AinoN Bhara Kamra A Short Stories by Afzal Ansari

Articles

آئینوں بھرا کمرہ

افضال انصاری

“ٹیکسی……”
اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی اور اس کے پیر کا دباؤ بریک پر بڑھ گیا، اس نے ٹیکسی روکی اور ونڈو سے باہر جھانکتے ہوئے پوچھا…
“کہاں جانا ہے؟ “
وہ تین نوجوان تھے، اسے دیکھتے ہی پہلے ان کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے اور پھر زیرِ لب مسکراہٹ… کیوں… کیونکہ اس کا نام شردّھا تھا اور وہ ایک عورت تھی..
دن بھر میں اس طرح کے دسیوں واقعات ہوتے تھے اور اب وہ ان نظروں اور چہروں کی عادی ہو چکی تھی – اس نے ان تینوں کو گلیکسی سنیما کے باہر اتارا اور آگے بڑھ گئی –
یہ آج کی اس کی آخری ٹرپ تھی، اب اسے سیدھا گھر جانا تھا، مگر کیسا گھر؟، اس دو کمرے کے فلیٹ کو گھر بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ گھر افراد سے بنتا ہے اور وہ فلیٹ  میں اکیلی تھی اور…. ہاں!!! یادوں کا ایک ہجوم بھی تھا جو بستر پر پہنچتے ہی اسے گھیر لیتا اور یوں کچھ دیر تنہائی کا احساس ختم ہوجاتا، مگر درد کا احساس بڑھ جاتا-
ایک چھوٹا سے قصبے میں دو کمروں اور بڑے سے آنگن کا ایک گھر تھا، ہاں وہ مکمل گھر تھا کیونکہ اس میں شردھا کے ماں باپ اور دو چھوٹے بھائی بہن رہتے تھے، سِکّوں کا سرمایہ کم، لیکن محبتوں کا سرمایہ بے پناہ تھا، شردّھا کے ماں باپ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے-
ایک دوپہر جب سخت چلچلاتی دھوپ کی وجہ سے گھر کے سارے افراد آرام کر رہے تھے شردّھاخاموشی سے باہر نکل آئی، کیونکہ آج سُرَیْنَا کے گھر کے آنگن میں اس نے سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کا پروگرام بنایا تھا –
کھیل کے دوران اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے قدم لڑکھڑا رہےہیں اور پھر یہ ڈگمگانا اتنا بڑھا کہ شردّھا  زمین پر لڑھک گئی ، اس کی سہیلیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں-
اچانک وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی، گلا خشک ہو رہا تھا، اس خواب کو…. ہاں!!! شردّھاکے لیے وہ تو اب ایک ڈراؤنا خواب ہی بن کر رہ گیا تھا کیونکہ وہ ایک بھیانک زلزلہ تھا جس نے شردّھاکے پورے خاندان کو اس سے چھین لیا تھا، زمین کے ان جھٹکوں کو آج بھی شردّھا محسوس کرتی تھی – فریج سے پانی کی بوتل نکال کر شردّھانے منہ سے لگالی اور ایک ہی سانس میں نصف کے قریب بوتل خالی کر دی –
بستر پردوبارہ لیٹتے ہی ایک عمارت چشم تصور میں نظر آئی یہ ایک یتیم خانہ تھا جہاں شردّھانے زندگی کے دس برس گزارے اور انہی دس برسوں میں اسے یہ احساس ہوا کہ وہ نہایت ہی بدصورت ہے کیونکہ یہاں محبت سے دیکھنے والی وہ نظریں نہیں تھیں جو اپنوں کی ہر بدصورتی کو چھپا لیتی ہیں –
یتیم خانے کے دس برسوں نے شردّھا کو زندگی کے بہت سے تجربے دئیے، یہاں کے منتظمین کے ذریعے خوبصورت لڑکیوں کا مسلسل جسمانی و ذہنی استحصال ہوتا، لیکن شردھا ان سب سے بچی ہوئی تھی یا یوں کہہ لیں کہ شردھا کی بدصورتی نے اس یتیم خانے میں شردھا کی حفاظت کی-
یتیم خانے سے نکلنے کے بعد اس نے اسی شہر کے ایک غریب علاقے میں چھوٹا سا کمرہ کرائے سے لیا اور ایک جنرل اسٹور پر کام کے لیے لگ گئی – کھانے اور کرایہ کے علاوہ اس کا کوئی اور خرچ تو تھا نہیں اس لئے رقم پس انداز ہونا شروع ہوئی ویسے بھی خرچ کرتی تو کہاں؟؟
میک اپ، اچھے ملبوسات شردھا کے کسی کام کے نہیں تھے –
پانچ برس میں اس کے اکاؤنٹ میں ایک خطیر رقم جمع ہوچکی تھی – اس کے ذہن میں شروع سے ایک ٹیکسی لینے کا خیال جڑیں بنا رہا تھا –
رقم کے جمع ہوتے ہی اس نے ایک نئی ٹیکسی خریدی، جنرل اسٹور پر کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایک ڈرائیونگ سکول سے کار ڈرائیو کرنا سیکھ لیا تھا اور سیکھنے کے فوراً بعد ہی اسے لائسنس بھی مل گیا-
جس دن شردّھا نے پہلی بار اپنی ٹیکسی شہر کی سڑکوں پر نکالی، ہر اسٹاپ چوک چوراہوں پر لوگوں نے اسے بڑی حیرت بھری نظروں سے دیکھا، ایک صحافی کی نظر بھی اس پر پڑ گئی اور اس نے شردّھا کے فوٹو کے ساتھ دوسرے دن کے اخبار میں شردّھا  کو شہر کی اولین خاتون ٹیکسی ڈرائیور کا خطاب دے دیا اور یوں سارا شہر اسے جاننے لگا –
ابتدائی دنوں میں وہ ٹیکسی آٹھ گھنٹے چلانے کے بعد کھڑی کر دیتی تھی، مگر تنہائی کے سولہ گھنٹے اس کے لیے گزارنے مشکل ہو جاتے، ان سولہ گھنٹوں میں وہ بمشکل ایک آدھ گھنٹے سو پاتی-
مگر اب وہ اس وقت تک شہر کی سڑکیں ناپتی رہتی، جب تک تھک کے چور نہیں ہوجاتی- بیس گھنٹے ٹیکسی چلانے کے بعد وہ بستر پر لیٹتے ہی سو جاتی اور ماضی کی یادوں سے بچی رہتی –
ٹیکسی چلاتے ہوئے یہ شردھا کا دسواں سال تھا اور شردّھا  بھی عمر کے کئی میل طے کر چکی تھی، اس وقت اس کی عمرچونتیس سال تھی ، اس نے ایک اچھے سے علاقے میں ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے سے لے لیا تھا اور اسے خوب اچھی طرح سجایا مگر اس فلیٹ کو اس نے آئینوں سے خالی رکھا، وہ آئینوں کا کرتی بھی کیا، سیاہ رنگت پھولی ہوئی ناک اور فربہی مائل جسم، کوئی ایسی چیز نہیں جسے آئینے میں دیکھا جائے اور ویسے بھی دن بھر مسافروں کی طنزیہ نظریں اس کے لیے آئینے کا ہی کام کرتی تھیں –
معمول کے مطابق وہ صبح سات بجے اپنی ٹیکسی لے کر نکلی – اگلے ہی چوراہے پر اسے ایک نوجوان ہاتھوں میں دبے ہوئے اخبار کو لہراتا ہوا نظر آیا، اس نے ٹیکسی روک دی –
“کراس روڈ، شیتل کارپوریشن جانا ہے!!! “
” جی بیٹھ جائے… “کہتے ہوئے  شردّھانے میٹر ڈاؤن کیا اور وہ نوجوان ہلکی سی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ تھینک یو بولتے ہوئے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا – ٹیکسی چلاتے ہوئے ایک دو بار شردھا نے عقبی شیشے میں دیکھا تو اسے اپنی جانب ہی دیکھتا ہوا پایا – بہت ہی پیارا اور خوبصورت سا نوجوان تھا، شردھا کا بھی جی چاہا کہ اسی عقبی آئینے میں بار بار دیکھے مگر فطری حیا آڑے آجاتی –
دس منٹ میں ٹیکسی مطلوبہ مقام پر پہنچ گئی، اس نوجوان نے تھینکس کہتے ہوئے کرایے کی رقم اس کی جانب بڑھا دی اور عمارت کی جانب بڑھ گیا – اندر داخل ہونے سے پہلے وہ مڑا تو شردھا کو اپنی ہی جانب متوجہ پایا، چردھا نے فوراً گئیر بدلا اور گاڑی آگے بڑھا دی – آگے جانے کے بعد بھی شردھا کی نگاہیں بار بار عقبی شیشے کی جانب اٹھ جاتیں مگر وہ تو جا چکا تھا –
دوسرے دن شردھا نے ٹیکسی وقت سے پہلے نکال لی اور اسی چوراہے پر جا کر رک گئی – جیسے اسے امید تھی کہ وہ نوجوان پھر آئے گا اور ویسا ہی ہوا دس منٹ کے بعد ہی ہاتھوں میں اخبار دبائے اسے وہ آتا ہوا نظر آیا، اتفاق سے اس وقت وہاں صرف شردھا کی ہی ٹیکسی موجود تھی – وہ جلدی سے ٹیکسی کی جانب بڑھا – قریب آتے ہی وہ چونک گیا –
“ارے آپ!!! واہ کیا اتفاق ہے! “اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا –
” آپ روز صبح اسی روٹ سے گزرتی ہیں؟ “
اس نوجوان نے شائستگی سے پوچھا..
” جی “
شردھا نے گئیر بدلتے ہوئے جواب دیا
“ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں، اگر آپ برا نہ مانیں تو…. “
اس نوجوان نے ہچکچاتے ہوئے مالتی سے کہا –
” جی کہیے، کیا بات؟ “
” وہ دراصل بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ٹیکسی کا ملنا بڑا دشوار امر ہے، اکثر ٹیکسی کے انتظار میں، میں آفس کے لیے لیٹ ہو جاتا ہوں، مجھے لگتا ہے آپ کا یہاں سے قریب میں ہی کہیں مکان ہے اور آپ کے ٹیکسی نکالنے کا وقت بھی وہی ہے جو میرا آفس کے لیے نکلنے کا وقت ہے، میں چاہتا ہوں کہ اگر آپ روزانہ مجھے اس چوراہے سے پِک کر لیں تو میں بہت بڑی دشواری سے بچ جاؤں گا “
شردھا کو یوں لگا جیسے زندگی میں پہلی بار اوپر والے نے اس کے دل کی بات سن لی ہے اور وہ بھی اتنی جلد…
اس نے فوراً جواب دیا –
” ہاں، ہاں، کیوں نہیں، مجھے بھی روزانہ ایک طے شدہ کرایہ مل جایا کرے گا – “
” اوہ! بہت بہت شکریہ! آپ نے…. سوری کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟ “
” شردھا “
ہاں شردھا جی، آپ نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی، شکریہ آپ کا بہت بہت شکریہ”
“ارے نہیں شکریے کی کیا بات ہے، میرا اپنا بھی تو فائدہ ہوگا –
شردھا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا –
وہ نوجوان بھی ہنس پڑا –
“امر! ویسے میرا نام امر ہے، شردھا جی آپ سے دوبارہ مل کر بڑی خوشی ہوئی “
باتوں کے دوران ہی ٹیکسی شیتل کارپوریشن پہنچ گئی ، نوجوان نے اترتے ہوئے اس یاد دہانی کرائی، مگر اس یاد دہانی کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ  شردھا کو اب صرف اگلی صبح کا انتظار تھا، وہ امر کے آنے سے آدھا گھنٹہ پہلے اسٹاپ پر پہنچ جاتی اور بے چینی سے اس کا انتظار کرتے رہتی، کچھ ہی دنوں میں امر اس سے اتنا گھل مل گیا کہ اب شردھاسیدھا امر کے مکان سے اسے بٹھاتی اور امر کی واپسی بھی شردھاکے ساتھ ہی ہوتی –
آج شردھا نے مارکیٹ سے پہلا آئینہ خریدا اور اُسے لا کر اپنے ڈرائنگ روم میں لگا دیا اور اس کے سامنے کھڑی ہو گئی، آج شردھا کو اپنی بدصورتی اتنی زیادہ محسوس نہیں ہو رہی تھی –
وقت کے ساتھ ساتھ شردھا نے خود پر بھی خرچ کرنا شروع کر دیا اب وہ اچھے اسپرے استعمال کرتی، نئے فیشن کے لباس خریدتی، ساتھ ہی ساتھ اس کے فلیٹ میں آئینوں کی تعداد بھی بڑھ چکی تھی – گھر جانے کے بعد وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھتے رہتی – ہر بار اسے ایسا محسوس ہوتا کہ امر کی نگاہیں بھی اسے دیکھ رہی ہیں اور وہ شرما جاتی –
اس دن شردھا نے دوپہر دو بجے امر کو شیتل کارپوریشن سے بٹھایا اور کچھ ہی دور گئی ہوگی کہ ٹیکسی ایک جھٹکے سے رک گئی –
“ارے! کیا ہوا شردھا؟ ٹیکسی کیوں روک دی؟ “
” دیکھتی ہوں، شاید انجن میں کچھ خرابی ہوگئی ہے “کہتے ہوئے شردھا اتر گئی، بونٹ اٹھائے کافی دیر تک وہ پریشان رہی، تھوڑی دیر بعد اسے مانوس سی خوشبو کا احساس ہوا، امر اس کے بالکل بازو میں کھڑا تھا –
” کیا ہوا شردھا؟ “
” کچھ نہیں صاحب معمولی سی خرابی تھی، شاید دور ہوگئی ہے، میں اسٹارٹ کر کے دیکھتی ہوں –
شردھا نے ٹیکسی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی اور وہ پہلی ہی کوشش میں چل پڑی –
“آئیے امر جی! بیٹھ جائیں “
اوہ بھگوان کا شکر ہے ٹیکسی اسٹارٹ ہوگئی ورنہ اب دوسری ٹیکسی کی تو عادت ہی نہیں رہی”
امر نے ہنستے ہوئے کہا اور اسی وقت اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی –
“ہاں ٹینا ڈارلنگ … ارے کچھ نہیں وہ ٹیکسی راستے میں بگڑ گئی تھی اس وجہ سے تھوڑی دیر ہوگئی، نہیں نہیں میں بس پندرہ منٹ میں ریسٹورنٹ پہنچتا ہوں، اوہ سوری ٹینا… او کے… بائے “
کہتے ہوئے اس فون ڈسکنکٹ کیا اور شردھا کومخاطب کرتے ہوئے  کہنے لگا..
” شردھا آج تمہیں تھوڑی سی تکلیف دینا چاہوں گا “
” کہیے امر جی کیا کرنا ہے؟ “میرے مکان پر تھوڑی دیر کے لئے تمہیں رکنا ہے، میں چینج کر لوں پھر مجھے گرینڈ ریسٹورنٹ ڈراپ کر دینا”
“جی امر جی، جیسا آپ کہیں “
شردھا نے ٹیکسی امر کے گھر کے باہر روکی تھوڑی ہی دیر میں امر نہایت خوبصورت لباس میں باہر آیا اور ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا –
” چلیں شردھا؟ تھوڑا فاسٹ…. “
شردھانے ٹیکسی آگے بڑھا دی اور تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں امر کو گرینڈ ریسٹورنٹ کے باہر اتار دیا – ہوٹل کے باہر ہی ایک دراز قامت خوبصورت لڑکی کھڑی ہوئی تھی، اس نے جیسے ہی امر کو دیکھا لپک کر قریب آئی اور امر کے گلےلگتے ہوئے کہنے لگی –
” اوہ امر، میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی تھی “
” سوری، ڈارلنگ ویری ویری سوری، ٹیکسی میں خرابی کے باعث میں تھوڑا لیٹ ہوگیا، بٹ چلو اب اندر چلتے ہیں، تھینکس شردھا… “
امر نے شردھا کو دیکھا کر ہاتھ لہرایا اور ریسٹورنٹ میں داخل ہو گیا –
شردھا نے خاموشی سے ٹیکسی آگے بڑھا دی
——-
امر چوراہے پر کھڑا بے چینی سے ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا –
” شردھا آج آئی کیوں نہیں ابھی تک؟ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا… اوہ لگتا ہے ٹیکسی نے آج پھر ہاتھ بتا دیا ہوگا “
خود سے ہی سوال جواب کرتے ہوئے امر نے کھمبے سے ٹیک لگائی اور اخبار کھول لیا –
 اس کی نظریں ایک خبر پر رک گئیں –
خبر تھی کہ..” کولابار علاقے میں ایک فلیٹ سے شردھا نامی شہر کی اولین خاتون ٹیکسی ڈرائیور کی لاش ملی ہے، اندازہ ہے کہ اس نے خودکشی کی ہے – اس سارے واقعے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے فلیٹ میں درجنوں آئینے تھے لیکن سارے آئینے پولس کو ٹوٹے ہوئے ملے –
امر نے اخبار فولڈ کیا اور قریب سے گزرتی ہوئی ٹیکسی کو آواز دی…
“ٹیکسی”
                           —————–
علم والوں کی بستی اور دین والوں کے شہر مالیگاؤں کے  افضال انصاری نئی نسل کے ذہین افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں. درس و تدریس سے وابستہ ہیں. مطالعہ کے رسیا ہیں. قلمدان ادبی واٹس ایپ گروپ سے لکھنے کا آغاز کرنے والے افضال انصاری نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر جامعہ اردو علی گڑھ کے پلاٹینم جوبلی جشن میں افسانے کے نام پر شہر مالیگاؤں کی نمائندگی بھی کی ہے.
فیس بک کے ادبی فورمز اردو افسانہ فورم، عالمی افسانہ فورم اور حقائق پر لگنے والے تمام افسانوں کو پڑھنے اور ان پر بے لاگ تبصروں کے سبب بھی آپ محترم مانے جاتے ہیں. موصوف مستقبل قریب میں افسانوں کے مجموعہ کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں.
قلمکار :افضال انصاری
اسلام نگر، مالیگاؤں
موبائل :9226070707