Interview of Adil Mansuri by Dr. Qasim Imam

Articles

ہر تجربہ رواج نہیں پا تا ہے

عادل منصوری

ڈاکٹرقاسم امام : عادل منصوری صاحب سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ نے جو ماڈرن یا سر ریلسٹک شاعری کی ہے تو کیا یہ سب کچھ آپ کے ذہن میں پہلے سے تھا یعنی یہ کہ آپ کا تخلیقی تجربہ اسی طرح کا اظہار چاہتا تھا یا پھر آپ نے جدیدیت سے متاثر ہوکر اس اندازِ بیان کو اختیار کیا؟
عادل منصوری: ’ماڈرن ‘ یا ’سرریلسٹ‘ وغیرہ قسم کے نام شاید تخلیق کاروں نے نہیں دیئے۔ پینٹنگ کے ذریعہ اس بات کو موثر طریقے سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ’لینڈ سکیپ‘ اور ’پورٹریٹ‘پینٹنگ غالباً ہر دور میں، ہر وقت میں تقریباً روایتی یگانگت سے منسلک رہتے ہیں۔ آنکھ کے سامنے کوئی منظر یا شخص موجود ہوتا ہے، جس کا تاثر فنکار برش، رنگوں کی مدد سے کینواس پر پھیلاتا ہے۔ اس کے برعکس جب ’کیوبزم‘ اور ’ایبسٹریکٹ‘ پینٹنگ کا دروازہ کھلتا ہے اور کینواس بالکل بدل جاتا ہے۔ پکاسو، ڈالی ، پولوک تک پہنچتے پہنچتے کینواس اپنی فریم توڑ کر پھیلنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے افق در افق پھیلتا ہوا خلاء کی لامحدود یت سے جا ملتا ہے۔ اب اسے اپنی قدیم فریم کی حدود میں واپس لے جانا ناممکنات میں شامل ہے۔بالکل اسی طرح :
یہ ہم سے پوچھ کہ معیارِ دوستی کیا ہے
کہ ہم نے سانپ بھی پالے ہیں آستینوں میں

محسوس یہ ہوتا ہے مجھے آپ سے مل کر
پہلے بھی کہیں اپنی ملاقات ہوئی ہے

جیسے شعر کہنے والا اب :
حیرت سے سبھی خاک زدہ دیکھ رہے ہیں
ہر روز زمیں گھٹتی ہے کونوں کی طرف سے
ڈھوتے ہیں شب و روز یہ الفاظ کی اینٹیں
رہتی ہے ادھوری ہی ، وہ دیوار الگ ہے
دل کی گہرائی میں خواہش کے اگیں ہاتھ ہزار
اور خواہش کے ہر اک ہاتھ میں سُرخاب کا پر
اظہار کا نیا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ کافکا، بیکٹ اور ’تھیئٹر آف ایبسرڈ‘ کے متعدد قلم کاروں نے معنی کی فریم توڑ دی ہے ،اور تخلیقی تجربے کے اظہار کے لیے خلاء کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اور تحت الشعور میں موجزن احساسات کو وسعتِ آفاق میں پھیلا دیئے ہیں۔
ڈاکٹرقاسم امام : اچھا ، اس طرح کا اندازِ بیان اختیار کرتے وقت آپ نے کبھی یہ نہیں محسوس کیا کہ اردو میں اس نوع کی شاعری ابھی رواج نہیں پاسکی ہے ، اس طرح کی شاعری کی کوئی مستحکم روایت نہیں ہے تو اس پر شدید رد عمل سامنے آئیں گے؟
عادل منصوری:شدید ردِّ عمل کا خوف محسوس کریں تو پھر ادب اور آرٹ میں کوئی نئی بات، نیا تجربہ، نئی جدّت وجود ہی میں نہیں آسکتی۔ اگر شدید ردِّ عمل سامنے آنے کے فرضی خوف کی دیوار کے پیچھے نت نئے اظہار کے پیکروں کو روپوش کردیا جائے تو تجسس کے افق پر پَو پھٹنے کے منظر کا تصور کیسے مجسوم ہوسکے گا۔ نہ صبحِ کاذب ہوگی ، نہ صبحِ صادق تاریکی کی اتھاہ گہرائی میں امید کی کرن کیسے جگمگائے گی؟ سنگ نا تراشیدہ میں محور خواب پیکروں کو کیسے جگایا جاسکے گا۔ جواب میں سوالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ دروازہ کب تک بند رہے گا؟
ڈاکٹرقاسم امام :خیر نظموں میں سر ریلسٹک انداز بیان کسی نہ صورت نبھ جاتا ہے اور آپ نے اس نہج پر چلتے ہوئے کچھ شاہکار نظمیں بھی خلق کی ہیں اور آج یہ اندازِ بیان اردو کی نظمیں شاعری میں رواج بھی پاگیا ہے لیکن غزل میں شاید یہ کوششیں اتنی کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپ کی ’’الف اور شین ‘‘ سیریز کی غزلوں اور ظفر اقبال کی اینٹی غزل میرے خیال میں اردو میں اتنی رواج پاتی نظر نہیں آرہی ہے؟
عادل منصوری:نظم کے ذریعے افتخار جالب اور احمد ہمیش نے اظہار کے کینواس کو پھیلانے میں بہت اہم ، نمایاں اور کامیاب تجربے کئے ہیں۔ غزل میں ظفر اقبال نے مشعل کو بلند کئے ہوئے بڑی پیش رفت کی ہے۔ غزل کو نئی وسعت اور زبان کو انوکھی دھار عطا کرنے کا ان کا کارنامہ اردو غزل کو نئی تابناکی سے منور کررہا ہے۔ اب تک ، ۔۔۔۔۔ ان کی کلیا ت کا سلسلہ اگر ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے تو دوسرے پلڑے میں کیا کیا رکھا جاسکتا ہے؟ کسی بھی طرزِ تحریر کا رواج پانا ، یہ تخلیقی عمل کے بعد کی بات ہے۔ ہر تجربہ رواج بھی نہیں پا تا ہے۔ یہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا معیار بھی تو نہیں بن سکتا۔ شاید نظم کی بہ نسبت غزل کی فریم منہدم ہونے میں مزید وقت ، شدید ضرب اور کئی ایک ظفر اقبال درکار ہوں۔لیکن پچھلی پانچ دہائیوں میں غزل کتنی بدلی ہے، کتنی کامیاب رہی ہے یہ تو اظہرمن الشمس ہے۔
ڈاکٹرقاسم امام : ہاں ! یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی اور ظفر اقبال اور کچھ دیگر شعراء کی اس نوع کی غزلوں سے ایک بے تکلفی کا مزاج پیدا ہوا اور نئے شعراء نے آپ حضرات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تخلیقی اظہار میں لکیر کے فقیر نہ رہتے ہوئے بے تکلفی کا اظہاراختیار کیا۔ کیا آپ اسے جدید غزل کی کامیابی تصور کرتے ہیں؟
عادل منصوری:زبان کی نسبت بے تکلفی کا مزاج ظفر اقبال کی غزلوں میں شروع ہی سے کامیاب ترین شکل میں نمایاں ہے۔ آج وہ اردو غزل میں Legendہیں ، اور یہ بات راتوں رات تو ظہور میں نہیں آجاتی۔
ڈاکٹرقاسم امام :گجراتی شاعری میں عادل منصوری بھی ایک Legendشاعر کا نام ہے۔ خیر سے اردو کے جدید شعرا کی مختصر سے مختصر فہرست میں بھی آپ کا نام ضرور شامل رہتا ہے۔ تو ان دو مختلف زبانوں میں شاعری کرتے ہوئے آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ یعنی اپنے آپ کو جذباتی طور کس زبان سے زیادہ قریب پاتے ہیں اور جب آپ ایک زبان میں شاعری کررہے ہوتے ہیں تو کیا دوسری زبان اور اس کی شاعری اور اس کی شعری روایت سے بھی استفادہ کرتے ہیں؟
عادل منصوری:دو مختلف زبانوں میں شاعری کرنے کا تجربہ کچھ عجیب سا ہے۔ گجراتی مادری زبان ہوتے ہوئے بے تکلفی اور آسانی کے ساتھ اظہار کا ذریعہ بنتی ہے۔ دن بھر گھر میں گجراتی بولتا ہوں ۔ اردو نائٹ اسکول میں جاکر پڑھی، سیکھی اور ڈھیر ساری کتابیں پڑھیں اور مشاعرے سنے، پھر بھی جب جب ذریعہ اظہار کے طور پر برتنے کی گھڑی آتی ہے تو ذہن میں ایک گھنٹی سی بجنے لگتی ہے ، کہ کہیں زبان میں لکھنے، بولنے ، برتنے میں کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہورہی ہے؟ کئی بار لغت بھی زیرِ مطالعہ رہتا ہے۔ لغت میں ایک ہی لفظ کے کئی کئی معنی اور بعض جگہ تو متضاد معنی دیکھ کر شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہوں ۔ شاید اسی تجربے کے تحت ’’ یہود یُو کان یُوس یکرز‘‘ قبیل کی نظمیں بھی کہی ہیں۔
گجراتی میں غزل کہتے وقت اردو زبان اور غزل کی شعری روایت اور تجربے سے ، اور اردو میں نظم لکھتے وقت گجراتی زبان اور گجراتی نظم کی شعری روایت اور تجربے سے بھر پور استعادہ کرتا رہتا ہوں۔ اصل میں، دو زبانوں اور دو زبانوں کی شعری روایات کے درمیان ایک Balancing Actہے میرے لیے۔ کبھی کبھی اس عمل پر مجھے تعجب بھی ہوتا ہے۔ اردو کی عظیم شعری روایت سے گجراتی غزل میں بھر پور استفادہ دیکھا جاسکتا ہے۔ تقریباً 35-40سال قبل ممبئی میں ’آئی ، این، ٹی‘ کے ایک بڑے گجراتی مشاعرے میں نظامت کرتے ہوئے ، ہر دو شاعر کے درمیانی وقفے میں ظفر اقبال کے منتخب شعر سناتا رہا۔ گجراتی شاعروں اور سامعین کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ گجراتی کے مقبول اور معمر شاعر امرت گھایلؔ (جو اردو بھی جانتے تھے ) ظفر اقبال کے شعروں بہت متاثر ہوئے۔ ’آبِ رواں‘ منگوا کر بڑے ذوق شوق سے پڑھی اور ایک حد تک ان کا اثر بھی قبول کیا۔
ڈاکٹرقاسم امام :گجراتی غزل پر اردو غزل کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا گجراتی غزل کی بنیاد اردو غزل پر ہی ہے؟
عادل منصوری:جی ہاں! گجراتی غزل کی بنیاد اردو پر ہی ہے۔ تقریباً 150-175سالوں سے گجراتی میں غزلیں لکھی جارہی ہیں۔ 103برس کی عمر کے بزرگ شاعر حضرت عاصمؔ رَاندِیری (محصود میاں صوبے دار) آج بھی بقید حیات ہیں۔ اختر شیرانی کے رنگ میں نظمیں ، غزلیں کہتے ہیں۔ ’سلمیٰ‘ کی طرح ’لیٖلیٰ ‘ نام کی فرضی محبوبہ سے خطاب کرتے ہوئے شاعری کرتے ہیں۔ ان کی کلیات کا نام بھی ’لیٖلیٰ‘ ہی ہے اور کافی مقبول و مشہور ہے۔
ابتدا میں گجراتی میں فارسی اور عربی آمیز غزلیں لکھی جاتی تھیں۔ پھر اردو آمیز اور 1960ء سے خالص گجراتی میںغزلیں لکھی جارہی ہیں۔ ممبئی، احمد آباد اور گجرات کے کئی بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر مشاعروں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اور ان مشاعروں میں اکثر جدید غزل کا دور دورہ ہے۔
ہم لوگوں نے جب گجراتی میں غزل کہنی شروع کی تو سامنے اردو غزل کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔خاص طور پر جدید اردو غزل کے تخلیقی سفر کا غیر شعوری ادراک، گجراتی غزل کی کشتی چلانے کے لیے بادبان اور پتوار بن گیا۔1960ء سے پہلے گجراتی غزل کی دنیا میں جدید اردو غزل سے واقفیت برائے نام بھی نہیں تھی۔ گجراتی کے وہ شعرا جو اردو شاعری سے واقفیت رکھتے تھے ان میں اکثر اختر شیرانی اور عبد الحمید عدم کو اہم شاعر مانتے تھے اور بات بات میں ان کے شعر ٹانکا کرتے تھے۔
جدید اردو غزل کا تجربہ گجراتی میں نئے گل کھلا گیا۔ بہت قلیل مدت میں گجراتی غزل کا رنگ روپ ، زبان اور طرز سب کچھ بدل گیا۔ غزل ، روایت کی لکشمن ریکھا پھلانگ کر باہر نکل آئی۔ اتاری ہوئی کینچلی میں سانپ کا واپس جانا ، ناممکن ہوگیا۔ سانیٹ اور ہائیکو کی طرح غزل بھی اب گجراتی شاعری کا حصّہ بن گئی ہے۔ بلکہ اہم اور مقبول ترین حصّہ بن گئی ہے۔
ڈاکٹرقاسم امام:خیر یہ بھی بتاتے چلیں کہ امریکہ جو کہ اب آپ کا وطنِ ثانی بن چکا ہے ، یہاں اردو کی کیا صورتِ حال ہے۔ اور تخلیقی اظہار کے لیے آپ لوگ اردو زبان کا استعمال کرتے ہیںتو کیا وہاں اتنے دنوں رہتے ہوئے سوچنے کے عمل میں بھی اردو کا اتنا ہی ساتھ ہوتا ہے جتنا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے تھا؟
عادل منصوری:یہاں امریکہ میں سوچنے کے عمل میں اردو کا اتنا ہی ساتھ ہوتا ہے جتنا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے تھا۔ اردو کے رسائل ، کتابیں، مشاعرے ، ٹی وی چینلوں میں زبان کی دھڑکنیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔

———————————————————————