Shaad Aarfi Aik Munfarid Fankar

Articles

شادؔ عارفی: ایک منفرد فنکار

پروفیسر مظفر حنفی

اُردو غزل کی صدیوں پر محیط ، بے کراں روایت میں یہ سعادت گنتی کے تین چار شاعروں کو نصیب ہوئی ہے کہ ان کا ہرشعر اپنے لہجے کی بنا پر دور سے پہچانا جاتا ہے۔ شادؔ عارفی نے غلط نہیں کہا:
اور پھر کہتے ہیں کہ کس کو ندرتِ طرز ادا
میرے شعروں میں مری آواز پہچانی گئی
عام طور پر شادؔ عارفی کو ایک عظیم طنز نگار غزل گو کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن وہ عشقیہ غزل کے بھی اتنے ہی اہم شاعر ہیں۔ انھوں نے منظر یہ، طنزیہ اور رومانی نظمیں اتنی اچھی اور ایسی کثیر تعداد میں کہی ہیں کہ تا حال تنقید یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ شادؔ کی غزل اور نظم میں سے کس کا پلّہ بھاری ہے۔ نثر میں بھی شادؔ عارفی نے تنقیدی مضامین اور مکتوبات کی شکل میں قابلِ لحاظ ادبی سرمائے کا اضافہ کیا ہے۔
شادؔ عارفی رامپور میں پیدا ہوئے وہیں عمر بسر کی اور وہیں وفات پائی۔ ان کا سالِ پیدائش ۱۹۰۰ء ہے اور سنہ وفات ۱۹۶۴ء۔ شاعری وہ نو عمری میں ہی کرنے لگے تھے۔ ان کی تخلیقی کاوشیں کم و بیش بچاسٍ برسوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس دوران ان کی شاعری میں کئی موڑ آئے۔ ایک جگہ خود کہا ہے:
وہ رنگیں نوائی ، یہ شعلہ بیانی
کئی موڑ آئے مری شاعری میں
بڑی بات یہ ہے کہ اُس دور میں بھی جسے شادؔ عارفی رنگیں نوائی سے تعبیر کرتے ہیں انھوں نے لب و رخسار والی روایتی شاعری نہیں کی بلکہ اپنے سچّے اور پُرجوش واقعاتِ عشق کو ایسے نادر لہجے میں اس ندرتِ ادا کے ساتھ پیش کیا کہ ان کی عشقیہ غزل کاذائقہ اُردو کی عام عاشقانہ اور روایتی غزل سے منفرد ہو گیا۔ بقولِ شادؔ:
دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ
جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں
انھوں نے دوبار محبت کی اور جواب میں انھیں دوسری طرف سے بھی محبت ملی۔ ان کی عشقیہ غزلوں میں اس دو طرفہ محبت کے جیتے جاگتے، سچے اور تابناک مناظر دیکھے جا سکتے ہیں:
کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ
وہ نہ دیکھے مجھے ، میں اس کا نظارہ کر لوں
………
لائے ہیں تشریف تکیوں پر دُلائی ڈال کر
حُسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے
………
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
………
اس سے جب پوچھا گیا چھُپ چھپ کے رونے کا سبب
دردِ دل کا کام اس نے دردِ سر سے لے لیا
………
دل نوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی
رُخُ محبوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے
………
لکھ کر میرا نام اے شادؔ
اس نے بھیجا ہے رومال
………
بھولی سی ہم مکتب کوئی کوئی سہیلی خالہ زاد
اُن کے ہاتھوں خط بھجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ
………
مسکرا دیں گے مرا نام کوئی لے دیکھے
وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں ، کسی کام میں ہوں
………
ابھی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں
سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے
………
اُسے نسیمِ چمن کہہ رہا ہوں میں لیکن
کہیں نسیمِ چمن مُڑ کے دیکھتی بھی ہے
………
کیا لکھ رہے ہیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر
میں نے دیا جواب ، غزل کہہ رہا ہوں میں
گیسو بدوش محوِ تماشائے آئینہ
اس کی نگاہ روزنِ دیوار نہیں
آج ہم نئی غزل کے عہدِ شباب میں غالباً اس نئے پن، نادرہ کاری اور غیرروایتی آہنگ کو اتنا محسوس نہ کر سکیں جتنا کہ آج سے نصف صدی پیشتر کے نقادوں نے شادؔ کی غزلوں میں محسوس کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یگانہؔ اور فراقؔ سے زیادہ شادؔ عارفی کو نئی غزل کے بنیاد کاروں میںشمار کیا جاتا ہے۔اس دور میں شادؔ کی عشقیہ نظمیں ’’سماج‘‘، ’’ ایک تصویر‘‘ ’’ فسانۂ نا تمام‘‘، ’’بسنت‘‘ ، پھول کی پتی سے‘‘، ’’ وفائے وعدہ‘‘، ’’دسہرہ اشنان‘‘ وغیرہ بھی بے حد مقبول ہوئی تھیں۔ شادؔ عارفی کی رنگیں نوائی کے بارے میں ڈاکٹر معصوم رضا راہیؔ نے سچ کہا ہے:
’’ شادؔ کی عشقیہ شاعری کا پلڑا زمین کی طرف جھکتا ہے۔ غالباً ایسی ہندوستانی فضا اور گھریلو محبت، حسرتؔ کی غزل اور فراقؔ کی رباعی کے علاوہ اُردو شاعری میں صرف شادؔ کی عشقیہ نظم و غزل ہی پیش کر سکی ہے ۔ ان کی محبت کے یہ گیت اتنے مقدس اور گھریلو ہیں کہ حسرت موہانی کے علاوہ کوئی اور شاعر عشق کی اس سادگی اور پاکیزگی کی منزل پر نظر نہیں آتا۔‘‘
ہمارے عظیم اور قابلِ ذکر شاعروں میں میرؔ، فانیؔ اور یگانہؔ کی تنگدستی اور پریشاں حالی کے تذکرے عام ہیں لیکن شادؔ عارفی کے حالاتِ زندگی ان سب سے زیادہ تلخ ہیں۔ کچھ ابتدائی برسوں کو چھوڑ کر انھوں نے تمام عمر انتہائی مفلسی، بے روزگاری اور پریشانی میں بسر کی۔ چالیس برس کی عمر میں شادی کی تو اہلیہ ڈیڑھ برس میں ہی انتقال کر گئیں۔ اعزّا و اقارب نے انھیں فریب دیے اور صحت بھی جواب دے گئی۔ طُرّہ یہ کہ طبعاً بیحد غیور اور خود دار تھے اس لیے کسی کی مدد قبول کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے ان سب باتوں کے زیر اثر ان کا مزاجِ شعر ، طنز کی طرف مائل ہو گیا اور انھوں نے زمانے کی نا انصافیوں اور خام کاریوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے اپنے قلم کو تلوار بنالیا:
میں دنیا پر طنز کروں گا
دنیا میرے کیوں در پے ہو
اور
اس نے جب سو تیر چلائے
میں نے ایک غزل چپکا دی
علامہ نیازؔ فتح پوری نے ان کی بابت لکھا ہے۔
’’ شادؔ عارفی زمانۂ حال کے شاعروں میں ایک خاص رنگ کے نقّاد و طنز نگار ہیں جن کی غزلیں اور نظمیں جارحانہ انتقاد سے تعلق رکھتی ہیں ، ان میں کہیں کہیں مزاحی رنگ بھی آجاتا ہے۔ اس رنگ کی شاعری میں ایک خاص لب و لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں قطعیت بہت زیادہ ہو۔ اس کوشش میں بہت سے حضرات آرٹ سے ہٹ کر خشک واعظ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن شادؔ عارفی شاعرانہ زہر خند تبسمِ زیرِ لب کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘
حق تو یہ ہے کہ اردو شاعری میں خالص طنز کی روایت جو انگریزی کے زیر اثر اور مزاح کے غلبے کی وجہ سے ادب میں دوسرے درجے کی چیز بن گئی تھی، شادؔ عارفی کی تخلیقات میںدوبارہ زندہ ہو گئی اور اس رنگ میں شادؔ عارفی نے وہ خاص طرز اختیار کی جس کے موجد بھی وہی تھے اور خاتم بھی وہی ٹھہرے ، ملاحظہ ہوں یہ اشعار:
آشیاں پھول نہیں تھے کہ خزاں لے اڑتی
آپ اس بحث میں جانے کی اجازت دیں گے
………
مگر یہاں تو جل رہا ہے آدمی سے آدمی
سُنا یہ تھا چراغ سے چراغ جلتے آئے ہیں
………
دل میں لہو کہاں تھا کہ اک تیر آلگا
فاقے سے تھا غریب کہ مہمان آگیا
………
اُسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
اسے اللہ بہتر جانتا ہے
………
کہنے والوں نے کہا ظلِ الٰہی جن کو
ہم انھیں سایۂ دیوار نہیں کہہ سکتے
………
لاکھوں ہیں ہم سب بے چارے
اے شہزادو! تم سب کے ہو
………
جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی
چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا
………
کاروبارِ قفس اب یہاں آ گیا
وہ فلاں چل بسا، وہ فلاں آگیا
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
………
کہیں رہ نہ جائے مشینوں کی دنیا
کہیں آدمی آ نہ جائے کمی میں
………
ناجائز پیسے کی اُجلی تعمیروں کے ماتھے پر
آپ نے لکھا دیکھا ہوگا یہ سب فضلِ باری ہے
………
جہاں تک ہماری غزل جائے گی
تعزّل کے معنیٰ بدل جائے گی
بلا شبہ شاد عارفی نے تغزل کے معنی تبدیل کر دیے ، غزل میں ایسی کاٹ پیدا کر دی، اس میں وہ معنویت اور مقصدیت شامل کی جس نے اُسے زمانۂ حال کی چیز بنا دیا اور اپنے معاشرے کی تمام خامیوں پر نشتر زنی کرنا سکھا دیا۔
نقدِ ماحول کہ فن ہے میرا
ہر طرف رُوئے سخن ہے میرا
بقول حفیطؔ جالندھری:
’’شادؔ عارفی اپنے ارد گرد کے سیاسی اور ادبی دور سے مکمل با خبر ہی نہیں بلکہ مجاہدانہ اور سخت گیر انہ طریق پر اُس پُرآشوبی کے نقّاد صادق ہیں۔ شادؔ نے اپنے دَور کے حالات سے جو احساسات اخذ کیے ان کا اظہار مثبت اور واضح طور پر نُدرتِ ادا کے ساتھ کیا ہے۔‘‘
شادؔ نے طویل و مختصر سو طنزیہ نظمیں بھی کہی ہیں جن میں اپنے عہد کی برائیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سماج کی دُکھتی رگوں پر نشتر چلائے گئے ہیں۔ یہ نظمیں ایسی نئی نئی اور دلچسپ ہیئتوں میں ہیں کہ شادؔ عارفی کی فنکاری پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ ان کی نظم نگاری پر اظہار خیال کرتے ہوئے خلیل الرحمن اعظمی رقمطراز ہیں:
’’ شادؔ عارفی نے اپنے نظموں میں بیانیہ پیرایہ اختیار کرنے کے بجائے ڈرامائی، مکالماتی اور تمثیلی انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے یہ کمال کیا ہے کہ ایک ہی مصرع کے اندر دو دو اور تین تین کرداروں کے مکالمے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔ ٹی ایس ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے۔ ان تینوں آوازوں کا ایک ہی نظم میں اجتماع بہت ہی مشکل کام ہے۔ شادؔ نے اُردو نظم میں یہ کام بھی کر دکھایا ہے۔‘‘
ان کی نظموں میں ’’ شوفر‘‘ ، ’’ پرانا قلعہ‘‘ ’’ ان اونچے اونچے محلوں میں‘‘ ، ’’رنگیلے راجا کی موت‘‘، ’’ نمائش ‘‘ ، ’’ ان سے ملیے‘‘ ’’ ٹکڑ گدے ‘‘ اور ’’ ابھی جبلپور جل رہا ہے‘‘ وغیرہ اُردو نظم کے سخت سے سخت انتخاب میں جگہ پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پروفیسر احتشام حسین نے لکھا ہے:
’’ مجھے ذاتی طور پر شادؔ عارفی کی شاعری نے متاثر کیا۔ وہ جو تھے وہی ان کی شاعری ہے، زندگی نے انھیں جو دیا وہ اُن کے کلام میں کبھی غصّہ بن کر ، کبھی طنز اور زہر خند بن کر اور کبھی دکھے دل کی پُکار بن کر محفوظ ہو گیا۔‘‘
اپنی عشقیہ اور طنزیہ غزل نیز منظریہ عاشقانہ اور طنزیہ نظموں میں شادؔ عارفی نے جس مجتہدانہ شان کے ساتھ زبان کا تخلیقی استعمال کیا ہے جس طرح عام بول چال کے غریب اور ٹاٹ باہر الفاظ کو اپنے جادو نگار قلم کے لمس سے ادبی شان عطا کر دی ہے اس کی مثال اُردو شاعری میں نایاب ہے اور یہ صفت انھیں سچے معنوں میں ایک عوامی شاعر بناتی ہے۔پروفیسر آل احمد سرورؔ نے غلط نہیں کہا:
’’ جو لوگ شاعری کی زبان اور بول چال کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، انھیں شادؔ کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شادؔ نے بول چال کی زبان کی طاقت اور شعریت کو جس طرح اجاگر کیا اور جس طرح بقول ایذرا پاؤنڈ ، حقیقی نفسیات کو زبان دی ہے اُسے جدید اُردو شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘
کچھ اپنے کھرے مزاج کی وجہ سے اور کچھ اپنی شاعری کے بالکل ہی نئے رنگ کی وجہ سے اردو تنقید نے ان کی زندگی میں اس عظیم فنکار کو وہ اہمیت نہ دی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے لیکن ان کی وفات کے تین سال کے اندر ہی ایک مجموعہ مضامین ’’ ایک تھا شاعر‘‘ منظرِ عام پر آیا جس میں ہر اہم تخلیق کار اور ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نقادوں نے شادؔ عارفی پر مضامین لکھ کر ان کی اہمیت اور عظمت کااعتراف کیا۔ اس کے چند برس بعد ہی ان کی شخصیت اور فن پر ایک تحقیقی مقالہ بھی شائع ہو گیا۔ اسی طرح ان کی حیات میں انجمن ترقی اردو کے ایک مختصر سے انتخاب کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا شعری مجموعہ تک نہیں شائع ہو سکا تھا لیکن انتقال کے بعد مرحوم کا تمام کلام ’’ شادؔ عارفی کی غزلیں‘‘، ’’ سفینہ چاہیے‘‘، ’’ اندھیر نگری‘‘، ’’ شوخیِ تحریر‘‘ ’’دکھتی رگیں‘‘، ’’ کلیاتِ شادؔ عارفی‘‘ میں محفوظ ہو گیا ہے۔ ان کے مکاتیب اور مضامین ’’ ایک تھا شاعر‘‘، ’’ نثر و غزلدستہ شاد عارفی‘‘ اور ’’ شادؔ عارفی ایک مطالعہ‘‘ میں شائع کیے گئے ہیں۔
شادؔ عارفی کی نثر بھی ان کی شاعری کی مانند انفرادی رنگ و آہنگ اور مخصوص لہجہ رکھتی ہے۔مختلف لوگوں کے نام ان کے خطوط اور ادبی موضوعات پر ان کے مضامین سے کچھ مختصر مختصر اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جو بر جستگی اور کاٹ میں شعروں کی طرح پُر تاثیرا اور پُر کیف ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ کوئی بھی ادب کھجور یا ناریل کا درخت نہیں ہوتا کہ اس سے شاخیں نہ پھوٹیں۔‘‘
’’ جوش ملیح آبادی کی آج کل کی شاعری پر اتنا تبصرہ کافی ہوگا کہ وہ اپنے قطعات میں لغت کمپوز کررہے ہیں۔‘‘
’’ میرے نزدیک اچھے شعر کی تعریف اس میں نہیں کہ وہ صحیح ہو۔ اپنے معنی پر دلالت کرتا ہو بلکہ میں کسی بھی شعر میں سب سے پہلے تخیل کی انفرادیت اور پھر ندرتِ ادا پر نظر ڈالتا ہوں۔‘‘
’’ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، کے معنی یہ سمجھائے جاتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کو ان کی غلطی پر ٹوکنا غلطی ہے حالانکہ وہاں گرفتن کے معنی ہیں تقلید۔ مطلب یہ کہ بزرگوں کی غلطیوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘
’’ بلا مبالغہ ہر روز پچاس ساٹھ نادر تخیلات ذہن میں آتے ہیں لیکن مشکل سے پانچ چھ فنی گرفت میں آتے ہیں، باقی کو ترک کر دینا پڑتا ہے اور صرف اس لیے کہ ان کو ادا کرنے کے لیے موزوں الفاظ دستیاب نہیں ہوتے۔‘‘
’’ جلی ہوئی رسّی کے بل اور گھڑے کی چکناہٹ میں دنیا کو کیا پسند ہے ۔ آپ جانتے ہیں اور مجھے کیا پسند ہے ، دنیا جانتی ہے۔‘‘
’’سب سے اچھی کتاب وہ ہے جس میں بیان کی ہوئی باتیں کسی دوسری کتاب میں نہ پائی جائیں۔‘‘
’’ ڈومنی ڈومنی کے ہاں بغیر معاوضہ لیے ناچتی ہے۔ اس لیے میں شاعر ہو کر ایسے شاعر سے جو مدیر بھی ہو، ہزار مجبوریوں کے بعدبھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہاں اس حکومت سے التماس کر سکتا ہوں جس کے ہاتھ جھوٹا موتی سچے موتی پر مسکراتا ہے۔‘‘
’’ لوگ ادب نوازی کا ڈھونگ رچاتے ہیں مگر شاعر سے اپنے پیسے پیسے کے عوض قصیدہ چاہتے ہیں۔‘‘
’’ کس قدر مہمل بات ہے کہ عیسائی، یہودی ، سکھ، ہندو ہونے کی وجہ سے آپ اس کے یا وہ آپ کا دوست نہ بن سکے صرف اس لیے کہ آپ نماز پڑھتے ہیں وہ گنگا کو جاتا ہے یا واہ گرو خالصہ کا نعرہ لگاتا ہے۔‘‘
’’صرف لفظوں کو جمع کر دینے سے تکملۂ شعر تو ممکن ہے مگرتاثیر دینا ممکن نہیں۔ ‘‘
’’غزلوں میں اشعار کی ترتیب موڈ کے تحت ہونی چاہیے۔ مطلع سیاسی ہے تو پوری غزل سیاسی ہو، عاشقانہ ہے تو سب شعر عاشقانہ ہوں۔ ایک قافیہ دوسرے کو کاٹتا ہوا نہ ہو، نفی اور اثبات کا اجتماع ٹھیک نہیں۔‘‘
’’ میرا ایک مخصوص زاویۂ فکر ہے جو طنز و سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ندرتِ ادا میرے نزدیک شعر کی جان ہے۔‘‘
’’ ہمارے شعرا ایران و مصر پر اس طرح نظمیں لکھ رہے ہیں جیسے گھر پر سب خیریت ہے۔‘‘
بحیثیت مجموعی شادؔ عارفی کی اہمیت اور عظمت سے کسی بھی دبستانِ ادب کو انکار نہیں ہو سکتا۔ شمس الرحمن فاروقی کا یہ قول صد فیصد صداقت کا حامل ہے:
’’ شادؔ کی طنزیہ غزل ہی نے جدید غزل کی راہ ہموار کی۔۔ شادؔ عارفی بہر حال ایک عہد ساز شاعر تھے، ان کے بعد آنے والے ہر شاعر، بالخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔
٭٭٭