Selected Poetry of Akhtar Muslami

Articles

اختر مسلمی


اختر مسلمی کا منتخبہ کلام

اختر مسلمی کا نام عبید اللہ اور آبائی وطن پھریہا (اعظم گڈھ) تھا۔ یکم جنوری 1928 کو اعظم گڈھ کے مردم خیز گاﺅں مسلم پٹی میں آپ کی ولادت ہوئی اسی نسبت سے خود کو مسلمی لکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد حافظ عطاءاللہ صاحب سے حاصل کی، بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے انھوں نے 1938میں اپنے علاقہ کی مشہور دینی درسگاہ مدرسة الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڈھ میں داخلہ لیا اور 11 سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا۔ اختر مسلمی کی شاعری کی ابتدا بہت کم عمر میں ہوگئی تھی. 12 برس کی عمر میں وہ باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے۔ مشاعروں میں اختر مسلمی کی شرکت، مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔ اختر مسلمی کے دو شعری مجموعے ”موجِ نسیم“ (1961) اور ”موجِ صبا“ (1981) ان کی زندگی میں شائع ہوگئے تھے جب کہ تیسرا شعری مجموعہ ”جام و سنداں“ ان کی وفات کے بعد ”کلیات اختر مسلمی“ میں شامل کردیا گیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن 2013 میں شائع ہوا۔ کلیات اختر مسلمی کا دوسرا ایڈیشن بھی 2017 میں منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اختر مسلمی نے مادرِ علمی مدرسة الاصلاح کا ترانہ بھی لکھا جو کلیات اختر مسلمی میں اصلاحی ترانہ کے عنوان سے شامل ہے۔ 25 اپریل 1989ءکو یہ آفتاب علم و دانش ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔

 

٭٭٭

آلودہِ غبار ہے آئینہِ حیات
اے گردشِ زمانہ کوئی تازہ واردات

ذرّوں پہ خندہ زن ہو نہ خورشید کائنات
ہے اس کو کب ثبات جو ان کو نہیں ثبات

پی جاﺅ اس کو گھول کے جامِ شراب میں
حد سے گزر گئی ہو اگر تلخیِ حیات

گھبرا کے مر تو جائیں غمِ زندگی سے ہم
مر کر بھی زندگی سے نہ پائیں اگر نجات

انساں کے دل کا حال بھی کتنا عجیب ہے
مانے تو ایک بات نہ مانے تو لاکھ بات

رنگتے ہیں لوگ اس کو فسانہ کے رنگ میں
لاتا ہے کون لب پہ محبت کے واقعات

اختر زباں سے بھی نہ کرو اس سے عرضِ حال
چہرے سے جو سمجھ نہ سکے دل کی کیفیات

٭٭٭

اے دلِ بے خبر ابھی کیا ہے
جانتا بھی ہے عاشقی کیا ہے

سبب جورِ بے رُخی کیا ہے
کچھ کہو وجہِ برہمی کیا ہے

جانے والا چلا گیا اب تو
نگہِ شوق دیکھتی کیا ہے

یاد مونس ہے غم گُسار ہے دل
شامِ فرقت میں بے کسی کیا ہے

جی رہا ہوں ترے بغیر مگر
اِک مصیبت ہے زندگی کیا ہے

جُز ترے کیا طلب کروں تجھ سے
مجھ کو تیرے سوا کمی کیا ہے

پَرتوِ حُسن روئے دوست ہے یہ
ماہ و انجم میں روشنی کیا ہے

دوستی میرے بخت سے ہے تجھے
مجھ سے اے نیند دشمنی کیا ہے

اپنے بس ہی کی جب نہیں اختر
ہائے ایسی بھی زندگی کیا ہے

٭٭٭

ازل سے سر مشق جور پیہم خَدنگ آفات کا نشانہ
میں سر سے پا تک ہوں نالہِ غم سناﺅں کیا عیش کا ترانہ

سنا تو میں نے بھی ہے کہ دامِ قفس کو ٹوٹے ہوا زمانہ
تمیز لیکن نہ کرسکا میں کہ یہ قفس ہے کہ آشیانہ

عجیب الجھن میں تو نے ڈالا مجھے بھی اے گردشِ زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ

اگر ارادے میں پختگی ہے تو پھیر دوں گا رُخِ زمانہ
جہاں پہ یورش ہے بجلیوں کی وہیں بناﺅں گا آشیانہ

مصیبتوں کے گِلے عَبث ہیں فضول ہے شکوہِ زمانہ
جو مجھ سے پوچھو تو میں کہوں گا کہ ہے یہ عبرت کا تازیانہ

اسیر زنداں تھے جیسے پہلے وہی ہیں حالات اب بھی لیکن
ہے فرق اتنا کہ ہم سمجھنے لگے قفس ہی کو آشیانہ

نہ مجھ کو پروا خِزاں کی ہوتی نہ خوف صیّاد و برق ہوتا
بدل لے اے کاش کوئی اپنے قفس سے میرا یہ آشیانہ

وفا تو میری سرِشت میں ہے وفا پرستی شعار میرا
جفائیں تم اپنی دیکھو پہلے، وفائیں میری پھر آزمانہ

ہے میرا ذوق سجود اب بے نیاز دیر و حرم سے اختر
جبیں جہاں خم کروں گا ہوگا وہیں نمودار آستانہ

٭٭٭

کون ہے جو چمن میں پریشاں نہیں
باغباں پھر بھی خوش ہے پشیماں نہیں

دیکھتے ہو گلستاں میں جو روشنی
بجلیاں ہیں یہ شمعیں فروزاں نہیں

دیکھیے اس کی بے رَہ روی دیکھیے
جیسے کشتی کا کوئی نگہباں نہیں

ہم بنا کر نشیمن خطاوار ہیں!
پھونک کر گلستاں تم پشیماں نہیں

خوف طوفاں سے لرزاں ہو ساحل پہ تم
گھِر کے موجوں میں بھی میں ہراساں نہیں

جب گریباں تھا دستِ جنوں ہی نہ تھا
آج دستِ جنوں ہے گریباں نہیں

اس قدر بڑھ گئی ظلمتِ شامِ غم
آسماں پر ستارے درخشاں نہیں

کیسی اختر چمن میں بہار آگئی
بلبلیں نالہ زن ہیں غزل خواں نہیں

٭٭٭

 

آئینِ جفا ان کا سمجھے تھے نہ ہم پہلے
ہوتا ہے ستم پیچھے کرتے ہیں کرم پہلے

کیوں سیرِ گلستاں پر ہے چیں بجبیں کوئی
زنداں میں بھی رکّھا تھا میں نے ہی قدم پہلے

آباد رہیں دونوں بُت خانہ بھی کعبہ بھی
یہ بات نہ تھی تم میں اے شیخِ حرم پہلے

ہنستے ہیں گلستاں میں پھر جاکے کہیں غنچے
کرتی ہے دُعا شبنم بادیدہِ نم پہلے

ہوتی نہ اگر کُلفت کیا لطف تھا راحت میں
رہتی ہے مسرّت بھی منّت کشِ غم پہلے

کوشاں ہیں نکلنے کو یوں جاں بھی تمنّا بھی
وہ کہتی ہے ہم پہلے یہ کہتی ہے ہم پہلے

ہے نورِ حقیقت کا جویا تو مگر زاہد
اس راہ میں ملتے ہیں انوارِ صنم پہلے

برہم انھیں کرنے کی مجرم مری آنکھیں ہیں
کچھ کہہ نہ سکا اُن سے یہ ہوگئیں نم پہلے

بخشا ہے محبت نے کچھ رنگِ اثر شاید
تھا تم میں کہاں اختر یہ زورِ قلم پہلے

٭٭٭

لذّتِ درد ابھی تک دلِ نخچیر میں ہے!
ہائے کیا چیز نہاں تیرے سرِ تیر میں ہے

ناز ہے اپنی اسیری پہ دلِ ناداں کو!
جانے کیا بات تیری زلفِ گرہ گیر میں ہے

التفات آنکھوں میں چہرے پہ مروّت کی ضیا
تجھ میں وہ بات نہیں جو تری تصویر میں ہے

کیا کروں لے کے مسیحا نفسوں کے احساں
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے

جورِ اغیار نہیں اپنوں کی بیداد تو ہے
آج بھی پاﺅں مرا حلقہ¿ زنجیر میں ہے

دیکھ صیّاد ترا عیش نہ برہم ہو جائے
اتنی تاثیر ابھی نالہِ شب گیر میں ہے

دل لیا جان بھی لی اور بھی کچھ باقی ہے
کیوں ترا ہاتھ ابھی قبضہِ شمشیر میں ہے

ایک دھوکا ہے غمِ دل کا مداویٰ اختر
نا مرادی ہی ازل سے مری تقدیر میں ہے
٭٭٭

یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی یہ سکون بخش سائے
رہِ عشق کے مسافر تجھے نیند آ نہ جائے

یہ چمن، یہ تم، یہ موسم، یہ حسیں گُلوں کے سائے
میرا عہد پارسائی کہیں پھر نہ ٹوٹ جائے

جسے لذّتِ اسیری ہی ازل سے راس آئے
ترے دامِ زلف پُرخم سے کہاں نکل کے جائے

مرا دل پناہ دے گا مرے دل میں سر چھپائے
ترا تیر چشمِ ساقی جو کہیں اماں نہ پائے

یہ کرم نُما نگاہیں یہ وفا نُما تبسُّم!
کوئی جیسے ہلکے ہلکے مرے دل کو گد گدائے

مرے دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے دینے والے تسکیں
کہیں دل کی دھڑکنوں سے تجھے چوٹ آنہ جائے

یہ خلش، یہ سوزِ پنہاں، یہ جگر کے داغ تاباں
تمھیں منصفی سے کہہ دو کوئی کیسے مُسکرائے

شبِ غم نکل پڑا تھا مرے دل سے ایک نالہ
مجھے ڈر ہے ان کو یا رب کوئی آنچ آ نہ جائے

مری شاعری سے رغبت کبھی بے سبب نہیں ہے
اسے کیا پڑی ہے اختر مرا شعر گنگنائے
٭٭٭

لوگ یوں رازِ تعلق پاگئے
تذکرہ میرا تھا تم شرما گئے

پُرسشِ غم آپ یوں فرما گئے
جام میرے ضبط کا چھلکا گئے

کیا ستم ہے آئے بیٹھے چل دیے
تم تو آکر اور بھی تڑپا گئے

کیا خبر تھی سنگ دل نکلو گے تم
ہم تو اس صورت سے دھوکا کھا گئے

ان کی زلفیں ہی نہ سلجھیں اور ہم
داستانِ زندگی دہرا گئے

اس نے دیکھا مجھ کو اس انداز سے
کچھ جبینوں پر کئی بل آگئے

ہم کو سودا عشق کا مہنگا نہیں
کھوئے کچھ اس راہ میں کچھ پاگئے

٭٭٭

کہاں جائیں چھوڑ کے ہم اُسے کوئی اور اس کے سوا بھی ہے
وہی دردِ دل بھی ہے دوستو وہی دردِ دل کی دوا بھی ہے

مری کشتی لاکھ بھنور میں ہے نہ کروں گا میں تری منَّتیں
یہ پتا نہیں تجھے ناخدا میرے ساتھ میرا خدا بھی ہے

یہ ادا بھی اس کی عجیب ہے کہ بڑھا کے حوصلہ¿ نظر
مجھے اذنِ دید دیا بھی ہے مرے دیکھنے پہ خفا بھی ہے

مری سمت محفل غیر میں وہ ادائے ناز سے دیکھنا
جو خطائے عشق کی ہے سزا تو میری وفا کا صلہ بھی ہے

جو ہجومِ غم سے ہے آنکھ نم تو لبوں پہ نالے ہیں دم بدم
اسے کس طرح سے چھپائیں ہم کہیں رازِ عشق چھپا بھی ہے

یہ بجا کہ اخترِ مسلمی ہے زمانے بھر سے برا مگر
اسے دیکھیے جو خلوص سے تو بھلوں میں ایک بھلا بھی ہے

٭٭٭

گل ولالہ ہیں نہ طیور ہیں سبھی اس چمن سے چلے گئے
ہوئے کس عذاب میں مبتلا کہ یہ خود وطن سے چلے گئے

وہ نیاز ہے، نہ وہ ناز ہے، نہ وہ سوز ہے، نہ وہ ساز ہے
یہ بتا کہ اہلِ وفا کہاں تری انجمن سے چلے گئے

نہ جفا تھی میرے لیے جفا نہ ستم کو میں نے ستم کہا
جو گماں تھے تیری اداﺅں پر مرے حسنِ ظن سے چلے گئے

نہ وہ رنگ ہے، نہ وہ نور ہے، نہ وہ دل کشی کا سرور ہے
یہ نہ جانے کس لیے روٹھ کر گل و یاسمن سے چلے گئے

ترے غم کے ساتھ چلی گئی نہ رہی وہ رونقِ زندگی
سبھی عکس حسنِ خیال کے مرے فکر و فن سے چلے گئے

کہو اُس سے اخترِ مسلمی نہ رہے گی پھر یہ ہما ہمی
جو خدا نہ خواستہ ہم کبھی تری انجمن سے چلے گئے
٭٭٭