Ail Baap Bikao hai ka Tajaziyati Mutala

Articles

’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

عبدالرحمن فیصل

یہ افسانہ راجندر سنگھ بیدی کے آخری مجموعے ’مکتی بودھُ (۱۹۸۲ء) میں شامل ہے۔ افسانے میں چند واقعات اور کرداروں کے ذریعہ بیدی نے اپنے عہد کے شہری معاشرے کی تصویر کشی کی ہے، جب ساری دنیا میں رشتوں؍ کنبے کا تصور بکھر رہا تھا۔ سائنس کی ایجادات نے جہاں انسانی زندگی کو مادیت؍ مادی ترقی سے نوازا، وہیں مادیت پرستی نے انسانی رشتوں، معاشرے کی اخلاقیات و اقداری نظام کو بہت نقصان پہنچایا ۔ دولت کی خاطر بوڑھے والدین کے ساتھ نافرمانی کرنے والی اولادوں پر برملا طنز، افسانے کا موضوع ہے۔ والدین کو تنہا چھوڑ دینے پر بوڑھاپے میں وہ کس کرب سے دوچار ہوتے ہیں، بیدی نے اس کی بہترین عکاسی کی ہے۔
افسانے کی ابتدا ایک اخباری اشتہار سے ہوتی ہے، جسے خریدوفروخت کے کالم میں شائع کیا گیا تھا۔ ہمہ داں راوی کی زبانی یہ اپنی نوعیت کا پہلا اشتہار تھا۔ اس لیے کہ خریدوفرخت کے کالم میں اشیاء کا اشتہار دیا جاتا ہے اور یہ اشتہار ایک ذی روح؍ انسان کے متعلق تھا، اشتہار کا عنوان تھا ’’بکاؤ ہے ایک باپ‘ عمر اکتہر سال، بدن اکہرا، رنگ گندمی، دمے کا مریض۔‘‘ اس اشتہارکے ہی پہلے ٹکڑے کو ذرا سے فرق کے ساتھ بیدی نے اپنے افسانے کا عنوان بھی دیا ہے، ’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ ۔ افسانے کو یہ عنوان دے کر ہی بیدی نے اس معاشرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اشتہار شائع ہوتے ہی معاشرے میں طرح طرح کی باتیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ بیدی نے بڑی فن کاری کے ساتھ اشتہار پر ہونے والی گفتگو کے ذریعہ بھی لوگوں کے ذہنی نفسیات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کوئی بات تو ہوگی؟!
ہوسکتا ہے، پیسے جائیداد والا…
بکواس۔ ایسے میں بکاؤ لکھتا؟
مشکل سے اپنے باپ سے خلاصی ہے۔ باپ کیا تھا چنگیز ہلاکو تھا سالا۔
تم نے پڑھا، مسز گوسوامی؟
دھت- ہم بچے پالیں گی، سدھا، کہ باپ؟ ایک اپنے ہی وہ کم نہیں گو- سوامی ہے!
ہی… ہی ہی۔
باپ بھی حرامی ہوتے ہیں…‘‘ (ص : ۸۵۵-۸۵۶)
افسانہ اشتہار پر آئے خطوط کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ عوام کی گفتگو کی طرح ان خطوط کے ذریعے بھی بیدی نے لوگوں کے نفسیات کی عکاسی کی ہے کہ کس قدر لوگ خود غرض اور لالچی ہوگئے ہیں۔ کسی نے یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر اکہتر سال کی عمر میں ایک باپ نے ایسا اشتہار کیوں دیا۔ کیا اس کی اولاد اس لائق نہیں کہ اسے اپنے پاس رکھ سکے یا کہیں یہ اشتہار اس کی اولادوں نے ہی نہیں دیا۔
اس کے علاوہ لوگوں میںاشتہار کے متعلق خوب دلچسپی بڑھ رہی تھی۔ عوام کا یہ رویہ دیکھ کر اشتہار چھاپنے والوں نے جنرل منیجر سے اشتہاروں کے نرخ بڑھانے کی تجویز پیش کی۔
’’مگر نوجوان بڈھے یا بڈھے نوجوان منیجر نے تجویز کو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہا۔ Shucks۔ ایک پاپولر اشتہار کی وجہ سے نرخ کیسے بڑھادیں؟… اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ‘‘ (ص : ۸۵۶)
مذکورہ اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل منیجر لوگوں کے اس رویہ پر خفگی کا اظہار کرتا ہے۔ بیدی نے یہاں بڑی فن کاری کے ساتھ ان دو لفظوں ’’بڈھے نوجوان یا نوجوان بڈھے‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ یعنی منیجر بوڑھے باپ کے درد کو محسوس کررہا تھا اور خود کو ایسا اشتہار دینے کے لیے قصور وار ٹھہرا رہا تھا۔
اس کے بعد ہمہ داں راوی کے بیان کے ذریعہ بکاؤ باپ کا کردار سامنے آتا ہے، جس کا نام گاندھروداس ہے۔ وہ کسی زمانے میں ایک مشہور موسیقار تھا۔ اس کی بیوی جو برسوں پہلے مرچکی تھی، دونوں کی کبھی نہیں نبھتی، کیوں کہ وہ گاندھروداس کی موسیقی کو ناپسند کرتی تھی۔ دونوں کے درمیان جنسی تعلقات نہ ہونے کے باوجود بھی دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
گاندھروداس کی تین اولادیں تھیں، دو بیٹھے اور ایک بیٹی۔ بڑا لڑکا ایک نامی پلے بیک سنگر تھا۔ چھوٹا بیٹا پریس میں نوکری کرتا اور اپنی اطالوی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا پھرتا۔
گاندھروداس چوں کہ ایک کلاسیکی موسیقار تھا اس لیے پلے بیک موسیقی کے آنے سے اس کا کام ٹھنڈا پڑگیا۔ تو اس نے اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا جو اس وقت تک اس کے ساتھ ہی تھا کہ ہم رکارڈوں کی ایجنسی لے لیتے ہیں تو اس نے صاف انکار کردیا۔
’’گاندھرو نے کہا- چلو، ایچ ایم وی کے رکارڈوں کی ایجنسی لیتے ہیں۔ چھوٹے نے جواب دیا۔ ہاں، مگر آپ کے ساتھ میرا کیا مستقبل ہے؟ گاندھرو داس کو دھچکا سا لگا۔ وہ بیٹے کا مستقبل کیا بتاسکتا تھا؟ کوئی کسی کا مستقبل کیا بتاسکتا ہے؟ گاندھرو کا مطلب تھا کہ میں کھاتا ہوں تو تم بھی کھاؤ۔ میں بھوکا مرتا ہوں تو تم بھی مرو۔ تم جوان ہو، تم میں حالات سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہے۔ اس کے جواب کے بعد گاندھرو داس ہمیشہ کے لیے چپ ہوگیا۔‘‘ (ص : ۸۵۷-۸۵۸)
گاندھرو داس کے بیٹے اس وقت تک ساتھ تھے جب تک اس کے پاس دولت تھی لیکن جیسے ہی اس کے پاس دولت نہیں رہی، دونوں بیٹوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔
مذکورہ اقتباس میں چھوٹے بیٹے کے منع کردینے پر گاندھرو داس کے جذبات بالکل متزلزل ہوگئے۔ افسانہ نگار نے گاندھرو داس کے غصے اور درد کی کیفیت کی بہترین عکاسی کی ہے۔لیکن بیدی اگر یہ اقتباس راوی سے بیان کرانے کے بجائے خود کردار کے داخلی نفسیات کے ذریعے دکھاتے تو بیانیہ اور زیادہ موثر ہوتا۔
راوی بیان کرتا ہے کہ تینوں بہن بھائی جب اکٹھا ہوتے تو اپنے باپ کو رنڈوا نہیں، مرد بدھوا کہتے اور اپنی اس اختراع پر قہقہہ لگاتے۔ اولاد کے ذریعے اپنے والد کے لیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال ان کی بدتمیزی اور نافرمانی پر دال ہے کہ والدین جو اولاد کی پرورش کرتے ہیں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لائق بناتے ہیں اور جب وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو صرف دولت کی خاطر اولاد ان کا مذاق اڑاتی ہے۔
اس کے بعد افسانے میں بیدی ایک سوال قائم کرتے ہیں کہ ایسا کیوں؟ کہ بچے اپنے والد کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں چاترک کے کردار کے ذریعے راوی اس سوال کی تاویلیں پیش کرتا ہے کہ ضرور گاندھروداس میں ہی کوئی خرابی ہوگی۔ لیکن راوی کا یہ بیان ملاحظہ ہو:
’’ہندسوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے کہیں چاترک کے الہام اور الفاظ کے درمیان فساد پیدا ہوگیا تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ ہندوستان تو کیا، دنیا بھر میں کنبے کا تصور ٹوٹتا جارہا تھا۔ بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہوکر رہ گئی ہے۔ اس لیے سب بڈھے کسی ہائیڈ پارک میں بیٹھے، امتداد زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے، ہر آنے جانے والے کو شکار کرتے ہیں، کہ شاید ان سے کوئی بات کرے۔ وہ یہودی ہیں، جنھیں کوئی ہٹلر ایک ایک کرکے گیس چیمبر میں دھکیلتا جارہا ہے، مگر دھکیلنے سے پہلے زنبور کے ساتھ اس کے دانت نکال لیتا ہے، جن پر سونا مڑھا ہے اگر کوئی بچ گیا ہے تو کوئی بھانجا بھتیجا اتفاقیہ طور پر اس بڈھے کودیکھنے کے لیے اس کے مخروطی ایٹک میں پہنچ جاتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ وہ تو مرا پڑا ہے اور اس کی فلزاتی آنکھیں اب بھی دروازے پر لگی ہیں۔ نیچے کی منزل والے بہ دستور اپنا اخبار بیچنے کا کاروبار کررہے ہیں، کیوں کہ دنیا میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر آکر تصدیق کرتا ہے کہ بڈے کو مرے ہوئے پندرہ دن ہوگئے۔ صرف سردی کی وجہ سے لاش گلی سڑی نہیں۔ پھر وہ بھانجا یا بھتیجا کمیٹی کو خبر کرکے منظر سے ٹل جاتا ہے، مبادا آخری رسوم کے اخراجات اسے دینے پڑیں۔‘‘ (ص : ۸۵۸)
اس بیان کے ذریعے بیدی نے اس عہد میں پیدا ہونے والے انتشار، رشتوں کے بکھراؤ اور اخلاقی زوال کو پیش نظر رکھ کر پورے معاشرے کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ بیدی نے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلی خود غرضی، بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی اور بزرگوں کے کرب کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بزرگوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی وجہ صرف مادی خود غرضی تھی جو شاید اس صنعتی دو رکی ہی پیداوار تھی۔
ہمہ داں راوی اس کہانی کو دوبارہ اسی اشتہار کے جواب میں آئے خطوط سے جوڑ دیتا ہے اور قاری پر گاندھروداس کے متعلق ایک نئی بات کا انکشاف کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اشتہار کے سلسلے میں آنے والے کچھ لوگ اس لیے بدک گئے کہ گاندھروداس پر پچپن ہزار کا قرض بھی تھا، جو بات اس نے اشتہار میں نہیں لکھی تھی اور غالباً اس کی عیاری کا ثبوت تھی۔ اس پر طرفہ ایک نوجوان لڑکی سے آشنائی بھی تھی جو عمر میں اس کی اپنی بیٹی رُما سے چھوٹی تھی۔ وہ لڑکی، دیویانی گانہ سیکھنا چاہتی تھی جو گوروجی نے دن رات ایک کرکے اسے سکھادیا او رسنگیت کی دنیا کے شکھر پر پہنچادیا۔ لیکن ان کی عمروں کے بُعد کے باوجود ان کے تعلقات میں جو ہیجانی کیفیت تھی، اسے دوسرے تو ایک طرف، خود وہ بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔‘‘ (ص : ۸۵۹)
افسانہ نگار گاندھروداس کے کردار کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں جتاتا ہے اور نہ طرف داری کرتا ہے۔ بلکہ دیانت داری کے ساتھ جہاں وہ اس کے درد کا بیان کرتا ہے، اسی جگہ اس کی عیاریوں؍ خرابیوں کا بھی بیان کرتا ہے۔
مذکورہ اقتباس میں راوی اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ گاندھروداس ایک عیب دار شخص ہے اس لیے کہ اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے اس کی آشنائی تھی لیکن اقتباس کا آخری جملہ ’’ان کی عمر کے بعد کے باوجود… اسے دوسرے تو ایک طرف، خود وہ بھی نہ سمجھ سکے تھے۔‘‘ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ گاندھروداس کا دیویانی کے ساتھ تعلقات، صرف جنسی خواہش کی وجہ سے نہیں تھا۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے افسانے کا یہ اقتباس دیکھیں۔
’’کیا دیویانی اب بھی بابوجی کے پاس آتی ہے؟‘‘
ہاں۔
مسز دُروے کچھ نہیں کہتیں؟
پہلے کہتی تھیں۔ اب وہ ان کی پوجا کرتی ہیں۔ بابوجی در اصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں، فلپ… معلوم ہوتا ہے انھوں نے کہیں پر کرتی کے چِتوَن دیکھ لیے ہیں، جن کے جواب میں وہ مسکراتے تو ہیں، لیکن کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی ماردیتے ہیں…
دُروے کہتا گیا-بابوجی کو شبد- بیٹی، بہو، بھابی، چاچی، للّی، میّا بہت اچھے لگتے ہیں ، وہ بہو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کے گال بھی چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پالیتے ہیں اور آزادی میں قید۔
دیویانی؟
دُروے نے حقارت سے کہا…… سنگیت شاید آڑتھی دیویانی کے لیے…
بابوجی نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکی بچپن ہی میں آوارہ ہوگئی۔ اس نے اپنے ماں باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا، جب کہ وہ نوخیزی سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ پر وہ ہمیشہ کے لیے آپ ہی اپنی ماں ہوگئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبراکر ایک مرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے کے پا س جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، مگر روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔
کیا مطلب؟
دیویانی کو در اصل باپ ہی کی تلاش تھی۔‘‘ (ص : ۸۶۴-۸۶۵)
یہاں پر بیدی جنس کے مسئلے پر ایک فلسفی کی طرح نظر ڈالتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’تم سیکس کو اتنی ہی اہمیت دو فلپ، جتنی کاکہ وہ مستحق ہے۔ تیتر بٹیر بنے بغیر اسے حواس پہ مت چھانے دو… (ص : ۸۶۵)
افسانے میں دُروے کا کردار وہ شخص ہے، جو گاندھروداس کو خرید کر لایا تھا۔ دُروے اسے باپ کی طرح عزت دیتا اور اس کی خدمت کرتا ہے۔ اپنے ملازموں کے پوچھے جانے پر کہ وہ گاندھروداس کو کیوں خرید لایا تو دُروے کہتا ہے:
’’تم نے ان کی آنکھیں دیکھی ہیں۔
جی نہیں۔
جاؤ، دیکھو، ان کی روتی ہنستی آنکھوں میں کیا ہے۔ ان میں سے کیسے کیسے سندیس نکل کر کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟‘‘ (ص : ۸۶۱)
دُروے کے اس مختصر بیان کے بطن سے معنی کی وہ سطحیں نمو کرتی ہیں، جس سے گاندھروداس ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے بوڑھے والدین جن کی نافرمان اولادیں ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں، کے کرب، مایوسی اور ذات کے انتشار کا ادارک، قاری کے حواس پر ہونے لگتا ہے۔
ملازم جمنا داس اور دُروے کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر گھر میں ایک بزرگ کا ہونا ضروری ہے اور انسانی زندگی میں بزرگوں کی کیا اہمیت ہے جیسا کہ دُروے کہتا ہے کہ جہاں بھی میں جاتا ہوں لوگ میرے سامنے سر جھکاتے ہیں لیکن جمناداس کہیں میں بھی اپنا سر جھکانا چاہتا ہوں۔ افسانہ نگار کا یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ دولت ہی انسانی زندگی میں سب کچھ نہیں ہے بلکہ والدین کی محبت، شفقت اور ان کا سایہ اولاد کے لیے روحانی نعمت ہے، جن کے بغیر انسانی زندگی کھوکھلی ہے۔
’’اگر انسان کے زندہ رہنے کے لیے پھل پھول اور پیڑ پودے ضروری ہیں، جنگل کے جانور ضروری ہیں، بچے ضروری ہیں تو بوڑھے بھی ضروری ہیں۔ ورنہ ہمارا ایکولاجکل بیلنس تباہ ہوکر رہ جائے۔ اگر جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر بے وزن ہوکر انسانی نسل ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے۔‘‘ (ص : ۸۶۲)
دُروے اشوک کے پیڑ سے ایک پتہ توڑ کر جمناداس کو دے کر کہتا ہے:
’’اپنی پوری سائنس سے کہو کہ یہ تازگی، یہ شگفتگی، یہ شادابی اور یہ رنگ پیداکرکے دکھائے… …‘‘ (ص : ۸۶۲)
افسانہ نگار یہ بتانا چاہتا ہے کہ باپ ایک درخت کی مانند ہے اور اولاد اس اشوک کے پتے کی طرح جو درخت سے جدا ہونے کے بعد اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔
افسانے کے اخیر میں بیدی نے یہ وضاحت کی ہے کہ والدین سے بڑھ کر دولت دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور افسانے کے اختتامیہ کا آخری جملہ جو بڑی فن کاری کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے افسانہ ایک مخصوص زمان و مکان کے حدود سے آزاد ہوکر آفاقی حیثیت کا حامل ہوجاتا ہے اور پوری انسانیت کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ:
’’تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو، صرف محسوس کرو اسے۔‘‘ (ص : ۸۶۵)

٭٭٭
حواشی : ’’کلیات بیدی‘‘ از مرتب وارث علوی، ص-۸۵۴-۸۶۵


مضمون نگار شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں