Firaq Ki Shairi by Prof. Siddiqur Rahman Kidwai

Articles

فراق کی شاعری میں عشق و وصل

صدیق الرحمن قدوائی

کسی تہذیب کی روایت جو تاریخ کی آزمائش سے گزرتی ہوئی مختلف نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہتے، تمام انقلابات کے باوجود مکمل طور پر فنا نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی ساتھ ترمیم اور تبدیلی کا عمل ضرور جاری رہتا ہے۔ شعوری طور پر بھی اورغیر شعوری سطح پر بھی۔ مگر اردو کے ادبی کلچر میں روایت کی جڑیں کچھ زیادہ ہی مضبوط ہیں۔ انحراف نکی کوششیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ خصوصاً ہمارے زمانے میں تو اس کا دعویٰ بہت ہورہا ہے مگر اس کا اظہار سطح کے اوپر اوپر زیادہ نظر آتا ہے۔ معنی خیز اور دیرپا تبدیلیوں کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اور روایت اپنے گہرے سائے ساتھ ساتھ لیے ہوئے چلتی ہے۔ چنانچہ اردو والوں کے مزاج و مذاق کی تربیت میں غزل کا اثر عام طور پر ہر جگہ موجود ہے۔ اس سے نظر چرانے یا اس پر توبہ توبہ کرنے کی ’دانش ورانہ‘ اور ’نقادانہ‘ مشقتوں کے باوجود یہ ہے اور مدتوں رہے گا۔ اس کی بناء پر وہ سارے خطرات بھی ہیں جن کا بار بار ذکر ہوتا رہتا ہے اور وہ فائدے بھی ہیں جن کا پتہ ہمارے اچھے تخلیق کاروں کے کلام سے چلتا ہے۔ خطرہ اس وقت بالکل عیاں ہوجاتا ہے جب ہم ایک ’فارمولا نثر‘ اور ’فارمولہ شاعری‘ کو نہ صرف اپنے ہاں پنپتا ہوا بلکہ داد وصول کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ الفاظ، استعارات، تشبیہات، تلمیحات غرض کہ جو کچھ بھی موجود ہے انھیں جوڑ بٹور کر طرح طرح سے ترتیب دے دیجیے اور مشاعرہ لوٹ لیجیے۔ سننے والے یا پڑھنے والے کا تخیل و تصور خود بخود ہر لفظ کی مناسب تاویل اپنے بس بھر کرلیتا ہے یہ اس لیے مشکل نہیں کہ تصوف اور عشق نے تلازمات کی ایک پوری بھیڑ ہر لفظ کے پیچھے پیچھے لگادی ہے، جن سے دو تین صدیوں کے اندر ہم سب مانوس ہوگئے ہیں۔ اور یہ نہ ہو تو ایہام کا اپنا جادو بھی خوب چلتا ہے۔
مگر اس سے الگ اچھے فن کاروں نے ان ہی سب شعری وسائل کو کچھ اس طرح بھی برتا کہ وہی الفاظ پہلے جتنا کچھ کہتے تھے اس سے کچھ زیادہ ہی کہنے لگے۔ یعنی جانے بوجھے الفاظ میں نئی Spacesاور زیادہ گہرائیاں دریافت ہوگئیں۔ اور اسی بناء پر غزل کی روایت میں ہمیشہ ہر زمانے کی رعایت سے ایک ’عصریت‘ Con temporariness رہی جس نے اسے کبھی پرانا نہیں ہونے دیا۔ اور آج بھی اپنے خلاف تمام تنقیدی فیصلوں کے باوجود وہ ہمارے مجموعی تہذیبی اثاثے کا سب سے قیمتی، موثر اور مقبول حصہ ہے اور اس سطح کی شاعری سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ’عشق‘ محض ہماری لغت کا ایک لفظ نہیں بلکہ مشرق کی عہد بعہد ارتقاء پذیر تہذیب کے متعدد عناصر کا حامل ایک تصور ہے۔ اور جب چاہیں اسے نئی نئی معنیاتی صورتوں میں تبدیل کردیں۔ وہ رومی کی زبان میں ’’طبیب جملہ علت ہائے ما‘‘ لے کر اشخاص کے درمیان جنسی تعلق تک سب کچھ اندر سمیٹے ہوئے ہے وہ اقبال کے فلسفیانہ نظام میں بھی اسی طرح ٹھیک بیٹھ جاتا ہے جیسے فیض کے ہاں انقلاب کے تصور میں۔ غرضکہ اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کے زیر اثر تربیت پانے والا کوئی بھی شخص عشق سے بچ کر نہیں نکل سکا۔ فراق بھی ان ہی لوگوں میں ہیں۔ مگر ان کا عشق اور اسی کے سبب ان کا لمحۂ وصل بھی اوروں سے مختلف ہے۔ فراق کا زمانہ، ان کی ذات، ان کے مطالعے و مشاہدے انھیں اس منزل سے آسان گزرنے نہیں دیتے۔ غزل کی بنائی ہوئی صدیوں سے پلنے والی ذہنی و جذباتی فضا میں سانس لیتے رہنے کی بدولت ’’عشق‘‘ تو ان کے رگ و پے میں ضرور سرایت کرگیا۔ مگر وہ اس کے اس مفہوم سے مطمئن نہیں جو ان سے پہلے یا ان کے عہد کی غزل میں عام تھا۔ چنانچہ وہ اس کے ایک ایسے مفہوم کی تلاش میں ہیں جو فکر، جذبہ اور احساس کی ساری کائنات کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ وہ اپنے عشق کو بہ یک وقت حسیں اور تہہ دار بنانے کی تمنا میں اسے وسیع مگر اور زیادہ مبہم کرتے چلے جاتے ہیں۔ شاید ان کے ذہن کے گوشوں میں کہیں یہ بھی خواہش ہو کہ وہ اقبال سے آگے جاکر کسی جہان تازہ کا پتہ لگا آئیں۔مگر یہ سب ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ کسی خاص فلسفیانہ نظام سے ربط و ضبط نہیں رکھتے۔ وہ بیسویں صدی کے ایک لبرل ذہن رکھنے والے حساس، ہوش مند انسان ہیں جو اپنی اور اپنے عہد کی زندگی کے عام تقاضوں اور مسئلوں کو خواہ وہ سیاسی و سماجی ہوں یا ذاتی معاملات کے پروردہ ہوں، رومانی تعبیرات کے ذریعے سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ شاعر ہیں اور غزل کے راستے فلسفہ، مذہب، سیاست اور اخلاقیات وغیرہ تک پہنچتے ہیں۔ فراق کے عشق میں وہ ساری خواہشات سما گئی ہیں جو ان کے زمانے ایک مہذب انسان کو عزیز ہیں۔ اس تصور کی شاعرانہ تعبیرات وہ طرح طرح سے کرتے ہیں، کہیں کہیں وجد آفریں اندا زمیں اور کہیں سپاٹ نثریت لیے ہوئے:
تاریخِ زندگی کے سمجھ کچھ محرکات
مجبور اتنی عشق کی بے چارگی نہیں

نگاہ اہل دل سے انقلاب آتے ہیں
یقیں رکھ عشق اتنا بے سروساماں نہیں ہوتا

امید و یاس، وفا و جفا، فراق و وصال
مسائل عشق کے ان کے سوا کچھ اور بھی ہیں

رفتہ رفتہ عشق مانوسِ جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے عشق میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
فراق کے ابتدائی کلام میں اساتذہ کے رنگ کا گہرا اثر ہے، مگر رفتہ رفتہ وہ اس سے نکلتے ہیں اور پھر اسی زور میں وہ زبان، عروض اور اردو شعریات کے مانوس اصولوں کی توڑ پھوڑ کرنے لگتے ہیں۔ طویل غزلیں کہنے، بعض مصرعوں کو مختلف غزلوں میں دہراتے رہنے اور ایک ایک بات کا بار بار کہتے رہنے کی عادت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ ان کی تکمیل Perfectionکی تلاش ہے جو کہیں کام آتی ہے اور کہیں ناکام ہوجاتی ہے۔ فراق نے صوفیوں کے عشق کی سپردگی، اقبال کے عشق کے تحرک اور قوت نمو اور عام جنسی عشق کے بھرپور لذت انگیز اضطرار سب کو یکجا کرنا چاہا جو وہ نہ کرسکے مگر اس خواہش سے کچھ ایسے شرارے اٹھے جو ان کی شاعری میں ہر طرف دوڑتے ہوئے ملتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب ان کا عشق انھیں وصل کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
وصل کی اصل اساس کو متحرک کرنے والیب ۔۔۔۔ ہے جس کی وجہ سے اس کے جلو میں آنے والی لذت کی تمنا جسم و جاں میں سرایت کر جاتی ہے مگر یہ وصل محض دو جسموں کے ملاپ کی سہل نہیں۔ یہاں غالب کا شعر یاد آتا ہے:
ہمارے ذہن میں اس فکر ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو!
بات کو بہ یک وقت سلجھانے اور الجھانے سے احساس بھی اس دام میںہمیشہ کے لیے گرفتار ہوجاتا ہے اور اسی میں ساری لذتیں ہیں۔ خیر یہ تو معاملہ ہوا غالب کا ، ذکر تو ان کا نہ تھا مگر ایسی باتیں ان کے بغیر بھی کیسے ہوسکتی ہیں۔ ان جیسوں کا ذکر کہیں بھی ٓٓآئے جملۂ معترضہ نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً ایک ایسے کے تعلق سے جسے وہ پہلے ہی جگمگا گئے ہیں۔ یہی گوشہ بیسویں صدی کے شاعروں میں ہمیں فراق کے ہاں سب سے زیادہ روشن اور نیا نیا سا لگتا ہے۔ زمانہ گزر گیا جب پہلی بار ان کا یہ شعر پڑھا تھا:
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے آجانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
مگر اس نے جس عالم حیرت میں پہنچایا اسی کے اندر ایک جہت سے دوسری جہت تک ڈولتے پھرنے میں جو لطف آج بھی آتا ہے اس کا اظہار ممکن نہیں۔ اسی طرح کے اشعار جو نئی نئی کیفیتیں پیدا کرتے ہیں اور احساس پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں انھیں بیان کرنے کی کوشش ان لذتوں کا خون کرنے کے سوا کچھ نہی، مگر اس شعر کی بدولت فراق کی شاعری کے محض ایک پہلو کی طرف دل و دماغ کچھ اس طرح متوجہ ہوا کہ اس جیسے دوسرے اشعار پر بھی نظر ٹھہرتی چلی گئی اور پھر ایسا لگا کہ وہ محض کوئی آتی جاتی کیفیت نہیں ہوگی جس نے فراق سے یہ شعر کہلوایا بلکہ ان کا احساس انھیں ایک مخصوص سطح پر بار بار لے جاتا ہے جہاں یہ کیفیت ان سے جدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ اس طرح کے سب اشعار باہم مل کر ہم آہنگ احساسات و جذبات کی ایک اکائی تشکیل کرتے ہیں۔
وصل یہاں محض محبوب سے ہمکنار ہونا نہیں بلکہ ابدی ناآسودگی اور لازوال تشنگی کو اور اجاگر کرنے والا لمحہ ہے۔ اب محبوب سے مل کر سارے غم دور نہیں ہوتے بلکہ ایک نیا اور پہلے سے زیادہ گھلا دینے والا دکھ نس میں اتر جاتا ہے۔ یہا ں عاشق کی ذات محبوب سے مل کراداسیوں میں ڈوب جاتی ہے اور وصل تنہائی کا مداوا کرنے کی بجائے تنہائی کے احساس کو اور زیادہ گہرا کردیتا ہے:
بتائیں کیا دل غمگین اداس کتنا تھا
کہ آج توع نگہِ ناز نے بھی سمجھایا

فضا تبسمِ صبحِ بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی
فراق کے محبوب کی ذات اردو شاعری کے روایتی محبوب کے ناقابل شناخت وجود سے بھی مختلف ہے۔ یہاں محبوب کا ایک آزادانہ وجود ہے، وہ محض عاشق کا خواب نہیں بلکہ اس کے ہاں بھی جذبہ و احساس کی ایک دنیا ہے جسے پانے کی خواہش عشق کو عام انسانی رشتوں کے مقابلے میں زیادہ دلکش بنادیتی ہے اور پیچیدہ بھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ لمحۂ وصل بھی عشق کی تکمیل کا لمحہ نہیں ہوسکتا:
عشق اگر ایسے سے ہوجائے تو کیا کیجیے فراق
جس کو کھو کر جاں بلب ہوں جس کو پا کر جی بھر آئے

ہم آغوشی بھی چٹکی سی لیے جاتی ہے سینے میں
کہ یہ ارمان بھی نکلا ہوا ارماں نہیں ہوتا
وصل یہاں آنے والی تنہائیوں کا پیغام ہے اور وصل کی گھڑی پر بھی ہجر کے سائے منڈلاتے ہیں، جس کا انتظار تھا وہ جب آیا تو وہ شاعر کی جذباتی دنیا سے مختلف نہیں بلکہ اسی جیسا ہے۔ شاید عشق ہے بھی اسی کیفیت کا نام جب دو وجود باہم اس قدر قریب ہوجائیں کہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ میں شامل ہوکر اور زیادہ اداس ہوجائیں۔ فراق کے ہاں وصل تمام جسمانی لذتوں اور سرمستیوں کے ساتھ ہوتا ہے جس کی سب سے اچھی مثالیں روپ میں ملتی ہیں۔ لمس کی لذتوں سے بھرپور اشعار اور رباعیاں اس کے بغیر وجود میں نہیں آسکتیں تھیں، مگر یہ انتہا نہیں۔
تجھے تو ہاتھ لگایا ہے بارہا لیکن
ترے خیال کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست
وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا

کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور اب یہ عالم ہے
کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو

عجب کیا کھوئے کھوئے سے جو رہتے ہیں ترے آگے
ہمارے درمیاں اے دوست لاکھوں خواب ہائل ہیں

اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی
اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

حسن کو ایک حسن ہی سمجھے نہ ہم اور اے فراق
مہرباں نامہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اور پھر آدھی رات والی نظم اپنے ہالے میں زمین و آسمان کے سارے حسن اور سارے کرب کو سمیٹے ہوئے آخر تک پہنچتی ہے تو فراق درد و لذت کے سارے تلاطم کو یوں ہمکنار کرلیتے ہیں:
اب آؤ میرے کلیجے سے لگ کے سوجاؤ
٭٭