Language and Border Short Story by Sheerko Fateh

Articles

سرحد اور زبان

شیرکو فتح

کہانی کا محلِ وقوع ایران، عراق اور ترکی کی سرحدیں ہیں جہاں ایک عراقی کرُد بطور اسمگلر اپنے شب و روز گزار رہا ہے۔ایک سابق فوجی سے زمینی سرنگوں کا نقشہ خرید لینے کے بعد یہ اسمگلر جنگ زدہ سرحدوں کی طرف نکل پڑتا ہے تاکہ وہاں سے عیش وآرام کے سازوسامان اپنے ملک میں لا سکے۔اپنے ہر سفر کے دوران وہ بارودی سرنگوں کو زمین سے اوپر لے آتا اور واپسی کے سفر میں انھیں دوبارہ دفن کردیا کرتاتھا۔وہ کسی کتاب کی طرح ویران زمین کا مشاہدہ کرتا اور وہاں واقع ہونے والی تمام تر تبدیلیوں پر توجہ دیتا۔سرحد پر اُس کا ہر سفر زندگی سے موت کے سفر کی طرح ہوتا۔
اسمگلر ڈھلوان سے نیچے اترا اور بارودی سرنگوں کی طرف جانے لگا۔وہ پوری توجہ کے ساتھ گن گن کر اپنے قدم رکھ رہا تھا۔گلِ بہار اپنی پوری تروتازگی کے ساتھ کِھلا ہوا تھا۔ ہوائوں نے گھاس کی پتّیوں کو سیدھا کر رکھا تھا۔گھاس کی یہ پتیاں پورے میدان میں اُگی ہوئی تھیں اور اپنے آپ کو پتھروں بھری اُس چراگاہ میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں جو عمودی شکل میں پہاڑوں تک جاتی تھی۔اُس کے پیچھے ایک بڑا سا ٹیلہ اور ایک راہداری تھی۔شاید بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والے یہاں ابھی نہیں آئے تھے۔یہاں نہ کسی قسم کی روکاوٹیں تھیں اور نہ ہی وارننگ بورڈ۔
اسمگلر چراگاہ کے کنارے پر پہنچ کر رک گیا۔پھر کچھ دور دوسری جانب چلنے کے بعد وہ پیچھے ہوا،تاکہ اندر جانے کے لیے صحیح مقام کا انتخاب کر سکے۔وہاں موجود پتھروں کی جگہیں اور محلِ وقوع اُس کے لیے کسی سراغ سے کم نہیں تھے۔اُسے جلد ہی اُس مقام کا پتہ چل گیا جس کی اُسے تلاش تھی۔چراگاہ اب بھی ویسی تھی۔آہنی سلاخ اٹھا کر اُس نے ایک مرتبہ اور اپنے اطراف میں نظر ڈالی۔
ڈھلوان کے اوپر سے بھورے نیلے رنگ کا ایک ٹیلہ نمودار ہو رہا تھا۔اُس کے اوپر سطح مرتفع کسی منبر یا چبوترے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔دو بدنصیب اور تقریباً عریاں درختوں کی شاخیں گھاٹی میں لٹکتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔اُس نے راتوں میں آنے والی آوازوں کے بارے میں سوچا پھر یہ محسوس کیا کہ جب وہ اپنے گھر سے جدا ہوا تھا تب شاید اُس نے کوئی چیز اپنے پیچھے چھوڑ دی تھی۔
اپنی پشت پر لدے ہوئے بیگ کو برابر کرتے ہوئے اُس نے چراگاہ پر رینگنا شروع کیا۔دور سے یہاں گھنی ہریالی محسوس ہوتی تھی جبکہ گھاس کی پتیوں نے زمین کے کچھ ہی حصے کو ادھر اُدھرسے ڈھانپ رکھا تھا۔اِسی وجہ سے یہ قطعۂ زمین اُس کے لیے تکلیف دہ بن چکا تھا۔یہ حصہ جیسا نظر آتا تھا اِس کے برعکس یہ اُن تمام بارودی سرنگوں کے لیے مثالی بھی تھاجنھیں ایک کے اوپر ایک تین پرتوں میں رکھا جاتا ہے۔اِس کا ابھاراور نوکیلا حصہ اوپر کی جانب تھا تاکہ مٹی پربارودی سرنگوں کی پکڑ مضبوط رہ سکے۔اسی ترکیب کی بنا پر یہ بارودی سرنگیں بمشکل انسانی پنجوں سے بڑی تھیں اور دیکھنے میں کھلونے کی طرح نظر آتی تھیں۔
بارودی سرنگوں کو کھودنے کے بعد ،اسمگلر کوہمہ وقت اِس حالت کی سنگینی کا احساس رہتا۔جب اُس نے اُس سرنگ پر لکھے ہوئے الفاظ کی اُس جگہ شناخت کی جہاں انسانی قدم سرنگ کی سب سے اوپر والی پرت یا ڈسک پر پڑتے ہیں۔ ان تحریروں میں کوئی دلکشی نہیں تھی اور یہ محض لفظی علامتیں تھیں۔انھیں مٹی سے ڈھکے ہوئے بھورے ہرے رنگ کے حصّے پر کنندہ کیا گیا تھا اور یہ پڑھنے کے لیے بھی نہیں تھیں۔ انھیں اِس طرح سے کنندہ کیا گیا تھا کہ یہ دھماکے کی صورت میں زخم اور درد کا پیغام دیتے ہوئے غائب ہوجائیں۔یہ کنندہ تحریریں شاید دھماکہ ہونے سے پہلے کی الٹی گنتی تھیں۔
اسمگلر نے گھٹنوں کے بل ہوتے ہوئے اپنے سر کو زمین کے قریب کیا۔
اپنی ہیٹ سے چھُو کر اُس نے اپنے سامنے ایک نشان زدہ راستہ دیکھا جو آگے جانے کے بعد تنگ ہوجاتا ہے۔اُن سنگریزوں نے اُس کی مدد کی جنھیں جگہ یاد رکھنے کے لیے ایک خاص مقام پر رکھ دیا گیاتھا۔لیکن اب اُن مقامات کے ہرسینٹی میٹر کو اُسے اپنی یاداشت میں لانا تھا۔ایک مرتبہ وہ اُن سے ٹکرایا بھی لیکن فوراً رک گیا اور اپنے کوٹ کی جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالااور اُس کی مدد سے سامنے کی جگہ کا موازنہ کرنے لگا۔ سنگریزوں کا مقام اور کاغذ پر بنی ہوئی ڈرائنگ اُسے یکساں نظر آنے لگی۔اُس نے کاغذ کے اُس ٹکڑے کو موڑ کر واپس رکھ دیا۔اُس کے بعد اُس نے اپنی ہیٹ ہٹا لی اور اپنی ہتھیلی کے پچھلے حصّے سے اپنی پیشانی صاف کرنے لگا۔پھر اُس کے بعد اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال تلاش کیا اور اپنے چہرے کو صاف کیا۔اس کے بعد اُس نے رومال کو اپنے سر پر اس طرح سے رکھا کہ اُس کی پیشانی بھی چھپ گئی۔پھر اپنی ہیٹ کی مدد سے اُسے اور محفوظ کرلیا۔
پوری توجہ کے ساتھ وہ آگے جھکا اور اپنی کہنیوں کو زمین پرآرام سے رکھ دیا۔اب وہ اپنے اطراف کے ہر سینٹی میٹر کا دوبارہ مشاہدہ کر رہا تھا۔اُس نے جب یہ سوچا کہ وہ صحیح جگہ پر ہے تب اُس نے کچھ لمحوں کے لیے ایک مرتبہ اور اپنی آنکھیں بند کرلی۔ اُس کے بعد اس نے آہنی سلاخ کومخصوص زاویے پر ایک ایک ملی میٹرتک کھینچنے کی کوشش کی۔پسینہ اُس کی کنپٹی سے بہہ رہا تھا۔ وہ باریک سے باریک مزاحمتوں کو روکنے کے لیے تیار تھا اگرچہ وہاں کی مٹی اِس کا سبب نہیں تھی۔مزاحمت کو محسوس کرنے کا کام اُس نے اپنی انگلیوں سے اِس طرح سے شروع کیا جیسے کہ وہ اُس کی شدّت کو اور بڑھا رہا ہو۔ آہنی سلاخ کو دوبارہ اسی راستے پر رکھ دیا گیا۔وہ ایک خاص زاویے پر سطح سے بالکل قریب پڑی ہوئی تھی ۔ اگر اِس طرح سے آہنی سلاخ اوپر آجائے تب یہ بارودی سرنگ کے اُس کنارے سے مَس ہو سکتی ہے جہاں سرنگ کا ابھار ہے۔ اب اُسے یقین ہو گیا کہ سلاخ کی نوک کسی چیز سے مَس ہوئی ہے۔دوبارہ رکتے ہوئے ایک لمحہ توقف کے بعد اسمگلر نے اپنے اوزار کو زمین سے باہر نکالااور اپنے سامنے رکھا۔اب اُس نے باریک سوراخ کو کھودنا شروع کیااور اپنی انگلیوں سے مٹی کے ڈھیر کو کنارے لگانے لگا۔باریک سوراخ نے مخروطی روشن دان کی شکل اختیار کر لی تھی۔بارودی سرنگ کا کمزور حصّہ کسی تباہ شدہ عمارت کی طرح گرنے لگا۔آہستہ آہستہ صاف کرنے پر سرنگ واضح نظر آنے لگی۔اسمگلر نے اپنے سر کو جھکاتے ہوئے دوسری ڈسک پر سے ریت ہٹائی۔وہ چاہتا تھا کہ پھونک کر پوری مٹی صاف کردے لیکن وہ اوپر سے زور نہیں لگا سکتا تھا اور کسی بھی حال میں کوئی خطرہ اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا۔نیچے کی ڈسک کو مکمل طور پر کھول دینے کے بعداُس نے اپنے جسم کا اوپری حصّہ اوپر اٹھایا اور اپنے شانوں کو بالکل سیدھا کر لیا۔اب نیچے نظر کرکے اُس نے اپنے مقصد کی طرف دیکھا۔ اُسے اپنا مقصد صاف نظر آرہا تھا۔اس کی حالت قابلِ رحم ہوچکی تھی مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جیت پر خوش بھی تھا۔ یہ جیت کسی جال سے بچ نکلنے اور خود پر منحصر ہونے کے احساس پر مبنی تھی۔ وہ گہری سانسیں لینے لگا،پھر اپنی سانسوں کو روک لیا۔ اب وہ اپنی کہنیوں کے سہارے زمین پر آرام نہیں کر رہا تھا بلکہ آگے کی جانب جھک کر اُس نے اپنی دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ڈسک کے نچلے سرے تک پہنچا دیا تاکہ وہ بارودی سرنگ کو چاروں جانب سے اوپر اٹھا سکے۔جب اُس نے بارودی سرنگ کو آہستہ سے زمین سے اوپر اٹھایاتب اُسے معمولی سا ٹیڑھا کیا جس کی وجہ سے ڈسک پر موجود باقی کی مٹی بھی نیچے گر گئی۔اب اُس نے بارودی سرنگ کو اپنے پیر سے تیس سینٹی میٹر دور نہ نظر آنے والی ایک پگڈندی پر رکھ دیااور اِس بات کو یقینی بنایا کہ گھاس اُسے چھو نہ سکے۔اُس نے نمک سے بھرا ہوا کاغذی بیگ نکالا اور اُس مخروطی روشن دان میں کچھ نمک انڈیل دیاتاکہ واپسی کے سفر میں وہ اِس سوراخ کا آسانی کے ساتھ پتہ لگا سکے۔ اگر ہوا نمک کو ادھر اُدھر پھیلا بھی دیتی ہے تب بھی وہ بآسانی اُس کی شناخت کر سکتا ہے۔یہ نشانی صرف اُسی شخص کو دیکھائی دے سکتی تھی جو اپنے سر کو زمین کی جانب جھکا لے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اُس نے کاغذ کے ٹکڑے پر ایک مرتبہ اور نظر ڈالی۔بارودی سرنگوں کی خاص جگہوں کے علاوہ بھی اُسے کچھ چھپی ہوئی سرنگوں کا پتہ چلاجن سے اُس کا سامنا ہو سکتا تھا۔ایسی زیادہ تر سرنگیں بالکل ہموار تھیں۔لیکن اُس کے راستے میں تین جگہوں پرایسا نظر آتا تھا جیسے وہاں تیل پھیلا ہوا ہو۔ سلینڈر مٹی میں سیدھے رکھے ہوئے تھے۔اُس کے بالکل اوپر ایک انٹینا تھا جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اُسے چھونے پر وہ دھماکے کا ٹریگر ثابت ہوگا۔اِس طرح کی سرنگ کو اچھلتی ہوئی سرنگیں کہا جاتا ہے۔ اِس لیے کہ اِس طرح کی سرنگیں حرکت میں آنے پر پہلے ایک میٹر اوپرہوا میں اچھلتی ہیں تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اُس کا آہنی حصّہ کسی بھی شخص کے پیٹ کو پھاڑ سکے۔یہ سرنگ اسمگلر کے لیے ایک چھوٹا فائدہ اور دوبڑے نقصان کا باعث تھی۔وہ زمین کھودے بغیر اپنے نقشے کے مطابق ان کا اندازہ کر سکتا تھا۔ اگرچہ دوسری سرنگوں کی بہ نسبت یہ سرنگ کافی وزنی تھی اور انٹینا کے سبب بہت زیادہ احتیاط کے بعد ہی اُسے وہاں سے نکال کر زمین پر رکھا جا سکتا تھا۔
اچھلتی ہوئی سرنگوں تک پہنچنے سے پہلے اُس نے دو ہموار سرنگوں کوکھودا۔بہت زیادہ تھک جانے کے بعد اُس نے اپنی سرگرمی کو اتنا آہستہ کرلیا کہ جھپکتی ہوئی پلکیں بھی اُسے چونکا سکیں۔اُس نے کجروی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھا تاکہ وہ اپنی توجہ کو ایک خاص نقطے پر مرکوز کرسکے۔ دوپہر ہوچکی تھی چراگاہوں سے ہلکی ہوائوں کا گزر جاری تھا۔کچھ لمحوں کے لیے اسمگلر نے سوچا کہ شاید وہ کوئی اور ہے جو گھٹنوں کے بل اس بیکار زمین پر کھڑا ہو۔اگرچہ وہ وہاں سے نہ صرف گائوں کی ہر سمت کا مشاہدہ کر سکتا تھابلکہ دندانے دار چٹانوں اور نوکیلی چوٹیوں کو بھی دیکھ سکتا تھا لیکن زمین کی وسعت اور پھیلائو کے تعلق اُس کے یہاں کسی قسم کے جذبات نہیں تھے۔اُس نے بہتی ہوئی سرد ہوائوں کے جھونکے محسوس کیے۔اُس نے کچھ دھیمی دھیمی آوازیں محسوس کیں ایسا لگتا تھا جیسے یہ آوازیں کسی کمرے کے اندر سے آرہی ہوں۔
ایک مرتبہ پھر سے اُس نے اپنا سر زمین پر جھکا دیا۔گھاس کی پتیوں کی کھرکھراہٹ نے اُسے الجھن میں مبتلا کردیا۔اُس نے کچھ چونٹیوں ، سفید سنگریزوں اور مکڑیوں کے چمکتے ہوئے عارضی جالوں کو دیکھا۔انٹینا حکم کی تعمیل کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔اسمگلر اور قریب ہوا اور گھاس کو کنارے کیا۔اُس نے کدال لے کر اپنے اطراف کے سلینڈر کھودنا شروع کیا۔جب تک اُس کی نظر انٹینا پر ہے تب تک اُسے کوئی خاص احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔
اتنا کرنے بعد اُس نے اپنے آپ کو بالکل سیدھا کیا اور گہری سانسیں لینے لگا۔اُس نے اپنے ہاتھوں سے اُس راستے کا پتہ لگا لیا جہاں سے وہ بارودی سرنگ باہر نکال سکتا تھا اور اُس جگہ کا بھی تصور کرلیا جہاں اُسے رکھنا تھا۔یہ جگہ نالیوں کے درمیان کسی پناہگاہ کی مانند نظر آرہی تھی اور واپسی کے سفر پر اُسے اِس جگہ کا اندازہ کرنا بھی آسان تھا۔اُس نے اپنے ہاتھوں کو اُس سوراخ میں ڈالا اور وہاں موجود بارودی سرنگ کو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر باہر نکالا۔لیکن اُس نے اِس بات کا دھیان رکھا کہ اوپر نکالتے وقت انٹینا کسی چیز سے ٹکرا نہ سکے۔اپنے منصوبے کے مطابق اب اسمگلر نے بارودی سرنگ سے اپنے ہاتھ ہٹالیے۔اُس نے سلینڈر کو خود کے متعین کردہ مقام پر رکھااور اُسے آہستہ سے مٹی میں دبانے لگا تاکہ وہ زمین پر صحیح طورسے کھڑا رہ سکے۔اب وہ کھڑا ہوا اور اپنے ہاتھ سلینڈر سے ہٹالیے۔
سرنگ کافی طویل تھی اور اُس کا ایک تہائی حصّہ زمین میں دبا ہوا تھا۔اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس علاقے کا نگہبان اپنی دوربین سے اِن تمام حالات کا اندازہ کرلے۔لہٰذا اُس نے ایک گڑھا کھودااور اُس میں جھکتے ہوئے بارودی سلینڈر کو نیچے رکھ دیا۔زیادہ تر سلینڈر اب زمین میں چھپائے جاچکے تھے صرف انھیں قریب ہی سے دیکھا جا سکتا تھا۔اُس نے دوبارہ سوراخ پر نشانات لگائے اور آگے کی جانب رینگنے لگا۔
سرنگوں کی سرزمین سے گزرتے ہوئے اُسے شام ہوگئی۔ہر سرنگ کو کھودنے کے بعد وہ سورج کا مشاہدہ کرتا رہا تھا۔آخری سرنگ چٹان سے تیس سینٹی میٹر کی دوری پر واقع تھی۔جہاں کچھ فاصلوں پر گھاس اگی ہوئی تھی۔یہ دیکھ کر اُسے کچھ اطمینان ہوا کہ اُس نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔اب وہ سخت زمین کی طرف آہستہ آہستہ چلنے لگااِس وجہ سے اُس کے اندر اپنی حفاظت کا احساس بھی پیدا ہوا۔اب وہ اپنے راستے کی طرف پیچھے دیکھنے لگا۔کھود کر دوبارہ منتقل کی گئی سرنگیں ناقابلِ دید ہوچکی تھیں۔وہ آخری سرنگ بھی نظر نہیں آرہی تھی جسے اُس نے زمین میں صرف ٹیڑھا کردیا تھا۔
اسمگلر کھڑا ہوا اُس نے اپنا کوٹ اور پینٹ صاف کیا۔ یہ کام وہ ہمیشہ احتیاط سے کیا کرتا تھا۔سرحد کے حفاظتی دستے سے تال میل قایم کرلینا اُس کے سفر آخری حصّہ تھا۔
اب اُسے سرحدی نگہبانوں کا سامنا کرنا تھا۔اگرچہ کے وہ لوگ اُس کے منتظر تھے لیکن وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ(اسمگلر) کب آئے گا۔جو کوئی بھی وہاں ڈیوٹی پر تھا اُس نے مطالبہ کیا کہ وہ داخلہ فیس ادا کرے۔جس شہر میں وہ جانا چاہتا تھا وہ شہر پہاڑوں سے تین کیلو میٹر کی دوری پر واقع تھا۔اُس نے سرحدی اسٹیشن سے اُس شہر کی طرف دیکھا۔پہلی نظر میں اُسے محسوس ہوا کہ وادیوں اور بل کھاتے ہوئے راستوں سے گذر کر یہ ایک ایسا شہر ہے جسے مکمّل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہو۔جب کہ حقیقت یہ تھی کہ سرحد کے دوسرے جانب وہ ایک گنجان آبادی والا شہر تھا۔اُس جگہ سے قریب جہاں وہ ہمیشہ جایا کرتا تھا بالکل قریب قریب کچھ دیہات آباد تھے۔ جب اُس کے پاس کافی وقت ہوتا تب وہ کم از کم ایک دیہات ضرور دیکھ لیا کرتا تھا۔جہاں کسی اور جگہ کی بہ نسبت شراب کچھ زیادہ ہی سستی ہوا کرتی تھی۔لیکن اِس وقت وہ صرف ایک چھوٹے شہر میں جانا چاہتا تھا۔
اُس کی خواہش تھی کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے وہ واپس آجائے۔عام طور پر وہ بیرونی ممالک میں دن،رات اور دوسرے دن کی دوپہر ہی گزارا کرتا تھا۔کیوں کہ دوپہر کے بعد سرنگوں سے بھری سرزمین سے گزرنے میں اُسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔اِس لیے بھی کہ اُسے کھودی گئی سرنگوں کو دوبارہ دفن کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا تھا اور وہ شہر واپس ہونے سے پہلے باہر رات بھی گزارنا نہیں چاہتا تھا۔ وہاں سے گزرتے وقت اُس نے گشت کرنے والے محافظوں کے بارے میں سوچاکہ وہ لوگ سرنگوں کی جانب جانے والے راستوں پر خاص توجہ دیتے ہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی ایسی چیز کے بارے میں سوچے جو اُس کے اطمینانِ قلب کو مجروح کرے۔
اُس نے سرحد کی جانب چلنا شروع کیا اور اِس بات پر توجہ دینی شروع کی کہ اب آگے کیا ہوسکتا ہے۔وہ اپنے آرڈر لے جا رہا تھا اور اُسے اپنی پشت پر لدے ہوئے بوجھ کا احساس بھی تھا۔
صبح صادق کے وقت وہ سرحد کے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔چٹان کے شگاف میں ایک کنٹینر کو بیرک بنایاگیا تھا۔بھوری خاکی اور دور تک پھیلی ہوئی پتھریلی زمین کے درمیان راستہ کسی نہر کی طرح نظر آرہا تھا۔بیرک اُس کی راہ کے سیدھے زاویے پر رکھا ہوا تھا۔اسمگلر جب اُس کے قریب پہنچا تب اُسے وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔وہاں روکاوٹیں نہیں تھیںاور بیرک کی سمت بھی ایسا کوئی نشان نہیں تھا جس سے سرحدوں کا اندازہ کیا جا سکے۔کنٹینر کی جانب کا چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا۔لیکن چھوٹی سیڑھیوں سے بھی اتر کر اُس کے سامنے کوئی نہیں آیا۔کوئی اندر اُس کا منتظر تھا۔ اسمگلر دانستہ طور پر اندر داخل ہوا اور سیڑھیوں کے قریب پہنچنے سے پہلے بآوازبلند دعائیہ کلمات ادا کیے۔ اُس کی یہی عادت تھی کہ وہ سرحدی محافظوں کے سامنے بالکل چاپلوسی اور خوش مزاجی کے ساتھ آیا کرتا تھا اور غیر رسمی طریقے سے انھیں متاثر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اگرچہ کہ یہ ممکن تھا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کبھی کوئی ایسا شخص وہاں پر ہو جو اُسے نہ جانتا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اعلیٰ افسر وہاں موجود ہو۔
وہ بیرک میں داخل ہوا اور چار سرحدی محافظوں پر نظر ڈالی۔ وہ لکڑی کے ایک بوسیدہ ٹیبل کے اطراف کھانا کھاتے ہوئے بیٹھے تھے۔ بندوقیں دیوار پر جھکی ہوئی تھیں۔اسمگلر کو فوراً اپنا ریڈ ہائوس کا تکلیف دہ سفر یاد آگیا۔ اگرچہ اگلے ہی لمحے وہ سرد مہری کے ساتھ اُن کے سامنے پہنچ گیا۔ایک شخص نے اُسے کرسی پیش کی۔ اسمگلر اُن کے ساتھ شامل ہوگیا اور آس پاس سگریٹ تقسیم کرنے لگا۔ جنھیں وہ ایسے موقعوں کے لیے اپنے ساتھ لایا کرتا تھا۔چاروں سرحدی محافظ اپنا کھانا روک کر بالکل اُس طرح سے خوشی خوشی سگریٹ پینے لگے جسے اُن کے جیب میں سگریٹ موجود ہی نہ ہو۔
اسمگلر بحالتِ مجبوری اُن لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا ۔اُس کی حالت کسی ایسے بِن بلائے مہمان کی سی تھی جو کسی طور اپنی خفگی چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔زبان اُس کے لیے مسئلہ تھی اور تقریباً تمام سرحدی محافظوں کا بھی یہی حال تھا۔وہ کچھ قابلِ فہم جملے ادا کرتے تھے اور اسمگلر امید وبیم کی حالت میں اُن کا جواب اپنے تاثرات یا ہائو بھائو سے دیتا تھا۔اکثر سرحدی محافظین ملک کے دور دراز کے حصّوں سے آتے تھے اسی بنا پر مقامی لوگوں کی بہ نسبت اُن سے بات کرنا زیادہ مشکل ہوا کرتا تھا۔اِس لیے کہ مقامی لوگ جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی یہیں رہتے آئے تھے۔ وہ دونوں زبانیں جانتے تھے۔ لہٰذا انھیں کبھی یوں بھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے ہی ملک میں غاصب فوجوں کے ارکان ہوں۔ اسمگلر کو کم از کم اتنے الفاظ تو یاد ہی تھے کہ وہ عام سی گفتگو جاری رکھ سکے۔شروعات ہی سے اُس نے اس بات کا اندازہ لگالیا تھا کہ اُس کی بات چیت کی صلاحیت بلاواسطہ اُس پر واجب الادا روپیوں پر اثر ڈال سکتی ہے۔عام طور پر سرحدوں کے محافظ اجنبیوں کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرتے ہیں اوربے پرواہ ہوکر ٹیکس میں بھی کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے۔یہ ایک فطری تقاضہ ہے۔
اُن میں سے ایک بہت زیادہ باتیں کررہا تھا اور وہی اِس گروپ میں سب سے زیادہ اہم بھی تھا۔ وہ اسمگلر کے سامنے بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور اپنے سگریٹ کے ہر کش کے ساتھا اپنی مونچھوں کو تائو بھی دیتا جا رہا تھا۔ اُس نے باہر کی خبروں کے تعلق سے پوچھا۔
اسمگلر نے مختصراً سوچا اور پھر حکومت کی کہانی پر آخری ضرب لگائی اور یہ اعلان کیا کہ اب درجہ حرارت 40ڈگری سیلسیس ہونے والا ہے۔وہ تمام لوگ حیرت زدہ ہوگئے انھیں یہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ جانی پہچانی کہانی نہ ہو کر کوئی لطیفہ ہو۔اِس بات پر وہ جتنا ہنس سکتے تھے اُس سے زیادہ انھوں نے اِس پر بحث کی۔
اب برف پگھل چکی تھی اور بیرک ایسی جگہ میں تبدیل ہوگیا تھا جہاں روایتی قوانین کی گنجائش نہیں تھی۔ اُن میں سے ایک شخص کھڑا ہوا ، اپنے جانے کے لیے راہ بنائی اور وہ واپس اسمگلر کے لیے ایک پلیٹ لے آیا۔ اب بات چیت کچھ خاص اہم نہیں رہ گئی تھی۔اب اسمگلر کو مہمان سمجھا جانے لگا تھا اور چائے ختم ہونے تک یہی ماحول برقرار رہا۔
٭٭٭

شیرکو فتح کی پیدائش 1964ء میں مشرقی برلِن میں ہوئی۔شیرکو فتح کی والدہ کا تعلّق جرمنی اور والد کا تعلّق عراق کے کرد علاقے سے تھا۔فتح نے اپنے بچپن کا بیشتر حصّہ عراق میں گزارا۔آج بھی اُن کے خاندان کے بہت سارے لوگ وہاں رہتے ہیں۔1975ء میں وہ اور اُن کے والدین مغربی جرمنی میں آباد ہو گئے۔فتح نے مغربی جرمنی میں فلسفہ اور فنِ تاریخ کی بڑھائی کی اور یہیں فتح نے فلسفیانہ فنِ تفسیر پر اپنی تھیسِس مکمّل کی۔
٭٭٭
معروف کردی فکشن نگار شیر کوفتح کا افسانہ ’سر حد اور زبان ‘کا ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ افسانہ انھوں نے اردو چینل کے لیے ترجمہ کیا ہے اور اردو چینل کے شمارہ ۳۳ میں شامل ہے۔