My Journey by Salambin Razaaq

Articles

میرا تخلیقی سفر

سلام بن رزاق

کسی مفکر کا قول ہے ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ۔‘‘ اس قول میں ذرا سی ترمیم کر دی جائے تو ایک ادیب کی حیثیت سے میرا معروضہ یہی ہوگا کہ ’’میں لکھتا ہوں اس لیے میں ہوں ۔‘‘ مفکر کی سوچ اس کی زندگی کی دلیل ہے تو ایک ادیب کی تحریر اس کے وجود کی شہادت ہے ۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم کیوں لکھتے ہو ؟ تو شاید میں اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ میں ایک چینی کہاوت ضرور سنانا چاہوں گا۔ ’’پرندے اس لیے نہیں گاتے کہ ان کے پاس گانے کا کوئی جواز ہے ۔ پرندے اس لیے گاتے ہیں کہ ان کے پاس گیت ہیں ‘‘ میں اس لیے لکھتا کہ میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ ہے ۔
اگرچہ لکھنا ایک شعوری عمل ہے مگر لکھنے کی خواہش ادیب کے لاشعور کی گہرائیوں میں پرورش پاتی رہتی ہے ۔ جو مناسب وقت پر الفاظ کا جامہ پہن کر صفحۂ قرطاس پر نموپذیر ہوتی ہے ، بسا اوقات ہمیں خود پتہ نہیں چلتا کہ ہم نے کب اور کیوں لکھنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے میں ابھی چھوٹا تھا ، تیرنا نہیں جانتا تھا مگر تالاب کے کنارے بیٹھ کر دوسرے بچوں کو تیرے ہوئے دیکھنے میں مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔ پتہ نہیں ایک دن اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دے دیا۔ میں پانی میں گرکر کا غوطے کھانے لگا مگر ڈوبنے سے بچنے کے لیے غیر ارادی طور پر ہاتھ پائوں بھی چلاتا رہا بالآخر جوں توں کنارے پر آلگا مگر اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھ میں حیرت انگیز طور پر تبدیلی آگئی ہے۔ میرے دل سے گہرے پانیوں کا خوف جاتا رہا اور میں بھی رفتہ رفتہ دوسرے بچوں کے ساتھ تیرنے لگ گیا۔ میرے لکھنے کی ابتدا بھی کچھ اس طرح ہوئی ۔ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، داستانِ امیر حمزہ، الف لیلیٰ ، طوطا مینا، حاتم طائی ، باغ و بہار ، تاریخ اسلام ، صادق حسین سردھنوی، مولانا عبدالحلیم شرر اور نسیم حجازی کے تاریخی ناول ، ابن صفی کے جاسوسی ناول اور جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں چلا کہ پڑھتے پڑھتے کب لکھنا شروع کردیا ۔ اب غور کرتا ہوں کہ وہ کون تھا جس نے مجھے پانی میں دھکا دیا تھاتو لگتا ہے کہ وہ کوئی اور نہیں شاید میرا ہی ہمزاد تھا۔
اول اول قلم چلانا شوق تھا رفتہ رفتہ جی کا روگ بن گیا اور اب تو تاحیات اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ جس شوق کو کچی عمر میں ہنسی کھیل میں شروع کیا تھا، اب وہ لاعلاج مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور صورت یہ ہے کہ اگر میں قلم کو چھوڑنا بھی چاہوں تو قلم مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں ۔اکثر کوئی خیال کوئی سوال ، کوئی واقعہ ، کوئی کردار اچانک میرے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور کسی بیتال کی طرح میرا تعاقب کرتا ہے ۔ تب میں حتی الامکان اس سے دامن بچاتا ہوں ، آنکھیں چراتا ہوں ، بھاگنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا تاوقتیکہ میں اسے کسی موکل کی طرح اپنے قابو میں کرکے الفاظ کی بوتل میں بند نہیں کر دیتا۔
جب لکھنا شروع کیا تو چھپنے کا شوق پید ا ہونا بھی لازمی تھا۔ لہٰذا چھوٹے بڑے رسائل اور جرائد کے کشت زاروں میں قلم کا ہل چلایا ، الفاظ کی کاشت کی اور دادوتحسین کی فصل کاٹی۔ یوں تو میں ہلکے پھلکے تنقیدی مضامین ، تبصرے ،ڈرامے ،بچوں کے مضامین اور کہانیاں تراجم ، ریڈیو فیچر ، ٹیلی فلمیں اور فیچرفلمیں بقدر ظرف ہر صنف میں طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں مگر ایک قلمکار کی حیثیت سے افسانہ لکھ کر مجھے روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے اور اسے اگر کسی چیز کے مماثل قرار دوں تو وہ کم و بیش مہاتما بدھ کے نروان والی کیفیت سی ہو سکتی ہے ۔ مجھ سے ایک انٹرویوں میں پوچھاگیاتھا۔’’آپ کس حیثیت سے یاد کیا جانا پسند کریں گے؟‘‘ میں نے بلا تامل جواب دیا۔ ’’افسانہ نگار کی حیثیت سے ۔‘‘ اگر چہ میں جانتا ہوں فی زمانہ لکھنا اوروہ بھی افسانہ تضیع اوقات ہے ۔ تاہم اس کو کیا کیا جائے کہ بعض طبیعتیں خسارے کے سودے میں ہی تسکین پاتی ہیں ۔ ایسے موقع پر غالب کا یہ مصرعہ بڑی تسلی دیتا ہے :
ع عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
آج سے پچیس تیس برس پہلے معاشرے میں ادب کی اہمیت اور ضرورت ایک مسلمہ حقیقت تھی ۔ ادب ہمارے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سب سے بڑا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج معاشرے کا منظر نامہ بدل چکا ہے آج ہمارا معاشرہ ایک ہولناک صورتِ حال سے گزررہا ہے اور ایک تشویش ناک مستقبل ہمارا منتظر ہے اقدار پارہ پارہ ہوچکی ہیں ۔ جو اصول صبح بنائے جاتے ہیں شام میں شکستہ پیمانوں کی طرح پاش پاش ہوجاتے ہیں ۔ تہذیبیں دم توڑ رہی ہیں ۔ خدا کی موت کا اعلان تو بہت پہلے کیا جا چکا تھا اب خود انسانیت معرض خطرمیں پڑ چکی ہے ۔ اس ہیجان اور انتشار کے دور میں پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کے معاشرے کو افسانے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں ۔۔۔۔۔ ذرائع ابلاغ نے ایک عام قاری کے ذوق کو اس قدر پامال کردیا ہے کہ صرف افسانہ ہی نہیں پوراادب اس کے نزدیک ایک شوق فضول کے سوا کچھ نہیں ۔ بہر حال صورت ِ حال جو بھی ہو میں اتنا جانتا ہوں کہ معاشرے کی ضرورت ہو یا نا ہوں مگر افسانہ میری ضرورت ہے یقینا ہے ۔ میں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘میں بطور دیباچہ لکھا تھا :
انسانی قدروں کی بساط مضحکہ خیز طور پر الٹ گئی ہے وزیر شاہ پر سوار ہو گیا ہے ۔ ہاتھی گھوڑے کہیں کے کہیں جا پڑے ہیں اور پیادے چاروں خانے چت ہیں اس بکھری بازی کو دوبارہ کون جمائے ؟ کوئی نہیں جانتا بازی کہاں سے چلی تھی کہاں تک پہنچی ؟ مگر تعجب ہے کہ لوگ بازی پھر بھی کھیلے جارہے ہیں ۔ پر اب کوئی ضابطہ ہے نہ اصول ۔ ساری بازی کسی پاگل کی سنک کی طرح چل رہی ہے۔‘‘ اس دیباچے کو لکھے اٹھائیس برس گزر گئے ۔ آج اٹھائیس برس بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں بلکہ صورت حال زیادہ پیچیدہ اور بھیانک ہو گئی ہے ۔میرے پائوں ننگے ہیں اور سر پر دھوپ کی چادر تنی ہوئی ہے ، تلوئوں میں چھالے پڑے ہیں اور راستہ پر خار ہے ۔
پیچھے مڑکر دیکھنے کا سوال ہی نہیں ۔ اگر میں نے ایسا کیا تو کسی جادو کے زور سے پتھر کا ہوجائوں گا ۔ اس خوف سے میں چلتا جا رہاہوں ۔ متواتر چل رہا ہوں ۔ میر اسفر جاری ہے ، میں اس سفر میں لمحہ لمحہ ٹوٹتا ہوں ، ریزہ ریزہ بکھرتا ہوں ۔ افسانہ لکھنا میرے نزدیک اپنے اسی کرچی کرچی وجود کو سمیٹنے کا نام ہے جس کے وسیلے سے میں اپنے آپ کو ماحول کی جبریت سے آزاد کرتا رہتا ہوں ۔ میرا افسانہ دراصل میری نجات کاذریعہ ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ افسانہ لکھنا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے ۔ بقول راجندرسنگھ بیدی یہ کام ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کی کھال کھینچ کر اسے ننگے بدن نمک کی کان سے گزارا جائے ۔ مگر کیا کیا جائے کہ تخلیق کار کو اسی میں راحت ملتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ سیپی کے سینے میں جب کوئی کنکر گڑ جاتا ہے تو وہ اس کے اندر ٹیس پیداکرنے لگتا ہے ۔ سیپی اس رِڑک کو کم کرنے کے لیے اپنے اندر ایک قسم کا لعاب پیدا کرتی ہے اور لعاب کو اس پھنسے ہوئے ذرے کے گرد لپیٹتی رہتی ہے کنکر پر لعاب کی تہہ جمتی رہتی ہے ۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کنکر لعاب سے مل کر موتی بن جاتا ہے افسانہ لکھنا بھی دراصل اپنے اندر پھنسے کسی خیال کی رِڑک سے نجات پانے کا عمل ہے ۔ یہ خیال ہی کی رِڑک ہے جو افسانہ نگار کے جگر میں گڑتے گڑتے بالآخر افسانے کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ میں اپنے افسانوں کے حوالے سے زندگی کو انگیز کرتا ہوں اور زندگی کے حوالے سے اپنے افسانوں میں رنگ بھرتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض افسانہ نگار ،عظیم موضوعات کی تلاش میں بہت دور نکل جاتے ہیں اس قدر دور کہ بسا اوقات اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں جب کہ آنکھیں کھلی اور ذہن بیدار ہوتو ہر واقعہ ایک کہانی اور ہر فرد ایک کردار ہے ۔ میں اپنی ذات کے آئینے میں اپنے اطراف کے لوگوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتا ہوں ۔ میرے بیشترافسانوں کے کردار خود میری ذات سے کچھ اس طرح برآمد ہوئے ہیں کہ انھیں یوں اچانک دیکھ کر میں حیران رہ گیا ہوں ۔ ان کی محبتیں ، ان کی نفرتیں ان کی شرافت ، ان کی کمینگی ، ان کی سر کشی ، ان کی بزدلی ، ان کے سکھ دکھ ، غم و غصہ ، سختی و نرمی سب میرے ہی جذبہ و احساس کے مختلف عکس ہیں۔ اگر فلائبیر، مادام بواری ہے ، منٹو کا لی شلوار کا دلال ہے تو پھر میں واسوہوں ، ننگی دوپہر کا سپاہی ہوں ، بجوکاکی شالوہوں ، خصی کا پر س رام ہوں ، کام دھینوکا مادھوہوں ۔ انجام کار کا راوی ہوں ۔
میں ایک عام آدمی کا افسانہ نگار ہوں کیوں کہ میرے اردگرد ایسے ہی لوگ بستے ہیں ۔ مظلوم ، مجبور،محروم اور ناآسودہ ۔ مگر خاطر نشان رہے کہ یہ عام آدمی نہیں ہیں ۔ میرے کردار وہ سخت جان افراد ہیں جو دن بھر میں بیسیوں دفعہ ٹوٹتے ہیں ، ٹوٹ کر بکھرتے ہیں مگر دوسری صبح اپنے بستر سے صحیح و سالم اٹھتے ہیں۔ وہ روز شکست کھاتے ہیں مگر زندگی جینے کا حوصلہ نہیں ہارتے۔ میرا افسانہ نعرہ نہیں چیخ ہے ۔ بسا اوقات ایسی چیخ جو سینے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے ۔ ان کی بے کسی اور بے چارگی دیکھ کر مجھے پکاسو کی عالمی شہرت یافتہ تصویر ، گویرنیکا ، کے اس گھوڑے کی یاد آتی ہے جو جاں کنی کے عالم میں چیخ رہا ہے ۔ اُس کی دلخراش چیخ کو بظاہر ہم اپنے کانوں سے سن نہیں پاتے البتہ اس کی خوفناک مگر خاموش گونج ہمارے وجود میں ایک پر شور طوفان کی سی کیفیت پیدا کردیتی ہے ۔ یہ وہ بد نصیب لوگ ہیں جنہیں حالات نے اپنے چکر ویومیں جکڑ رکھا ہے ۔ وہ اس چکر ویوسے نکلنا چاہتے ہیں مگر ابھیمنیوکی طرح، چکرویو کو توڑکر اس سے باہر نکلنے کا منتر نہیں جانتے ۔ میں حالات کے چکر ویو میں پھنسے انہیںبیمار، تھکے ہارے اور دبے کچلے افراد کا افسانہ نگار ہوں ۔ ان کے دکھ درد ان کی یاس و محرومی ان کا اضطراب و انتشار ہی میرے افسانے کا محرک اور موضوع ہے ۔ میں باغیوں کی کہانیاں اس لیے نہیں لکھتا کہ میرے عہد میں کوئی باغی نہیں ہے ۔ میں فاتحین اور نائکوں کے افسانے کیوں کر لکھوں کہ میرے عہد میں ظلم کو بہادری مکاری کو دانائی کج روی کو راستی اور موقع پرستی کو سیاست کا نام دیا گیا ہے ۔ ساری قدریں سر کے بل کھڑی ہوچکی ہیں ۔آج مذہب ،ذات ، قوم اور علاقے کے نام پر انسانوں کو اتنے خیموں میں بانٹ دیا گیا ہے کہ پورا سماج ٹکرے ٹکرے ہو کر بکھر گیا ہے ۔ میرے کردار اسی پارہ پارہ معاشرے کے افراد ہیں ۔ وہ اس گھنائونے معاشرے میں جینے اور مرنے پر مجبور ہیں ۔ انھیں غصہ آتا ہے ۔ وہ احتجاج بھی کرتے ہیں ۔ مگر ان کا غصہ اور ان کا احتجاج اس الائو کی مانند ہے جس کی آ گ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ میرا افسانہ دراصل اُسی بجھے ہوئے الائو کی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرنے کا عمل ہے ۔
مجھے اس نوجوان کی کہانی یاد آرہی ہے جس نے ٹھٹھرا دینے والے موسم میں پہاڑ کی چوٹی پر ننگے بدن رات گذارنے کی شرط لگائی تھی اور دور ایک کٹیا میں جگنو کی طرح ٹمٹماتے چراغ کی لو پر نظریں گڑائے اس نے صبح کے ستارے کا استقبال کیا تھا اور شرط جیت گیا تھا۔ میرے کردار جس الائو کے گرد بیٹھے ہیں اگرچہ اس کی بھی آگ سرد پڑ چکی ہے مگر ان کے لہو میں ایک مدھم چراغ روشن ہے ۔ اُمید کا یہ چراغ ان کے اندر زندگی کی حرارت پیدا کرتا ہے ۔ وہ افق پر نظریں گڑائے صبح کے انتظار میں رات کاٹ رہے ہیں وہ شرط جیتیں گے یا نہیں یہ انھیں بھی نہیں معلوم مگر وہ اتنا جانتے ہیں کہ شرط کے لیے زندہ رہنا ضروری ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب ان کی نجات کی خاطر مصلوب ہونے کے لیے کوئی مسیح نہیں آئے گا ۔ نہ صداقت کے نام پر کوئی زہر کا پیالہ پئے گا ۔ہر شخص کو اپنی صلیب خود اٹھانی ہے اور اپنے حصے کا زہر خود ہی پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو کی موت پر کرشن چندر نے کہا تھا۔وہ اردو کا واحد شنکر ہے جس نے زندگی کے زہر کو گھول کر پی لیا ہے ۔ آج سے پچاس برس پہلے ممکن ہے کرشن چندر نے ایسا محسوس کیا ہو کہ تنہا منٹو زندگی کے زہر کو گھول کر پی سکتا ہے ۔ہمارے اردگرد چپے چپے پر اس قدر زہر پھیلاہے کہ منٹو کیا شنکر بھگوان بھی زمین پر آجائیں تو اس زہر کو نہیں پی سکتے ۔ لہٰذا معاشرے کا یہ زہر تھوڑا تھوڑا ہم سب کو پینا ہوگا۔ یہ ہمارے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ۔ ایک قلم کار کی حیثیت سے میرے سامنے بھی یہ چیلنج موجود ہے لہذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں افسانے میں کیا لکھتا ہوں دراصل اپنے حصے کا زہر پی کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتا ہوں، علی ھذا القیاس۔
———————————————————————-