My Poetry by Akhtarul Iman

Articles

میری شاعری

اختر الایمان

میری عادت ہے جب نظم ہو جاتی ہے اسے رکھ دیتا ہوں اور اتنے دن رکھا رہنے دیتا ہوں کہ نظم ذہن سے محو ہوجائے ۔نظر ثانی کرتے وقت اکثر اوقات نظم کا اچھا برا سامنے آجاتا ہے پھر بھی یہ کوئی قاعدہ یا کلیہ نہیں۔میں نے یہ عادت اس لیے اختیار کی کہ شاعری پر کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی تھی نہ کوئی مشورہ کیا تھا۔جس طرح کا مزاج تھا اس میں استادی شاگردی والا ڈھرّہ چل بھی نہیں سکتا تھا ۔شاعری شروع کی تھی لونڈے پن میں۔رکان تھی مصرع موزوں کرنے کی مگر جب کچھ دوستوں اور بزرگوں نے کہا تمہارے اندر شاعر بننے کی صلاحیت ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کیا۔شاعری کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے سمجھنے کے لیے کافی ریاض کیا۔کچھ ایسے بے لاگ بات کرنے والے دوست اور ساتھی بھی مل گئے جو مجھے پسند تھے اور گاڑی دھیرے دھیرے ڈھرّے پر آگئی۔
ڈھرے کا یہ مطلب نہ نکالیے کہ مہاتما بدھ کی طرح کسی پیڑ کے نیچے القا یا الہام ہوا۔کہنے سے مراد ہے مجھے کس طرح کا شاعرانہ رویہ پسند ہے،اور اسے اختیار کرنے کی سبیل کیا ہو،اس کا ایک دھندلا ساراستہ دکھائی دیا۔ہر دور کی تخلیق اور احتساب، پیش رو‘بڑے لکھنے والوں کی تخلیقات کو ذہن میں رکھ کر کیا جاتا ہے ۔سامنے غزل کی بڑی شاعری تھی۔پھر مسدس سریلے بول اور غالبؔ کو از سر نو روشناس کرانے والے لوگ۔
یہ درست ہے لکھنے کے بہت ابتدائی دور میں شاعرکو اتنا شعور نہیں ہوتا کہ چیزوں کی بہت چھان پھٹک کرے مگر غیر شعوری ہوتے ہوئے بھی فن کا ایک معیار تو ذہن میں ہوتا ہے۔ راستہ دھندلا ہوتا ہے پھر بھی کوئی یہ تو نہیں چاہتا کہ کوشش رائیگاں جائے۔تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہیے والا بھی ایک راستہ ہے مگر میرے ذہن میں وہ نہیں تھا۔
آج کل کے چل چلاؤ کے زمانے میں اچھے خاصے معقول حضرات بھی ایک الجھن کا حل دوسری الجھن کی صورت میں پیش کردیتے ہیں۔شاید سوچتے ہیں کون جھنجٹ میں پڑے۔ کسی نے پوچھا آسمان پر کتنے ستارے ہیں جواب دیا سمندر میں جتنے قطرے ہیں ۔اب چاہے راتوں کو بیٹھے آسمان تکا کیجئے چاہے سمندر میں غوطہ لگائیے اس سے انہیں کچھ مطلب نہیں۔ جدید اردو شاعری کا بھی کچھ ایسا ہی حال دکھائی دیتا ہے۔اس خواب کو بھی کثرت تعبیر کرنے پر پریشان کردیا ہے۔گنبد میں ہر کوئی اپنی سی کہے جاتا ہے اور ہر نئے آنے والے کی تعمیر یا (تخریب)الجھنوں میں اضافہ کردیتی ہے، اور نقصان میں رہتے ہیں شعر و شاعری سے لطف اٹھانے والے یا ان سے بھی زیادہ خود شاعری۔مختصر یہ کہ جدید اردو شاعری کے تصوّر کو بعض لوگوں نے جان بوجھ کر انجانے میں ایک گورکھ دھندابنادیا ہے۔اور یوں وہ اکثر لوگوں کے لیے بھول بھلیاں بن کر رہ گئی ہے۔ایسی صورت حال کے ہوتے ہوئے وہی لوگ فائدہ میں رہ سکتے ہیں جو اپنی عینک میں صحیح نمبر کا شیشہ لگا کر دیکھنے کی کوشش کریں۔
جدید اردو شاعری ایک ایسی پھلواری ہے جس کی زمین تو حالیؔ، اسماعیل ،آزاد اور ان کے دوسرے ہم خیالوں نے تیار کی تھی لیکن اس میں سب سے پہلا خوشنما اور بارآور پودا عظمت اللہ اور بجنوری ؔنے لگایا تھا۔اپنے وسیع مفہوم کے لحاظ سے جدید اردو شاعری کا اطلاق حالیؔ اور اس کے بعد کی شاعری پر کیا جاسکتا ہے مگر آج اضافی ادب خصوصاً مغربی ادب کے مطالعے کے اثرات سے ہمارے جو نئے شاعر پیدا ہوئے ہیں ان کے صحیح پیش رو میری نظر میں عظمتؔ اللہ اور بجنوریؔ ہیں۔گذشتہ دس پندرہ سال کی اردو شاعری میں فن اور خیال کے تمام تجربات شجرے کے لحاظ سے انہیں کے ذیل میں آئیں گے ۔عظمت اللہ خاں نے ’’سریلے بول‘‘کے آغازمیں نئی پود کے نام اپنے کلام کاانتساب یوں کیا۔
’’اس آنے والی پود کے لیے جس کے ہونٹوں پر ابھی ماں کے دودھ کا مزہ کچھ یونہی سا باقی ہے۔جس کی آواز میں ابھی لڑکپن کا سریلا پن گونج رہا ہے یہ چند lyric نظمیں سوغات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔اس پود کے پھولنے پھلنے کے بعد بڑا کام یہ ہوگا کہ اس کی نغمہ سرائی سے اردو شاعری فطرت کی طرح وسیع ہوجائے اور فطرت ہی کی طرح گونج اٹھے۔اگر ان چند بولوں سے اس پود کو اردو ادب کا ایک نیا دور طلوع کرنے میں ذرا بھی مدد ملی تو گویا ان ناچیز۔چیزوں کا صلہ مل گیا۔‘‘
یہ اس شاعر کے الفاظ ہیں جسے اپنے اوپر اعتماد تھا۔اس اعتماد کی تائید اس نئے دور نے زیادہ سے زیادہ زور دار الفاظ میں کی ہے جو اردو شاعری میں طلوع ہوچکا ہے لیکن اس نئے دور میں اپنے پیشرو کے ہم نوا اس کے جیسے اعتماد کے حامل نہیں ہیں۔چاہے آزاد نظم اور دوسرے ضمنی تجربات ہوں چاہے جنسی موضوعات اور چاہے سیاسی عقائد اور خیالات۔ہر ایک کے حامیوں کی ہستی کچھ برسبیل تذکرہ ہی دکھائی دیتی ہے۔یہ تسلیم کہ شروع میں صرف قدامت پرستی اور محض بے علمی یا جہالت کی جس مخالفت سے سامنا پڑا تھا وہ اب دور ہوچکی ہے یا کم سے کم دب سی گئی ہے ۔مگر اس کی جگہ اب آنے والوں کی باہمی غلط فہمیوں نے لے لی ہے۔ادب برائے ادب کا مقولہ تو اب ایک پرانی سی بات ہے اس کا نعم البدل ادب برائے زندگی کی صورت میں نمودار ہواتھا۔اس کی چھان پھٹک کے بعد اب جو صورت مجھے دکھائی دیتی ہے اسے دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک وہ لوگ جو زندگی برائے زندگی کے قائل معلوم ہوتے ہیں اس گروہ کی سطحیت ہی انہیں درخور اعتنانہ سمجھنے کا جواز ہے۔دوسرے گروہ میں وہ لوگ آتے ہیں جو زندگی برائے ادب پر عمل پیرا ہیں۔اور اپنے مسلک کے پردے میں ادب برائے زندگی کے مفہوم کو بھی لئے ہوئے ہیں لیکن ان کا راستہ بھی صاف نظر نہیں آتا۔
ہمارے جدید شاعروں کی مختلف الجھنوں کا ابتدائی زمانہ تو گذرتا جارہا ہے بلکہ یوں کہئے ختم ہونے کو ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ منزل بھی تقریباًآن پہونچی ہے جہاں کھڑے ہوکر سب سے پہلے انہیں سختی کے ساتھ نیا جائزہ لینا ہوگا پھر مستقبل پر ایک نظر ڈال کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ان کی محنتوں کے بے ثمر ،ہونے کا اندیشہ ہے ۔عظمت اللہ اور بجنوری کی شخصیتیں اس سلسلے میں اب بھی ان کی راہ نما ہوسکتی ہیں۔یہ دونوں شاعر مغربی علوم کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم سے بھی کماحقہ،واقف تھے اور اس کے پہلو بہ پہلو رائے زنی کی وہ اہلیت بھی ان کی ذہانت کا خاصہ تھی جو صرف گہرے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ بجنوری کے مقدمے سے قطع نظر ان کی تخلیقات میں تجربوں کے باوجود ایک توازن تھا ایک ایسی ہم آہنگی تھی جو انسان کی سطحیت سے بچائے رکھتی ہے آج ہمارے بہت سے شاعر جنسی موضوعات پر محض اس لیے خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ اس میں انہیں لذّت حاصل ہوتی ہے۔آزاد نظم یا دوسرے ضمنی تجربوں کی طرف اس لیے رجوع کرتے ہیں کہ ان کی عجب پرستی ہی نمودکا باعث بن جائے اور اپنی ہر نظم سرخ روشنائی سے اس لیے لکھتے ہیں کہ سرخ پھریرانوجوانوں کے لیے فیشن سا بن گیا ہے۔
عظمت اللہ نے جس دور کی پیشن گوئی کی تھی وہ آگیا ہے اور شاعری کے دروازے ہر طرح کے موضوعات کے لیے کھل گئے مگر کتنے اس دروازے سے داخل ہونے کی نیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ آج کی ادبی فضا سے ہوسکتا ہے ۔لکھنے والے پلٹ پلٹ کر پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔جس طرح قصیدہ ،مرثیہ،رجز،پوری شاعری نہیں شاعری کی ایک صنف ہے،اور زندگی کے صرف ایک رخ کی نمائندگی کرتے ہیں وہی صورت حال غزل کی بھی ہے۔ غزل کی تعریف جو میں نے پڑھی ہے وہ،بازی کردن محبوب و حکایت کردن ازجوانی و حدیثِ صحبت و عشق زناں’’یعنی محبوب کے ساتھ کھیل ،رنگ رلیاں ،جوانی کی باتیں اور عورتوں کے ساتھ عشق و محبت کے قصّے ۔ظاہر ہے بڑا دلچسپ موضوع ہے۔خدا سب کو اس کی توفیق دے مگر یہ زندگی کا صرف ایک رخ ہے ۔اس کا زمانہ اور وقت بھی بہت محدود ہے۔
پندرہ بیس سال پرانی بات ہے میں نے مدراس کی ایک فلم لکھی تھی جس کا نام ’’آدمی‘‘ تھا۔(یوسف خان)دلیپ کمار،کے ساتھ اس فلم میں بہت سے بڑے بڑے اور معروف اداکار بھی تھے۔کوڈے کنال میں فلم کی شوٹنگ ہورہی تھی جس ہوٹل میں ہم سب کا قیام تھا اس کا نام شاید کوائیلٹی ہوٹل تھا۔ایک روز رات کے کھانے کے بعد یوسف خان نے ڈائنگ ہال میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو روک لیا ۔کہا اخترالایمان کی شاعری سنیں گے ۔ان میں ایک مصور بھی تھا جو گجرات کا رہنے والا تھا۔باقی سب کی زبان بھی اردو نہیں تھی۔یوسف خان نے کہا وہ نظم کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے۔خیر!شاعری ہوئی یوسف ترجمہ کرتے گئے اور محفل بخیر خوبی ختم ہوگئی،اگلے روز شام کو میں ٹہلنے کے لیے کمرے سے نکل رہا تھا کہ یوسف خاں آئے اور معنی خیز انداز میں مسکراکر کہنے لگے وہ مصور صاحب جو کل رات ہال میں تھے بیٹھے تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔کہتے ہیں اسی قوّال کو بلاؤ جو کل سنا رہا تھا۔
یہ لطیفہ بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ شاعری کے ساتھ گانا بجانا جڑے ہونے کے سبب سننے والے شاعری کو تفریحی پروگرام کا بدل یا اس کا مترادف سمجھنے لگے ہیں ۔کوئی سنجیدہ چیز نہیں۔غزل کی طرف میرے اس رویہّ کا نتیجہ غزل کے کچھ شیدائیوں نے یہ نکالا ہے کہ میں غزل کا مخالف ہوں ۔نہیں ایسی بات نہیں ۔غزل کا حامی نہ ہونا مخالف ہونے کے مترادف نہیں۔نہ حامی ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ غزل میں پھولنے پھلنے کی گنجائش نہیں رہی دوسرا سبب یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں غالبؔغزل کا نقطہ عروج ہے۔
میں مزید اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہنا صرف اس قدر ہے کہ نظم ایسی صنف ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔زندگی سے متعلق کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر نظم نہیں کہی جاسکتی۔ اخلاقی، سیاسی، معاشی، سماجی، نفسیاتی، رومانی کوئی بھی موضوع ہو نظم کا کینواس اتنا بڑا ہے کہ اس پر جو رنگ فنکار ڈھنگ سے استعمال کرے گا،اچھا لگے گا۔
اس پچھلے چالیس پچاس برسوں میں نظم کی صنف اتنی وسیع اور ترقی یافتہ یا اتنی بالغ ہوگئی ہے کہ اس پر پوری طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے قناعت بہت اچھی چیز ہے انسان کو لالچی اور کمینہ ہونے سے بچاتی ہے۔حیوانیت کا توڑ بھی کرتی ہے مگر شاعری میں قناعت کا استعمال نقصان دہ ہے۔چونکہ قناعت اس ملک کے فلسفہ اور مزاح کا بڑا جزو ہے اس لیے ہم نے غزل پر قناعت کرلی مگر زندگی میں حریص اور کمینے ہوگئے۔
غزل اور بے غزلی کی بحث میں نہ پڑیئے۔ غزل ہی کیا ایسے اور بہت مسائل ہوں گے جن پر مجھے آپ سے اتفاق نہیں ہوگا اور آپ کو مجھ سے مگر اس بات پر ہم ضرور متفق ہوں گے کہ کوئی صنف سخن ہو اس میں وسعت کی گنجائش ہونی چاہیے اور زبان کا ایسا استعمال ہونا چاہیے کہ پہلے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اضافہ بھی ہو اور زبان اپنے وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوسکے اور وہ صنف اور پیکر زندگی سے ہم آہنگ بھی ہو فن کا کام پوری زندگی کا احاطہ کرنا ہے اس کے کسی ایک رخ کا نہیں ۔تحریر وجود ہی میں کیوں آئی؟اس لیے کہ اشاروں اور اشکال کی زبان محدود تھی۔اس قید سے بچنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے صرف شاعری ہی کا استعمال نہیں کیا آدمی نے نثر کی بھی بہت سی اصناف ایجاد کی ہیں۔کہانی لکھی،ڈرامہ لکھا،ناول لکھا،رپورتاژ لکھے،سوانح لکھی غرض کہ جو قلم کی زد میں آیا اگر ایک صنف نے ساتھ نہیں دیا تو دوسری ایجاد اور اختیار کی یہی بات اس نے شاعری میں بھی روا رکھی۔مثنوی لکھی،قصیدہ لکھا،مرثیہ لکھا،رجز لکھے،غزل لکھی اور جب زبان کو وسعت دینے کی ضرورت محسوس کی، گوناگوں خیالات کا اظہار چاہا تو نظم ایجاد کی۔بیان کو وسعت دینے کے لیے زبان لا محدود چاہئے۔ زبان تو ایک ہی ہے مگر موضوع کے ساتھ لفظوں کا دروبست بدل جاتا ہے۔ رپورتاژکی زبان کلاسیکی شاعری کے لیے موزوں نہیں۔قصیدہ اور مرثیہ کا ٹھاٹھ غزل میں کام نہیں آتا اور غزل کی نزاکت نظم کے دشوار گذار میدانوں میں ساتھ نہیں چل سکتی۔کچھ لوگ اگر دو مصرعوں میں بات کہنے کو غزل کا مترادف سمجھتے ہیں تو دوہا بھی دو ہی مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے مگر دوہا غزل نہیں ہوتا نہ دوہے کا انداز بیان غزل کے لیے موزوں ہے۔ادب، فن، شاعری جہاں انسانی جذبات اور معاملات کو رقم کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اس کا مقصد زبان کی وسعت اور ترویج بھی ہے۔زبان میں وسعت آتی ہے پھیلے ہوئے ہشت پہلو موضوعات سے اور وہ صرف نظم میں آسکتے ہیں اس لیے کہ نظم محدود صنف سخن اور اظہار خیال کے ذریعہ کا نام ہے۔
جب میں شاعری میں کھردرے پن کا ذکر کرتا ہوں اس کا مطلب اخباری زبان نہیں ہوتا۔کلامِ موزوںبھی نہیں ہوتا۔اس کا مطلب ہوتا ہے بندھے ٹکے مروجہ اشارے اور تشبیہات ،بیان کے پیش افتادہ انداز اور مضامین سے گریز،ٹکسالی محاوروں اور روزمرہ سے پرہیز۔ایسی زبان جو ابھی شاعری کی خیرادپر نہیں چڑھی ،ان لفظیات سے مراد ہوتی ہے،جن میں ابھی کنوارا پن کی خوشبو ہے۔ اس لیے کہ وہ تواناہوتے ہیں اور نئے موضوعات میں خیال کے اظہار کا بھرپور ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔تخلیق کا ایک اور اہم پہلو خود احتسابی ہے۔
خود احتسابی ایسی صفت ہے جس کا ہونا ایک قلم کار کے اندر اس کی ذہنی صحت مندی کی علامت ہے۔ہر انسان کو اپنی اولاد عزیز ہوتی ہے یہ تسلیم مگر اپنے احمق بیٹے کو دنیا کا سب سے زیادہ خود صورت اور ذہین انسان سمجھ لینا ذہنی کج روی کی علامت ہے۔
٭٭٭

مشمولہ: ممبئی کے ساہتیہ اکاڈمی انعام یافتگان، مرتب :پروفیسر صاحب علی ، صفحہ نمبر 17تا 24