Urdu ke Aham Adabi Jaraid by Dr. Asad Faiz

Articles

اردو کے اہم ادبی جرائد کے اولین شمارے

ڈاکٹر اسد فیض

بیسویں صدی کی ابتدائی دھائیوں میں برصغیر کے اہم ادبی مراکز سے ادبی جرائد کی اشاعت کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔اِن ادبی جرائد نے بر صغیر کے ادبی معاشرہ کی علمی اور فکری بنیادیں استوار کیں اور اُن کو استحکام بخشا۔اپنے عہد کا شعور اپنے اندر سمیٹے ہوئے یہ ادبی رسائل ہمارا عظیم اثاثہ ہیں۔آج کے کئی معروف ادیبوں کی ابتدائی تحریروں اور علمی و فکری تحریکوں کے بھی یہ جرائدامین ہیں۔پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی نے اپنے ایک مضمون ’’اردو کا اولین رسالہ‘‘میں ’’ محب ہند‘‘دہلی کو اردو زبان کا اولین ادبی جریدہ قرار دیا ہے۔اس کا اجرا جون ۱۸۴۷ء میں عمل میں آیا(۱)۔ یہ ہر ماہ دہلی سے چھوٹی تقطیع کے پچاس صفحات کی ضخامت میں شائع ہوتا تھا۔اس کے ایڈیٹر ماسٹر رام چندر (۱۸۲۱۔۱۸۸۰) تھے جو دہلی کالج میں علوم ریاضی کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے کئی کتب تالیف کیں۔ ان میں چند اردو زبان میں بھی تھیں۔رسالہ’’ محب ہند‘‘ میں بہادر شاہ ظفر،شاہ نصیر کی غزلیں اور مومن و مجنوں کی شاعری بھی شائع ہوتی رہی۔یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ کئی شماروں میں قسط وار طبع ہوا۔اکتوبر ۱۸۴۹ء کے شمارے میں یوسف خاں کمبل پوش کی شبہیہ بھی شائع کی گئی۔رسالہ محب ہند سے اب تک ادبی جرائد کی اشاعت کو ایک سو باسٹھ برس کا عرصہ گذر چکاہے۔اس دوران جن رسائل نے اپنی منفرد اشاعتوں سے ادبی تاریخ پریادگار نقوش ثبت کیئے۔ اُن میں ایک اہم نام نیاز فتح پوری کے ادبی جریدہ ’’نگار‘‘ کا ہے۔بیسویں صدی کی دوسری دہائی کی ابتدا میں اس ادبی جریدہ نے ہندوستان میں ایک دبستان اورتحریک کی صورت اختیار کرلی تھی اور اس کے موضوعات اور اسلوب نثرادب کی رومانوی تحریک کی تقویت کا باعث بنے ۔ ’’نگار‘‘کا پہلا شمارہ فروری ۱۹۲۲ میں آگرہ سے شائع ہوا( ۲ )۔ اولین شمارہ کے سرورق پر رئیس التحریر کے عنوان سے نیاز فتح پوری کا نام درج ہے .جبکہ اندرونی صفحات سے پتہ چلتا ہے کہ مخمور اکبر آبادی بھی ان کے ساتھ معاون مدیر کے طور پر شامل تھے۔نیاز فتح پوری (۱۸۸۴۔۱۹۶۶)تاریخ ساز ادبی شخصیت تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کے ادبی ،مذہبی ا ور تہذیبی منظر نامے پر انمٹ نقوش ثبت کئے ۔نگار بنت عثمان ترکی کی ایک انقلابی شاعرہ تھی ۔نیاز اس کی انقلابی اور رومانوی شاعری سے متاثر تھے۔ اس لئے انہوں نے اُس کے نام پر نگار کا اجراء کیا۔۔نیاز فتح پوری اس وقت تک افسانہ نگار کے طور پر شہرت حاصل کرچکے تھے لیکن نگار ان کے سنجیدہ علمی موضوعات کا صحیح معنوں میں ترجمان ثابت ہوا۔نگارمیں انہوں نے اخلاق و حکمت سے لے کر علم نجوم ،مذہب،ادب، سیاست ،معاشرت اور جنس تک کے موضوعات پر خامہ فرسائی کی۔پہلے شمارے کے کل صفحات اسی(۸۰)ہیں ۔پرچہ کی ابتدا منظوم انتساب کی صورت ہے۔ جو نیاز فتح پوری کے اعلا شعری ذ وق اور اختراعی ذہن کی علامت ہے۔اس تخیلاتی اور احساس آفریں نظم کا آخری شعر ہے۔
ان خندہ ہائے حسن کی کرتا ہوں قائم یادگار
یعنی ان پھولوں کا ہے چھوٹا سا گلدستہ نگار
’’عناصر نگار ‘‘ کے عنوان سے نیاز نے اداریہ لکھا ہے اور ’’نگار‘‘ کی اشاعت اور اس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی ہے۔نثری مضا مین میں پہلا مضمون شعر (عربوں کے نقطہ نظر سے) ہے یہ نیاز فتح پوری کا لکھا ہوا ہے۔جس میں شاعری اور شعر کی داستان کو رقم کیا گیا ہے۔اس میں تمام دیگر اقوام اور زبانوں میں بھی شاعری کے معانی اور ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے اس مضمون سے اندازہ ہوتا کہ نیاز تحقیقی مزاج بھی رکھتے تھے۔فکشن کی ذیل میں ’’سمنستان کی شاہزادی‘‘ کے عنوان سے لطیف الدین احمد کا ایک افسانہ شائع ہوا ہے ۔
ل ۔احمد کا اسلوب سجاد حیدر یلدرم کے رنگ سے مما ثلت رکھتا ہے،کہانی دلچسپ اور قدیم شہزادے شہزادیوں کے قصے پر مبنی ہے۔ اگلے صفحات پر نیاز فتح پوری کا ایک مضمون ’’کیا مانی واقعی مصور تھا‘‘ طبع ہوا ہے جس میں مانی کی اصلیت کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے اور اس کے مذہب کے بارے میں معلومات پیش کی گئی ہیں۔’’صحرا کے مو تی ‘‘کے نام سے قمرالحسن قمر کی ایک کہانی اس شمارے کی زینت ہے۔یہ عرب معاشرت سے متعلق ہے اور ایک لڑکی کی بے مثال قربانی سے عبارت ہے۔ترکی ادب سے ماخوذ’گیسو‘‘ کے عنوان سے نیاز اور ’’مطربہ‘‘کے نام سے امتیاز علی تاج کی رشحات قلم بر صغیر میں ترکی اد ب کی مقبولیت اور نثر کے رومانوی اسلوب کے مرصع و رنگین انداز کی خوبصورت جھلکیاں ہیں۔نثرکے دیگر مضا مین میں جو نیاز فتح پوری نے لکھے ۔ ان میں ’’جرمن حرب و تجارت کا ایک عجیب راز‘‘ ،معلومات حرکت زمین کا مشاہدہ عینی،اشتراکیت کے عنوان سے تمام معلو ماتی مضا مین نیاز فتح پوری کے نتیجہ فکر کے مر ہون منت ہیں۔صفحہ ۵۵ پر ایک غلطی کا ازالہ کے عنوان سے نیاز نے علی گڑھ میگزین کی جولائی تا اکتوبر اشاعت میں سُہاکی شرح دیوان غالب پر ایک معاندانہ تبصرہ سے اپنی لا تعلقی کا اعلان کیا ہے۔مضمون کے آخر میں صرف فتح پوری از بھوپال شائع ہوا ہے۔ انہوں نے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی سے نگار کے صفحات کے توسط سے استد عا کی ہے کہ اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں ۔نگار کے اس شمارے میں چھپنے والی منظو مات بھی معیاری ہیں۔’’فروغ نظر‘‘ کے عنوان سے ضیائی ،’’شام جمن ‘‘کے نام سے مخمور اکبر آبادی جن کا اصل نام سید محمد محمود رضوی ہے ان کی ایک نظم،’’اندر پرستش‘‘ کے عنوان سے صفحہ ۹ ۳۔۴۰ پر ایک فارسی نظم،’’بہار کی دیوی ‘‘ کے عنوان سے نیاز فتح پوری کی نظم اس شمارہ کا قابل قدر حصہ ہیں ۔اس شمارے کی واحد غزل شوکت علی فانی کی تحریر کردہ ہے جس پر ایڈیٹر نے ایک طویل نوٹ لکھا ہے۔مجموعی طور پر ’’نگار‘‘ کا یہ شمارہ اس دور کے ادبی مزاج کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔خاص طور پر اس شمارے کی وساطت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیاز اپنے عہد کی نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے ادب میں اپنی الگ پہچان بنائی۔اگست ۱۹۶۲ سے نگار پاکستان کے نام سے کراچی سے تسلسل کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس کے ایڈیٹر اور پبلشر ہیں ۔نگار کا شمار آج بھی سنجیدہ ادبی جرائدمیں ہو تا ہے۔جس پر ابتدا میں نیاز کی اور اب ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت کی چھاپ نما یاں ہے۔ اس کا ہر شمارہ یادگارحیثیت کا حامل ہو تا ہے۔
بیسویں صدی کی دوسری دھائی میں ایک اور ادبی جریدے نے بھی مجلا تی صحافت کو نئی راہوں اور مزاج سے آشنا کیا ۔اس کا نام نیرنگ خیال ہے۔ ’’نیرنگ خیال‘‘کے مالک و مدیر حکیم یوسف حسن تھے۔ وہ افسانہ نویس اور طبیب بھی تھے۔وہ ۱۸۹۴ ء کو لا ہور میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم لا ہور میں پائی ۔مڈل پاس کرنے کے بعد ریلوے میں بطور گڈس کلرک ملازم ہوگئے تھے۔لائل پور میں بھی تعینات رہے۔انہوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگاری سے کی ۔اُن کے افسانے’’ نیرنگ خیال‘‘اور’’ زمانہ ‘‘ کانپور میں شائع ہوتے رہے۔جو اس زمانے کا ایک مقبول ادبی جریدہ تھا۔حکیم یوسف حسن نے ’’نیرنگ خیال‘‘ کا اجرا جولائی ۱۹۲۴ میں لاہور سے کیا(۳) ان کے ساتھ محمد دین تا ثیر(۱۹۰۲۔۱۹۵۰) بھی جائینٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے شریک ِسفر تھے ۔ حکیم یوسف حسن کا کہنا ہے کہ’’نیرنگ خیال‘‘ کا نام حکیم فقیر محمد چشتی نے تجویز کیا تھا اور اس کا ٹائیٹل بھی حکیم فقیر محمد چشتی نے بنایا تھا(۴)پہلے شمارے کا سائز ۸ / ۳۳x ۲۳ اور اس کے کل صفحات پچاس تھے۔علامہ اقبال نے ’’نیرنگ خیال‘‘ کی اشاعت پر اِس کے ایڈیٹر کو ایک خط ۱۷ اگست ۱۹۲۴ کو تحریر کیا ۔
’’رسالہ نیر نگ خیال جو حال ہی میں لاہور سے نکلنا شروع ہوا ہے۔بہت ہونہار معلوم ہوتا ہے ۔اس کے مضامین میں پختگی اور متانت پائی جاتی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ پنجاب میں صحیح ادبی مذاق پیدا کرنے میں بہت مفید ثابت ہوگا‘‘(۵)
پہلے شمارے کااداریہ’’ مقالہ افتتا حیہ‘‘ کے عنوان سے حکیم یوسف حسن نے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اداریہ میں لکھا ہم اسے تجارتی فوائد کے لیئے نہیں چلا رہے مگر ہم تمام تجارتی اصولوں کے پابند رہیں گے تاکہ اس رسالہ کی زندگی محض ایک رقص شرر ثابت نہ ہو ۔اُن کا یہ خلوص شائد قدرت کو اتنا پسند آیاکہ اس پرچے نے خاص نمبروں کی اشاعت کا رواج ڈالا اورعلامہ اقبال کی زندگی ہی میں ان پر ایک شاندار اور یادگار نمبر ستمبر ۔اکتوبر ۱۹۳۲ میں شائع کیا۔حکیم یوسف حسن کا انتقال ۱۹۸۱ کو راولپنڈی میں ہوا۔ان کی عمر نوے برس تھی (۶)حکیم یوسف حسن کا یہ فیضان ’’ نیرنگ خیال ‘‘ جس نے اپنا اشاعتی سفر ۱۹۲۴ء میں شروع کیا تھا ۔ آج بھی جاری و ساری ہے۔اب سلطان رشک اِسے راولپنڈی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے شمارہ کے مشمولات میں مضامین کا حصہ بے حد معیاری اور معلوماتی ہے۔ابتدائی صفحات میں ’’شذرات‘‘ کے عنوان سے ہندوستان بھر سے اہم خبروں اور واقعات کو بھی شائع کیا گیا ہے۔ان شذرات سے اس دور کے سیاسی و معاشرتی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔تحریک خلافت کے حوالے سے تحریر ہے۔
’’سیاسی سرگرمیوں اور مسئلہ خلافت کے حل میں مسلمانوں کے کامل دس سال صرف ہوچکے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ مسئلہ خلافت ہنوز روزاول کا مصداق ہے اور بلا شبہ اس کی ضرورت سمجھنے یا ِاس کے متعلق حقیقی کام کرنے کا وقت اب آیا ہے۔گزشتہ دس سال کی سیاسی سرگرمیوں سے ہمیں کوئی نمایاں فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ ان سرگرمیوں کا انجام ہندو مسلم نفاق کی صورت ظاہر ہوا ہے اور تمام ملک میں کانگریس کمیٹیوں کی جگہ سنگھٹن شدھی اور مہابیر دل وغیرہ جماعتوں نے لے لی ہے۔قومی اخبارات کی جگہ ہندو مسلمانوں کو لڑانے اور گالیاں دینے کے لئے فحش نویس ظریفانہ اخباروں کا ظہور ہواہے۔ ( ۷ )
شذرات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری دھائی کے وسط میں پنجاب میں طاعون کی وبا نے بے حد جانی نقصان کیا اور اس کا زیادہ تر شکار مسلمان ہوئے۔
اس شمارے کی واحد افسانوی تحریر بلقیس خاتون جمال بنت مولوی عبدالاحد کا ایک فسانہ ’’عصمت کی دیوی‘‘ہے یہ افسانہ ہندوستانی عورت کی عزت و عصمت کے لئے قربانی اور پتی ورتا کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔جس وجہ سے دیوتائوں نے اسے ’’عصمت کی دیوی‘‘ کا خطاب دیا ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار ایک ہندو عورت تلو تما ہے۔اس شمارے کے دیگر معلو ماتی اور خوبصورت مضامین میں ملک عبدالقیوم کا ترکوں کی معا شرت،دینی مضامین میں مولانا محمد عبداللہ کا مضمون ’’حسن معاملت‘‘’ایک مسلمان کے قلم سے ایک فکر انگیز مضمون ’’عمل‘‘میں اُس دور کے مسلمانوں کی حالت زار کو یوں بیان کیا گیا ہے۔
ـ’’مسلمانوں کی موجودہ پستی اور تنزل و کمزوری محض کام نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔مسلمان باتیں بہت کرتے ہیں لیکن کسی نظام و ضابطہ کے ماتحت عمل کرنا ان کے لئے محال ہے۔قوم کی جہالت و لا علمی کو دور کرنے کے لئے تعلیمی نظام پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔قوم کی مالی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے قوم کو تجارتی و صنعتی کاموں میں حصہ لینے کی حاجت ہے۔( ۸)
عبدالرحمن چغتائی جن کو اس شمارے میں ہندوستان کا مایہ ناز مصور کہا گیا ہے۔ اُن کے فن کا نمونہ ایک مصورانہ کاوش ’ ’ لیلیٰ کا تحفہ‘‘اور نثری تحریریں بہ عنوان ’’حجازی شراب‘‘اور’’ راوی‘‘ بھی شامل ہیں ۔ایڈیٹر نے اس پر ایک مختصرشذرہ رقم کیا ہے اور اس اسلوب ِنثر کو جو رنگینی عبارت سے معمور ہے عبدالرحمن چغتائی کا خاص مصورانہ اسلوب قرار دیاہے۔محمد دین تاثیر کا ایک مضمون ’’فلسفہ اقبال‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس میں انہوں نے علامہ اقبال کی فکر کومشرقی تنا ظر میں پیش کیاہے اور معترضین کے اس اعتراض کو رد کیا ہے کہ اقبال کی فکر کا ماخذمغربی افکارہیں۔اس شمارے میں ایڈیٹرحکیم یوسف حسن کا ایک مضمون ’’میں کون ہوں‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا ہے۔یہ مضمون انسان کو محنت اور عمل کا درس دیتا ہے۔اس میں قومی اور انفرادی سطح پر کام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔’’گل ِصد برگ ‘‘ کے عنوان سے ہندوستان کے اخبارات و رسائل کی منفرد تحریروں کے انتخاب کا ایک گوشہ ترتیب دیا گیا ہے۔جس میں دو مختصر تحریریں ’’میں کہاں ہوں ‘‘ اور’’ تاج آگرہ ‘‘شائع کی گئی ہیں۔’’ اخبارِ علمیہ‘‘ کے عنوان سے ’’نیرنگ خیال ‘‘میں ہندوستان کے اخبارات و رسائل کی منفرد و اہم تحریروں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔یہ نئی دریا فتوں اور ایجادات سے متعلق ہیں۔ ’’تنسیخ خلافت پر ایک محققانہ رائے‘‘ کے عنوان سے آغا محمدصفدر کا ایک مضمون بھی شامل اشاعت ہے جس میں تحریک ِخلافت کے تاریخی کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔’’عہد حاضرہ کا مغل اعظم ‘‘کے عنوان سے ایک تحریر کا انگریزی جریدہ سے ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔جس میں سنت نہال سنگھ کی مسلمان حکمران شاہ دکن کے دولت کا ڈھیر رکھنے کے باوجود کفایت شعاری سے کام لینے اور سادہ زندگی بسر کرنے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔جس کے جواب میں مدیر’’ نیرنگ خیال‘‘ نے شاہ دکن کی علم دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے کفایت شعاری کو عین بمطابق اسلام بتایا ہے۔آخری صفحات میں’’ پارۂ دل ‘‘کے عنوان سے خواجہ حسن نظامی کی ایک تحریر بھی شائع ہوئی ہے۔جس میں مسلم معاشرت کی اصلاح کے حوالے سے مختصرتحریریں جمع کی گئی ہیںجن میں مسلمانوں کو خاص طور پر عورتوں کو ہندووں کی شادی بیاہ اور دوسری رسموں سے اجتناب برتنے کی تلقین کی گئی ہے۔شاعری کی ذیل میں جو منظو مات اس شمارے میں شائع ہوئی ہیں ان میں’’طوق اور زنجیر سے گھبرائیں کیا ’‘ مولانا اختر علی خان کی نظم ہے جو مولانا ظفر علی خاں کے صاحب زادے تھے ۔
سنگدل ہے اس کے در پہ جائیں کیا
اپنا سر پتھر سے ہم ٹکرائیں کیا
کس سے ہوگا چارہ درد فراق
اس دل بیتاب کو سمجھا ئیں کیا
ہوچکے جب زلف پُر خم کے اسیر
طوق اور زنجیر سے گھبرائیں کیا
دے کے ان کے ہات میں قسمت کی باگ
اس کئے پر اپنے ہم پچھتائیںکیا
کج ادائی جس کا شیوہ ہو چکا
حال دل اس شوخ کو بتلائیں کیا
داغ ہائے غم ہیں دل پر جا بجا
کھول کر سینہ انھیں دکھلائیں کیا
پوچھتے ہیں ہم سے وہ اختر کا حال
’’کوئی بتلاوٗ کہ ہم بتلائیں کیا‘‘ ( ۹ )
اس کے علاوہ ’’نمود صبح‘‘ کے نام سے محمد دین تاثیر ’’برسات کی رت‘‘ محمود حسن محمود اسرائیلی ’’ واردات قلب‘‘ کے عنوان سے حامداللہ ا فسربی اے،’’ادبیات‘‘عزیز لکھنوی، ’’افکارناظم‘‘،ابو الانظم محمدناظم،حسیات شایق،سردار اودے سنگھ شائق کی خوبصورت نظمیں شائع ہوئی ہیں۔غزلوں میں،ظہیری بدایونی ، سہا،تاجور نجیب آبادی،اور رابعہ پنہاں کی شاعری اس شمارے کی زینت ہے۔اسلامی دنیا کی مردم شماری کے عنوان سے آخری صفحات میں دنیا میں مختلف حوالوں سے دئے گئے اعداد شمار سے مسلمانوں کی آبادی کا تخمینہ لگانے کی سعی کی گئی ہے اور تحریر کیاگیا ہے ۔
’’ اس جدید حساب کی رو سے مسلمانوں کی تعداد ۲۳۴۸۱۴۹۸۹ ہے۔جس میں سے دس کروڑ ستاون لا کھ تئیس ہزار انگریزی جھنڈے تلے ہیں‘‘ ( ۱۰)
’’مرقع الاخبار ‘‘کے تحت واقعات حاضرہ کے حوالے سے ہاتھ سے بنائی گئی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔جن میں سے ایک محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ (۲)غازی فتحی بے جو مسئلہ موصل (۳)آغا محمد صفدر استقبا لیہ کمیٹی۔صفحہ ۵۱ پر ایک ادبی جریدہ اور ایک گلدستہ کا اشتہار بھی شائع ہوا ہے۔ان میں ایک دلکش لا ہور جس کا پہلا شمارہ جولائی ۱۹۲۴ میں شائع ہونا ہے۔دوسرا الکمال ہے جو عرصہ سے لا ہور سے شائع ہوتاہے اور اسے ہندوستان بھر کا واحد گلدستہ قرار دیا گیا ہے جو ملک و قوم کی خدمت کر رہا ہے۔مجموعی طور پر جو لائی ۱۹۲۴ میں’’ نیرنگ خیال ‘‘کا پہلا شمارہ متنوع دلچسپیوں کا محور و مرکز ہے۔یہ شمارہ حکیم یوسف حسن اور محمد دین تاثیرکی اجتماعی کو ششوں کا ثمر ہے۔جنہوں نے اسے دلچسپ بنانے کے لئے مختلف علمی مذہبی اور قومی معاملات و مسائل پربھی مضامین کو اس شمارے میں شامل اشاعت کیا۔اس دور کی مسلم معاشرت،ہندوستان کے سیا سی و معا شرتی حالات ادیبوں کی سوچ و فکر کا بھی یہ شمارہ آئینہ دار ہے۔اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’نیرنگ خیال‘‘ محض ایک ادبی جریدہ ہی نہ تھا ایک علمی تحریک کا نام بھی تھا جس نے بر صغیر کے عوام میں آزادی کا جذبہ ابھارنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ چالیس کی د ہائی میں اردو زبان کے ایک اور مقبول عام ادبی جریدہ ’’نیا دور ‘‘بنگلور کا اجرا عمل میں آیا۔اس کا پہلا شمارہ اگست ستمبر ۱۹۴۴ میں شائع ہوا۔ادارہ تحریر میں صمد شاہین اور ممتاز شیریں کے نام شامل تھے ۔صمد شاہین نے اس کا اداریہ ’’افتتاحیہ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ مضامین کے حصے میں پہلا مضمون فیض احمد فیض کا ترقی پسند ادب ہے۔یہ مضمون ان کے ابتدائی دور کے خیالات کا عکس ہے اور ان کے پہلے نثری مجموعہ ’’میزان‘‘میںبھی شامل ہے۔عبدالقادری سروری نے ’’موجودہ اردو ادب کا پس منظر‘‘جبکہ ممتاز شیریں نے’’ ۱۹۴۳ کے افسانے ‘‘کے عنوان سے ۱۹۴۳ میں لکھے جانے والے افسانوںکا عمدہ تنقیدی جائزہ لیا ہے۔یہ اُن کا پہلا تنقیدی مضمون ہے۔ جنگ عظیم دوم کے تناظر میں ایک اور اہم تنقیدی مضمون کرشن چندر کا ’’جنگ اور ہندوستانی ادیب‘‘ ہے۔شاعری کے حصے میں غزل کے عنوان سے واحد غزل حسرت موہانی کی ہے جسے انہوں نے قسم فاسقانہ تحریر کیا ہے۔اس کے علاو ہ حصہ شاعری میں باقی تمام نظمیں شائع کی گئی ہیں ۔ان میں ’’دریچے کے قریب‘‘،ن م راشد،’’اندھیرا‘‘مخدوم محی الدین، ’’شباب‘‘،اخترانصاری،’’قیامت‘‘،اخترالایمان،’’ٹیپوکی آواز‘‘، آل احمد سرور، ’’سناٹا‘‘، مجروح سلطان پوری،’’کھنڈر‘‘،منیب الرحمن،’’عزم جواں‘،محمد علی کمالی،’’ زندہ و پائندہ رہوں ‘‘خورشیدالا سلام۔یہ خوبصورت نظمیں چالیس کی دہائی کے شعری منظر نامہ کو عیاں کرتی ہیں۔کہا نیاں کے عنوان سے پہلی کہانی ’’آم‘‘ سعادت حسن منٹو کی ہے۔دوسری طبع زاد کہانی صمد شاہین کی تحریر کردہ ہے جو’’ توہین‘‘ کے نام سے شائع کی گئی ہے۔دو غیر ملکی ترجمہ شدہ کہا نیاں بھی شائع کی گئی ہیں ان میں ایک ’’دہی والی‘‘کنٹری زبان کے ادیب ماستیونگ آینگار اور دوسری’’نفرت‘‘ما ئیکل شالوخوف کی ہے۔نیا دور کا پہلا شمارہ 23X33/16 کے سائز کے دو سو تین صفحات پر محیط ہے آخری صفحات پر اس شمارے کے لکھنے والوں کا تعارف بھی شاملَِ اشاعت ہے۔ممتاز شیریں کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے۔
’’عمر انیس سال مہارانی کالج بنگلور سے ۱۹۴۲ء میں بی اے کیا۔کالج میں بہت ذہین طالبعلم تھیں۔ادبی زندگی کی ابتدا تراجم سے ہوئی۔ میسور کی یہی ایک مسلمان خا تون ہیں جن کے تراجم اور طبعزاد افسانوں نے شمالی ہند کے معیاری رسالوں میں جگہ پائی۔ممتاز شیریں نے صرف تین طبعزاد افسانے لکھے ہیں ‘‘ (۱۱)
صمد شاہین ایڈیٹر و پبلشر ’’نیا دور ‘‘ کے بارے میں تعارف کے حوالے سے درج ذیل معلو مات شائع ہوئی ہیں ۔
’’پیدائش ۱۶ جون ۱۹۱۶ء مہاراجہ کالج میسور میں انگریزی ادب کے آ نرز کے لئے پڑھالیکن بی اے کی ڈگری ملی گو انٹر میڈیٹ میں وہ انگریزی میں اول رہے تھے علی گڑھ میں ایم اے کے لئے چار پانچ ماہ رہے لیکن تعلیم مکمل کئے بغیر آنا پڑا پھر لا کالج پونا سے ایل یل بی کیا۔اب ایم اے سیا سیات، معا شیات اور ایل ایل ایم کی تیاری کر رہے ہیں اچھے مقرر ہیں ۔اردو کی بہ نسبت انگریزی میں زیادہ لکھتے ہیں اردو میں بھی چند افسانے لکھے ہیں جوایک مقامی رسالہ میں چھپ کر مقبول ہوئے بنگلور سے صادق صاحب کے ساتھ ایک ہفتہ وار انگریزی ’’میسورین‘‘ نکال رہے ہیں اور ا ب نیا دور کی بھی ادارت کر رہے ہیں ابھی ابھی وکالت شروع کی ہے‘‘(۱۲)
یہ پر چہ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۲ تک کراچی سے چھپتا رہا۔اس کے بعد اسی نام سے ایک پرچہ کراچی سے ڈاکٹر جمیل جالبی بھی مرتب کرتے رہے اور لکھنو (انڈیا)سے اتر پردیش کے محکمہ اطلاعات کے تحت ایک ماہ نامہ نیا دور کے نام سے بھی شائع ہو رہا ہے۔ نقوش ایک اور ایسا جریدہ ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد اپنا سفر شروع کیا لیکن اردو کی ادبی صحافت میں اپنے لیے جلد ایک الگ جگہ بنا لی۔نقوش کے تمام اشاعتی سفر کے دوران اس کے خاص نمبر ہی اس کی وجہ شہرت بنے۔ نقوش کا پہلا شمارہ مارچ ۱۹۴۸ میں منصہ شہود پر آیا۔اس کے پہلے ایڈیٹر ہا جرہ مسرور اور احمد ندیم قاسمی تھے ۔ ان کی ادارت میں شمارہ ایک تا دس شائع ہوئے۔قاسمی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ’’ نقوش‘‘ کا نام انہوں نے تجویز کیا تھا (۱۳)پہلے شمارے کا سرورق آذر زوبی نے بنا یا تھا۔اس کی پیشانی پر’’ زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا ترجمان ‘‘کے الفاظ بھی قاسمی صاحب کے خلاق ذہن کی اختراع تھے۔محمد طفیل (۱۹۲۳۔۱۹۸۶) جو نقوش کی بدولت محمد نقوش بن گئے تھے۔ انہوں نے ۱۹۴۴ میں لا ہور میں ادارہ فرو غ اردو کی بنیاد رکھی تھی ’’نقوش ‘‘ کا اجراء اس کے تحت کیا گیا تھا۔’’نقوش‘‘ نے کئی معر کۃالآرا نمبر شائع کیے ا ور اپنے پیشرو جرائد ’’نگار‘‘ اور ’’نیرنگ خیال ‘‘کی روایت کو آگے بڑھایا۔نقوش کا پہلا شمارہ ۸۶ صفحات پر مشتمل تھا۔ طلوع کے نام سے اس کا اداریہ ہا جرہ مسرور نے لکھا ہے۔مضامین،افسانے اور شاعری کا بے حد متنوع اور معیاری انتخاب اس شمارے میں شامل اشاعت ہے۔افسانوں میں احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’میں انسان ہوں ‘‘اور ہا جرہ مسرور کا افسانہ ’’بڑے انسان بنے بیٹھے ہو‘‘ ۱۹۴۷ کے فسادات کے تناظر میں لکھے گئے ہیں اور انسانیت پر کئے گئے ظلم و ستم کی المناک داستاں سناتے ہیں۔دیگر افسانوں میں کرشن چندر کا ’’بھیروں کا مندر لیمٹڈ‘‘ اور عزیز احمد کا ’’ میرا دشمن میرا بھائی‘‘ بھی لائق مطا لعہ ہیں۔مضامین میں خالد حسن قادری نے’’ نیا افق‘‘ کے عنوان سے نئے پاکستان کے احوال اور اردو زبان کو موضوع بنا یا ہے عزیز احمد نے فرحت اللہ بیگ کی مزاح نگاری پر اور غلام رسول مہر نے کمال الدین اصفہانی پر مقالات تحریر کئے ہیں۔نقوش کے پہلے شمارے میں اردو زبان کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور اس بارے میں فلک پیما،ڈاکٹر عبدالحق،سیماب اکبر آبادی۔خواجہ احمد فاروقی احتشام حسین، نورالحسن ہاشمی اور خدیجہ مستور کے ز ریں خیالات اور اردو کے فروغ کے لیے تجاویزشائع کی گئی ہیں۔غزلوں میں اثر لکھنوی،اختر شیرانی،فراق گو رکھپوری ،حفیظ ہوشیار پوری علی سردار جعفری ،احمد ندیم قاسمی ،سیف الدین سیف، مختار صدیقی کی خوبصورت غزلیں شائع کی گئی ہیں۔نظموں میں حفیظ جالند ھری،سیماب اکبر آبادی،یوسف ظفر،قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمی کی رُبا عیات شائع ہوئی ہیں۔اِن صفحات سے ا س دور میں دونوں جانب اردو شاعری اور غزل و نظم کے مو ضوعات اور معیار کو دیکھا جا سکتا ہے۔حالات حاضرہ کے تحت ایک مضمون ہاجرہ مسرور کا ہمارا سماج کے عنوان سے شائع ہوا یہ ان عورتوں سے متعلق ہے جو فسادات میں اغوا ہوگئی تھیں ۔ ان کی واپسی نے دونوں جانب بہت سے سماجی مسائل کو جنم دیا ۔یہ مضمون ان حالات کا تجزیہ کرتا ہے۔عبدالمجید سالک نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کی گئی کو ششوں کا احاطہ کیا ہے دیگر عنوانات کے تحت فلم کے عنوان سے ڈاکو منٹری کی اہمیت اور افادیت پر اے قدوس نے اپنے خیالات رقم کیے ہیں ’’نئی کتابوں‘‘ کے عنوان سے ہم وحشی ہیں کرشن چندر کے افسانوی مجموعہ پر ہا جرہ مسرور اور علی سردار جعفری کے شعری مجموعہ پر قاسمی صاحب نے تبصرہ کیا ہے۔بہ حیثیت مجموعی ’’نقوش‘‘ کا یہ شمارہ خوبصورت اور یادگار تحریروں کا ایک گلدستہ ہے جس کی مہک آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔’’ماہ نو ‘‘حکومت پاکستان کا سرکاری ادبی جریدہ ہے جو ہندوستانی جریدے ’’آجکل‘‘ دہلی کی طرز پر نکالا گیا تھا ۔وقار عظیم آجکل دہلی کے ایڈیٹر بھی رہ چکے تھے ۔پاکستان کا پہلا دارلحکو مت کراچی تھا۔ اس لیے اپریل ۱۹۴۸ میں’’ ماہ نو ‘‘ کا پہلا شمارہ کراچی سے جلوہ گر ہوا۔معروف نقاد وقار عظیم اس کے مدیر تھے۔اولین شمارہ ۶۲ صفحات پر مبنی تھا۔ادب کے بڑے اہم نام اور اُن کی تحریریں اس شمارے کی زینت تھیں ۔’’کچھ اپنی با تیں ‘‘ کے عنوان سے مدیر وقار عظیم نے اولین شمارہ کا اداریہ رقم کیا ہے۔صفحہ ۳ پر حامد حسن قادری نے ’’تاریخِ قیام پاکستان‘‘ قران مجید سے نکا لی ہے۔اس کے بعد خوبصورت اور معیاری نظموں اور غزلوں کا ایک انتخاب شائع کیا گیا ہے۔اس شمارے کی زیادہ تر تخلیقات آزادی اور فسادات کے تناظر میں لکھی گئی ہیں۔اسد ملتانی کی نظم ’’غم نہ کر‘‘ مسعود حسن کی نظم ’’مدینہ آدم‘‘ش ضحی کی نظم ’’ محسوسات‘‘ اور وشوامتر عادل کی نظم ’’نیند سے پہلے‘‘ کے بنیادی استعارے اور لفظیات غم، بے بسی اور اس سے جنم لینے والی یاسیت ہے جبکہ احمد ندیم قاسمی کی نظم ’’کل اور آج‘‘ ان کے ترقی پسندانہ نظریات کی علمبردار ہے۔اس شمارے کی واحد غزل فراق گورکھ پوری کی ہے جو غزل کے روایتی مو ضوع کی حا مل ہے اور اس میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔افسانوں میں کرشن چندر کا ’’لال باغ ‘‘ آغا محمد کا اشرف کا ’’دلی کا ایک پودہ‘‘خواجہ احمد عباس کا افسانہ ’’میں کون ہوں ‘‘ فسادات کے موضوع پر ہیں۔اس شمارے کے قابل مطالعہ اور اہم مضا مین میں خواجہ غلام السیدین کا مضمون ’’آندہی میں چراغ‘‘ قومی ترقی کے موضوع کا احاطہ کر تا ہے۔ علی سردار جعفری کا مضمون ’’اقبال کی آواز‘‘ اقبال کی شاعری میں حرکت و عمل کے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ سید احتشام حسین نے ’’اردو کا لسا نیاتی مطالعہ‘‘میںزبان کے مطا لعہ کے لئے صوتیات اور لسا نیات کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اختر حسین رائے پوری کا مضمون ’’پاکستان کے بعض تعلیمی مسائل ‘‘اس میں نو زائیدہ ملک میں تعلیم کی حالت زار اور مستقبل کے تعلیمی منصوبوں پر سوچ بچار شامل ہے۔جس کا ایک پیراگراف حکومتوں کے طرز عمل اور سوچ و فکر کی عکاسی کرتاہے۔ جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔
اختر حسین رائے پوری لکھتے ہیں :
’’ تعلیم کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اس پر خزانہ کے روپے صرف کرنا اگر فضول خرچی نہیں تو زکواۃ یا خیرات کے قسم کی کوئی چیز ہے جس کا حاصل مادی اعتبار سے کچھ نہیں‘‘ (۱۴)
’’ اتا ترک کی وصیت‘‘ آغا محمد یعقوب دداشی کا مضمون ہے جس میں اتاترک کی ایک تقریر کا اقتباس دیا گیا ہے جو پارٹی کی ایک کانگریس میں چھ دن جاری رہی تھی دیگر مضامین میں سید وقار عظیم نے شاہ عبدللطیف بھٹائی کا تعارف اور فضل حق قریشی دہلوی نے مغلوں کے فن خطاطی پر ایک دلچسپ اور معلو ماتی مضمون تحریر کیا ہے۔صفحہ ۵۵ پر دو نئی اردو فلموں اور نئی کتابوں کے عنوان سے علی سردار جعفری کی نظموں کے مجموعے ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ اور اوپند ناتھ اشک کے ڈراموں کے مجموعہ ’’ازلی راستے‘‘ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔جریدے کے وسط میں قیام پاکستان سے متعلق کئی اہم تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں ۔ماہ نو کا اشاعتی سفر آج بھی جاری ہے ۔اب یہ لا ہور سے شائع ہو تا ہے اور علمی ادبی حلقوں میں ایک معتبر ادبی جریدہ سمجھا جا تا ہے۔اس کے سینکڑوں صفحات پر پاکستانی ادب کے عظیم جواہر پارے اور ادب کی تاریخ بھی ثبت ہیں۔ ’اوراق‘ کا پہلا شمارہ ۱۹۶۵ میںڈاکٹر وزیر آغاکی زیر ادارت لا ہور سے ماہ وار جریدے کی صورت شائع ہوا ۔اس پر کسی مہینے کا اندراج نہیں ہے یہ ۳۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔اس کی قیمت دو روپے ہے ۔فہرست میں مختلف اصناف کے لئے عنوانات قائم کئے گئے ہیں ۔پہلا ورق کے عنوان سے ڈاکٹر وزیر آغا نے اداریہ میں لکھا ہے۔
’’اوراق کے پس پشت بنیادی ادبی نظریہ یہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ کسی ملک کے ادب کو اس کی ثقافت اور تہذیب سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور ثقافتی ماحول زمین کی باس ،پانی،نمک اور فضا پر عناصر آفاقی کے عمل سے پیدا ہوتا ہے اوراق زمین کو اہمیت دینے میں اس لئے پیش پیش رہے گا کہ زمین عورت کی طرح تخلیق کرتی ہے لیکن وہ آسمان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیںکرے گا کہ آسمان اس تخلیق میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے مگر آسمان کی اہمیت بہر حال ثانوی ہے اور یہ نکتہ ہمہ وقت ہماری نظروں کے سامنے ہے‘‘ (۱۵)
آغاز میں ’’ہمارا وطن‘‘ کے عنوان سے نظمیں اور افسانے شا ئع کئے گئے ہیں۔پہلی نظم ’’سپاہی‘‘ کے عنوان سے مجید امجد کی ہے دیگر شعرا میں قیوم نظر،شہزاد احمد،رشید قیصرانی وزیر آغا،جعفر طاہر،عارف عبدالمتین کی نظمیں شائع کی گئی ہیں ۔ای گوشہ مولا نا صلاح الدین احمد کی یاد میں بھی مخصوصکیا گیا ہے جس میں آغا محمد باقر،انور سدید اور وزیر آغا کے مولانا صلا ح الدین احمد کے فن و شخصیت پر مضامین شائع کئے گئے ہیں ۔’’سوال یہ ہے‘‘کے عنوان سے ایک مسلسل سلسلہ اوراق میں آخر تک قائم رہا۔جس میں کسی ایک مو ضوع پر مختلف ادیبوں کی آرا شائع کی جا تی رہیں ۔پہلے شمارے میں ’’فن ابلاغ کی اہمیت پر شہزاد احمد، افتخار جالب،سجاد باقر رضوی،غلام جیلانی اصغر،صدیق کلیم اور صلاح الدین ندیم کی رائے شامل اشاعت ہے۔(۱۶)پہلے شمارے میں تمام اہم ادبی اصناف پر بہترین معیاری انٹخاب شائع کیا گیا ہے اور ساٹھ کی دحائی کے تمام اہم ادیبوں کی بغیر کسی ادبی گروہ بندی کے نام اور تخلیقات اس شمارے میں جلوہ گر ہیں ۔اوراق کی ادبی خدمات کا دائرہ تقریبا ستر شماروں پر محیط ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان عظیم ادبی جرائد کے اشاریئے مرتب کرائے جا ئیں تاکہ ان میں موجود عظیم ادب پاروں کا نئی نسل اور محقیقین کو اندازہ ہو سکے اور وہ اس سے استفادہ کرسکیں۔
______________________________________________________
حوالے و حواشی
( ۱)۔ ادبی دنیا،لاہور، نو روز نمبر، ۱۹۳۲،جلد نمبر ۶،شمارہ نمبر ۱ ،ص ۹۸
( ۲)۔ڈاکٹر خلیق انجم نے لکھا ہے کہ’’ نگار کا اجرا آگرہ سے ہوا اور پہلا جریدہ ۲۲ فروری ۱۹۲۲ کو شائع ہوا،صفحہ ۸۶ماہ نامہ انشا کلکتہ دسمبر ۱۹۹۶ نیاز فتحپوری نمبر ،مانک ٹالہ نے صفحہ ۱۴۸ پر یہ ہی بات دہرائی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید نے اپنی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ،مطبوعہ ۱۹۹۲میں صفحہ ۱۱۷ پر لکھا ہے ۔’’بھوپال سے فروری ۱۹۴۴ میں نگار جاری ہوا‘‘۔رسالے کے ابتدائی صفحات میں ایسا کچھ نہیں پرنٹ ہوا کہ یہ پرچہ کہاں سے شائع ہورہا ہے۔صفحہ ۵۳ پر لکھا ہے ایڈیٹر سے خط و کتابت کا پتہ ۔نور محل بھو پال ہے۔امکان غالب ہے کہ نیاز فتح پوری بھو پال میں مقیم تھے اور پرچہ آگرہ سے جاری کیا گیا۔
(۳)اردو جامع انسائکلو پیڈیا (جلد دوم) مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۸۸ نے صفحہ ۱۹۱۰ پر لکھاکے نیرنگ خیال لاہور ۱۹۲۲ ء میں نکلا جو کہ غلط ہے۔
(۴) محمد طفیل،حکیم صاحب(خاکہ)مطبوعہ، نقوش ،لا ہور، محمد طفیل نمبر،(جلد دوم)شمارہ۱۳۵، جولائی ۱۹۸۷،ص۱۰۷۶
( ۵)برنی،سید مظفر حسین ، کلیات مکاتیب اقبال ،جلد دوم،اردو اکادمی دہلی۔۱۹۹۳ ،ص۵۳۲
(۶) حکیم یوسف حسن کی وفات پر شان الحق حقی نے تاریخ ِوفات کہی ہے ۔اٹھ گیا بانی میخانہ نیرنگ خیال لُجہ دود ہوا عرصہ نیرنگ خیال ۱۴۰۱ ھ بحوالہ ۔سہ ماہی اردو کراچی جلد ۶۱،شمارہ نمبر ۳،۱۹۸۵،ص ۳۳
(۷)نیرنگ خیال ، ماہ نامہ،لا ہور ،جلد نمبر ۱، شمارہ نمبر ۱،۱۹۲۴،ص
(۸) ایضاً ص ۲۷
(۹) ایضاً ص ۳۸
(۱۰) ایضاًص ۴۷
(۱۱ )نیا دور،سہ ماہی،بنگلور،جلد۱ شمارہ نمبر ۱ ،ص ۲۰۲
(۱۲) ایضا ص ۲۰۳
(۱۳)بحوالہ نقوش ،محمد طفیل نمبر (جلد نمبر ۱)،ص ۱۷
(۱۴) رائے پوری،اختر حسین،ماہ نو،کراچی،جلد ا ،شمارنمبر ۱،اپریل ۱۹۴۸،ص ۲۸
(۱۵)اوراق،ماہ نامہ ۔لاہور، جلد نمبر ۱ شمارہ نمبر۱ ،۱۹۶۵،ص۵
(۱۶) سوال یہ ہے،جو ’’اوراق ‘‘کا مقبول سلسلہ تھا ۔اِس کے تمام مباحث کو کتابی صورت میں جمع کرکے شائع کر دیا گیا ہے