Shafeeq Fatima Shera ka Sheri Canvas

Articles

شفیق فاطمہ شعریٰ کا شعری کینوس اور نسائی حسیت

قمر جہاں

بیاباں سبزۂ نوخیز سے آباد ہوتے ہیں
سکھی تم بھی جو اپنا دل بسا لیتیں تو اچھا تھا
حیا ہے خوف ہے پندار ہے ضد ہے یہ کیا شے ہے
تم اس خود ساختہ زنداں کو ڈھادیتیں تو اچھا تھا
ہمیشہ التجائیں رائیگاں جاتی رہیں میری
کبھی میری خوشی کی بھی دعا لیتیں تو کیا ہوتا
(’ صدا بصحرا ‘ازشفیق فاطمہ شعریٰؔ)
نسائی جذبات سے لرزاں یہ دل نشین آوازبیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ابھرنے والی اس شاعرہ کی آواز تھی جس کے پیش نظر اردوشاعری میں نسائی حسیت کی پیش کش کا کوئی بہت کامیاب نمونہ نہیں تھا۔باوجود اس کے اس نے خالص نسائی جذبات کو الفاظ کا شفاف پیرہن عطا کیا، وہ بھی اس کامیابی کے ساتھ کہ یہ نظمیں اردو شعروادب کی تاریخ میں خوشگوار اور تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئیں اور شائقین ادب کے قلوب و اذہان کے لیے باعث مسرت و بصیرت۔ یہ منفرد آواز اس وقت گونجی جب بقول محمود ہاشمی ’’اردو میں خصوصاً جدید نظم میں کسی نسوانی آواز کا عدم وجود بے حد کھلتا تھا۔‘‘(۱)
شعریٰ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز منظوم تراجم سے کیا۔ انھوں نے اقبال کی پیام مشرق، ارمغان حجاز اور جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ (ادھورا) کیا۔ ساتھ ہی اسپین کے نوبل انعام یافتہ غنائی شاعر JAUN RAMON JIMENEZ کی نظموں کا ترجمہ کیا تھاجو ان کے پہلے مجموعۂ کلام ـ ’گلۂ صفورہ‘ میں شامل ہے۔یہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جس میں ان کی شادی (۱۹۶۵) سے قبل کی نظمیں شامل ہیںلیکن اس کی اشاعت مکتبہ جامعہ سے ۱۹۹۰؍ میں ممکن ہوسکی ۔ دوسرا مجموعۂ کلام ’آفاق نوا‘ ہے جس میں شادی کے بعد کا کلام شامل ہے لیکن اگر اشاعتی ترتیب سے دیکھا جائے تو یہ مجموعہ ’گلۂ صفورہ‘ سے پہلے یعنی ۱۹۸۷ میں شائع ہواجب کہ ان کا کلیات ’سلسلۂ مکالمات‘ کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی سے ۲۰۰۶ میں شائع ہوا، جس میں مذکورہ دونوں مجموعوں کے علاوہ ’کرن کرن یادداشت ‘اور ’سلسلۂ مکالمات‘نامی مجموعے بھی شامل ہیں۔ ۱۳ ؍ اگست ۲۰۱۲؍کو آسمان ادب کا یہ روشن ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
شعریٰ کی نظمیں گجر، صبا، آئینہ ، سوغات، شب خون، شعروحکمت، شاہراہ اور بہت بعد میںپاکستان سے شائع ہونے والے رسالہ بادبان اور دیگر ادبی رسالوں کی زینت بنتی رہیں۔ ان کی نظموں نے اپنے آغاز میں ہی باذوق قارئین کو چونکایاتھا۔ حمید نسیم نے انھیں عہد حاضر کے پانچ سب سے بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے اورگلۂ صفورہ‘ کے گرد پوش پرقاضی سلیم ان کا تعارف کراتے ہوئے ’ ’شعریٰ اردو شاعری کی پہلی نسائی آوازہے‘‘ جیسا اہم بیان درج کیا ہے۔
شعریٰ کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ ابتدائی عہد کے کلام میں نو بلوغیت کے عہد کے نسوانی جذبات کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے وہیں آگے چل کر ان کی شاعری میں احساسات کی نزاکت اور غنائیت کے ساتھ ساتھ فکر کی گہرائی و گیرائی اور متانت ودانش وری کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ ان کی ہم عصر شاعرات میں سے کسی کے یہاں نظر نہیں آتا۔ خواتین کے سماجی مسائل پر اپنے منفرد انداز میں قلم اٹھانے والی اس شاعرہ کی گرفت میں انفس و آفاق بھی ہیں، بحروبر اور دشت و شجر بھی اور آج کا وہ صنعتی اور مادی عہد بھی جس میں تمام جمالیاتی اور اخلاقی قدریں اپنی ناقدری پر ماتم کناں ہیں۔ان کے یہاں مستعمل علامتوں ، تشبیہوں اور استعاروں میں قرآنی آیات، بزرگوں کے اقوال و ملفوظات کا بکثرت استعمال نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کی جڑیں اپنے تہذیبی ورثے میں برگد کی پارنبیوں کی طرح پیوست ہیں۔ موضوعات کے تنوع کے ساتھ ہی فنی باریکیوں پر بھی ان کی نظر گہری ہے۔ شعریٰ کی شاعری میں نسائی حسیت ان کے ہشت پہلو کلام کا ایک مختصر سا زاویہ ہے۔کلامِ شعریٰ میں نسائی حسیت کی نشان دہی سے پہلے بہتر ہوگاکہ نسائی حسیت کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہر ذی روح میں خواہ وہ انسان ہو یا جانورفطری طور پر قوت حس ودیعت کی گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسان قوّت گویائی کا سہارا لے کر اپنی حسیت یا اپنے احساسات کا اظہار کر سکتا ہے جب کہ جانور اس قوت سے محروم ہے ۔ انسان کی یہ حسّی صلاحیت عمر، طبقہ ،مزاج اور جنس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی سے کوئی رشتہ اور لگاؤ بھی حسی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے ،یہ رشتہ فرد سے بھی ہو سکتا ہے اور سماج یا سیاست سے بھی ۔ حسیت کو بیدار کرنے میں شخصیت کے مخصوص مزاج کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ اسی طرح مختلف طبقات یا جماعت کے لوگوں کے احساسات و جذبات اور سوچنے کے انداز میں فرق ہوتا ہے علاوہ ازیں جنسیت یعنی Sex بھی حسیت کو متاثر کرتا ہے۔
عورتوں میں چند مخصوص خوبیاں اور صفات ایسی ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے ان کی حسیت میں کچھ ایسی انفرادیت آجاتی ہے جو مردوں میں نہیں پائی جاتی ۔جیسے جذباتیت، ایثار و قربانی ،ممتا ، وفا ، پناہ اور رقیق القلبی وغیرہ کا جذبہ جو مردوں کے بالمقابل عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ عورتوں کی ان حسیات کو جو عرف عام میں عورتوں سے مخصوص ہیں ،نسائی حسیت یا عورت پن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ صفات خالص فطری نہیں بلکہ اس میں سماج اور معاشرے کا بہت بڑا رول ہوتا ہے جو مشرقی اورمغربی عورت کے تقابل سے بالکل صاف اورواضح ہو جاتا ہے۔نسائی حسّیت کے سلسلے میں خالدہ حسینؔ لکھتی ہیں:
نسائی حسیت صرف یہی نہیں کہ مؤنث واحد متکلم کا صیغہ اپنا لیا جائے۔ گھر آنگن اور سنگھار اور برہا کی بات کی جائے۔ اوڑھنی کے رنگوں اور چوڑیوں کی چھنک کو شاعری میں ایک معتبر مقام دلوایا جائے۔ نسائی حسیت سے مراد ہے کہ عورت جس طرح زندگی کو دیکھتی اور بسر کرتی ہے وہ مرد سے مختلف ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہر انسان وقت کو اپنے حوالے سے پہچانتا ہے۔یعنی اس کا وقت کا تصور ذاتی اور داخلی نوعیت رکھتا ہے۔ اس طرح عورت کا وقت کے ساتھ تعلق اور زمانی احساس مرد سے مختلف ہے کیوں کہ اس کے شب و روز اور معاملات و مسائل کی نوعیت منفرد ہے ۔ وہ اپنی سائیکی (جو مرہون منت ہے اس کی جسمانیات کی )کے حوالے سے فطرت کے تمام مظاہر کو ، جن میں اس کے پانچوں حواس سے اخذ کردہ تجربہ یعنی رنگ ، خوشبو ، آواز ، لمس اور ذائقہ شامل ہیں اپنے ا نداز سے محسوس کرتی ہے اس میں صدیوں کے روایتی تلازمات کا بھی دخل ہے اور حال کی تبدیلیوں اور مستقبل کی امیدوں کا تعلق بھی ۔وہ جب موسموں ، رتوں رنگوں اورخوشبوؤں کا تجربہ کرتی ہے تو اس کے تلازمات میں ممتااور بیٹی، بہن اور بیوی کی ذات بھی شامل ہے ۔مرد اس سے مختلف انداز میں سوچتا اور محسوس کرتا ہے ۔ اس کی سوچ دور رسی اور ارتکا زکی خصوصیت رکھتی ہے ۔ جب کہ عورت بے شمار کام بہ یک وقت نمٹاتی اور ان گنت رشتوں کو قائم رکھتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ہر عورت فنکار ہے ۔ یوں شعر میں عورت کی شخصیت ایک منفرد نقطہء نظر کی صورت اختیار کرتی ہے تو اسے ہم نسائی حسیت کا نام دیں گے ورنہ محض مؤنث کا صیغہ استعمال کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔(۲)
نسائیت عورت کی حسیت کا ایک نمایاں پہلو ہے عورت کی مکمل حسیت یا نسائی حسیت کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ، جس کا تعلق عورت کی پوری زندگی اور اس کی پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ اس میں اس کے جذبات و احساسات، افکار و تخیلات ، مزاج و اطوارسبھی کا دخل ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر عورت کی حسیت ایک دوسرے سے منفرد ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ گھریلو اور سماجی زندگی میں یکسانیت اور مطابقت کی بنا پر ان کے فکرو احساس کے دھارے میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔شاعری میں نسائی حسیت کا اطلاق ان اشعار پر ہوتا ہے جن مین عورت کی مخصوص فطرت، اس کی ذات، ذہنی و نفسیاتی کیفیات ، اس کی خواہشات و آرزوؤں کا بیان فطری انداز میں ہوتا ہے اور اس میں کسی روایتی کردار یا اصلاحی جذبہ کی شمولیت نہیں ہوتی ہے۔ ساتھ ہی وہ موضوعات بھی نسائی حسیت کے زمرے میں آتے ہیں جس میں کسی سیاسی وسماجی مسئلے کا بیان ایک عورت (ماں،بیوی، بہن،بیٹی)کے زاویہء نگاہ سے کیا جاتا ہے۔
نسائیت
نسائیت اور تانیثیت عورت کی حسیت کے دو نمایاں پہلوہیں ، جنھیں نسائی حسیت کے تحت رکھا گیا ہے۔ اول الذکرکا تعلق جذباتی حسیت سے ہے جب کہ آخر الذکرکا فکری حسیت سے ہے۔نسوانیت اور نو بلوغیت سے تعلق رکھنے والے شدید جذبات کے اظہار کو ’ نسائیت ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ شعریٰؔ کو زمانہء طالب علمی سے ہی ادب کے علاوہ مذہب،تاریخ اور عصری حالات و سانحات سے گہری دلچسپی تھی ۔ تاہم شاعری کی سطح پر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نوجوانی اور جوانی کے دور میں یا بالفاظ دگر شادی سے قبل کی نظموں میں غنائیت سے بھرپور نیز جذبات کو بر انگیختہ کرنے والاایسا اسلوب ملتا ہے جو شعریٰ کا اپنا ذاتی اسلوب ہے اور جسے’ نسائیت‘ کے ذیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ نظمیں بے چینی اور شوریدگی ،سلگتے ہوئے جذبات کا بہاؤ،احساسات کی شدّت کی تپش ، اپنی کھال سے باہر نکلنے اور کسی کو ٹوٹ کر چاہنے کی ناآسودہ خواہش اور جذباتی زندگی میں ناکامیوں کا زبردست تخلیقی اظہار ہیں۔ غیر معمولی غنائیت اور لہجے کا ایسا اتار چڑھاؤجو موسیقی سے لبریز زمزموں کی شمعیں روشن کردیتا ہے۔حمید نسیم کے الفاظ میں ’’گلہء صفورہ کی نظموں میں فکر محکم اور پختہ ہے لیکن بیشتر نظموں میں ایک ترنگ سی ، جذبہ کا ایک وفور سا ہے ۔ اسلوب میں ایک لہک ہے جس کی حدت سے Effervescent Lyricism ایک ابھرتی ہوئی موج کی مانند ہے ،جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے ۔‘‘ (۳)
عشق شروع سے ہی نہ صرف اردو شاعری کا بلکہ انسانی زندگی کامرکزی موضوع رہا ہے ۔عہد قدیم سے لے کرآج تک شعرا اس محبوب موضوع کو نئے پیرہن میں پیش کرتے رہے ہیں۔لیکن شعریٰؔ کی شاعری اس حیثیت سے ایک ممتاز حیثیت کی حامل ہے کہ اس میں عشقیہ جذبات کا اظہار (جن پر ابھی تک شعرا قابض تھے) ایک شاعرہ کی جانب سے ہوا اور یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مرد کی طرح عورت بھی اپنے دھڑکتے ہوئے دل میں لطیف جذبات و احساسات رکھتی ہے۔اس کے دل میں بھی عشق و محبت کے حسین جذبات پنہاں ہوتے ہیں۔یہ صرف معشوق نہیں عاشق بھی ہے۔ شعریٰؔ کی اس قبیل کی شاعری خالص جذبات واحساسات کی شاعری ہے جو ظاہری آلائش سے پاک دل کا رشتہ دل سے رکھتی ہے۔ ’ارضِ نغمہ ‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
جب سے مجھ کو دل ملا دل کو دھڑکنیں ملیں
تب سے میرے دل میں تھا اس کے پیار کا قیام
اس کی راہ میں مجھے کتنے ہم سفر ملے
ایک مے سے ہیں گداز جن کی زندگی کے جام (۴)
عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں خواتین تانیثیت کے نام پر زندگی کے ہر میدان میں مساوی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، وہیں مشرق میں عورت ابھی درونِ خانہ ہی آزاد نہیں کجا بیرونِ خانہ ۔ وہ اپنی زندگی کے کسی فیصلے میں آزاد و خود مختار نہیں۔ ہماری تہذیب و ثقافت جہاں سماجی سطح پر عورتوں کا دائرہ محدود اور زندگی بسر کرنے کے اصول و ضوابط مرد حضرات سے مختلف ہیں، جہاں شادی بیاہ جیسے اہم ترین معاملات میں بھی لڑکیوں کی رائے لینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی ، جہاں وفا، عصمت ، پاکیزگی اور قربانی جیسی صفات عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں؛ ایسی تہذیب و ثقافت میں عشق جیسے شجر ممنوعہ کے پھل کو چکھنے کی اجازت کسے ہوسکتی ہے۔ اوراگر کسی نے غلطی سے اس پھل کو چکھنے کی جسارت کرلی تو یقیناً راندۂ درگاہ ہونا طے ہے۔ مشرقی ممالک میں ایسا قدم اٹھانے والی دوشیزاؤں کو آنر کلنگ کے نام پر زندگی کی قید سے آزاد کر دینا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ لیکن عشق تو ایک فطری اور الوہی جذبہ ہے،جس سے دامن بچانا ممکن نہیں ۔ ’ صدا بصحرا‘ میں ایک ایسی ہی لڑکی کی سہمی سہمی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے ، جو عشق کی کسک سے آگاہ ہے لیکن حیا اور پندار کے نام پر خاموش اور اظہار سے قاصر اندر ہی اندر گھٹ رہی ہے:
سکھی پھر آگئی رت جھولنے کی گنگنانے کی
سیہ آنچل کی تہہ میں بجلیوں کے ڈوب جانے کی
سبک ہاتھوں سے مہندی کی ہری شاخیں جھکانے کی
لگن میں رنگ آنچل میں دھنک کے مسکرانے کی
امنگوں کے سبو سے قطرہ قطرہ مے ٹپکنے کی
گھنیرے گیسوؤں میں ادھ کھلی کلیاں سجانے کی(۵)
’صدا بصحرا‘ کے اس بند میںگنگنانے ، جھولنے اور مہندی کی ہری شاخیں جھکانے والی رت سے مرادساون کا وہ روایتی مہینہ ہے ،جب ایک طرف تو پانی ٹوٹ کر برستا ہے اور دوسری طرف دوشیزاؤں کے پورے وجود پر ایک شعلہ صفت ہریالی چھا جاتی ہے اور جذبات سلگنے لگتے ہیں۔ نظم میں سکھی کو جو لڑکی مخاطب کرتی ہے وہ در اصل ان ہی جذبات کی نمائندگی کرتی ہے۔اور جس لڑکی سے یہ باتیں کی جارہی ہیں وہ راوی کی اپنی ہم زاد ہے،ایسی ہم زاد جس پربدلتے ہوئے موسموں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ ایک ایسی جھیل ہے جس کی تہہ میں اگرچہ ہلچل ہے لیکن اس کی سطح بہت پرسکون اور خاموش ہے ۔مختصر یہ کہ راوی جذبہ ہے جب کہ اس کا مخاطب اس کا اپنا شعور ہے۔فضیل جعفری ؔلکھتے ہیں’’ حقیقت یہ ہے کہ نوجوانی اور جوانی کے دور میں ان پر’ میر ابابیت ‘کا غلبہ تھا ۔علاوہ ازیں ان کی بعض نظموں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عشق تو ٹوت کر کیا مگر کلی پھول نہ بن سکی۔ اپنی ایک بڑی خوبصورت نظم ’سمتیں ‘کے اس بند میں انھوں نے جو داستان بیان کی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔‘‘ (۶)
اس شاعری میں جدت کا رنگ اور آہنگ پایا جاتا ہے ،جس میں عشق و محبت کے سارے رنگ محبوب کی فکرمندی، روٹھنے منانے کا کھیل،بچھڑنا اور پھر زندگی کی تاریک راتوں میں محبوب کی یادوں کے اجالوں کو اپنے ہمراہ رکھناغرض یہ کہ تمام احساسات مرد کے عشقیہ جذبات واحساسات سے مختلف ہیں ۔ شعریٰ کی نظموں میں عورت رادھا ، میرا اور سیتا کا روپ ہے جس نے اپنے محبوب کو ٹوٹ کر چاہا ہے۔ نظم ’سمتیں‘ کے یہ دو بند ملاحظہ ہوں :
راہی سب سے روٹھو لیکن مت روٹھو
اپنی میٹھی اور منوہر بانی سے
اس لہجہ سے جس پر سب مفتون ہوئے
جس کی بدولت لگتے ہو لاثانی سے
—————-
راہی یوں نہ سمجھنا بازی ختم ہوئی
جنم جنم ہم راہوں میں ٹکرائیں گے
جنم جنم چمکیں گے اشارے سمتوں کے
دل کی قسمت کے تارے گہنائیں گے (۷)
مندرجہ بالا اقتباسات میں جدید شاعری کے مروجہ تکنیکی عناصر یعنی علامتوں ، استعاروں اور امیجری کی پیچیدگی نظر نہیں آتی لیکن جذبات و احساسات کی شدّت اور بیانیہ کی ندرت نے مجموعی طور پر اتنا زبردست تاثر تخلیق کر دیا ہے ،جس سے دامن بچا کر نکل جاناممکن نہیں۔ان اشعار میں عشق کا اظہار ایک خالص ہندوستانی عورت کی طرف سے ہوا ہے جو ہندوستانی شاعری کا امتیاز ہے جب کہ اب تک فارسی شاعری کے زیرِ اثرعورت اردو غزل کا معشوق تھی۔ شعریٰ کے کلام کی نسائیت ’’سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں‘‘کا ایک روپ ہے، جو ایک عورت کی زبان سے تشکیل پارہا ہے۔ اس سے قبل کی شاعری میں عورت ستر پردوں میں ملفوف معشوقہ یا پھر سنگ دل شاہدان بازاری تھی۔ وہ سب کچھ تھی بس نہیں تھی تو ایک عورت۔ اس کے بارے میںاب تک جو کچھ لکھا یا کہا گیا وہ اس کے تئیں محض مرد کا تصور یا اس سے متعلق مرد کی آرزوؤں اور خواہشوں کا مظہر تھا۔ شعریٰ کی اس قبیل کی دوسری کئی نظموں جیسے’ زوالِ عہد تمنا‘،’زیرِ چرخِ کہن‘،’گلۂ صفورہ‘،’اسیر‘، ’صدا بصحرا‘اور ’پریتی‘ وغیرہ کا عمومی اسلوب بیک وقت شیریں بھی ہے اور اس پر اداسی کی پرچھائیں بھی نظر آتی ہے۔شعریٰؔ کی ابتدائی شاعری کی اس غیر معمولی حد تک غنّائیت اور داخلیت کے بارے میں وحید اخترؔ لکھتے ہیں :
ان کے لہجے پر عرب شاعروں کے عشقیہ آہنگ کا بھی اثر ہے ۔لیکن جو چیز انھیں ممتاز کرتی ہے وہ ان کا افسردگی آمیز تفکر ہے ۔اس افسردی میں کھوکھلے رجائیت سے زیادہ ایمان افروز کیفیت ہے ۔ دوسری خصوصیت جو انھیں تمام خواتین شعرا سے ممتا ز کرتی ہے ،ان کا نسائی لب ولہجہ ہے۔ترقی پسند دور کی شاعرات میں ادا بدایونی ؔ اور صفیہ شمیمؔ ملیح آبادی کے یہاں جو لہجہ ہے وہ اس دور کے مرد شاعروں سے الگ نہیں ،صرف نام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خواتین کی نظمیں ہیں۔اس کے برخلاف شعریٰؔ کی نظم کا پورا ڈھانچہ اور ان کے لہجے کی ہلکی سی کسک ،دردمندی اور نرمی ان کے جنس کی صاف غمّازی کرتی ہیں۔(۸)
تانیثیت
تانیثیت بنیادی طور پر ایک شعوری تصور ہے جس کے پیچھے بطور محرک عورت کے وہ اجتماعی تجربات کار فرما ہیں جو اس نے مرد اساس نظام و اقدار میں استحصال اور نا انصافی کی شکل میں حاصل کیے ہیں ۔مرد اور عورت کے درمیان حیاتیاتی تفریق کے سبب اسے سیمون دی بوار کے لفظوں میں ہمیشہ’ دوسری جنس ‘ہی سمجھا گیا۔چونکہ وہ صرف ایک کمیوڈٹی تھی اس لیے سیاسی ، سماجی، معاشی اور قانونی سطح پر اس کے لیے یکساں حقوق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔تانیثی تحریک کا بنیادی مقصدان حقوق کی حصولیابی اور ترقی کے میدان میں انھیں یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔اجتماعی طور پر تانیثیت کی لہر اٹھنے سے پہلے حقوق نسواں کی تمام تر جدوجہد انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ایک تحریک کی شکل میں تانیثیت کا آغاز انیسویں صدی کے دوران برطانیہ میں ہوااور تب سے اب تک مغرب میں تانیثی تحریک نے تین ارتقائی مراحل طے کیے ہیں جنھیں تین’ لہر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پہلی لہر میں، جس کا آغاز برطانیہ میں ہوا عورتوں کی تعلیم، ان کے لیے روزگار کے مواقع اور شادی سے متعلق قوانین جیسے مسائل کو اٹھایا گیا ۔ اس تحریک کو زبردست کامیابی ملی عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل گئے اور ۱۸۷۰ء میں شادی شدہ عورتوں کی حق ملکیت کا قانون بھی عمل میں آگیا۔ تانیثیت کی یہ لہر پہلی عالمی جنگ تک جاری رہی۔
برطانیہ میں حقوق نسواں کی اس بلند بانگ صدا نے نہ صرف یہ کہ پورے یورپ کی خواتین کوبیدار کردیا بلکہ اس کی گونج امریکہ کی شاہراہوں تک پہنچی ۔نتیجتاً بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں یوروپی ممالک اور امریکہ میں عورتوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے آواز بلند کی گئی۔ تانیثیت کی اس دوسری لہر میں اسقاطِ حمل کے حق اور لسبین مسائل کو بھی حقوق نسواں کی تحریک میں شامل کیا گیا۔ یہ لہر تنازعات کا شکار ہوکر ۱۹۹۰ء کے آس پاس ختم ہوگئی ۔
تانیثی تحریک کی تیسری لہر بیسویں صدی کی آخری دہائی سے ذرا قبل نمودار ہوئی۔ اس تحریک سے عورت کی ایک نئی شبیہ ابھر کر سامنے آئی۔ اب عورت ادعائیت کی حامل ہے ، طاقت ور ہے، اپنے تشخص پر اسے خود اختیار ہے ۔ یہ تحریک عورت کے سیاسی ،سماجی اور معاشی طور پر خود مختار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی انفرادی تشخص پر بھی مصر ہے۔عورت کو اپنا تشخص یا پہچان خود قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
بیسویں صدی کے دوران برصغیر ہندوپاک میں عورتوں کی تعلیمی بیداری کے نتیجے میں ان کا شعور بھی بیدار ہوا اور بیرونِ خانہ معاملات سے وابستگی نے ان کے اندر تشخص کا احساس جگایا۔یہی تشخص تانیثیت کا مرکزی موضوع ہے لہٰذا تانیثیت کو ’جدید عورت کی حسیت‘ اور نسائیت کو’قدیم عورت کی حسیت ‘سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ امتیاز صرف یہ ہے کہ نسائیت کا عنصر تو عصر حاضر کی شاعرات کے یہاں بھی مل جائے گا لیکن تانیثیت بیسویں صدی کے نصف آخر اور خاص کر ۱۹۶۰؁ء کے پہلے شاذ ہی نظر آتا ہے ۔البتہ افسانہ نگاروں نے بیسویں صدی کے آغاز میں ہی خواتین کی مساوی حیثیت پر زور دیا۔ انھوں نے خواتین کی سماجی نابرابری ، کمتر حیثیت اور تعلیم سے محرومی کو اپنا موضوع بنایا۔ بلا مرضی اور بے جوڑ شادی، جنسی ناآسودگی، درونِ خانہ عورتوں کا جنسی استحصال، کثرت ازدواج، بچوں کی بھرمار اور اس کے اوپر لعنت ملامت وغیرہ موضوعات بھی تانیثیت کے رجحان کے تحت حیطۂ تخلیق میں لائے گئے۔ ان مسائل کی کامیاب اور پرزور پیش کش سب سے پہلے رشید جہاں اور پھر عصمت کے یہاں نظر آتی ہے۔ تعلیمی بیداری کے نتیجے میں خواتین کا شعور بیدار ہو، ساتھ ہی تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے وہ گھر سے باہر کی دنیا سے بھی آشنا ہوئیں۔باہر کی دنیا میں قدم رکھتے ہی وہ اس کربناک حقیقت سے بھی روشناس ہوئیں کہ صرف معاشی خود کفالت ہی سماجی مساوات کی آخری حد نہیں بلکہ یہ اس کی ایک چھوٹی سی اکائی ہے۔ ورکنگ وومن کے سامنے اپنے مسائل کا ایک کھولتا ہوا جہنم موجود تھا۔ کام کے مواقع میں بھی عدم مساوات، مشاہرے میں ان کے ساتھ امتیاز اوراس قسم کے دیگر مسائل ورکنگ وومن کی نفسیات و تجربات کا حصہ ہیں ۔ تانیثی رجحان جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا ویسے ویسے اس کے سامنے خواتین سے متعلق مسائل کی فہرست نئی نئی شکل میں آنے لگی۔
تانیثیت کے اس کارواں میں شاعرات بھی پوری سج دھج کے ساتھ شریک ہوئیں۔ پروین شاکر، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی،سارا شگفتہ اور زہرا نگاہ وغیرہ نے ایک طرف جہاں عورتوں کے مسائل کو اٹھایا وہیںسماجی، سیاسی اور معاشی سطح پر ان کے مساوات کی متقاضی ہوئیںہے۔ان شاعرات کے یہاں اظہار کے پیرایے اور لہجے میں فرق ہے تاہم مقصد سب کا ایک ہے یعنی عورت کے وجود کو اس کے پورے احترام کے ساتھ منوانا۔محض مراعات کی بخشش مسئلے کا حل نہیں ۔ پہلے عورت کی نفسیاتی، جذباتی اور انسانی تشخص کو تسلیم کرنا پڑے گا تب ہی باہمی شرکتیں مکمل ہو سکتی ہیں۔اس سلسلے میں جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً سبھی شاعرات نے اپنی شاعری کا آغاز ’تانیثیت‘نہیں بلکہ ’ نسائیت ‘ سے کیا ، اور نوعمری کے نسوانی اور غنائی جذبات کو شاعری کا جامہ پہنایالیکن بہت جلد ہی شرم و حیا ،کپکپاتے ہوئے ہونٹ اور خواہشات کی دھیمی دھیمی سلگتی آگ کی جگہ بغاوت، جسارت اور اعلان جنگ نے لے لی۔نظم ’گھاس بھی مجھ جیسی ہے‘ میںکشور ناہید لکھتی ہیں:
گھاس بھی مجھ جیسی ہے ؍ ذرا سر اٹھا نے کے قابل ہو ؍ تو کاٹنے والی مشین ؍ اسے مخمل بنانے کا سودا لیے ؍ ہم پر وار کرتی ہے (۹)
یہ ہے صدیوں کے ظلم اور مردوں کی غلامی کا شکار عورت۔وہ بولنا چاہتی ہے تو اسے قوت گویائی سے محروم کردیا جاتا ہے،کھلے آسمان میں اپنے پنکھ پھیلا کر اڑنا چاہتی ہے تو ا س کے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ صدیوں سے استحصال کا شکار عوت اپنے وجود اپنے جسم اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑتی ہوئی لہولہان ہورہی ہے اور بسا اوقات شکست سے دوچار بھی تاہم اس کی ہمت پر آفرین کہ وہ اس شکست کو جز سنجیدنِ پر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ بالزاک نے کہا تھا ’’شادی شدہ عورت غلام سے بھی بدتر ہے۔‘‘ بس فرق یہ ہے کہ بالزاک نے فرانس کے تناظر میں یہ بات انیسویں صدی میں کہی تھی جب کہ جنوبی ایشیا میںاکیسویں صدی کی شادی شدہ عورت کی حالت اب بھی اس قول کی صداقت کی گواہ ہے۔کشور ناہید کی ایک اور نظم نیلام گھر کے کچھ مصرعے ملاحظہ ہوں:
مرے منھ پر طمانچہ مار کر ؍ تمھاری انگلیوں کے نشان ؍ پھولی ہوئی روئی کی طرح ؍ میرے منھ پر صد رنگ غبارے چھوڑ جاتے ہیں ؍ تم حق والے ہو ؍ تم نے مہر کے عوض حق کی بولی جیتی ہے (۱۰)
اس کے علاوہ جاروب کش،میں کون ہوں ،سنسر شپ ، دفعہ ۱۴۴ ؍اور اینٹی کلاک وایز جیسی نظمیں بھی ان کے تانیثی رویوں کی بھر پور نمائندگی کرتی ہیں۔انھوں نے اپنے وجود کو پوری طرح اس معاشرے سے منوایا جہاں عورت کی جمہوری حق حکمرانی اور پوری یا آدھی گواہی جیسے مسائل پر ابھی تک بحث جاری ہے۔پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کا عہد آمریت عورتوں کے لیے سیاسی اور سماجی دونوں سطح پر ناسازگار ثابت ہوا ۔ اسلامی حکومت کے نام پر خود ساختہ قوانین کو جبراً نافذ کرنے کے نتیجے میں تعلیم یافتہ عورتوں کے طبقے میں شدید احتجاج ہوا۔ ’حدود قانون‘ اور ’ نصف گواہی‘ جیسے مسئلے پر عورتوں کا شدید ردّ ِ عمل سامنے آنا لازمی تھا۔’ حدود آرڈیننس‘ کے خلاف اسی عنوان سے زہرہ نگاہ ؔ نے ایک نظم لکھی جو خواتین کے احتجاج کی تصویر پیش کرتی ہے۔
فہمیدہ ریاض اپنی نظموں میں خدا، مذہب اور معاشرے سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ان کی نظموں میں احتجاج اور بغاوت کی شدت فرسودہ معاشرے اور مذہبی بندشوں کے بارے میں از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔مقابلہء حسن، باکرہ ، نینا عزیز ، اقلیما،چادر اور چاردیواری اور کب تک اسی قبیل کی نظمیں ہیں، جن میں مذہب اور سماج کے خودساختہ ٹھیکیداروں کو انتہائی طاقتور آواز میں چیلنج کیا گیا ہے ۔
چونکہ مرد اساس معاشرے کے قانون ساز مرد حضرات ہیں اس لیے معاشرتی سطح پر سارے اختیارات آج بھی مرد ہی کو حاصل ہیں۔ عورت کو محض اس کی ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ مانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت کاگاڑی کے دو پہیے ہونا صرف مقولے کی حد تک درست ہے ورنہ عملی زندگی میں عورت کی حیثیت ثانوی ہے ۔ عورت کی اس بے جان حیثیت کو فہمیدہ ریاض نے اپنی نظم’ گڑیا ‘میں بہت خوبصورتی کے ساتھ موضوع بنایا ہے:
جب جی چاہے کھیلو اس سے ؍ الماری میں بند کرو ؍ یا طاق میں اسے سجا کر رکھ دو ؍ اس کے ننّھے لبوں پہ کوئی پیاس نہیں ؍ نیلی آنکھوں کی حیرت سے مت گھبراؤ ؍ اسے لٹا دو ؍ پھر یہ جیسے سو جائے گی(۱۱)
خالص نسائی لہجے کی سوگوار شاعرہ پروین شاکر ؔنے بھی اپنی ایک نظم ’نک نیم ‘ میں عورت کی اس حالت کو موضوع بنایا ہے ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں کبھی مذہب ، کبھی سماج تو کبھی تہذیب و ثقافت کے نام پرعورت کے ساتھ بے شمار زیادتیاں اور ناانصافیاں روا رکھی گئیں۔ خانگی تشدد، زدوکوب، جنسی استحصال اورکبھی عزت تو کبھی جہیز کے نام پر قتل یہ سب عام واقعات ہیں۔ عورت کی ذہانت، صلاحیت اور قابلیت سے قصداًچشم پوشی کی گئی ، اسے مرد کے مقابلے میںجسمانی طور پر کمزور اور ناتواں نیز جذباتی طور پرزیادہ حساس اور نم دیدہ قرار دیا گیا۔ ناقص العقل بھی کہا گیا اگرچہ سائنس اسے ثابت نہیں کر سکی۔اس کے علی الرغم مردکو عقل و فراست، ذہانت اور تفکر پسندی کی صفت سے متصف قرار دیا گیا۔اسے سیتا، ساوتری،شکنتلا، پدمنی اور دروپدی کا درجہ دیا گیا یا پھر، پری ، شہزادی، گڑیا، ملکہ اور مہارانی کا ۔ محروم رکھا گیا تو صرف ایک حیثیت سے اور وہ حیثیت ایک انسان کی ہے۔یہ ذہنیت صرف مشرق ہی تک محدود نہیںبلکہ مغرب جو ترقی پسندی کی روشن مثال ہے وہاں بھی رائج ہے۔ سلویا پلاتھ کے مطابق”They spoke about us, to us and at us but never for us.”مرد اساس معاشرے میں عورت کی ذات اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی و نمائندگی سے یکسر محروم رہی ۔ پروین شاکر ’نک نیم‘ میں اس طرح تصویر کشی کرتی ہیں:
تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو ؍ ٹھیک ہی کہتے ہو ؍ کھیلنے والے سب ہاتھوں کو ؍ میں گڑیا ہی لگتی ہوں ؍ جو پہنا دو مجھ پہ سجے گا ؍ میرا کوئی رنگ نہیں ؍ جس بچے کے ہاتھ تھما دو ؍ میری کسی سے جنگ نہیں ؍ سوتی جاگتی آنکھیںمیری ؍ جب چاہے بینائی لے لو ؍ کوک بھرو اور باتین سن لو ؍ یا میری گویائی لے لو ؍ مانگ بھرو سیندور لگاؤ ؍ پیار کرو آنکھوں میں بساؤ ؍ اور پھر جب دل بھر جائے تو ؍ دل سے اٹھا کے طاق پہ رکھ دو ؍ تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو ؍ ٹھیک ہی کہتے ہو(۱۲)
فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر ؔ کی ان نظموں کے بعد جب ہم اسی موضوع پر شعریٰؔ کی نظم کا جائزہ لیتے ہیں توشعریٰؔکی فکری انفرادیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔’ گڑیاگھر ‘جیسے اکہرے موضوع میں بظاہر کسی فکری گہرائی یا موضوعی پیچیدگی کی گنجائش نظر نہیں آتی لیکن شعریٰؔنے اس موضوع میں بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے اور اپنی مخصوص تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ’گڑیا گھر‘ جیسے پامال موضوع کو ایک ندرت بخشی ہے۔یعنی مرکزی موضوع کے علاوہ بھی اس میںبعض ضمنی موضوعات کو سمیٹ لیا ہے ،جس کی وجہ سے تانیثیت کی جو دھیمی اور تیز ہوتی لے پروین شاکر یا فہمیدہ ریا ض کے یہاں نظر آتی ہے جسے پڑھتے ہوئے یکسانیت بلکہ توارد کا احساس ہوتاہے وہ یکسانیت شعریٰؔ کے یہاں نظر نہیں آتی۔ بلکہ ان کے یہاں سوگواری اور متانت کی ایک کیفیت ہے جوقاری کو ایک گہری سوگواری سے دوچار کرتی ہے ۔اور ان کا سنجیدہ اور فلسفیانہ انداز قاری کو غور و فکر دعوت دیتا ہے۔ شعریٰؔ کی نظم’گڑیا گھر‘ کا ابتدائی بند ملاحظہ ہو:
ریاضت کے لیے مردان حق ؍ کوہ و بیاباں کی طرف نکلے ؍ کبھی ڈوبے کبھی ابھرے ؍ مگر گڑیا کی رنگیں پالکی کو پالکی بردار ؍ جس بستی میں لے آئے ؍ وہیں اپنی تپسیا کی ڈگر پر اس کو چلنا ہے(۱۳)
پروین شاکر اور فہمیدہ ریا ض ؔکی نظموں ( گڑیا اور نک نیم )کے بر خلاف شعریٰؔ کی نظم میں شائستہ اور پُر وقار لہجے کے ساتھ فکراور دانش وری کی ایک لہر ملتی ہے جو نہ صرف یہ کہ ظاہری طور پرموضوع کا احاطہ کرتی ہے،بلکہ اس میں عورت کی مکمل زندگی کا ایک عکس پیش کیا گیا ہے ۔ ہمارا سماج جہاںسربراہِ مملکت سے لے سربراہِ خاندان تک اقتدار اور طاقت کی ہر کرسی کا حقدار صرف اور صرف مرد ہے۔جہاں قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے ۳۳؍ فیصد نشستیں محفوظ کرانے کا بل سولہ برسوں سے زیرِ التوا ہے ،جہاں پہلی لوک سبھا سے سولہویں لوک سبھا تک کے طویل سفر میں خواتین کی شمولیت کا تناسب ۵ فیصدکی جگہ صرف ۱۲ فیصد ہوا ہے اور جس ملک میں اکیسویں صدی میں بھی جہیز کے لیے عورتوں کو نذر آتش کر دینے کی خبریں تقریباً روز ہی اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ایسے معاشرے میںخواتین کے سماجی، سیاسی، قانونی اور دیگر حقوق کے تحفظ اور صنفی مساوات کے خواب بھی کیسے دیکھے جاسکتے ہیں۔ شعریٰؔ اسی موضوع کو ایک آفاقی رنگ دیتی ہیں :
چھٹی حس بھی معطل ہونے لگتی ہے جب اخبار کی خبروں سے ؍ تو پرکھوں کی دعائیں ؍ کام آتی ہیں ؍ وہ گڑیا کو کہانی ؍ ایسے بیڑوں کی سناتی ہیں ؍ ہزاروں سال کے ترک ِ وطن کے بعد بھی ؍ جن کی جڑیں ؍ اپنی زمیں سے جڑ نہیں پائیں (۱۴)
عورت کو جنم سے ہی ایک گھر کی خواہش ہوتی ہے جو گزرتے عمر کے ساتھ شدید ہوتی جاتی ہے۔ ناسمجھ اور معصوم بچیوںکا ریت کے گھروندوںکی تعمیر میں منہمک ہونا ان کے اس فطری رجحان کی غمازی کرتاہے۔ اس کے باوجود عورت تمام عمر باپ،بھائی ، شوہر اور بیٹے کے گھر میں زندگی بسر کرتی ہے،اس کا کوئی اپنا گھر نہیں ہوتا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسے ووٹ ڈالنے ، ملازمت ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور جائیدادکی ملکیت کے حقوق حاصل ہیں تاہم جب ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہیں تو پاتے ہیں کہ آج بھی اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ ورکنگ وومن کے نام سے شناخت رکھنے والی ملازمت پیشہ عورتوں کے گھروں کے باہربھی نیم پلیٹ پر مرد حضرات کے نام ہی جگمگاتے ہیں۔شعریٰؔ رقم طراز ہیں :
یہ حسرت رہ گئی ؍ سارا جہاں ہوتا ؍ گھروندا اپنا موروثی ؍ پہن کر خول کچھوے کانہ پھر یوں زندگی کرتے ؍ غبار آلود چہروںاور پراگندہ لٹوں والے ؍ ملامت کیش(۱۵)
انسان کے خواب و حقائق کی کوئی انتہا نہیں ،اس نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں اور چاند پر اپنے نقش پا ثبت کیے۔اس کی خواہشیں، تمنائیں اور آرزوئیں روزنت نئے ایجادات کا عملی جامہ پہن کر ہمارے سامنے مجسم نظر آتی ہیں اوراب تو وہ مقام آگیا ہے کہ انھوں نے عقل انسانی پرحیرت کے سارے در بند کر دیئے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اس ہوشربا ترقی نے انسان کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں منہمک رکھا ہے۔’’لب کشا‘‘میں لکھتی ہیں:
ہم آہنگ گردش ستاروںکی ہے ؍ پڑ گئیں جو فضاؤں میں لیکیں پرانی ؍ وہ ان پر پھرے جارہے ہیں، پھرے جارہے ہیں ؍ سب حدیں ان کی پیمودہ ہیں ؍ مگر اپنے خواب و حقائق کا سیل عظیم ؍ کوئی لیک اس کی بنا دے ؍ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟ ؍ کبھی جو بنا دے بھی کوئی تو سوچو ؍ ہمارے قدم اور لیکوں کا رشتہ کہاں تک ؍ کہ اک حد پہ مٹ جائیں گی وہ ؍ تو کیا ہم بھی تھم جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؍ ہم تو بڑھتے ہی رہتے ہیں ؍ چاہے وہ زلزال ہو جو ہمکتا نظر آئے ؍ چاہے وہ ایک سوچ ہو جو تراشے چلی جائے بے شوروشیون ؍ سیہ دہشتوں کے پہاڑ(۱۶)
لیکن اس کے بعد شعریٰؔ جب معاشرے میں عورت کی حالت پر نظر ڈالتی ہیں تو اس کے برعکس پاتی ہیں۔عورت تو آج بھی وہی ہیں جہاں روز اول تھی ۔’’اک ستارہ آدرش کا‘‘میںیوں گویا ہوتی ہیں:
’’ہم نے انساں کا جنم پایا ‘‘ ؍ ستارے گارہے تھے—– ؍ ’’کس عمل کے اجر میں ؍ پایا ستارو، ؍ تم نے انساں کا جنم؟‘‘ ؍ ہم تو انساں کے جنم میں بھی ستارے ہی رہے(۱۷)
اردوادب کی ممتاز شاعرات کے یہاں تانیثیت کی بے باک اور چبھتی ہوئی آواز کے پہلو بہ پہلو جب ہم شعریٰ کی ان نظموں کو رکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ شعریٰؔ کے یہاں تانیثیت کا مخصوص آہنگ نظر نہیں آتا ۔ ان کے پہلے مجموعے میں نسائیت ضرور نظر آتی ہے۔ ’گلہ ء صفورہ‘ کے گردپوش پر قاضی سلیم کے اس جملے ’’ شعریٰ ؔ اردو شاعری کی پہلی نسائی آواز ہے ‘‘کے حوالے سے فضیل جعفری لکھتے ہیں کہ ’’ قاضی صاحب کا یہ قول فیصل’ گلہء صفورہ‘ میں شامل نظموں پر ہی صادق نہیں آتا بلکہ اس کا تعلق شعریٰؔ کے عمومی شعری اور فکری رویے سے ہے۔ عورتوںکے سلسلے میں شعریٰؔ کا جو وژن ہے اس کی تشکیل میں مشاہدات کے علاوہ ان کے ذاتی تجربات کا کردار بھی نمایاں ہے ۔‘‘ (۱۸) ذاتی تجربات سے شعریٰؔ کے گھریلو مسائل کی طرف اشارہ ہے ۔ شعریٰؔ کے عہد میں تانیثیت کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ اٹھا ، لیکن شعریٰؔ اس سے بالکل بھی متاثر نہیں تھیں ۔تانیثیت سے شعریٰؔکی جذباتی یا نظریاتی وابستگی تلاش کرنے سے قبل تانیثی تحریک کے سلسلے میں شعریٰؔ کی آرا سے رجوع کرنا زیادہ مناسب ہے۔وہ لکھتی ہیں:
اقبال نے نسوانی زندگی کو نسبتوں کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
مریم ازیک نسبت عیسیٰؔ عزیز
از سر نسبت حضرت زہرا عزیز
خانوادہ کی دنیاعقبیٰ تک توسیع یاب ہے لیکن خانوادہ کے وقت کے تسلسل کا ایک موڑ یوم مسئولیت ہے،جہاں زن و مرد دونوں اپنے انسانی جوہر کی نمود کے ساتھ ، فرد واحد کی حیثیت سے ذات یکتاکے حضور حاضر پائے جاتے ہیں ۔ نسبتوں کا تناظر پیچھے چھوٹ جاتا ہے یہاں نہ مریم نسبت سے عیسیٰ عزیزالوجود ہیں نہ عیسی نسبت مریم سے بلکہ اپنی سج دھج اپنے تیور اور اپنے جوہر سے عزیز الوجود ہیں ۔ اس پہلو سے اقبال کی نگاہ نے صورت حال کو نہیں دیکھا۔۔۔
یہ ضروری نہیں کہ ان خیالات کی بنا پر میں اناثی تحریک کی گرد کارواں سمجھی جاؤں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اس تحریک کے رطب و یابس کا بوجھ اٹھانا میرے بس کا روگ نہیں۔ اپنے عہد کے تناظر میں گھر سنسار کا منظر نامہ ابھرے تو دکھائی دیتا ہے کہ گھر سنسار حال حال تک اپنی خیر منارہا تھا کہ کہیں اشتراکی ریاستوں کی اجتماعی رہائشی فارمولوں میں تحلیل ہو کر نہ رہ جائے۔۔۔آخر میں اپنے یہاں کی صورت حال پر ایک نظر ڈالنا بھی قرین انصاف ہو گا۔ عرصہء دراز سے یہاںعورت کو حور ارضی کاتشخص عطا کیا گیا ہے۔ اس موقف میں ایسا لگتا ہے کہ شاید روز حساب یہ اپنے نامہء اعمال کو بھی اپنے سرپرستوں سے پڑھوائے جانے پر اصرار کرے گی۔(۱۹)
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شعریٰؔ تانیثیت کی تحریک سے وابستگی تو دور کی بات اس تحریک کوپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں ۔ شعریٰؔ نے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کو زندگی گزارنے کے لیے ’رابعہ تابعیہ‘ کے حوالے سے پورا منشور مرتب کردیا ہے۔ عقائد کی دیوار کو توڑ کراجتہاد کی جو بنیاد حضرت آسیہ ؓنے رکھی تھی اسے رابعہ ؒنے آگے بڑھایا ہے۔ انھوں نے خود اپنی مثال دے کر خواتین کو خود کفیل بننے اور پورے اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا ہے۔
’’وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاًلِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اِمْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبّ ِ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاًفِیْ الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْن ‘‘( اور اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ،جب کہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے) (سورہ تحریم : آیت : ۱۱) قرآن کریم کی اس آیت کے حوالے سے نظم ’دعائے بانوئے فرعون ‘ میںا س عقیدے کو باطل قرار دیا ہے کہ شوہر سے غیر مشروط ہم آہنگی کا نام وفا ہے اور عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو اس وفا کی بنا پر ہی باشرف اور نیک ٹھہرے اور اس کی عبادتیں اور نیکیاں اسی شرف کی بنا پر تولی جائیں۔عہد قدیم کی اس عظیم المرتبت خاتون کی دعا کے ان الفاظ میں ان کا مکمل تعارف موجود ہے ایسا کافی ووافی تعارف جس کی بنا پر انسانی تاریخ میں ایک مثال اور ایک آدرش کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا جائے گا ۔ قرآن مجید میں تاریخ عالم کی جھلک، ارتقا کے سنگ ہائے میل بنانے والے انسانی کارناموں پر مشتمل ہے۔’ دعائے بانوئے فرعون‘ کے یہ مصرعے ملاحظہ ہوں:
اتفاق و بخت کا ہر دام جبر ؍ توڑ دینے کی یہ مختاری ، ؍ یہ گھر کے راج سے ، ؍ حق بجانب ارجمندو بے گزند، ؍ دست برداری ، ؍ خدا یا ؍ تیرے رازوں میں ؍ یہ کیسا راز ہے(۲۰)
شعریٰؔ اپنے ایک مضمون میںلکھتی ہیں:
فرعونی جلال وجبروت کو ٹھکراتے ہوئے صرف عائیلی نظام سے نہیں بلکہ ناکسوں کے خشک وتر سے بھی غیر مشروط ہم آہنگی کے وفادارانہ عقیدہ کو وہ [ فرعون کی بیوی حضرت آسیہؓ] مسترد کرتی ہیں، جس کو آج سے ہزاروں برس پہلے مسترد کرنا جان کا زیاں تھا۔۔۔ان کا یہ رویہ انھیں خدا سے دور نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے جوار قرب کے باغات میں بسیرا کرنے کا تمنائی بناتا ہے۔(۲۱)
ساتھ ہی شعریٰؔ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ عورتوں کو ذریعہ معاش کے لیے گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلنا پڑتا ہے،کیوں کہ صارفیت کے اس دور میںبسا اوقات تنہا مرد کی آمدنی کے ذریعے گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ’شاہ راہ آرزو ‘ نامی نظم کا یہ صرف ایک پہلو ہے دوسرا پہلو ملک میں پھیلی ہوئی غربت اور غریبوں کی زندگی کی سچائی اور مشکلات کو اجاگر کرنا ہے:
سطح غربت سے بھی نیچے پلنے والا صبر و شکر ؍ متصل ہو جب شب غم میں بلاؤں کا نزول ؍ مٹ کے رہ جاتا ہے فرق اندرون ِ خانہ و بیرونِ در ؍ صبح دم دونوں ہی (مرد وزن ) ؍ تلاش رزق میں باہر نکلتے ہیں ؍ تبھی چلتا ہے کام(۲۲)
اور وہ جانتی ہیں کہ روز اوّل سے اسی لیے بابِ رعایت کشادہ ہے کہ بسا اوقات خواتین کا ملازمت کرنا ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔اسلام عورت کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کا محافظ ہے اور اسے ملازمت و تجارت میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ تاریخ اسلام کا اگر مطالعہ کیا جائے تو امہات المؤمنین ، صحابیات کرام اور دیگر خواتین اسلام کے باقاعدہ تجارت اور صنعت و حرفت سے وابستہ اور معاشی طور پر خودمختار ہونے کی کئی مثالیں نظر آتی ہیں۔ روشن ترین مثال ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی ہے:
لارہی ہیں بھر کے مشکیزے کہاں سے لڑکیاں؟ ؍ ۔۔۔۔۔۔بہتے چشموں سے ؍ بیابانوں سے ۔۔۔۔۔۔۔ایندھن ؍ میوہ ہائے خشک وتر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باغات سے ؍ کچھ رداؤں میں ہیں مستور ؍ اور کچھ ان میں ہیں بے چادر کھلے سر ؍ خادمائیں بھی ہیںمخدومات بھی پاکیزہ اطوار ؍ یہ ہیں معروف النسب اپنے قبیلے میں، ؍ انھیں پہچانتے ہیں نام سے ان کے، ؍ غیورانِ عرب۔ ؍ کون ہیں یہ؟ ؍ یہ وہی ہیں جن کے قدموں کے تلے ؍ مردانِ آزاد ؍ ڈھونڈتے ہیں اپنی جنت کا سراغ (۲۳)
شعریٰؔ معاشی طور پرعورت کی خود مختاری کی اس وجہ سے بھی قائل تھیںکہ معاشی پائیداری عمدہ سماجی زندگی کی بنیاد ہوتی ہے اور عورت کی خستہ حالی میں معاشی کمزوری کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ظلم وزیادتی کی اصل وجہ معاشی طور پر مرد کا دست نگر ہونا ہی ہے۔اور شعریٰؔ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھیں بلکہ اس تجربے سے گزری بھی تھیں جب ان کے والد لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے سلسلے میں نظریاتی اختلاف کی بنا پر ان کی والدہ اور ان بھائی بہنوں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
شعریٰؔعورت کو صنف کی حد میں محدود رکھنے کی قطعی مخالف ہیں ۔ وہ نسوانی چہرے کے پس منظر میں انسانی چہرے کی جھلک تلاش کرنے کی قائل ہیں ۔جنس کی بنیاد پر تقسیم کی وہ قائل نہیں ہیں ۔ مردوں کی بالا دستی والے نظام معاشرت کے اس اصول کے خلاف تھیں کہ عورت کو تو ہمیشہ صنف کی حد میں محدود کردیا جاتا ہے، جب کہ اس کے بر خلاف مردانہ تجمل کو لازماً انسانی سج دھج کا آئینہ مانا گیا ہے ۔ اس سلسلے کی ان کی خوبصورت نظم ’رابعہ تابعیہؒ کی یاد میں ‘ ہے اس میں لکھتی ہیں :
امتیاز ِ مردو زن سے ماورا
سطح برتر بھی ہے اک انسانیت کی
جس پہ ابھرے وہ معاصر تابعین(۲۴)
رابعہ تابعیہؒ علامت ہیں عورت کے خود کفیل ہونے کی۔ رابعہ تابعیہ ؒالمعروف بہ رابعہ بصریؒ کا شمار تاریخ اسلام کی ان پاکیزہ اور نیک خواتین میں ہوتا ہے جن کی از ابتدا تا آخر تمام زندگی فقرو غنا سے عبارت ہے۔انھوں نے شدید ریاضت،علم سیکھنے کے کمال اور زہدو عبادت سے ایسا مقام پالیا تھا کہ ان کے عہد کے بڑے بڑے زاہدوعابد مالک بن دینارؒ،سفیان ثوریؒ،شفیق بلخی ؒ اور ابراہیم ادہمؒ جیسے بزرگ ان کے پاس بیٹھنا اور ان کی گفتگو سننا اپنے لیے باعثِ شرف سمجھتے تھے۔وہ بزرگ بھی جو عمر اور بای النظر میں علم اور تصوف میں ان سے آگے تھے ،ان کی مجلس میں مؤدب رہتے تھے۔ اور حسن بصری ؒ جیسے صاحب علم بزرگ کے نزدیک ان کا یہ مرتبہ تھا کہ:
مجلس خاموش محو انتظار ؍ کس کی آمد پر نہ جانے آج ہے موقوف آغاز خطاب ؍ گوش بر آواز ہیں ہم سب یہاں ؍ لب کشا ہوتے نہیں لیکن حسن بصری ؍ کہ اب تک رابعہ آئی نہیں ؍ ’’ کس طرح شربت بھرا اتنا گراں برتن ؍ جو ہاتھی کے لیے ہے ؍ میں اٹھا کر چیونٹیوں کے سامنے رکھ دوں‘‘ ؍ حسن بصری نے پو چھا (۲۵)
مادری نظام کے بعد انسانیت نے جوں ہی پدری نظام میں قدم رکھا ،تمام اقدار کا مرکز مرد بن گیا۔ اساطیری دیویاں ماقبل تاریخ کی خرافات ٹھہریں اورخدا ، دیوتا ، فرشتے ، اوتار اور پیغامبر وغیرہ کا صیغہ آہستہ آہستہ تذکیر میں بدل گیا۔ پدرانہ نظام معاشرت میں گھر سے لے کر تخت اور مکتب سے لے کر منبر اور محراب تک ہر درجے پر مرد اپنا ہی حق فائق سمجھتا آرہا ہے ۔ایسے میں اگر ایک زاہد و صالح عورت اپنے اقوال و افکار سے اور اپنی عبادات کی انتہا سے ہلچل مچادے تو یہ حیرت کا مقام ہے۔اور یہی رابعہ ؒ شعریٰؔ کے لیے سر چشمہء فیضان ہیں۔ کہتی ہیں : ’’رابعہ سر چشمہء فیضان ہیں میرے لیے‘‘۔رابعہ بصری ؒکی جن خوبیوں نے شعریٰؔ کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اور جن کی وجہ سے وہ انھیں ’سرچشمہء فیضان‘ قرار دیتی ہیں ان میں سے ایک رابعہؒ کا خود کفیل ہونا اور مرد کی با لا دستی والے اس معاشرے میں کسی کا دست نگر نہ ہوکر ایک خود مختار زندگی بسر کرنا ہے:
زندگی نے بارہا آواز دی ؍ پرکشش محمل کی جانب ؍ وہ مگر بہر مثال ؍ پاپیادہ ہی رہیں اپنی ریاضت کی ڈگر پر گامزن ؍ اک کھلی دنیا کا انسانی تناظر ؍ اس میں اک خاتون تنہا خود کفیل ؍ منفرد اپنی روش میں بر بنائے اجتہاد ؍ بے ہراس و برحق و بااعتماد ؍ یہ طریق زندگی خود ان کا اپنا انتخاب(۲۶)
عورت کے سلسلے میں شعریٰؔ کی یہ شعری تحریریں صنفی انصاف اور صنفی مساوات جیسے نظریات سے آگے کی منزل ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان جیسا جمہوری ملک ہو یا امریکہ جیسا ترقی یافتہ ۔ دنیا کے تمام ممالک میں خواتین کو مال واسباب کی طرح استعمال کیا جارہا ہے اور انھیں مال و اسباب کو فروخت کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی بنا دیا گیا ہے۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ’’ رابعہ تابعیہؒ‘‘ ایک طاقتور نظم ہے کہ انھوں نے اس میں ’صنف ‘ والی قدیم دیوار کو ڈھا کرمعاشی، سماجی، مذہبی اور سیاسی غرض کہ ہر زاویے سے عورت کو مرد کا نصف بہتر کہنے کے بجائے ایک آزاد اور خود مختار انسانی وجود کے طور پر پیش کیا ہے ۔شعریٰؔ کا تاریخی شعور بہت بالیدہ ہے ۔ اکثر وہ شاعرات جنھوں نے تانیثیت کو برتنے کی کوشش کی ، اعتدال و توازن کی ڈور ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور باغیانہ پن ان کے لہجے میں در آیا۔نتیجتاً ان کی شاعری ، شاعری کم اور نعرہء بغاوت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔اس کے بر عکس شعریٰؔ کے یہاں ایک خوشگوار توازن پایا جاتا ہے۔ انھوں نے تانیثیت کے نام پربے مہار آزادی اور جنسی بے راہ روی کا استقبال نہیں کیا بلکہ ان کے تانیثی رویے کو اس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے جو تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں ’اسلامی تانیثیت‘ کے نام سے رائج ہے۔پڑھی لکھی مسلم خواتین اب نہایت سنجیدگی سے اپنے حقوق کے لیے متحرک ہورہی ہیں۔ ناری شکشا نکیتن لکھنؤ میں اقتصادیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر عذرا بانو لکھتی ہیں:
جنسی مساوات ایک طرح کی جنگ نہیں مردوں سے، بلکہ ایک ایسی روایت کو توڑنا ہے جو ہمارے سماج میں برسوں سے بودی گئی ہے۔ سماج کو چاہیے کہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور قبول کریں کہ عورت مرد زندگی کے ہم سفر ہیںاور سماج کی پہچان اور ترقی صرف مردوں سے نہیں بلکہ عورتوں سے بھی ہوتی ہے۔ آج کی عورت نے برابری کی آواز اٹھانے کے حق کو طلب کیا ہے۔ یہ برابری تعلیم ، نوکری، سیاست اور جائداد وغیرہ کے لیے ہے۔ یہ نعرے عورتوں کو آگے لانے کے لیے ہیںجو ان کی شخصیت اورخیالات میں تبدیلی لانے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔(۲۷)
شعریٰ نے تاریخ سے ایسی مسلمان خواتین کو اپنا موضوع بنایا،جنھوں نے خود مختاری کی زندگی گزارتے ہوئے بھی عظمتوں کی بلندیوں کو چھوا اور آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن گئیں ۔ان کا آئیڈیل آسیہؓ، خدیجہؓ، عائشہؓ اور ہاجرہؓ جیسی خواتین ہیںاور وہ ان ہی کرداروں سے روشنی اخذ کرتی ہیں۔ شعریٰ کی اس قسم کی نظموں میں ’گلۂ صفورہ،‘’ مریم صدیقہ‘ ،’رابعہ تابعیہ کی یاد میں‘، ’دعائے بانوئے فرعون‘، ’اک ستارہ آدرش کا‘ اور ’شاہ راہِ آرزو وغیرہ‘ ہیں۔ شعریٰ اپنے معاشرے اور ماحول سے نامطمئن ضرور ہیں ،لیکن باغی نہیں۔ یہی اعتدال و توازن انھیں فکر وفن کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔
حواشی
۱۔ محمود ہاشمی، ’’آفاقِ نوا -ایک جائزہ‘‘ ، سوغات،شمارہ: پہلی کتاب (ستمبر ۱۹۹۱ء)، ص، ۴۲۳۔
۲۔خالدہ حسین،’’زہرانگاہ‘‘، شعر و حکمت ،کتاب :۱۲،دور : سوم ،ص،۱۰۳۔
۳۔ حمیدنسیم،’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ (ایک تعارف)‘‘،مشمولہ شفیق فاطمہ شعریٰؔ، سلسلہء مکالمات،ہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء ، ص ، ۳۷۷۔
۴۔شفیق فاطمہ شعریٰؔ،سلسلہء مکالمات ،ص ،۲۶۹۔
۵۔ایضاً،ص،۳۱۸۔
۶۔فضیل جعفری، ’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کی شاعری ( ۱۹۶۵ء کے بعد کی کچھ نظموں کے حوالے سے ) ‘‘، اردو ادب (سہ ماہی)کتاب : ۳۶۱ ، (جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳ء) ،ص ،۳۹۔
۷۔ایضاً،ص،۳۱۰۔
۸۔وحیداختر، ’’ اردو نظم آزادی کے بعد‘‘، سرورا لہدیٰؔ(مرتبہ)، کلیاتِ وحید اختر جلددوم،ص،۸۰۔
۹۔کشور ناہیدؔ،دائروں میں پھیلی لکیر،نئی دہلی؛ نئی آواز، جامعہ نگر،۱۹۸۷ء،ص،۵۲۔
۱۰۔ ایضاً،ص، ۲۷۔
۱۱۔فہمیدہ ریاض ،میں مٹی کی مورت ہوں ، لاہور؛سنگ میل پبلیکیشنز،۱۹۸۸ء، ص ۶۴۔
۱۲۔پروین شاکر ،ماہِ تمام، دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۰۸ء، ص، ۷۷۔
۱۳۔ شعریٰؔ، سلسلہء مکالمات ،ص ،۱۱۴
۱۴۔ ایضاً،ص،۱۱۵۔
۱۵۔ ایضاً،ص،۱۱۷۔
۱۶۔ایضاً، ص،۳۲۔
۱۷۔ایضاً، ص،۱۴۹۔
۱۸۔فضیل جعفری ؔ، ’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کی شاعری ( ۱۹۶۵ء کے بعد کی کچھ نظموں کے حوالے سے ) ‘‘،اردو ادب ، ص، ۵۱۔
۱۹۔ شفیق فاطمہ شعریٰؔ، ’’دعائے بانوئے فرعون ‘‘، مشمولہ سلسلہء مکالمات ، ص ،۱۸۰۔
۲۰۔ ایضاً، ص ،۱۶۱۔
۲۱۔ ایضاً،ص،۱۸۰۔
۲۲۔ ایضاً،ص،۲۴۱۔
۲۳۔ ایضاً، ص،۲۴۰۔
۲۴۔ ایضاً،ص،۱۳۹۔
۲۵۔ ایضاًایضا۔
۲۶۔ ایضاً، ص،۱۴۰۔
۲۷۔ بحوالہ خلیل احمد بیگ۔’’تانیثیت‘‘۔ مشمولہ اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہات (مرتبہ) صالحہ صدیقی۔ دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ ۲۰۱۳۔ ص،۷۱۔