توڑتے ہوئے لیوبن نے تہہ خانے میںشراب کی ندیاں بہادیں۔ان کے باہر نکلتے ہی میں نے لپک کر گیٹ بند کردیا۔پھر میںدوڑتا ہوا مادام دے لوزی کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ خطر ہ ٹل گیا ہے۔
یہ سنتے ہی اس نے گادی کو پلٹا اور پکارا،’’موسیو پلانچو،موسیوپلانچو!‘‘جواب میں ایک ہلکی سی سسکی سنائی دی۔’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘وہ چیخ اٹھی، ’’موسیوپلانچو،میں تو سمجھی کہ آپ مرگئے۔‘‘
پھر میری جانب مڑکر بولی۔’’دیکھو دوست،تم ہمیشہ یہ کہہ کر خوش ہوتے ہوکہ تمہیں مجھ سے محبت ہے،مگر آئندہ تم ایسا قطعی نہیں کہوگے۔‘‘
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

—————————————

اناتولے فرانس۱۸۴۴ء میں،فرانس کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۴ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’تھایا‘‘ناول کے لیے ۱۹۲۱ء میں نوبل سے نوازا گیاتھا۔انہوں نے اسی سالہ طویل زندگی میں ادب کو کئی بہترین تخلیقات سے مالا مال کیاہے۔انہوں نے ناول کے علاوہ سوانح حیات،مضامین،تاریخی کتب وغیرہ تخلیقات قلمبند کی ہیں۔ان کی تصانیف میں دی کرائم آف سِلویستر ونارڈ،دی گاڈس آر آتھرسٹ،لائف آف جان آرک وغیرہ شامل ہیں۔