Qissa E Mukhtasar…Quraish Nagar by Dr. Qasim Imam

Articles

قصہ مختصر ____قریش نگر

ڈاکٹر قاسم امام

 

قریش نگر ، بنٹر بھون میں منعقد ایک جلسے میں گذشتہ دنوں ایک صاحب نے ہر دلعزیز ایم۔ ایل ۔اے جناب نواب ملک کے سامنے قریش نگر کی محرومیوں کا ذکر کیا ، غالباً موصوف مقامی ایم۔ ایل۔ اے کے سامنے علاقے کے مسائل پیش کرنا چاہتے تھے۔ مجھے یہ شکوہ پسند نہ آیا، جوابِ شکوہ کے طور پر میں نے اپنی تقریر میں اداروں اور شخصیات کے حوالے سے قریش نگر کی اُن خوبیوں کا ذکر کیا جس سے نئی نسل واقف نہ تھی۔ جب میں نے قریش نگر کے جغرافیائی ، تاریخی، سیاسی ، سماجی اور ثقافتی پہلوﺅں کی طرف اشارہ کیا تو سامعین عش عش کر اٹھے۔ یہ کمالِ گفتار نہ تھا بلکہ بستی کا بلند کردار تھا اور پیار تھا اُن لوگوں کا جو اپنے اسلاف کا ذکر فخر سے کرتے اور سنتے ہیں۔ اب میرے سامنے نشان صدیقی کی تصویر ہے اور جب میں اس تصویر کے پس منظر میں قریش نگر کو دیکھ رہا ہوں تو کئی شخصیات اور واقعات میرے سامنے ایک فلمی سین کی طرح آرہے ہیں۔ آنکھیں بند کرتا ہوں تو ماضی نظر آتا ہے ، آنکھیں کھولتا ہوں تو حال۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ میری تربیت میں قریش نگر کی ادبی محفلوں اور فلاحی انجمنوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں آج بھی اپنے طلبہ کو فخر کے ساتھ اپنی رہائش قریش نگر بتاتا ہوں۔ میرے ڈھیر سارے خطوط آج بھی رعیسہ بائی چال ، نزد لال ٹانکی(ہِل) کے پتے پر ہی آتے ہیں۔ نقلِ مکانی کا دُکھ مجھے گوونڈی لے آیا وگرنہ میں آج بھی قریش نگر میں ہی ہوں ، قریش نگر کا ہی ہوں میرے طلبہ میں یہ احساسِ کمتری کے وہ پس ماندہ علاقے میں رہتے ہیں ، مجھے بے چین کیے رہتا ہے کیونکہ میں اس علاقے کو کبھی پچھڑا نہیں سمجھتا۔ بھلا بتائیے کہ جس علاقے کی اپنی منفرد ادبی اور ثقافتی پہچان ہو وہ پسماندہ کیسے کہلا سکتا ہے۔ جہاں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بیٹھ کر مرحوم شور نیازی نے شہرہ آفاق گیت”جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا“ ، عیش کنول نے ”چاند میرا بادلوں میںکھو گیا“ جیسا مشہور فلمی نغمہ تحریر کیا ۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار سلام بن رزاق نے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”ننگی دوپہر کا سپاہی“ یہاں کی لمبی سیمنٹ چا ل میں رہ کر ترتیب دیا۔ عامر برقی اعظمی(خونِ تمنّا)، حمید ادیبی ناندروی(پھول کھلتے رہے) اور اثر ملکاپوری(نمرتا) نے ناول لکھے، جہاں مرحوم مرزا پارس ہنگلوی کے جنون نے اُن سے ”عالمِ انسانیت کا پلیٹ فارم“ جیسی کتاب لکھوائی۔ مشہور استاد پرنسپل قاسم رضا نے اسی بستی میں ریاضی کے موضوعات پر ڈھیرساری نصابی کتابیں ترتیب دیں۔ قریش نگر کے اسی پراگندہ ماحول میں اقبال نیازی نے اپنے دوست اسلم پرویز کے ساتھ مل کر ”جلیان والا باغ“ جیسا مشہور ڈرامہ لکھا۔ غرضیکہ ایک طویل فہرست ہے شعرا ، ادبا اور اساتذہ کی جنھوں نے اپنے ادبی و تعلیمی سفر کا آغاز قریش نگر سے کیا۔ یہاں آنے جانے والوں میں کئی مقتدر شعرا و ادبا کے نام شامل ہیں۔ محمود درانی، ندا فاضلی، تابش سلطان پوری، قیصر الجعفری، ظفرگورکھپوری، تاج دار تاج، ضمیر کاظمی، سردار پنچھی، شفیق عباس، شمیم عباس، عبد اللہ کمال، محبوب عالم غازی، احمد منظور، حامد اقبال صدیقی، شاہد لطیف، مرحوم تنویر عالم، عرفان جعفری، فاروق رحمن ، اسلم پرویز، اسلم خان اکثر یہاں کی ادبی محفلوں میں شریک رہے۔ رسالہ ”تکمیل کے مظہر سلیم اپنے بھائی اکبر عابد کے ساتھ برسوں تک اسی بستی میں رہے۔ قیوم اثر اور حفظ الکبیر پرواز ، مولانا منتظم الاسلام ندوی، پروفیسر بلال بھی دراصل قریش نگری ہی ہیں۔  م۔ ناگ، سعید راہی اور نظام الدین نظام کو اس علاقے نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنا داماد بنالیا۔ سلام بن رزاق سے ملاقات کی غرض سے آنے والے مشہور ادیبوں میںسریندر پرکاش، ساگر سرحدی، مرحوم انور خان، مشتاق مومن ،جاوید ناصر، انورقمر، رام پنڈت اور مقدر حمید وغیرہ شامل ہیں۔ نامور صحافی و افسانہ نگار ساجد رشید کے حلقہ انتخاب میں قریش نگر بھی شامل رہا۔ عوامی مقبولیت کے اعتبار سے وہ کامیاب بھی رہے لیکن بدقسمتی سے الیکشن ہار گئے۔ نشان صدیقی اور عیش کنول کے پیش رو اور معاصرین میں علامہ کلام اعظمی جنھیں بقول معراج صدیقی چینی زبان پر بھی عبور حاصل تھا، کے علاوہ قاضی خلیل صولتی، سرور بستوی، اثر فیض آبادی ، بندہ نواز منیری ، جھنجھٹ جھنجھانوی، شوکت لافانی ، تبسم مالیگانوی، غنی احمد غنی، سعید کنول، ساغر باورا، راقم لکھنوی ، اقبال مرشدی وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ بعد کے زمانے میں تسکین انصاری، عارف اچل پوری ، عرشی قریش نگری، عارف اعظمی، راشد کانپوری نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ غرضیکہ یہاں کی ادبی فضا میں کئی طوفان آئے گئے۔ ادبی ماحول میں دلچسپی قائم رکھنے کے لیے عیش کنول نے بڑے جتن کیے۔ آون جاون مشاعرے، ایک میان میں دو تلوار،استاد کون، دانش کدہ کے زیرِ اہتمام ہونے والے جنگی مشاعرے دراصل عیش کنول کی شوخی طبیعت کے چند نمونے ہیں ۔ جنھوں نے یہاں کے ادبی ماحول کو ہمیشہ گرم رکھا۔ طنز و مزاح کے لیے بھی یہ علاقہ کافی زرخیز رہا۔ بزمِ اقبال کے ثقافتی پروگرام، مزاحیہ مشاعرے اور ڈرامے نیز بعد کے زمانے میں حسینی گارڈن میں منعقد کوئز مقابلے وغیرہ اس کا بین ثبوت ہیں۔ مشہور مزاحیہ آرٹسٹ جانی لیور نے اپنے ابتدائی زمانے میں یہاں کئی پروگرام کیے ۔سیاسی جماعتوں کے علاہ یہاں فلاحی و ادبی تنظیموں بھی کا بول بالا رہا۔ دانش کدہ ، آئینہ ادب اور بزمِ اقبال کے ذریعے رسول خان، محمد خان ، رزاق کوکنی، شہاب الدین نانا، انیس تلہری، معراج صدیقی، سلیم قریشی، قادر لفافے والا، سبحان ، اقبال ، محمود وارثی،نیاز قریشی جیسے نوجوانوں نے ماحول بنائے رکھا۔ جبکہ جمعیت القریش ، نونہال کمیٹی، ینگ بوائز سرکل، بزمِ صداقت، بریلی جماعت خانہ، بزمِ روشن، بزمِ اتحاد، بزمِ رہنما جیسی تنظیموں نے یہاں کی سماجی اور ثقافتی تاریخ مرتب کرنے میں نمایاں رول انجام دیا۔ یہاں کی مقبول و معروف سماجی و ثقافتی شخصیات میں غفور قریشی (1985ءمیں سب سے پہلے کونسلر بنے)مجید قریشی، حاجی غرایب حسین، غلام رسول قریشی، یوسف ہارون، رئیس قریشی، یوسف چندو،سوناجی، رشید مومن، نور محمد، قادر بابا انڈے والے، اقبال مجید قریشی، مختار ماما، غنی ماما، ایڈوکیٹ سعید قریشی، جبارہیرو،فدا حسین آرٹسٹ،خواجہ گائے والا،مرحوم سرفراز قریشی جنھوں نے ”میداس“ کے ذریعہ علاقہ کے کئی نوجوانوں کو خلیجی ممالک میں برسرِ روزگار کیا۔شائقینِ ادب میں یسیٰن ماسٹر، طاہر ماسٹر، مرحوم رشیدنانا، مرحوم معید ماسٹر ، نظر قریشی ، مرحوم لطیف سر، بشیر احمد ملّا ، قاسم ملّا، حسن قریشی، بشر قریشی، نور محمد، سیف اللہ، نور محمد چھتری والا، ہلال قریشی ، محبوب شیخ ، زندہ ولی ، چکوا سیٹھ ،ابراہیم گائے والا، نوشاد قریشی وغیرہ کے نام ذہن میں محفوظ ہیں۔ سیاسی و سماجی منظر نامے کے چند اہم ناموں میں موہن کھانولکر، بابو اشرف، شیخ احمد کانچ والا، سابق چیف منسٹر بابا صاحب بھونسلے، غلام رسول قریشی ، ایکناتھ کوپرڈے ، الپنا تائی پینٹر، مرحوم عبد الرﺅف پٹیل، تصدق خان ہینگر والے ، بشیر خان ہاتھی والایاد ہیں جبکہ بعد کے زمانے میں جو نسل سماجی میدان میں سامنے آئی اس میں وجے تانڈیل، سراج دیشمکھ، سراج ریتی والا، زرینہ قریشی، رضیہ عطار، حنیف قریشی، بادشاہ کیبل والا، رﺅف قریشی ، ایڈوکیٹ کونین، مقصود مچھی والا، راشٹروادی کے سرگرم لیڈر جناب رﺅف جمن قریشی وغیرہ جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ رہتے ہوئے بھی علاقے کی فلاح و بہبود میں متحد ہوکر کوشاں ہیں۔ اسٹیج اور فلم کی دنیا میں طیب قریشی، ، اقبال قریشی ، معراج صدیقی، عنایت، شکیل ایس ٹی ڈی اور اقبال نیازی کے نام اہم ہےں۔ کھیل کے میدان میں بھی اس علاقے کی بہترین کارکردگی میں اخلاق ناردمنی، مشتاق قریشی ، مرحوم لیاقت قریشی، جاوید مولانا، اخلاق قریشی، الطاف قریشی ، مرحوم حشم الدین ضمیر قاضی وغیرہ اپنے زمانے کے بہترین کھلاڑی کہلائے۔ سیاسی اعتبار سے یہ علاقہ ہمیشہ کانگریس ، مسلم لیگ اور جنتادل کے پرچم تلے رہا۔نواب ملک کے ایم۔ ایل۔ اے بن جانے کے بعد سے آج تک یہاں راشٹر وادی کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئیں اور نواب ملک نے اس علاقے کی شکل و صورت ہی بدل دی۔  اخبار فروش رشید قریشی اور اشوک کھرات ، چندکانت کامبلے کافی مقبول تھے جبکہ نتھودودھ والا کو بھی کافی شہرت حاصل تھی۔ پہلے ڈاکٹر ہونے کااعزا ز اسحاق ٹرام پٹّے کے بیٹے عمر قریشی کو ملا مگر افسوس انھیں ڈاکٹری راس نہ آئی ۔ ان کے طبی مشوروں نے اچھے خاصوں کو بیمار کردیا۔ بعد کے زمانے میں سلیم صدیق ، اخلاق قریشی نے اس میدان میں خوب نام کمایا۔ ڈاکٹر سلیم تو ان دنوں فوزیہ نرسنگ ہوم کے مینجمنٹ میں شامل ہیں۔ علاقے کے پرانے ڈاکٹرس ڈاکٹر شالی ، ڈاکٹر شرما، ڈاکٹر حفیظ ، ڈاکٹر قریشی، ڈاکٹر نور محمد کے نام اہم ہیں۔ بعد کے دور میں ڈاکٹر ذکر اللہ اور ڈاکٹر مبین نے اقراءسوسائٹی کے ذریعہ قریش نگر کی علمی و تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ فلاحی خدمات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔یہاں کے مشہور علمی اور مذہبی شخصیتوں میں پیرسیّد عبد الرحیم حسینی قادری قبلہ بغدادی صاحب کا ذکر ضروری ہے ۔ جن کا تعلق حیدر آباد سے تھا اور جن مریدین و معتقدین کثیر تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر بصیرت بھی ہے اور مروت بھی۔ الیکش کے دن کو یہاں کے لوگ اپنے خلوص اور جوش سے عید کا دن بنادیتے ہیں۔ یہاں کے ووٹ ہمیشہ فیصلہ کن رہے ہیں۔ قریش نگر سے متصل ایک پہاڑ ہے جس کی اپنی الگ دنیا ہے۔ ایک طرف حضرت ثناءاللہ باباؒ کی مزار، درمیانی علاقے میں لال ٹانکی ۔ کسی زمانے میںسے یہاں سودیشی مل کو پانی سپلائی کیا جاتا تھا آج وہ خشک ہوکر عید گاہ بن گئی ہے۔ پہاڑی کے آخری سرا جہاں سے اتریں تو چونا بھٹّی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی سرحد ہے جہاں فساد کے زمانے میں تناﺅ رہتا ہےحالانکہ دوران فساد فساد قریش نگرایک محفوظ قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور ان حالات میں ریلیف کیمپ کا کام انجام دیتا ہے۔  اس علاقے کو قریش برادری نے بسایا اسی لیے یہ علاقہ برسوں تک قصائی واڑہ کہا جاتا رہا۔ تہذیبی قدروں کے عروج نے اسے قریش نگر بنادیا۔ لیکن آج بھی یہاں سلاٹر ہاﺅس کا نشان ایک گوشت مارکیٹ کی شکل میں قائم ہے۔ جہاں گوشت فروخت نہیں ہوتا البتہ ٹیرس پر ایک جماعت خانہ قائم ہے جہاں روز چہل پہل رہتی ہے۔ جہاں پرانا سلاٹر ہاﺅس تھا وہاں اب میونسپل اسکول بن چکی ہے۔ قبرستان کے دروازے پر حافظ باباؒ کی درگاہ ہے قبرستان میں داخل ہوں تو ایک میونسپل اسکول کی پرانی عمارت جس کے پڑوس میں یوسف گورکن رہتا ہے پتہ نہیں وہ زندہ ہےیا اسے بھی کوئی گورکن مل گیا۔ البتہ اُس کے وہ پرانے برگے آج بھی یاد آتے ہیں جو پتہ نہیں وہ کہاں سے لایا کرتا تھا۔ ہم لوگ اکثر قبرستان میں پڑھائی کے لیے جایا کرتے تھے ہم نے چوری سے ایک مچان بنا رکھا تھا۔ اور ’مشتاق باس‘ نے چور کنکشن دلواکر لائٹ مہیا کرادی تھی۔ میرے ساتھیوں نے حنیف قریشی ، اقبال قریشی ، نعیم اور ڈاکٹر سلیم نے اس قبرستان میں ”اسٹڈی روم “ بنا رکھا تھا۔ کافے ملن ہوٹل کے اوپر میونسپل اسکول جہاں کا میں پسندیدہ طالب علم تھا اور اساتذہ روزآنہ قبرستان میونسپل اسکول میں لیڈیس ٹیچرس کے لیے میرے ہاتھ کتابیں بھجوایاکرتے تھے۔ کتابوں کے لین دین کا یہ راز بعد میں مجھ پر کھلا۔ جب میں نے بشیر بدر کا یہ شعر پڑھا:پڑھائی لکھائی کا موسم کہاں کتابوں میں خط آنے جانے لگے ہماری اسکول کے سامنے سراج ماموں کی لائبریری تھی، سٹیزن لائبریری ، جہاں صرف ابنِ صفی رہتے تھے۔بعد میں یہ لائبریری ہم نے خرید لی اور اس سے ہونے والی آمدنی سے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔ یہ لائبریری دراصل ایک ادبی اور سماجی نکڑ تھی جہاں مرحوم لیاقت قریشی ، جاوید مولانا ، طیب قریشی ، قادر بابا انڈے والے(جو اب لیپک نامی میڈیکل چلاتے ہیں) اخلاق قریشی، مشتاق نیگرو، نذر کاتب، چاند قریشی اکثر جمع رہتے۔ لائبریری چونکہ بہت پرانی تھی اس لیے اکثر ناول بوسیدہ حالت میں تھے۔ جب ناول کے ابتدائی اور آخری صفحات کتاب سے الگ ہوجاتے تو پہچاننا مشکل ہوجاتا کہ کتاب کا نام کیا ہے۔ اور مصنف ایسے میں خاص طور پر مقصود مچھلی والا آتے اور کتاب الٹ پلٹ کر فوراً بتادیتے کہ ابن صفی کی آخری شعلہ ہے۔ لائبریری کے بائیں جانب کاف ملن سے لگ کر بُک بائنڈر یوسف خیرو تھےجن کے ماتھے سے پسینہ کے ساتھ پریشانی اور جھنجھلاہٹ جھلکتی تھی۔ جسے مرحوم لیاقت قریشی ہمیشہ اپنی شرارت کا مرکز بناتے تھے۔ دائیں جانب ایک بریج تھا جو قریش نگر سے تکیہ واڑ کو جوڑتا تھا۔ بریج کے نیچے تنظیم القریش کی آفس تھی۔ نونہال کمیٹی کا اسٹڈی سینٹر اب وہاں لطیف کے کپڑوں کی دکان ہے۔ ڈاکٹر فاروق کا مشہور دوا خانہ لائبریری کے سامنے تھا۔ ایک مشہور ٹیلر تھے ہم نے ان کا نام Anytimeٹیلر رکھا تھا۔ کپڑا دیجئے، نہا دھوکر آئیے اور پہن لیجئے یہ ان کی خوبی تھی۔ قبرستان روڈ پر نذر قریشی کی الفتح بیف شاپ ، جہاں شاعروں اور ادیبوں کو خصوصی رعایت اور عمدہ گوشت کی سہولت تھی اس کے قریب ہی مرحوم بقا بھائی کی دکان تھی۔ بقا بھائی ڈیل ڈول کے اعتبار سے فلمی پہلوان شیٹی لگتے تھے، لیکن مزاج دلیپ کمار کا سا تھا۔ جن دنوں دلیپ کمار کی فلمیں ریلیز ہوتیں ، بقا بھائی سفید کپڑوں میں ملبوس اپنی دکان پر بڑی شائستگی سے بیٹھتے اور اسی شائستگی سے گاہکوں سے پیش آتے۔ ہم مانتے ہیں کہ اس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا بقا بھائی کا انداز ___لوگ گوشت خریدنے کم ، ان کی گلابی اردو سے محظوظ ہونے زیادہ آتے تھے۔ قریش نگر کے پکوان بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب یہاں دیونار تھا تو ہر گلی مسے ”چُری“ کی خوشبو بھری آوازیں آتی تھیں۔جلیل بھائی اور ابوبکر کے پان ، بریلی ہوٹل کا قیمہ گھٹالا، مرفی ہوٹل کی چائے، رمضان کے مہینے میں محلہ صبح تک جاگتا ہے۔ شام میں بھی فروٹ اور رگڑے بھجیئے کی دکانوں سے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ برف اور فالودے کی دکانیں جگہ جگہ روزہ داروں کا استقبال کرتی ہیں۔ بڑی راتوں میں قبرستان آنے والوں کا رش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ محرم کے دوران مجالس ، جلوس ،تعزیہ کا اہتمام یہاں کی خصوصیت ہے۔ خاص طور پر حسینی گارڈن میں جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آتے۔ یہاں کے نوجوانوں میں مذہبی اور سماجی جذبہ کوٹ کوٹ بھرا ہو اہے۔ الیکشن کے دوران یہ جوش اور جذبہ اور بھی ابھر آتا ہے۔ سماجی و فلاحی اداروں کے قیام میں بھی یہ علاقہ دوسروں سے مختلف ہے۔ یہاں ہر گلی میں ایک ادارہ قائم ہے۔ اسلامی سینٹر کے قیام کے بعد یہاں کی دینی و مذہبی قدروں میں قابل ادر اضافہ ہوا۔ اسی سے جڑے نوجوانوں نے آج ”بیت المال“ بناکر ہزاروں ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کررہے ہیں۔ خاص طور پو اقبال قریشی ، طیب قریشی ، محمد عباس اور شکیل و دیگر رفقاءہرماہ یہ کام پابندی سے کررہے ہیں۔ مرکز کے ذمہ داروں ہی نے گرین ممبئی کے نام سے یہاں ایک اردو اسکول شروع کیا ہے جو آج سکنڈری اسکول تک پہنچ گیا ہے۔ پرنسپل صدیقی صاحب نے اس اسکول کے فروغ میں نمایاں حصّہ لیا۔ جبکہ یہ اسکول نور محمد، سیف اللہ ، شیخ محبوب ، ہلال قریشی، بشر قریشی اور آصف قریشی کی محنتوں کا ثمر ہے۔ انگریزی میڈیم کا وویک اسکول بھی یہاں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کررہا ہے ۔ اس اسکول کے قیام میں جناب بابو قریشی اور ان کے خاندان کا اہم رول رہا ہے ۔جہاں پہلے دیونار تھا ، وہاں اب میونسپل اسکول کی شاندار عمارت ہے۔ اس اسکول میں بھی کئی اہم شاعر و ادیب مدرس کے طور پر آئے گئے۔ خاص طور پر مرزا حفاظت بیگ ماہر، برسوں تک اس اسکول میں مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بنگڑی چال بھی منفرد خصوصیت کی حامل ہے۔ یہاں ایک زمانے تک خاندیش اور ودربھ کے لوگ آباد رہے۔ حمید ادیبی، تنویر عالم، قیوم اثر اور نہ جانے کتنے ادیب و شاعر کا ٹھکانہ یہیں رہا۔ گذشتہ دنوں بھساول کے ہمارے ایک پرانے دوست جناب قدیر احمد سے ملاقات ہوئی جو ریلوے کی سروس سے ریٹائر ہوئے ۔ وہ بھی ایک عرصہ تک بنگڑی والا چال میں رہے۔ انھوں نے جب قریش نگر کے لوگوں کو یاد کیا تو کئی چہرے میری آنکھوں میں ابھرے۔ جن کا ذکر اس مضمون میں میری کم علمی کے باعث نہ آسکا۔ بہرحال قریش نگر کی گوناگوں خصوصیات ہیں جن کے بیان کے لیے ایک کتاب درکار ہے۔ قریش نگر جہاں ختم ہوتا ہے ، اب وہاں بنٹر بھون قائم ہے۔ کشادہ و خوبصورت ہال جہاں اردو کے تہذیبی اور سیاسی پروگرام ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اقراءایجو کیشن کے سالانہ تقسیم انعامات کا جشن بڑے سلیقے سے منایا جاتا ہے ، جہاں قریش نگر کے کامیاب طلباءکی پذیرائی کی جاتی ہے۔ نواب ملک سے پہلے اور نواب ملک کے بعد قریش نگر کو ہم ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس درمیان قریش نگر میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ خاص طور پر قبرستان کی از سرِ نو تعمیر نے یہاں رہنے والوں کی تکالیف کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سڑکیں اب بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات نے بی ایس ٹی بس کو علاقے میں آنے نہیں دیا۔ گوشت کا کاروبار جو یہاں کی پہچان تھی اب رفتہ رفتہ ختم ہوچکا ہے۔ قریش برادری نے اپنی اپنی چالیوں میں بلڈنگیں بنالی ہیں۔ پانی کی نکاسی کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے گلیاں اب بھی تنگ و تاریک نظر آتی ہیں۔ باوجود ان مشکلات کے یہ علاقہ اب بھی دوست پرور ہے۔ فسادکے زمانے میں یہ ریلیف کیمپ بن جاتا ہے۔ قریش نگر سے لگ کر ایک بستی ہے عمر واڑی، اور کھاپر واڑی ۔ یہاں اب بلڈنگیں تعمیر ہوگئی ہیں۔ یہ دراصل قریش نگر کا سرحدی علاقہ ہے۔ درمیان میں ریل کی پٹری ہے، اُس طرف نہرو نگر ہے۔ فساد کے زمانے میں پٹریوں کے کنارے بچھے پتھر فسادیوں کے بہت کام آتے رہے۔ قریش نگر پر بزرگانِ دین کا بھی خاص کرم رہا ہے۔ حافظ بابا کی درگاہ سے شروع ہوکر چونا بھٹی کی درگاہ پر ختم ہونے والا یہ علاقہ جسے حضرت شفاءاللہ بابا کے پہاڑ نے اپنے دامن میں محفوظ کرلیا ہے، کئی علماءو مشائخ کی آماجگاہ رہا ہے۔ خاص طور سے حیدر آباد کے سیّد پیر بغدادی صاحب ایک عرصہ تک یہاں مقیم رہے اور ساکنان قریش نگر قلوب کو اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرتے رہے۔ مولانا اسمعیل نے مذہبی محفلوں کو اجالا دیا۔ نوجواں نعت خواں کریم اللہ قادری کی آواز مائک پر گونجتی تو سماں بندھ جاتا ۔ ایک مدت تک عید میلاد النبی کے موقع پر خوش بیاں مقرر مولانا محترم ہاشمی میاں ، عبید اللہ خاں اعظمی اور اعجاز کامٹوی یہاں بیان فرماتے رہے۔ مرکز کی وجہ سے جماعت کے کاموں میں تیزی آئی بالخصوص میر خان اور ان کے ساتھیوں نے یہاں کے ماحول میں دینی اور مذہبی بیداری کو فروغ دیا۔ قریش نگر صرف ایک علاقہ نہیں بلکہ چھوٹی سی ایک دنیا ہے۔ الگ الگ خیالات کے ساتھ بھی یہاں کے لوگ متحد ہیں۔ غم اور خوشی میں یہ اتحاد ابھر کر سامنے آتا ہے۔ بہت سے لوگ نقل مکانی کا شکار ہوئے لیکن ان کا دل بھی قریش نگر کی گلیوں میں دھڑکتا ہے۔ شادی بیاہ یا موت مٹی کے موقع پر سارے قریش نگری ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے ہیں اور آئندہ پروگرام کی اطلاع اور دعوت دیتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں۔

٭٭٭

ڈاکٹر قاسم امام ایم شاعر ہونے کے علاوہ ایک عمدہ نثر نگار بھی ۔فی الحال ممبئی کے معروف کالج ’’برہانی کالج آف کامرس اینڈ آرٹس میں صدر شعبہ اردو ہیں۔