IKntekhab E Kalam Manchanda Bani

Articles

منچندہ بانی


انتخابِ کلام منچندہ بانی

1
پیہم موجِ امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں

صفِ شفق سے مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں

بدن، وصال آہنگ ہَوا سا
قبا، عجیب پریشانی میں

کیا سالم پہچان ہے اُس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں

ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اُس نے سُنا سب بے دھیانی میں

یاد تری، جیسے کہ سرِ شام
دُھند اُتر جائے پانی میں

خود سے کبھی مِل لیتا ہوں میں
سنّاٹے میں، ویرانی میں

آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں

ایک دِیا آکاش میں بانی
ایک چراغ سا پیشانی میں
***
2

کوئی بھوُلی ہوئی شے طاقِ ہر منظر پہ رکھّی تھی
ستارے چھت پہ رکھّے تھے شکن بستر پہ رکھّی تھی

لرزجاتا تھا باہر جھانکنے سے اُس کا تن سارا
سیاہی جانے کن راتوں کی اُس کے در پہ رکھّی تھی

وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پر چپُ تھا
عجب اک لاپتہ ذات اُس کے اپنے سر پہ رکھّی تھی

کہاں کی سیرِ ہفت افلاک ، اوپر دیکھ لیتے تھے
حسیں اُجلی کپاسی برف بال وپر پہ رکھّی تھی

کوئی کیا جانتا کیا چیز کس پر بوجھ ہے بانیؔ
ذراسی اوس یوں تو سینۂ پتّھر پہ رکھّی تھی
***
3

علی بِن متّقی رویا
وہی چپ تھا، وہی رویا

عجب آشوبِ عرفاں میں
فضا گُم تھی، کہ جی رویا

یقیں مِسمار موسم کا
کھنڈر خود سے تہی رویا

اذاں زینہ اُتر آئی
سکُوتِ باطنی رویا

خلا ہر ذات کے اندر
سُنا جس نے وہی رویا

ندی پانی بہت روئی
عقیدہ روشنی رویا

سَحر دم کون روتا ہے
علی بِن متّقی رویا
***

4

صد سوغات، سکوں فردوس ستمبر آ
اے رنگوں کے موسم، منظر منظر آ

آدھے ادُھورے لمس نہ میرے ہاتھ پہ رکھ
کبھی سپُرد بدن سا مجھے میسر آ

کب تک پھیلائے گا دُھند مرے خوں میں
جھوٹی سچی نوا میں ڈھل کر لب پر آ

مجھے پتہ تھا اِک دن لوٹ کے آئے گا تُو
رُکا ہُوا دہلیز پہ کیوں ہے اندر آ

اے پیہم پرواز پرندے، دم لے لے
نہیں اُترتا آنگن میں تو چھت پر آ

اُس نے عجب کچھ پیار سے اب کے لکھا بانیؔ
بہت دنوں پھر گھوم لیا، واپس گھر آ
***

5

غائب ہر منظر میرا
ڈھونڈ پرندے گھر میرا

جنگل میں گُم فصل مِری
ندی میں گُم پتھر میرا

دُعا مِری گُم صر صر میں
بھنور میں گُم محور میرا

ناف میں گُم سب خواب مِرے
ریت میں گُم بِستر میرا

سب بے نور قیاس مِرے
گُم سارا دفتر میرا

کبھی کبھی سب کچھ غائب
نام، کہ گُم اکثر میرا

میں اپنے اندر کی بہار
بانیؔ کیا باہر میرا
***

6

ہری، سُنہری خاک اُڑانے والا مَیں
شفق شجر تصویر بنانے والا مَیں

خلا کے سارے رنگ سمیٹنے والی شام
شب کی مژہ پر خواب سجانے والا مَیں

فضا کا پہلا پھول کھلانے والی صبح
ہَوا کے سُر میں گیت ملانے والا مَیں

باہر بھیتر فصل اُگانے والا تُو
ترے خزانے سَدا لُٹانے والا مَیں

چھتوں پہ بارش، دُور پہاڑی، ہلکی دھوپ
بھیگنے والا، پنکھ سُکھانے والا مَیں

چار دشائیں جب آپس میں گھُل مل جائیں
سنّاٹے کو دُعا بنانے والا مَیں

گھنے بنوں میں، شنکھ بجانے والا تُو
تری طرف گھر چھوڑ کے آنے والا مَیں

***
7

سیاہ خانۂ اُمّیدِ رائگاں سے نکِل
کھُلی فضا میں ذرا آ ، غبارِ جاں سے نکِل

عجیب بھِیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نکِل،
کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نکِل

اِک اور راہ ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے ، تُو درمیاں سے نکِل

ذرا بڑھا تو سہی واقعات کو آگے
طلسم کارئ آغازِ داستاں سے نکِل

تُو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
توُاِک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکِل

یہیں کہیں تِرا دشمن چھپا ہے اے بانی
کوئی بہانہ بنا ، بزمِ دوستاں سے نکِل
***
8

تمام راستہ پھُولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دُعا مانگتا ہے میرے لیے

تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں تِرا دَر کُھلا ہے میرے لیے

مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جُدا ہے میرے لیے

وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

عجیب در گذری کا شِکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے

گذر سکوں گا نہ اِس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹّی بھی زنجیرِ پا ہے میرے لیے

اب آپ جاؤں تو جاکر اُسے سمیٹوں میں
تمام سِلسِلہ بِکھرا پڑا ہے میرے لیے

یہ حسنِ ختمِ سفر یہ طِلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے

یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیؔ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
***