The Lost Lands of Paradise A Short Story by Yavuz Ekinci

Articles

بہشت گمشدہ

یعود اکینسی

اِرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انپڑھ غریب عورت ہوں۔ میرا کوئی نہیں ہے۔ میرے پوتے پوتیاں مجھ پر ہنستے ہیں۔ جو لوگ مجھے دیکھنے آتے ہیں مَیں اُن کی سرگوشیاں سنتی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس نے بہت جی لیا اب اِسے مرنے دیا جائے ،سکون خود بخود مل ہی جائے گا۔ میں خوش قسمت بھی ہوں اور انپڑھ بھی، بدقسمت بھی ہوں اور اکیلی بھی، ناخوش و ناراض بھی ہوں اور غصّے میں بھی ۔
اِرم اب تم کیا کروگی جب میری یہ تکلیف دہ زندگی دیکھو گی۔کیا تم اپنی اُس چھوٹی بندوق سے میری تکالیف کا خاتمہ کرسکتی ہو جو ہمہ وقت تمھارے ساتھ ہوتی ہے۔ اے اِرم! میرے تمام سوالوں کا جواب دو۔ صرف تم جانتی ہو کہ مجھے مرنے کی کتنی آرزو ہے۔ میں موت کی طلبگار ہوں۔ صرف موت ہی نہیں آتی۔ میں نے مرنے کی کوشش بھی کی لیکن میرے چچا سائمن نے مجھے روک دیا۔ اُس نے کہا، یسوع مسیح کے بارے میں سوچو!میں یسوع مسیح کی تکلیف کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی اِن گزرے تمام سالوں سے (موت کی) منتظر ہوں۔
اے موت! یہ بھی نہیں آتی۔میں نے ہمیشہ اِس کی خواہش کی ہے۔اِرم جب موت کی خواہش کی جائے تب موت نہیں آتی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اِ سے عادت پڑچکی ہے کہ وہ ہمیشہ نامناسب وقت پر آتی ہے۔حسن! مجھے حیرت ہوگی اگر اب وہ تکلیف بن جائے۔ مجھے امید ہے شاید وہ جہنم میں جل چکا ہوگا۔ اب اُس کے پاس گناہوں پر پچھتانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ میں اِس بات کو یقینی بنا دوں گی کہ مرزا مجھے اُس کے باپ کے قریب نہ دفنانے پائے۔میں بیری کے درخت کے نیچے دفن ہونا چاہتی ہوں۔ جہاں ارم بھی ہے۔ ارم میرے تمام سوالوں کا جواب ہے، میرے آنسوئوں کا سرچشمہ اور میرا سورج بھی۔ اے ارم! میں تمھارے پاس آرہی ہوں۔ اب جبکہ میں مرنے کی جدوجہد کررہی ہوں ، حسن ہزاروں سال زندہ رہنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔وہ ہر دن کی شروعات ہمیشہ زندہ رہنے کی بیوقوفانہ خواہشات سے کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر کے اطراف سے پتھر نکالتا ہے، شراب خانے کے احاطے میں انہیں پہاڑ کی شکل میں جمع کرتا ہے، سخت میدانوں کو صاف کرتا ہے اور اُن کے اطراف میں پتھر کے گھر اور پتھر کی دیواریں بنایا کرتا ہے۔ اس طرح سے بنایا کرتا ہے جیسے یہ سب ہمیشہ باقی رہے گا اور وہ خود بھی ہزاروں سال تک زندہ رہے گا۔ جبکہ نہ یہ جگہ ہمیشہ ہمیش باقی رہے گی اور نہ ہی موت بھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کے بعد کے خوف نے اُس کے دماغ کو مائوف کردیا ہے۔ ملّا محفوظ بڑی سادگی سے یہ کہتے ہوئے اُس کا مذاق اڑاتا ہے کہ ’’حسن! کوئی انسان ہمیشہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘میں نے ہمیشہ اُس کا طنزیہ لہجہ سنا ہے۔ ’’یہاں تک کہ صاحبِ دولت وعظمت سلیمان بھی ایسا نہ کرسکے‘‘حالات ویسے نہیں رہے جیسے اُس نے امید کی تھی۔ قسمت کی آندھی نے ہر شے کو تہس نہس کردیا۔ اُس کی زندگی، اُس کا جسم، اس کے جذبات، اس کی خواہشات اور اس کی تمام امیدیں تباہ و برباد ہوگئیں۔بیماری نے اُس پر فتح پالی۔ تمام اسپتال، زیارت گاہیں، شیخ وطبیب سبھی نے سیکڑوں امراض کی تشخیص کی لیکن اسے مختصراً بھی افاقہ نہیں ہوا۔ اُس کی صحت دن بدن خراب ہوتی گئی اور اس کا وہ جسم جو کبھی تندرست توانا ہوا کرتا تھا ،دوائوں اور درد کو برداشت نہ کر سکا۔ وہ پہاڑوں جیسا شخص جو چٹانوں کو ہلادیا کرتا تھا ، پتھروں کو چھوکر پگھلا دیا کرتا تھا۔وہ اب جھرّیوں میں سکڑ چکا ہے۔ یہاں تک کہ اب وہ خود سے رفعِ حاجت کے لیے بھی نہیں جا سکتا ۔ وہ شخص جو ہمیشہ شراب کے نشے میں چور ہوتا تھا اب وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے پانی کا ایک گلاس بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اگر بستر پر آگ بھی لگ جائے تب بھی وہ اِس قابل نہیں ہے کہ وہاں سے اٹھ سکے۔ اُس کے تعلق سے میرے ذہن میں دوطرح کے خیالات تھے۔ایک تو یہ کہ میں اُس آدمی کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھوں جس نے مجھے اداس کیا اور دوسرے یہ کہ میں خاموشی سے خوشیاں منائوںاِس لیے کہ یہ ایک طرح کا قدرتی بدلہ ہے۔
بیماری کے ایّام میں حسن کو اپنے بیٹے مرزا کی جانب سے صلہ رحمی اور شفقت کی امیدیں تھیں۔ وہی مرزا جس کی حسن نے ہمیشہ تضحیک کی تھی اور اُے نیچا دکھایا تھا۔ حسن، مرزا کے ساتھ باپ ہونے کے ناطے کبھی بھی پیار و محبت سے پیش نہیں آیا تھا۔ غصّہ اور تمام تر نفرتوں کے باوجود بھی حسن اپنے والد کا بہترین سہارا تھا۔ مرزا اپنے والد کو صاف کرتا تھا، نہلاتا تھا، داڑھی بنایا کرتا تھا اور کپڑے تبدیل کرنے میں اُس کی مدد کرتا تھا۔ اُس نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شکایت نہیں کی۔ اپنے بیٹے کی محبت دیکھ کر حسن شرم سے زمین میں گڑتا چلا گیا۔
افسوس حسن افسوس!یقیناً مجھے تیز آواز میں بولنا چاہیے تاکہ دوسری عورتیں بھی سن سکیں اور ایک دوسرے کو اپنی کہنیاں مار کر کہ سکیں کہ یہ غریب عورت اپنے شوہر کے بارے گا رہی ہے۔وہ اُس سے بہت محبت کرتی ہے اور اتنے سالوں کے بعد بھی وہ معمولی معمولی باتوں کو نہیں بھول سکی۔یہ بات اپنے دانت باہر نکالتے ہوئے ایک بڑے سر والی ایسی عورت نے کہی جس کے وجود سے شرارت اور دشمنی آشکار ہو رہی تھی۔میں اُن کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔حسن اب یہ تمام زمینیں، میکدہ، پتھروں سے بنے ہوئے گھرسب کے سب اِس دیہات میں تکلیف دہ یاد بن کر رہ گئے ہیں۔جب جب میں اِن پر سوچتی ہوں تب تب مَیں مر تی جاتی ہوں۔
اُس رات کسی نے خونخوار طریقے سے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔خوف و دہشت کی ایک لہر مجھ میں سرایت کر گئی۔ میں خوفزدہ ہو چکی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے میں کچھ جانتی ہوں اور میں نے کسی آسیب کو دیکھ لیا ہے۔ہم نے عجلت میں گھر چھوڑ دیا۔ جب مرزا انھیں روکنے کی کوشش کررہا تھا تب میں اُس پر ناراض ہوئی اور اُس پر چیخنے چلّانے لگی۔اِس لیے کہ مَیں خوفزدہ تھی وہ لوگ مجھے قتل کرنے جا رہے تھے۔وہی لوگ ایک رات ملّا محفوظ کو اُس کے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے اور اُسے چشمے کے قریب قتل کردیا تھا۔ مرزا اُن لوگوں کے پاس کھڑا ہوا تھا اِس لیے میں مرزا پر برس رہی تھی۔میں نے اُس سے کہا کہ وہ اپنا منہ بند رکھے اور اس طرح سے میں بچ گئی۔ مَیں اُسے بھی بچانا چاہتی تھی۔وہ خاموش بیٹھ گیا۔ رستم خواب آلود آنکھوں سے اِس بھیانک رات کو خود پر آشکار ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ ایک مرتبہ جب گائوں کے تمام مرد و خواتین اور بچے ایک چوراہے پر جمع ہوگئے تھے تب سپاہیوں نے ہمارے گھروں کو ساز و سامان سمیت نذرِ آتش کردیا تھا۔ باڑوں کو جانوروں سمیت جلا دیا تھا۔ اُس رات نہ صرف ہمارا، گھر، ہمارے کھیت اور ہمارا سرمایہ جلایا گیا بلکہ ہمارا ماضی ، ہماری یادیں اور ہماری امیدیں بھی راکھ ہوگئیں۔ مَیں نے اپنے گھر کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھا۔ شعلوں کی یہ لپٹیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے اپنی شادی کی وہ منحوس رات آج بھی یاد ہے۔
مَیں شادی کے روز ایک ایسے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی جس کی شاخیں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔ جس پر سرخ و سیاہ مرغ کو ذبحہ کر کے لٹکا دیا گیا تھا۔ مذبوح مرغوں کی گردنوں سے بہتا ہوا خون درخت کی شاخوںپر منجمد ہو رہا تھا۔ مجھے تو حیرت ہو رہی تھی مگر حسن! تم اُس درخت کے نیچے بہت خوش تھے۔ لوگ تمھارے اطراف رقص کر رہے تھے۔ جیسے ہی مَیں گھر میں داخل ہوئی وہ لوگ جو ڈانس کر رہے تھے اچانک پھلوں، میٹھائیوں اور خشک میواجات پر ٹوٹ پڑے۔
ایک زور دار آواز آئی ۔آسمان میں شعلے اڑتے ہوئے نظر آئے۔چھت پر موجود شادی کا درخت(سجاوٹ)تباہ ہوگیا۔میں نے مرزا کا ہاتھ پکڑ کر کر ہمارے جلتے ہوئے گھر، سرمائے اور یادوں سے باہر کھینچا۔بی نیوز بھی اپنے ساتھ لکڑی کی گڑیا باہر لے آئی وہ شعلوں کو دیکھ رہی تھی اور گڑیا کو جھولا بھی دئیے جا رہی تھی۔ ایک سپاہی دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے بی نیو کے ہاتھوں سے گڑیا چھین لی اور وہ اُسے آگ میں پھیکنا ہی چاہتا تھا کہ دوسرے سپاہی نے مداخلت کردی۔ اُس نے پہلے سپاہی کے ہاتھ سے گڑیا لے کر واپس میری بیٹی کے ہاتھوں میں دیدی۔
فاطمہ نے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا ۔ ماں ! دیکھو یہاں کون ہے۔ مَیں نووارد کو دیکھنے کے لیے پیچھے پلٹی لیکن اُسے شناخت نہ کرسکی۔ فاطمہ نے کہا، کیا تم اِسے نہیں جانتی ہو؟ یہ ہمارے پڑوسی کی لڑکی دِلان ہے۔ یہ کئی مرتبہ تمھیں دیکھنے کے لیے اسپتال بھی آچکی ہے۔ حال ہی میں اِس کی منگنی ہوئی ہے۔ پھر اُس نے سرسری نظر زینب کی طرف ڈالتے ہوئے کہا جو یٰسین پڑھ رہی تھی اور اُس حسد رکھتی تھی۔ کبھی کبھی یہ تمام باتیں قسمت پر منحصر ہوتی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟جب دِلان میرا بوسہ لینے کے لیے نیچے جھکی اُس کا چہرا چمک رہا تھا۔ مَیں نے اس کا ہار، کنگن، بالی اور انگوٹھی دیکھی۔ پھر مَیں نے مسکرادیا۔ اُس نے تیز آواز میں مجھ سے دریافت کیا کہ کیا مَیں ٹھیک ہوں ؟جیسے ہی میں نے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں مَیں ٹھیک ہوں ، وہ فوراً میرے پاس سے بھاگ گئی۔ خدا معاف کرے شاید اُسے میری طویل عمر کی وبا لگ گئی ہوگی۔ مَیں نے اپنی آنکھوں کو مضبوطی سے بند کرلیا تاکہ مَیں اُن کی سرگوشیاں نہ سن سکوں۔ مَیں اپنے آپ کو اپنے خوف سے بچانا چاہتی تھی۔ مَیں گہری نیند کی منتظر تھی۔
اُس روز حسن اپنے سر کے بال اور داڑھی منڈوا کر آیا تھا۔ وہ اپنی قدوقامت سے بڑا جیکٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔ وہ حیرت و یاس کے جذبات میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں جانوروں کے باڑے میں اُس کا دیا ہوا کھانا کھا رہی تھی۔ وہ بے کلی کے ساتھ اپنے پیروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔دوسری طرف فوراً دیکھنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے ہماری نظریں ملی۔ پھر اُن نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ہئٹِس تم میری بیوی بننے جارہی ہو۔ تم اور مَیں شادی کررہے ہیں۔ مَیں اپنے اندرون میں کہیں پِستی جا رہی تھی۔ ارم کا اعضا سے جدا جسم میرے ذہن کے درخت پر جھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ مَیں نہیں جانتی تھی کہ اب روئوں بھی تو کس لیے۔ میرے رونے کا مقصد کیا ہوگا۔ میرا نام جو کہ المست تھا اب ہئٹِس ہوچکا تھا جیسے کوئی عیسائی اب مسلم ہو چکا ہو۔ میرے والد کے بڑے بھائی اور بہنوں کو قتل کرکے پہاڑوں میں سڑنے کے لیے چھوڑا جاچکا تھا۔ مجھے ایک ایسے شخص سے شادی کرنی تھی جس سے میں قطعی محبت نہیں کرتی تھی۔ پھر مَیں کس لیے روئوں؟ مَیں خود بھی نہیں جانتی تھی۔ پہلے ہی بہت رونے کے سبب میرے آنسو ضائع ہو چکے تھے۔ خفیہ طور پر بہت زیادہ ماتم منالینے کے بعد اب مَیں خاموش تھی۔ مَیں نے صرف اُس کی آنکھوں میں دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔
دوسرے دن حسن نے مجھے گودام سے باہر نکالا۔ مَیں نہیں جانتی تھی کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ مَیں صرف اتنا جانتی تھی کہ پتیاں جھڑ چکی ہیں اور کچھ درختوں پر بمشکل ہی پتے رہے ہوںگے۔اپنے اطراف کی تبدیلیاں دیکھ کر مَیں نے اندازہ لگانا شروع کیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ مَیں اندھیروں کی عادی ہوچکی تھی اِس لیے روشنی میری آنکھوں کو تکلیف پہنچا رہی تھی۔ ہم سیڑھیوں سے اوپر گئے ۔ حسن کی ماں’’ایکسی‘‘ جو کہ اِن دِنوں دو مرتبہ گودام میں آچکی تھیں ، کمرے کے بالکل وسط میں بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کینہ پرور نظروں سے میری جانب گھور رہی تھی۔ تب ہی مَیں نے اندازہ لگا لیا کہ میری ساس کے ساتھ میرے تعلقات کبھی بھی دوستانہ نہیں رہ سکتے۔ اُس کے لیے مَیں صرف ایک کافر کی بیٹی تھی، ایک ایسا گناہ تھی جس کا کفّارہ ناممکن ہو، ایک ایسا سیاہ داغ تھی جو کبھی دھویا نہ جاسکے، کبھی فراموش نہ کیا جاسکے۔
میرے لیے کسی کو کوئی پچھتاوا نہیں ہوسکتا۔ حسن شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ مَیں اپنے گردوپیش سے بے نیاز رہی، یوں کئی دن گذر گئے۔ مَیں گھر میں ہر وہ کام کرنے لگی جس کا حکم مجھے دیا جاتا تھا۔ مَیں نے کبھی کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ شاید مَیں بہت حد تک مرچکی تھی۔ مَیں کھانا بناتی تھی، صاف صفائی کیا کرتی تھی، بستر لگاتی تھی، پانی لایا کرتی تھی اور تقریباً ہر کام ہی کیا کرتی تھی۔ اب مَیں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ مجھے زندہ رہنا ہے۔ چاہے پھر مجھے زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ لیکن جب کبھی رات کو مَیں بستر پر جاتی تب ہر وہ چیز مجھ سے ملنے آجایا کرتی تھی جسے مَیں نے دن بھر کسی بوتل میں بند کر کے رکھا تھااور اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ دن کا اجالا پھیلنے تک مَیں رویا کرتی تھی۔
شادی کے روز حسن کے رشتہ داروں سے گھر بھر گیا۔ اُس نے یہ کہہ کر اپنے دوستوں سے مجھے متعارف کروایا کہ میں الیپو(شام کا ایک شہر)میں رہنے والے اُس کے کسی شناسا کی بیٹی ہوں۔ مَیں ایسی حالت میں نہیں تھی کہ لوگوں سے کہہ سکوں کہ مَیں نے کیا تجربہ کیا ہے۔ بوڑھی عورتیں مجھے دیکھنے کے لیے آتیں اور میری آنکھ، بال، گردن، کمر، قامت، ہاتھ اور پیروں کی تعریفیں کرتیں۔ اُن میں سے ایک نے میرے چہرے کی خوبصورتی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تمھارے پاس خوبصورت دکھائی دینے کی بہت ساری جوہات ہیں۔ پھر اُس نے آگے بڑھ کر ہونٹ سے نیچے کسی نشان کو چھوا ۔ عورتیں میری خوبصورتی دیکھتی جاتی تھیں اورسرگوشیاں کرتی جاتی تھیں۔ مجھے یاد آیا کہ کس طرح سے اِرم میرے بالوں ،آنکھوں اور چہرے کی تعریف کیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مَیں نے اُس سے اداس لہجے میں پوچھا تھاکہ ’’تم مجھے کتنا یاد کروگی؟‘‘ارم میرے اِس سوال پر چونک پڑی تھی۔ وہ بہت دیر تک میری جانب دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے کہا ’’مَیں کیسے کہہ سکتی ہوں کہ بہت کم، نہیں نہیں ،مَیں تمھیں بہت یاد کروں گی۔‘‘
بوڑھی عورتیں میری ساس سے باتیں کر رہی تھیں اور میری تعریفوں کے گیت گا رہی تھیں۔ میری ساس کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی کی موت کا ماتم منا رہی ہو۔ وہ فوراً غصّے میں آگئی اور چیختے ہوئے کہا ، دیکھو اُس کے پورے چہرے پر داغ ہی داغ ہے۔ کیا تم اِسے خوبصورتی کہہ رہی ہو؟ وہ میری بے عزتی کرنے لگی۔ میرے حسن کو دیکھو اور پھر اِس داغدار دلہن کو دیکھو۔ جب مَیں نے اُس کی آواز سنی مَیں نے اپنا سر جھکالیا۔ مَیں ارم اور اپنی خوبصورتی کے نشانات کے بارے میں سوچنے لگی۔ ارم نے میرے جسم پر موجود خوبصورتی کے ہر نشان کا ایک نام رکھا ہوا تھا۔ انہی ناموں کو یاد کرتے ہوئے میں نے اُن میں سے ایک کو چھو کر محسوس کیا۔ انار، انجیر، سارنگی، ابابیل، آدم، مریم، ستارہ، تیتر اور آسمان اُن نشانات کے نام تھے۔
کھانا تیار بھی ہوا اور نگل بھی لیا گیا۔ رقص وسرور کی محفلیں سجیں، آتش بازیاں اور ہوئی فائرنگ بھی ہوئی اور بہت جلد ہی شادی اپنے اختتام تک پہنچ گئی۔ یکے بعد دیگرے تمام مہمان اپنے گھروں کو چلے گئے۔ میری ساس نے میرا ہاتھ پکڑکر حجلۂ عروسی تک میری رہنمائی کی۔ میرا چہرہ سرخ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔ کمرے کے بالکل وسط میں ایک بڑا سا بیڈ تھا۔ انھوں نے مجھے اُس پر بیٹھا دیا۔ میری ساس، جہنّم کی چڑیل ، نیچے جھکی اور میرے چہرے سے نقاب اوپر اٹھا دیا ۔اُس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور مجھے سمجھایا کہ اِس رات مجھے کیسا برتائو کرنا تھا۔ اُس نے نقش و نگار سے آراستہ کاٹن کا ایک کپڑا مجھے دے کر کہا تھا کہ میں اُس کا استعمال کروں۔ اُس کے بعد اُس نے سرخ نقاب سے میرا چہرہ دوبارہ ڈھک دیا اور کمرے سے چلی گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کمرے سے میری روح بھی جا چکی ہو۔ مَیں آوازیں برابر سن رہی تھی مگر ایک بھی لفظ سمجھنے کے قابل نہیں تھی۔ جب میری ساس کمرے سے باہر نکلی، مَیں نے اپنے سرخ نقاب ہی سے کاٹن کے اُس کپڑے کی طرف دیکھا اور پھر خوف میری ریڑھ کی ہڈی تک سرایت کرتا چلا گیا۔
چیخ و پکار، گیت وسنگیت اور تالیوں کی فوج کمرے سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ دروازے کے سامنے آ کر وہ لوگ رک گئے۔ آوازیں، گیت، شور وغل، لطائف اور بے شمار چیزیں میرے ذہن سے ٹکرا کر مجھے الجھن میں مبتلا کر رہی تھیں۔ ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھلااور اسی چیخ و پکار اور شور و غل کے درمیان حسن کو پشت سے دھکّا دے کر کمرے میں ڈھکیل دیا گیا۔ ہنسی اور تالیوں کی گھن گرج اب تھم چکی تھی۔
مرزا کی آواز نے مجھے اپنے خیالی خوابوں سے بیدار کیا۔ زینب بلند آواز میں میرے بازو میں بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی۔ اُس کی آواز جذبات سے رندھی ہوئی تھی اور اُس کی آنکھیں نم تھیں۔ دِلان سب کو پانی پلا رہی تھی اُس نے مجھے بھی تھوڑا پانی دیا۔ اُس نے میری پیٹھ پکڑ کر مجھے سہارا دیااور گلاس میرے منہ سے لگایا۔ جب کچھ پانی میری گردن اور سینے پر گرگیا تب اُس نے میرے بازو میں پڑے ہوئے کپڑے سے مجھے نرمی کے ساتھ خشک کیا اور پھر آرام کے ساتھ مجھے اپنے بستر پر لٹا دیا۔ مَیں باہر سے آتی ہوئی آوازیں سن سکتی تھی۔
آوازیں! آوازوں کا شور گھٹتی ہوئی آندھی کی طرح مدھم ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ مکمل خاموشی ہوتی چلی گئی۔ حسن دروازے کے سامنے ایسے کپڑوں میں کھڑا تھا جو اُس کے لیے بہت بڑے تھے۔ مَیں نے سرخ نقاب کے پیچھے سے اُس کی جانب دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس نے کسی اور کے کپڑے پہنے ہوں۔اپنے جیکٹ کو کھینچتے ہوئے اُس نے اپنا گلا صاف کیا۔ جب وہ اپنی جیب سے سنہرا ہار نکال کر میری گردن میں ڈالنے کے لیے قریب آیا، اچانک مَیں نے گزری ہوئی اُس رات کے بارے میں سوچنا شروع کردیا جب ہمارے گھروں پر مسلّح چوروں کے گروہ نے حملہ کیا تھا۔ مجھے وہ انداز بھی یاد آیا جس طرح سے انھوں نے عورتوں کے زیورات چھینے تھے۔حملے کی رات گودام میں قتل کیے جانے والے ہر چوہے کی آواز بھی مَیں سن سکتی تھی۔مریم انھیں اپنا سونے کا ہار دینا نہیں چاہتی تھی اِس لیے اُس نے مدافعت کی۔ ایک ڈاکو نے اپنی بندوق کا نشانہ اُس کی طرف کیا اور اُسے سوٹ کردیا۔ پھر وہ حقارت کے ساتھ اُس کے مردہ جسم کو دیکھنے لگااور جھک گیا تاکہ اُس ہار کو کاٹ کر نکال سکے۔
حسن نے میرے چہرے سے سرخ نقاب اٹھایا ۔ مَیںنے مدھم ہوتی ہوئی قدموں کی آوازیں اور شوروغل سنا۔ حسن میرے سامنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنے قدموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کے بعد وہ کھڑا ہوگیا اور اُس نے اپنا جیکٹ ، پتلون اور شرٹ اتاردیا۔ کسی اور کے کپڑے۔ جب اُس نے میرا کمربند کھولنے کی کوشش کی تب اس کے پسینے میں شرابور ہاتھ کانپنے لگے۔ مَیں نے اپنے بستر کے نیچے کپڑے کا وہ سفید ٹکڑا رکھ لیا جسے میری ساس نے مجھے دیا تھا۔ مَیں چھت کی طرف دیکھنے لگی۔مَیں ارم کے تصوّر کی طرف بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی جومیری آنکھ کی پتلیوں میں کہیں راکھ ہو چکی تھی۔جتنا مَیں اُسے بھولنے کی کوشش کرتی ہوں اتنا ہی واضح اس کا چہرہ اور آواز میرے ذہن میں گونجنے لگتی ہے۔آنسو میرے گالوں پر بہنے لگے ۔ مَیں اپنے گھر والوں کو یاد کرنے لگی۔ جنھیں ننگا اور تارتار کرکے جانوروں کی طرح گولی مار دی گئی تھی۔ مَیں اُس مسلّح شخص کے بارے میں سوچنے لگی جو اُن تمام لوگوں کے کپڑے لے گیا تھا۔ مَیں تصوّرات اور آوازوں کے سمندر میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ پھر حسن لیمپ بجھانے چلا گیا۔ جب کانپتا ہوا شعلہ بھی ڈوب گیا، وہ تاریکی جو ہمارے اردگرد رینگ رہی تھی اُس نے کمرے پر حملہ کردیا۔ مَیں اب بھی چھت کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں اندھیروں کی عادی ہوچکی تھیں ۔ مَیں خاموش ہی رہی۔
ارم! ارم!اب مَیں اپنی موت کے بستر پر ہوں۔ میرا بیٹا، پوتے پوتیاں، داماد اور تمام رشتہ دار میرے پاس جمع ہیں۔ہر کوئی میری طرف محبت، ہمدردی اور ترس کھا کر دیکھ رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کر بھی تھوڑے خوش ہو رہے ہیں کہ وہ نہیں مر رہے ہیں۔ جب مَیں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا تب مَیں دیکھ سکتی تھی کہ وہ میری موت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ سوچ رہے تھے کہ موت میرے لیے سب سے موزوں ہے اور مَیں پہلے ہی مر چکی ہوں۔ اگرچہ کہ مَیں اب بھی سانسیں لے رہی تھی۔ ہر کوئی تنائو اور الجھن کا شکار نظر آرہا تھا۔ رستم ہر دو منٹ پر اپنے فون کی طرف دیکھتا جا رہا تھا اور کچھ لکھتا جارہا تھا۔ ہو سکتا ہے مَیں موت کے بستر پر نہ ہوںاور وہ اسکول میں ہو۔ ہر کوئی، وہ جو کئی دنوں سے وہاں تھے اور وہ بھی جو مجھے دیکھنے آئے تھے، وہ میرے چہرے کی طرف اِس طرح دیکھتے تھے جیسے مجھ سے اجازت مانگ رہے ہوں کہ اب ہمیں جانے دیا جائے۔ زینب اور دلبر دن بھر قرآن پڑھتے رہے تھے۔ جیسے وہ بھی چاہتے ہوں کہ میری روح جلد از جلد میرے جسم کو آزاد کردے۔ مَیں کہہ سکتی تھی کہ وہ لوگ تھک چکے ہیں اور مَیں اب بھی اتنی طاقتور ہوں کہ انھیں روک رکھا ہے۔ بے صبری بھیڑ مجھے آندھی کی طرح ادھر سے ادھر اڑانے لگی۔ اُن کے چہروں سے مایوسی بے صبری اور الجھن نمایاں ہو رہی تھی۔ ایسے ماحول سے میرا سر پھٹا جا رہا تھا۔
دروازہ کھلا اور بی نیوز کی چھوٹی لڑکی یعنی میری پوتی اسٹران سفید ڈریس میں کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کے بال جوڑے کی شکل میں بندھے ہوئے تھے۔ اُس کے سانولے سے چہرے پر غم کے تاثرات تھے۔جب وہ اندر آئی عورتیں قرآن پڑھ رہی تھیں۔ میری سانسیں رک رک کر چل رہی تھیں۔ رستم ابھی بھی فون پر کچھ لکھ رہا تھا یا کوئی اور کام کررہ تھا، مرزا شفقت کے ساتھ اسٹران کی جانب دیکھ رہا تھا۔ جب اس کی ماں نے اُسے اپنی آغوش میں لیا تب ہماری آنکھیں ایک دوسرے سے ملیں۔ مَیں نے مسکرانے کی کوشش کی۔وہ دوسری جانب دیکھنے لگی اور خاموش ہو گئی۔وہ خوفزدہ نظر آرہی تھی۔ اُس نے میری جانب اشارہ کیا اور مضبوطی سے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔ ہمارے پڑوسی کی لڑکی پروین نے دلبر کے کانوں میں کچھ سرگوشی کی۔ مَیں نے دیکھا کہ پروین ترچھی نظروں سے میری جانب دیکھ رہی ہے۔ مَیں نے اُس کے ہونٹوں کی حرکتوں کو پڑھنا شروع کیا۔ صرف اِس لیے کہ مجھے کچھ شک تھا۔ دلبر اُس کی طرف پلٹی کہا کہ اِن کی عمر کم ازکم سو سال ہے۔ ہو سکتا ہے اُس سے زیادہ بھی ہو۔ پروین پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ پرتجسّس نظروں سے میری جانب دیکھنے لگی اور کہا کہ ماشاء اللہ ! اتنی لمبی عمر!اے خدا، اب اِسے اٹھا لے ، اب اسے سکون ملے۔ دلبر بھی اثبات میں اپنا سر ہلانے لگیں۔ اِس نے بہت تکلیف جھیلی ہے اب اگر یہ مر بھی جائے تو اِسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ شاید اب یہی اِس کی قسمت ہے۔ مَیں نے اپنی آنکھیں بھینچ لی تاکہ میں یہ منظر نہ دیکھ سکوں۔
ارم !ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مَیں موت سے ڈر رہی ہوں اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ مَیں جلد ہی مر جائوں۔اگرچہ کہ میں خوفزدہ نہیں ہوں میری آنکھیں گردوغبار سے اٹی پڑی ہیں۔ نہ ہی مَیں اپنے اندرون کو کترنے والے کیڑوں سے خوفزدہ ہوں،میرا گوشت اور ہڈیاں تحلیل ہورہی تھیں ، میرے پھیپھڑوں اور دل میں کھٹمل رینگ رہے تھے۔ سچائی سے آگے کوئی چیز نہیں تھی۔ مَیں اِن میں سے کسی بھی چیز سے خوفزدہ نہیں تھی۔مَیں جو کچھ بھی سوچ رہی تھی وہ یہی تھا کہ جب میں مرجائوں گی تب مَیں دوبارہ تمھارے ساتھ مل جائوں گی۔موت مجھے تمھارے پاس دلہن بنا کر پہنچا دے گی۔
میری نظروں کا محور، میرے مسائل کا حل اور میری عبادتوں کا ثمر ، تم ہو ارم۔اِن گزرے ہوئے سالوں میں مَیں نے تمھیں چھپا کر رکھا تھا۔ پہلے اپنے آپ سے چھپایا اور پھر اُن تمام لوگوں سے جو میرے اطراف میں تھے۔ لیکن اب نہ مَیں یہ بوجھ اٹھا سکتی ہوں اور نہ اِسے اپنے ساتھ قبر میں لے جا سکتی ہوں۔ مجھ میں اب اتنی طاقت نہیں ہے۔اِس بوجھ سے اب مَیں سانس نہیں لے پا رہی ہوں۔ ہر سانس مجھے اپنے سینے میں خشک آگ کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ مَیں محسوس کر سکتی ہوں کہ میری روح دھیرے دھیرے میرا جسم چھوڑ رہی ہے۔ ہر گذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ ساتھ میرا وزن کم ہوتا جا رہا ہے۔اس دوردراز اور ویران سرزمین پر میرے دوست اور میرا پورا خاندان اپنی آنکھوں میں الوداعی سلام لیے میرے اطراف جمع ہیں۔زینب میرے بازو میں بیٹھ کر قرآن پڑھ رہی ہے تاکہ میری روح میرے ٹوٹے پھوٹے جسم سے آسانی کے ساتھ نکل جائے۔
ہر شے سیاہ ہوتی جارہی ہے۔ یقیناً یہ میرے آخری لمحات ہیں۔ میں نے اشارے سے کمرے میں موجود لوگوں کو جانے کے لیے کہا۔ جب وہ جانے لگے تب میں نے اُن کی سرگوشیاں سنی وہ کہہ رہے تھے۔ ’’مجھے امید ہے خدا اِس کی روح جلد ہی قبض کر لے گا،موت ہی اِس کے لیے نجات ہے۔ موت کے لیے خدا کا شکر ہے۔‘‘ہاں ارم ! مَیں خود بھی موت پر خدا کا شکر اداکرتی ہوں۔ میں تمھاری بخت کے خوش قسمت ستارے کی بھی مشکور ہوں جو اب بھی باقی ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو میں تم تک کیسے پہنچ سکتی تھی۔ لوگ اپنے پیچھے بے صبری، سرگوشیاں اور الجھنیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اب صرف مرزا اور رستم ہی کمرے میں رہ گئے تھے۔ ہم خوفزدہ اور مایوس ہو کر ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے۔ جیسے منہ میں کہیں دوری پر تین دانت ہوں اور اُن کا ایکدوسرے سے تعلق ہو۔ رستم دیوار کے منقّش پردوں سے چپک کر کھڑا ہوا تھا۔ ابراہیم، اسماعیل کو خدا کے لیے قربان کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ (رستم) پوری توجہ کے ساتھ ابراہیم، اسماعیل، سفید دنبہ اور پَروں والے فرشتے کو دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے مجبور ہو کر اُس کی طرف دیکھا اور اُس نے اپنی نظریں پھیر لی۔
مَیں نے اشارے سے رستم اور مرزا کو اپنے قریب بلایا۔ رستم میرے بائیں جانب اور مرزا میرے دائیں جانب بیٹھ گیا۔ مَیں نے اپنے بیٹے اور پوتے کی طرف دیکھا۔ مَیں نے اُن کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ تھوڑا سرکتے ہوئے مَیں نے اُن سے اور قریب آنے کو کہا۔ مرزا میری باتیں سننے کے لیے میرے منہ سے قریب جھک گیا۔ تب کمرے میں تیز میوزک کا دھماکہ ہوا۔ مرزا نے غصّے سے رستم کی جانب دیکھا جو اپنے فون کال کا جواب دینے میں مصروف تھا۔ ’’اُس چیز کو فوراً بند کرو‘‘رستم ابھی بھی فون پر تھا ’’دوست میں تمھیں بعد میں کال کرتا ہوں‘‘پھر وہ غصّے سے تپتے ہوئے اپنے والد کہ قریب اس طرح آیا جیسے کہہ رہا ہو کہ ابّا جان تم کبھی نہیں سمجھو گے۔مرزا غصّے ، مایوسی اور اداسی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر دوبارہ میرے کانوں سے قریب جھک گیا۔میں اپنے بیٹے کے کانوں میں ٹھنڈی آہوں کے ساتھ ارم، ارم کہہ رہی تھی۔جب میں سرگوشی میں یہ نام لے رہی تھی ،تو مجھے کچھ راحت کا احساس ہوااور میں گہری سانس لینے کے قابل ہو گئی۔ میں نے مرزا کو اور قریب کھینچا اور کہا میرے بیٹے! میرے مرزا!مجھے سنو! یہ سنو کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں۔ اس کوشش نے میری سانسیں روک دی۔ میرا گلا خشک ہو گیا۔ مَیں نے پھر ایک گہری سانس لی۔ میرے بیٹے مرزا! مرزا! یوں محسوس ہوتا ہے تم مجھے نہیں سن رہے ہو۔ پھر اُس نے تیز آواز میں کلمۂ شہادت پڑنا شروع کردیا۔ مَیں نے اُسے خاموش کرنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھایا اور اسے اور قریب کرنے کی کوشش کی۔ اب میرا منہ اس کے کانوں کو چھو رہا تھا۔ مَیں نے اُس سے حسن کے بارے میں، ارم کے بارے میں اور میری آخری خواہش کے بارے میں کہا۔ مجھے وہاں دفن کرو یہ میری آخری التجا ہے۔ ورنہ تمھیں میری دعائیں نہیں ملے گی۔اُس کے چہرے کا رنگ اس طرح سے اڑ گیا جیسے اُس کے گلے میں کوئی بال پھنس گیا ہو۔ وہ کھنکارتے ہوئے سانسیں لینے لگا۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں نے اسے روک دیا۔ اس کے منہ پر میں نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اگر تم میرے پیارے بیٹے ہو، میرے بہادر بیٹے ہو تو مجھ سے وعدہ کرو مرزا کہ تم مجھے وہاں دفن کرو گے۔
میرا ہاتھ دباتے ہوئے اس نے کہا کہ ہاں ہاں میں وعدہ کرتا ہوں۔
دھندلے تصوّرات کے درمیان میں نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں بند کیں۔ مرزا احساسِ جرم کے ساتھ اپنے بیٹے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ رستم سمجھ نہیں پایا کہ یہاں کیا ہوا تھا۔ وہ مایوس دکھائی دے رہا تھا۔ میری آخری التجا کسی ایسے گناہ کی طرح تھی جسے میں نے اُن کے خلاف کیا ہو۔ مرزا کی پریشانی اور مایوسی کے جذبات اُس کے چہرے سے غائب ہوچکے تھے لیکن رستم کے چہرے پر اب بھی موجود تھے۔ مرزا کے چہرے پر عزم محکم اور غصّے کے اثرات نمایاں تھے۔ یہاں تک کہ میری زبان منہ میں سوج گئی تب بھی میری آہوں سے ارم ارم کی صدائیں آرہی تھیں۔ بہت پہلے جب اِس کمرے کی گھٹن میں میری آواز دبا دی گئی اُس کے بعد مَیں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔
٭٭٭

یعود اکینسی کا افسانہ ’بہشتِ گمشدہ ‘ کا اردو ترجمہ معروف مترجم ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے کیا ہے۔ یہ اردو ترجمہ انھوں نے اردو چینل کے لیے کیا تھا جو اردو چینل کے شمارہ ۳۳ میں شامل ہے۔
یعود اکینسی بئٹ من کے ایک گائوں یدی بلوک میں 1979ء میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ڈیسلے یونیورسٹی سے ایجوکیشن کے شعبے میں گریجویشن مکمل کیا۔ اکینسی حال میں بیٹ من میں معلم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ یوزونسو یِل یونیورسٹی ترکی سے بھی منسلک ہیں۔ اکینسی کوان کے افسانوں پر کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ 2005ء میں انھیں ہلڈن ٹینر ایوارڈ اور 2007ء میں یونس نادی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔اُن کا شمار ترکی اورکرد زبان کے اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ اُن کی تخلیقات کے انگریزی اور جرمن زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ اُن کے حالیہ ناول “جنت کی گمشدہ زمین”کو کُرد، ترکی اور انگریزی زبانوں میں “دی ٹریس”نامی ٹائٹل کے ذریعے ریلیز کیا گیا۔اکینسی فی الحال اپنے تیسرے ناول پر کا کر رہے ہیں۔ (قمر صدیقی)