Saamraj, Nai Nauaabadiyat aur Radd e Nauaabadiyat

Articles

سامراج نئی نوآبادیات اور رد نوآبادیات

احمد سہیل

 

نوآبادیات کوئی ’جدید مظہر‘ نہیں ہے۔ قدیم ادوار میں یونانی ، رومن مورز اور عثمانیہ میں نوآبادیات کو فروغ حاصل ہوا۔ بعد ازاں اس نوآبادیاتی نظام کو برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمن، ہالینڈ، پرتگال اور بلیجیم نے توسیع دی۔ ’کالونی‘ کی اصطلاح ’کالونوس‘ (Colonus)سے اخذ کی گئی ہے۔ جس کے معنی ’کسان‘ کے ہیں۔ جدیدنوآبادیات پندرہویں صدی کے لگ بھگ شروع ہوا۔ جب ۱۴۸۸ء میں جنوبی افریقی ساحلوں پر مغربی قوموں نے نوآبادیات قائم کی۔ امریکا کو ۱۴۶۲ء میں نوآبادیات بنایا گیا۔ نوآبادیاتی نظام سے یہ معنی لیے جاتےہیں کہ لوگوں کو ایک علاقے سے نقل مکانی کرکے نئی نوآبادیاں قائم کرتے ہیں اور وہاں کی زمینوں، قوانین، صفت و حرفت ، ثقافت اور نظام حکومت پر قبضہ کرتے ہیں اور مقامی آبادی کو ان کے تہذیبی ورثے اور نظام معاشرت کو کم تر محسوس کرواتے ہیں اور اپنی احساس برتری کو ان پر حاوی کردیتے ہیں اور اتنی ناانصافیاں کرتے ہیں جو جبر یہ بشری استحصال بھی ہے جس میں نوآبادیاتی قوتیں مقامی آبادی پر خودمختاری اور بالواسطہ طریقے سے اپنا غاضبانہ نظام چلاتی ہے۔ نوآبادیات ایک قوم کا دوسری قوم پر غلبے کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ یورپی اقوام نے اپنی نوآبادیات قائم کرنے کے لیے جو جنگیں لڑیں وہ عام طور پر ان سرحدوں سے بہت دور لڑی گئی۔ ان جنگوں کے تمام منفی اثرات ایشیا اور افریقی قوموں پر پڑے مگر ان نوآبادیاتی تباہ کاریوں اور انسانی استحصال کے بعد یورپی سامراجی قوتیں اپنے طور پر امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور یورپ میں ہونے والی سائنسی ترقیوں کو نوآبادیات سے آنے والے دولت، وسائل اور غلاموں کے سبب ان کی معیارِ زندگیوں کو بلند سے بلند مقام تک پہنچادیا۔
نوآبادیاتی نظام کا مظہر فلحال غیر وضاحتی اور غیر واضح ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نوآبادیات، پس نوآبادیات، نئی نوآبادیات اور نئی نئی نوآبادیات کی اصطلاحوں کی تشریح و تفہیم کے لیے ایک دوسرے سے تقابل کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسے ایک ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں سامراجی اور نوآبادیاتی متغیرات کے حسب مراتبیات کے متغیروں کے طور پر شناخت کرواتا ہے مگر اس سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں اس میں اس نظریے کے نظریہ دان اور محققین ترمیم اور ردِّوبدل کرنا پسند نہیں کرتے اور نوآبادیات… سامراج کی تعریف سے اپنے لہجے کے ماڈل کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔
اب بشریات میں بھی نوآبادیات کی نئی مباحث ہوئیں ہیں جن میں نوآبادیاتی نظام و نظریے کو تاریخ ادب اور نوآبادیاتی ماضی کا تناظر میں مطالعہ کرکے ان کے درمیان حدود کو مٹایا یا کم کیا جارہا ہے۔ سفریات (سیاحت) کے مطالعوں اور ’نسل نگاری‘ ، بشریاتی نوآبادیاتی مطالعوں کو نئی نوآبادیات کو معکوسی سمت بھی دی۔ ۱۹۶۰ء کے نوآبادیاتی بشری مطالعوں میں دو فردعی نمائندگی کو ایک جدوجہد اور فکری مکالمے کے تجزیات کے سیاق میں پیش کیا گیا۔جس نے نوآبادیاتی آقاؤں کو تاریخ اور نوآبادیات پر ازسرِ نو سوچنے اور لکھنے پر مجبور کیا۔ کیونکہ نوآبادیاتی حکومتوں نے اپنی ہی نہیں بلکہ محکوم قوموں کی تاریخ اور ثقافت کی شکل بھی بگاڑدی۔ جس میں تہذیبی مسماریت اور نوآبادیاتی قوموں کی ’احساس برتری‘ حاوی تھی۔ ثقافتی مطالعوں میں ثقافتی، تہذیبی افتراقات سے ہی ’نسلی دبستان‘ کی بنیاد پڑی جس میں اولین موضوعات نوآبادیات سے متعلقہ مباحث کے ہی ہوتے ہیں۔
مغرب سے بھی نوآبادیات ایک عرصے اخلاقی، معاشرتی و سیاسی اہلِ فکر کے لیے تشویش کا باعث رہا اور صلیبی جنگوں کے بعد اور امریکہ کی سول وار تک سیاسی دانشور سیاسی دانشور نے غیر ملکی ؍مغرب کی سازشی حکمت عملیاں، قدرتی قانون اور انصاف کے التباسات پر سوچا گیا اور یہ تناؤ، کشمکش،تصادم کی کیفیت، لبرل، روایتی اور نوآبادیاتی حرکیات کی صورت میں شدت سے ابھرا اور اس میں بایاں بازو نے نظریہ دان رجحان کے حامل فلاسبہ اور ادیبوں نے اس کے معیارات وضع کرتے ہوئے انسانی مساوات اور عدل سے منسلک کیا۔ جن کی نوآبادیات کے حق میں دلیل دینے والی قوتیں یہ کہتی رہی کہ یہ ’وحشی معاشروں‘ کے لیے ضروری تھا۔ جو ایک ’نوآبادیاتی مشن‘ ہے۔ نوآبادیاتی مطالعوں میں فطرت قانون اور نئے عہد کی بازیافت لبرل ازم، شہنائیت، مارکسزم، لنین ازم اور پس نوآبادیات کے نظریے کے تحت کیے جاتے ہیں۔
برطانیہ جیسی طاقت ور حکومت کو جنوبی افریقہ میں پچاس سے کم بوئر کسانوں کو شکست دینے کے لیے دس برس کا عرصہ لگا۔ سوڈان کے حریت پسند عسکری رہنما مہدی سوڈانی نے برطانیہ کو شکست دی اور جنرل گورڈن ان کی فوجوں کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔ ادھر ہندوستان میں ’ریشمی رومال‘ اور ’روٹی‘ والی نوآبادیات شکن تحریکیں شروع ہوگئی تھیں۔ ہندستان میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا۔ بھگت سنگھ اور ادھم سنگھ کی سامراج دشمنی سے کون واقف نہیں اور اس زمانے میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن سے انگریزوں کی سامراجی سفاکی اور بربریت ابھر کےسامنے آئی۔ اس کے ساتھ کی چھوٹی اور بڑی سامراجی طاقتوں کے مابین کشمکش شروع ہوگئی اور اس صدی کے اختتام سے پہلے فرانس اور جرمنی کی افریقا کے ممالک میں فوج کشی اور سازشیں شروع ہوگئی اور اس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتارہا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں نوآبادیاتی ممالک بڑے پیمانے پر جنگ کی تیاری کررہے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کی صورت میں سامراجیوں کے درمیان ہولناک تصادم ہوا جس کے لیے چودہ سال کے اور اسی زمانے میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ پارہ پارہ ہوئی جو برطانوی سامراج کی بڑی سازشی فتح تھی۔
موجودہ سامراجی دور میں دو عالمگیر جنگیں لڑی گئیں۔ ان کی شروعات کے لیے بظاہر وقتی حادثات کچھ بھی ہوئے ہوں، بنیادی طور پر ان جنگوں کی وجہ سے سامراجی طاقتوں کی طرف سے نوآبادیات کی تقسیم پر جھگڑا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں بھی ایک طرف برطانیہ، فرانس، روس، بلجیم، ہالینڈ وغیرہ کے ممالک تھے، جن کے پاس دنیا بھر میں بے شمار نوآبادیات تھیں اور دوسری طرف جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کا گروہ تھا۔ جنھوں نے صنعتی لحاظ سے خوب ترقی کرلی تھی۔ لیکن سرمایہ دارانہ ترقی کے باعث تیار شدہ مال کے لیے منڈیاں نوآبادیات کی شکل میں موجود نہ تھیں۔ ان منڈیوں اور نوآبادیات کے حصول کی خاطر ہی پہلی جنگِ عظیم لڑی گئیں۔ جن میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو نہ صرف ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ورسیلز معاہدہ کے تحت ذلت آمیز شرائط صلح بھی تسلیم کرنا پڑیں۔ جرمنی کے سرمایہ دار طبقے نے اس ذلت اور رسوائی کا انتقام لینے اور ایک بار پھر نوآًادیات کی تقسیم کے لیے جنگ کی تیاریاں شروع کرلیں۔ بنیادی طور پر دوسری عالمگیر جنگ نوآبادیات کی تقسیم کے لیے ہی تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک دنیا میں سامراج موجود ہے۔ جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔ ان دنوں اگرچہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد گرم جنگ کے امکانات کو نظر انداز کیا جارہا ہے لیکن جس طرح سے پرانے نوآبادیاتی نظام کی جگہ نیا نوآبادیاتی نظام قائم کیا جارہا ہے، جو کسی ملک میں پرانے نوآبادیات نظام کی طرح فوج کشی کرکے قبضہ تو نہیں کرتا۔ لیکن اقتصادی اور معاشی لوٹ کھسوٹ مقامی ایجنٹوں کے ذریعے حسب سابق ہی کرتا ہے۔ پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی لوٹ کھسوٹ کی خاطر جہاں ایک طرف امریکا، جرمنی، فرانس اور برطانیا جاپان وغیرہ میں سامراجی تضادات موجود ہیں، وہاں ان دبی کچلی قوموں میں سامراج کے خلاف شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ فلحال نہ توبین السامراجی تفاوات اس قدر ہگرے ہوئے ہیں کہ سامراجی طاستوں کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کریں اور نہ ہی دبی کچلی قوتوں میں سامراج کے خلاف بغاوت کے جذبے کی شدت پائی جاتی ہے۔ اس لیے عالمی جنگ کا کوئی خطرہ موجود نہیں۔ تاہم سامراجی لوٹ کھسوٹ کے جاری رہنے اور اس لوٹ کھسوٹ کے لیے سامراجی طاقتوں کے درمیان تفاوات کی موجودگی کے باعث جنگ کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جساکتا ہے۔ کسی وقت بھی یہ تفاوات شدید ہوکر جنگ کے امکانات پیدا کرسکتے ہیں جنگ کو دائمی طو رپر ختم کرنے کے لیے سامراج کا خاتمہ ضروری ہے جب تک سامراج ختم نہیں ہوتا جنگ کے امکانات موجود رہیں۔ اس لیے دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کا بنیادی سبق یہ ہے کہ انسانیت کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے سامراج کے خاتمے کی جدوجہد ضروری تھی۔ مورّخ مبارک علی کا کہنا کہ یہ التباس ہوتا ہے۔ اس سبب استعماری قوتوں کے بارے میں رویہ کبھی نوآبادیاتی عوام کے لیے سودمند اور دوستانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر قسم کے تشدد کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتی ہے۔
پس نوآبادیاتی تنقید کے علم برداروں نے مغربی سامراج کے پنجے سے آزاد ہونے والے ممالک کے ادب پر سیر حاصل بحث کی۔ خاص کر ہندوستان کی آزادی کے بعد آنے والی ادبی تنقید کو اس رجحان سے متعارف کروایا۔ ساٹھ کی دہائی میں ایشیا اور افریقا کے کئی ممالک استعماری قوتوں سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس عالمی سیاسی تناظر کے زیر اثر نوآبادیاتی تنقید نے تیسری دنیا کے مزاحمتی احتجاجی تناظر میں بھی اپنی فکری اور تنقیدی حصّہ داری کااحساس دلوایا۔ ان رجحانات کے ڈانڈے مابعدجدیدیت اور رد تشکیل کے ادبی اور لسانی نظریوں سے بھی ملائے گئے۔ پس نوآبادیاتی تنقید میں یقیناً مشرق اور مغرب کی امتیازات ، تعصبات، تشدد، سفاکی کی عمیق آگہی موجود تھی۔ اس میں ماضی کی ستم، انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال کا ادراک اس قدر حاوی تھا کہ اپنی مقامی شناخت کی تلاش میں پسماندہ، ترقی پذیر اور تیسری دنیا کا ادب بھٹک گیا اور ان اقدار کو تلاش کرنے لگا جو مغرب کی اقدار اور روایت کی دین تھیں۔ یہ رویہ سراسر واہماتی عینیت پسندی کے زمرے میں آتا تھا۔ لہذا انھی سابقہ مغربی اور بدیسی آقاؤں کی فکری گرفت سے چھٹکارا نہ مل سکا۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ رد نوآبادیاتی تنقید نے نسبتاً ایک ایسے وسیع النظر تناظر کو جنم دیا جو پہلے نہیں تھا، یہ نظریہ ابھی بھرپور طور پر ابھر کے سامنے نہ آسکا، کیونکہ نئے آزاد ہونے والے ممالک اسی پروانے خول میں بند ہیں۔ نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہیے وہ ہندستان ہو یا الجزائر، سوڈان ہو یا انڈونیشیا، تقریباً ادب وفن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیونکہ نوآبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طور پر نہیں کاٹی گئیں تھیں۔ لہذا ان ممالک کے فکری افق پر منافقت، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ فرد ہو یا حکومت ایک طبقہ ہو یا ایک معاشرہ، ہر مقام پر سمجھوتے کیے گئے اور پس نوآبادیاتی ادب و فکر میں التباس کی دھند پھیلی۔ پس نوآبادیاتی تنقید میں انھی پرانے نظریوں اور دانش سے رہنمائی حاصل کی گئی اور کوئی آئیڈیالوجی راسخ نہ ہوسکی۔ تقریباً سبھی چھوٹے بڑے، سابقہ غلام ممالک کسی واضح فکری قدر کو نہ اپنا سکے اور نہ ہی کوئی مستحکم نظام ان کے حصّے میں آیا۔ وہی دو ممالک جو ایک ہی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد ہوئے ایک دوسرے کے دشمن ٹھہرے جن خوابوں کو پانے کے لیے سامراجی نظام سے ٹکر لی گئی، بعد میں وہ سب ہی منافقت، زرپرستی اور اقتدار پسندی کے نذر ہوگئے۔ فرد سے فردکا قلبی رشتہ کٹ گیا۔ فکری اور عمرانیاتی آدرش بکھر بکھر کر ریزہ ریزہ ہوگئے تو فرد کو اپنے پھسپھسے اور کھوکھلے نظریات اور جحانات کا احساس ہوا یہ احساس قرۃالعین کے ناولوں سے جابجا ملتا ہے۔ خاص کر ان کا ناول ’چاندنی بیگم‘ میں ہندستان کی آزادی کے بعد دو ملکوں کی تہذیبی، سیاسی، معاشی پامالی کی نوحہ گری ہے۔ جن میں نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد نئے اقتدار کی ترجیحات ایک ارب عوام کی ترجیحات سے مختلف تھیں، فرد مجہول اور نفسیاتی مریض بن کے رہ گیا۔ رد نوآبادیاتی تنقید نے نیم جاگیردارانہ نظام، سیاست، قانون، صحافت، نئے سرمایہ دارانہ نظام (چھوٹے) شوبزنس پاپولر ذرائع ابلاغ، سستی اور سطحی تفریحی پر ڈراموں سے فرد ہی کا نہیں بلکہ معاشرے کی بنیادی اکائی ’خاندان‘ کے سکوں کو تباہ و برباد کردیا۔ نوآبادیاتی نظام کے باطن سے پیدا ہونے والے استحصالی نظام کو خوش آمدید کہنے پر مجبور ہوگیا۔ اسی طرح خدیجہ مستور کے ناول ’آنگن‘ میں خاندانی اکائی کا تتر بتر ہوجانا اور زریں اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر حالات سے معاشی اور معاشرتی مفاہمت کرلینا ظاہر ہوتا ہے، شوکت صدیقی کے ناول ’خدا کی بستی‘ میں ہجرت کے حوالے سے نئی تبدیلی کی اذیت ناکی ملتی ہے۔ جس کے پس منظر میں سامراجی رجحان کا حاوی محرک نمایاں ہے، جہاں فرد کے آدرش ٹوٹ پھوٹ گئے اور کوئی نظریہ حیات نہ ابھرسکا۔ عبداللہ حسین کا ناول ’نادار لوگ‘ میں پاکستانی حوالے سے فرد کی باطنی سچائی کو اجاگر کرتے ہوئے معاشی منعفت پسندی کو ٹھکرا دیا گیا۔ ساٹھویں دہائی میں تیسری دنیا کے لیے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی ادبیات میں رد نوآبادیاتی تناظر کو محسوس کیا گیا خاص کر اردو کے جدیدیت پسند رجحان میں فرد کی جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور قنوطی سیاق میں جو کچھ لکھا گیا وہ انحطاطِ ذات تو تھا ہی، مگر اصل میں اس کے پس منظر میں ردنوآبادیاتی کا نظریہ لاشعور بھی چھپا ہوا تھا۔
انہ۔۔۔۔ سویت روس، انقلاب ایران، سقوط مشرقی پاکستان اور دیگر عالمی تبدیلیوں نے رد نوآبادیاتی تنقید کی راہیں مستحکم کیں۔
ایک جاپانی شاعر کیوکروڈا (Kio-Kuroda)نے کچھ سال قبل ایک نظم ’ہنگرین قہقہہ‘ لکھی۔ اس طویل نظم میں ردنوآبادیاتی رجحان کو شناخت کیا جاسکتا ہے۔
میں کل ضرور لکھوں گا
ہنگری کے متعلق ایک نظم
لوکاشیؔ کون ہے
جسے پھانسی دی گئی
ناگےؔ کہاں ہے
جسے ہم بھلا چکے ہیں
جیسے میں گم شدہ ہوں
ہنگری میں روس کے نوآبادیاتی تسلط کے خلاف بغاوت کے حوالے سے اس نظم کو دیکھیں تو ردنوآبادیاتی رجحان کے عناصر کی کارکردگی کا اس میں صریحاً بیاں نظر آتا ہے۔
خاص کر ۱۹۷۰ء کے بعد تیسری دنیا کی فکری بساط پر نوآبادیاتی پس منظر میں نئے تاریخی تناظر اور عقل پسندی کے مہروں کو اپنایا گیا یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر ادب اپنے مخصوص احوال کے تناظر میں ایک نوآبادیاتی کو اپنے ذہن کے اصل فکری التباس اور حقیقی صورتِ حال کا پتہ چلا کہ ایک مصنوعی آئیڈیالوجی، قدامت پسندی اور اقتدار پسندی کے رجحان نے علم و ادب کا کس صفائی سے استحصال کیا۔ پس نوآبادیاتی فکر میں بغاوت کا شور شرابا بہت تھا جس فکر جذباتی اور سطح ہوگئی اور سیاسی اور گروہی اہداف کو پالینے کے لیے اسے استعمال کیا گیا۔ مثلاً پاکستان میں جب بھی مارشل لا لگا تو ظاہراً تو مزاحمتی شعرا کی ایک فوج ابھر کر سامنے آئی لیکن چونکہ ان کے پاس نظریاتی قوت کی کمی تھی اس لیے ان کے تمام جذبات و دانش مثل حباب ثابت ہوئے اور ان کی شاعری افادیت پسندی اور شوبزنس سے آگے نہ بڑھ سکی۔
آئرلینڈ کے شاعر ولیم بٹلر یٹس ( William Butler Yeats)کو جدید انگریزی ادبیات کے مخاطبے (ڈسکورس) اس سبب امتیاز و مقام حاصل ہے کہ انھوں نے یورپ کے ہائی ماڈرن ازم کے باطن میں پویشدہ نوآبادیاتی رویوں کا سراغ لگایا۔ یٹسؔ نے آئرلینڈ کی روایت تاریخ اور سیاسی سیاق میں اس بات کاشدت سے احساس دلوایا کہ اس کڑے وقت میں قوم پرست آئرلینڈ تکالیف کا شکار ہے، انگریزی شعرا اور اردو ادیب آئرلینڈ کے سلسلے میں نوآبادیاتی ذہنیت کا اظہار کررہی ہے کیونکہ آئرلینڈ کی ثقافت و ادب مغربی جدیدیت سے قطعاً محتلف ہے۔
یٹس (Yeats)کو آئرلینڈ کے قومی شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ سامراج شکن ہیں۔ انگریز ثقافت کا حاوی عنصر آئرلینڈپر نوآبادیات پنجے کو ثابت کرنے کےلیے کافی ہے۔ آئرلینڈ کی ثقافتی خود مختاری کا خواب اصل میں رد نوآبادیاتی رجحان ہے۔ آئرلینڈ کی تاریخ مسخ کی گئی ہے۔ یٹس ؔ کا خیال ہے کہ رد نوآبادیاتی مزاج کے سبب آئرلینڈ کی تاریخ کے موضٰعات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کی نظم ’ماہی گیر‘ (Fisherman)رد نوآبادیاتی تجربے کا حساس اظہار ہے۔
یہ طویل ہے، میری ابتدا سے
آنکھوں تک پکارتا ہوں
یہ نیک اور سادہ آدمی
میں تمام دن چہرے میں دیکھتا ہوں
کیا میں امید کروں
کہ اپنی نسل پر لکھوں
اور حقیقت (۱)
ایڈورڈ ولیم سعید نے لکھا ہے کہ یٹسؔ کی شاعری نے نوآبادیاتی رویوں کو دریافت کیا ہے۔ ایڈورڈ سعید کے بقول انگریزی زبان پر آئرلینڈ کے اس شاعر کی شعری فطائت کاادراک نہ ہوسکا ( یا انھیں دانستہ طو رپر نظر انداز کیا گیا) کیونکہ آئرلینڈ پر انگریز ثقافت ، ادب اور یورپ کی جدیدیت کی یلغار ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔ یٹس ؔ نے آئرلینڈ کے ساحلوں پر برطانوی سامراج کی ریشہ روائیوں کو محسوس کیا۔ وہ اپنی شاعری میں اپنے تجربات کے حوالے سے سامراج شکن رویوں کو جگہ دیتے ہیں رد نوآبادیاتی وساطت سے ایڈورڈ سعید نے مصر، ترکی سیلوں (سری لنکا) انڈونیشیا، چین اور ہندستان کی مشالیں دیتے ہیں اور ادبی اور ثقافتی حوالوں سے تیسری دنیا کے ان ممالک میں رد نوآبادیاتی رجحان کا پتہ لگاتے ہیں۔ (۲)
یورپ میں چند لکھنے والے ایسے بھی ملتے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں رد نوآبادیاتی رویوں کو جگہ دی۔ ان میں سب سے نمایاں نام فرانسیسی ڈراما نگاری ژان ژینے ( Jean Genet)کا ہے۔ ان کے ڈرامے ’دی بلیک‘ (The Black)میں سیاہ فام طوائف نوآبادیاتی نظام کے کارندوں کو یک بعد دیگرے موت کے گھاٹاتار دیتی ہے۔ دیکھنے میں یہ نسلی نوعیت کا احتجاج ڈراما ہے لیکن اصل میں ژان ژینے نے اس کھیل میں مغرب کے نوآبادیاتی نظام کے رد کو ابھارہ ہے۔
برٹینڈرسل (Bertrand Russell)جنھیں فلسفہ اور ریاضی کے میدان میں شہرت حاصل ہے وہ مغرب کی گوری تہدیب کے نشاۃ الثانیہ کے اس حد کت خواہاں ہیں کہ ان کی فکر نوآبادیاتی رنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ وہی برٹینڈرسل ہیں جنھو ںنے ژان پال سارتر کی رفاقت میں ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا کے نوآبادیاتی اور سامراجی عزائم کا پردہ چاک کرتے ہوئے امریکا پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا اور امریکا کو جنگی مجرم قرار دیا۔
اسی طرح انگلستان کے افادیت پسند فلسفی جاں اسٹیورٹ مل (Mills)کے نظریات میں ہندستان سے نفرت آسمان کو چھوتی ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کانوآبادیاتی نظام اخلاقی مذہبی اور نسلی برتری کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوا بلکہ یورپ کی عقلیت پسندی، منطقی ہیئت، ثنوتیت اور سائنسی ترقی نے ہندستان کے روایتی معاشرے پر باآسانی تسلط قائم کرلیا۔ انگریز کو بھی علم تھا کہ انھیں ہندستان میں خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ کمزور معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے اور داخلی خلفشار اور بحران کا فائدہ اٹھا کر انھیں ہندستان میں اپنی نوآبادیات قائم کی اور انھیں یہ خام خیال تھی کہ اعلا اصولوں، اخلاقی اور تہذیبی اوصاف کے سبب ’سونے کی چڑیا‘ ان کے ہاتھ لگی ہے۔ ایک انگریز جان لارنس جو ۱۸۵۷ء میں پنجاب میں متعین تھا، اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’ہم یہاں لوگوں کی مرضی یا ان کے انتخاب سے نہیں آئے ہیں۔ بلکہ ہم اپنی اخلاقی برتری، حالات کی موافقت اور مثیت ایزاری کی مرضی کے تحت اقتدار میں آئے ہیں۔ یہی وہ چار ٹر ہے جس کی بنیاد پر ہم ہندستان میں حکومت کررہے ہیں۔ (۳)
لاطینی امریکا میں رد نوآبادیاتی رجحان اب خاصا پرانا ہوچکا ہے۔ نوآبادیات کا فکری احساس خاصا حساس بھی نہیں بلکہ اس کا اظہار لاطینی امریکا اور امریکا کے ’چکانو ادب ‘ (Chicano Literature) امریکا میں بسنے والے لاطینی امریکی نژاد باشندوں بالخصوص میکسیکو کے باشندوں کا ادب جو انگریزی زبان میں لکھا گیا۔ میں نمایاں طو رپر محسوس کیا جاسکتا ہے جو اصل میں یورپی نسل کے امریکی باشندوں کے سامراجی رویوں کے سبب وجود میں آیا۔ میکسیکو نے ۱۸۲۱ء میں اسپین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد میکسیکو کے شمالی صوبہ جات پر مشتمل ’’Aztlan‘‘کے نام سے ایک ریاست ری پبلک آف میکسیکو میں شامل کردی۔ اس تسلط کے خلاف ۱۸۴۸ء تک خاصی مزاحمت کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ابھی اس نوآبادیاتی تسلط سے نجات حاصل نہ ہوپائی تھی کہ امریکا نے اپنی نوآبادیات کو بڑھانے کے لیے جنوبی سرحدوں کی جانب ریلوے لائن بچھانا چاہی لہذا ۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۰ء تک میکسیکو کے مقامی باشندوں اور مغربی استعمار کے درمیاں گھماسان کا رن پڑا۔ جس میں ملین کے قریب میکسیکو کے باشندے مارے گئے۔ شکست کے بعد ٹیکسس، نیو میکسیکو ، ایرے زونا، کیلے فورنیا اور آدی گن (آدھا) کو بندوق کے مور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کا حصّہ قرار دے دیا گیا اور بڑی صفائی سے مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ لہذا آج بھی امریکا کے چکانو ادب اور بالخصوص شاعری میں Aztlanصوبے کا نوآبادیاتی ناسٹلجیائیہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نوآبادیات کے رد میں معاشرتی اور سیاسی حوالے سے معاشرتی نمونوں (روٹی، مکھن، لوبیا) کی علامتوں کی مدد سے نوآبادیاتی نظام کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کی تصویر بھرپور طور پر سامنے آتی ہے۔
تم کچرا کھاتے ہو
تمھاری روٹی اور مکھن کے ساتھ
اور میں، میرا کھاتا ہوں، لوبیے کے ساتھ
اور ٹوٹریے ** کے ساتھ منہ مارتا ہوں
(میکیسکن روٹی (Tortilla))
البرٹ کامیوؔ نے ہزار الجزائر کی آزادی کے نغمے گائے ہوں مگر وہ فرانسیسی نوآبادیات سے الجزائر کو آزاد ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور کسی صورت میں بھی الجزائر ( جو ان کی جنم بھوی بھی تھی) کو خود مختار ملک کا رتبہ دینے کے حق میں نہ تھے، وہ ہر طور سے فرانسیسی نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے تھے اور اس نظام کے تحفظ کے بھی خواہاں تھے۔ ٹی ایس ایلیٹ (T.S.Eliot)نے عیسوی شریعت کو رائج کرنے کے متمنی تھے۔ انھوں نے ’ویسٹ لینڈ‘ میں روحانیت اور قنوطیت کا ڈراما رچا کر مغربی ثقافت کو مغربیت رائج کرنے کا عندیہ دیااور جدیدیت کی آڑ میں مغرب کی نوآبادیاتی توسیع پسندی اور سامراج پرستی کا خواب دیکھا۔ دریردا (Derrida)نے دبے الفاظ میں نوآبادیاتی تصورات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ دریردا مغربی مابعدالطبیعات کو ’گوری اساطیر‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو ان کی نظر میں مغربی ثقافت کا جبر ہے۔ دریردا کے ان خیالات نے نئے نقادوں کو مزید سوچنے پر اکسایا۔ باختنؔ کے Dialogisگرماسکی (Gramsci)کے مماثلتی تصور، فوکو کا قوت دور آگہی کا تصور اصل میں نوآبادیات شکن تصورات ہیں۔ ان افکار نے مغرب کے آون گارڈ اہرام یا ماڈل کی کوتاہ شعوری کا احساس دلوایا۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب ’Orientalism‘میں چار ہزار سال کی تاریخی تناظر میں پس نوآبادیاتی تنقید کے حوالے سے فلسطین سے سیاسی سے اپنی فکری رفاقت کا احساس دلوایا۔ (۴)
دوسری جنگ عظیم کے ہیرو جنرل مٹگمری، جو نوآبادیاتی تسلط پسندی کے حامی تھے مگر اسی شدت سے وہ نوآبادیات خطوں میں عیسائیت کے احیا کے خواہش مند بھی رہے انھوں نے مغرب کی برتری کو کمزور نوآبادیات اور نئے آزاد ہونے والے سابقہ نوآبادیاتی ممالک پر ٹھونسنے کے لیے ، ناٹو، سیٹو، سینٹو جیسے سامراجی دفاعی معاہدات کی منصوبہ بندی کی۔ اس صورتِ حال کو بھاپ کر الفریڈ سیووئے (Alferad Sauvy)کے نظریہ تیسری دنیا کو ابھارہ گیا۔ پھر غیر وابستہ ممالک کی تحریک چلی۔ یہ سب رویوں اور جحانات در نوآبادیات کے سلسلے میں ہی تھے جس سے تیسری دنیا کے ممالک دوچار تھے۔
اسی طرح نوبیل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل مارکیوز گارشیا، اکتاویوپاز، البرٹو اپسنووزا (Espinosa)کی تحریروں میں ردنوآبادیاتی احساس خاصا ترش ہے جو فکری سط پر خاصا گہرا بھی ہے۔ چلی کے شاعر پابلو نرودا نے رد نوآبادیات کی وساطت سے اپنے خدشات کااظہار کیا ہے۔ خاص طور پر وہ چلی کی داخلی نوآبادیات اور لاطینی امریکا میں پھیلے ہوئے مغربی سامراج کی توسیع پسندی کو اپنی شاعری میں بیاں کیا ہے۔
I knew that man, and when i could
when I still bad eyes in my head
when I still bad a voice in my throat,
I sought him among the tombs and I said to him
pressing his arms that still was not dust
“Everything will pass, you will still be living,
you set fire to life
you made what is yours”
So let no one be perturbed when
I seem to be alone and am not alone
I am not without company and I speak for as
Someone is bearing me without knowing it
But those I sing of those who know
go on being born and will over flow the world (5)
میکسیکو کے ناول نگار کارلوس فونیتیس (Carlos Fuentes)نے اپنی تحریروں میں امریکی نوآبادیاتی زمین کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ان کی ناول ’’The Old Gringo‘‘ (لاطینی امریکا، بالخصوص میکسیکو میں امریکیوں کو طنزاً ’گرینگو‘ کہتے ہیں) میں اس بات کا احساس دلوایا ہے کہ میکسیکو کے شمالی علاقوں میں امریکا نے پروٹسٹنٹ مذہب اور سرمایہ دارانہ ثقافت کی آڑ میں نوآبادیات کو فروغ دیا جس کا سلسلہ جنوبی میڈی ٹیرین ( Mediter ranean)تک جاتا ہے۔ نوآبادیاتی سلسلے میں ریگنؔ انتظامیہ نے نکارا گوا میں جو کچھ گُل کھلائے وہ تاریخی تناظر میں پریشان کن ہے۔ فونیتیس ؔ نے بل مائر ؔ (Billmoyer)کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ۱۹۵۴ء میںگوئتے مالا میں جوکچھ ہوا وہ سب امریکا کی سامراجی قوت کے سبب ہوا۔ لہذا لوگوں نے اسے Vietnamization of Central America یا Central Americanization of Vietnamکا نام دیا۔ (۶)
یہ ڈراما تو ویت نام کے خونی ڈرامے سے ایک صدی پہلے لاطینی امریکا میں کھیلا جاچکا تھا۔ جس کی سب سے بھاری قیمت میکسیکو کو ہی ادا کرنی پڑی اور آج تک یہ ملک خسارے میں جارہا ہے۔
قونیتین ایک ماہر نفستیا ہیں۔ انھوں نے ۱۹۶۱ء میں اپنی کتاب ’بدنصیب زمین‘ میں طبی فطرت نوعیت کا نوآبادیاتی تجزیہ کیا ہے جو معاشروں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ ان کے خیال میں نوآبادیات اپنی شناخت کے ساتھ مقامی علاقوں میں داخل ہوکر ان علاقوں پر قبضہ کرلیتی ہے اور اپنی نوآبادیاتی صفات کو انسان قرار دیتی ہے اور مقامی باشندوں کو ان کی کمتری کااحساس دلوا کر غلامانہ ذہنیت پیدا کرجاتی ہے جس کے لیے ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے جو مکمل طور پر ’نسلی‘ نوعیت کا ہوتا ہے۔ فونتین اسے ’متشدد مزاحمت‘ کہتے ہیں جو مقامی نفسی حسیت، عزت نفس کے پردے میں نوآبادیاتی خوشامدی ٹولہ پیدا کرتا ہے۔ انھو ںنے الجزائری جنگ آزادی کی کھل کر حمایت کی۔ ان کے خیال میں نوآبادیات مکمل طور پر معاشی نظریہ بھی ہے کیونکہ سامراج اعلا درجے کی سرمایہ داریت ہوتی ہے جس میں سرمایہ ’منافع‘ کو پیدا کرتا ہے۔ فونتین کا خیال ہے کہ تیسری دنیا کے بدترین استحصال کا نشانہ ہونے والے انسانوں کو ’افتادگان خاک‘ کہا۔ یہ ان کی کتاب کا عنوان بھی ہے۔ جس کا اصل اور بنیادی مقولہ ہے کہ مغربی سرمایہ کار طبقہ بیک وقت تعمیری اور طفیلی کردار کاحامل ہے اور نوآبادیاتی گماشتے کا کردار ادا کیا۔ اس عمل کے دوران استحصالی نوآبادیاتی نظام مقامی محنت کشوں اور کسانوں کا سفّاک اور بے رحمانہ استحصال کرتا ہے۔ فونتین کا نوآبادی نظریہ اصل میں ’تیسری دنیا کی انقلابی جدوجہد‘ کے مکالمے میں پوشیدہ ہے…. اس سلسلے میں کولمبیا کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل مارکیز گارشیا نے لکھا ہے ’’سیاست کے تناظر میں دیکھنے سے لاطینی امریکا کی نوآبادیات اور پس نوآبادیات کی معاشرت کاادراک تو ہوسکتا ہے مگر لاطینی امریکا کو آپ اس نظریے سے دیکھنے سے محروم ہوجائیں…. اس نظر سے گارشیا نے نوآبادیات کو لاطینی امریکا کے تناظر میں دیکھا۔
اردو میں باقاعدہ طور پر نوآبادیاتی فکرکا آغاز ۱۷۹۹ء میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد پڑنے کے بعد ہوا۔ جس نے ہندومسلم روابط میں دراڑیں ڈالیں۔ میر امد دہلوی نے گل گرسٹ کی سرپرستی میں ’باغ و بہار‘ لکھی اور میر امن نے اپنے مربی ڈاکٹر گل گرسٹ کو سر آنکھوں پر بھی بٹھایا۔ سوداؔ کے ’شہر آشوب‘، واجد علی شاہ کی ’مثنوی حزں اختر‘، نظیر اکبرآبادی کی نظمیں، پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ’فسانہ آزاد‘ میں دبے الفاظ نوآبادیاتی رویوں کے خلاف فکری مزاحمت ملتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی آخری عمر کی شاعری میں کنارتاً نوآبادیاتی رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اکبر الہ آبادی کی طنزیہ شاعری میں نوآبادیاتی نظام کی نفی کی گئی ہے۔ جوش ملیح آبادی جذباتی انداز میں بکنگھم پیلس کو بم سے اڑا دینے کی خواہش کرتے ہیں۔ ایک طبقہ سرسید احمد خان پر انگریز نوازی کا الزام لگاتا ہے حالانکہ سرسید نے ہندستان کے ٹوٹے پھوٹے ہریمت زدہ معاشرے اور فکری ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے لہذاوہ کچھ وقت کے لیے انگریزوں سے مزاحمت کے حق میں نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندستان مغرب سے اچھی چیزیں اخذ کرے اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہندستان میں نہ آج اردو ہوتی اور نہ ہی فکری ارتقا کی صورت نکل پاتی نہ ’مقدمہ شعر و شاعری‘ ہوتا، نہ ’آبِ حیات‘ نہ ’بانگ درا‘ ہوتی نہ ’ضربِ کلیم‘… اور نہ ہی ترقی پسند تحریک نظر آتی نہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی کباحث اردو معاشرے کو جلا بخشتے اور نہ ہی عبدالسلام جیسا سائنس دان پیدا ہوتا۔
نظم جدید کی تحریک کے بعد اردو کو کئی فکری تغیرات سے گزرنا پڑا ۔ ترقی پسند تحریک نے یقیناً نوآبادیاتی رجحان کو رد کردیا۔ یہ ایک بڑی مزاحمتی تحریک بھی تھی لیکن جب ہم گوری نوآبادیاتی ذہنی ساخت کے پس منظر میں چلتے ہوئے ۵۰ء کے دہے تک پہنچتے ہیں تو ہمیں یکبارگی یہ احساس ہوتا ہے کہ روسی انقلاب سے متاثر آزادی کی وہ تحریکیں جو اشتراکیت کے حوالے سے اپنی جدوجہد برقرار رکھے ہوئے تھیں انھیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ روسی ذہنی ساخت عالمی اشتراکیت کے سیاق و سباق میں گوری نوآبادیاتی نظام کا نعم البدل بن جائے گی۔ اس کا سب سے واضح ثبوت برصغیر کے ادب بالخصوص اردو میں ملتا ہے۔ ہنگری پر جب روسی ٹینک چڑ دوڑے تو فیض احمد فیضؔ سے لندن کے ایک صحافی نے اس پر اظہارِ رائے کے لیے کہا، فیض کا جواب تھا، ’’روسی ٹینک آزادی کو پامال کرنے کے لیے نہیں بلکہ آزادی کی حفاظت کرنے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔‘‘ جب کہ ہنگری اور چیکوسلواکیہ میں روس نے اپنی فوجیں داخل کیں تو ژان پال سارتر نے روس کی شدید مذمت کی۔
اسی طرح روسی فوجوں کے افغانستان میں دخول کے بعد جب بھارتی وزیر اعظم نے یہ موقوف اختیار کیا کہ یہ اس وقت کی افغانی حکومت کی دعوت پر وہاں پہنچے ہیں تو ہندستان کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر ترقی پسند دانشوروں میں، جن میں علی سردار جعفری پیش پیش تھے اس موقوف کی حمایت کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ دونوں حالتوں میں یہ Neo Colonialismمطمع نظر تھا جس میں اردو کی ترقی پسند تحریک کے دو رہنما فیض احمد فیضؔ اور علی سردار جعفری کی تاریخی سطح پر سیاسی جبر اور جارجیت کے سلسلے میں مصلحت کوشی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آئیڈیالوجی کے جبر کے تحت ان جیسے کئی سکہ بند ادیبو ں اور دانشوروں نے ہنگری اور چیکوسلواکیہ کے قابل مذمت واقعے کو تاریخی سطح پر درست قرار دیا لہذا آج نہیں تو کجل ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کون تاریخ کا مجرم ہے؟ ان دانشوروں کو مغربی سامراج اور نوآبادیات کے ظلم و جبر تو نظر آتے ہیں مگر سرخ نوآبادیاتی نظام اور آئیڈیالوجی سے جو نوآبادیات وجود میں آئیں وہ ان کی نظروں سے اوجھل رہی۔
سامراجیت (امپریلزم) کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی اصطلاح ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امپیریلزم کو ’نوآبادیات‘ کی اصطلاح میں تبدیل کردیا گیا۔ تھرڈ نیو انٹرنیشنل ڈکشنری میں نوآبادیات کو کسی قوم کا ماتحت علاقہ حاصل کرنا اور اپنا تسلط قائم کرنا ہے اور اپنی معاشی اور دفاعی اقتدار کو قوت کے ذریعے زیر کرکے اپنا جارہانہ تسلط قائم کرنا ہے۔ تاکہ نئی منڈیاں تلاش کی جائیں۔ ۱۷۸۷ء کے بعد جن عالمی قوتوں نے دوسرے براعظموں کے پسماندہ ملکوں پر اپنا تسلط جمایا۔ ان میں برتانیا ، پرتگال، فرانس، ہالینڈ، اسپین، پرتگال پیش پیش تھا۔ بہرحال برتانیا نوآبادیاتی نظام کا سب سے کامیاب ملک رہا۔ جہاں اس کی نوآبادیات میں کبھی سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ ۱۹۵ ممالک نے نوآبادیات سے آزادی حاصل کی مگر بدقسمتی سے وہ نئی نوآبادیات کے چنگل میں پھر پھنس گئے اور نئی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی غلامی پر مجبور ہوگئے۔

خلاصہ کلام
بیسویں صدی کی چالیسویں دہائی سے قبل نوآبادیاتی اصطلاحات معرض وجود میں نہیں آئی تھی۔ ’سامراج‘ کو ہی نوآبادیاتی معنوں میں لیا جاتا تھا۔ ۱۹۴۰ء کے بعد پس نوآبادیاتی رویہ تنقید میں عام ہوا۔ پس نوآبادیاتی تنقید نوآبادیاتی تنقید سے کلی طور پر انحراف کرتی ہے لیکن رد نوآبادیاتی تنقید کا مسلک جداگانہ ہے یہ نہ تو پس نوآبادیاتی تنقید کی ضد ہے اور نہ ہی اس کی تائید مزید ہے۔ اپنے حس کارکردگی میں یہ نوآبادیاتی تقندی کا رد ہوتے ہوئے بھی تعمیری (Constructive)کردار ادا کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ رد نوآبادیاتی تنقید، نوآبادیاتی تنقید کارد ہے لیکن یہ پس نوآبادیاتی تنقید کی توسیع ہے جو کہ مغربی اور اشتراکی سامراجیت سے اپنی برہمی کا اظہار کرتی ہے اور فرد اور گروہ کو اسے نوآبادیاتی ماضی کے شعور، مستحکم منطقی تاویلات کی وساطت سے بیاں کرتی ہے۔ رد نوآبادیاتی تنقید مخاطبے (ڈسکورس) کے نئے مسائل اور قادیانہ مزاج کو پس نوآبادیاتی سیاق میں پرکھتے ہوئے سب سے پہلے اقتدار کی عفریت سے نجات دلوانا چاہتی ہے کیونکہ یہی عنصر فکر و ادب کا کاغذی پیراہن ہوتا ہے۔ اقتدار پسند طبقے کے رویوں اور جحانات کا عمیق گہرائیو ںسے مطالعہ کیے بغیر ردنوآبادیاتی تنقید کا کوئی جواز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی تنقید خود میں منفی اقدار کی حامل نہیں۔
اب گروہ، ممالک اور آئیڈیالوجی کی جنگ نہیں ہوتی، اس دور میں تمام جنگیں ثقافت کے مابین ہیں۔ جیسے مذہبی، سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی اصطلاحات میں بات کر انسان کے گلے میں نئے التباسات کے طوق ڈالے جارہے ہیں۔
ردنوآبادیاتی تنقید، سامراجی قدروں اور نظریات کو ہی نشانِ ہدف نہیں بناتی بلکہ دیگر جمہوری، معاشرتی اور سیاسی نظاموں میں چھپے ہوئے نوآبادیاتی اور سامراجی عنصر (عزائم) کو بھی شناخت کرلیتی ہے کیونکہ ان نظاموں میں فرد کی آزادی ایک دھوکہ ہے جب یہ نظام ہائے جیات مغرب سے سابقہ نوآبادیاتی خطوں میں برآمد کیے جاتے ہیں تو نراجیت، فاششت اور آمریت کا روپ دہار لیتے ہیں۔
اردو میں سامراج اور نوآبادیات کے حوالے سے چند اصطلاحات کے اردو تراجم اور منفردات درج کیے جارہ ہیں۔ جو عموماً نوآبادیاتی مطالعوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
استعماریت- استعماریت پسندی – عادات Colonisalism
نوآبادیایہ – کالونی طریقے سے – مستعمرانہ Colonally
آبادکار-مستعمر – نوآبادی کا باشندہ Colonist
نوآبادیات نظام – استعماریت پسند Clonization
افسر نوآبادیات Colonization Officer
آباد کار Colonizer
نئی بستی قائم کرنا Colonize
نوآبادیاتی استعماری Colonial
نیا استعمار- نئی نوآبادیات Neo Colonisalism
پس استعماریت – پس نوآبادیات Post Colonisalism
رد استعماریت – ردنوآبادیات De Colonisalism
سابقہ نوآبادیاتی نیو کلیائی مخاطبہ Former Colonist Nuclear Discourse

1. W.B.Yeats, Collected Poems, New York: Macmillan, 1959. P. 146.
2. Said Edward W., Culture and Imperialism, New York: Alfred A. Knopf, 1993. PP 220-238.
3-رابرٹ سلیل (ترجمہ مبارک علی)، ’’کلچر امپیریلزم‘ ، لاہور: ماہ نو جولائی ۱۹۸۶ء ، ص: ۲۳
4. Said, Edward. Orientalism, New York: Pantheon, 1978.
5. Neruda, Pablo, Fully empowered, trans. Alastair Reid, New york: Farrar Straus & Ciroux, 1986, P 131.
6. Moyers Bill, World of Ideas, New York: Doubleday 1989 PP 506-513. (Conversation with carlos Fuentes)
ll