Khwaja Ahmad Abbas by Dr. Abubakar Abbad

Articles

ترقی پسندوں کا پہلا درویش: خواجہ احمد عباس

ڈاکٹر ابوبکر عباد

خواجہ احمد عباس افسانہ نگار تھے، ناول نویس تھے،ڈرامہ نگار تھے ، صحافی تھے، کالم نگار تھے،فلم ساز تھے اورخاکہ نگار بھی۔انھوں نے سفر نامے لکھے،آپ بیتی لکھی ، ڈراموں میں ایکٹنگ کی اور اردو، ہندی اورا نگریزی میں بہت سارے مضامین تحریر کیے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی ہر ایک حیثیت ایک دوسرے پر فوقیت رکھتی ہے ، سو اُن کا تقابل مختلف اصناف کے ماہرین یا ان کے معاصرین سے نہیں بلکہ خود ان کی ہی شخصیت کی مختلف جہات کاایک دوسرے سے کرنا چاہیے۔ ان کی اس ہمہ گیر خوبی کو عام لوگ اور ناقدین بھی جانتے تھے اور خواجہ احمد عباس بھی اس سے واقف تھے ۔ چنانچے وہ لکھتے ہیں:
ادیب اور تنقید نگار کہتے ہیں میں ایک اخبارچی ہوں،جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میں ایک فلم والا ہوں، فلم والے کہتے ہیں میں ایک سیاسی پروپیگنڈٹسٹ ہوں، سیاست داں کہتے ہیں کہ میں کمیونسٹ ہوں،کمیونسٹ کہتے ہیں کہ میں بورژوا ہوں۔۔۔ سچ یہ ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں۔ ‘‘(آئینہ خانے میں، مطبوعہ، افکار، کراچی، دسمبر، 1963)
اور آگے کی بات یہ ہے کہ لوگ انھیں لا مذہب سمجھتے تھے، لیکن اُنھوں نے اپنے وصیت نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’میں اب بھی لا ادری ہوں یعنی مذہب کا مجھے زیادہ علم و ایقان نہیں، لیکن میں وحدہ لا شریک کا پرستار ہوں، اور اس حیثیت سے میں مسلمان ہوں۔‘‘دوستوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے احباب کی رائے تھی کہ خواجہ احمد عباس نہایت نیک، شریف النفس، ترقی پسند، سیکولر اور ہر مصیبت میں لوگوں کے کام آنے والا فرشتہ تھا۔
خواجہ احمد عباس اپنے متعلق جو کہیں ، لوگ ان کے بارے میں جو سمجھیں۔ ان کی کتاب زندگی اور فن کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہ ایک بشر دوست ،بے ریا ، مخلص، حق گو، ہمدرد،اور غیر مصلحت پسند انسان تھے۔ اور زندگی بھر اسی انسانیت کی تبلیغ کے لیے انھوں نے مختلف ذرائع ابلاغ سے کام لیا۔یاد پڑتا ہے کہ حدیث کی کسی کلاس میں ایک استاذ نے فرمایا تھا کہ ’’ جس شخص سے ہر طبقے کے لوگ خوش ہو ں وہ شخص در اصل منافق ہوتا ہے۔‘‘ایک شاگرد نے دریافت کیا کہ اگر بعض طبقے خوش ، بعض ناراض ہوں تو؟ ارشاد فرمایا: ’’ وہ سچا انسان ہو گا۔‘‘’’اور حضرت ! جو سبھی طبقے ناراض ہوں جس آدمی سے۔‘‘ ایک اور شاگرد نے استفسار کیاتھا۔فرمایا استاذ نے کہ:’’ وہ سچا انسان حق پسند بھی ہوگا ، حق گو بھی۔‘‘ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ انسانیت کی یہ منزل بے حد بلند لیکن انتہائی خطرناک ہوتی ہے ، تادیر کم ہی لوگ اس منزل پر ٹھہر پاتے ہیں۔‘‘ اور صاحبو! کہنے کی اجازت دیجیے کہ خواجہ احمد عباس انسانیت کی اس بے حد بلند لیکن انتہائی خطرناک منزل سے عمر کے آخری پڑائو تک نیچے نہ آئے۔ جب انھوں نے افسانہ ’’سرکشی ‘‘ لکھا تو مسلمانوں نے ناراضگی جتائی اورسخت احتجاج کیا کہ افسانے کی مسلم ہیروئن کی ایک ہندو سے کیوں شادی کروائی گئی۔افسانہ ’’بارہ گھنٹے ‘‘ کی اشاعت پر ہندوئوں نے اس بات کو بنیاد بنا کر خواجہ صاحب کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا، کہ افسانے کا ادھیڑ عمر انقلابی بارہ گھنٹے کے لیے رہا ہونے کے بعد بینا نام کی ایک آئیڈلسٹ لڑکی کے ساتھ رات گزارتا اور اس کے جسم سے لطف اندوز ہوتا ہے۔اور خواجہ صاحب کی زبردست مخالفت اور ان کے خلاف سب سے بڑا ہنگامہ تب ہوا جب ان کی کہانی ’’سردار جی‘‘ پہلی بار اگست 1948کے ’ادب لطیف‘ اور کچھ مہینوں بعد ہندی رسالے ’مایا‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کہانی کے خلاف پورے ہندوستان کے سکھوں نے اتنا زبردست مظاہرہ کیا تھاکہ یو پی کی حکومت نے کہانی کو ممنوع قرار دے دیا اور مصنف، ایڈیٹر اور پریس کے مالک پر الٰہ آباد کورٹ میں مقدمہ بھی چلایا ۔لیکن خواجہ صاحب کی مخالفتوں کے تعلق سے مقام حیرت ابھی باقی ہے۔تب تک ذہن میں اُس واقعے کو تازہ کر لیجیے جب خواجہ صاحب نے راما نند ساگر کے ناول ’’اور انسان مرگیا‘‘ کا دیباچہ لکھا تھا۔تلخی گفتار کی اجازت دیں تو عرض کروں کہ تقسیم ملک کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے خواجہ احمد عباس کی صورت میں پہلی بار کسی نے سچ اورحق بات لکھنے کی جرأت کی تھی۔ ورنہ ترقی پسندوں نے توفسادات کے تعلق سے عمومی رائے یہ بنائی تھی کہ اس میں ہندو، مسلم اور سکھ کی کوئی غلطی نہیں۔ ساری غلطی انگریز سامراجی حکومت کی ہے جس نے نفرت ونفاق کا بیج بویا ، جس کی وجہ سے ملک تقسیم ہوا ۔ اور در اصل تقسیم ملک ہی فساد ات کی جڑ ہے۔خواجہ صاحب نے واضح طور سے لکھا کہ برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ان فسادات کے ذمے دارمسلمان اور ہندوستان میں ہندو اور سکھ ہیں۔ اوریہ بھی کہ ان فسادات کی ذمے داری ہندو مہا سبھا، جن سنگھ، کانگریس اور مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹی پر بھی عائد ہوتی ہے کہ اس نے عوام کو مہذب بنانے کی ذمہ داری نہیں نبھائی ۔ بس پھر کیا تھاترقی پسند دوستوں نے خواجہ صاحب کو عوام دشمن ، بورژوا اور سامراجی ایجنٹ بتایااور انھیں مجرم قرار دے کر انجمن کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اور مقام حیرت یہ ہے کہ الٰہ آباد کی کورٹ نے تو دو سماعتوں کے بعدکہانی ’’سردارجی‘‘ کے تعلق سے خواجہ صاحب پر چلائے جارہے مقدمے کو خارج کردیااور خوشونت سنگھ نے ان کی اس متنازعہ کہانی کوپنجاپ پر لکھی جانے والی کہانیوں کے اپنے انگریزی انتخاب میں سرِ فہرست شائع کیا۔ لیکن خواجہ احمد عباس کو ’’اور انسان مر گیا‘‘ کے دیباچے میں حق بات لکھنے کی پاداش میں ترقی پسندوں کی عدالت نے انھیں نہ صرف انجمن سے نکالادیابلکہ اپٹا(IPTA)کے جنرل سکریٹری کے عہدے سے بھی ہٹایا اور ’’نیا ادب‘‘ کی رکنیت سے بھی باہر کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ برسوں بعد اُن سخت گیر دوستوں کے خیالات میں بھی تبدیلی آئی اوران کے رویوں میں بھی۔
خواجہ احمد عباس کو غیر اردو داں حضرات صحافی، فلم سازاور اسکرپٹ رائٹرکے علاوہ ’دھرتی کے لال‘ میںبلراج ساہنی اور ’سات ہندوستانی ‘ میں امیتابھ بچن کو بریک دینے والے کی حیثیت سے یاد رکھنے کے علاوہ راج کپور کے لیے بے حد کامیاب فلمیں لکھنے والے کہانی کار کے اعتبار سے بھی جانتے ہیں ۔ لیکن اردو کی دنیا میں بطور فکشن نگار اُن کی حیثیت مسلم ہے۔ انھوں نے نو ناول تحریر کیے۔ جن میں ’ ایک ٹب اور دنیا بھر کا کچرا‘، ’دوبوند پانی‘، ’تین پیسے‘، چار دل چار راہیں‘، ’سات ہندوستانی‘، انقلاب‘، فاصلہ‘، ’بمبئی رات کی بانہوں میں‘ ، ’اندھیرا اجالا‘ اور میرا نام جوکر‘ہیں۔ ’دوبوند پانی‘ راجستھان کے پس منظر میں پانی حاصل کرنے کی کوششوں پر مبنی ناول ہے ۔ ’سات ہندوستانی ‘چھوٹا سا ناول ہے جس میں گُوا کی تحریک آزادی کو محور میں رکھ کرہندوستان کے مختلف مذاہب اورمختلف لسانی خطوں کے تعصبات کوختم کرکے انھیں متحد رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان دونوں ناولوں پر انھیں قومی یک جہتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ’اندھیرا اجالا‘ میںحقیقت پسندی کو خوبی سے پیش کیا گیاہے۔ اور ’انقلاب ‘آزادی کی جد وجہد کی داستان پر مبنی ان کا ضخیم ناول ہے جو پہلے انگریزی میں شائع ہواتھابعد کو اردو میںہوا۔ اس ناول کو خواجہ صاحب کے ذاتی تجربے کی شمولیت اور عصری حسیت نے بے حد اہم بنادیا ہے۔
خواجہ صاحب کا پہلاافسانوی مجموعہ ’’ایک لڑکی‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور پھر ’پائوں میں پھول‘، ’زعفران کے پھول‘، ’میں کون ہوں‘،’کہتے ہیں جس کو عشق۔۔۔‘، ’دیا جلے ساری رات‘، ’پیرس کی ایک شام‘، ’گیہوں اور گلاب‘، بیسویں صدی کے لیلیٰ مجنوں‘، ’نیلی ساڑھی‘ ’سونے چاندی کے بت ‘(اس مجموعے میں بعض فلمی ستاروں کے خاکے بھی شامل ہیں)اور ’نئی دھرتی نئے انسان‘تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ٍ جن سات ڈراموں کی انھوں کی تخلیق کی ان میں’زبیدہ‘، ’یہ امرت ہے‘، ’میں کون ہوں‘، انناس اور ایٹم بم‘، ’لال گلاب کی واپسی‘، گاندھی جی کے قتل پر طویل ڈرامہ’گاندھی اور غنڈہ‘، اور ’بھوکا ہے بنگال‘ جس پر بعد میں ’دھرتی کے لال ‘ نام سے فلم بنائی گئی ، خاصے اہم ہیں۔ان کے سفر ناموں میں ’ مسافر کی ڈائری‘، خروشچیف کیا چاہتا ہے‘،’ مسولینی‘اور ’محمد علی ‘ کے نام لیے جاتے ہیں۔1977میں انھوں نے انگریزی میں I am not an islandکے عنوان سے اپنی آپ بیتی لکھی ۔ یہ آپ بیتی صرف ان کی زندگی کے اتار چڑھائو کاہی نہیں بلکہ برصغیر کی نصف صدی کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی تار یخ کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی بھی سوانح تحریر کی ہے۔ کئی ایک تنقیدی مضامین کے علاو ہ دانشورطبقے کے حوالے سے ان کے افسانہ نما طنزیہ مضمون ’انٹلکچوئل اور بینگن‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔لیکن آج کی صحبت میں گفتگو ان کے افسانوں اوران کے افسانوی طریقۂ کار سے ہوگی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام ترقی پسند افسانہ نگاروں کی طرح خواجہ احمد عباس نے بھی اپنے افسانوں کا محور و مرکزمعاشی، معاشرتی مسائل اور سماجی نظام کو بنایا ہے۔ فاقہ کشی، عدم مساوات، فسادات اور سامراج دشمنی جیسے موضوعات کو اہمیت دی ہے، روزانہ زندگی میں رونما ہونے وا لے واقعات اور انسان کوعام طور سے پیش آنے والے حادثات سے پلاٹو ں کی تعمیر کی ہے اور دبے کچلے عوام، گرے پڑے لوگوں اور حاشیے پر زندگی بسر کرنے والے افراد کو افسانوی محفل کا مسند نشیں بنایا ہے۔ لیکن انھوں نے اپنے ہم عصر ترقی پسندافسانہ نگاروں سے ذراالگ راہوں کا بھی انتخاب کیاہے۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے تاریکیوںمیں بھی روشنی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے اورزندگی کے بعض خوبصورت پہلوؤں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے ’’گیہوں اور گلاب‘‘ ،’’ لال گلاب کی واپسی‘‘ اور ’’زعفران کے پھول‘‘ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی غیر روایتی رومان کے کچھ رومانی افسانے لکھے ہیں مثلاً ’’کہتے ہیں جس کو عشق‘‘، ’’شکر اللہ کا‘‘ اور ’’مسوری 52ء‘‘ وغیرہ۔ پھر انھوں نے ملک کے بعض ترقیاتی منصوبوں کوبنیاد بنا کر بھی افسانے لکھے ہیں جن میں ’گیہوں اور گلاب‘ کے علاوہ ’نئی جنگ‘ جیسے افسانوں کو رکھا جا سکتا ہے۔ اور شاید یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ خواجہ احمد عباس پہلے ترقی پسند افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں میں حب الوطنی کے جذبات کا کثرت سے اظہار کیا ہے۔اپنے مجموعے ’نئی دھرتی نئے انسان‘ میں انھوں نے ہندوستان میں ہونے والی ترقیوں، یہاں کی بدلتی ہوئی سماجی قدروں اور ہندوستانی عناصر کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنے افکار و نظریات کو جِلا بخشنے کے لیے کارل مارکس اور لینن کے ساتھ گاندھی اور نہرو کے فلسفے سے بھی روشنی حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے بیشتر افسانوں میں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جستجو دکھائی دیتی ہے جس میں عدم تشدد، مساوات، خیر سگالی، سماجی انصاف اور امن وامان کی بالا دستی ہو۔ ان کے ایک اہم افسانے ’’نکسلائٹ‘‘کی ایک لڑکی کہتی ہے’’ اس تشدد کے راستے سے ہم اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے‘‘۔ظاہر ہے افسانے میں اُن حالات سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو نوجوانوں کو دہشت کے راستے پر ڈالتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے اس افسانے پر بعض احباب نے خاصی ناگواری کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کو کیا کہیے گاکہ تشدد کی راہ سے منزل تک نہ پہنچے کی یہ بات آج بھی اُتنی ہی صحیح ہے جتنی تب تھی۔
جنسی موضوع بھی ان سے اچھوتا نہیں رہا ہے۔ اس ضمن میں ’’ایک تھی لڑکی‘‘ اور ’’بارہ گھنٹے‘‘ جیسے افسانوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’آزاد کا دن‘ کی طوائف ملک کی آزادی سے اس لیے خوش نہیں ہے کہ اس کے بعد انگریز اپنے وطن واپس چلے جائیں گے جس کی وجہ سے اس کا پیشہ بند ہو جائے گا، یا پھر ہندوستانیوں سے اسے بہت ہی کم پیسے ملیں گے۔ جنسی موضوع کے افسانوں میں خواجہ صاحب نے منٹو کے بیان کی سی گرماہٹ ، بیدی کی سی نفسیاتی تحلیل اور عصمت کے چٹخارے دار انداز سے پرہیز کیا ہے۔ وہ اس بات کے شدت سے قائل تھے کہ انسان نہ تو محض نفسیات سے مغلوب ہوتا ہے، نہ صرف معاشیات اس کی شخصیت کو طے کرتی ہے۔ اور نہ ہی وہ صرف خارجی ماحول سے متاثر ہوتا ہے،نہ محض باطن کا اسیر۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ:
انسان کا کیریکٹر ہی نہیں، اس کی قسمت بھی داخلیت اور خارجیت دونوں کے تانے بانے سے بنتی ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا،چاہے وہ مارکس کا چیلا ہو یا فرائڈ کا پیرو۔ بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ زندگی کی بُناوٹ میں نفسیات کا تانا زیادہ اہم ہے یا معاشیات کا بانا۔
خواجہ صاحب نے اپنے افسانوں میں عصری زندگی کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی مسائل کو بڑی خوبی سے بیان کیااور جدید معاشرے کے کھوکھلے پن کوہنر مندی سے دکھایا ہے۔ وہ انفرادی انسان سے زیادہ معاشرتی انسان کی تصویر کشی کرتے ہیںجس میں ظلم کے خلاف ان کا سیاسی نقطۂ نظرخاصی اہمیت رکھتا ہے۔بیشتر افسانوں میں انسان کا ارتقا سماجی ارتقاسے وابستہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور انسان اور اس کے معاشرتی یا اجتماعی وجود کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس میں بحیثیت مجموعی ایک درد مند دل اور روشن فکر کی جھلک بہر طور نظر آتی ہے۔
تسلیم کرنا چاہیے کہ فکر و خیال اور موضوعات کے اعتبار سے خواجہ احمد عباس کی کہانیاں بے حد اہم ہیں لیکن فن اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے انھیں اعلیٰ پیمانے کے افسانوں میں بمشکل شامل کیا جا سکتاہے۔ یہ درست ہے کہ افسانے میں مقصدیت کا ہونا معیوب نہیں لیکن محض مقصد کو افسانوی پیرائے میں پیش کرنے کے عمل کی بھی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ سچ کو سچی صورت میں اور واقعی افراد کو بطور کردار افسانے میں پیش کرنے کی روایت ہمارے یہاں موجود رہی ہے۔ لیکن فکشن پر جوانی اور اس کے جوبن پر نکھار تب آتا ہے جب جھوٹ کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ سچ لگے اور غیر حقیقی یا لاموجود کرداروں کو افسانہ نگاراپنی خلاقی سے یوں ڈھالے کہ وہ جیتے جاگتے انسان دکھیں۔اس معاملے میں خواجہ احمد عباس کا معاملہ تقریباً اُلٹا ہے۔ یوں کہ ان کے بیشتر افسانوں کے پلاٹ سچے اور گزرے ہوئے واقعات سے تشکیل پاتے ہیں لیکن افسانوں میں یہ واقعات غیر حقیقی اور جھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔اسی طرح وہ اپنی کہانیوں میں بطور کردار فطری اور زندہ انسانوں کوداخل کرتے ہیں لیکن افسانوی عمل کے دوران وہ غیر فطری اور مصنوعی معلوم ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ’میں کون ہوں‘، ’انتقام‘ ’میرا بیٹا میرا دشمن‘ ، ’ایک پائلی چاول‘، ’بنارس کا ٹھگ‘، ’ خونی‘،اور ’سبز موٹر وغیرہ‘۔ جیسے افسانوں کوپرکھا جا سکتا ہے۔ ’میں کون ہوں‘ فسادات کے پس منظر میں لکھی ہوئی کہانی ہے جس میں ایک مرتا ہوا زخمی آدمی ہنس ہنس کر ڈاکٹر کو اپنی داستان سناتا ہے اور یہ رٹ لگائے رہتا ہے ’میں ہندو نہیں ہوں‘ میں مسلمان نہیں ہوں، میں انسان ہوں۔‘’ایک پائلی چاول‘ میں راشن کی لائن میں کھڑی ایک عورت کے بچہ پیدا ہوجا تا ہے۔’انتقام‘ کا واقعہ یہ ہے کہ فساد میں ایک ہندو باپ پر اپنی جوان بیٹی کی کٹی ہوئی چھاتیاں دیکھ کر جنون طاری ہوجاتا ہے، وہ کسی بھی مسلمان لڑکی سے اس کا انتقام لیناچاہتا ہے، کافی عرصے کی تلاش کے بعد اسے موقع مل جاتا ہے، وہ چھرا نکال کر اس مسلمان لڑکی پر وار کرنے ہی والا ہوتا ہے کہ دیکھتا ہے اس کی چھاتیاں بھی پہلے سے ہی کٹی ہوئی ہیں۔اس افسانے کو نفسیاتی ٹچ دے کرمزید معیاری بنایا جا سکتا تھا، لیکن خواجہ صاحب بالعموم نفسیاتی دروں بینی اور انسانی بطون کے مقابلے میں خارجی واقعات اور سامنے کی چیزوں کو ہی مرکز توجہ بناتے اور ان کے اسباب و مضمرات بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے متعدد افسانوں کی بنیاداخباروں میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ مثلاً ’ایک پائلی چاول‘، ’نیلی ساڑھی‘ اور ’تین بھنگی‘ وغیر ہ جیسے کئی اور افسانے۔
خواجہ احمد عباس کے یہاں عشق کا تصوردوسرے افسانہ نگاروں سے قدرے مختلف یا یوں کہیے کہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے ۔ان کے اس نوع کے بیشتر افسانوں میں عشق کی بنیاد مساوی معیارِ زندگی پر قائم ہوتی ہے۔ اگر عاشق و محبوب کی زندگی معاشی اعتبار سے ایک جیسی نہیں ہے ، ایک امیر دوسرا غریب ہے تو محبت استوار نہیں رہتی ۔ گویا زندگی کا ایک جیسا معیار اور معاشی یکسانیت محبت کی پہلی شرط ہے۔ اور مفلس اور بے روز گار عاشق تو خواجہ احمد عباس کی افسانوی دنیا میں دو قدم بھی نہیں چل پاتے۔ ’کہتے ہیں جس کو عشق۔۔۔ ‘ ، ’شکر اللہ کا‘، ’ہنومان جی کا ہاتھ‘، ’سونے کی چار چوڑیاں‘، ’تیسرا دریا‘ اور ’ٹیری لین کی پتلون‘ وغیرہ اس کی عمدہ مثالین ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں عشق کی نا آسودگی یاکہیے ایک نوع کی تشنگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔عام طور سے یہ ناآسودگی یا تشنگی سماجی حالات اور معاشی حقائق کا زائیدہ ہوتی ہے۔ یہ کیفیت مذکورہ افسانوں کے علاوہ’نئی برسات‘، ’سبز موٹر‘، ’یہ بھی تاج محل ہے‘، ’چٹان اور سپنا‘، ’پائوں میں پھول‘ اور ’خزانہ‘ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان افسانوں کی قرأت کرتے ہوئے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ خواجہ احمد عباس فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی سے کافی حد تک متاثر ہیں لیکن وہ اپنے بیانیے کو منٹو کی سی جذباتی شدت اور عصمت جیسی شوخ اور چنچل زبان کے استعمال کے علاوہ بیدی کی نفسیاتی گہرائی میں اترنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کی منشا کرداروں کو اجاگر کرنا اور بیان کو شیرینی عطا کرنا نہیں بلکہ موضوعات کو روشن کرنا اور مقصدیت پر زور دیناہوتا ہے۔
اور شاید اسی مقصدیت کے ابلاغ اور اس کی تکمیلیت کے جوش میں چیخوف کے بتائے ہوئے افسانے کی خوبصورتی کے اِس راز کووہ فراموش کر جاتے ہیں کہ ’’افسانہ نگار کا کام مسئلے کاحل بتانانہیں ، محض مسئلے کو پیش کرنا ہوتا ہے۔‘‘ چنانچہ ’’نیا شوالہ‘‘ میں وہ نئے بن رہے باندھ کے راستے میں حائل پرانے مندر کو ہٹانے کے لیے ایک روشن خیال نوجوان سے اس مسئلے کو حل کرواتے ہیں۔ ’’ٹیری لین کی پتلون‘‘ میں گائوں میں پیدا ہونے والے منگو اچھوت کو شہر کے مخلوط ماحول میںلے جا کر اسے انسان ہونے کا احساس دلاتے ہیں جہاں اسے ہر ایک کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور کھا نے پینے کی آزادی ہے اور اونچی ذات کی ایک لڑکی کملا راٹھور کے ساتھ عشق کی بھی۔اس طریقۂ کار کوانھوں نے ’میری موت‘ اور ’چڑے اور چڑیا کی کہانی ‘کے علاوہ متعدد افسانوں میں برتا ہے۔ بعض افسانوں میں مسائل کے حل کی پیش کش میں ان سے چوک بھی ہوئی ہے۔ مثلاً’’بنارس کا ٹھگ‘‘، میں اس کا اہم کردار کبیر داس جوہر طرح کے تعصبات سے پاک اور معاشی مساوات کا علمبردار ہے وہ امیروں کے اسباب لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ’’خونی‘‘ کا کردار نوکری نہ ملنے کی بنا پر بلڈ بینک میں اپنے جسم کا خون بیچ کر گزارہ کرتا ہے۔ظاہر ہے ایسے افسانوں پر بعض ناقدین نے اعتراض بھی کیا ہے کہ اس سے سماج میں اچھا پیغام نہیں جا تا ۔
ان کی بعض کہانیاں متنازعہ فیہ بھی رہیں اور ان کو بنیاد بنا کر مختلف فرقوں نے ہنگامے بھی کیے، مثلاً ’سرکشی‘، بارہ گھنٹے‘ اور ’سردار جی۔ ‘ پہلی پر مسلمانوں نے، دوسری پر ہندوئوں نے اور تیسری کہانی پر سکھوں نے ہنگامے کیے۔ یوں فن کے اعتبار سے آخر الذکر یعنی ’سردار جی‘ زیادہ اچھی کہانی ہے۔ اور اسے خاطر خواہ شہرت بھی ملی۔فسادات کے زمانے میں ’سردار جی‘ کا سِکھ کردار اپنی جان دے کر بھی اپنے پڑوسی مسلمان کو بچاتا ہے۔ ظاہر ہے افسانہ نگار کا مقصد اس سے سکھ کردار کی عظمت دکھانا ہے اور سکھوں کے خلاف مسلمانوں کے تعصب کو ختم کرنا ہے۔اس عظمت کو پُر قوت بنانے کے لیے تضاد کے طور پر کہانی کی ابتدا میں سرداروں سے متعلق چند مضحکہ خیز لطیفے سناے جاتے ہیں،جس پر سارا ہنگامہ برپا ہواتھا۔جب راجندر سنگھ بیدی نے اس کہانی سے شروع کے چند لطیفوں کو نکال دینے کا مشورہ دیا تو خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر اسے قبول نہیں کیا کہ اس سے افسانے کا نقطۂ عروج کمزور ہوجائے گااور تضاد کی وجہ سے بہادری اور انسان دوستی کا جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ زائل ہو جائے گا۔اسی نوع کا ان کا ایک اور افسانہ ہے ’کیپٹن حمید مارا گیا‘۔ اس کہانی کا پس منظر تقسیم ملک کے معاً بعد کشمیر میں ہندوستان پاکستان کی جنگ کا محاذ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب عام ہندوستانی مسلمان سہمے ہوئے تھے، مسلمانوں کا دانشور طبقہ مہر بہ لب تھا اور نیشلسٹ مسلمانوں نے چُپ کی مصلحت اختیار کر رکھی تھی۔ یوں کہ بعض برادران وطن نے مسلمانوں پر دو قومی نظریے کا الزام لگا کر دہشت میں مبتلاجو کر دیا تھا۔ ایسے میں قوم پرست مسلمانوں کا کردار واضح کرنے والی کسی مسلم ادیب کی یہ پہلی تحریر تھی جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ قوموں کی بنیاد یں مذاہب نہیںہوتے، جغرافیائی حدود ہوتی ہیں۔ اور شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کہانی نے دہشت کے ماحول میں نہ صرف سیکولر نظریے کو فروغ دیا بلکہ مسلمانوں کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ بھی بخشاتھا۔
خواجہ صاحب نے چند تمثیلی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ان میں ’’ایک لڑکی سات دیوانے‘‘ اور ’’فاحشہ‘‘ (غالباً)کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ آخرا لذکر تقسیم وطن کے بعد فسادات کے پس منظر میں ایک ایسی فاحشہ لڑکی کی کہانی ہے۔ جسے نہ ہندوستان قبول کرتا ہے نہ پاکستان۔ مصائب وپریشانی جھیلتی یہ بے سہارا لڑکی بالآخر دونوں ملکوں کی سرحدپر گر کربیہوش ہوجاتی ہے۔ پہرے دار جب اس سے نام پوچھتے ہیں تو اس کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں ’’اردو۔۔۔اردو۔۔اردو۔‘‘’’ایک لڑکی سات دیوانے‘‘ میں لڑکی کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں:
لڑکی خوبصورت، چنچل ہے، طرحدار ہے۔ دنیا اس کی دیوانی ہے۔ ہر کوئی اس کی خاطر جان دینے کو تیار ہے۔ ساتھ میں لڑکی گُنی بھی تھی ، دنیا بھر کی زبانیں جانتی تھی۔ ملٹن اور شیلی ، ٹیگور اور قاضی نذر الاسلام، سبرامنیم بھارتی اور نرالا، جوش اور فیض کی نظمیں اسے زبانی یاد تھیں۔ لنکن اور گیری بالڈی، ژولا اور مارکس انجلزاور لینن۔ گاندھی اور جواہر لال نہرو کی کتابیں پڑھے ہوئی تھی۔ اس کی زبان میں جادو تھا۔
اس لڑکی پر جو لوگ اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے ان میں تھے سوامی دھرم دیو، پرانے راجہ، نئے سرمایہ دار، نیا کسان، کمیونسٹ ریوولیوشنری،حاکم شاہی افسراورپولٹیکل لیڈر۔تمام گنوں سے بھر پور لڑکی در اصل ہندوستان کی تمثیل ہے اور یہ ساتوں لوگ نمائندے ہیں اُن طبقوں یا کلاسوں کے جو اس ملک پر قبضہ جمانا اپنا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خواجہ احمد عباس نے کبھی وقت اور حالات کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔ کسی لیڈر، پارٹی،یا مذہبی پیشوا پر اعتبار نہیں کیا، اوروں کی طرح اپنے نظریے میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں نہیں کیں،اقتدار وقت سے سمجھوتے نہیں کیے اور نہ ہی کبھی اپنے قلم کی سمت رفتار بدلی۔وہ اکثر ٹوٹ ٹوٹ گئے ہیں جھکے کبھی نہیں۔یہ ان کے ذاتی اور شخصی اوصاف تھے ، اور ذرا غور کیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کی بیشتر کہانیوں کے کرداروں کی نمایاں خوبی سادگی ، راست گوئی اور بے باکی ہے، نہ وہ مصلحت اندیش ہیں نہ بزدل۔خوابوں کی وادی میں نہیں حقیقی دنیا میں زندگی کرتے ہیں، وہ جیسے ہیں، جس طبقے کے ہیں کمیٹیڈ ہیں۔سو یقین جانیے کہ خواجہ صاحب افسانوی چوراہوں پر دوچار اہم کیریکٹرزکے بُت نصب کر کے ناموری کی خواہش کے بجائے اپنے ایسے ہی کرداروں کی دریافت کے ذریعے ایک صحت مند معاشرے کی جستجو اور مامون و مستحکم ملک کی تعمیر میں زندگی بھر مصروف رہے۔ ان کے اہم اور یادگار افسانوں میں’اتار چڑھائو‘، ’اجنتا‘، ’شامِ اودھ‘، ’سردار جی‘، ’نیلی ساڑھی‘، ’رادھا‘، ’زعفران کے پھول‘، ’باقی کچھ نہیں‘ ، یہ بھی تاج محل ہے‘، ’کیپٹن حمید مارا گیا‘ اور ’ایک لڑکی سات دیوانے وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے۔
اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے ناقدوں نے خواجہ احمد عباس کو کافی حد تک نظر انداز کیا ہے، اور جن لوگوں نے ان پر لکھا ہے انھوں نے ان کے مکمل فن کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ بالعموم ان کے یہاں کوئی اہم کردار نہ ہونے کی شکایت توسبھوں نے کی ہے لیکن ان کی جدتِ فن کو ، ان کے موضوعات کے تنوع کو، فکر وخیال کی وسعت کو، بیان کے توازن کواور بیباکی ِاظہار کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ اور نہ ہی کہانیوں کے پس منظر اور ان کی فضا پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی؛ جن میں ایک نئے ہندوستان کے تصوراور ہندوستانیوں کی نئی فکرکو پروان چڑھانے کی کوشش واضح طور پر نظر آتی ہے۔قبول کہ انھوں نے فن پر مواد کو ترجیح دی اور کرافٹ پر قصہ پن کو، لیکن یہ عیب کہاں ؟ حسن ہے۔ اور کیا ان کا یہ کارنامہ کم اہم ہے کہ انھوں نے کہانی کوافسانہ نگاروں کی تخیلاتی اقلیم سے نکال کر عوام کی حقیقی دنیا سے روشناس کرایا،اور شعری صداقت کے مقابلے میں علی الاعلان واقعی صداقت پر فکشن کی بنیاد رکھی۔
٭٭٭