Bayania Tareef o Tabeer by Dr. Abdur Rahman Faisal

Articles

بیانیہ - تعریف وتعبیر

ڈاکٹر عبدالرحمن فیصل

 

اردو میںNarrativeکاترجمہ ’بیانیہ‘اورNarratologyکا’بیانیات‘کیاجاتاہے۔ جدید تنقیدمیں نقدِبیانیہ اوراس کے نظریاتی مباحث کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔ اس نے باقاعدہ ایک شعبہ علم’بیانیات‘(Narratology)کی شکل اختیار کرلی ہے۔
’بیانیات‘مطالعۂ متن کاایک شعبہ (Discipline) ہے ۔جس میں بیانیہ کی ساخت(Narrative structure) کامطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ تھیوری صرف نظریاتی مباحث کامجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اطلاقی اہمیت وافادیت بھی مسلم کرتی ہے۔ یہ بیانیہ کے مختلف ترکیبی عناصرکی تعریف متعین کرتی ہے اوران اسباب پربھی غورکرتی ہے جن کے ذریعے بیانیہ متن معرضِ وجودمیں آتاہے۔ علم بیانیات کے ذریعے ایسے مخصوص ،بیانیہ اصول بھی مرتب کیے جاسکتے ہیں جوبیانیہ کی امتیازی خصوصیات کاتعین کرنے کے علاوہ اس کی مختلف سطحوں کی علاحدہ علاحدہ شناخت قائم کرنے میں معاون ہوں۔ غرض یہ کہ علم ’’بیانیات‘‘میں بیانیہ کی تھیوری ،اقسام، اوصاف اوراس کی اہمیت وافادیت کامطالعہ کیاجاتاہے۔
اردوادب میں اس موضوع پراب تک بہت کم لکھاگیاہے۔ لیکن مغرب میں بیانیہ کی تھیوری ،اس کے اوصاف ، اہمیت وافادیت پربہت کچھ لکھاجاچکاہے ۔Encyclopedia of literary Critics & Criticism میں بیانیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے :
“What are Narrative. Is a sequence of events connected by Causality and probability”. (1)
(ترجمہ:بیانیہ کیا ہے ؟یہ واقعات کا ایسا تسلسل ہے جو ممکنات اور سبب ونتیجے کی منطق سے مربوط ہوتا ہے۔)
Gerald Priceلکھتے ہیں:
“Narrative has been minimally defined as the Representation of at least one event one change in a state of affairs. In narrative discourse revisited, for example Gerard Genette wrote: the idea of minimal Narrative presents a problem of definition that is not slight [….] for me, as soon as there is an action or an envent, even a single one, there is story because there is a transformation, a transition from an earlier to a later and resultant state. (1983:18f).” (2)
(ترجمہ: کم سے کم الفاظ میں بیانیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ بیانیہ کم سے کم ایک واقعے یا ایک صورت حال میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیانیہ کلامNarrative) discourse )کی نظر ثانی میں، مثلاـ ژراژنت نے جو لکھا ہے کہ کم سے کم بیانیہ(minimal narrative) کا تصور بیانیہ کی تعریف کے مسائل کو پیش کرتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک جیسا میں نے کہا کہ صرف ایک عمل یا ایک واقعہ ہو تو وہ قصہ ہے کیوں کہ ایسی صورت میں ماقبل سے بعد کی طرف کوئی نہ کوئی نتیجہ خیز تقلیب ہوتی ہے۔)
Jerame Brunerبیانیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” A Narrative is an account of events occuring over time it is irreducibly durative.” (3)
(ترجمہ: بانیہ واقعات کا وہ بیان ہے جو ایک وقت مقررہ میں واقع ہوتا ہے اور اس کا کردارلازماً زمانی ہوتا ہے۔ )
Paul Cobleyاپنی کتاب Narrative the new Critical Idomمیں لکھتے ہیں:
” Story Consists of all the events which are to be depicted, Plot is the chain of causation which dictates that these events are some how and that they are there fore to be depicted in relation to each other… Narrative is the showing or the telling of these events and the mode selected for that to take place…Narrative is a sequence that is narrated.” (4)
(ترجمہ: کہانی ان تمام واقعات سے تعمیر ہوتی ،جسے بیان کیا جانا ہے۔پلاٹ اسباب کی وہ زنجیر ہوتا ہے جو یہ متعین کرتا ہے کہ یہ واقعات ایک دوسرے کی مطابقت میں بیان کیے جانے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بیانیہ ان واقعات کو بیان کرتا یا دکھاتا ہے اور یہ بھی طئے کرتا ہے کہ انہیں کس طرز پر بیان کیا جائیگا۔)
زرارژینت(Gerard Genette) بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگرہم خودکوصرف ادبی اظہار کی عمل داری تک محدود رکھیں توہم کسی دقت کے بغیر بیانیہ کی تعریف کرسکتے ہیں:
’’یہ زبان کے ذریعے اوربہ طورخاص تحریری زبان کے ذریعے ،حقیقی یا افسانوی واقعہ یاواقعات کے تسلسل کی نمائندگی ہے۔‘‘(۵)
بیانیہ کی تھیوری کے مضمرات اوراس کے امکانات کوپوری وضاحت کے ساتھ پیش کرنے والے ناقدین میں ایک قابل قدرنام ڈچ خاتون Mieke Balکا ہے۔ انھوںنے اپنی تصنیف “Narratology: An Introduction to the theory of Narrativeمیں بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
” A narrative text is a text in which a narrative agent tells a story.” (6)
(ترجمہ: ایک بیانیہ متن،وہ متن ہے جس میں ایک راوی کہانی بیان کرتا ہے ۔)
بال نے بیانیہ متن کو موضوع بحث بناتے ہوئے بیانیہ کی یہ تعریف وضع کی ہے ۔ اس کا اطلاق بیانیہ کی ان تمام اصناف پر ہوسکتا ہے جن کا ذریعۂ اظہار لسانی نشانات یعنی الفاظ ہیں۔
اردومیں سب سے پہلے ممتاز شیریں نے بیانیہ کے متعلق اپنے مضمون ’’ناول اورافسانے میں تکنیک کاتنوعـ‘‘میں لکھا ہے :
’’بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے ۔ جویکے بعددیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں۔ ہم بیانیہ کوبقول عسکری کہانیہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔‘‘(۷)
مندرجہ بالااقتباس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ممتازشیریں کے نزدیک بیانیہ سے مراد وہ تحریر ہے کہ کوئی شخص واقعات کوترتیب دے کر کوئی افسانہ تشکیل دیتاہے۔ شمس الرحمن فاروقی ، ممتازشیریںکے اس اقتباس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ممتاز شیریں(یامحمد حسن عسکری اوران کی اتباع میں ممتاز شیریں) بیانیہ سے وہ چیزمرادلیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جسے روسی ہیئت پرست نقاد وں خاص کربورس آئخن بام(Boris Eixenbam)نے Syuzetیعنی قصہ مروی کا نام دیاتھا۔ قصہ مروی سے اس کی مرادتھی واقعات اوران کی وہ ترتیب، جس ترتیب سے وہ قاری تک پہنچتے ہیں۔ Syuzetیعنی قصہ مروی کے متقابل شئے کوآئخن بام نے fabulaیعنی قصہ مطلق کانام دیاتھا۔ قصہ مطلق سے اس کی مرادتھی وہ تمام ممکن واقعات جوکسی بیانیہ میں ہوسکتے تھے،لیکن جن میں سے چندکو منتخب کرکے بیانیہ مرتب کیاجائے۔‘‘ (۸)
فاروقی صاحب بیانیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’بیانیہ سے مراد ہروہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ (event)یاواقعات بیان کیے جائیں۔‘‘(۹)
پروفیسرقاضی افضال حسین نے اپنے مضمون’’واقعہ راوی اوربیانیہ‘‘میں بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
’واقعہ کابیان اصطلاحاً بیانیہ کہلاتاہے۔‘‘(۱۰)
مندرجہ بالاتمام تعریفوں سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ واقعہ یاواقعات کابیان ،کم سے کم ایک صورت حال کا تبدیل ہونا، واقعات کاترتیب واربیان ،جوسبب اورنتیجے کی منطق پرمبنی ہوبیانیہ کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔
بیانیہ کی ان تعریفوں میں ایک لفظ ’’واقعہ‘‘(event)قدرمشترک ہے۔ یایہ کہیں کہ بیانیہ کے وجود کے لیے واقعہ شرط ہے ۔ توسوال یہ ہے کہ واقعہ کیاہے؟یاکسے کہتے ہیں؟میکے بال لکھتی ہیں:
“Events have been defined in this study as ‘the transition from one state to another state, Caused or experienced by actor s ۱۱؎
(ترجمہ:اس مطالعہ میں واقعہ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ ایک صورت حال سے دوسری صورت حال میں تقلیب ہے جس سے کوئی کردار گزرتا ہے یا اس کا تجربہ کرتا ہے۔)
Shlomith Rimmankenanلکھتا ہے:
“An event may be defined without great rigaur as somthing that happens, something that can be summed up by a verb or a name of action.”۱۲؎
(ترجمہ: ایک واقعہ کی بغیرکسی دشواری کے یہ تعریف کی جا سکتی ہے کہ’’کچھ ہوا‘‘( یعنی جو ہوا) اسے ایک ’فعل‘ یا ’عمل کے اسم‘ میں مجملاً بیان کیا جا سکتا ہے۔ )
واقعہ کی تعریف کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیںکہ:
’’وہ بیان جس میں کسی قسم کی تبدیلی حال کاذکرہوeventیعنی واقعہ کہاجائے گا۔‘‘
مثلاً حسب ذیل بیانات میںواقعہ بیان ہواہے:
(الف):
(۱) اس نے دروازہ کھول دیا
(۲) دروازہ کھلتے ہی کتااندرآگیا۔
(۳) کتااس کوکاٹنے دوڑا۔
(۴) وہ کمرے کے باہر نکل گیا۔
ان کے برخلاف مندرجہ ذیل بیانات کوواقعہ یعنی eventنہیں کہہ سکتے ،کیونکہ ان میں کوئی تبدیل حال نہیں ہے:
(ب):
(۱) کتے بھونکتے ہیں
(۲) انسان کتوںسے ڈرتاہے۔
(۳) ہرکتے کے جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔
(۴) کتے کے نوک دار دانتوں کودندان کلبی کہاجاتاہے۔(۱۳)
پروفیسرقاضی افضال حسین واقعہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جس عمل (حرکت) میں صورت حال تبدیل ہوتی ہواسے واقعہ کہتے ہیںاور صورت حال سے مراد وہ زمانی تسلسل ہے جس میں مظہر /تنظیم/اشیاء ایک ہی شکل میں قائم رہتی ہیں۔ اس تسلسل یاٹھہرائو یاتنظیم میں کسی عمل کے سبب تبدیلی رونماہوتی ہے تواسے واقعہ کہتے ہیں۔‘‘(۱۴)
واقعہ کی اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لسانی نشانات کے بیان میں جب ایک صورت حال کسی عمل کے سبب زمانی ومنطقی طورسے دوسری صورت حال میں تبدیل ہوتی ہے توواقعہ وجودمیں آتاہے اورواقعے کے لسانی اظہار یاتنظیم کو بیانیہ کہتے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال ذہن میں آتاہے کہ صورت حال تبدیل ہونے سے پہلے کابیان کیاکہلائے گا۔ کیونکہ وہ بھی اسی بیانیہ متن کاحصہ ہے ۔ ایک مثال کے ذریعے اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔ایک افسانہ نگاردن یارات کے کسی حصے کا منظر بیان کرتاہے یاکسی کمرے یامکان کی تصویر کشی کرتاہے تویہ ایک صورت حال ہوگی اور جب کسی عمل کے نتیجے میں اس صورت حال میں تبدیلی ہوتی ہے تووہ واقعہ ہوگا۔ مثلاً ’’رات کاسناٹا جنگل کی طرح سائیں سائیں کررہا تھا ، کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز کے علاوہ کہیں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔میں بسترپر لیٹا چھت کو گھورے جارہا تھا۔‘‘یہ ایک صورت حال ہے ’’کہ اچانک ایک دل دہلادینے والی دھماکے کی آواز سنائی دی ۔میں ڈرسے بسترپر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ ایک واقعہ ہوا۔ اس بیان میں صورت حال بیان کرنے والے لسانی نشانات کے ساختیاتی مجموعے کو ’’وصف حال‘‘ (Description)اورواقعہ کے بیان کو بیانیہ (Narration)کہتے ہیں ۔یعنی ایک مکمل متن، بیانیہ اوروصف حال سے مل کر تعمیر ہوتاہے۔
زرار ژینت(Gerard Genette)لکھتا ہے:
’’ہربیان حقیتاً دوقسم کی نمائندگی سے مل کربنتاہے۔ جومختلف تناسب میں ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوتے ہیںایک طرف عمل اورواقعات کی نمائندگی ہے ۔جواپنے خالص مفہوم میں بیانیہ ہے اوردوسری طرف اشیاء وکرداروں کا بیان ہے جوروئیداد اور تفصیل کانتیجہ ہے۔۔۔۔روئیدادکاتصور بیانیہ کے بغیر کیا جاسکتا ہے ،لیکن حقیقت میں یہ کبھی آزاد حالت میں نہیں ملتا:بیانیہ ،روئیداد کے بغیرقائم نہیں ہوتالیکن روئیداد پراس کایہ انحصار، متن میں اس کے غالب کردارکو متاثر نہیں کرتا۔ روئیداد بالکل فطری طورپر بیانیہ کالاحقہ ہے جوہمیشہ فرماں بردار ،ہمیشہ بہت ضروری غلام ہوتاہے اورکبھی دعویِ خود مختاری نہیں کرتا۔‘‘(۱۵)
وصف حال Descriptionبیانیہ کاایک لازمی جزو ہے یعنی ایک مکمل بیان /متن بیانیہ اوروصف حال سے مل کر تعمیر ہوتاہے ۔
بیانیہ کاتعلق چونکہ واقعہ سے ہوتاہے اورواقعہ صورت حال کی تبدیلی سے عبارت ہے اس لیے اس میں افعال کوکلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وصف حال (Description)کاتعلق اشیاء، افراد یاکسی موقع کی تصویر سے ہوتاہے جس میں مرکزی حیثیت اسماء کوحاصل ہوتی ہے۔
اقتباس ملاحظہ ہو:
’’بیانیہ کاسروکار فعل یاواقعہ سے ہے جوخالص تسلسلِ عمل ہے اور اس سبب وہ بیان کے ڈرامائی اورزمانی کردار پر زور دیتاہے۔ دوسری طرف روئیداد یا صراحتی بیان چونکہ یہ اشیاٗ اورمعروض پران کے ہمہ وقتی وجودکے حوالے سے غور کرتاہے اورعمل کے تسلسل کوبھی ایک منظرتصور کرتاہے۔ وقت کومعطل کرتااور بیانیہ کوایک مخصوص مکانی عرصے میں پھیلاتا محسوس ہوتاہے۔ اس طرح کلام کی یہ دواقسام دومتضاد رویّوں کااظہار کرتی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘(۱۶)
مذکورہ اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ بیانیہ کا سروکار فعل یا واقعہ سے ہے یعنی واقعہ فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ فعل سے تعلق ہونے کے سبب واقعہ کی کچھ صفات بھی ہوں گی جیسا کہ مذکورہ اقتباس میں ذکر ہوا ہے کہ بیان کے ڈرامائی اور زمانی کردار پر زور دیتا ہے۔ ڈرامائی کردار پر زور دینے کے معنی یہ ہوئے کہ واقعہ حرکت سے عبارت ہوگا یعنی ایک صورت حال جب دوسری صورت حال میں تبدیل ہوگی تو اس عمل میں سبب اور نتیجے کا تعلق ہوگا۔ دوسرا، زمانی کردار کے معنی یہ ہیں کہ اس عمل /حرکت میں ایک زمانہ بھی شامل ہوگا۔ فعل سے عبارت ہونے کے سبب واقعہ کی ایک صفت یہ بھی ہوگی کہ اس عمل کا کوئی نہ کوئی کرنے والا بھی موجود ہوگا۔ یعنی واقعہ جسے پیش آئے گا، اصطلاحاً اسے کردار کہتے ہیں۔ اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ تمام شرائط واقعہ کے بنیادی وصف ہیں۔
بیانیہ کے لیے واقعہ کاہوناشرط ہے ۔واقعہ حقیقی بھی ہوسکتاہے۔ یعنی خارج میں اس کاوقوع ہواہواورواقعہ خیالی بھی ہوسکتاہے۔ یعنی خارج میں اس کاوقوع نہ ہوبلکہ خیال یاجذبے کی غیرمادی دنیامیں ہو۔قاضی افضال حسین لکھتے ہیں:
’’ان دونوں صورتوں میں واقعہ کی تعریف نہیں بدلتی ہے لیکن اس کے بیان کی صفات وامتیازات بدلتے جاتے ہیں۔ مثلاً واقعہ اگر خارج میں ہو جس کی صفت یہ ہے کہ حواس کے ذریعے اس کاادراک ممکن ہواس لیے نتیجتاً اس کی تصدیق ہوسکے تواس کابیان خبر، تاریخ، سوانح، سفرنامہ یا روزنامچہ وغیرہ کہاجائے گا۔ اوراگرواقعہ نہ تو خارج میں ہواورنہ ہی اس کی تصدیق ممکن ہواورنہ تصدیق ضروری ہو۔تو اس کا بیان داستان افسانہ نگار یافکشن کی دوسری شکلیں کہلائے گا۔‘‘(۱۷)
اس طرح واقعہ کی نوعیت کے اعتبارسے بیانیہ (تحریری بیانیہ)کودوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ اول غیرافسانوی بیانیہ اوردوسراافسانوی بیانیہ ۔ کوئی بھی بیان یامتن خود بخود وجودمیں نہیں آتابلکہ کوئی اسے بیان کرتایاترتیب دیتاہے ۔ واقعہ بیان کرنے والے کواصطلاحاً راوی کہتے ہیں یعنی ہرنوع کے بیانیے میں ایک بیان کرنے والا موجود ہوتا ہے۔
بیانیہ حرکت وعمل کی تصویرپیش کرتاہے ۔اس کاتعلق صورت حال کی تبدیلی سے ہے۔بیانیہ اس وقت قائم ہوتاہے جب اس میں کسی واقعہ کاانعقاد یاکم از کم اس کے انعقاد کاامکان موجود ہو۔ کسی بھی عمل یاواقعے کاانعقاد لازماً کسی نہ کسی زمانے کاپابند ہوتاہے اوراسی کے سہارے بیانیہ یاتوسیدھے خطوط پر آگے بڑھتا ہے یااپنے گردوپیش پھیلتاہے۔ بیانیہ محض بیانِ واقعہ یا واقعات کاسلسلہ نہیں بلکہ واقعات کابامعنی سلسلہ ہوتاہے۔ دوسرے الفاظ میں واقعات ایک مربوط اورمنظم سلسلے کے تحت بیان ہوتے ہیںخواہ اس کاربط منطقی ہوزمانی ہو، سبب یانتیجے کی منطق پر ہویا یہ تعلق ایک کردار یاکرداروں کے مختلف صورت حال سے دوچار ہونے کے نتیجے میں پیداہو۔یعنی بیانیہ کے لیے واقعات میں معنی کی وحدت بنیادی شرط ہے۔
لسانی اظہارکے علاوہ اظہار کے وہ طریقے جن میں واقعہ بیان نہیں ہوتابلکہ واقعے کو آنکھوں کے سامنے پیش کیاجاتاہے ان کوبیانیہ کہاجائے گایانہیں مثلاًڈرامہ ،فلم، اخباری فلم وغیرہ ۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ:
’’یہ سوال بڑی حدتک پیش کردگی پرمبنی ہے اورپیش کردگی ہی پرمبنی کرکے خالص بیانیہ کوبھی تین انواع میں تقسیم کیاجاسکتاہے :
۱۔لکھاہوابیانیہ، جوزبانی سنانے کے لیے خصوصی طورپر لکھاگیاہومثلاً ناول، افسانہ، سفرنامہ، تاریخ وغیرہ۔
۲۔ایسابیانیہ جوصرف زبانی سنایاجائے مثلاً داستان، جب تک وہ غیر تحریری شکل میں ہو۔
۳۔ ایسابیانیہ جولکھاہواہو۔لیکن پہلے وہ زبانی سنایاگیاہویاجسے زبانی سنانے کی غرض سے لکھاگیاہو۔ مثلاً داستان جب وہ زبانی سنانے کے کام کی ہولیکن لکھ لیا گیا ہو یاچھاپ دیاگیاہو۔‘‘(۱۸)
گویا فاروقی صاحب بیانیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، تحریری بیانیہ اور غیر تحریری بیانیہ یعنی زبانی بیانیہ خصوصاً داستانوی بیانیہ۔
رولاں بارت لکھتا ہے:
’’دنیا میں بیانیے کی اقسام بے شمار ہیں… بیانیہ کے اظہار کے وسیلوں میں تحریری یا غیر تحریری، مدلل و مربوط زبان، ساکت یا متحرک تصاویر، جسمانی حرکات و سکنات، یا پھر ان سب کی آمیزش سے بنا کوئی وسیلۂ اظہار شامل ہے۔ بیانیہ اسطور،روایتی قصوں حکایتوں، داستانوں، مختصر افسانوں، رزمیوں، تاریخ، المیہ، ڈراما (تجسس ڈراما)، طربیہ مائم (Pantomime) ،مصوری (مثلاً کارپاکسیو کی کی پینٹنگ، سینٹ ارسلا کو یاد کریں)، دھندلے شیشوں کی کھڑکی، سنیما، کامکس، مقامی خبروں اور گفتگو، سب میں موجود ہوتا ہے۔ یہ ہیئتوں کے لامتناہی تنوع میں تو ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ بیانیہ ہر عہد میں، ہر مقام پر اور ہر سماج میں وجود رکھتا ہے۔‘‘(۱۹)
رولاں بارت کے اس بیان سے بیانیہ کی ہمہ گیر آفاقیت کے ساتھ ساتھ اظہار کے ان تمام طریقوں کا بھی علم ہوتا ہے، جن میں بیانیہ موجود ہوتا ہے۔ماہرین بیانیات نے بیانیہ پربہت توجہ صرف کی ہے ۔ شاید اسی لیے بیانیات کو جدید تنقید میں ایک اہم ترین مقام حاصل ہے ۔ بیانیہ کی دنیابہت وسیع ہے ۔اسے پوری زندگی کااستعارہ کہہ سکتے ہیں ۔بقول زویتان ڈارف (Tzvetan Todorov)’’بیانیہ برابر ہے حیات کے۔‘‘(۲۰)
رولاں بارتھ(Roland barth) کاخیال ہے کہ بیانیہ ہرعہد اور سماج اورہرجگہ موجود ہے ۔انفرادی اور اجتماعی طورپر ہر شخص کاحوالہ بیانیہ ہی ہے ۔’’بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں۔‘‘بیانیہ کی حیثیت بین الاقوامی ،ماورائے ثقافت اورماورائے تاریخ ہے ۔یہ بس موجود ہے جس طرح زندگی موجود ہے۔
رولاں بارتھ کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ’ بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں‘ ، کیوں کہ بیان کے ذریعے ہی اس دنیا میں ہرفرد اور معاشرہ کی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے ۔
٭٭٭
حوالہ جات حواشی:
۱۔ Encyclopedia of litrary Critics & Criticism: Edited by Chris Murray. V2-Pg793, 1999.
۲۔ Narrative Theory: Micke ball. v.I, Pg11,2004
۳۔ ایضاً ۔Pg217
۴۔ Narrative the new Critical Idiom: Paul Cobley. Pg-5 to 7, 2001, Routledge Newyork.
۵۔ بیانیہ کی سرحدیں : مترجم قاضی افضا ل حسین ،مشمولہ تنقید علی گڑھ ۔ص۱۶۴،۲۰۱۱ء
۶۔ Narratology: An Introduction to the theory of Narrative: Mieke ball.Pg-16, 1999. Second edition. University of Toronto Press.
۷۔ ناول اورافسانے میں تکنیک کاتنوع۔ممتاز شیریں۔ تنقید علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۸۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۵۳۔۲۰۱۱ء
۹۔ ایضاً۔ص۵۳
۱۰۔ واقعہ ،راوی اور بیانیہ ازقاضی افضال حسین ۔مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۱۱۔ Narratology: An Introduction to the theory of Narrative: Mieke ball.Pg-182, 1999. Second edition. University of Toronto Press.
۱۲۔ Shlomith Rimmon-Kenan : Narration Fiction, Contemporary Poetics Second Edition 2003 Routledge London Newyork
۱۳۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۵۳
۱۴۔ واقعہ ،راوی اوربیانیہ ازقاضی افضال حسین مشولہ ،تنقید،علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۱۵۔ بیانیہ کی سرحدیں :مترجم قاضی افضال حسین، مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص:۱۷۱۔۱۷۲
۱۶۔ رسالہ تنقید ششماہی علی گڑھ ۲۰۱۱ء،ص:۱۹۸)
۱۷۔ واقعہ ،راوی اوربیانیہ ازقاضی افضال حسین مشولہ ،تنقید،علی گڑھ ۔ص۲۰۴
۱۸۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۶۰
۱۹۔ بیانیہ کا ساختیاتی تجزیہ: ایک تعارف مترجم ارجمند آرا، مشمولہ تنقید ششماہی علی گڑھ، ۲۰۱۱ء، ص:۶۴
۲۰۔ رسالہ تنقید ،علی گڑھ ،مدیر قاضی افضال حسین ۔ص۶۲