Second Life A Short Story by Searl. S. Buck

Articles

دوسری زندگی

پرل ایس بک

پیر کی صبح ڈریک فاریسٹر معمول سے بھی زیادہ بے دلی کے ساتھ سوکر اٹھا۔سنیچر اور اتوار کے روز اس کے ایجنٹ کا دفتر بند رہتا تھا،اس لیے دودنوں تک وہ نہ تو کوئی سوال کرسکا اور نہ ہی جواب سن سکا۔سوال ہمیشہ وہی رہتاور جواب بھی۔’’کچھ پتہ چلا نِک؟‘‘
’’نہیں ڈریک،سوری،اب تک تونہیں۔میں نے چارہ تو کئی جگہ رکھاہے،تمہیں بتایا ہی تھا، مگر کوئی مچھلی نہیں پھنسی۔‘‘
’’نہیں پھنسی؟‘‘اگلے دو جملے بھی ہمیشہ وہی رہے۔
’’شکریہ نِک۔اگر تھوڑی سی بھی امید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’مجھے پتہ ہے اولڈ مین۔میں پانچ منٹ میں تمہارے دروازے پر رہوں گا۔‘‘اگلے الفاظ جھجھکتے ہوئے بولے بھی جاسکتے تھے ،نہیں بھی۔’’کیا میں تمہیں بتادوں میں کہاں رہوں گا؟‘‘
’’نہیں،نہیں،ابھی ایسا موقع نہیں ملاہے اولڈمین۔‘‘وہ ایک تیسرے درجے کی عمارت میں اپنے ایک کمرے کے فلیٹ سے کہیں باہر نہیں جاتاتھا۔بس کبھی گھومنے یا کسی سستے سے ریستوراں میں کھانا کھانے باہر جاتا تھا۔وہ ختم ہوچکا تھا، بالکل ختم،شروعات کی امید بجھ چکی تھی۔وہ سارے کردار جو اس نے نبھائے تھے،آخری ڈرامے میں قریب قریب ہیروتک،اسے کہیں نہیں پہنچاسکے۔وہ ا بھی عمر دراز نہیں تھا۔مشکل سے پینتالیس کا، لیکن کامیابی کی سنہرا موقع کبھی نہیں آیا۔اسے جو مواقع ملے تھے اس نے اس سے فائدہ تو اٹھایا،مگر وہ بطورِ ہیرو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ ڈرامہ نگار اس کی عمر کے کرداروں میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ وہ جوان، مضبوط،طاقتور کرداروں کو لے کر ڈرامے قلمبندکررہے تھے۔وہ ایسا نہیں تھا اور ہوبھی نہیں سکتا تھا۔وہ اپنے وقت کے باہر پیداہوا تھا،اپنے وقت سے بہت پہلے یا بہت بعد میں۔پرانی دنیا کی تہذیب ختم ہوچکی تھی اور نئی امریکی تہذیب کی ابتداء نہیں ہوئی تھی۔وہ یہی سب کچھ سوچ کر خود کو بری کرتا تھا۔اس کے لے کوئی جگہ نہیں تھی۔
خوش قسمتی سے اس نے شادی نہیں کی تھی،وہ اور سارہ انتظار کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔ پھر سارہ نے کسی اور سے شادی کرلی جسے وہ نہیں جانتا تھا۔وہ اسے کوئی الزام نہیں دیتا۔پانچ سال بے حد طویل وقت ہوتا ہے اور اس کے بعدبھی سارہ کو کیا ملتا؟برسوں پہلے تھا یہ سب،بارہ برس، تین مہینے، دو دن پہلے۔اس نے سارہ کی تصویر بھی اخبارات میں نہیں دیکھی تھی،اس کے شوہر کے انتقال کے بعد، دوسال، چار مہینے،چھ دن۔اس نے اسے کوئی چٹھی بھی نہیں لکھی۔
وہ بے دلی سے اٹھااور اخبار لینے کے لیے دروازے تک آیا۔فی الوقت یہی لمحات اس کے لیے آرام کے ہوتے تھے جب وہ اخبار لے کراپنے گرم بستر میں گھس جاتا تھا۔آج اس کا بستر خاص آرام دہ تھا۔ٹھنڈی بسنتی ہوا آرہی تھی۔کھڑکی بند کرتے ہوئے اس نے دیکھا بارش ہورہی تھی۔ کم از کم اس کے پاس اس کمرے،اس بستر کاتوسہاراتھااور وہ اتنا ہوشیار توتھا کہ بھوکوں مرنے کی نوبت نہ آئے۔ایک وقت کھانا اور کرایہ طے تھا۔اس طرح احتیاط میں کوئی خوشی تو نہیں تھی مگر خراب موسم میں باہر نکلنے کی کوئی مجبوری بھی نہیں تھی۔اس نے بتی کی طرف والی دیوار کے پاس اخبار پھیلایااور تھیٹروالاصفحہ پلٹ کر اسے غور سے پڑھا۔کوئی خبر نہیں تھی۔اس موسم کے سبھی ناٹک جم چکے تھے اور اب گرمی کے تھیٹر میں ہی کچھ توقعات تھی۔اسے اس بارے میں نِک پرزور دے کر بات کرنا ہوگی۔نِک لاپرواہ ہوتا جارہا تھا، دوستی اور پرانی کامیابی کے روابط ڈھیلے پڑتے جارہے تھے۔پھربھی و ہ کسی اورایجنٹ کے پاس جانے کی ہمت نہیں جُٹا سکتاتھا،اگر کوئی اور اسے لے لیگاتب بھی۔نِک کم از کم اسے جانتا تو تھا۔اسے یہ نہیں بتانا پڑتا کہ وہ کیا کام کرسکتا ہے۔
اسی پل پلستر کی ہوئی دیوار پر پہلے سے بے ترتیب بتی گر پڑی۔اس نے غصے میں اخبار پھینک دیا اور پھر سمیٹنے اٹھاہی تھاکہ پھیلے ہوئے صفحات سے اسے اپنانام جھانکتا نظر آیا۔
’’ڈریک فاریسٹر اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔‘‘
یہ آخری صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی۔وہ اسے کھڑکی کے پاس لے گیا اور اپنی ہی موت کی خبر پڑھنے لگا۔’’ڈریک فاریسٹر،اداکار اپنے بستر پر مردہ پائے گئے۔انہیں لفٹ مین نے دیکھا جو اخبار پہنچانے آیا تھا۔مسٹر فاریسٹر نے ابتدا میں مشہور براڈوے ڈراموں میں کام کیاتھا۔ انہیں ہالی ووڈ سے بھی کئی باربلاوا آیا،مگر انہوں نے اسٹیج کوہی فوقیت دی اور ہالی ووڈ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔حالیہ برسوں میں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔‘‘اخبار اس کے ہاتھ سے گرپڑا۔وہ نِک کو فون کرنے دوڑا۔اس خبر کی تردید کرنا ضرور تھا۔ نِک کو پریس میں خبرکرنی ہوگی،وہ اخبار والے کو نوٹس بھیجے گا۔ادھر سے ہلکی سی آواز آئی،’’نکولس جین سین ایجنسی۔‘‘
’’اوہ،ہاں!‘‘اس نے ہمیشہ کی طرح پریشانی میں ہکلاتے ہوئے کہا،’’کیا مسٹر جین سن ہیں؟‘‘
’’مسٹر جین سن آج نہیں آئیں گے۔‘‘
’’اوہ،کیا آپ کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہوں گے؟‘‘
’’وہ یہاں نہیں ہیں۔وہ ایک اہم کلائنٹ کے ساتھ ویک اینڈ منانے گئے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ ہچکچایا۔اس ٹھنڈی آواز کے آگے کیا کہا جائے،یہ نہ سمجھ پاتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا۔ایک پل بعد وہ بستر میں تھااور اس نے آنکھوں تک چارد اوڑھ لی تھی۔ اخبار زمین پر گرپڑااور تنہائی میں ڈوب گیا۔کسے فکر تھی کہ یہ خبر سچ ہے یا نہیں؟طویل عرصے سے کسی نے اس کی کھوج خبر نہیں لی۔ اس کی بہن کی برسوں سے کوئی خبر نہیں تھی۔وہ شادی کے لیے ٹیکساس میں بس گئی تھی۔اس کے والدین بیس سال قبل ہی چل بسے تھے۔خدا کا شکر ہے تب یہ بھرم تھا کہ ان کا بیٹا بہت نامی گرامی انسان بننے والاہے۔تھیٹرسماجی زندگی تباہ کردیتا ہے۔اس کے باہر آپ کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے رشتہ دار، دوست احباب ایک ایک کرکے چھوٹ گئے۔وہ مر ہی تو گیا تھا۔
یہ مُردوں سی زندگی گزارنا بھی عجیب سا احساس پیدا کرتا تھا۔حالانکہ وہ اپنے کمرے میں زندہ تھا،سانس لے رہاتھا،مگر وہ مرچکا تھا۔اس کا ڈرامائی دماغ کام کررہا تھا۔اس نے کہانیاں پڑھی تھیں۔اس موضوع پر ایک ڈرامہ بھی دیکھا تھا جب ایک شخص کے مرنے کا اعلان کردیا گیا مگر اس نے ایک نئی اور مکمل آزادزندگی شروع کی تھی،سارے قرض معاف ہوگئے تھے۔ساری ناکامیاں دور ہوگئی تھیں۔وہ بھی چاہے تو اپنی آزادی کا خیر مقدم کرسکتا ہے،وہ بالکل نیا کچھ کرسکتا ہے۔نیا نام رکھ کر سب جان پہچان والوں سے دور جاسکتاہے۔اس نے خود کو دنیا بھر میں گھومتے دیکھا، ہر شہر میں ایک الگ انسان کی طرح،لندن،پیرس،وینس یا شکاگو اور سان فرانسسکو۔کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ وہ تھیٹر کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتاتھا۔چاہے وہ کچھ بھی کرے،خاتمہ یہی ہوگا،اکیلے کمرے میں، ایجنٹ کام کھوجنے کی کوشش میں لگا ہوا۔اور کیا کوئی ایجنٹ بنا کسی پہچان والے آدمی کے لیے کام تلاش کرے گا؟کم از کم ڈریک فاریسٹر کبھی کچھ تھاتو!ایک یاد توتھی۔طویل عرصے سے وہ رویا نہیں تھا مگر آج اسے رونا آگیا۔چند آنسوئوں کے قطرے گرے وہ بھی خود کے لیے نہیں بلکہ اس جیسے ہر کسی شخص کے لیے۔وہ اکیلاتو نہیں ایسی حالت میں۔خود کو بھرم میں رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔اس کے پاس تھوڑاسا ہنر تھا،تھوڑی سی صلاحیت،اچھا بدن اور خوبصورتی۔ہاں،وہ خوبصورت تھا،اب بھی ہے۔یہ سب چیزیں مل کر اسے اوسط سے کچھ اوپر لے آئے تھے۔مگر یہ کافی نہیں تھااور اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے اتناکافی نہیں ہوگا۔
بہتر ہے کہ مرہی جائوں؟یہ آسان ہوگا۔اس نے اس بارے میں سوچاتھا۔ایک اکیلے اور ناکام شخص کی طرح۔کبھی اس طرح کا قدم اٹھانے کے بارے میں طے نہیں کیاتھا۔ مگر پھر بھی امکان تھا۔روزانہ رات کو نیند کی گولیاں نگلتے وقت وہ سوچتا کہ موت اس کی ہتھیلیوں پر ہے۔سفید سفید چھوٹی گولیاں دیکھتے ہوئے وہ اپنی معمولی صلاحیت کے ساتھ سوچتا۔اگر وہ چاہے تو ایسا کرسکتا ہے۔
اب کسی اور نے اس کے لیے یہ سب کردیا تھا۔اس کے ہم نام شخص نے۔اس نے اخبار اٹھایا اور دوبارہ پڑھا۔اس کی موت کا کوئی سبب نہیں دیاگیاتھا۔بس خبر دی گئی تھی اس کی کچھ کامیابیوں اور آہستہ آہستہ اسٹیج سے دور ہونے کی وضاحت کی گئی تھی،یہ سب قابلِ افتخارلگ رہا تھا۔اگر ابھی وہ سچ مچ مرگیاتو اس کے اثرات ختم ہوجائیں گے۔یہ گندہ سا کمرہ،نِک کے پیچھے مسلسل لگے رہنا،پھٹی پرانی قمیض اور پاجامے،یہ سب چھوٹی چھوٹی اور بیکار باتیں جو وہ زندہ رہ کر تو چھپاسکتا تھا مگر موت کے بعد یہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا۔اسے تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ کوئی اس کی جگہ اتنی اچھی طرح مرگیا ہے۔ انہوں نے پتہ صحیح دیا تھا،یہی عمارت،یہی سڑک۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔اور اچانک اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ اٹھے گا، کافی اورٹوسٹ بنائے گااورنِک کو کبھی فون نہیں کرے گا۔وہ یہاں سے چلا جائے گا،کبھی مغربی سمت نکل جائے گا۔پھریوں ہی ہالی ووڈ میں کوئی کام تلاش کرلے گا،سیٹ کے آس پاس۔دیکھ بھال کرنے والے کا کام بھی۔کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔کیوں کہ اس کا نام مرچکاتھا۔
بستر کے پاس کی میز پر وہ کافی پی رہا تھا کہ فون بج اٹھا۔وہ اٹھا اور کریڈل کان سے لگایا۔ ایک اجنبی آواز،کسی خاتون نے کہا،’’کون بول رہا ہے،پلیز؟‘‘اپنانام اس کی زبان تک آیا،لیکن اس نے قدرے توقف کے بعد کہا،’’آپ کو کون چاہیے؟‘‘
’’میں نے ابھی ابھی اخبار میں دیکھا۔میں ڈریک فاریسٹر کو جانتی تھی،چند سال پہلے۔ ہم نے ایک ڈرامے میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔وہ بہترین اداکار تھا،میں اکثر سوچتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوراب وہ نہیں رہا۔‘‘وہ ہچکچایا اور پھر اسی بھاری آواز میں بول اٹھا،’’سوری میڈم،آپ کے پاس غلط نمبر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیااور بستر پر بیٹھ گیا۔لیکن یہ حیرت انگیز تھاواقعی۔وہ خالی دیوار کو گھورتا آواز کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوا بیٹھارہا۔لیکن آواز یاد نہیں کرپایا۔چلو کسی نے تو یاد رکھا۔اسے خوشی ہوئی اور اس نے بارش کا حال دیکھنے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھا۔موسم خوشگوار ہونے پر وہ گھومنے نکل جاتا۔مگر اب بھی بارش ہورہی تھی۔وہ واپس بستر میں داخل ہواہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ پھر اٹھااور دروازہ کھولا۔عمارت کا پہریدار پھولوں کا چھوٹا سا باکس لیے کھڑاتھا۔
’’اوہ،شکریہ۔‘‘ڈریک نے کہا۔’’ایک منٹ رکو۔‘‘اس نے کرسی پر رکھی پینٹ کی جیب سے ایک ڈائم نکالا اور اسے دیا۔’’شکریہ۔‘‘پہریدار نے کہا۔
دروازہ بند کرکے اس نے باکس کھولا۔سفید گلاب اور اسنیپ ڈریگن تھے، ہرے فرن کے ساتھ۔کارڈ پر تحریرتھا،بہترین وفات کی یاد میں،اور نیچے سات نام درج تھے۔اسے وہ لوگ یاد تھے۔ ’دریڈسرکل‘ڈرامے میں ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے کردار ادا کیے تھے۔اس سال یہ ڈرامہ ہٹ ثابت ہوا تھا۔یہ تھریلرتھااور وہ قتل کی گئی ہیروئن کاشوہر بنا تھا۔مگر اس ڈرامے کا ہیرو عاشق تھا،شوہر نہیں۔پھر بھی اچھا چلا تھاڈرامہ اور اس نے وہ پیسے سارہ سے شادی کرنے کے لیے جمع کیے تھے۔لیکن اسی سال سارہ نے ہیریسن بیچ سے شادی کرلی تھی۔اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر وہ کامیاب ہوتا تو اس نے بھی کسی سے شادی کرلی ہوتی۔
اس نے پھولوں کو ٹن کی ٹوکری میں ڈالا اور پانی بھرکر کھڑکی میں رکھ دیا۔اس نے پھر سونے کی بجائے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔یہ اپریل تھااور آسمان صاف ہورہا تھا۔اس نے شاور لیااور سلیقے سے کپڑے زیب تن کیے۔جب تک سڑک پر آیا بادل چھٹ رہے تھے اور نیلاآسمان بیچ بیچ سے جھانک رہا تھا۔وہ ہمیشہ کی طرح چھ بلاک گھومااور چونکہ کوئی اسے نام سے نہیں جانتا تھا،اس لیے کوئی حیرت زدہ بھی نہیں ہوا۔اس نے ایک ڈرامے سے متعلق میگزین خریدا۔اور سوچا کہ پارک میں بیٹھنے کے لیے موسم ٹھنڈا ہے یا نہیں۔اس نے محسوس کیا کہ موسم زیادہ سر دہے اس لیے وہ واپس کمرے میں چلا آیا۔نِک کوفون نہیں کرنے سے اس کے پاس کام نہیں تھا مگر اس نے فون نہ کرنے کا ارادہ کرلیا۔جب وقت آئے گا سوچا جائے گا کہ کہاں جاناہے،یا پھر وہ کہیں نہیں جائے گا۔جب وہ کمرے میں آیاتو دروازے میں ایک لفافہ اٹکاہواتھا۔یہ نِک کا تار تھا،’’خدا کے لیے مجھے فون کرو۔گھنٹوں سے تمہیں فون کررہا ہوں۔شہر کے لیے پہلی ہی ٹرین سے لوٹ آیا ہوں۔‘‘
وہ بیٹھ گیا۔ہیٹ اب بھی اس کے سر پر تھا۔اس کا کیا مطلب تھا،نِک کو اس کے مرنے کا یقین تھا یانہیں؟شاید اس نے خبر دیکھی ہواور بھروسہ نہ کیا ہو۔یا پھرنِک کو لگا کہ اس کے ساتھ کوئی رہتا ہوگا۔اس نے نِک کو کبھی اپنے رہنے کے ڈھنگ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔نِک کو لگتا تھا کہ اس کی کوئی محبوبہ اس کے ساتھ رہتی ہے۔اسی نے تار بغل میں پھولوں کے گلدان کے پاس رکھ دیااور باہر چلاگیا۔پارک کی بینچ پر اس نے پورا میگزین پڑھ ڈالا۔پھر وہ دوسرے لوگوں کو دیکھتا ،کچھ سوچتا بیٹھارہا۔کچھ لوگوں کو اس نے پہچانا۔اسے لگا کہ وہ لوگ بھی اسے پہچان رہے ہوں گے۔لیکن ان کی کبھی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔دوپہر کاوقت ہورہا تھااور اس نے کسی آٹومیٹ میںکھانا کھانے کا ارادہ کیا۔پھر واپس جاکر کمرے میں سونا۔وہ اپنے ہی احساسات کی بے ترتیبی سے تھک گیا تھا۔مرجانا بھی ایک قسم کا تجربہ ہے،وہ مسکرایا۔
پرانی عمارت میں داخل ہوتے وقت پہریدار باہر نکلا،’’آپ کی سالگرہ وغیرہ ہے کیا؟‘‘ اس نے کہا۔’’آپ باہر تھے تو دوگل دستے اورتین تارآئے ہیں۔‘‘
’’آج میری برسی ہے۔‘‘ڈریک نے کہااور دوسرا ڈائم نکال کر پہریدار کودیا۔گل دستے اٹھائے ہوئے اس نے تار جیب میں رکھے اور اوپر چڑھ گیا۔یہ سب عجیب ساہوتا جارہا تھا، اس کا کمرہ پھولوں سے بھرگیااور اتنے تار۔یہ تو واپس تھیٹرکے ڈریسنگ روم میں ہونے جیسا تھا۔موت کی خبر پڑھ کر وہ خوش ہی ہوا تھا۔اس نے خود کو پوری طرح بھلادیاگیاسمجھاتھا۔اسے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔اس نے پھولوں کو گلدان میں رکھ دیا۔پیلے گلاب اور سفیدا سائریا۔اس کے پہلے ڈرامے کے ہدایت کارکی طرف سے۔تار اس کے دوسرے ڈراموں کے اداکاروں نے روانہ کیے تھے اور ایک تار نِک کے آفس میں کام کرنے والی لڑکی کا تھا۔ڈریک کو معلوم تھا کہ وہ اس کے خواب دیکھتی ہے مگر اِن دنوں وہ سارہ کی بے وفائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔کارڈ ہاتھ سے لکھا تھا ،’پیاری و خوشنمایادیں‘لوئیس۔وہ اسے ہمیشہ مِس سلورسٹین پکارا کرتاتھا۔
کمرہ اچھا لگنے لگاتھا۔اس نے بستر نہیں بجھایا۔اکثر وہ اسے ایسے ہی چھوڑدیتا تھا اور واپس لیٹ جاتا تھا۔مگر آج اس نے اچھی طرح بستر سمیٹا۔ایک پرانے رومال سے میز،الماری اور کھڑکی جھاڑی۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے پیلے گلاب اور اسپائریانکال کر ایک دودھ کی بوتل میں الماری پر رکھ دیئے۔
پھر فون بجنے لگااور اتنا بجا کہ یا تو اسے باہر جانا پڑتا یا اٹھانا پڑتا۔اس نے اطمینان سے فون اٹھایاآواز بدل کربولا،’’ہیلو‘‘مگر یہ نِک نہیں تھا،یہ کسی خاتون کی آواز تھی جو بے حد نرم و سریلی تھی۔’’ہیلو،کیا ڈریک فاریسٹر یہیں رہتے تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘اس نے جواب دیا۔پھر اس نے آواز پہچان لی ۔اس کا دل بری طرح دھڑکا۔ یہ سارہ تھی۔اس کی آواز آج تک سنی ان سنی آوازو ں میں سب سے پیاری تھی۔
’’میں نے ابھی ابھی یہ دکھ بھری خبرپڑھی۔‘‘سریلی آواز آئی۔’’کیا آپ بتاسکتے ہیں اس کی سروسیس کہاں ہوں گی؟میں اسے برسوں پہلے جانتی تھی۔میں اسے بہت پیار کرتی تھی۔ اب بھی کرتی ہوں،مگر اب میں اسے کبھی نہیں بتاسکوں گی۔‘‘
وہ کچھ کہہ نہیں سکا۔کہتا بھی کیا؟پھر بے وقوفوں کی طرح چند الفاظ اس کے منہ سے نکلے، ’’آپ نے اسے بتایاکیوں نہیں؟‘‘
ادھر سارہ حیرت زدہ تھی،’’کیاآپ اس کے دوست ہیں؟‘‘
’’ایک طرح سے دوست ہی ہوں۔اس نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ،سچ مچ! تو وہ مجھے بھولا نہیں تھا؟‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
وہ ان واقعات سے حیرت زدہ تھا۔کیایہ نیا جال تھاجس میں وہ خود ہی پھنستا جارہا تھا۔
’’اوہ،کیا آپ آکر مجھے اس کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘اس نے درخواست کی۔
’’آپ کہاں ہیں؟‘‘
سارہ نے کافی دوردراز سڑک کا نمبر بتایا۔جہاں وہ تھا وہاں سے بڑی دوری پر۔’’مجھے پتہ نہیں کب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے شروع کیا۔
’’نہیں،آپ ابھی آئیے۔‘‘سارہ نے پھر درخواست کی،’’مجھے اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کا تجسس ہے۔تب میں آپ کو بتاسکوں گی کہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل میں نے اسے کھودیا۔جب میرے شوہر نہیں رہے تو مجھے پتہ نہیں چلا،میں اسے کہاں تلاش کروں؟اخباروں میں بھی اس کا نام نہیں آتاتھا۔آج میں نے خبر پڑھی تو مجھے لگا کہ میں ہمیشہ سے اسے تلاش کرنا چاہتی تھی۔مجھے لگتا ہے میں بس سوچتی رہ گئی۔‘‘
’’میں آئوں گا۔‘‘اس نے وعد ہ کیا۔اس نے فون رکھ دیا۔پتہ نہیں یہ وعدہ پورا کرے گا یا توڑدے گا۔مگر اسے اب سارہ کا ٹھکانہ مل گیا تھا تو آج نہیں توکل،اسے معلوم تھا کہ وہ اس کی دہلیز پر کھڑاہوگا۔گھنٹی بجاتے ہوئے،اپنی شناخت کا انتظار کرتے ہوئے۔وہ دوبارہ زندہ ہوگیاتھا۔
فون پھر بج اٹھااور پھر سے سارہ کے ہونے کی امید میں اس نے فون کا ریسیور اٹھالیا اور پکڑاگیا،’’ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے بڑی بے تابی سے کہا۔
یہ نِک تھا،حیران پریشان۔’’یہ کیا بے وقوفوں سی حرکت ہے۔کہاں ہو تم صبح سے؟ مجھے معلوم ہے تم زندہ ہو؟‘‘
’’تمہیں کیسے معلوم تھا؟‘‘اس نے جاننا چاہا۔اسے کچھ برا لگا۔کیانِک کو لگا کہ اس میں اتنی ہمت نہیں،’’تھوڑی دیر کے لیے مجھے لگایہ سب سچ ہے،جھوٹے کہیں کے!‘‘نِک نے کہا،’’پھر میں نے خبر دوبارہ پڑھی اور دیکھا کہ وہ تم نہیں ہو۔وہ تمہیں پینسٹھ سال کا بتا رہے تھے۔تم نے دیکھا نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ڈریک نے کہا۔
’’تمہیں کبھی تاریخیں یاد نہیں رہتیں۔‘‘نِک نے جلدی سے کہا،’’انہوں نے تمہاری تاریخ پیدائش ۱۸۸۷ء؁ لکھی ہے۔مجھے معلوم تھا کہ یہ سچ نہیں ہے۔میں نے تمہارے لیے اتنی تشہیر کا کام کیا ہے۔اخبار اسے کل درست کردے گا۔میں صبح سے ہی بے حدمصروف رہا ہوں۔لگتا ہے ورجینیا میں کوئی اور تمہارا ہم نام بھی تھا۔اخبار والوں نے سب خلط ملط کردیا ہے۔اس سے سب گڑ بڑ ہوگئی ہے۔خیر اس سے تمہیں فائدہ ہی ہوا ہے۔تمہیں ایک کردار مل گیا ہے۔‘‘
’’کردار؟‘‘
’’ہاں،اچھا خاصہ کردار۔ویسے کوئی اسٹار والا رول تو نہیں ہے مگر ڈرامہ اچھا ہے۔’سا ئوتھ سائڈ آف دمون‘پہلے گرمیوں میں پھر براڈوے۔پروڈیوسر نے کہا کہ وہ تمہیں جانتا تھا۔اس نے مجھے فون کیا تھا اور کہا کہ اگر اسے اتاپتہ معلوم ہوتا تو وہ تمہیں ضرور کام دیتا۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ وقت دو۔تم سیدھے یہاں چلے آئو،ڈریک!اور میں کنٹریکٹ تیار رکھوں گا۔ ہم سب کچھ درست کرلیں گے۔اب میں پھر چیزوں پر دھول جمنے نہیں دوں گا۔‘‘
ڈریک طے نہیں کرپارہا تھا۔وہ ایک ساتھ دو جگہوں پر نہیں جاسکتا تھا۔یا تو وہ پہلے سارہ کے پاس جاتا یا نِک کے پاس۔اس کاڈرامائی تخئیل پھر سے زندہ ہوگیاتھا۔اس نے خود کو سارہ کے ہال میں یا پھر دیوان خانے میں انتظار کرتے ہوئے دیکھا۔پھر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی سارہ، ہمیشہ سے ہی خوبصورت۔وہ بالکل خاموش کھڑارہے گا۔انتظار کرتے ہوئے،پھر وہ چلائے گی،’’اوہ، ڈریک ڈارلنگ۔لیکن یہ سب کیسے؟‘‘
’’کوئی اور مرا ہے سارہ،میں نہیں۔‘‘
اس نے بوسہ لینے کے لیے آنکھیں موندیں اور نازک لب یاد کیے۔سارہ بے حد نازک تھی۔ شہد بھرے لب تھے اس کے۔
’’اے،تم سوگئے ہوکیا؟‘‘نِک اس کے کان میں چلایا۔
’’میں ابھی نہیں آسکتا نِک۔مجھے بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘نِک نے چیختے ہوئے کہا۔’’کنٹریکٹ سے زیادہ کیا ضروری ہے؟‘‘
’’ہے کام،بے حد ضروری۔‘‘ڈریک نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا،’’لیکن کنٹریکٹ بنا کر رکھونِک۔میں وہاں آئوں گا کسی بھی وقت۔آج،کل یا کسی اور دن۔‘‘اس نے فون رکھ دیا اور کھویا سا کھڑارہا۔وہ آج وہاں جائے گا۔جب وہ اور سارہ صوفے پر بیٹھ جائیں گے اور ایک دوسر ے کا بوسہ لیں گے۔کھانا کھائیں گے اور ایک دوسرے کو جب ساری باتیں بتادیں گے تب وہ گھڑی کی جانب دیکھے گا اور چلائے گا۔
’’اوہ خدا،ڈارلنگ،مجھے آج کسی سے ملنا ہے۔میں بھول ہی گیاتھا۔ تمہاری وجہ سے میں سب کچھ بھول جائوں گا۔‘‘
’’کوئی ڈرامہ ہے ڈریک؟‘‘
’’ہاں،سائوتھ سائڈ آف دَ مون۔نیا ہے،اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’جلدی آنا۔‘‘وہ یہی کہے گی۔’’مجھے تم پر فخر ہے ڈریک۔‘‘یہی کہے گی وہ۔
’’میں جلدی آجائوں گا۔‘‘وہ وعدہ کرے گا۔’’ہم ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔اچھا؟ پھر ہم بیٹھ کر کچھ سوچیں گے۔‘‘
’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘یہی کہے گی وہ ،اپنی میٹھی آواز میں۔یہ آواز پہلے سے بھی زیادہ شہد بھری تھی۔وہ تیار ہونے کے لیے کمرے میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا۔اس کے پاس ایک نئی قمیض تھی۔وہ ہمیشہ ایک نئی قمیض رکھتا تھا۔کیا پتہ کسی ہدایت کار سے اسے ملاقات کرنی پڑے۔ پھراس نے شاور لیااور داڑھی بنائی۔پھر نئی قمیض اور اچھا سا سوٹ۔وہ ہمیشہ ایک اچھا سا سوٹ رکھتا تھا۔پھر اس نے کچھ سوچا۔اس کے لیے کچھ لے جانا چاہیے۔اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھا۔ شاید کوئی کام کی چیز ،کتاب یا کچھ اورتلاش کرنے لگا تاکہ بطورِ نشانی دی جاسکے۔پھر وہ چٹکی بجاتے ہوئے بولا، ’’ پھو ل اورکیا؟‘‘اس نے سارے پھول سمیٹے۔ایک باکس نکالا۔سارے پھول اس میں ڈالے اور بڑی احتیاط سے ڈوری باندھی۔پھر اس نے الماری کھولی اور گھڑی نکالی پتلی بید کی چھڑی جس کے اوپر نقلی ہاتھی دانت کی نقاشی تھی۔یہ چھڑی اس نے اس ڈرامے کے لیے خریدی تھی جس میں وہ شوہر بنا تھا۔
شیشے کے پاس رکتے ہوئے اس نے ایسا شخص دیکھا جسے اس نے ایک طویل عرصے سے نہیں دیکھاتھا،درازقد،دبلا پتلا شخص۔جس کا زرد چہرہ زندگی سے معمور تھا،چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔جس کی گہری آنکھیں چمک رہی تھیں۔معصوم سا شخص۔وہ اپنا عکس دیکھ کر مسکرایا۔اس دوسرے جنم پر بے حدخوش۔وہ جس قدر پہلے مرچکا تھا اس کے مقابلے یہ برا نہیں تھا۔’نیک خواہشات ‘ اس نے خوشی و انبساط سے دمکتے چہرے سے کہااور ہیٹ سر پر رکھتے ہوئے اسے ذرا ترچھا کیااور کمرے سے باہرنکل گیا۔
٭٭٭

پرل ایس بک 1882میں امریکہ میں پیدا ہوئیں اور1972میں انتقال فرمایا۔وہ امریکہ کی پہلی مصنفہ ہیں جنہیں’’دَ گڈ ارتھ‘‘کے لیے 1938میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بچپن سے ہی انہیں ادب سے لگائو تھا۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ چین میں بیتاتھا۔کیوں کہ ان کے والدین مشنری سے وابستہ تھے اور چین میں رہتے تھے۔ان کی شادی جان لاسنگ بک سے ہوئی تھی۔ان کی تخلیقات میں چینی کسانوں کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ان کی تصانیف میں سنس،دَبنگ ریوولیو شنِسٹ،دَمدر،دِزپرائڈ ہرٹ،دَ پیئریاٹ،اَدر گاڈز وغیرہ شامل ہیں۔

٭٭٭
پرل ایس بک کی اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
کاپی رائٹ بحقِ مترجم محفوظ ہیں