Shafeeq Fatimia Shera ki Shairi by Qamar JahaN

Articles

شفیق فاطمہ شعریٰ ؔکے کلام میں پیکر تراشی

قمر جہاں

تھم جاتے ہیں پل بھر کو نوا گر سفر نصیب
یہ کس ساگر کی پروردہ بدلی ہوگی
کتنی جاں لیوا مسافتیں طے کر کے اسے
اس وادی کے دامن میں ملا
ہنگام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برسنے کا (شعریٰؔ)
دشت شاعری کی خارزار راہوں کی جان لیوا مسافتیں طے کرکے اپنا انفرادی اور امتیازی تشخّص قائم کرنے والا یہ خوبصورت لہجہ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کا ہے ۔ جس نے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں اپنی طویل نظم ’’ فصیلِ اورنگ آباد ‘‘ کے ذریعے باذوق قارئین کو نہ صرف چونکایا بلکہ اردو شاعری کی تاریخ کو ایک نیا اوراہم موڑ دینے کا عزمِ مصمّم کیا ۔
اردو شاعری کے ابتدائی دور سے ہی خواتین کی شاعری کے نقوش ملتے ہیں لیکن یہ نقوش اتنے مدھم اور دھندلے ہیں کہ وہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں کوئی نمایاں اور دیر پا اثر نہ چھوڑ کر تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتے ہیں تفنّنِ طبع اور ذہنی تسکین کے لیے کی جارہی اس شاعری میں پر اعتمادی اور انفرادیت نہیں بلکہ تقلید کا رویّہ صاف نظر آتا ہے لہٰذا اس میں عورت کی انفرادیت اور اس کا امتیازی لہجہ تلاش کرنا عبث ہے۔
شاعری سے قطعِ نظر اگر فکشن پر نظر ڈالی جائے توترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر رشید جہاں ؔ کے پر اعتماد اور باغی لہجہ نے مردوں کی بالادستی والے اس معاشرے میں عورت کے وجود اور اس کے حقوق کا احساس دلایا اس کے ساتھ ہی عصمت چغتائیؔکا بے باک لہجہ بھی ادب میں اپنے قدم جمارہا تھا لیکن شاعری کی تاریخ ہنوز کسی وجودِ زن کے قرطاس و قلم سے محروم تھی۔ محمود ہاشمی کے الفاظ میں ’’ اردو میں اور خصوصاً جدید نظم میں کسی نسوانی آواز کا عدم وجود بے حد کھلتا تھا ۔‘‘کہ انھیں حالات میں شفیق ؔفاطمہ آسمانِ شاعری پر شعریٰؔ بن کر نمودار ہوئیں ،جس کی ضیا پاش کرنوں نے ماقبل کی تاریخ میں ٹمٹماتے ہوئے نسوانی لہجے میں خود کو شعریٰ( آسمان کا روشن ترین ستارہ (Siriusثابت کیا۔ ان کی شاعری کے تعلق سے یہ دعویٰ غلط نہیں کہ انھوں نے نہ صرف شاعرات کی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ خوبصورت، دلکش اور مسحور کن لب و لہجہ کی حامل یہ پہلی شاعرہ تھی جس کی شاعری کے کینوس پر بکھرے ہوئے قوس قزح کے متعدد رنگوں نے مردوں کے ہمراہ اپنا نام درج کرایا۔ ذہنِ جدید کے شمارہ نمبر ۲۸؍ میںجمال اویسیؔ لکھتے ہیں ’’میرے سامنے اردو شاعری کی پوری تاریخ ہے اور میں اقبالؔ کے بعدراشدؔ، میراجیؔ، اخترالایمان ، فیضؔ، منیر نیازیؔ،ضیا جالندھریؔ، مجید امجدؔ ، منیب الرحمٰن اور شفیق فاطمہ شعریٰؔ وغیرہ کو اہم نظم نگار شاعر تسلیم کرتا ہوں۔‘‘
ادب میں زبان کا براہِ راست نہیں بلکہ اس کا تخلیقی استعمال کیا جاتا ہے اورتخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے: تشبیہہ،پیکر ، استعارہ اور علامت۔نثر ہو یا شعر ،اگر ان میں زبان کا تخلیقی استعمال نہ کیا جائے تو وہ ادب نہیں بلکہ صحافت کے دائرے میں آجاتا ہے۔ زبان کے اس تخلیقی استعمال کے متعلق شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں :
تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں ۔ اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیر تخلیقی ہو جائے گی ۔ یہ اصول اس قدر بین اور شواہد و براہین کے ذریعہ اس قدر مستند ہے کہ اس سے اختلاف شاید ممکن نہ ہو۔(شعر، غیر شعر اور نثر، ص، ۱۳۹)
چونکہ گفتگو’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کے کلام میں پیکر تراشی‘‘ سے ہے اس لیے تشبیہہ، استعارہ اور علامت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بحث براہِ راست پیکرتراشی یا امیجری کے حوالے سے کی جا رہی ہے ۔ پیکر تراشی یا امیجری کا سیدھا سادہ مفہوم لفظوں کے ذریعے تصویر کشی ہے۔امیجری، پیکر تراشی یا محاکات کا عمل بنیادی طور پر اشاراتی یا علاماتی زبان کا حصہ ہوا کرتا ہے ۔ امیج کے لفظی معنی یوں تو پیکر یا تصویر کے ہوتے ہیں لیکن جب یہ لفظ شاعری کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے اس وقت محض پیکر یا تصویر کے معنی کے بجائے یہ لفظ ایک اصطلاح بن جاتا ہے۔ امیجری کی تعریف کرتے ہوئے مشہور نقاد پروفیسرابوالکلام قاسمی نےC. Day Lewis کی معرکۃ الآرا کتاب The Poetic Imageکے حوالے سے لکھا ہے کہ:
لفظی تصویریں بنانا امیج سازی کا بنیادی مقصد ہے اور یہ کہ اس وقت پوری نظم ایک مکمل امیج بن جاتی ہے جب اس کے مختلف حصوں میں متنوع پیکروں کی تخلیق ایک ساتھ مل کر مبسوط اور مرکب تشکیل کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔(شاعری کی تنقید، ص، ۱۱۸)
گذشتہ سطروں میں محاکات کو پیکر تراشی اور امیجری کے ہم معنی لفظ کے مفہوم کے طور پر استعمال کیا گیاہے ۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ پیکر تراشی کے ساتھ ساتھ محاکات پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ شعر کے لوازم میں محاکات کا ذکر سب سے پہلے شبلیؔ نے کیاہے، انھوںنے محاکات کو شعر کا ایک لازمی عنصر قرار دیا ہے ۔ وہ محاکات کی تعریف یوں کرتے ہیں :’’محاکات کے معنی کسی چیز یاکسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویرآنکھوں میں پھر جائے۔‘‘( شعرالعجم (جلد چہارم) ص، ۸)پیکر کی تعریف کرتے ہوئے شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں،’’ہر وہ لفظ جو حواسِ خمسہ میں کسی ایک( یا ایک سے زیادہ ) کو متوجہ اور متحرک کرے پیکر ہے ۔ یعنی حواس کے اس تجربے کی وساطت سے ہمارے متخیلہ کو متحرک کرنے والے الفاظ پیکر کہلاتے ہیں ۔‘‘(’’علامت کی پہچان‘‘ شعر، غیر شعر اور نثر، ص، ۱۳۹)صاحبِ آئینۂ بلاغت مرزا محمد عسکری محاکات کی تعریف کے ضمن میں لکھتے ہیں ’’کسی منظر کا مرقع الفاظ کے ذریعہ سے کھینچنا جس کی تصویر کوئی مصور نہ کھینچ سکے۔‘‘(آئینۂ بلاغت، ص، ۳۶)
تقریباً سوا سو سال پر محیط اردو تنقید کی تاریخ میں اہم مقام کے حامل ان نظریہ ساز ناقدین کی آرا کو مد نظر رکھتے ہوئے پیکر تراشی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مادی اور غیر مادی مناظر کی تفریق سے قطع نظر کسی منظر، شے یا حالت کی ایسی تصویر کشی کی جائے کہ قاری یا سامع کے حواسِ خمسہ میں سے کوئی حس متحرک ہو جائے۔ واضح ہو کہ مصوری اور پیکر تراشی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ فنِ مصوری میں کسی منظر کی ہو بہو تصویر کھینچنا فن کی پختگی اور فنکار کی مہارت کا ثبوت ہے جب کہ پیکر تراشی میں شاعراپنی مرضی کے مطابق اصل نقش میں حذف و اضافہ کر لیتا ہے۔اسی لیے شبلیؔ محاکات کو شاعرانہ مصوری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ لیکن وہ تصویر کشی یا مصوری اور محاکات میں فرق کرتے ہیں ۔ شبلیؔ کے مطابق مصوری میں ہو بہو تصویر کھینچی جاتی ہے جب کہ محاکات کے ذریعے شاعر ہو بہو تصویر نہیں کھینچتا بلکہ اصل نقش میں کچھ اضافے اور کچھ کمی کے ذریعے اپنے خیال کی تر جمانی کرنے والی تصویر کھینچتا ہے۔ اس طرح کی تصویر کشی کو نئی تنقید میں ’’پیکر تراشی‘‘یا ’’ امیجری‘‘ کہا جاتا ہے۔
پیکر تراشی کا سب سے اہم رول مجرد تصورات کو مجسم اور ٹھوس پیکر میں تبدیل کرنا ہے۔ اس طرح پیکر تراشی کے ذریعے شاعر ایسی فضا خلق کرتا ہے کہ ہم مناظر کو دیکھنے، آوازوں کو سننے اور بعض کیفیات کو لامسہ، ذائقہ اور شامّہ کی مدد سے محسوس کرنے لگتے ہیں ۔
شعریٰؔ کے شعری امتیازات ،ان تمام فنی تدابیر اور شاعرانہ ہنر مندی میں مضمر ہیں جن کو انھوں نے اپنے شعری اظہار اور لسانی طریقِ کار کا حصہ بنایا ہے ۔ کلامِ شعریٰؔ میں ان عناصر کی تلاش و جستجو کرنے پر،جن سے ان کا کلام دو آتشہ ہوجاتا ہے ،پتہ چلتا ہے کہ ان کے کلام میں جہاں فکر کی گہرائی وگیرائی اور دیگر فنی محاسن عروج پر ہیں ،وہیںاحساس کو مہمیز کرنے والے پیکروں کی فراوانی اور مجرد احساسات وکیفیات کو لفظوں کے ذریعے رونما ہوتے ہوئے دکھانے کے سارے وسائل موجود ہیں ۔ موضوع کی ڈرامائی پیش کش ،متفرق اجزا کے ترک و اختیار اور الفاظ کے خلاقانہ استعمال سے وہ ایسا مرقع تیار کرتی ہیں کہ جب نظم کے درمیان کوئی منظر نامہ آجاتا ہے تو ہم خود کو قاری کے بجائے ناظر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
شعریٰؔ نے شعری تصویر بنانے اور تاثر خلق کرنے کے لیے جس انداز کے پیکروں کی تخلیق کی ہے ان میں بصری پیکروں کی فراوانی ہے ۔ان کی نظموں کے ان گنت بند یا مصرعے مناظر کا بیان کم کرتے ہیں اور انھیں رو بہ عمل ہوتے ہوئے زیادہ دکھاتے ہیں۔ ان مناظر سے کبھی خوش گوار تاثر ابھرتا ہے ،کبھی حیرت و استعجاب کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور کبھی کھوئے ہوؤں پرافسردگی کا احساس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر شعریٰؔ کی شاعری میں پیکر تراشی کے بہت عمدہ نمونے ملتے ہیں ۔ نظم’ راگ یُگ کی نظمیں ‘سے یہ مصرعے ملاحظہ ہوں:
حاشیہ دیوار کی صورت
ڈھیر سنہرا
پیلے سوکھے پتوں کا
چر مر کرتا ضرر سے عاری
خاک میں رلتی چر مر اس کی سنتا ہوا
کھڑکی سے چپکا کھڑا وہ بے پروا
ہر آہٹ کے ہر آواز کے ڈھانچے میں
رینگ رہا بیری بھیدی———-(سلسۂ مکالمات، ص، ۱۰۵)
اس بند میں جس نوع کا شعری پیکر تراشا گیا ہے اس کا تعلق قاری کی قوّتِ بصارت اور قوّتِ سماعت کو مہمیز کرتا ہے۔ حاشیہ دیوار، پیلے سوکھے پتوں کا سنہرا ڈھیر،چر مر، ضرر سے عاری،کھڑکی سے چپکا،بے پروا ،بیری ، بھیدی ان الفاظ کے ذریعے استعارے اور پیکر کا پورا نظام مرتب ہو گیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ ایک خاموش اور پر اسرار تصویر کو مختلف زاویوں سے دکھانا چاہتی ہے اور وہ یقیناً اپنے مقصد میں بحسن و خوبی کامیاب ہوئی ہے۔
اردو شاعری میں زیادہ تر پیکری اظہار بصری اور صوتی رہا ہے اگرچہ نئے شعرا کے یہاں لمسی اور ذوقی پیکر وں کا استعمال ملتا ہے۔نئے شعرا میں سے راشد ؔ ، میراجیؔاور فیض میں راشدؔ کے یہاں استعارہ زیادہ ہے پیکر کم ، جب کہ فیض نے پیکر کا استعمال زیادہ کیا ہے۔لیکن فیض ؔ کے پیکر داخلی منظر کو زیادہ ابھا رتے ہیں اس لیے زیادہ تر بصری ہیں میراجیؔ واحد شاعر ہیں جو پانچوں حواس پر قادر ہیں ۔ بقول فاروقیؔ’’نئی شاعری جو میراجیؔ کی طرف بار بار جھکتی ہے اور ان کے یہاں سے اپنا جواز ڈھونڈھتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ ‘‘(،شعر، غیر شعر اور نثر، ص، ۹۰)
شاعرانہ امیجری کے ماہرین کا عام خیال ہے کہ ایسے حسّی پیکر تراش لینا جو کسی مخصوص قوّتِ حاسہ کو بر انگیخت کر لیں ہر چند کہ اہم اور قابلِ تعریف شعری محاسن میں سے ایک ہے ،لیکن پیکر جس حد تک اور جتنے زیادہ حواس کو متحرک کرے گا اتنا ہی اس شاعری کا معیار بلند ہوگا ۔ایک ساتھ مختلف حواسِ انسانی کو بیدار کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہوتا تاہم اس ضمن میں بھی شعریٰؔ کا امتیاز غیر معمولی ہے۔ان کی نظموں میں متعدد مقامات پر یکساںاور متوازی طور پر ایک سے زیادہ حواس کو متحرک کرنے والے مخلوط پیکروں کی فراوانی ہے ۔ایک سے زائد حواس کی پیکر تراشی میں قاری اس طرح محو ہوجاتا ہے کہ اس کا پورا وجود شاعر کی بنائی ہوئی فضا،آواز،خوشبو،رنگ اور منظر میں شریک ہو جاتا ہے۔نظم ’ بہتا پانی‘ میں لکھتی ہیں :
اچانک کہیں اک درندے کا بین
وحشت آلود بد مزہ بو املتاس کی
تیز جھونکا سا بھرتا اڑان
جھاڑ جھنکاڑ کے درمیاں
پر بچاتا سمٹتا گذرتا ہوا ———–(سلسلۂ مکالمات، ص، ۷۳)
اس اقتباس میںمتحرک بصری پیکر کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔پہلے ہی مصرعے میںمستعمل علامت’ درندے کا بین ‘استماعی تجربہ ہے لیکن درندے کا لفظ بصری حسّیت کو بھی مہمیز کرتا ہے۔ بدمزہ بو بیک وقت قوت ذائقہ ، شامّہ اور باصرہ جب کہ تیز جھونکا سا بھرتا اڑان احساسِ بصارت جیسے حواسِ انسانی کو متحرک کرتا ہے۔ غیر معمولی طور پرمتحرک یہ منظر اپنے مختلف حوالوں سے قاری کے ایک سے زائد حواس ( قوّت ِ باصرہ،سامعہ،شامہ، ذائقہ) کو بیدار کرتا ہے۔الفاط کے جدلیاتی استعمال سے شعریٰؔ نے تصویر کو ایسا ہشت پہل بنا دیا ہے کہ دیکھنے کا ہر زاویہ منظر کا کوئی نیا پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے۔استعارے ،علامت اور پیکر کا یہ دلکش امتزاج شعریٰؔ کی انفرادیت ہے۔اس قسم کے پیکر شعریٰؔ کے یہاں بکثرت ملتے ہیں:
گپھا گپھا یگوں کے دائرے
گپھا گپھا یگوں کے دائرے میں
بن گھنے کہ جن میں جھٹپٹا
تپسویوں کے ساتھ ساتھ تھا سدا مقیم
جل رہے ہیں
جل رہا ہے فجر کا الاؤ
سگندھ اس کی اتنی گھائل اتنی تیز ہے
کہ سیلی سیلی یہ سگندھ ہے لہو لہو۔ ———–(نظم:فجر کا الاؤ، سلسلۂ مکالمات، ص، ۷۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہیرے کی کنی سی کہ ہے طینت میں سرشتہ
کبھی آواز کی لو بن گئی
آفاق بہ آفاق پلٹتی ہوئی اوراق
کبھی چھنتی رہی آنکھوں سے پیہم صفت ِ اشک
تو بدلتا ہوا رستہ
تہہ دریا سے دہکتی ہوئی بالو میں
نکلتا ہوا رستہ
جسے دیکھا
وہ مرا وہم نہیں میرا یقیں تھا—–(نظم:نرمل میٹھے پا نی کی تلاش میں، سلسلۂ مکالمات،ص،۸۳ )
اردو شاعری کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میںمناظر فطرت کی ترجمانی یا منظر نگاری ،مغربی شاعری سے اثر پذیری کا نتیجہ ہے ۔ یہ خیال 1857 کے بعد نشوونما پانے والی شاعری کی حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے لیکن دکنی اردو شاعری کے متعلق یہ رائے درست معلوم نہیںہوتی ۔ فطرت پرستی اور مناظر قدرت کی پیش کش کے آغاز کا سہرا غالباً محمد قلی قطب شاہؔ کے سر ہے مگر اس کی منظر نگاری بالکل ضمنی ہے ۔ قطب شاہی دور کے شعرا میں غواصیؔ نے سب سے پہلے منظر نگاری کی طرف توجہ دی۔منظر نگاری کے تحت فطرت کی کیف سامانیاں اور رنگینیاں بیان کی جاتی ہیں۔منظر نگاری کے دلکش نمونے مثنویوں اور خاص کر ’ سحر البیان ‘ میں ملتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مرثیہ میں بھی منظر نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے گئے ہیں ۔ کربلا کے بے آب وگیاہ میدان میں پیڑ پودے اور جنگل وغیرہ کا ذکر بے معنی ہے لیکن چہرے یا تمہید کے بندوں میں شعرانے خوب خوب کمالات دکھائے ہیں ۔ جنگ کے وقت منظر کا بیان تو سورج کی تمازت، ریت کی تپش اور لو، دھوپ کے تھپیڑوں تک محدود ہے لیکن اس محدود منظر میں بھی خاص کر انیسؔ نے ایسی گل کاریاں کی ہیں کہ موسم بہار کے مناظر بھی پھیکے پڑ جائیں ۔
شعریٰؔ کے کلام میں منظر نگاری کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں ۔شعریٰؔ کے منظر نگاری کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے بیانات کی بنیاد تخیل پر نہیں بلکہ مشاہدہ پر رکھی ہے اور ایک مصور کی طرح قدرتی مناظر کی بڑی خوبصورت تصویر کشی کی ہے ۔ نظم’ فصیل اورنگ آباد ‘ میں فصیل کے دوسری طرف کھیتوں کی منظر کشی اس طرح کرتی ہیں :
ایک سمت کھیتوں کی خوشگوار ہریالی
فرط سر خوشی سے ہے پتی پتی متوالی
ننھی ننھی چڑیوں کے دل یہاں ابلتے ہیں
کھیت کی خموشی سے زمزمے ابلتے ہیں
کاشتکار کے دل کے سب دبے چھپے ارماں
ان حسین خوشوں کی گودیوں میں پلتے ہیں
اک ہوا کے جھونکے سے کھیت ہوگئے ترچھے
جھک کے پھر وہ اٹھتے ہیں گر کے پھر سنبھلتے ہیں

منقولہ اشعار میں اور بطورِ خاص مؤخر الذکر شعر میں لہلہاتے کھیت کی جس قدر جاندار اور حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے اس سے خوبصورت تصویر کشی ممکن نظر نہیں آتی ۔ مناظر فطرت کی پیکر تراشی میں شعریٰؔ نے تکلف، مبالغے اور رعایت لفظی و معنوی خاص کر صنعت حسن تعلیل کانہایت فن کا رانہ استعمال کیا ہے ۔حسن تعلیل کا اتنا خوبصورت استعمال میر انیس ؔ کی یاد تازہ کردیتا ہے کہ میر انیس ؔنے بھی قدرتی مناظر کی تصویر کشی میں اس صنعت کا خوبصورت استعمال کیا ہے ۔شعریٰؔ کے یہاں مناظر فطرت کے بیان میں اس صنعت کا استعمال ملاحظہ کیجیے:

شوخ و شنگ کرنیں بھی جھیل میں نہانے آئیں
بے قرار موجوں پر ناچ اٹھے ستارے سے
اف کنول کے پھولوں کا یہ تبسم شیریں
کانپ اٹھے ہیں شرما کر موج کے اشارے سے

اسی طرح ’خوابوں کی انجمن ‘ میں بھی منظر نگاری کے دلکش نمونے نظر آتے ہیں ۔خاص کر اس کے پہلے بند میں چاندنی رات کی اتنی مکمل اور جاندار عکاسی کی گئی ہے کہ شاعرہ کی چشمِ خامہ کے بالمقابل حقیقی کیمرہ ناکام نظر آتا ہے ۔ بارہ مصرعوں پر مشتمل یہ بند پڑھتے ہوئے ہم کسی اور ہی خوبصورت لیکن پرسکون ماحول میں پہنچ جاتے ہیں اس بند میں بھی حسن تعلیل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں۔ منظر یہ ہے کہ رات کی تاریکی اپنا دامن وسیع کرتی جارہی ہے اور ستارے تنہا اس تیرگی سے دست و گریباں ہیں :
تیرگی کے نرغے میں کانپ کانپ اٹھے تارے
کررہا ہے روشن تر ان کو خوف پسپائی
سایے میں درختوں کے اپنے جال بننے کو
ٹہنیوں سے چھن چھن کر روشنی اتر آئی
کررہے ہیں سرگوشی جھنڈ کچھ سندولی کے
سوچتے ہیں بڑھ جائیں جا ملیں مناروں سے

اکثر مقامات پرایسی انوکھی تشبیہا ت و استعارات کی زرتابی کے ساتھ منظر کشی کرتی ہیں کہ ان کے تخیل کی داد دینی پڑتی ہے ۔ اردو شاعری کے منظر نامے پر آغاز سے ہی مناظرِ فطرت جیسے سورج،چاند ، ستارے ، پہاڑ ، دریا ، درخت، پھول، ہوا موسم ، بادل ،اور بارش وغیرہ کی چھاپ بہت گہری ہے ۔ لیکن قدیم شعرا کے یہاں زیادہ تر فطرت بحیثیت ایک معروض کے سامنے آتی ہے۔ جہاں شاعر کا مقصد مناظرِ فطرت کی معروضی پیش کش کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ہے ۔ مناظرِ فطرت کی پیش کش کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ فطرت کے رسمیاتی یا عمومی اظہار سے قطعِ نظر فطرت کو اپنے موضوع کے پسِ منظر کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ جب کہ نظم کا اصل موضوع کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسی نظمیں فطرت کا لینڈ اسکیپ معلوم ہوتی ہیں لیکن پوری نظم میں اصل موضوع اسی طرح متاثر کن ہوتا ہے جیسے کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویر میں فطری مناظر تصویرِ مقصود کے حسن میں اضافہ کرنے کا باعث ہوتے ہیں،اور شاعر کا کمال اس بات میں مضمرہوتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات کو ابھارنے میں فطرت کا کتنا کامیاب اور خوبصورت استعمال کیا ہے۔ فطرت کو شعری وسیلے کے طور پر استعمال کرنے والے شعرا میںنمایاں ترین نام اقبال ؔ کاہے ۔ اقبالؔ کی متعدد نظموں کے آغازمیں مناظرِ فطرت کی سادہ پیکر تراشی کا تاثر ابھرتا ہے، لیکن انجام تک پہنچتے پہنچتے فطرت کا رشتہ کسی گہری اور فلسفیانہ فکر سے استوار ہو جاتا ہے ، اور وہ زندگی یا قوم و فرد کے افکار کا علامیہ بن جاتی ہے۔ اقبال کے علاوہ جوشؔ اور اختر الایمانؔ وغیرہ نے بھی فطرت کو شعری وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان شعرا کے یہاں فطرت کا معروضی اور غیر معروضی دونوں تصور موجود ہے۔
شعریٰؔ نے فطرت کو شعری وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔شعریٰؔ کے یہاں ان کی بنیادی فکر (اسلامی فکر )اور آگہی تک رسائی حاصل کرنے میں مناظرِ فطرت شاعرہ کے ہم سفر و رہنما بن کر سامنے آتے ہیں ۔ا س طرح فطرت شعریٰؔ جیسی ’’اہلِ نظر‘‘شاعرہ کے لیے انکشافِ ذات ،عرفانِ الٰہی اور’ ثبوتِ حق ‘کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ ان کی ایک نظم’ اسیر‘سے ایک بند ملاحظہ ہو:

یہ پانی جس نے دی پھولوں کو خوشبو دوب کو رنگت
حلاوت گھول دی آزاد چڑیوں کے ترنم میں
دہکتے زرد ٹیلوں کے دلوں کو خنکیاں بخشیں
ڈھلا آخر یہ کیسے میرے آزردہ تبسم میں

شعریٰؔ کی یہ نظم مکمل طور پر منظر کشی کے سہارے ہی آگے بڑھتی ہے اور پوری نظم میں مناظر کے ذریعے ایک سوگوار اور دلکش فضا تخلیق کی گئی ہے ۔ شعریٰؔ کی اس نظم میں منظر نگاری کے اس فنکارانہ استعمال کا ذکر کرتے ہوئے گوپی چند نارنگؔ لکھتے ہیں ’’ ایسی نظموں کو پڑھ کر اس امر کی توثیق ہوجاتی ہے کہ جس طرح وقت کا تحرک واقعات کا progression یا مکالمہ سے واردات کا کھلنا،بیانیہ عنصر ہو سکتے ہیں اسی طرح منظر کاری بھی بیانیہ سے باہر نہیں۔‘‘(’’جدید نظم کی شعریات اور بیانیہ ‘‘اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد، ص، ۳۹)
مذکورہ نظموں کے علاوہ نہ صرف یہ کہ شجرِ تمثال، خلدآباد کی سرزمین، فصیلِ اورنگ آباد، ایلورہ، شفیع الامم اور یاد نگر وغیرہ نظمیں بھی پیکر تراشی کے نمونوں سے آراستہ ہیں بلکہ ان کا پورا کلیات ہی ایک ایسا خوبصورت البم ہے جس میں جابجا متحرک اور غیر متحرک تصویریں قاری کے حواس کو بیدار کرنے کے ساتھ ایک ایسے انجانے جہان کی سیر کراتی ہیں کہ قاری ایک مسحور کن کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ۔ باذوق حضرات کلیاتِ شعریٰؔ کی ورق گردانی کرسکتے ہیں ۔
کلامِ شعریٰؔ میں موجود فنی اور فکری محاسن کے باعث ہی فضیل جعفریؔ کا خیال ہے کہ جو مقام انگریزی فکشن میں جین آسٹنؔ کا ہے، اردو نظم میں وہی مقام شفیق فاطمہ شعریٰؔ کا ہے۔جدید نظم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فضیل جعفری کہتے ہیں، ’’وہ [ شعریٰؔ] تمام جدید شاعروں سے یکسر مختلف ہیں ۔ آخر میں یہ بھی کہہ دوں کہ پاکستانی شاعرات جن کی نظموں کا ڈنکا چار دانگ عالم میں پیٹا جارہا ہے ، تاحال شعریٰؔ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں ۔ ‘‘( ’’ جدید نظم کا موجودہ منظر نامہ‘‘اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد، ص، ۱۷)۔
کتابیات
ابوالکلام قاسمی ، شاعری کی تنقید، نئی دہلی؛ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، ۲۰۱۱ء۔
اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد، تیسری اشاعت، دہلی؛اردو اکادمی، ۲۰۱۳ء۔
شفیق فاطمہ شعریٰؔ ، سلسلۂ مکالمات، دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء۔
شمس الرحمٰن فاروقی، شعر، غیر شعر اور نثر، تیسری اشاعت، نئی دہلی؛ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، ۲۰۰۵ء۔
علامہ شبلی نعمانی، شعرالعجم حصہ چہارم، اعظم گڑھ، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۱۴ء۔
مرزا محمد عسکری، آئینۂ بلاغت، تیسری اشاعت، لکھنؤ، اتر پردیش اردو اکادمی، ۲۰۱۵ء۔


قمر جہاں جواں سال مصنفہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر ہیں ۔