Kulyate Sauda (Niskha e India office) by Prof. Naseem Ahmed

Articles

’’انڈیا آفس میں محفوظ کلیات سوداؔ کے ایک قلمی نسخہ کا تعارف‘‘(مع ترمیم و اضافہ)

پروفیسر نسیم احمد

’’انڈیا آفس میں محفوظ کلیات سوداؔ کے ایک قلمی نسخہ کا تعارف‘‘
(مع ترمیم و اضافہ)
ارتقاے زبان ایک فطری اور ناگزیر عمل ہے۔ اس ارتقائی عمل میں الفاظ اور ان کے تلفظات مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور اپنی تغیر پذیر شکل کے ذریعے اپنے زمانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چنان چہ کسی بھی عہد کی لسانی تاریخ ان تغیرات کی صحیح آگہی کے بغیر ترتیب نہیں دی جا سکتی اور اگر کسی زبان کی لسانی تاریخ صحت کے ساتھ مرتب نہیں کی گئی تو اس زبان میں تحقیق و تنقید کی بنیاد میں متزلزل رہیں گی اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ ادب یا تو سرے مفقود ہوگا یا کم از کم اس کے پنپنے اور پھولنے پھلنے کے امکانات کم ہوں گے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کسی بھی شخص کو خواہ وہ کتنا بڑا ادیب اور عالم کیوں نہ ہو، تحقیق وتدوین کے نام پراُسے شاعر کی زبان میں ترمیم وتصحیح کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے باوجود ادبیات کی تاریخ میں ارادی اور غیر ارادی تحریفات کی مثالیں اس کثرت سے موجود ہیں کہ ان کا احاطہ بہ آسانی ممکن نہیں۔ جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے، ارادی تحریفات کے ضمن میں ناسخ کے شاگرد میر علی اوسط رشک اور ذوق کے شاگرد مولانا محمد حسین آزاد کے نام سرِ فہرست رکھے جا سکتے ہیں۔
کلام سوداؔ کے مطالعے کے سلسلے میں اگر چہ ارادی اور غیر ارادی تحریفات کے درمیان واضح طورپر کوئی خط فاصل قائم نہیں کیاجاسکتا تاہم یہ کہاجا سکتاہے کہ ان کے کلام میں ترمیم وتحریف کا سلسلہ ان کی زندگی ہی میں شروع ہوگیاتھا۔ چنان چہ ان کے ایک شاگرد معین بدایونی کے بارے میں میر حسن کا بیان ہے کہ ’’دیوان ِ استادِ خود راموافق طبعِ خود درست می کند وسخن خودرا سرسبز می نماید‘‘ معین کو جب استعمال عام کے خلاف لفظ کی سند درکار ہوتی تھی تو وہ اپنے استادکے کلام میں حسب خواہش تصرف کرلیاکرتے تھے اور اپنی بات بالا رکھتے تھے۔ معاصر تذکروں میں بھی ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جن کا متن کلام سودا ؔ کے کسی قدیم نسخے کے متن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثا ل کے طورپر میرؔ کے تذکرے میں ایک شعر اس طرح نقل ہواہے :
موج نسیم گرد سے آلودہ ہے نپٹھ
دل خاک ہوگیا ہے کسی بے قرارکا
جب کہ دوسرے تمام قدیم ماخذ میں شعر کی شکل یہ ہے:۔
موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہوگیاہے کسی بے قرار کا
سودا ؔ نے مندرجہ ذیل اشعار قطعہ میں غالباً اسی طرح کی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیاہے :
ہے جو کچھ نظم ونثر عالم میں
زیر ایراد ِ میرؔ صاحب ہے
ہر ورق پر ہے میرؔ کے اصلاح
لوگ کہتے ہیں سہوکاتب ہے
سوداؔ کا ایک اور شعر ان کے کلام کے قدیم مخطوطات میں ا س طرح درج ہے:
اندامِ گل پہ ہونہ قبااس مزے سے چاک
جوں خوش چھبوںکے تن پہ مسکتی ہیں چولیاں
لیکن مجموعہ نغز اور بعض دوسرے تذکروں میں شعر کامصرع دوم اس طرح نقل ہواہے:
ع جوں خوش قدوں کے تن پہ مسکتی ہیں چولیاں
سوداؔ نے یہاں ہندی وفارسی ترکیب قصداً استعمال کی ہے جو فارسی ترکیب کے مقابلے میں زیادہ چست اور مناسب ہے حالاں کہ ایک دوسرے شعر میں خوش قد کی ترکیب بھی موجودہے ۔
رفتار دیکھتے ہوتم ان خوش قدوں کی ہاے
ٹھوکر لگے ہے دل کے تئیں جس خرام میں
تذکروں میں اس قسم کے اختلافاتِ متن کی مثالیں بکثرت موجود ہیں لیکن انھیں حتمی طورپر ناقلین کے ارادی تصرف کانتیجہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس کے بر خلاف ملک اور بیرون ملک کے کتب خانوں میں محفوظ کلام سوداؔ کے لاتعداد مخطوطات میںسے کم ازکم پانچ خوش خط اور دیدہ زیب نسخوں کے متعلق وثوق کے ساتھ یہ کہاجاسکتاہے کہ ان میں دیدہ ودانستہ تحریفیں کی گئی ہیں اور الحاقی کلام شامل کیاگیاہے۔زیر بحث نسخوں میں کی گئی تحریفات کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے۔
۱۔ الفاظ کے معمولی ردوبدل کے ذریعے زبان کو سہل بنانے یاقدیم اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۲۔ کسی شعر کو بزعم خود زیادہ چست اور بامعنی بنانے یامضمون میں جدت پیدا کرنے کی غرض سے کسی خاص لفظ یاترکیب کو بدل دیاگیاہے۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں بعض اوقات مصرعے دولخت اوراشعار بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ مثلاً: سوداؔ کی ایک غزل جس کے قوافی( دہن، کفن، لگن، وغیرہ) ہیں، کے ایک شعر میں قافیہ ’چمن‘ کوبدل کر اس کا مناسب ’سحر‘ لفظ رکھ دیاگیاہے۔ بعض اوقات شعر وزن سے بھی خارج ہوگیاہے مثلاً:-
اندام میں کچھ اس کے تپ ہجر نہیں ہے
دی عشق نے ظالم ترے بیمار کو آتش
کے مصرع اول کو ا س طرح تبدیل کیاہے: ع اندام میں تو کچھ شب تار نہیں ہے
لیکن عام طورپر ان نسخوں میں الحاقی کلام کی شمولیت نیز الفاظ وتراکیب کی تبدیلی اتنی صفائی سے کی گئی ہے کہ محققین تک اس کی گرفت سے قاصر رہے ہیںحتیٰ کہ بعض حضرات مثلاً ڈاکٹر شمس الدین صدیقی،پروفیسر عتیق احمدصدیقی اورڈاکٹر ہاجرہ ولی الحق نے بھی کلام سودا ؔ کی ترتیب کے سلسلے میں ان نسخوں سے بلاتامل استفادہ کیاہے۔سطور ذیل میں بہ غرضِ اختصار صرف ایک نسخے کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
انڈیا آفس لائبریری لندن کے ذخیرۂ مخطوطات میں فہرست نمبر۱۴۶، پی ۳۵۳ کے تحت کلام سوداؔ کا نہایت عمدہ نستعلیق خط میں لکھا ہوا ایک قلمی دیوان محفوظ ہے جو عام طور پر نسخۂ جانسن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نسخہ ۱۳ سطری مسطر کے ۴۷۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی نقلیں (فوٹو اسٹیٹ، الیکٹرو اسٹیٹ کاپیاں ) خدا بخش لائبریری پٹنہ ، مولانا آزاد لائبریری ، علی گڑھ ، اترپردیش اردو اکادمی لائبریری، لکھنؤ کے علاوہ بعض اہل علم حضرات کے ذاتی ذخیرئہ کتب میں بھی موجود ہیں ۔ راقم نے اردو اکادمی لائبریری میں محفوظ نقل سے استفادہ کیا ہے ۔ یہ مُثنّیٰ بہت واضح اور ایک حد تک مانند اصل ہے ۔ نسخے پر کہیں کاتب کا نام، سنہ کتابت اور مقام کتابت وغیرہ کا اندراج نہیں ہے۔
اس مخطوطے میں اصل کتاب کے آغاز سے قبل ، پہلے ورق پر ایک تصویر ہے جس میں نوابی وضع قطع کا ایک شخص قالین پر بیٹھا ہوا پیچوان پی رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ملازم نما شخص ہاتھ میں کاغذ لیے کھڑا ہے ۔ قالین پر بیٹھے ہوئے شخص کے سامنے ایک کتاب پڑی ہے ۔ تصویر کی کوئی تفصیل درج نہیں ۔ قیاس کہتا ہے کہ یہ مسٹر جانسن ، سوداؔ یا کسی نواب یا شہزادے کی ہوگی ۔ مرتب ’’قصائد سودا ‘‘ پروفیسر عتیق احمد صدیقی کا خیال ہے کہ ’’غنچہ لاتو قلم دان ‘‘ کی روایت غالباً تصویر مذکور کی بنیاد پر اختراع کی گئی ہے۔ چنان چہ لکھتے ہیں ۔ ’’تصویر میں کوئی تعارفی عبارت نہیں لیکن شاید اسی تصویر سے غنچہ کی روایت پیدا ہوئی ہے ۔ ‘‘ (۲) شیخ چاند مرحوم (متوفی ۱۹۳۶ء) کی کتاب ’’سودا ‘‘ (طبع۱۹۳۶ء ) اور ڈاکٹر خلیق انجم کی تصنیف ’’ مرزامحمد رفیع سودا ‘‘ (طبع ۱۹۶۶ء ) مین آغاز کتاب سے پہلے یہ تصویر سوداؔ کے نام سے موجود ہے ۔ فرق یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں ثانی الذکر سے پیچھے کھڑے ملازم اور سامنے رکھی ہوئی کتاب کو تصویر سے حذف کر دیا گیا ہے۔
نسخۂ جانسن کے پہلے ورق کی پشت کے بالائی سرے پر پختہ خط میں ایک انگریزی عبارت اور ورق ۴ پر صا ف ستھرے عمدہ نستعلیق خط میں دو فارسی عبارتیں ملتی ہیں ۔ ان کے علاوہ دیوان کی ابتداسے قبل ورق ۲پر تئیس ۲۳ اشعار کا ایک قصیدہ ’’ع دیکھا نہ جائے اس سے روے گل رُخاں پہ رنگ ‘‘ بھی سوداؔ تخلص کے ساتھ موجود ہے ۔ جس پر کوئی عنوان درج نہیں لیکن گریز کے شعر:-
’’ہے اب مگر وہ ایک کہ جس کا یہ ہے خطاب
ممتاز الدولہ فخر جہان وحسام جنگ‘‘
سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم ممتاز الدولہ فخر جہاں حسام جنگ کی مدح میں کہی گئی ہے ۔ مزیدبرآں ایک مدحیہ شعر:-
’’تیری وہ ذات گو تو نہیں ہے شہ فرنگ
کرسی میں تیری پایہ اورنگ کا ہے ڈھنگ ‘‘
سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی انگریز افسر ہی کی تعریف میں یہ قصیدہ کہا گیا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ افسر جانسن ہی ہو ۔ حالاںکہ کسی تذکرے یا معاصر تاریخی کتاب سے سو داؔ اور مسٹر جانسن کے تعلقات پر روشنی نہیں پڑتی ۔ مخطوطے کی مذکورہ انگریزی عبارت کا متن یہ ہے :
”Mr. Richard Johnson, the gift of ye author Mirza Souda”
اور فارسی عبارتیں حسب ذیل ہیں :
دیوان میرزا رفیع سودا ، گذرایند ئہ میر حسین صاحب ، در بلدئہ لکھنؤ ،
داخل کتاب خانہ سرکار شد
دیوان سرکار نواب صاحب ممتاز الدولہ مفخر الملک حسام جنگ مسٹر رچارڈ جانسن صاحب بہادر دام اقبالہ ۔
مسٹر جانسن اور میر محمد حسین کے بارے میں مختلف تذکرو ں اور تار یخی کتابوں سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ اختصار کے ساتھ سطور ذیل میں پیش کی جاتی ہیں :
مسٹر جانسن کا شمار اپنے زمانے کے ذہین انگریز افسر وں میں ہوتا تھا ، لکھنؤ آنے سے قبل وہ بر دوان کا صاحب کلاں اور بنگال کو نسل کا فعال رکن تھا ۔ وہ سیاسی ساز باز کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ ۱۷۶۵ء میںنواب میر جعفر کے انتقال کے بعد اس نے، ان کے بڑے لڑکے نجم الدولہ معروف بہ میر پھلوری کو مرشداآباد کے صاحب کلاں مسٹر مڈلٹن کی مدد سے تخت نشین کرایا ۔ (۳) اس نواب گری کے معاوضے کے طور پر جانسن اور اس کے معاون انگریز افسر وں نے نواب نجم الدولہ اور ان کے وزیروں سے نقد روپیوں کے علاوہ کافی تعداد میں جواہرات ، قیمتی اشیا اور بیش بہا تحائف حاصل کیے ۔ (۴) یہ تحائف ڈائرکٹر کے حکم امتناعی کے باوجود وصول کیے گئے تھے، چنان چہ کمپنی نے رشوت لینے کے الزام میں جانسن اور اس کے دیگر ساتھیوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا۔ لیکن جانسن اپنی فطانت اور سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت اس الزام سے بری ہوگیا ۔ علاوہ ازیں جانسن روایتی طور پر ایک ظالم اور مغرور انگریز افسر بھی تھا۔ ایک مرتبہ اپنے کسی نوکر کو مارنے اور اس کے ساتھ بے حد سختی برتنے کی پاداش میں اس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا اور جب اس نے کو رٹ میں حاضر ہو نے سے انکار کر دیا تو حکم عدولی کے جرم میں اُسے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ لیکن تین مہینے کی سزا کاٹنے کے بعد جب اس نے معافی کی ایک تحریری درخواست کو رٹ میں گزاری تو اُسے منظور کر لیا گیا (۵)۔
نسلی افتخار اور سیاسی جوڑ تور سے قطع نظر ، جانسن کی قابلیت ، علم دوستی ، ادبا پروری ، معاملہ فہمی ، رعب اور دبدبے کے واقعات بھی بعض معاصر کتب میں مرقوم ہیں ۔
۱۔مرزا ابوطالب اصفہانی، لندنی نے لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔ ’’ مسٹر جانسن کہ دوم او (مسٹر ایوس (Ives) رزیڈنٹ) بود ۔ لیاقت ہمہ کار داشت بہ حدے کہ اہل کاران وزیر ( آصف الدولہ) از ترسِ معاملہ دانیش شب خواب بہ آرام نمی کر دند ۔ اماچہ فائدہ کہ بہ سبب ناموافقت مسٹر ایوس در کارہا دخل نہ داشت ‘‘(۶)
۲۔علی ابراہیم خاں خلیلؔ نے نواب محبت خاں محبتؔ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ۔۔ ۔۔ ’’مثنوی موسوم بہ ’’اسرار محبت ‘‘ کہ حکایت عشق سسی پنو [ است ] بفر مودہ ممتاز الدولہ مسٹر جانسن بہادر منظوم نمودہ ‘‘۔ (۷)
۳۔میر قمر الدین منّت ، لالہ رام جس متخلص بہ محیطؔ ومغمومؔ اور ان کے چھوٹے بھائی لالہ جواہر سنگھ رامؔ وغیرہ بھی جانسن کی سر کار سے وابستہ تھے (۸) ۔ ’’ مخطوطات انجمن ترقی اردو‘‘ کراچی ، پاکستان ، کے مرتبین نے جانسن کی سر کار میں رام جس محیطؔ کے توسُّل کی تقریب کا ذکر اور جانسن کی ادب نوازی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے ۔ ’’ یہ وہی جانسن صاحب ہیں جن کو دربار لکھنؤ سے ممتاز الدولہ کا خطاب ملا تھا ۔ جانسن صاحب بڑے ادب پرور تھے ۔ لکھنؤ میں رہے تو اس صفت میں نیک نام رہے اور بنا رس چلے گئے تو وہاں بھی رام جس محیطؔ وغیرہ اُن کے متوسل رہے۔ (۹) یہ اطلاع کہ ’’جانسن بنارس چلے گئے‘‘ غلط اور مبنی بر سہو ہے۔ اصلاً محیط ’’داروغہ پرمٹ ‘‘ ہو کر بنارس چلے آئے تھے اور یہیں ۱۱۹۹ھ میں علی ابراہیم خاں خلیلؔ سے اُن کی ملاقات ہوئی تھی ۔ خلیلؔ کے الفاظ یہ ہیں:۔ ازدل برداشتگا ن سموم عشق و منسلکان سر کار ممتاز الدولہ مسٹر جانسن بہادر (بودہ) است۔ بعد ازاں بہ سر رشتہ داری پر مٹ ضلع بنارس ماموراست ۔ در ۱۱۹۹ھ باراقم آثم در بنارس ملاقی شدہ ‘‘ (۱۰) ۔
۴۔لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی نے بھی اپنی ایک کتاب ’’ تنمیق شگرف ‘‘ رچرڈ جانسن کے نام معنون کی تھی ، اب یہ کتاب نایاب ہے ۔ (۱۱)
۵۔ میر قمرالدین منّت نے ۱۱۹۶ ھ میں مشہور پنجابی قصہ ’’ ہیررانجھن ‘‘ کے عنوان سے فارسی زبان میں نظم کر کے اپنے مربی مسٹر رچرڈ جانسن کے نام معنون کیا ۔ (۱۲)
۶۔ انڈیا آفس لندن کے شعبۂ ہندوستانی میں ۹۲ صفحات پر مشتمل نو طرزمرصّع کا ایک قلمی نسخہ محفوظ ہے۔ یہ کتاب مکمل نہیں بلکہ اس میں پہلے درویش کی کہانی تک ، داستان کا ابتدائی حصہ ہی ہے ۔ اس کے صفحہ اوّل پر مندرج ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ لکھنؤ میں محمد بخش خاں نام کے کسی کاتب نے ’’ سر کار نواب صاحب ممتاز الدولہ ، مفخر الملک حسام جنگ مسٹر رچرڈ جانسن صاحب دام اقبالہ ‘‘ کی لائبریری کے لیے تیا ر کیا تھا ۔ یہ نسخہ انیسویں صدی عیسوی کا مکتوبہ بتایا جاتا ہے ۔ (۱۳) (۱۳ الف)
میر حسین ایک نسبتاً غیر معروف شخصیت ہے۔ نسخۂ جانسن کے اندراجات کے پیش نظر ہمارا قیا س یہ ہے کہ وہ بہ حیثیت دیوان مسٹر جانسن کی سرکار سے متوسل تھا۔ دوسرے مآخذ کے مطابق اُس کا پورانام میر محمد حسین تھا ۔ وہ انگریزوں سے بہت زیادہ ربط ضبط رکھتا تھا۔ اس لیے عرفِ عام میں فرنگی کے لقب سے مشہور تھا ۔ نواب آصف الدولہ نے ہارپر کے نام اپنے شکایت نامے میں جانسن کا ذکر کر تے ہوئے لکھا ہے کہ اس (مسٹر جانسن ) نے میر محمد حسین سے بہت زیادہ ربط ضبط بڑھارکھا ہے اور حسب منشا اس (میر محمد حسین ) کے لیے وظیفہ مقرر کراکر جتنی رقم چاہتا ہے اس کے نام سے خود وصول کر تاہے ۔ (۱۴)
۱۷۸۴ء میں جب جانسن رزیڈنٹ کی حیثیت سے حیدر آباد گیا تو میرمحمد حسین بھی وہاں پہنچ گیا ۔ جانسن کے بعد میرمحمد حسین کا بھی اودھ چھوڑکر حیدر آباد چلے جانے پر سرکار اودھ نے میر مذکور کا وظیفہ بند کر دیا تھا ۔جانسن نے نواب کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ میر محمد حسین حیدرآباد آنے پررضا مند اس وقت ہوا جب گور نر جنرل نے اسے یقین دلایا کہ اس کاسرکاری (اودھ کا) وظیفہ باقاعدگی کے ساتھ ملتارہے گا۔ لیکن نواب نے اپنے خط میں اس بات کی تردید کی کہ ہیسٹنگ (گورنر جنرل ) کے ساتھ اس کا اس قسم کا کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ کمپنی نے بھی گورنر جنرل اور کونسل کی ہدایت کے مطابق میر محمد حسین کے وظیفے کی رقم (جو ۷۳۳،۳۲روپیے پر مشتمل تھی ) نواب سے طلب کی۔ نواب آصف الدولہ نے عذر پیش کیا اور کمپنی کو لکھا کہ اس طرح کا کوئی معاملہ سرکار اودھ اور گور نرجنرل کے بیچ نہیں ہوا ہے ۔ لیکن کمپنی باربار اپنا مطالبہ دہراتی رہی اور جانب داری میں یہ کہتی رہی کہ حیدر آباد کے قیام کے دوران میر محمدحسین نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور سات سوروپیے ماہوار جو کمپنی میر مذکور کو دیتی رہی ہے اسے سرکار اودھ ہی سے وصول کیا جائے گا ۔ لیکن جب لارڈکارنوالس گورنر جنرل ہوئے تو انھوںنے اس مطالبے کو باطل قراردے دیا اور یہ ہدایت کی کہ اس (وظیفہ کے ) مد میں سرکار اودھ سے جو رقم وصول کی گئی ہو وہ کمپنی کے حساب میں شامل کر لی جائے ۔ (۱۵)
مرزا علی لطف کے ایک بیا ن سے بھی جانسن اور میر محمد حسین کے تعلقات پر روشنی پڑتی ہے ۔ تذکرہ نگار موصوف میرقمرالدین منّتؔ کے حالات میں ’’ ویرا نی شاہجہان آباد‘‘ کے بعد لکھنؤ میں ان کے ورود کا تذکرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’میرمحمد حسین فر نگی لقب کی باد فروشی کے سبب مشتاق اُن کا وہاں ایک زمانہ ہوا ۔ بعد چندے مربی گری سے میر مذکور کے ، ممتاز الدولہ مسٹر جانسین بہادر کی سرکار میں توسل انھوں نے حاصل کیا ۔‘‘ (۱۶)
تذکرہ ’’ ریاض الوفاق ‘‘ کے مصنف ذوالفقار علی مست نے میر محمد حسین سے کلکتے میں اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور ’’ خلاصۃالافکار ‘‘ کے حوالے سے ان کے بارے میں چند اطلاعات فراہم کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میر محمد حسین عربی وفارسی کے علاوہ علم طب ، علم ریاضی اور علم طبیعی سے واقف ہیں ۔ ان کا مولد لکھنؤ ہے۔ دکن گئے تھے ، سخت بیمار ہوکر وطن روانہ ہوئے۔ بنارس کے قریب ۱۲۰۵ھ میں فوت ہوئے۔ صاحب دیوان شاعر ہیں ۔ ان کے دیوان میں تقریباً چھ ہزار ابیات ہیں لیکن کسی شعر میں تخلص موجود نہیں ۔ (۱۷)
مصحفیؔ نے اپنے تذکرے ’’ عقد ثریا ‘‘ کے آخر میں’’ خاتمہ ‘‘ کے زیر عنوان دو ایسے ’’ دانش مندوں ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو ’’ بمقتضاے موزونی طبع ‘‘ کچھ کہ لیا کر تے تھے لیکن اس سے ’’اظہار کمال شاعری ‘‘ مقصود نہ تھا ۔ اس لیے انھوں نے کوئی تخلص اختیا ر نہیں کیاتھا ۔ ان میں دوسرے ’’دانش مند ‘‘ کے ذکر میں’’ میر محمد حسین لندنی ‘‘ کا عنوان قائم کر کے فارسی کا ایک شعر نقل کر دیاگیا ہے (۱۸)ممکن ہے کہ مصحفیؔ نے ’’لندنی‘‘ یہاں ’’فرنگی‘‘ کے بدل کے طور پر استعمال کیا ہو اور اس سے مراد یہی میر محمد حسین ہوں ۔
’’ در سنہ گیارہ سو اکیانوے ۱۱۹۱؁ھ بہ سبب ویرانی دار الخلافہ وارد لکھنؤ گشتہ۔۔۔۔۔بنا بر ِ نقادی میر محمد حسین مرحوم ۔۔۔۔ سکّۂ تمام عیار سخش رواج باز از گوش صغیرو کبیریافت و ہم بہ توجہ آں سید عالی قدر توسل بہ ۔۔۔۔۔ مسٹر جانسن بہادر سلمہ‘۔۔۔۔۔بہم رسانیدہ بہ سفر بنگالہ و دکن برداخت۔۔۔۔۔۔‘‘ ۱۸ (الف)
(تذکرہ یوسف علی خاں بحوالہ نواے ادب اپریل ۱۹۵۱ ص:۱۲
مصحفیؔ نے میر صدرالدین محمد صدّر کے حال میں لکھا ہے کہ:
’’(میر محمد حسن) مرد کم گو بود خلیق و بدلہ سیخ و لطیف مزاج و خوش اختلاط است۔۔۔ خط شفیعارا بیار خوب میں نوسیہ گا ہے بعد سالے ماہے بمقتضاے ٔ موزونی طبع خیالِ شعر ہم فی کند‘‘ اور نہ اطلاع بھی دی ہے کہ ’’ از چند گاہ بہ لکھنؤ رسیدہ رفاقت جانسن فرنگی اختیار نمودہ ‘‘ ۱۸ (ب)
(عقد ثریا، طبع دوم ۱۹۷۸ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ص ۷۴)
نسخہ جانسن کو اردو دنیا سے روشناس کرانے کاسہرا شیخ چاند مرحوم کے سر ہے ۔ انھوں نے اس کا تعارف اپنی کتاب ’’سودا‘‘ (مطبوعہ۱۹۳۶ء ) میں قدرے تفصیل سے پیش کیا ہے ۔ ان کا بیان ہے کہ یہ دیوان ’’ سوداؔکی زندگی کا لکھاہواہے ۔۔۔ اور بہ طور تحفہ لکھنؤکے ریزیڈنٹ اور شاعرکے ممدو ح جانسن کو دیا گیا تھا۔۔۔ یہ بہت ہی خوبصورت نستعلیق خط میں لکھاہوا ہے۔۔۔ جانسن کی مدح میں سوداؔ نے ایک قصیدہ بھی لکھا ہے۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ (نسخہ )خاص طور پر جانسن کی نذر کر نے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔۔۔ بہت صحیح اور مستند نسخہ ہے ۔‘‘ (۱۹)
شیخ چاند مرحوم کے محولہ بالا مفروضے کی بنیاد پر محققین اور علماے ادب نے بغیر کسی تحقیق وتفتیش کے نسخہ مذکور کو کلام سوداؔکاواحد مستندنسخہ باور کرلیا ، چنان چہ پاکستان میں ڈاکٹرمحمدشمس الدین صدیقی نے اس کو بنیاد بناکر’’کلیاتِ سودا‘‘مرتب کیا جسے ’مجلس ترقی ادب لاہور ، نے چار جلدوں میں شائع کیا (۲۰) ۔ اور ہندوستان میں ڈاکٹر محمدحسن نے اس نسخے کی مبینہ غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر املااور خط کی تمام خصوصیتوں کوعلیٰ حالہ قائم رکھتے ہوئے نہایت اہتمام کے ساتھ اس کی کتابت کرائی اور ماڈل ٹاؤن دہلی سے چھپوا کر عام کیا۔ جناب رشید حسن خاں نے اسی کی بنیادپر’’انتخاب سوداؔ‘‘ کے نام سے سوداؔ کے منتخب کلام کا مجموعہ ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ ترتیب دیا جو۱۹۷۲ء میں مکتبہ جامعہ دہلی سے شائع ہوا۔ علاوہ بریں ڈاکٹر عتیق احمد صدیقی، ڈاکٹر خورشید الاسلام اور ڈاکٹر ہاجرہ ولی الحق نے بالترتیب ’’ قصائد سوداؔ‘‘ ’’انتخاب کلام سوداؔ‘‘ اور ’’ غزلیات مرزا محمد رفیع سوداؔ‘‘ کی تدوین اور ترتیب میں اس نسخے سے استفادہ کیا ہے ۔
قاضی عبد الودود مرحوم اردو ادب میںکسی تعارف کے محتاج نہیں ، ڈاکٹر محمودشیرانی کے بعد اردو تحقیق نے جس قدر بھی وقار حاصل کیاہے وہ تمام تر قاضی صاحب کی دیانت دارانہ محنتوں کا ثمرہ ہے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں نسخۂ جانسن کے بارے میں ایک حد تک شیخ چاند مرحوم کے قول کا ہی اعادہ کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ یہ وہ نسخہ ہے جو سوداؔ نے رچرڈجانسن نائب رزیڈنٹ اودھ کو اپنی موت سے دو چار سال قبل دیا تھا ‘‘(۲۱)
ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی تصنیف ’’مرزامحمد رفیع سوداؔ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ وہ یہ نسخہ ہے جسے سوداؔ نے رچرڈ جانسن کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔۔۔۔۔یہ کلیات سوداؔ کے معتبر ترین نسخوں میں ہے ۔۔۔۔۔‘‘(۲۲)
جناب رشید حسن خاں کا شمار عصرحاضر کے ژرف بین اور سنجیدہ محققین میں ہوتا ہے ۔ ان کے تحقیقی اور علمی کارناموں کے مطالعے سے مترشح ہوتاہے کہ وہ تحقیق میں شرک گوارا نہیں کرتے ، نہ ہی سہل انگاری اورعجلت کے قائل ہیں، سنسنی خیز اور سنی سنائی باتوں پر ایمان لانا مذ ہب تحقیق کے منافی خیال کر تے ہیں ۔ لیکن چوںکہ انسان خطاونسیاں سے مرکب ہے اس لیے اُس سے بھول چوک اور غلطیوں کا سر زد ہوجانا بہر حال بعیداز امکان نہیں۔ یہاں زیر تبصرہ مخطوطے کے بارے میں اُن کے غیر محقق بیان کو سامنے رکھ کر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موصوف نے محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اسے معتبرترین نسخے کا درجہ دے دیا ہے۔ انھوں نے مختلف مقامات پر اپنے اس مفروضے کی پرزور حمایت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں :ـ۔
۱۔’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کلیات سودا کے نسخہ جانسن میں ،جس کی کتابت لازماً سوداؔ کے آخری زمانے میںہوئی ہے … اس لفظ (تڑپھ) کا املا یہی ہے ‘‘(اردواملا ،طبع اول ص۶۶۱)
۲۔’’ یہ نسخہ ۔۔۔۔ الحاقی کلام سے پاک ہے ۔۔۔۔۔‘‘ اس میں اغلاطِ کتابت کم ہیں‘‘ (۱)۔(مقدمہ ’’انتخاب سودا‘‘ ص ۳۰) (۱۱)۔( ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ ص۱۷ از رشید حسن خاں )
۳۔ اس کی مدد سے کلام سوداؔ کے متن کی تصحیح بخوبی ممکن ہے۔ (مقدمہ’’ انتخاب سودا‘‘ ص۳۰)
۴۔ ’’ کلام سودا کا (بہ لحاظ صحت متن وانتساب متن ) اہم ترین اور معتبر ترین خطی نسخہ وہ ہے جو انڈیا آفس لائبریری ، لندن میں محفوظ ہے ۔ اس کی کتابت سوداؔ کی زندگی میں ہوئی تھی ۔ ۔۔۔ تکمیل ۱۱۹۳ھ تا۱۱۹۵ھ میں ہوئی تھی ۔۔۔ یہ نسخہ سوداؔ کے ایک ممدوح رچرڈ جانسن کی نذر کیا گیا تھا۔۔۔۔‘‘ (’’ادبی تحقیق۔۔۔۔۔‘‘ ص۱۳۰ )
۵۔ ’’انڈیا آفس لندن کے ذخیرۂ مخطوطات میں کلام سوداؔ کا وہ نادر مخطوطہ محفوظ ہے جس کی کتابت سوداؔ کی زندگی کے بالکل آخری زمانے میں ہوئی تھی ۔ یہ بیش قیمت خطی نسخہ سوداؔ کے ایک ممدوح رچرڈ جانسن کو نذر کیا گیا تھا ، جو اودھ میں نائب رزیڈنٹ اور قائم مقام رزیڈنٹ رہ چکا ہے ۔ ‘‘ (مقدمہ ’’انتخاب سوداؔ ‘‘ ص ۲۹، ۳۰ )
۶۔ ’’۔۔۔۔اردو ادب پر جانسن کا یہ احسان ہے کہ اس کی بدولت کلام سوداؔ کا اہم ترین نسخہ وجود میں آیا اور محفوظ رہا ۔ ایسا نسخہ جس کو پیش نظر رکھے بغیر تصحیح وتدوین کا کام انجام دیا ہی نہیں جاسکتا ۔ اب تک دریافت شدہ نسخوں میںصحت متن کی بنا پر یہ واحد مخطوطہ ہے جس کو تدوین کی بنیاد بنایا جانا چاہیے۔ ( مقدمہ’’ انتخاب سوداؔ ‘‘ ص۳۲)
پروفیسر خورشید الاسلام نے سوداؔ کے کلیات کا ایک انتخاب ’’کلام سوداؔ‘‘ کے نام سے مرتب کیا، جو ۱۹۶۴ء میں انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے شائع ہوا ہے۔ پروفیسرموصوف اپنے مقدمے میں نسخۂ جانسن کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’۔۔۔۔ یہ وہ نسخہ ہے جسے سوداؔ نے اپنے اہتمام میں لکھوا کر جونسن کو پیش کیا تھا۔۔۔۔‘‘ (ص ۳۱) خلیق انجم نے بھی یہی راے اس نسخے کے بارے میں ظاہر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : یہ وہ نسخہ ہے جسے سوداؔ نے رچرڈ جانسن کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
ڈاکٹرمحمد شمس الدین صدیقی نے برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ کلامِ سوداؔ کے نسخوں کی مدد سے کلیاتِ سوداؔ مرتب کیا تو انھوں نے بہ وجوٗہ نسخۂ جانسن کو بنیادی نسخے کی حیثیت سے استعمال کیا۔ اور عام طور پر اسی کی قرأت کو ترجیح بھی دی۔ اُن کا قیاس ہے کہ یہ نسخہ ۱۷۸۱ء کے نصف اوّل میں مکمل ہوا اور سوداؔ نے اسے رچرڈ جانسن کی خدمت میں میرحسین کی معرفت پیش کیا۔
درج بالا بیان کے علی الرغم مرتب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے بنیادی نسخے میں اغلاطِ املا و کتابت اور الحاقی کلام کے علاوہ متعدد نظموں کے غلط انتسابات بھی موجود ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ دیوان کتابت کے بعد سوداؔ کی نظر سے نہیں گزرا۔
ڈاکٹر محمد حسن نے نسخہ جانسن کے مشمولات کو’’ کلیات ِ سوداؔ‘‘ (جلد اول ) کے نام سے اس کے اصل خط اور ترتیب کے مطابق ادارہ تصنیف ماڈل ٹائون دہلی -۹ سے ۱۹۴۹؁ء میں شائع کیا ہے ۔مقدمے میں ان کا ارشاد ہے کہ:
[۱] ’’ یہ نسخہ مصنف کی زندگی میں مرتب ہوا اور لکھنو میں ایک اہم شخصیت کو پیش کیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ سوداؔ نے خود پیش کیا ہو یا شاعر کے ایماسے پیش کیا گیا ہو۔ قرین قیاس ہے کہ اس کی ترتیب میں زیادہ توجہ صرف کی گئی ہوگی‘‘ (مقدمہ’’کلیات سودا ؔ‘‘ جلد اول ص ۳۱)
[۲] ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس مخطوطے سے مقابلے کے بعد سوداؔ کے متعدد اشعار کی صحیح قرأت تک بھی رسائی ممکن ہے ‘‘ (ایضاً ص ۳۱)
اپنے اس دعوے کے ثبوت میں مرتب نے ایک شعر نسخہ آسی سے پیش کیا ہے جس میں ’’صورت دیبا‘‘ کو ’’صورت زیبا‘‘بنادیا گیا ہے ۔ لیکن یہ اختصاص صرف جانسن کے متن تک محدود نہیں بلکہ قدیم ترین مطبوعہ ایڈیشن ’’نسخہ مصطفائی ‘‘ میں صحیح متن ’’دیبا‘‘ہے اور جو بعد کے مراحل میں دنیا ’’اورزیبا ‘‘ میں بدل گیا ۔ مرتب نے اپنے ادعا سے قبل اسی کلیات کے پیش لفظ میں لکھاہے کہ ممکن ہے میر محمد حسین نے جانسن کی خوشنودی حاـصل کر نے کے لیے یہ مخطوطہ اس (جانسن ) کے کتب خانہ میں داخل کرایا ہو (ایضاً) ڈاکٹر موصوف کا یہ بیان بھی درست نہیں کہ ’’یہ نسخہ ۱۱۹۲ھ کے لگ بھگ مرتب ہو ا‘‘۔ (ایضاًص۳۰)
ڈاکٹر جمیل جالبی نے سوداؔ کے دیوانِ اُردو پر تبصرہ کرتے ہوئے تقریباً انھی باتوں کو دہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: (۱) ’’۔۔۔۔ البتہ ایک نسخہ انڈیا آفس لندن میں محفوظ ہے جو سوداؔ کی زندگی میں سوداؔ کے ایماپر لکھنؤ میں انگریز وں کے نائب رزیڈنٹ رچرڈ جانسن کے لیے لکھوایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کلیات ِسوداؔ کا واحد معلوم نسخہ ہے جو سوداؔ کی نظر سے گزراتھا اور جس میں کتابت کی غلطیاں بھی کم ہیں ۔‘‘ (تاریخ ادب اردو جلددوم و طبع دوم ۱۹۸۷ء مجلس ترقی ادب لاہور ،پاکستان ،ص۶۶۹)
(۲) قائم کے تعلق سے ایک جگہ لکھتے ہیں : ۔۔۔۔۔قائم کا بہت سا کلام ۔۔۔۔۔غلطی سے کلیات سوداؔ میں شامل ہو گیا ہے اور میر کلیات سوداؔ کے اس نسخے میں شامل نہیں ہے جو خود سوداؔ کی نگرانی و زندگی میں رچرڈ جانسن کے لیے تیار کرایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔(ص: ۷۴۹)
لیکن مندرجہ بالا راپنی دونوں آرا اے کے برخلاف موصوف ۱۹۹۴ء؁ میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں نسخہ ٔ جانسن کا ضمناً ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ وہی ممتاز الدولہ رچرڈ جانسن بہادر ہیں جو لکھنؤ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے نائب رزیڈنٹ تھے اور جنھیں دیوان سوداؔ محمد حسین نے خوشخط لکھواکر پیش کیا تھا اور جو آج نسخہ ٔ جانسن کے نام سے معروف ہے ‘‘۔ (مصحفی کے تذکرے۔ ایک تجزیاتی مطالعہ، مشمولہ یادگار نامہ۔ فخر الدین علی احمد مطبوعہ ۱۹۹۴؁ء، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ۔ ص ۴۱۰)
ڈاکٹرعبدالاحد خاں خلیل مرحوم کا ایک تحقیقی مضمون ’’رچرڈ جانسن اور سوداؔ‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ شمارہ اپریل ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا ہے۔ نسخۂ جانسن کے بارے میں ان کی راے بھی شیخ چاند مرحوم کے مفروضے سے چنداں مختلف نہیں بلکہ اُن کے بیان کی توضیح معلوم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ دیوان چوں کہ خود سوداؔ کے ایما سے اور اُن کی نگرانی میں تحریر ہوا تھا۔ [اور] اس زمانے کے ممتاز رکن حکومت یعنی مسٹر رچرڈ جانسن کو پیش کیا گیا تھا اس وجہ سے اس کا امکان بالکل نہیں ہے کہ اس میں کسی دوسرے ہم عصر شاعر کا کلام شامل کر لیا گیا ہو۔ چنان چہ الحاقی کلام اس میں یکسر موجود نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ سب ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہے‘‘۔
پروفیسر اکبر حیدری کی راے ہے کہ ’’یہ نسخہ ۱۱۹۳ تا ۱۱۹۵ کے درمیان رچرڈ جانسن کو پیش کیا گیا تھا‘‘ (اکادمی لکھنؤ، مئی ۱۹۸۲ء ص ۸۵) البتہ انھیں یہ ماننے میں تامّل ہے کہ نسخہ الحاقی کلام سے یکسر پاک ہے۔ وہ ’’مثنوی در ہجو فدوی معروف بہ قصۂ بوم بقال ‘‘ کو سوداؔ کی نہیں شیداؔ کی تصنیف خیال کرتے ہیں۔
غالبا ً شیخ چاند ایم ۔اے ۔ ایل۔ ایل۔ بی (متوفی ۱۹۳۶ء) کے بیان پرقاضی صاحب مرحوم کی مہرتصدیق کے بعد مزید تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور حسن ظن کی بنا پر یہ بات دہرائی جاتی رہی کہ یہ نسخہ جو رزیڈنٹ یا نائب رزیڈنٹ کو سوداؔ نے نذر کیا تھا ، سب سے معتبر نسخہ ہے اور یہ کہ اس کی کتابت ۱۱۹۲ھ تا ۱۱۹۵ھ کے درمیان ہو ئی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
راقم سطور نے زیر بحث ’دیوان سوداؔ‘ کے متن کا مقابلہ ملک اور بیرون ملک میں موجود کلام سوداؔ کے کئی معتبر اور قدیم نسخوں سے کرنے کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کاتبِ دیوان خوش خط اور پڑھا لکھا ہونے کے علاوہ جعل سازی کے فن میں بھی مہارت تامہ رکھتا ہے ۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے الفاظ و حروف میں جا بجا اس طرح ترمیمیں کی ہیں کہ سرسری طور پر ان کی گرفت نہیں کی جاسکتی ۔ کاتب کی اس جعل سازی کی وجہ سے ہمارے محققین اور علماے فن تدوین نے نسخہ مذکور کے بارے میں غلط آرا قائم کی ہیں اور گمراہ کن مفروضے پر اپنی تحقیق و تدوین کی بنیا د یں رکھی ہیں۔
یہاں مذکورہ بالا دعوے کی تائید میں چند تحقیقی معروضات پیش کیے جائیں گے ، بعد ازاں ’’دیوان‘‘ کے محرف و الحاقی کلام ، نظموں کے غلط انتسابات اور اغلاط املا و کتابت پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جائے گی ۔
۱۔ دیوان کے پہلے ورق کی پشت کے بالائی سرے پر منقول انگریزی عبارت سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ کتاب مرزا محمد رفیع سوداؔ نے مسٹر جانسن کو تحفتہً دی تھی ۔ لیکن خود پیش کی تھی یاکسی کے توسط سے، یہ واضح نہیں۔ دراصل انگریزی خط کے انداز اور جاے تحریر سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ عبارت بعد کی ہے اور کسی ایسے شخص کا اضافہ ہے جس سے فارسی عبارات کو سمجھنے میں تسامح ہواہے۔ اس کے بر عکس فارسی عبارتیں کاتب متن کے قلم سے اُسی خط اور روشنائی میں لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔ مزید بر آں فارسی الفاظ’’ گذرایندہ ٔمیر حسین صاحب ‘‘سے اول تو انگریزی عبارت کی تردید ہوتی ہے دویم اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ’’دیوان مذکور ‘‘ سوداؔنے نہیں، میر حسین نامی ایک شخص نے جانسن کو پیش کیاتھا ۔
۲۔ جانسن کا پورا نام رچرڈ جانسن تھا ۔ عام طور پر مسٹر جانسن کے نام سے جاناجاتاہے اور اسی نام سے تاریخی کتابوں میں اس کے حالات درج ہیں ۔ میر حسین کو اس کی سرکار میں غیر معمولی رسوخ حاصل تھا اور اپنی ’’باد فروشی ‘‘ کے سبب عوام میں ’’فرنگی ‘‘ لقب سے یاد کیاجاتا تھا۔ مسٹر جانسن اور میر محمد حسین کے اس باہمی رشتے کے پیش نظر غالب گمان یہی ہے کہ صاحب بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ دیوان میر مذکور نے اُنھیں دیاہوگا ۔
۳۔ فارسی عبارات میں جانسن کا ذکر خطابات (ممتاز الدولہ مفتخر الملک حسام جنگ صاحب بہادر) کے التزام کے ساتھ کیاگیا ہے لیکن سوداؔ (متوفی ۱۱۹۵ھ/۱۷۸۱ء) کی زندگی میں لکھی گئی کسی کتاب میں جانسن کے نا م کے ساتھ خطابات مذکور نہیں ۔حیدر آباد کے قیام کے زمانے (۸۶۔۱۷۸۴ء)کی تحریروں سے بھی اس کے خطاب یافتہ ہونے کا کو ئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ’’خیابانِ آصفی‘‘کے مولف مانک راؤ وِٹھل راؤ نے کتاب کے آخر میں مملکت آصفیہ، حیدر آبادکے کل سر سٹھ رزیڈنٹوں کا ایک چارٹ اور فٹ نوٹ میں ان کے خطابات کی نشا ن دہی کا التزام کیاہے لیکن انھوں نے بھی جانسن کے کسی خطاب کا ذکر نہیں کیاہے۔ (۲۳)
۴۔ مشہور معاصر تاریخ نویس او رمصنف ابو طالب اصفہانی لندنی، جانسن کا بڑا مداح ہے۔ اس نے اپنی تالیف ’’وقائع زماں نواب آصف الدولہ ‘‘معروف بہ ’’تاریخی آصفی ‘‘میں ۷۶۔۱۷۷۵ء ؍۱۱۸۹ھ تا۱۷۹۶ء/۱۲۱۱ھ تک کے سیاسی اور معاشی حالات قلم بند کیے ہیں ۔ وہ جانسن کے علم و فراست کا ذکر اور اس سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار باربار کرتا ہے لیکن اس کے کسی خطاب کا تذکرہ اس کے یہاں بھی موجود نہیں ۔ پوری کتاب میں اس نے جانسن کے لیے مسٹر جانسن لکھاہے جب کہ ایک دوسرے انگریز افسر وینسٹیارٹ کانام خطاب کے ساتھ لکھاہے ۔ کتاب مذکور کی عبارت دیکھیے:
’’مسٹر وینسٹیارٹ ہوشیارجنگ اور مسٹر جانسن اس سفر میں جنرل کے ساتھ تھے‘‘ (۲۴)
یہاں صرف مسٹر جانسن لکھنا یہ ظاہر کرتاہے کہ مصنف اس کے خطابات سے ناواقف تھا۔
۵۔ ۱۷۷۹؍ ۱۱۹۳ھ سے ۱۷۸۱؍۱۱۹۶ تک لکھنؤمیں جانسن کے زوال کا زمانہ تھا ۔ بیگمات اودھ اور نواب کے ساتھ اس کے تعلقات نہایت کشیدگی اختیا ر کر چکے تھے ۔ نواب آصف الدولہ نے تنگ آکر جانسن کی بد عنوانیوں کی شکایت اس وقت کے رزیڈنٹ مسٹر ہار پر سے کی تھی ، نتیجے کے طور پر ۱۷۸۲ء میں اسے اپنے عہدے سے الگ ہوناپڑا تھا۔ ایسی صورت میں سرکار اودھ کی جانب سے اس کا خطابات سے نوازاجانا نیز نواب کے ایک معتمد علیہ درباری شاعر کا جانسن کی مدح میں قصیدہ لکھنا اور اپنا دیوان نذر کرنا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے ۔
۶۔ مسٹر جانسن کی فر مائش پر لکھی گئی مثنوی موسوم بہ ’’ اسرار محبت ‘‘ کا سنہ تصنیف ۱۱۹۷ھ ہے۔اس مثنوی میں فرمائش کنندہ کو نکتہ داں ، شفیق ، قدرداں ، مہرباں ، والامناقب ، فخر فرنگستان وغیرہ صفات سے متصف کیاگیا ہے لیکن مسٹر جانسن بغیر کسی اعزازی نام کے ساتھ نظم کیاجانااس دعوے کی قوی دلیل ہے کہ اس وقت تک جانسن کو کوئی خطاب نہیں ملاتھا۔
۷۔ تذکرہ گلزار ابراہیم پہلی تاریخی دستاویز ہے جس میں ’’مسٹر جانسن ‘‘ کے نام سے قبل ’’ممتاز الدولہ ‘‘ اور بعد میں ’’بہادر‘‘ کااضافہ کیاگیا ہے ۔ یعنی ممتاز الدولہ مسٹر جانسن بہادر‘‘ لیکن ’’مفتخر الملک حسام جنگ ‘‘ یہاں بھی موجود نہیں ۔ تذکرہ میںموجود داخلی قرائن سے پتا چلتاہے کہ اس کی تکمیل ۱۷۸۴ء / ۱۱۹۹ھ کے بعد ہی کسی سال میں ہوئی ہوگی ۔
۸۔ انڈیا آفس لائبریری ، لندن میں موجود ’’نوطر ز مرصع ‘‘ کے صفحہ ٔ اول پر جانسن کا پورا نام ’’سرکار نواب صاحب ممتا ز الدولہ مفتخر الملک حسام جنگ مسٹر جانسن صاحب دام اقبالہ ‘‘ لکھاہواہے ۔ یہ نسخہ انیسویں صدی عیسوی کا مکتوبہ بتایاگیاہے ۔(۲۵)۔
۹۔ اصفہانی کے ایک بیان کے مطابق ۱۷۸۶ء میں حیدر آباد میں رزیڈنٹ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد جانسن لکھنو ٔ چلاآیا اور اودھ میںمسٹر ایوس (Ives) کے رزیڈنٹ مقرر ہونے پر وہ دوبارہ رزیڈنٹ کا نائب بنا ۔ اس مرتبہ نواب کے ساتھ اس کے تعلقات نسبتاً بہتر رہے ۔ راقم کا خیال ہے کہ اسی زمانے میں جانسن کو خطابات عطاہوئے ہوں گے اور میر حسین نے یہ نسخہ اس کی نذر کیاہوگا ۔
۱۰۔ ذوالفقار علی مست نے کلکتے میں میر حسین سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور جو اطلاعات بہم پہنچائی ہیں ان کی روشنی میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہی وہ میر حسین ہے جو فرنگی یا لندنی کے لقب سے مشہور تھا اور جانسن سے منسلک تھا ۔ اور جس نے زیر بحث دیوان اس کی نذر کیا تھا ۔ تذکرہ نگار نے یہ بھی لکھاہے کہ میر محمد حسین کا دیوان چھہ ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور کسی شعر میں تخلص موجود نہیں ۔ ’’ عقد ثریا‘‘ کے آخر میں ’’داانش منداں ‘‘ کے زیر عنوان جس میر محمد حسین کا ایک فارسی شعر نقل ہے وہ یقینا یہی میر حسین ہیں۔ مصحفیؔ نے بھی لکھاہے کہ یہ ’’دانش مند‘‘ تخلص نہیں رکھتا تھا ۔ اس سے یہ نتیجہ مستنبط کیاجاسکتاہے کہ چوںکہ یہ شخص شاعر بے تخلص تھا اس لیے اس نے اپنے شاعرانہ کمال کا مظاہرہ کرنے کے لیے شاعر کی زبان و بیان میںرچرڈ جانسن کی مدح کہ کر اس میں سوداؔ تخلص شامل کر دیا ۔
۱۔ ’’تحریفات ‘‘
سوداؔ کے کلام میں ترمیم و تحریف کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ چنان چہ میر حسن نے ان کے ایک شاگرد معین بدایونی کے ترجمے میں لکھا ہے کہ : ’’دیوان استاد خودرا موافق طبع خود درست کند و سخن خود را سر سبز می نماید ‘‘ (۲۶) علاوہ ازیں معاصر تذکروں میں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جن کا متن کلام سوداؔ کے کسی قدیم نسخے کے متن سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ مثال کے طور پر میرؔ کے تذکرے میں ایک شعر اس طرح نقل ہوا ہے :
’’موج نسیم گرد سے آلودہ ہے نپٹھ
دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا‘‘
جب کہ دوسرے تمام قدیم مآ خذ میں مصرع اول کی شکل یہ ہے :
’’ع موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے ‘‘
مرزا سوداؔ نے مندرجہ ذیل اشعار قطعہ میں غالباً اسی طرح کی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
ہے جو کچھ نظم و نثر عالم میں
زیر ایراد میر صاحب ہے
ہر ورق پر ہے میرؔ کے اصلاح
لوگ کہتے ہیں سہو کاتب ہے
تذکروں میں اس قسم کے اختلافات متن کی مثالیں بکثرت موجود ہیں لیکن انھیں حتمی طور پر ناقلین کے ارادی تصرف کانتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کے بر خلاف نسخۂ زیر بحث کے متعلق وثوق کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ اس میں دیدہ و دانستہ تحریفیں کی گئی ہیں۔
ان تحریفوں کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے۔
۱۔ الفاـظ کی معمولی ردوبدل کے ذریعے زبان کو سہل بنانے یا قدیم اثرات کو زائل کر نے کی کوشش کی گئی ہے یا
کسی شعر کو بزعم خویش زیادہ چست اور بامعنی بنانے یا مضمون میںجدت پیدا کرنے کی غرض سے کسی خاص لفظ یا ترکیب کو بدل دیا گیا ہے ۔
یہ تبدیلیاں اتنی صفائی سے کی گئی ہیں کہ ہمارے بعض ممتاز محققین تک ان کی گرفت سے قاصر رہے ہیں ۔مثلاً:-
(i)۔ کلامِ سوداؔ کے تمام قدیم مآخذ میں ایک مصرع کی شکل یہ ہے ’’ع دکھلائیے لے جاکے تجھے مصر کا بازار‘‘ لیکن زیر بحث نسخے کے کاتب نے’’ مصرکا بازار ‘‘کی جگہ’’مصر کے بازار ‘‘ کردیا ہے جسے ’’مصر کی بازار ‘‘ بھی پڑھاجاسکتاہے ۔
(ii)۔ ایک اور مصرعے ’’نہ پہنچے دل ستی ہرگز زباں تلک یک حرف ‘‘ میں زبان کے قدیم اثرات کو زائل کر نے کی غرض سے متن کو یوں بدل دیا ہے ’’ع کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زباں یک حرف ‘‘
(iii)۔ ایک اور شعر قدیم نسخوں میں اس طرح نقل ہے ۔
’’ایک شب آ، کوئی دلسوز نہ رویا اس پر شمع تک گور ہماری سے جلی دور سدا ‘‘
نسخہ جانسن میں دوسرا مصرع بہ ادنیٰ تصرف اس طرح لکھاگیا ہے :
ع ’’شمع بھی گورہماری پہ جلی دور سدا ‘‘
(iv)۔ فارسی کے مشہور شاعر حافظؔ کی ایک غزل کو سوداؔاور بیدارؔ دونوں نے تضمین کیا ہے ۔ دیوان حافظؔ، دیوان بیدارؔ اور کلام سوداؔ کے قدیم نسخوں میں غزل مذکور کاایک مصرع اس طرح ملتاہے:
ع ’’جز ایںقدرے نتواں گفت در جمال تو عیب ‘‘لیکن نسخۂ جانسن میں’’ گفت ‘‘کو بدل کر ’’یافت ‘‘کردیا گیا ہے ۔
(v)۔ میرؔ کی بھی ایک غزل سوداؔ کے یہاں مخمس میں تضمین ہوئی ہے ۔دیوان میرؔ کے تمام نسخوں اور کلام سوداؔکے قدیم نسخوں میں میرؔ کی غزل کاایک مصرع اس طرح لکھا ہواہے۔ ع’’ خاک کن کن کی ہوئی صرف، بناکیاکیا کچھ ‘‘لیکن نسخۂ زیر بحث میں اس کی شکل یہ ہوگئی ہے۔ ع’’خاک کن کن کی ہوئی ، ظرف بنا کیا کیا کچھ ،‘‘یہاں یہ محرف متن بہ اعتبار معنی غلط بھی ہے ۔
(vi) اسی طرح تاباںؔ کی ایک غزل کے خمسے میں بھی اس کے کئی مصرعوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر تاباںؔ کا ایک مصرع دیوان تاباںؔ اور دیوان سوداؔ کے قدیم قلمی اور مطبوعہ نسخوں کے علاوہ بیشتر تذکروں میں اس طرح ملتاہے ’’ع بیاں کیا کروں ناتوانی میں اپنی ‘‘ لیکن نسخہ ٔجانسن میں تصرف کے ساتھ یوں لکھاگیاہے ’’ع ولے کیا کہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘
اس غزل کے ایک دوسرے مصرعے ’’مری خاک پر لوگ رکھتے ہیں گل کو ‘‘ میں ’’خاک ‘‘کی بجاے ’’گور‘‘ کردیاگیا ہے ۔
ذیل میںمختلف اصناف سخن سے ایسے ہی کچھ اور منتخب اشعار درج کیے جاتے ہیں تاکہ نسخۂ جانسن اور قدیم نسخوں (اصل متن ) کا فرق واضح تر ہو جائے۔

 

(الف) ’’غزلیات‘‘
نسخۂ جانسن
نسخہ ہائے قدیم
۱
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب چشم کھلے گل کی تو موسم ہو خزاں کا
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
۲
دکھلائیے لے جاکے تجھے مصر کے بازار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصر کا بازار

لیکن نہیں خواہاں کوئی وھاں جنس گراں کا
______________________
۳
اے برق کس طرح سے میں حیراں ہوں تجھ کنے
حیراں ہوں کس طرح ستی اے برق تجھ کنے

نقشہ ہے ٹھیک دل کے مرے اضطراب کا
______________________
۴
کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زَباں یک حرف
نہ پہنچے دل ستی ہرگز زَباں تلک یک حرف

اگر بیاں کروں طالع کی نارسائی کا
______________________
۵
ایک شب آ، کوئی دلسوز نہ رویا اُس پر
______________________

شمع بھی گور ہماری پہ جلی دور سدا
شمع تک گور ہماری سے جلی دور سدا
۶
یھاں تک ہوں میں ضعیف کہ کہتے ہیں میرے عضو
یھاں تک گداز غم ہوں کہ کہتے ہیں میرے عضو

باریک و ناتواں ہے اب اس کی کمر کہ ہم
______________________
۷
ہزار حیف کوئی باغ میں نہیں سنتا
ہزار حیف کوئی باغ میں جو سنتا ہو

چمن چمن پڑی کرتیں ہیں بلبلاں فریاد
______________________
۸
نہ میرے دل کی خموشی ہے موجب آرام
نہ میرے دل کو خموشی۔۔۔۔۔۔الخ

کبھو ہوا ہے، کرے مرغ نیم جاں فریاد
______________________
۹
عقل نے ایک دن آکر یہ کہا سوداؔ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاس یاہم سے رہا کیجیے یا ہم سے دور
خواہ نزدیک ہمارے رہو، خواہ ہم سے دور
۱۰
منہ تو مجھے لگاوے تو کب جام کی طرح
منہ تو کہاں لگوں ہوں تیرے جام کی طرح

اتنا بھی واہ واہ میسر ہو گر کہیں
______________________
۱۱
تو تو اس معنی سے کیا شاد ہوا ہووے گا
تو تو اس معنی کو سن شاد ہوا ہووے گا

پوچھیے اہل دلوں سے کہ وہ کیا کہتے ہیں
پوچھیے۔۔۔۔ دلوں سے۔۔۔۔۔۔؟
۱۲
خانۂ مشرب کی دیکھ تازہ بنا کو میرے
دیکھ کے تازی بنا، خانۂ مشرب کی مجھ

کہتے ہیں نت ساکن دیر و حرم واہ واہ
______________________
۱۳
مستی سے اس نگاہ کی، لے محتسب خبر
گردش سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ

دنیا تمام بزم خرابات ہو گئی
______________________
۱۴
سوداؔ سے یہ کہا میں کچھ ذکر کر کسی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاموشی نے تو تیری، عالم کا جی لیا ہے
تیری خموشی نے تو عالم کا جی لیاہے
۱۵
سمجھے اگر تو اتنا یہ زندگی مرض ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہو درد جس طرح کا پھر وہ تجھے دوا ہے
ہو زہر جس طرح کا ۔۔۔۔۔ الخ
۱۶
نامے کا غور سے ٹک میرے جواب لکھنا
نامے کا ٹک سمجھ کے میرے جواب لکھیو

انشاے ظاہری کے باطن میں مدعا ہے
______________________

۱۷
(ب)قصائد
فراہم زر کا کرنا باعث اندوہ دل ہووے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں کچھ جمع سے غنچے کو حاصل جز پریشانی
حصول جمع سے غنچے کو، آخر ہو پریشانی
۱۸
بہ رنگ شیشۂ مے وقت اشک ریزی کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلے سے پڑتی ہے دل تک مرے ہزار گرہ
گلے سے پڑتی ہے دل تک ہزار بار گرہ
۱۹
ہے غرض اس نظم سے اتنی ہی کچھ تا کیحے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرض اپنے حال کا نزد شہ ہر دو جہاں
عرض اپنے حال کی نزد۔۔۔ الخ
۲۰
عجب نہیں ہے کہ جاتی رہی ہو دنیا سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبس خوشی نے مرے دل سے اب کیا ہے فرار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے کنار
۲۱
دلا اس اپنے غم دل کو نت غنیمت جان
دل تو اپنے غم دل کو اب غنیمت جان

بدل خوشی سے تو اس دور میں نہ کر زنہار
______________________
۲۲
کسو سے یھاں غم دل یوں نہ لے گیا دوراں
کسو ہی سے غم دل یوں نہ۔۔۔۔ الخ

کہ شادی مرگ کیا ہو نہ اس کو آخر کار
______________________
۲۳
نہیں ہے شادی بے غم چمن میں دنیا کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ چاک کرکے گریباں ہنسے ہے گل اے یار
کہ گل ہنسے ہے گریبانِ پیرہن کو پھاڑ
۲۴
سنی میں ایک غزل بلبل طبیعت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ دل کے لخت گرے چشم سے ہزار ہزار
کہ لخت دل گرے آنکھوں ستی ہزار ہزار
۲۵
زمیں وہ نور سے اس مرتبہ ہے مالا مال
ہے اس قدر وہ زمیں نور سیتی مالا مال

کہ جس کی رات کے آگے نہیں ہے دن کو قرار
______________________
۲۶
اسی ہی غم سے جہاں میں ظہور کرتی ہے صبح
اسی ہی غم سے نکلتی ہے ظاہرا دم صبح

ہمیشہ پنجۂ خورشید اپنی جیب پہ مار
ہمیشہ پنجۂ خورشید سے گریباں پھاڑ
۲۷
انجم تگرگ وار زمیں پر ٹپک پڑیں
انجم تمام قطرۂ خوں ہو، ٹپک پڑیں

صدمہ ٹک اس سے پہنچے اگر آسماں تلک
صدمہ اگر اس سے پہنچے کبھو آسماں تلک
۲۸
نہیں ہے کام مجھے شعر و شاعری سے ولے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خرد نے مجھ کو نصائح سے بار ہا یہ کہا
خرد نے مجھ ستی سمجھا کے بار ہا یہ کہا
۲۹
یک تن نوالہ خوار نہ ہو اس سے تا ابد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روز ازل سے ہے یہ نگوں کاسۂ سفال
ہے سرنگوں ازل ستی یہ کانسۂ سفال
۳۰
دونوں عارض گویا شیشے ہیں مے گلگوں کے
عارض اس کے گویا شیشے ہیں مئے گلگوں کے

زنخ ان دونوں میں یوں جیسے نمک داں میں گزک
______________________
۳۱
سن کے میں نے یہ کہا اس سے کہ مایۂ ناز
سن کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مایۂ حسن

خیر ہے بات سمجھ کر تو کہ اتنا نہ بہک

۳۲
حلم تیرے کے جو ہم وزن فلک سے کچھ شے
بار تجھ حلم میں ہے یہ کہ تیرے وقت خرام

ڈال دیوے زرہ سہو و خطا کوئی ملک
ہووے ذرہ بھی اگر مرکز خاکی پہ دھمک
۳۳
گزرے وہ جس طرف سے کبھو اُس طرف نسیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرف سیتی

باد سموم ہووے وہیں گر کرے گزار
باد سموم ہووے صبا گر کرے گزار
۳۴
زہے امام زماں، خاک در سوا جس کے
زہے امام کہ جز خاک درستی جس کے

قبول ہو نہ کبھو سجدۂ نماز گزار
_____________________
۳۵
مقابلے سے کماں کے ترے عدو تیرا
تری کمان کے آگے ستی عدو تیرا

کبھو نہ نبھ سکے روزِ نبرد کر کے فرار
______________________
۳۶
دل کو بے جا تیرے کوچے میں ہے نالے کی ہوس
تیرے کوچے میں عبث دل کو ہے نالے کی ہوس

راہ زن راہ نبود باک ز فریاد جرس
______________________

۳۷
(ج)مخمسات
ع ولے کیا کہوں ناتوانی میں اپنی

ع بیاں کیا کروں ۔۔۔۔۔۔ الخ
۳۸
ع مری گور پر لوگ رکھتے ہیں گل کو
ع مری خاک پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
۳۹
ع نہیں رہتے میری گلا تم کیے بن
ع نہیں رہتے میرا گلا تم کیے بن
۴۰
ع کی اس شوخ نے جب سے سیر گلستاں
کیا جب ستی اُن نے سیر گلستاں
۴۱
ع قینچی کی طرح ہرگز پرزے نہ کترتی تھی
ع قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی
۴۲
ع جب شام کی ہوتی ہے پھر شمع نمط گلنا
ع جب رات کے ہوتے ہی نت شمع نمط جلنا
۴۳
ع تقصیر نہیں دل کی میں فرض کیا ہونا
تقصیر نہیں دل کی قسمت کا برا ہونا
۴۴
ع جزایں قدر نتواں یافت درجمال تو عیب
ع جزایں قدر نتواں گفت در جمال تو عیب
۴۵
ع کشمیری ٹولے سے میں ایک فاحشہ بلائی
ع کشمیری ٹولے سیتی ایک فاحشہ بلائی
۴۶
ع خاک کن کن کی ہوئی ظرف بنا کیا کیا کچھ
خاک کن کن کی ہوئی صرف، بنا کیا کیا کچھ

الحاقی کلام
زیر بحث دیوان سوداؔ کا یہ نسخہ الحاقی کلام سے بھی یکسر پاک نہیں، راقم کی تحقیق کے مطابق ایک سو چودہ اشعار کی ایک مثنوی (۱)، چھ شعر کی ایک غزل اور ایک غزل کے دو شعر مع مطلع اس نسخے میں ایسے ہیں جنھیں سوداؔ کے نتائج افکار سمجھنا تحقیقی نقطۂ نظر سے درست نہیں معلوم ہوتا۔ آئندہ سطور میں اس اجمال کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
۱۔ مثنوی ع یارو خدا ایک ہے دوسرے بر حق نبیؐ
’’در ہجو فدوی‘‘ کے عنوان سے ایک سو چودہ ۱۱۴ اشعار کی یہ مثنوی کلام سوداؔ کے بعض دوسرے نسخوں کے علاوہ نسخۂ جانسن میں بھی شامل ہے۔ لیکن معاصر تذکرہ نگاروں کے بیان اور اس میں موجود چند اشعار کے پیش نظر اسے سوداؔ کی تصنیف نہیں کہا جا سکتا۔ تذکرہ نگاروں کے بیانات یہ ہیں:
(i)میر حسن نے فدویؔ لاہوری کے ذکر میں لکھا ہے۔ ’’میر فتح علی شید اہجواو (فدوی) راخوب کردہ است، قصۂ بقال و بوم حسب حال او درج نمودہ است‘‘ (۲۷)
(ii)علی ابراہیم خاں خلیل نے بھی فدویؔ کے حالات میں یہی بات کہی ہے۔ اُن کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’میر فتح علی شیداؔ در ہجو او قصۂ بوم و بقال ضبط نمودہ‘‘(۲۸)
(iii)تیسرے معاصر تذکرہ نگار ابوالحسن امیر الدین احمد امر اﷲ الہ آبادی نے شیداؔ کے حال میں بالواسطہ طور پر اس مثنوی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثنوی در ہجو فدوی لاہوری کہ حریف مرزا (رفیع سودا) بود بہ نظم آوردہ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام مثنوی انشاء اﷲ تعالیٰ در ذیل احوال فدوی قلمی خواہد شد‘‘۔ (۲۹) چنان چہ فدویؔ لاہوری کے ترجمے میں تذکرہ نگار نے اپنے بیان کے مطابق مثنوی مذکور کے ایک سو گیارہ (۱۱۱) اشعار نقل کیے ہیں (ایضاً ص۲۰۰۔۱۹۶)تذکرہ مسرت افزا طبع اول مرتبہ قاضی عبدا لودود میں یہ مثنوی موجود نہیں ہے ۔اصلاً مرتب نے ان اشعار کو غیر ضروری خیال کرکے حذف کردیا تھا ۔ نتیجتاً یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ تذکرہ نگار اپنے مذکورہ بالابیان :’’تمام مثنوی انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘ کے باوجود فدوی لاہوری کے حالات قلم بند کرتے وقت شیدا کی مثنوی ’’درہجو فدوی‘‘ نقل کرنا بھول گیا ہے۔
اِن بیانات کے علاوہ اس مثنوی کے درج ذیل اشعار بھی اس کے تصنیف شیداؔ ہونے پر دلالت کرتے ہیں:-
۱
حضرت سوداؔ تلک جو مرے استاد ہیں
۴
ایسا ہی ایک اور شعرحضرت استاد کا

شعر پہ ان کے بھی اب اُن کے یہ ایراد ہیں

جو قلم فہم سے خلق نے دل میں لکھا
۲
شعر وہ اُن کا سنا جا کے انھوں نے کہیں
۵
سن کے انھوں نے پسند اُس کا جو مضموں کیا

شیخ و برہمن کو ہے جس میں کہ نسبت بہ دیں

میں نے تب اس بحر میں یوں اسے موزوں کیا
۳
اُن کو یہ لازم نہ تھا آن کر اس شہر میں
۶
بس چل اب آگے نہ کہ کچھ انھیں شیداؔ خموش

اٹکیں یہ اس شخص سے طاق ہے جو دہر میں

کیحے اس سے سخن ہووے جسے عقل و ہوش
متذکرہ بالا شواہد کی موجودگی میں مصحفیؔ، سعادت خاں ناصر، قاضی عبدالودود مرحوم، جناب رشید حسن خاں اور ڈاکٹر سید محمد عقیل رضوی کا یہ خیال کہ یہ مثنوی سوداؔ کی تصنیف ہے، قابل قبول نہیں۔ کسی قدر تامل کے ساتھ یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی خود سوداؔ ہی نے لکھ کر اپنے شاگرد کو دے دی ہو لیکن مندرجہ بالا اشعار کے ساتھ اُن کا اسے اپنے دیوان میں درج کرنا یا درج کرنے کی اجازت دینا قطعاً بعید از امکان ہے۔
(۲)

 

’’حاضر ہے تیرے سامھنے سوداؔ کر اس کو قتل

 

مجرم یہ سب طرح سے ہے پریک نگاہ کا‘‘

یہ شعر نسخۂ جانسن اور کلام سوداؔ کے بعض دوسرے نسخوں میں موجود ایک غزل: ع ’’چھٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلف سیاہ کا‘‘ کا مقطع ہے۔ لیکن قائم نے صرف تخلص کی تبدیلی کے ساتھ اپنے تذکرے میں اسے بند رابن راقمؔ تلمیذ سوداؔ کے نام سے درج کیا ہے۔ اگر قائمؔ کا بیان درست ہے (اور درست نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں) تو اِس مقطع کی بنا پر پوری غزل سوداؔ کی بجاے راقمؔ کی تصنیف قرار پائے گی اور یہ بھی کہ ’’مخزن نکات‘‘ کے سنہ تصنیف ۱۱۶۸ھ؁ سے قبل معرض وجود میں آچکی ہوگی۔ اس غزل کا سوداؔ کی تصنیف نہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اس کی زندگی میں ترتیب دیے ہوئے کسی نسخے میں یہ غزل نہیں ملتی، نہ ہی کسی تذکرے میں اس کا انتساب سوداؔ سے ہوا ہے۔
(۳)
بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
قاتل ہماری نعش کو تشہیر ہے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
گر ہو شراب و خلوت و محبوب خوب رو
زاہد قسم ہے تجھ کو جو تو ہو تو کیا کرے
(نسخۂ جانسن)
یہ تینوں شعر کلام سوداؔ کے تقریباً تمام نسخوں کے علاوہ نسخہ جانسن میں بھی نو شعر کی ایک غزل میں موجود ہیں۔ علاوہ بریں، میرؔ، شورشؔ اور قاسمؔ نے صرف مطلع، گردیزی اور خلیلؔ نے تینوں شعر، میر حسن اور مبتلاؔ نے شعر نمبر ۱، ۳ مصحفیؔ نے شعر نمبر ۱،۲ اور باطن اکبر آبادی نے صرف شعر نمبر ۳ کو سوداؔ کے نمونۂ کلام میں درج کیا ہے، خود سوداؔ نے متذکرہ بالا غزل کو ایک مخمس میں تضمین کیا ہے جس میں یہ تینوں شعر بھی شامل ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ تینوں شعر خفیف تصرف کے ساتھ دیوان یقینؔ کے تمام مطبوعہ وغیر مطبوعہ نسخوں میں پانچ شعر کی ایک غزل میں موجود ہیں نیز تذکرہ ’’چمنستان شعرا‘‘ میں انھیں یقینؔ کی تصنیف بتایا گیا ہے۔
انعام اﷲ خاں یقینؔ مرزا سوداؔ اور میرؔ کے معاصر اور مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ پانچ شعر کی غزلیں کہتے تھے۔ اُن کے دیوان میں کل ایک سو ستر غزلیں ہیں اور سب کی سب پانچ شعر کی۔ اردو شعرا میں یہ اختصاص انھی کے ساتھ مخصوص ہے۔ لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی (مصنف چمنستان شعرا) نے ان اشعار کو اپنے تذکرے میں یقین کے نام سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:-
فتح علی خاں این دو بیت کہ تحریر یافت بنام میرزا رفیع سودا گرفتہ و میر محمد تقی میرہم فقط مطلع این ریختہ را کہ بالا مرقوم شد، در ترجمۂ او نوشتہ۔ و فقیررا در اکثر دواوین یقین این سہ بیت بہ نظر رسید، واﷲ اعلم، لیکن از نہج بستگی این معلوم می شود کہ این ابیات لا ریب از یقینؔ اند۔ ہر کہ واقف طرز سخن گوئی ہر دو صاحبان است۔ زبان ہریک می شناسد و تفریق اشعار می نماید۔ دو دو بیت کہ بقایا ھمیں ریختہ بود بقلم آمد:
جو کوئی کہ عرض حال کرے تجھ ستی مرا
اوّل بیان واقعۂ کربلا کرے
ہوتا ہوں خاک راہ وفا بے گماں یقیںؔ
ہے دل میں یوں کہ شرطِ محبت ادا کرے(۳۰)
میرؔ اور گردیزی کی طرح شفیق بھی معاصر تذکرہ نگار ہے اور یقینؔ کی شاعری کا اس قدر دلدادہ ہے کہ اس نے اس کی تمام غزلوں پر غزلیں کہی ہیں۔ لہٰذا قیاس یہ کہتا ہے کہ ضروری تحقیق و تفحص کے بعد ہی اس نے اپنے معاصر تذکرہ نگاروں کے بیان کی تردید کی ہوگی۔
منقولہ بالا اشعار میں تیسرے شعر کا مصرع اوّل دیوان سوداؔ، کے بر خلاف دیوان یقینؔ میں اس طرح مندرج ہے۔ ع خلوت ہو اور شراب ہو، معشوق سامنے
راقم سطور کا خیال ہے کہ سوداؔ نے یقینؔ کی غزل کے تین شعروں پر (جو واقعی بہترین شعر ہیں) اپنے مخمس کی بنیاد رکھی اور بقیہ اشعار اپنی طرف سے کہ کر مخمس مکمل کر لیا۔ بعد ازاں کاتبوں نے ان اشعار کو سوداؔ ہی کی تصنیف سمجھ کر کلیات سوداؔ، کے حصہ غزلیات میں شامل کر لیا۔ جہاں تک مصرع مذکور میں تبدیلی کی بات ہے وہ دراصل بند کے دوسرے مصرعوں کے قافیوں کی رعایت سے کی گئی ہے۔ اس طرح کی تصرفات کی مثالیں سوداؔ کے یہاں اور بھی ہیں مثلاً: حافظؔ کا ایک مصرع دیوان حافظؔ میں اس طرح ہے ’’ع عرض حاجت در حریم حرمتت محتاج نیست‘‘ لیکن قافیوں کی رعایت سے اس کی شکل یہ ہوگئی ہے ’’ع عرض حاجت در حریم حضر تت چوں آورم‘‘ اور میرؔ کے اس مصرعے ’’ع حسرت وصل و غم ہجر و خیال رخ دوست‘‘ کو قافیے کی تنگی کی بنا پر تبدیل کرکے ’’ع حسرت وصل و غم ہجر و خیال آزار‘‘ کر دیا گیا ہے۔ سوداؔ اپنے معاصر ین کے اشعار تضمین کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے چنان چہ انھوں نے میر،ؔ قائمؔ اور تاباںؔ کی غزلوں کو بھی جزوی یا کلی طور پر تضمین کیا ہے۔ خود یقینؔ کا ایک مصرع اُن کے ایک مخمس ترجیع بند میں بہ طور مصرع ترجیع شامل ہے۔ اس مخمس کا آخری بند جس میں یقینؔ کے کلام کے بارے میں سوداؔ کی پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے، درج ذیل ہے:
مصرع کو یقیںؔ تیرے سوداؔ نے سنا تھا کل
روتا ہے وہ یوں تب سے برسے ہے گویا بادل
ہے رعد نمط نالاں بجلی کی طرح بے کل
پڑھتا ہے یہی پھر پھر آنکھوں کے تئیں مل مل
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے
ان دونوں انتسابات کے برخلاف ’’سید صباح الدین عبدالرحمن نے دیوانِ فغاںؔ کے ایک قلمی نسخے مملوکہ پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے انھیں اشرف علی خاں فغاںؔ کی تصنیف قرار دیا ہے ‘‘۔ (۳۱)
لیکن یہ انتساب درست نہیں معلوم ہوتا ۔
’’غلط اور نا مکمل انتسابات‘‘
کسی کتاب میں موجود کلام کی صحت کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ غلط انتسابات سے کس حد تک پاک ہے۔چنان چہ اگر کسی نسخے میں کسی نظم یا بعض نظموں کی پیشانی پر درج سرخیاں اصل سے مطابقت نہیں رکھتیں تو انھیں مصنف کے نتائج قلم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زیر بحث ’’دیوان سوداؔ‘‘ میں شامل بعض نظموں کے عنوانات غیر معتبر اور نامکمل ہیں اور قرائن سے یہ پتا چلتا ہے کہ کاتب نسخہ ان عنوانات کے اندراج کے سلسلے میں کافی غیر محتاط ہے۔
ڈاکٹرمحمد شمس الدین صدیقی نے اپنے مرتبہ ’’کلیات سوداؔ‘‘ (جلد اوّل) کے مقدمے میں نسخۂ جانسن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے دوسری چند غلطیوں کے علاوہ تین قصیدوں کے غلط عنوانات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ اور لکھاہے کہ یہ غلطیاں اس نسخے میں ایسی ہیں کہ اگر سوداؔ کی نظر سے گزرتیں تو تصحیح سے نہیں بچ سکتی تھیں۔ ’’قصائد سودا‘‘ کے مرتب ڈاکٹر عتیق احمد صدیقی نے بھی بعض قصیدوں کے غلط انتسابات پر محققانہ بحث کر کے عنوانات کا صحیح تعین کیا ہے۔
راقم سطور کی تحقیق کے مطابق نسخہ مذکور میں ایسی متعدد نظمیں موجود ہیں جن کی سرخیاں غلط یا نامکمل ہیں۔ علاوہ بریں مفقود العنوان کلام بھی اس میں بہ کثرت شامل ہے۔ یہاں بہ نظر اختصار صرف ایک مخمس کے غلط عنوان کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔
’’ع ہم کو دکھا جب اپنے تم اطوار رہ گئے‘‘ (۲۶ بند)
چھبیس بندوں کا یہ مخمس کلام سوداؔ کے کم و بیش تمام نسخوں کے ’’حصہ مخمسات‘‘ میں بغیر کسی عنوان کے موجود ہے۔ اس کے بر خلاف زیر بحث ’’دیوان سوداؔ‘‘ میں اس کا عنوان ’’تضمین بر غزل خود‘‘ ہے۔ راقم کو یہ غزل کلام سوداؔ کے کسی قلمی یا مطبوعہ نسخے میں نہیں ملی۔ تفصیل حسب ذیل ہے:-
اس مخمس کے نویں بند کا اصل شعر جس پر مصرعے لگائے گئے ہیں، یہ ہے۔
’’کہ باغباں قسم ہے تجھے کیا چلی بہار
دامانِ گل پکڑ کے جو یہ خار رہ گئے‘‘
حکیم قدرت اﷲ خاں قاسمؔ نے اس شعر کو سوداؔ کے ایک مجہول الاسم شاگرد عاکفؔ سے منسوب کیا ہے اور یہ اطلاع دی ہے کہ مرزا سوداؔ نے اسے اپنے ’’واسوخت‘‘ میں تضمین کیا ہے۔ بہ ظاہر واسوخت سے یہی مخمس مراد ہے کیوں کہ سوداؔ کے یہاں یہ شعر اس مخمس کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں ملتا۔ علاوہ بریں موضوع اور مواد کے اعتبار سے یہ مخمس دراصل واسوخت ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ دوسرے تذکرہ نگار نواب اعظم الدولہ میر محمد خاں سرور نے ایک شخص کے حوالے سے عاکفؔ کا صرف ایک شعر نقل کیا ہے، جس کا مصرع اوّل منقولہ بالا شعر کے مصرع اوّل کے مطابق ہے لیکن مصرع ثانی مختلف ہے۔ یہ دوسرا مصرع حسب ذیل ہے:-
’’ گل کو جو دیکھ دیکھ کے روتی ہے عندلیب‘‘
سرورؔ نے چو ںکہ یہ شعر کسی نا معلوم شخص کی زبانی سن کر نقل کیا ہے اس لیے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ راوی کو دوسرا مصرع یاد نہ رہا ہو اور اُس نے غلطی سے کسی دوسرے شعر کا مصرع نقل کر دیا ہو۔ لیکن خوب چند ذکاؔ نے اپنے تذکرے ’’عیار الشعرا‘‘ میں اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ مرزا رفیع سوداؔ نے عاکف کی غزل کو اپنے ’’مخمسات‘‘ میں نظم کیا ہے۔ اور مندرجہ بالا شعر ہی کو ان الفاظ کے ساتھ نمونے کے طور پر نقل کیا ہے۔ ’’غزل اُو (عاکف) رامرزا مرحوم (مرزا سودا) در مخمسات خود تنظیم کردہ، ایں شعر از ہمان غزل است‘‘ (عیار الشعرا، قلمی، مائکرو فلم، اکادمی لائبریری، لکھنؤ) سوداؔ کے زیر بحث مخمس کا آخری بند یہ ہے:
سوداؔ کی تم نہ مانیو یہ لن ترانیاں
اس گفتگو کے کرنے سے گھستی نہیں زباں
جو کچھ کوئی کہے وہ سنا کیحے مہرباں
تجھ کو کے عاکفاں کو چھٹ اس کے جگہ کہاں
در سے اٹھا دیا پس دیوار رہ گئے
ذکاؔ کی صراحت اور اس بند کے آخری دو مصرعوں میں سے پہلے مصرعے میں لفظ ’’عاکفاں‘‘ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سوداؔ نے عاکفؔ کے صرف ایک شعر کو نہیں بلکہ پوری غزل کو اس مخمس میں تضمین کیا ہے۔ اس بنا پر یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نظم کا عنوان ’’تضمین بر غزل خود‘‘ کی بجاے ’’تضمین بر غزل عاکفؔ‘‘ ہونا چاہیے۔
’’اغلاط املا و کتابت‘‘
شیخ چاند مرحوم کا یہ دعوا کہ ’’یہ (نسخہ) سوداؔ کی زندگی میں خاص اہتمام سے تیار ہوا ہے‘‘۔ (سودا ص ۱۰۸) اور جناب رشید حسن خاں کا یہ بیان کہ ’’اس میں اغلاط کتابت کم ہیں‘‘ (مقدمہ انتخاب سودا ص ۳۰) درست معلوم نہیں ہوتا۔ ’’خاص اہتمام‘‘ کے ساتھ تیار کردہ نسخے کو املا و کتابت کی عام فرو گذاشتوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اور احتیاط کا تقاضا بھی یہ ہے کہ کاتب؍ مصنف یا جس کی نگرانی میں یہ نسخہ تیار ہو رہا ہو، وہ اس پر نظر ثانی کرکے حتی الوسع غلطیوں کی تصحیح کر دے (اتفاقیہ غلطیوں کا رہ جانا دوسری بات ہے) لیکن اس مخطوطے میں کسی ایک مقام پر بھی تصحیح نہیں کی گئی ہے، نتیجتاً نسخے میں بعض لفظوں کا املا غلط ہے، کئی الفاظ قرأت کی عدم صحت کی بنا پر غلط لکھ دیے گئے ہیں اور بہت سی جگہوں پر الفاظ لکھنے سے رہ گئے ہیں۔ اس قسم کی چند نمایاں مثالیں سطور ذیل میں درج کی جاتی ہیں:-
نسخہ جانسن
صحیح صورت
۱
قطرہ گرا تھا چوکی مرے اشک گرم سے
قطرہ گرا تھا جو کہ۔۔۔۔ الخ‘‘ ہونا چاہیے

دریا میں ہے ہنوز پہپولا حباب کا
__________________
۲
نہ طبع جبد سے سر زد کبھو ہوں معنی رنگیں
صحیح لفظ ’’طبع حیز‘‘ (ہیز) ہے۔

جہاں میں تخم سے تھوہر کے کب گلزار ہو پیدا
__________________
۳
اے طفل اشک ہے فلک ہفتمی پہ عرش
’’فلک ہفتمیں‘‘ صحیح املا ہے۔

آگے قدم نہ رکھیو تو زنہار دیکھنا
______________
۴
چھپنے کی عشق کے نہ بنی بات پیش یار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سو طرح سے میں سامھنے اس کے چھپائی بات
۔۔۔۔ ’’اس کے بنائی بات‘‘ ہونا چاہیے
۵
زلفوں کے تلے شوخ کی، خط کا نہیں آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶
دوڑی ہے شب خوں سپہ شام جہاں پر
’’دوڑی پے شب خوں‘‘ ہونا چاہیے۔

انکار قتل سے تو کرے ہے سخن ہنوز
’’سجن ہنوز‘‘ ہونا چاہیے۔

میلا نہیں ہوا ہے ہمارا کفن ہنوز
_______________________
۷
آتش کو رنگ گل کی صبا تو نے پھونک دی
’’پھونک پھونک‘‘ ہونا چاہیے۔

جلوائے آشیاں کے مرے خار و خس تمام
_______________________
۸
ہوں اسیر اُس کا جسے بعد گرفتاری صید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ گرفتاری سے مطلب رہے نے دام سے کام
’’نہ گرفتار سے مطلب‘‘ ہونا چاہیے۔
۹
نہ غنچے گل کے کھلتے ہیں نہ نرگس کی کھلی کلیاں
’’کھلیں کلیاں‘‘ ہونا چاہیے۔

چمن میں لے کے خمیازہ کسی نے انکھڑیاں ملیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰
تبسم یوں نمایاں ہے مسی آلودہ ہونٹھوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ ہو ابر سیہ میں اس طرح بجلی کی اچہپلیاں
نہ ہوں ابر۔۔۔ اچپلیاں‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۱
کیا ہے عہد و پیماں اشتیاق اپنے سے یہ میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ جس ساعت گلی لکھنا مجھے تیرا میسر ہو
’’گلے لگنا‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۲
بوئوں میں تخم دل کو جہاں وہاں زقوم ہو
’’تخم گل کو جہاں وھاں‘‘ ہونا چاہیے۔

پالوں جو عندلیپ قفس میں تو بوم ہو
’’عندلیب‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۳
چوب شکست خوردۂ کشتی ہوں میں کہ جو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانی میں ہو نہ غرق نہ آتش کہ جل سکے
’’آتش میں جل سکے‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۴
نہیں گلخن بھی کچھ گلشن سے کم احباب اے سودا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رکھیں سیر چمن سے کچھ مجھے معذور بہتر ہے
’’سے گر مجھے معذور‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۵
شیخ گل بازی کو تم سے روز للچاتا ہے دل
۔۔۔۔۔۔۔ ’’تم سے زور‘‘ ہونا چاہیے

زرد چیرا آپ کا گیندے کا گویا پھول ہے
_______________________
۱۶
ٹک تری مرضی سے باہر جو کرے کار جہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ سے کام زمانے کے ووہیں جائے بحل
۔۔۔۔۔۔ ’’جائے بچل‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۷
اس کے قبضے پہ جو ہو دست مبارک تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ رہے دین محمدؐ کے سوا اور ملل
’’نہ رہیں دین۔۔۔الخ‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۸
مدح اپنی نہ سمجھ یہ جو کہا میں اس سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رتبہ تجھ ہجو کا اعلیٰ ہی سخن یہ اسفل
’’تجھ مدح کا اعلیٰ ہے‘‘ ہونا چاہیے
۱۹
تالب جو پہ کرے خیمہ کو استاد حباب
’’استادہ حباب‘‘ ہونا چاہیے۔

تابچھاوے بروشِ سبزۂ فرشِ مخمل
ؔ’’بہ روش سبزہ فروش مخمل‘‘ ہونا چاہیے۔
۲۰
پہنچیں نہ ہم مبادا کسیکی گماں تلک
۔۔۔۔۔’’مباد کسی کے‘‘ ہونا چاہیے۔
۲۱
دریاے طبع سے یہ کئی گوہر سخن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیری رسال کے لیے پہنچے مجھے رسال
’’تیرے نثار کے لیے‘‘ ہونا چاہیے۔
۲۲
دیکھے سے جس کی جلوہ پاکیزہ طینتوں کے
’’جس کا جلوہ‘‘ ہونا چاہیے۔

آنکھوں کو امن ہووے جی کے تئیں اماں ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۳ٍ
دانتوں کے بیچ اس کے ہے جسقدر بھسونڈا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وصف ذخامت اس کا کیجے تو کیا بیاں ہو
’’وصف ضخامت‘‘ ہونا چاہیے
۲۴
تکان پاکی سدا اس کی جو سنی سو کہی
کی صدا اس کے جو سنے سو کہے‘‘ ہونا چاہیے۔

سیاہ خیمۂ لیلیٰ میں قیس ہے زنجیر
_______________________
۲۵
یک خم تھی دل انھوں کا پرازبادۂ غرور
’’یک خم تھا‘‘ ہونا چاہیے۔___

تیں اُس میں کر دیا نمک تیغ آب دار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۶
رہ نوردوں کی نظروں میں اکثیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اکسیر‘‘ ہونا چاہیے

بد تراز گرد کارواں ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۷
عیش و عشرت ہی سدا دمساز
’’عیش و عشرت [سے] ہے سدا۔۔‘‘ ہونا چاہیے۔

پیر ہو کوئی یا جواں ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۸
باد پیما ترا تعالیٰ اﷲ
’’تعال اﷲ‘‘ ہونا چاہیے۔

جلوہ گر آکے وہ جہاں ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۹
احوال اس کا دیکھ کے کہنے لگا طبیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب فسد و مسہل اس کے لیے ہے مفید تام
’’اب فصد۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ ہونا چاہیے
۳۰
دیہات جو ہیں مصرف مطبخ کے اُن میں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نقدی کے عوض ہو مجھے سحنک طعام
۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’صحنک‘‘ ہونا چاہیے
۳۱
یہ سن کے دیا کچھ تو ہوئی عید و گرنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوال سے پھر ماہ مبارک رمضاں ہے
’’شوال بھی پھر ماہ‘‘ ہونا چاہیے۔
۳۲
اپنی منہ کی نہ کہا کن نے سخن گوہر
’’اپنے منہ کے۔۔۔ سخن [کو] گوہر‘‘ ہونا چاہیے۔

لعل سودا ہی کو پر ہم نے اگلتے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۳
سمجھ کے باندھا آشیاں ہم رہے گا با آب و تاب گلشن
’’باندھا [تھا] آشیاں‘‘ ہونا چاہیے۔

یہی کہ غنچے نے آنکھ کھولی، خیال گل تھا تو خواب گلشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۴
پر اب خوشی ہے یہ خلقت کو تیری صحبت سے
۔۔۔ ’’تیری صحّت سے‘‘ ہونا چاہیے۔

کہ آج تک نہ ہوئی ہوئیگی ز روز نخست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۵
اتنی ہے کثرت لغزش بہ زمیں ہر باغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو ثمر شاخ سے اوتر سو گرا سر کے بہل
’’جو ثمرشاخ سے اترا سو گرا سر کے بھل‘‘ ہونا چاہیے۔
مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں یہ بات بلاتامل کہی جا سکتی ہے کہ دیوان سوداؔ کا زیر بحث نسخہ نہ تو خود مصنف نے جانسن کو پیش کیا تھا اور نہ اس کی تیاری میں اُس کی مرضی کو کوئی دخل تھا، بلکہ میر محمد حسین جو جانسن کا ملازم (دیوان )اور شاعر بھی تھا ہی نے اسے تیار کراکر جانسن کے کتب خانے میں داخل کیا تھا۔ اسی نے اس میں جابہ جا تحریفیں کی ہیں اور سوداؔ کے نام سے ایک قصیدہ کہ کر کتاب کے آغاز میں شامل کیا ہے۔ دراصل یہ نسخہ اپنی تمام ظاہری چمک دمک اور غیر معمولی مقبولیت کے باوجود ٹھوس داخلی یا خارجی شہادتوں کی عدم موجودگی اور الحاقات و تصرفات نیز نظموں کے غلط انتسابات اور املا و کتابت کی متعدد غلطیوں کے باعث کسی طرح سند اعتبار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اس کی بنیاد پر سوداؔ کے کل کلام کو یا اس کے بعض حصوں کو مرتب کرنا حد درجہ گمراہ کن اور سعی لاحاصل کے مترادف ہوگا۔