Surendra Parkash ki Afsana Nigari

Articles

سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری

گوپی چند نارنگ

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو افسانے کے کئی رجحان سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے جو رجحان بنیادی نوعیت کے ہیں وہ چار ہیں۔ پہلا رجحان تقسیم کے المیے کو پیش کرنے کا ہے۔ اس ذیل میں اس طرح کے افسانے آتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کی نوعیت ہنگامی تھی اور جو فسادات کو براہ راست موضوع بنا کر لکھے گئے تھے۔ دوسرے وہ جو تہذیبی سطح پر تقسیم کے المیے کو پیش کرتے ہیں۔ اس رجحان کے بہترین علم بردارہندوستان میں قرۃ العین حیدر اور پاکستان میں انتظار حسین ہیں۔ دونوں کے نقطۂ نظرتکنیک اور کینوس میں بڑا فرق ہے، لیکن دونوں کے ایسے افسانوں کا محرک بعض محبوب تہذیبی قدروں کا زوال ہے۔ دوسرا رجحان زندگی کی جامعیت اور اس کے نارمل حسن کو اس کی سیاہی اور سفیدی کے ساتھ پیش کرنے کا ہے۔ اس رنگ کے امام راجندر سنگھ بیدی ہیں۔ نئی نسل کے بیشتر لکھنے والے بھی زندگی کی ہمہ پہلو ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بیدی والی بات نہیں۔ البتہ یہ لوگ اس لحاظ سے پچھلے افسانہ نگاروں سے مختلف ہیں کہ ان میں سے بیشتر کسی طرح کی نظریاتی وابستگی قبول نہیں کرتے اور ’’سوچے سمجھے نتائج‘‘ کی فارمولا کہانی سے بچتے ہیں۔ ان کے ہاں بنیادی اہمیت فرد کو حاصل ہے، اور بجائے ٹائپ، کردار پر زور ملتا ہے۔ یہ زندگی کے حقیقی خدوخال کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افسانہ نگاروں میں رام لال،جوگندرپال،شرون کمار درما، اقبال متین، ستیش بترا، قیصر تمکین، رتن سنگھ، اقبال مجید، امرسنگھ کے افسانے یا اتر پردیش کے قصباتی تمدن سے متعلق قاضی عبدالستار کے افسانے۔ دوسری طرف وہ افسانے ہیں جن میں کسی علاقے کی گھریلو زندگی کی ترجمانی کی گئی ہے، مثال کے طور پر جیلانی بانو، واجدہ تبسم، یا آمنہ ابو الحسن کے افسانے۔ چوتھا بنیادی رجحان تجریدی اور علامتی افسانے کا ہے۔ اس قسم کا افسانہ آزادی سے پہلے کے افسانہ نگاروں کے ہاں بھی ملتا ہے، مثلاً کرشن چندر کا ’’غالیچہ‘‘، ’’چوراہے کا کواں‘‘، ’’جہاں ہوا نہ تھی‘‘ اور ’’چھڑی‘‘ احمد ندیم قاسمی کا ’’سلطان‘‘ اور ’’وحشی‘‘ اور ممتاز شیریں کا ’’میگھ ملہار‘‘۔ احمد علی کے بعض افسانے بھی تجریدی افسانوں کی ذیل میں آتے ہیں۔ لیکن ادھر نئی نسل کے بعض افسانہ کے نگاروں نے اسے ایک رجحان کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہندوستان میں اردو افسانہ کے اسی جدید رجحان سے بحث کی جائے گی۔ ایسے افسانوں میں اشاریت اور علامتیت کو باقاعدہ فن کی حیثیت سے برتا جاتا ہے۔ وزیر آغا نے ایک جگہ صحیح لکھا ہے۔ ’’اشاراتی عنصر تمام اصناف ادب میں اہمیت حاصل کر رہا ہے اور افسانے نے بھی اسے اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ دراصل تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ فرد کی تیز نگاہی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ اب وہ پلک جھپکتے میں بات کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے اور اس لیے واشگاف انداز کا کچھ زیادہ دلدادہ نہیں رہا۔‘‘ سیدھے سادے روایتی افسانے کے مقابلے میں علامتی افسانہ کچھ غیر مرئی سا ہوتا ہے۔ اس میں ٹھوس ہونے کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو منطقی افسانے کی خصوصیت ہے۔ اس میں زماں اور مکاں کا واقعیاتی احساس بھی نہیں ملتا بلکہ زماں اور مکاں دونوں ذہنی تجرید کی سطح پر واقع ہوتے ہیں اور ان میں اچانک تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ علامتی افسانے میں ٹھوس کرداروں کا کام تمثیلوں اور علامتوں سے لیا جاتا ہے جیسا کہ آگے چل کر وضاحت کی جائے گی۔ علامتیں ایک طرح کے وسیع استعارے میں جن کے شعوری اور نیم شعوری رشتوں کو ابھار کر افسانہ نگار معنوی تہہ داری پیدا کر دیتا ہے۔ علامتوں کے حسی پیکر ہوتے ہیں، لیکن بعض علامتوں سے افسانہ نگار فضا آفرینی کا یا محض خاص طرح کے تاثر ابھارنے کام لیتا ہے۔ ایسے افسانے کا کمال یہ ہے کہ وہ لغوی اور علامتی دونوں سطحوں پر پڑھا جا سکے۔ بعض افسانوں میں خاص لفظوں کا استعمال ایسی معنوی وسعت اختیار کر لیتا ہے کہ ان میں علامتی افسانہ کی شان ازخود پیدا ہو جاتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’سلطان‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ تجریدی افسانہ ہمارے افسانے کے اس سفر کی نشاندہی کرتا ہے جس کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہے۔ یہ انسان کے ذہنی مسائل، اس کے کرب اور حقیقت کے عرفان کی تلاش کا اظہار ہے۔ صرف فکر یا ذہنی سوچ کی سطح پر ۔ افسانہ علامتی ہو یا تجریدی، اس میں لغوی معنی صرف ایک طرح کا اشارہ کردیتے ہیں۔ باقی کام پڑھنے والے کی ذہنی استعداد کا ہے۔ در اصل لفظوں کے ظاہری،منطقی اور لغوی معنی کے علاوہ اور معنویت بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت اگر یہ بات نظر میں رہے تو ان سے لطف اندوز ہونا چنداں مشکل نہیں۔ پاکستان میں اس رجحان کے نمائندہ افسانہ نگار مندرجہ ذیل ہیں:
انتظار حسین (آخری آدمی) عبداللہ حسین (جلاوطن) ،خالدہ اصغر (ایک بوند لہو کی، سواری، بے نام کہانی)، انور سجاد (مرگی، چوراہاکونپل،گائے، پرندے کی کہانی) اور غلام الثقلین (لمحے کی موت، وہ ،سرگوشی) ہندوستان میں اس کو آگے بڑھانے والوں میں دیوندرا سر، سریندر پرکاش، بلراج مین را، کمار پاشی، احمد ہمیش اور عوض سعید کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یہاں اس رجحان سے مزید بحث کرنے کے لیے صرف سریندر پرکاش کو لیا جائے گا، اس لیے نہیں کہ ان کا افسانہ بہترین ہے بلکہ اس لیے کہ اس سے اس رجحان کے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ تجزیاتی طور پرافسانے کا ڈھانچا کیا ہے۔ اس میں علامتیں اور ذہن واحساس کی رو کس طرح کام کرتی ہے اور کیا اس میں کسی طرح کی کوئی معنوی تہہ داری ہے یا نہیں؟ جدید ادب پر تنقید کرتے ہوئے میرا مسلک کچھ ایسا ہے کہ اس طرح کے تجزیے کے بعد ہی ہم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم نئے رجحانات کے بارے میں کوئی حکم لگا سکیں۔
سریندر پرکاش کے افسانے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کا شمار اردو کے اہم علامتی افسانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے افسانوں کی طرح اس کی بھی تلخیص ممکن نہیں، لیکن اگر ایسی کوئی ناکام کوشش کی جائے تو وہ کچھ اس طرح کی ہوگی: سمندر اور میدان سے گزرنے کے بعد وہ وادی میں اتر گیا۔ دوسرے تھوتھنیا اٹھائے اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیاں الوداع الوداع کہہ رہی تھیں۔ وادی میں سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر چکنی سڑکوں سے گزرتے ہوئے وہ ایک کشادہ مکان کے پھاٹک پر رکا۔ خاموشی میں اس کی آواز گونجی۔ ولندیزی دروازے نے باہیں پھیلا کر خیر مقدم کیا۔ ڈرائنگ روم کی آرائش سے اس نے اندازہ کیا کہ یہاں کارہنے والا خوش سلیقہ آدمی ہوگا اور دونوں گرم جوشی سے ملیں گے۔اس نے گل دان کو چھوا اور اپنی انگلیوں پر اس کی خنکی محسوس کی اور آتش دان کے سیاہ مرمر کی دھاریوں کے صحرا میں خود کو ڈھونڈنے لگا۔ ایک تصویر اس کا ہاتھ لگنے سے گر گئی۔ اس میں ایک آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو اٹھائے ایک عورت کے ساتھ بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ یہ تصویر کبھی کھنچوائی تھی۔ بر آمدے سے کسی کے لاٹھی ٹیک کر چلنے کی آواز آرہی تھی، مسلسل، باقاعدہ۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے اور باہر برف گررہی ہے، لیکن کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالا تو برف نہیں تھی۔ وہ تنہائی محسوس کرتے ہوئے غمزدہ سا ہوگیا۔ اتنے میں اس کے ذہن سے ایک سانپ نکلا اور اپنی تیز تڑپتی ہوئی سرخ زبان نکالے ہوئے بیڈروم میں چلا گیا۔ یہاں ایک عورت نے انگڑائی لی اور ایک بچی کھیلتی ہوئی نظر آئی۔ لاٹھی ٹیکنے کی آواز پھر آنے لگی۔ برآمدے میں ایک اندھا آدمی لاٹھی کے سہارے چل رہا تھا۔ اس نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ برآمدے کے موڑ سے گزرگیا۔ اس نے سوچا کاش ڈرائنگ روم کی سب چیزیں اس کی ہوتیں۔ لیکن اس کا وجود اسے قالین پر اوندھا پڑا ہوا محسوس ہوا اور وہ رونے لگا، لاٹھی کی آواز پھر آئی۔ اس نے بوڑھے کو لپک کر پکڑنے کی پھر کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ برآمدے کے پاس کانسے میں ڈھلا ہوا ایک بوڑھا بیٹھا ناریل پی رہا تھا۔ اس نے چاہا وہ بھی اسی کی طرح اطمینان سے بیٹھ کر تمباکو کو پیتا رہے، لیکن جواب ملا کہ کانسے میں ڈھلنا پڑے گا۔ وہ سوچنے لگا کہ ایک بپھرے ہوئے سمندر، ریت اڑاتے ہوئے صحرا اور برف باری کے طوفان میں اکیلا انسان کیا کر سکتا ہے؟ وہ دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دینے لگا جو یہ سب سوچتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ وہ ابھی خوش سلیقہ آدمی سے ملاقات کے انتظار میں تھا کہ آواز آئی، چلو اب دیر ہو رہی ہے۔ وہ ڈرائنگ روم کی چیزوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔ آواز پھر آئی۔ یہ سب تمہارا ہی تو تھا مگر اب مہلت نہیں۔ وہ کسی انجانی چیز کے کھو جانے کے احساس سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بے بس ہو کر اس نے کہنا چاہا: اگر کبھی کوئی کمزور، بے سہارا کشتی ساحل سے آلگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں۔
کہانی کے پہلے ہی پیرا گراف میں ہمیں ایک قافلہ دکھائی دیتا ہے:
’’سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کیے تو دیکھا کہ پگڈنڈیاںہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔ میں اک ذرا، رکا اور ان پر نظر ڈالی جو بوجھل سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے بھر گیا تب علاحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک بے نام کسک کی صورت اختیار کی اور میں انتہائی غمزدہ، سرجھکائے وادی میں اتر گیا۔ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سب تھوتھنیاں اٹھائے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ بار بار سر ہلا کر وہ اپنی رفاقت کا اظہار کرتے اور ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی دھات کی گھنٹیاں ’’الوداع‘الوداع‘‘ پکار رہی تھیں اور ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے کونوں پر آنسو موتیوں کی طرح چمکے رہے تھے۔‘‘
سمندر ،میدان، پگڈنڈیاں ان سب کے ایک ساتھ سامنے آنے سے ذہن کسی طرح کے سفر کی طرف جاتا ہے۔ شاید وہ سفر جو قدیم سے جدید کی طرف رہا ہے یا لوک کلچر سے آج کے صنعتی کلچر کی طرف رہا ہے۔ پہلے انسان سب کے ساتھ تھا اور اپنائیت کے احساس سے سرشار تھا۔ لیکن جدید کی ’’وادی‘‘ میں اترتے ہوئے علاحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت اختیار کی اور وہ انتہائی غمزدہ ہو گیا۔‘‘ افسانہ کی معنوی کلید اسی پہلے پیرا گراف میں موجود ہے۔ فوراً بعد دوسرے پیراگراف میں تھوتھنیوں اور گھنٹیوں سے ذہن جانور کی طرف یا غیر متمدن انسان یا بنیادی انسان کے Archetypeکی طرف جاتا ہے جواب وقت کی فصیل کے اس پاررہ گیا تھا۔ وادی میں نئے راستوں پر چلتے ہوئے اس کے ’’دل میں رہ رہ کے امنگ سی پیدا ہوتی‘‘ ہے‘ آگے بڑھنے کی‘نئی مسافت طے کرنے کی یا کچھ پانے کی۔ سامنے سائنسی، صنعتی یا تہذیبی ارتقا کا ’’سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی سیڑھی چڑھ رہا تھا۔‘‘ قدیم کی ’’گرد آلود پگڈنڈیاں‘‘ پیچھے رہ گئیں اور وہ جدید کی ’’صاف شفاف‘ چکنی سڑکوں‘‘ پر چلنے لگا۔ ملاحظہ فرمائیے پگڈنڈی کے مقابلے پر صاف شفاف چکنی سڑک ذہن کو موجودہ دور کی ظاہری چمک دمک اور بے حسی سے کس قدر نزدیک لے آتی ہے۔ انسان کی معصومیت اور اپنائیت کی مسرت کا دن ڈھل رہا تھا اور شام ہوتے ہوتے وہ ایک مکان میں داخل ہوا۔ شام اداسی یا غم کا استعارہ ہے۔ اس سے مراد جدائی کا آغاز بھی ہوسکتا ہے اور مشینی ترقی کے تاریک دور کی ابتدا بھی۔ خاموشی میں انسان کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی پکار رہا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس کے پچھڑ کر تنہارہ جانے کی طرف۔ مغربی طرز کا ولندیزی دروازہ باہیں پھیلا کر اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔ مکان میں پرانے انداز کے آریائی جھروکوں جیسی کھڑکیاں ہیں، لیکن ان پر گزرے ہوئے وقت کے بھاری پردے پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں لفظوں کی معنوی چکاچوند میں جو کچھ سامنے آتا ہے، ان سب پر نظر رہنی چاہیے۔ اگر قاری محض لغوی معنی سے چپکا رہے گا تو افسانے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ کھڑکیاں بھی ہیں، جھروکے بھی، پرانے تمدن کی نشانیاں بھی اور تاریخ کا تسلسل بھی‘ نیز یہ بھی نظر میں رہے کہ شاید ماضی کی روشنی بھاری پردوں کے ادھر رہ گئی ہے اور مستقبل کی کرنیں بھی حال تک نہیں پہنچ سکتیں۔ ڈارئنگ روم کی آرائش دیکھ کر معاً ذہن انسان کی صنعتی ترقی اور مادی آسائش یا آرام پسندی کی طرف جاتا ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے کہا ہے:
’’آتش دان میں آگ بچھ چکی تھی۔‘‘ اس سے مراد قدروں کا زوال اور یقین کا فقدان بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح جدید انسان کی ذہنی افسردگی کو ایک بار پھر ابھارا گیا ہے۔ سمندر اور میدان یعنی فطرت کے بے پایاں حسن کی جگہ اب دھات کے گلدان یعنی بے حسی نے لے لی ہے۔ پہلے انسان کو فطرت سے ہم کلامی کا شرف حاصل تھا لیکن اب گلدان کا اپنا ’’الگ وجود‘‘ ہے۔ اس کے چھونے سے انگلیوں پر سوائے ’’خنکی‘ کے کچھ اور محسوس نہیں ہوتا۔ علامتوں کا جو نظام سامنے آچکا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں اشارہ فطرت کے تجارتی قدر بن جانے یا صنعتی کلچر کے بے جان اور بے حس ہونے کی طرف کیا گیا ہے۔
آتش دان کے سیاہ مرمر کی سفید دھاریوں کو صحرا کہا ہے، خالی، اداس اور خاموش! شاید یہ جدید دور کی بے شخصیت آبادیاں ہیں، جن میں دور دور تک مسرت کے نخلستان کا نشان نہیں۔ اگر چہ انسان اس میں خود کو پانا چاہتا ہے لیکن ہوس کی ’’ریت کے جھکڑ‘‘ کے اندر گم ہو کر رہ گیا ہے۔
عورت مرد اور بچی کی تصویر سے ذہن خاندانی وابستگی اور ملی جلی مسرتوں کی طرف جاتا ہے۔ اس کی مسکراہٹ ماضی میں ممکن تھی، اب نہیں۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ شخصیت کے زوال اور اپنائیت کے احساس کے فنا ہوجانے سے انسان اپنی مسکراہٹ پر بھی قادر نہیں رہے۔ بر آمدے میں لاٹھی ٹیک کر چلنے والا آدمی کون ہے؟ اس کی رفتار میں باقاعد گی ہے۔ یہ آرہا ہے، جارہا ہے، لیکن کبھی ہاتھ نہیں آتاکہیں یہ ’’ وقت‘‘ تو نہیں، جس کو کوئی روک نہیں سکتا ٹک ٹک گھڑی کے پنڈولم کی طرح اس کی رفتار میں باقاعدگی ہے، اور یہ ہمیشہ حرکت میں ہے۔ یہ صنعتی اور میکا نکی انسان بھی ہوسکتا ہے جو پوری طرح ’’وقت‘‘ کے قابو میں ہے۔ یہ اندھا ہے۔ نیز جدید انسان بھی تجارتی اقدار کے حصول کی دوڑ میں اندھا ہورہا ہے۔ لاٹھی سے مراد صنعتی دوڑ میں مادی آسائشوں کا وہ سہارا بھی ہو سکتا ہے جن کے بغیر انسان ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا ۔ لاٹھی کی آواز کی باقاعدگی موجودہ تہذیب کی میکا نیکیت اور اکتا دینے والی یکسانیت کو بھی ظاہر کرتی ہے اور وقت کی رفتار اور تسلسل کی مظہر بھی ہے۔ اس کے بعد افسانہ میں سمندر اور برف کا ذکر ہے۔ بپھرا ہوا سمندر مشینی تہذیب کا پھیلائو ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں برف اس تہذیب کی سرد مہری کی علامت ہوگی۔ سرخ زبان والا سانپ جو انسان کے ذہن سے پھن اٹھا کر نکلتا ہے۔ مرد کے خانگی خوف یا جنس کا استعارہ ہو سکتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس کے فوراً بعد عورت اور بچی کا ذکر کیا ہے جس سے سانپ کی علامت اپنے تمام امکانات کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ لاٹھی کے سہارے چلنے والے انسان کے معمولات بندھے ہوئے ہیں اور وہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح بے بس آگے پیچھے حرکت کرتا رہتا ہے۔ دوسرا اس انسان سے ملنا چاہتا ہے۔ کمرے کی حسین چیزوں کو اپنانا چاہتا ہے اور عورت اور بچی کے اپنائیت کے احساس سے سرشار ہونا چاہتا ہے، لیکن کسی بات میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور وہ تنہا اور خالی خالی محسوس کرتا ہے۔ یہ پرانی اور نئی تہذیبوں کا ٹکرائو ہے۔
کانسے میں ڈھلا ہوا انسان اطمینان سے تمبا کو پی رہا ہے، یہ گویا علامت ہے ماضی میں زندہ رہنے کی یا بے حس ہونے کی۔ یعنی اس دور میں فراغت سے وہی ہے جس کا احساس بیدار نہیں یا جو صرف سانس لینے پر قانع ہے۔
اس مقام پر کہانی کے یہ جملے خاصے اہم ہیں:
’’ایک بپھرا ہوا سمندر، ایک ریت اڑاتا ہوا صحرا اور ایک برف کا طوفان اور میں اکیلا آدمی! میں کیا کچھ کرلوں گا؟میں دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دیتا ہوں جو یہ سب کچھ سوچتی ہے مگر نظر نہیں آتی اور مجھ نحیف، کمزور بے سہارا کو بھٹکاتی پھرتی ہے۔‘‘
جو سب کچھ سوچتی ہے، لیکن نظر نہیں آتی۔ شاید انسان کا ذہن ہے۔ تجزیے کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد علامتوں کے نظام کے بارے میں اس وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ڈرائنگ روم ہمارا جدید معاشرہ ہے۔ سمندر، میدان اور وادی سے گزر کر آنے والا شخص عہدِآفرینش کا انسان ہے اور جس انسان سے اس کی ملاقات نہیں ہو پاتی وہ وقت ہے یا صنعتی دور کا بے شخصیت انسان ہے جس کا وجود میکانکیت کی نذر ہو چکا ہے۔ کہانی عہدِآفرینش کے انسان کی اپنائیت،رفاقت اور معصومیت کے احساس سے شروع ہوتی ہے، صنعتی دور کے اثر سے پیدا ہونے والی ذہنی علیحدگی (Alienation) کی مختلف کیفیتوں کو ابھارتی ہے اور اپنائیت کے فقدان کے المیہ کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر ختم ہو جاتی ہے۔ عہد آفرینش کے انسان کو جو بجائے خود اپنائیت اور رفاقت کی علامت ہے، ڈرائنگ روم یعنی جدید معاشرے سے رخصت ہونا پڑتا ہے تو وہ قالین یعنی دھرتی کو ایک نظر دیکھتا ہے اور اسے اپنی بانہوں میں بھرلینے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشرہ اس کا اپنا ہے لیکن علیحدگی کے جذبے کی وجہ سے اسے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کہا ہے۔ آخر میں یہ کہہ کر کہ ’’اگر کوئی کمزور ،نحیف،بے سہارا کشتی ساحل سے آکر لگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں‘‘ اس تمنا کا اظہار کیا گیا ہے کہ شاید کبھی اپنائیت کو اپنا کھویا ہوا قالب پھر مل جائے۔
سریندر پرکاش نے جدید انسان کے ذہنی مسائل کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ اس کی کہانیاں زبان و بیان کے ایجاز اور تہ در تہ علامتوں کی معنویت کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ وہ بظاہر نہایت سادہ زبان استعمال کرتاہے جیسے کوئی روانی سے بے تکلف لکھے چلا جاتا ہو، لیکن ہر سطر گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہوتی ہے اور چندہی جملوں کے بعد احساس ہونے لگتا ہے کہ پڑھنے والے کو ذہنی چیلنج کا سامنا ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں کا تانا بانا خواب اور بیداری کے بیچ کی کیفیتوںسے تیار ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر چیزیں اپنی روایتی طور سے ہٹ کر سامنے آتی ہیں اور پڑھنے والا چونک چونک اٹھتا ہے۔ نیم شعوری اور تحت الشعوری کیفیتوں کے امتزاج سے جا بجا تحیر کے چھینٹے بھی ملتے ہیں جو کہانی کی دلچسپی بنائے رکھتے ہیں۔سریندر پرکاش کے افسانوں میں لفظوں کے لغوی اور منطقی معنوں کے پیچھے ایک اور جہانِ معنی آباد نظر آتا ہے۔ وہ استعاروں کے جال سے علامتی معنوں کی ایک وسیع اور روشن فضا قائم کردیتا ہے۔ اس کی ذہنی پر چھائیاں اجلی ،نمایاںاور متحرک ہوتی ہیں اور واقعات کا ایک دریا سا اپنے حسی اور فکری اتار چڑھائو کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ لغوی معنی سے پرے دیکھ سکنے والوں کے لیے سریندر پرکاش کے افسانوں میں داستان کی سی واقعیت ہے اور قصے کی سی کشش! لیکن وہ لوگ جو رسمی معنی میں ابلاغ کا ماتم کرتے رہتے ہیں، ان کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ انھیں تخیلی نارسائی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
٭٭٭