Aesthetic of Absurd: Miraji by Moid Rasheedi

Articles

ابہام کی جمالیات : میراجی

معید رشیدی


[شعر خوب معنی ندارد…بیدلؔ]

شعری دھند میں لپٹی ہوئی دوآوازیں ہیں…میرجی اورمیراجی۔دوسایے ہیں جو ہمارے تعاقب میں ہیں اور ہم ان کے تعاقب میں۔داستان رات اور سایے کی ہے۔رات انسان کی پہلی شناخت ہے۔سایہ آدمی کا پہلاہمزاد ہے۔سایے کی رات کتھادھند کے خمیر سے پھوٹی ہے۔یہ زمین بنجرہے!۔یہاں سوال اگتے ہیں:
جانے کس پاتال سے آئے
دھندلی رات کے دکھیا سائے
پاتال،رات اور سایہ…تینوں علامتیں ہیں۔معنوی اعتبارسے نہایت دبیز۔ان کی وجودی تعبیرمعنی کو وہ سمت عطاکرتی ہے جہاں لفظ’گنجینۂ معنی کاطلسم‘بن جاتاہے۔اس شعر کے توسط سے جب ہم نے میراجی کو سمجھنا شروع کیاتومحسوس ہواکہ یہ شخص دیوانہ ہے۔سوالات بہت کرتاہے،اورسوالات بھی ایسے کہ اس کے ہر سوال میں سوالوں کی ایک دنیاآباد ہے۔دھندلی رات کادکھیاسایہ دھرتی کے پاتال تک پہنچنے کی کوشش میں ماراماراپھرتاہے:
نگری نگری پھرامسافرگھرکارستہ بھول گیا
کیاہے تیراکیاہے میرااپناپرایابھول گیا
آوارگی ابہام کاچہراہے۔دھندلی رات کے دکھیاسایے نے ابہام کی چادر اوڑھ لی ہے۔ابہام کیاہے؟یہ کوئی صنعت نہیں۔ہرلفظ اس وقت تک مبہم اوربے معنی ہے جب تک ہم اسے مفروضوں کے ذریعے بامعنی نہ بنائیں۔ابہام لفظ کے خمیر میں ہے۔یہ مانوس و نامانوس کاایک سلسلہ ہے جس میں شاعر زندگی کے تجربوں کواجنبیاتاہے۔ابہام معنی کے طرفوں کوکھولنے کے لیے متن کی قرأت کاطریقہ بھی فراہم کرتاہے۔یہ طریقہ سوال سے شروع ہوکر سوال ہی پر ختم ہوجاتاہے۔ابہام کے پاتال میں چھپی زندگی خود سب سے بڑاسوال ہے۔توپھرابہام سے مفرکہاں؟قرأت کاتجزیاتی نظام ہرلفظ کومعنوی اساس پر پھیلنے کا موقع عطاکرتاہے۔استعارہ لفظ کے معنوی امکانات کو پھیلانے کاعام ذریعہ ہے۔زبان کی اساس استعاراتی ہے۔مفروضہ جب روزمرہ کاحصہ بن جاتاہے تو اس کی استعاراتی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔اس لیے ہرنیااستعارہ مشاہدے کی ندرت کوپیش کرتاہے۔شاعری زبان کامعجزہ ہے۔اس لیے ادبی تخلیق پر ہونے والی ہربحث کاآغاز لسانی بنت کے مسائل سے ہوتاہے۔لفظ ومعنی کے رشتے کوسمجھے بغیر معنوی رعایتوں کی تفہیم ادھوری ہے۔ہراستعاراتی پیکر مشاہدات کے متعدد اجزاسے باہم مربوط ہوتاہے۔انھی اجزاکی کثرت سے رعایتیں وجود میں آتی ہیں۔چونکہ مجازکی تمام صورتیں ابہام کی کوکھ سے پیداہوئی ہیں،اس لیے قاری کا ذہن ان صورتوں سے آشناہوتے ہوئے بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ہرقاری متن سے مطابقت کانیاقرینہ ڈھونڈتاہے۔
ابہام شعری خواص کوتوانابناتاہے،کیونکہ یہ شاعری کی جڑوں میں پیوست ہے۔یہ ذہن کی مستقل حالت ہے۔انسانی ذہن ہمیشہ شک،واہمہ یامبہم کیفیات کاشکار،رہتاہے۔عبیداللہ علیم کی ایک تقریب میں جون ایلیانے کہاتھاکہ شاعری اظہارذات نہیں،بلکہ ہیجانِ ذات کااظہارہے۔یہ دراصل ذات کے حوالے سے ذہنی ہیجان کامعاملہ ہے جواکائی کی صورت کسی تخلیقی متن میں اپنی تمام ترکثرت کے ساتھ متشکل ہوتاہے۔کوئی بھی نظم،چاہے اس کابیانیہ جتنابھی سپاٹ ہو،ابہام سے مبرانہیں ہوتی۔نظم کاکوئی بھی مطالعہ شرح،تعبیریاتجزیے کے لیے نہ صرف ابہام کے درجات سے ہوکرگزرتاہے،بلکہ ان میں الجھتابھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تخلیقی متن کی قرأت ایک نوع کامجاہدہ بھی کہلاتی ہے۔قرأت کی پیچیدگیاں باذوق قاری کو مسرت بہم پہنچاتی ہیں۔میراجی کی شاعری میں ابہام ایک پاتال ہے۔فکری بنت،دھندلی رات کی مانند ہے اور دکھیاسایہ ان کامرکزی شعری کردار۔اسی لیے ابہام کی جمالیات کو ہم نے ان کی شاعری کاسرنامہ بنایاہے۔قرینہ یہ ہے کہ باغی اور وحشی تخیل والایہ دکھیاسایہ دھندلے اوراندھے نغموں میں راتوں کی کہانی سناتاہے:
آؤ۔اپنے باغی،وحشی تخیل کی
دھندلے،اندھے نغموں میں
سن لوکہانی راتوں کی۔ [مدھوری بانی]
یہ تحریر آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
قصہ گوئی کی تاریخ/تصور،رات ہی سے وابستہ ہے۔انسان نے اپنی اساطیر کوتخیلی حکایات میں پہچانا۔رات کتھاکابیانیہ سادہ ہوہی نہیں سکتااوریہاں تورات کاہرلمحہ خون بن کر تجربے کی آنکھوں سے رس رہاہے۔سرخ وسیاہ کے اس جنگل میں ایک سادھوآسن جمائے،دھونی رمائے پریم کے منتر پڑھ رہاہے۔الفاظ زبان سے اداہورہے ہیں اورمعنی کاچشمہ اداس آنکھوں سے پھوٹ رہاہے۔من مندر میں ایک دیوی ہے جس کے علم میں بنگال کاجادوہے۔روایت ہے کہ اس کے شہر میں جانے کے کئی راستے ہیں،واپس آنے کاکوئی راستہ نہیں۔اب سادھواس شہرکافقیربن چکاہے۔وہ اس شہر کی سانولی مٹی میں ضم ہوچکاہے۔اسی مٹی سے کالی بنتی ہے اورمیراسین کامیراجی کالی[رات]کی کہانی سنارہاہے:
رات اندھیری،بن ہے سونا،کوئی نہیں ہے ساتھ،
پَوَن جھکولے پیڑ ہلائیں،تھرتھرکانپیں پات
دل میں ڈرکاتیرچبھاہے،سینے پرہے ہاتھ،
رہ رہ کرسوچوں یوں کیسے پوری ہوگی رات؟ [نارسائی]
واہمہ کے دشت میں میراجی کاتخیل ارضی پیکرتراشتاہے۔ان کاارضی بیانیہ قدیم وطویل ہندوستانی تہذیب کے سلسلوں سے عبارت ہے۔ان کاکلام انھی سلسلوں کامظہرہے۔ابہام کی جمالیات نے ان کے تخیل کودبازت عطاکی ہے۔ان کی قرأت میںمعنوی پہلوؤں کی دریافت کے لیے ابہام کے مدارج کوطے کرناہے۔ابہام اورایہام میں فرق ہے۔ایہام[Pun]ایک شعری صنعت ہے جس میں ایک لفظ کے دومعنی مراد لیے جاتے ہیں۔ایک قریب کاہوتاہے،دوسرابعید کا،اورلکھنے والے کی مراد بعیدمعنی سے ہوتی ہے۔Ambivalenceبھی اسی سے مشابہ ہے۔یہاں دونوں معنی ایک دوسرے سے جداہونے کے ساتھ محدود ہوتے ہیں،جبکہ ابہام کثرت ِ معنی پردال ہے۔ابہام کی تعریف میں مارکسی نقادٹیری ایگلٹن لکھتاہے:
Ambiguity happens when two or more senses of a word merge into each other to the point where the meaning itself becomes indeterminate.(1)
یعنی ابہام معانی کاانضمام ہے۔کسی سیاق یاتناظر میں کوئی مبنی برابہام لفظ اپنے لغوی معنی [Literal Sense]میںاستعمال نہیں ہوتا۔ایک لفظ سے جب کئی معنی دریافت ہوں تومجازاپناسایہ وسیع ترکرلیتاہے۔کسی مخصوص/لغوی معنی سے تجاوزشعری عناصر[تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجازمرسل، تمثیل، مبالغہ،علامت وغیرہ]کی تشکیل کاموجب بنتاہے۔بنیادی چیز تخیل ہے۔قوتِ واہمہ[Fancy]اس کاغیر منقسم حصہ ہے۔واہمہ مختلف معانی میں ارتباط پیداکرتاہے اورمنضبط قوتِ حاسّہ اسے صحیح سمت عطاکرتی ہے۔واہمہ ابہام کی کلید ہے۔ابہام عام گفتگو میں بھی درآتاہے،لیکن سب سے مبہم شعری زبان ہوتی ہے جس کاہرجزاپنی فطرت میں جدلیاتی ہوتاہے۔شمس الرحمن فاروقی کاخیال ہے:
اجمال اور جدلیاتی لفظ کے بعد ابہام شاعری کی تیسری اورآخری معروضی پہچان ہے۔[موزونیت اوراجمال کی موجودگی ہمیشہ فرض کرتے ہوئے]ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگرکسی شعر میں صرف ابہام ہی ہے توبھی وہ شاعری ہے۔عام طورپرجدلیاتی لفظ اورابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں،لیکن جس طرح تنہاجدلیاتی لفظ شعرکوشاعری میں بدل دیتاہے،اسی طرح تنہاابہام بھی شعر کوشاعری بنادیتاہے۔شعر میں ابہام یاتوعلامت سے پیداہوتاہے یاایسے الفاظ کے استعمال سے جن سے سوالات کے چشمے پھوٹ سکیں۔جتنے سوالات اٹھیں گے شعراتناہی مبہم ہوگااوراتناہی اچھاہوگا۔(2)
یعنی اجمال اورجدلیاتی لفظ کی طرح ابہام بھی شاعری کامستقل جزہے،اوریہ تینوں شاعری کی معروضی شناخت مقرر کرتے ہیں،لیکن ابہام بذاتِ خود کبھی معروضی نہیں ہوتا۔[یعنی] ابہام کی معروضی شناخت ممکن نہیں،کسی مبنی برآہنگ شعری متن میں ابہام موجودہوتواسے شاعری کہاجاسکتاہے۔ابہام شاعری کی آخری معروضی شناخت نہیں،بلکہ یہ پہلی شناخت ہے اورشاعری کی اولین شرط بھی۔فاروقی صاحب بجافرماتے ہیںکہ اگرکسی شعرمیں صرف ابہام ہی ہے توبھی وہ شاعری ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام طورپرجدلیاتی لفظ اورابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ابہام پہلے آتاہے،جدلیاتی لفظ بعدمیں۔اس لیے کہ جدلیاتی لفظ کی بنیاد ہی ابہام پرہے۔وہ کون سااستعارہ ہے جس سے ایک سے زائد سوالات پیدانہیں ہوتے؟اگرسوالات پیداہوتے ہیں تواس کی وجہ ابہام ہے۔اس طرح اس کی اولین حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔چوں کہ جدلیاتی لفظ از خود مبہم ہوتاہے،اس لیے ترسیل کا مسئلہ بھی پیداہوگا۔ابہام میں ابلاغ کاعمل جمالیات کوبھی طے کرتاہے۔
یہ تحریر آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
اکثر کہاجاتاہے کہ فلاں شعر/نظم مہمل ہے۔ابہام سے شعر نہ توچیستاں بنتاہے اور نہ ہی مبالغے سے کوئی شعرلغویات کے دائرے میں آتاہے۔ہرشعرمہمل نہیں ہوتا۔قصور تواپنی تفہیم کابھی ہوتاہے۔کوئی خیال کسی کے لیے مہمل ہوسکتاہے،لیکن وہی خیال دوسروں کے لیے بھی مہمل ہو،کوئی ضروری نہیں۔مبالغہ ابہام کے بطن سے نکل کر استعارے کی وجودیات میں داخل ہوجاتاہے۔ابہام نہ تواہمال ہے اور نہ اِشکال۔اہمال’مہمل گوئی‘کوکہتے ہیں،جبکہ ابہام معنی خیزی کاعمل ہے۔یہاں کوئی نہ کوئی معنی ضرورنکل آئے گا۔اِشکال میں کوئی خیال مشکل ضرورہوتاہے،ناقابلِ فہم نہیں۔بعض حوالوں سے یہ مشکل دورہوسکتی ہے۔کہاجاتاہے کہ’شاعری انکشاف ہے اسی لیے مبہم ہے۔‘کسی پرمہملیت کالیبل لگانابہت آسان ہے۔جب آدمی بشیربدراوراحمدفرازکوپڑھنے کاعادی ہوجاتاہے تواسے ن۔م۔راشداورمیراجی کی شاعری تومہمل معلوم ہوگی ہی۔ہم نے بعض لوگوں کوکہتے سناہے کہ میراجی مہمل بکتے ہیں۔کچھ لوگوں کویہ شکایت ہے کہ جس طرح فیض ہماری زبان پررہتے ہیں،میراجی نہیں رہتے۔ان کاکلام زبان زدنہیں ہوتا۔بھئی زبان زد توچٹکلے بھی ہوجاتے ہیں۔توشاعری اورلطیفے میں کیافرق ہے؟فیض کامیراجی سے کوئی موازنہ نہیں۔دونوں اپنے ڈھب کے شاعر ہیں۔میراجی کاکلام اگریاد نہیں رہتاتواس میں ان کاکوئی قصورنہیں۔میراجی وجودکاشاعرہے۔وہ مٹی میں چھپے پاتال میں لے جاناچاہتاہے۔جب زندگی ہی مبہم ہے تومیراجی سے کیوں مطالبہ کیاجائے کہ ان کے مطالب آسان ہوں؟ فاروقی صاحب نے پرلطف بات کہی ہے کہ :
ذاتی طورپرمیں کسی شاعری کومہمل کہنے سے اتناہی ڈرتاہوںجتناکوئی مسلمان دوسرے مسلمان کوکافرکہنے سے ڈرتاہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میںکفرکافتویٰ ہمیشہ سے بہت سستارہاہے،اورآج بھی ہے۔(3)
اب تک کی گفتگومیں بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ ابہام کی شناخت کیوں کرمقررکی جائے؟ابہام کی دبازت علامت ہے۔علامت میں تشبیہ،استعارہ یاتمثیل کامفہوم شامل ہوتاہے۔یہ استعارے سے زیادہ عمیق ہے۔علامت اپنے تمام انسلاکات کے ساتھ ظاہرہوتی ہے۔فرض کیجیے کہ’ آسمان‘،زمانے کااستعارہ ہے،لیکن اس میں عظمت،وسعت،تحرک،تغیر،وقت،جیسے تمام مفاہیم بھی موجود ہیں۔آسمان،خداکابھی استعارہ ہوسکتاہے اورظالم کابھی۔اس کی کیفیت کی مناسبت سے مفاہیم بدلیںگے،لیکن یہی آسمان جب علامت کے معنی میں لیاجائے گاتواس میں یہ سارے معانی مراد لیے جائیںگے۔
ابہام پرگفتگومیں سرولیم ایمپسن کی کتاب’Seven Types Of Ambiguity‘اہم حوالہ ہے۔یہ کتاب ایمپسن نے اس وقت لکھی جب وہ بائیس برس کے بھی نہیں تھے۔جب وہ چوبیس سال کے ہوئے توپہلی بار یہ کتاب 1930میں شائع ہوئی،اورجدیدادبی تنقید میںسنگ میل قراردی گئی۔ایمپسن نے ابہام کو سات حصوں میں تقسیم کرکے ان کی الگ الگ درجہ بندی کی۔اس نتیجے پرپہنچے کہ ابہام شاعری کے خمیرمیں ہے۔ابہام کی تعریف میںلکھتے ہیں:
‘Ambiguity’ itself can mean an indecision as to what you mean, an intention to mean several things, a probability that one or other or both of two things has been meant, and the fact that a statement has several meanings.It is useful to be able to separate these if you wish, but it is not obvious that in separating them at any particular point you will not be raising more problem than you solve.(4)
ایمپسن نے ابہام کی جمالیات کواسلوب کی لطافت سے تعبیر کیاہے۔ہماراخیال ہے کہ ابہام توبت ہزارشیوہ ہے۔اس تک رسائی کے محض سات نہیں،ہزاروں درہیں۔اس کی تہ میں اترنے کی کوشش میں قاری مزید الجھتاجاتاہے،اورمعنی التوامیں رہتاہے۔
کچھ لوگ ابہام کے بڑے مخالف ہیں ۔میراجی اور راشد کی شاعری کے مطالعے میں ابہام کا ذکر شدو مد سے کیا جاتا رہاہے ۔یہاں سلیم احمد کے دو مضامین کا حوالہ دینا مناسب معلوم پڑتا ہے ۔ ’ابہام کیوں ؟‘ اور ’ ابہام اور بازی گری ‘ ۔ انھوں نے ابہام کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے اور اس نوع کے سوالات قائم کیے ہیں :
·ہمیں ایک نظم مبہم معلوم ہوتی ہے ۔ اس کا کیا سبب ہوتا ہے ؟
·[قاری کے ساتھ] شاعر بھی ابہام میں مبتلاہوتا ہے ۔ کیوں ؟
·ابہام کی فنی ضرورت کیا ہے ، یعنی دانستہ ابہام کی غرض و غایت کیا ہے ؟
سلیم احمد نے ابہام کی ممکنہ صورتوں کا جائزہ لینے کی بساط بھر کوشش کی ہے اور ابہام کو الہام سے ملاکر دیکھا ہے :
شاعری کے کسی سنجیدہ طالب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ شاعری اپنی آخری حدود میں ’’حقیقت نامعلوم‘‘ کا اشاریہ ہے ۔ یہ حقیقت اظہار اور ابلاغ سے گریزاں ، اور طالب ِ اخفا ہے ۔ اس کی فطرت ہی یہ ہے کہ ظاہرہونے سے بچتی ہے ۔ مگر شاعری ہمیشہ اس حقیقت پر کمند انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ۔ یہ حقیقت تو قابو میں نہیں آتی مگر شاعری ایک ایسا آئینہ ضرور تیار کردیتی ہے جس میں اس کا عکس جھلملانے لگے یا کم از کم وہ نیم ظاہر ہوجائے ، گھونگھٹ میں چھپے ہوئے محبوب کی طرح حقیقت کی یہ جلوہ نمائی شاعری کو الہام بنادیتی ہے ۔ الہام ابہام کے بغیر ممکن نہیں ، اور راز کھل کر بھی راز ہی رہتے ہیں ۔(5)
یہ تحریر آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
شاعری کو الہام کہاجاتارہاہے ۔ یہ ایک الگ نظریہ ہے ۔ شاعری الہام ہے یا نہیں ، الگ بحث کا موضوع ہے ، لیکن اس بحث میں بعض اختلافات کے باوجود جو نکتہ اہم ہے وہ ابہام کا اعتراف ہے ، کیونکہ یہاں الہام کا دارومدارہی ابہام پر رکھاگیا ہے ۔[ایہام سے قطع نظر ] نظری سطح پر ابہام کے مطالعے کا چلن میراجی اور راشد کی شاعری کے جائزے سے ہوا۔ ایک گروہ نے ابہام کی حمایت کی اور دوسرے نے سخت مخالفت ۔ اس معرکے میں ابہام کی نظری اساس کو استحکام حاصل ہوا۔سلیم احمد کا مضمون ہے ’ ابلاغ کا مسئلہ ‘ ۔ اس میں انھوں نے وزیر آغاکے مضمون ’ ابلاغ سے علامت تک ‘ پر گفتگو کرتے ہوئے شاعری میں ابلاغ کے مسئلے کوالہام [ غیر اناکا شعور]کے حوالے سے سلجھانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے نزدیک تخلیق ،داخلیت [غیر انا کا شعور] سے خارجیت [ انا کا شعور ] کے سفر کا نام ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ تخلیقی امیج پوری تخلیقی شخصیت کا نچوڑ ہوتی ہے ۔ انھوں نے وزیر آغا اور شمس الرحمن فاروقی کی شاعری کو بری شاعری کا نمونہ اس بنیاد پر قرار دیا کہ ان کے یہاں ’غیر انا‘ کا شعور ’انا‘ کے شعور سے مکالمے پر تیار نہیں ہوتا اور اسی لیے ان کی شاعری میکانکی ہوجاتی ہے ۔ انھوں نے ’ فکر کا طاعون ‘ والے مضمون میں فاروقی صاحب سے اپنے اختلافات واضح کیے ہیں ۔اس ضمن میں فاروقی صاحب کے تین مضامین حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’ تعبیر کی شرح ‘ ، ’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘ اور ’ شعر کا ابلاغ ‘ ۔ان مضامین کا براہِ راست تعلق ابہام سے ہے ۔ متن سے معنی کشید کرنے کا عمل تعبیر کہلاتا ہے ۔ تعبیر کے مختلف وسائل ہیں۔تعبیر کے عمل میں معنی کشید کرنے کا مرکزی وسیلہ ابہام ہے ۔تخلیقی سطح پر اظہار ، ترسیل اور ابلاغ کے تینوں مراحل میں زیریں لہر کے بطور ابہام موجود ہوتاہے ۔ ادبی تخلیق میں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے وجدان کو اپنے اوپر مکمل طور پر ظاہر کرلیاہے ؟کیا اس بات پر کوئی مصر ہوسکتا ہے کہ اس کے اظہار نے مکمل ترسیل حاصل کرلی ہے ؟ کیا اس پہلو پر کوئی اَڑ سکتا ہے کہ اسے تخلیقی متن کا پور ا ، ابلاغ ہوچکا؟ترسیل کی ناکامی کے لیے مصنف کو قصور وار ٹھہرانے سے پہلے تھوڑے توقف کے ساتھ غور کرلینا چاہیے کہ متن کا تشکیلی نظام کیا کہتا ہے اور متن کی قرأت کیسے کی جائے ؟ ہر متن ایک ہی زاویے سے نہیں پڑھاجاسکتا۔میراجی کا متن ترسیل کی ناکامی کا المیہ نہیں ؛ ابہام کی جمالیات کا محورہے ۔ محمد حسن عسکری نے میراجی پر خاکہ لکھتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ لوگوں کو میراجی سے شکایت رہتی ہے کہ وہ سمجھ میں نہیں آتے ۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے پڑھنے والوں کا خیال نہیں رکھا۔ اس نوع کی باتیں اب کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ۔
کلیات میراجی کی پہلی نظم ہے ’چل چلاؤ‘۔موضوع ’بے ثباتی ِ دنیا‘۔اس موضوع پر شاعری کا انبار ہے۔میرؔ جی نے تو ہستی کوحباب اور اس کی نسبت ، نمائش کو سراب سے تعبیر کیا ہے۔میر کے ہم عصر نظیر نے بھی کہا ہے ۔’سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا /جب لاد چلے گا بنجارہ‘۔ولی نے بھی خدو خال کی بات کو خال خال بتا کر زندگی کو دردو غم سے جوڑ دیا ہے۔میرجی سے میراجی تک کے سفر میں بے ثباتی ِ دنیا کا موضوع پامال بھی بہت ہوا۔شیلی بھی کہہ کر چلا گیا:
Our sweetest songs are those that tell of sadist thought
اس طرح درد و غم کے اظہار پر شاعروں کا اجارہ ٹھہرا۔حزنیہ اظہار شعر گوئی کا فیشن بھی قرار پایا۔جب تک درد کی جبلت کو محسوس نہ کیا جائے۔جب تک غم کی ماہیت سے ہوکر نہ گزراجائے۔اسے اپنے باطن میں کیسے اتارا جاسکتاہے؟ہاں صاحب ، میراجی غم کاشاعر ہے۔دکھوں کو اس نے پہچان لیاہے۔درد اس کے درون میں ہے۔غم اس کے وجود میں ہے۔وہ اپنے تخیل کو وحشی کیوں کہتا ہے؟راتوں کی کہانی کیوں سناتا ہے؟یہ کیسا عاشق ہے جو محبوب کی چوٹی اور کمر کا مقتول نہیں؟اس کے یہاں محبت پوجا بن گئی ہے اور اس محبت سے پھوٹنے والاہر منطقہ اس کے لیے مقدس ہے۔
میراجی کی شاعری عشق کا صحیفہ ہے۔اس جوگی نے دنیا کو ہزار رنگ میں دیکھا،لیکن:
’بس دیکھا اور پھر بھول گئے‘
کیوں؟اس لیے کہ کسی منظر کو ثبات نہیں۔’چل چلاؤ‘ ایک ’ لمحے ‘ کی جمالیات کو محسوس کرنے کا تجربہ ہے۔زندگی کو دیکھنے کے بے شمار زاویے ہیں۔قطرے میں دریا کی تلاش تصوف کا علاقہ ہے۔جز کو عظیم کُل کا حصہ سمجھنا اہل تصوف کا شیوہ رہاہے۔زندگی کا ہر لمحہ حیات ِ کُل کاایک جز ہے۔فانی نے کہا ہے:’ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی/ زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا‘۔غالب نے بھی کہا ہے:’عشرت ِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا‘۔غالب جادہ ٔ راہ ِ فنا کو عالم کے اجزاے پریشاں کا شیرازہ بتاتے ہیں۔میراجی نے عرصۂ حیات کے ، ایک لمحے میں سمٹنے کا تجربہ کیا ہے :
ہر منظر ، ہر انساں کی دیا اور میٹھا جادو عورت کا
اک پل کو ہمارے بس میں ہے ، پل بیتا ، سب مٹ جائے گا،
اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو ،
تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو؟
کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی ؟

ہے چاند فلک پر اک لمحہ ،
اور اک لمحہ یہ ستارے ہیں ،
اور عمر کا عرصہ بھی ، سوچو ! اک لمحہ ہے !
[چل چلاؤ]
میراجی نے عرصۂ حیات کو ایک لمحہ سمجھنے کے ساتھ ہستی کو ایک ذرہ بھی تصور کیا ہے ۔مسرت کے فلسفے میں زندگی کو خواب سے تعبیر کرکے انھوں نے مسرت کے خوف کا ادراک کیا ہے ۔اس دنیا میں ہرشخص مسرت کی تلاش میں ہے لیکن وہ مسرت سے خوف کھاتے ہیں ۔اس لیے کہ کہیں یہ مسرت زندگی کو خواب نہ بنادے ۔مسرت میں جو رومان کا پہلو ہے وہ خواب کی کیفیت کو جلا بخشتا ہے ۔شکست ِ خواب ان کے یہاں کرب انگیز تجربہ ہے ۔خواب بہر حال خواب ہے ۔ہر خواب حقیقت نہیں بنتا۔خواب کا ٹوٹنا میراجی کے یہاں دل کا ٹوٹنا ہے ۔انھیں معلوم ہے کہ ہر مسرت فانی ہے ۔اس لیے اس تجربے سے گزرنے میں انھیں ڈر کا احساس ٹیسیں مارتا ہے :
میں ڈرتا ہوں مسرت سے ،
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں ، کائناتی نغمہ ٔ مبہم میں الجھا دے ؛
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت ؛
[میں ڈرتا ہوں مسرت سے ]
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کائنات کے نغمۂ مبہم میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر پل انھی نغموں میں گھرے ہوئے ہیں جن میں کائنات کے اسرار پوشیدہ ہیں ۔وہ ابہام کو بعض اوقات شعوری طور پر موزوں کرتے ہیں ۔ان کی بعض نظمیں پہلی قرأت میں آسان معلوم پڑتی ہیں لیکن جب تہہ میں اتر نے کی کوشش کی جاتی ہے تو معاملہ پیچیدہ ہوتا جاتا ہے ۔ان کی ایک نظم ہے ’سمندر کا بلاوا‘ ۔اس کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں ۔سمندر یہاں کلیدی وجودی علامت ہے ۔متکلم داخلی وجودی کردار ہے ۔بعض حضرات سمندر کو ماں کی علامت بتاتے ہیں کہ میراجی نے اپنی ماںکی یاد میں یہ نظم لکھی تھی ، لیکن اس طرح تو نظم ایک سیاق میں مقید ہوجاتی ہے ۔اس نظم کے کوڈز کو جب ڈی کوڈ کیا جاتا ہے تو معنی کی کئی نمایاں لہریں ابھرتی ہیں ۔ان لہروں میں بہہ جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور یہ معنی کی سیال کیفیات کی وجہ سے ہیں۔سرگوشیوں سے شروع ہونے والی اس نظم میں آوازوں کی چمک ، دھمک ، شور اور اسرار کا جال پھیلا ہوا ہے ۔’صدا‘ اور ’ندا‘ دو بنیادی ذیلی علامتیں ہیں:
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھارہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دیے جارہی ہے
عموماً صدا اور ندا کو ہم معنی تصور کیا جاتا ہے لیکن لغت اور علامت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔صدا پر ندا غالب ہے ۔صدا زندگی اور ندا موت ہے ۔اگر آپ اسے رد کرتے ہیں تو صدا خارج اور ندا باطن کا بلاوا ہے۔ اگر آپ اسے بھی رد کرتے ہیں تو صدا فانی ہے اور ندا لافانی تجربہ ہے ۔ ہر اک شے سمندر سے آئی اور سمندر میں جاکر ملے گی تو اس سمندر کا بلاوا وجود کا بلاوا ہے ۔سمندر کی ندا قطرے کی صدا سے ٹکرا رہی ہے :
یہ اک گلستاں ہے …ہوا لہلہاتی ہے ، کلیاں چٹکتی ہیں /…
یہ پر بت ہے …خاموش ساکن /…
یہ صحرا ہے …پھیلاہوا ، خشک ، بے برگ صحرا /…

نہ صحرا نہ پربت ، نہ کوئی گلستاں ، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی ، سمندر میں جاکر ملے گی
گلستاں ہو ، پربت ہو کہ صحرا، تینوں دبیز علامتیں ہیں ۔ ان میں زندگی کے دونوں پہلو موجود ہیں۔ گلستاں میں ہواکا لہلہانا، کلیوں کا چٹکنا ،غنچوں کا مہکنا، پھولوں کا کھلنا …یہ سب زندگی اور بقا کی علامتیں ہیں لیکن انھیں پائداری میسر نہیں ۔بہار کے بعد خزاں کا دور بھی آتاہے ۔پربت کے دامن میں وادی ہے ۔وادی میں ندی ہے ۔ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہے ۔ندی زندگی کی علامت ہے ۔اس کی حرارت میں ناؤ کا بہنا زندگی کا رومان ہے لیکن ناؤ بہتے بہتے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔منظر ، پس منظر میں چلاجاتا ہے ۔حال سے ماضی بننے کا سفر تاریخ کے جبر کو بھی ہویدا کرتا ہے ، اس کے فنتاسی کو بھی اوراس کے اثبات کوبھی ۔صحرا کے بگولوں سے بننے والے عکس مجسم بھی زندگی کی رمق لیے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اک پل کو یہ متشکل ہوتے ہیں اور جیسے ہی طوفان اٹھتا ہے یا تند ہوا چلتی ہے تو عکس ِ مجسم بکھرجاتے ہیں ۔یہ فنا کی منزل ہے ۔یعنی ہر شے فانی ہے ۔تغیر مادّے کی فطرت میں ہے ۔مادہ ایک صورت سے دوسری صورت میں منتقل ہوتا ہے ۔ختم نہیں ہوتا ۔فنا اور بقا ،دونوں مستقل حالت نہیں ہیں ۔ہر بقا کو فنا کے رستے ہوکر گزرناپڑتا ہے ۔بہار کے بعد خزاں ہے لیکن خزاں کے بعد نئی بہار بھی تو ہے ۔ہرشے سمندر سے آئی ،سمندر سے جاکر ملے گی ۔سمندر زندگی کی نہایت عمیق علامت ہے ۔یہ زندگی کا منبع ہے ۔سمندر وقت کی بھی علامت ہے ۔شاعر پر یہ راز کھل چکا ہے کہ ثبات محض تغیر کو ہے ۔ہر شے مدارج ِ انتقال سے گزرتی ہے ۔اس لیے شاعر کی نظر اب نہ صحرا پر ہے ، نہ پربت پر اور نہ کسی گلستاں پر۔شاعر تو پیڑوں کے ایک جھرمٹ پر اپنی نگاہیں جمائے ہوا ہے ۔جھرمٹ جہاں ہر درجے کے پیڑ موجود ہیں۔مختلف رنگ، نسل اور جسامت کے ۔ ایک پیڑ گرتا ہے تو وہیں کوئی نو نہال سر اٹھاتا ہے ۔اجتماع تہذیب کابھی نقش ہے ۔یہاں ہر وحدت ، کثرت کا حصہ ہے ۔جس طرح فرد سماج کااور جس طرح قطرہ سمندر کا حصہ ہے :
نہ صحرا نہ پربت ، نہ کوئی گلستاں ، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی ، سمندر میں جاکر ملے گی
جب شاعر یہ کہتا ہے کہ ’ تو پھر یہ ندا آئینہ ہے ، فقط میں تھکا ہوں ‘ ، تو آئینے کا طلسم ٹوٹتا ہے ۔ نداآئینہ ہے اور آئینہ وجود ۔جسم مرتا ہے ، روح منتقل ہوتی ہے ۔اسی طرح آئینے میں عکس کچھ دیر کو ٹھہرتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے ۔آئینہ قائم رہتا ہے ، چہرے بدل جاتے ہیں ۔
’دن کے روپ میں رات کہانی ‘، ’جاتری ‘، ’محبت‘ ، ’ اونچا مکان ‘ ، ’ عکس کی حرکت ‘ ، ’ شام کو ، راستے پر ‘ ، ’ اُفتاد‘ ، ’ محبوبہ کا سایہ ‘ ، ’ فنا ‘ جیسی دیگر تمام نظمیں ابہام کی جمالیات میں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں:
لیکن یہ رنگ خیالوں کے اب میری نظر میں سایہ ہیں
سب بیتی رات کا جادو ہیں ، سب پچھلے جنم کی مایا ہیں [محبوبہ کا سایہ ]
جس جگہ آکے ازل اور ابد ایک ہوئے تھے دونوں ،
ایک ہی لمحہ بنے تھے مل کر [بعدکی اڑان ]
رات اک بات ہے صدیوں کی ، کئی صدیوں کی [دن کے روپ میں رات کہانی ]
یہ لہریں ہیں ، انھیں نسبت ہے کالی رات کے غمناک دریا سے [سرسراہٹ]
میراجی کی شخصیت اور شاعری دونوں کے ساتھ ابہام کا گہرا رشتہ ہے۔میراجی کی موت پر منٹو نے کہا تھا کہ اگر وہ کچھ دیر سے مرتا تو یقیناً اس کی موت بھی ایک درد ناک ابہام بن جاتی۔منٹو نے میراجی کے ’تین گولے‘ والے خاکے میں لکھا ہے کہ اس کے سارے وجود میں ایک ناقابل ِ بیان ابہام کا زہر پھیل گیاتھاجوایک نقطے سے شروع ہوکرایک دائرے میں تبدیل ہوگیاتھا،اس طور پر کہ اس کاہرنقطہ اس کا نقطۂ آغاز ہے اوروہی نقطہ ، نقطۂ انجام۔

حواشی
(1)Terry Eagleton,How to read a poem,Indian edition 2007,Blackwell Publishing,P:125
(2)شمس الرحمن فاروقی،شعر،غیرشعراورنثر،2005،قومی کونسل براے فروغ اردوزبان،نئی دہلی،ص:96
(3)ایضاً
(4)William Empson, Seven Types Of Ambiguity, 1949,Chatto and Windus,London,P :5-6
245-246،اکادمی بازیافت ، کراچی ،: پاکستان ، ص ص: 2009سلیم احمد، مضامین سلیم احمد، مرتبہ: جمال پانی پتی ، (5)