Tafheem E Kalam E Ghalib by Prof. Hameedi Kashmiri

Articles

تفہیم کلام غالب اکتشافی تنقید کے تناظر میں

پروفیسر حامدی کاشمیری

 

 

اکتشافی طریق نقد ہر اچھے اور بڑے شاعر کی طرح غالبؔ پر بھی پوری امکان خیزی کے ساتھ صادق آتا ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کلام غالب پر اسکی تطبیق اور عمل آوری کے امکانات لامحدود ہیں۔ اول اس لیے کہ تنقید کے اس طریقِ کار کی نتیجہ خیزی کے لیے یہ (کلامِ غالبؔ)زرخیزیت سے مالا مال ہے۔ دوم خود غالبؔ نے کئی جگہوں پر نظم اور نثرمیں اس نوع کے تنقیدی نظر یے سے ملتے جلتے نکات کی نشان دہی کی ہے۔اس طریق نقد کی روسے بلاشبہ غالب فہمی کے لیے ایک نیا تناظر فراہم ہوتا ہے اور غالب کی تخلیقی شخصیت آب و تاب اور آن بان کے ساتھ جلوہ گر ہوجاتی ہے۔
اس نظریے کی رو سے غالبؔ کے بارے میں بہ تکرار پیش کیا گیا یہ مفروضہ ختم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں شخصی زندگی ،معاصرت،تاریخ یا عقائد کے بارے میں اپنے خیالات کا راست اظہار کیا ہے،ان کے اشعار سے میکانکی انداز سے مختلف خیالات کے استحزاج کا عمل تنقیدی عمل سے نہ صرف مغایئر ہے بلکہ یہ غالب کی تخلیقیت کے نظام کو پس پشت ڈالنے کی مترادف ہے ۔شاعری خیالات سے نہیں بلکہ حسیاتی تجربات سے تشکیل پاتی ہے اور حسیاتی تجربات شاعر کی باطنی شخصیت کی تمام تر توانائیوں کا احاطہ کرتے ہیںجبکہ خیالات ،خواہ کتنے ہی گراتقدر کیوں نہ ہوں دانش مندی اور عقلیت کے ہی مظہر ہوتے ہیں جو کسی طرح شخصیت کی تکمیلیت کے دعویدار نہیں ہوسکتے۔
کلام غالب کو منطقی خیالات کے تشدد سے نجات دلانے اور اس کی آزاد نامیاتی خاصیت کے زیر اثر نادیدہ جہات کی جانب سفر کرنے والے تخلیقی تجربات کی شناخت کا عمل غالب فہمی کے لیے رازمے کی حیثیت رکھنا ہے۔یہ غالب سے صحیح معنوں میں متعارف ہونے کا عمل ہے۔ یہ عمل بنیادی طور پر نقاد سے شعر میں زبان کے مخصوص برتاؤ کے اصول وجوضوا بط سے گہری واقفیت کا متقاضی ہے۔شعر میں نثر کے خلاف زبان کا برتاؤ ترسیلیت کے روایتی معائر کی نفی کرتا ہے۔زبان فی نفسیہ اظہاریت کا وسیلہ ہے اور زبان ہی شعرکا وسیلہ اظہار بھی ہے لیکن شعر میں یہ روزمرّہ کی ترسیلی ضرورت کے برعکس شاعر کے کسی خیال، عندیے، عقیدے یا تصور کا اظہار نہیں کرتی۔یہ کہنا درست ہوگا کہ شعر میں برتاؤ میں آتے ہی اس کا ترسیلی برتاؤ کا لعدم ہوجاتا ہے ۔نثر میں بھی روزمرہ کی صورت قائم رہتی ہے،نثرنگار واضح اور برمحل الفاظ سے اپنے معنی کو سامع یا قاری تک پہنچاتا ہے اور اس کی ترسیلیت مددکا درجہ حاصل کرتی ہے ۔اس کے علی الرغم شعر میں جہاں متکلم شاعر کی نمائندگی نہیں کرتا ہے وہ ایک فرضی کردار کا روپ اختیار کرتاہے اور تمامتر تخٔیلی دنیا میں اپنے وجود کو منواتا ہے۔
اگر کلام غالبؔ میں زبان کا برتاؤ ترسیلیت اور واقعیت کی نفی کرتا ہے تو پھر اس کا تفاعل کیا ہے؟شعر ظاہر ہے زبان ہی سے شکل پذیر ہوتا ہے ،اس لئے اس کے تقاعل کا زیر بحث آنا ناگزیر ہے۔شعر میں زبان کا ایک منفرد اور مخصوص تفاعل ہے۔اس تفاعل کی شناخت انتقال معنی کے بجائے انسلا کاتی امکان پذیری سے ہوسکتی ہے ۔دراصل شعری عمل میں شاعر کے باطن میں اظہار طلب، سیال،اجنبی اور مختلف النوع مشاہدات،محسوسات اور واردات شعور اورلاشعور کے خطِ امتیاز کو مٹاکر کسی نئی صورت میں ڈھلنے کا امکان پیدا کرتے ہیں،الفاظ قواعد اور تزئیں کاری سے صرف نظر کرکے اس طرح ترکیب پذیر ہوتے ہیں کہ وہ معانی کی بندشوں سے نکل کر زیادہ سے زیادہ امکانی توسیعات کے ساتھ نادر اور نادیدہ تجربات سے معمور ہوجاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ الفاظ کی ترتیب تجربے کو بے پردہ کرتی ہے،یہ کسی قطعہ زمین پر بسیرنے کی چادر کی طرح سعحی طور پر پھیل نہیں جاتا بلکہ یہ آئس برگ کی طرح زیر آب رہتا ہے۔یہ الفاظ میں منتقل ہونے کے باوجود الفاظ میں مستور ہوتا ہے،اگر الفاظ کی ترتیب تجربے کو آشکار کرتی تو تفہیم کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔شاعری مثلاً غالب کی شاعری اصلاً تفہیم کا مسئلہ پیدا کرتی ہے اور قاری کے لیے اس کے اسرار کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں۔
نقاد شعر میں لسانیاتی عمل کو مرکز توجہ بناتے ہوئے ان انسلا کاتی امکانات کو دریافت کرتا ہے جو تجربے کے وسیع تر آفاق پر حاوی ہوں۔تجربہ بالعموم دوانواع کی صورتیں اختیار کرتا ہے۔اول یہ توسیع پذیر اطراف کی شناخت کرکے ایک عضوی کل میں ڈھلنے کے میلان کو ظاہر کرتا ہے ۔مختلف الاعناصر ہونے کے باوجود عضویت یا تکمیلیت پذیری کی طرف راغب ہوتا ہے ۔دوم موسیقی کی طرح لاجہتیت کی طرف نادیدہ،نوبہ نو اور متغیر پہلوؤں کو راہ دیتا ہے۔اول الذکر شناخت اورنمایاں ہونے کے رحجان کو راہ دیتا ہے جبکہ موخر الذکر مرکز گریز ہوجاتا ہے اور انار کے رنگوں کی طرح پھیل جاتا ہے۔دونوں صورتوں میں بہرحال یہ الفاظ ہی کا عمل ہے جو معجز نمائی کرتا ہے ۔کلام غالب سے صحیح رابطہ قائم کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ہم ان کے کلام میں اس نوح کے لسانیاتی عمل پر نظر رکھیں۔یہ الفاظ کے لغوی معانی کی نشاندہی کا عمل نہیں اور نہ ہی الفاظ کے ربط باہم سے کسی وسیع تر معنی کی تلاش ہے۔یہ دراصل الفاظ کی اپنے سیاق میں تجربے یعنی تخیلی صورت حال کی امکان پذیری کی دریافت کا عمل ہے۔ شاعر کے ہاتھوں الفاظ کی ترتیب مکمل ہوجاتی ہے تو شعر شاعر کی مداخلت سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ یہ اپنے طور پر اپنے وجود کا اثبات کرتا ہے اور آزادانہ عمل سے کرتا ہے۔اس کا یہی خود وضع کردہ انداز الفاظ کے تخلیقی برتاؤ کی توثیق کرتا ہے۔اسی نقطۂ نظر سے غالب کی منتخبہ شاعری معنی یا خیال کی عائد کردہ جبریت سے نجات پاتی ہے۔
الفاظ کے اس خود کارانہ عمل سے جو تجربہ شکل پذیر ہوتا ہے وہ نقاد کی حسی گرفت میں تو آسکتا ہے،لیکن یہ قاری کے لئے بہر طور گریزاں رہے گا،کیونکہ قاری خواہ کتنا ہی باذوق کیوں نہ ہو الفاظ کی تلازمی باریکیوں ،سیاقی روابط،معنوی امکانات اور ہئیتی ضوابط سے مطلوبہ واقفیت نہیں رکھتا۔لا محالہ وہ شعری تجربے میں شرکت کے لئے نقاد کی دست گیری کا طالب ہوتا ہے اور نقاد یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ وہ قاری کو شعری تجربے سے حتی الامکان روشناس کرائے گا ،وہ شعر کا مفہوم یا اس کا مرکزی خیال یا نثری روپ قاری تک منتقل نہیں کرتابلکہ وہ اس جہات آشناتجربے سے خود گزرتا ہے اور قاری کو بھی گزارتا ہے، چونکہ یہ کام اسے نثری زبان میں انجام دیتا ہے اس لئے ضروری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا شعری تجربے کی اپنی رمزیت اور نزاکت کے ساتھ نثری زبان میں منتقلی ممکن ہے؟یہ منتقلی ممکن ہے بشرطیکہ نقاد نظم کے اجزا کی تشریح پر اترآئے اور نہ ہی تنقید کے نام پر نظم پر نظم لکھے۔وہ تجربے تک رسائی حاصل کرنے کیلئے قاری کو الفاظ کے معنی کے بجائے متنی سطح پر انسلاکاتی توسیعات کی جانب اشارہ کرے۔وہ اشارات سے کام لیتا ہے،یہ ضرور ہے کہ بعض الفاظ ،جو نظم کے سیاق میں اور اپنی انفرادی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی توضیح طلب ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ توضیح نظم کی داخلی صورت سے پوری مطابقت رہتی ہے، یہ برہنہ توضیحی عمل کے مترادف نہیں۔یہ الفاظ کے اپنے سیاق میں اپنے برتاؤ (Behaviour) کا عمل ہے اور یہی عمل صورت پذیر تجربے کی اکشافیت کو خود نقاد کے لئے ممکن بناتا ہے اور اس کے توسط سے قاری کے لئے ممکن ہوجاتا ہے۔
ضمناًاس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ کوئی نقاد یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ جو تجربہ اس پر منکشف ہوا ہے وہ حتمی ہے یعنی تجربے کی جملہ اسراریت اس پر منکشف ہوجاتی ہے،چونکہ قاری اساس تنقید کے موئدین نے فن کی تفہیم کے ضمن میں قاری اور قاری میں فرق کیا ہے۔ یہاں تک کہ زمانی اعتبار سے بھی قارئین اور قارئین میں فرق روا رکھا گیا ہے،اس لئے نقاد اور نقاد میں بھی فرق ہوسکتا ہے ۔ہر نقاد اپنی زباں شناسی ،علمیت،ادراکیت اور احتیاسیت کے مطابق شعری لسانیات سے اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔نتیجتاً ہر نقاد پر اپنی استعداد کے مطابق تجربے کی اکتشافیت ممکن ہوگی۔لفظوں سے جو تجربہ نمود کرتا ہے وہ تخلیقیت کا کامل مظہر ہوتا ہے،وہ اسی فطری انداز میں لفظوں سے نمود کرتا ہے۔
جس طرح زمین سے پودا اگتا ہے یا لاوا پھوٹتا ہے،نقاد اپنی پوری احتساسی قوتوں کی بدولت اس کا ادراک کرتا ہے ۔یہ ایک نادرالوجود حیاتیاتی فنا منا کے ادراک کا عمل ہے۔ایک اجنبی حسین اور دلکش نامیاتی تجربہ ابھرتا ہے اور نقاد(قاری)کو حیرت ومسرت سے دوچار کرتا ہے اور اپنے بدلتے رنگوں اور متغیر اوضاع کی بنا پر تجسس کو راہ دیتا ہے ۔یہ تجربہ خالصاً حسیاتی ہوتو جمالیاتی نشاط پرمنتبح ہوتا ہے،یہ حسیاتی ہوتے ہوئے بھی مابعد طبیعاتی اور تمدنی نوعیت کا بھی ہوسکتا ہے یعنی یہ تحیر کے ساتھ ساتھ تفکر کو بھی انگیخت کرسکتا ہے۔غالبؔ کے تجربے بوقلموںہیں وہ خالصاً جمالیاتی بھی ہیں اور جمالیات سے مابعد الطبیعات کی جانب رواں ہوتے ہیںاور نشاط و تفکر کے امتزاج کو بھی پیش کرتے ہیں۔
شعری تجربہ کی نوعیت اور اسکی پہچان کے لئے شعر کی قرأت بھی توجہ طلب ہے۔شعر کے چند ابتدائی الفاظ میںنہ صرف بیاں کندہ کے خد وخال کو اجاگر کرتے ہیں ،بلکہ اس کی قرأت بھی تجربے کے ادراک کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی کردار واقعہ کے ارتباط و آمیز ش کو بھی سامنے لاتی ہے۔اس طرح سے اس ڈرامائی صورتِ حال کی نشاندہی ہوتی ہے جو کردار کے علاوہ منظر ، فضا، تنائو، تضاد اور طنزکی مدد سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ گویا لسانیاتی عمل سے ایک اجنی اور منفرد شعری کائنات کی نمود کی شناخت ہے۔ یہ کائنات حقیقی کائنات سے الگ ہے۔اس کے زمین و آسماں اور شمس و قمر الگ ہیں۔اس کے مظاہرسے و موجدات اور مخلوقات الگ ہیں۔ اس کے کردار اپنے عمل کا خود جواز ہیں جومربوط ہیں۔اس کائنات میں جو بھی ڈراما واقعہ ہوتا ہے،وہ اجنبیت کے باوجود انسانی ذہن کے لیے قابل قبول ہوتا ہے۔دراصل کوئی بھی چیز فن کی صورت میں ڈھل جانے کے باوجود ارضیت سے لاتعلق نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ فنکار آسمانوں سے آگے پرواز کرنے کے باوجود زمین سے پیوستہ ہوتا ہے اور اسکے حسی اور لاشعوری تجربات انسانی معنویت رکھتے ہیں۔
غالبؔ ایک بڑے فنکار ہیں۔انہوں نے لسانیاتی عمل سے معجزہ کاری کی ہے۔ انہوں نے اپنے باطنی وجود سے پھوٹنے والے لاتعداد تجربات کی ایک نادرہ کار ثروت مند اور رنگا رنگ کائنات خلق کی ہے۔ یہ کائنات انتہا نا آشنا اور زمانی اور مکانی اعتبار سے لا محدود ہے۔ یہی خود گرو خود آگاہ کائنات غالب کی بے بایاں تخلیقی قوتوں کا علامتی اظہار ہے اور اس میں باریابی کے لیے شعری لسانیات کی کارگزاری سے بھرپور واقفیت لازمی ہے۔
٭٭٭