Mujhe kin logon se chidh hai

Articles

مجھے کن لوگوں سے چڑھ ہے

شمس الرحمن فاروقی

مجھے سب سے زیادہ چڑ ھ ان لوگو ں سے ہے جو خود کو یا کسی اورکو ”اردو نواز“کہتے ہیں۔بھلا بتائیے اردو ہم کو نوازتی ہے کہ ہم اردو کو نوازتے ہیں؟یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اردو جیسی خوبصورت ،طاقتوراورتوانگر زبان ہم کوملی۔اگر ہم صحیح اردو لکھ سکیں تو یہ ہماری سعادت ہے۔افسوس کہ ہم میں سے اکثر کوصحیح زبان لکھنے کا سلیقہ نہیں،اچھی زبان تو اور بات ہے
۔
”اردو نوازوں“کے بعد مجھے سب سے زیادہ چڑھ ان لوگوں سے ہے جو خود کو اردو کا حامی اور ہمدرد بتاتے ہیں،لیکن اس کے بارے میں معذرت آمیز اور دفاعی رویہ اختیار کرتے ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں ،ہاںصاحب اردو اچھی زبان تو ہے ،لیکن اس کا رسم الخط ٹھیک نہیں ۔اس میں املا کے اصول متعین نہیں ۔اس کے رسم الخط میں ہزاروں خوبیاں ہوں گی ۔لیکن یہ سائنسی نہیں ہے۔اس میں ایک ہی آواز کو ادا کرنے کے لیے کئی کئی علامتیں ہیں۔اور اس کے لکھنے کا طریقہ ایسا ہے کہ اس کے ذریعے تمام آوازیں ادا نہیں ہو سکتیں۔

”اردو دوستوں “کا یہ گروہ دراصل اردو کادشمن ہے۔کیوں کہ کسی زبان کے بولنے والوں میں احساس شکست اور احساس کمتری پیدا کرنا،اور ساتھ ساتھ اس کی دوستی کا بھی دم بھرنا ،خاص کر ایسے دور میں جب اس اس پر پیغمبری وقت آپڑا ہو اس کے ساتھ سراسر دشمنی اور ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ارے صاحب اس وقت ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اگر اردو کے رسم الخط اور املا سے آپ مطمئن نہ بھی ہوں تو خاموش رہیںتاکہ دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ دیکھئے ہم تو غیر ہیں ، خود اردو کے اپنے اس کے بارے میں کہتے کہ اس میں فلاں فلاں عیب ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر آپ اردو کے رسم الخط اور املا سے مطمئن ہیںتو بہ بانگ دہل اس اطمینان کا اظہار کریں۔اردو املا اور رسم الخط کی خوبیاں ظاہر کریں،یا کم سے کم اتنا کریں کہ جن رسوم الخط کو اردو کے مقابلے میں بہتر بتایا جاتا ہے،ان کی خرابیاں اور کمیاں ظاہر کریں۔

ایک صاحب نے فرمایا ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ آپ الفاظ کا تلفظ ظاہر کرنے کے لیے دیوناگری رسم الخط کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟کیا اردو اس پر قادر نہیں ہے کہ تلفظ کو ظاہرکرسکے؟تو وہ خاموش ہوگئے،کیوں کہ بات ”چبھتی ہوئی تھی“میں پوچھتا ہوں کہ آپ خاموش کیوں ہوئے،اور کس طرح آپ نے فیصلہ کیا کہ بات ”چبھتی ہوئی تھی“؟ ٹھیک ہے اردو کا رسم الخط ناقص ہے۔کس زبان کا رسم الخط ناقص نہیں ہے ؟رسم الخط کے بارے میں ارسطو یا کس ابن سینا نے کہا ہے کہ اسے کامل ہونا چاہیے ؟اور دیوناگری رسم الخط میں کون سی ایسی خوبی ہے جو اردو میں نہیں ہے؟اگر آپ زیر زبر پیش کا التزام کرلیں (جو غیرضروری اورفضول ہے)تو دیوناگری کا جواب پید ا کرلیں گے ۔لیکن زیر زبرپیش کاالتزام غیر ضروری ہے ،اسی لیے تو اردو نے اسے ترک کیا۔اگر دیوناگری میں دِل،دَل اور دُل کو الگ الگ طرح لکھا جائے تو اردو میں بھی ایسا ممکن ہے لیکن اردو والوں نے زیر زبر پیش کے اس التزام کو ترک کیا۔اس کے بجائے خوبصورتی اور مختصر نویسی کو اختیار کیا۔جس چیز کو ہم اردو والے ناپسند کرکے چھوڑ چکے ہیں اس کی خاطر آپ دیوناگری کو اردو سے بہتر قرار دے رہے ہیں۔یہ کون سی عقل مندی اور کون سی اردو دوستی ہے؟
پھر سیکڑوں ،بلکہ ہزاروں لفظ ایسے ہیں جن کو دیوناگری رسم الخط ادا نہیں کرسکتا۔کچھ مثالیں میں”ہماری زبان“ میں پیش کرچکا ہوں۔اردو میں آدھے زیر اورآدھے پیش والے ہزاروں لفظ ہیں،جن کو دیوناگری میں ظاہر نہیں کیا جا سکتا ۔ وسطی ہمزہ والا کوئی لفظ دیوناگری کے بس کا نہیں۔یہاں تک کہ ”ٹھیٹ“پراکرت الفاظ مثلاً ”گئے“ ”لئے“ ”کئی“ ”بیٹھے“ وغیرہ سینکڑوں الفاظ دیوناگری رسم الخط کی دسترس میں نہیں ۔بعض حالات میں بیکار آواز اردو میں جس طرح ادا ہوتی ہے، مثلاً ”احمد“”تہ دار“”مہتاب“اس کی دیو ناگری ادا کرنے سے قاصر ہے۔کہاں تک مثالیں پیش کروں ؟اردو یعنی کھڑی بولی کی آواز وں کے لیے دیوناگری بالکل ناکافی ہے۔اور کیوں نہ ہو ،دیوناگری رسم الخط کھڑی بولی ،یعنی اردو کے لیے بناہی نہیں ہے،لہٰذا خود ہندی زبان کے الفاظ اس رسم الخط میںمکمل طور پر ادا نہیں ہوسکتے۔

پھر دیوناگری والے کس بات پر نازاں ہیں اور اردو والے کس بات پر محجوب ہیں؟اور یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ رسم الخط حرف تہجی والے الفاظ کا تلفظ پوری طرح ظاہر کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے؟یہ تو صرف ان زبانوں میں ممکن ہے جہاں تصویر ی نظام ہے اورحرف تہجی والا رسم الخط نہیں ہے۔اردو رسم الخط کی غیر قطعیت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ زبان کی سیکڑوں آوازیں چند ہی علامتوں کے ذریعے ادا ہوجاتی ہیں۔رسم الخط آوازوں کا نظام نہیں ہے،علامتوں کا نظام ہے
۔
ایک اور صاحب نے فرمایا کہ صاحب اردو ہماری بڑی پیاری زبان ہے لیکن اس میں ایک ہی آواز کو ادا کرنے کے لیے کئی کئی علامتیں ہیں ،بچوں کو بڑی زحمت ہوتی ہے۔خدا معلوم وہ صاحب کبھی بچے تھے کہ نہیں،میں ضرور بچہ تھا۔اور مجھے کبھی کوئی زحمت نہیں ہوئی۔نہ مجھے اس بات کی فکر ہوئی کہ ”ظ“ اور”ن“”بھی“زن“ہے اور ”ز“ اور’ ’ن“ ”بھی“زن“ہے تواس میں میرے لیے بڑی آزمائش اور ابتلا کاسامان ہے ۔مجھے تو اس میںبھی کوئی زحمت نہیں ہوئی کہ ”زر،زمین ،زن“کے اور معنی ہیں،اور”موٹرزن سے نکل گئی“میں ”زن“کے اور معنی ہیں۔خدا معلوم ان صاحب کو بچپن میں اس بات سے تکلیف ہوئی کہ نہیں کہ اردو میں ایسے بہت سے لفظ ہیںجن کے معنی بدل جاتے ہیں لیکن تلفظ اور املا نہیں بدلتا”نقب زن“والا”زن“اور ہے ، ”پیرزن“ والی ”زن“ اور ہے اور ”موٹر کی زن“ والی ”زن“ کچھ اور ہے۔وہ صاحب جو ”ذ“”ظ“”ض“اور ”ز“میں سے صرف ایک کو رکھ کر باقی کی گردن زنی چاہتے ہیں،وہ بھی کیوں نہیں کہتے کہ ایسے تمام الفاظ جن کا املا اور تلفظ ایک ہے لیکن معنی مختلف ہیں۔ان کو بھی اردو سے نکال دیا جائے،کیوں کی ایسے الفاظ کے باعث بھی بچوں اور کمزورذہن والوں کی طبیعت میں”خلفشار“پیدا ہوتا ہے؟پھر وہ یہ بھی کیوں نہیں کہتے کہ م،ل،ک کو ملا کے ملک Country ،مِلکProperty ، مَلِکking اور مَلکAngelبنانے سے کیا فائدہ ؟ایک کو رکھ لیجئے اورباقیوں کے لیے دوسرے الفاظ گڑھ لیجئے؟
اچھا پھر اس بات میں برائی کیا ہے کہ ایک ہی آواز کے لیے بہت سی علامتیں ہوں؟آپ شاید انگریزی کے پرستار ہیں،ذرا وہا ں کا حال ملاحظہ کر لیجئے ۔صرف دو آوازوں کا ذکر کرتا ہوں۔
”ش“اس کے لیے انگریزی میں مندرجہ ذیل حرف استعمال ہوتے ہیں:

S جیسے SUGAR

T جیسے SATIATE

TI جیسے NATION

CH جیسے NONCHALANT

C جیسے APPRECIATE

SH جیسے SMASH

CI جیسے SPECIAL

X جیسے LUXURY

SCH جیسے SCHEDULE

SCI جیسے OMNISCIENT

SI جیسے TENSION

SSI جیسے PASSION

ممکن ہے ایک آدھ اور بھی ہوں،مثال کے لیے اتنے کافی ہوںگے۔

”چ“اس کے لیے انگریزی میں حسب ذیل علامتیں ہیں:

CH جیسے CHEST

TCH جیسے CATH

TSCH جیسے KITSCH (تلفظ کچ)

C جیسے CONCERTO (تلفظ کنچار ٹو)

T جیسے NATURE
پھر ہمارے معترض صاحب کے بچوں کو انگریزی پڑھنے میں کیوں ”خلفشار “نہیں ہوتا ؟وجہ ظاہر ہے ،معترض صاحب اور ان کے بچے ”اردو نواز“لیکن”انگریزی پرست“ہیں۔واضح رہے کہ ابھی میں نے صرف ”ش“اور”چ“کا نقشا کھینچا ہے۔اگر خدانخواستہ ساری آوازوں کا گوشوار ہ بناﺅں تو ”کتاب “کی آدھی ضخامت ناکافی ہو۔
رسم الخط اور حروف تہجی کے لیے بات آگئی ہے تو والٹر آنگ کی کتاب سے چند اقتباسات پیش کرنے کا دل چاہتا ہے۔اپنی کتابOrality and Literacyمیں والٹر آنگ Walter ongنے لکھا ہے کہ حروف تہجی ایک ہی بار ایجاد ہوئے۔کوئی۰۰۵۱۔ق۔م میں سامیوں نے سامی رسم الخط ایجاد کیا جو حروف تہجی پر مبنی تھا(اس سے پہلے کے تمام رسم الخط کم و بیش تصویر ی تھے ۔جیسا کہ چینی اب بھی ہے۔)دنیا کے تمام حروف تہجی ،عبرانی،اگایتی ،یونانی، رومانی، روسی، عربی ،تامل،ملیالم،کوریائی کسی نہ کسی جہت سے اسی قدیمی سامی نظام سے اتقا کرکے وجود میں آتے ہیں۔”والٹر آنگ کا کہنا ہے کہ وہ زبانیں جو مصوتوں کو ظاہر کرنے والے حروف نہیں استعمال کرتیں،اگرچہ”ان کے الفاظ صرف مصمتوں کی مدد سے لکھے جاتے ہیں۔“والٹر آنگ مزید کہتا ہے کہ حروف تہجی اگرچہ تصویر ی تحریرPictogram سے برآمد ہوئے ہیں لیکن اب ان کا تعلق اشیا سے بطور اشیا نہیں ہے۔”حروف تہجی خود صورت کو شے کی طرح پیش کرتا ہے ،اور صورت کی بے ثبات پذیر دنیا کو مکان کی بے آواز اور نیم مستقل دنیا میں بدل دیتا ہے۔“اس کے برخلاف چینی رسم الخط ہے،جس میں چالیس ہزار پانچ سو پینتالیس Characters(تصویری علامات،ہیں،کیوں کہ ہر علامت مستقل لفظ ہے اور کسی شے کو ظاہر کرتی ہے)
رسم الخط اور حروف تہجی پر اس مختصر نظریاتی بحث سے یہ انداز ہ ہوگیا ہوگا کہ ہمارا رسم الخط ہماری زبان کے لیے مناسب ہے
۔
مجھے ان لوگوں سے بھی چڑھ ہے،جو اردو کے زوال کا رونا روتے ہیں لیکن خوداپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔انھیں اپنے گھر میں اردو کا زوال ،سارے ملک میں اردو کا زوال معلوم ہوتا ہے۔خود لوگوں نے تو اردو کے نام پر اعزاز و اکرام ،دولت اور شہرت سے جھولی بھری اب”اردو نوازی“کا دم بھرتے ہیں۔لیکن اردو پڑھنے کے لیے ترغیب ایسے بچوں کو دلاتے ہیں جن کے گھر میں کھانے کو نہیں۔ایسے گھروں کے بچے اگر اردو پڑھیں تو واقعی قربانی دے کر پڑھیں۔اور وہ ایسا کرتے بھی ہیں۔لیکن ہمارے شیر قالی صرف ڈکارتے ہیں،کچھ گرہ سے دیتے نہیں ۔ایک بہت بڑے ترقی پسندپروفیسر نے فرمایا کہ میں اپنے بچوں کو اردو کس طرح پڑھاتا؟میرے گھر کے پاس کوئی ایسا اسکول تھا ہی نہیںیہ اور بات ہے کہ انگریزی اسکول میں پڑھنے کے اعزاز کی خاطر وہ اپنے بچوں کو میلوں دور کسی مہنگے اسکول میں بھیج سکتے ہیں ۔کیوںکہ انگریزی پڑھنا تو عزت کی بات ہے۔اردو پڑھ کر جتنی عزت ملتی ہے وہ ہمارے محترم بزرگ نے خود ہی وصو ل کرلی،اب بچے کے لئے کیا رہ گیاتھا؟یہ تو حکومت کی نا اہلی ہے کہ اس نے دروازے پر اردو کی اسکول کھول کر نہ دیا۔اور اگر دروازے پر اسکول ہوتا بھی تومیں اپنے بچے کو وہاں کس طرح بھیجتا ؟وہاں کا معیار تعلیم ایسا تو تھا نہیں کہ میرے بچے کے شایان شان ہوتا۔ایک بزرگ اور محترم اور عظیم ترقی پسند خاتون ادیب نے ارشاد فرمایا کہ میںاپنے بچوں کو اردو کس طرح پڑھواتی جب ان اسکولوں میں تہذیب و تمیز سکھائی نہیں جاتی،اور پھر وہ اسکول میرے گھر سے دور بھی بہت ہیں
۔
ظاہر ہے ایسے لوگوں کی نظر میںاردو زبان اور اردوتہذیب داہنے ہاتھ سے کھانا کھانے اور روزانہ دانت مانجنے سے کم اہم ہیں۔کیوں کہ یہ چیزیں تو کسی اسکول میں سکھائی نہیں جاتیں۔انھیں تو گھر ہی میں سیکھنا پڑتا ہے۔اردو سیکھنے کے لیے البتہ اسکول جانا ضروری ہے اور اسکول جاکر اماں باوانے اردو سیکھ ہی لی،فرض کفایہ ادا ہوگیا
۔
کئی برس ہوئے حکومت یوپی نے غلطی سے مجھے یوپی اردو اکیڈمی کا رکن نامزد کردیا۔محض مجلس عام کا، جہاں میں کوئی ”شرانگیز“کاروائی نہ کر سکتا تھا۔جلسہ میں ،میں نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ تمام لوگ مجلس عام سے مستعفی ہوجائیں جن کے بچے اردو نہیں پڑھتے ۔مجلس عام میں نیتا بھی تھے اور مولوی بھی ،پروفیسر بھی تھے اور صحافی بھی،کانگریسی بھی تھے اور کمیونسٹ بھی،سب نے ایک زبان ہو کر میری تجویز کی مخالفت کی۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے اردو پڑھیں یا نہ پڑھیں،اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ اردوکا اصل ہمدرد کون ہے ،ان کی مراد شاید یہ بھی تھی کہ اردو کے اصل ہمدردتو ہم لوگ ہیںجو اردو والوں کو وظیفے بانٹتے ہیں۔اور انعام واکرام کی بارش کرتے ہیں ۔ہمارے بچے اردو کیسے پڑھ سکتے ہیں؟نہ تو اردو کے اسکول ہیں اور نہ انھیں فرصت ہی ہے کہ دس دس مضمون اسکول میں پڑھیں ،گھر پر گاڑی بھر ہوم ورک لائیں اور پھر اردو بھی پڑھیں۔
میری تجویز بلاتفاق رائے مسترد ہوگئی اور اس سال کے بعدمجھے یوپی اردو اکیڈمی کی رکنیت کا اعزاز پھر نہ بخشا گیا۔لیکن اکیڈمی سے مجھے کوئی شکایت نہیں،اکیڈمی والے اگر اپنے بچو ںکو پڑھانے لگیں گے تو قوم کو اردو پڑھانے کا وقت انھیں کہاں ملے گا؟

مجھے ان لوگوں سے بھی چڑھ ہے جنھوں نے تعلیمی اداروں کو جہالت ،بدیانتی اور اور کاہلی کی پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔ایک ریسرچ اسکالر میرے پاس تشریف لائے،کہا کہ فلاں موضوع پر کام کررہا ہوں۔آپ سے مشورہ درکار ہے، میں نے پوچھا آپ کے سپروائزر کون صاحب ہیں۔انھوں نے اب تک آپ کو کیا ہدایت دی ہیں؟جواب ملا ،انھوںنے کہا ،کہ میاں مجھے اس موضوع سے دلچسپی نہیں،اور فرصت بھی نہیں۔تمھارے جو جی میں آئے کرو۔مجھے کیوں پریشان کرتے ہومجھے تعجب تو نہ ہوا ،لیکن افسوس ضرور ہوا۔اب چند برسوں سے افسوس بھی نہیں ہوتا ۔ایک پی۔ایچ۔ڈی مقالہ خدا معلوم کس غلطی سے میرے پاس رائے کے لیے آگیا۔میں نے پڑھ کر بہت سوچا کہ کیا کروں۔بہر حال ،دیانت داری نے مجبور کردیا کہ( اگرچہ مقالہ نگار سے میرے مراسم تھے)لیکن میں یہ لکھو ںکہ مقالہ ڈگری کے لائق نہیں ہے۔ اسے دوبارہ لکھا جائے۔چنانچہ میں نے یہی رائے بھیج دی۔

چند دنوں بعدا ن کو ڈگری مل گئی۔
ایک صاحب نے جوش میں پر مضمون لکھا ۔نظم ”ذاکر سے خطاب“پر انھوں نے یوں رائے زنی کی کہ یہ نظم ذاکر نامی ایک شخص کے بارے میںہے جو بہت ریاکار دنیا دار اور جھوٹا تھا (وہ رسالہ جس میں یہ مضمون ہے،کچھ دن ہوئے لکھنو ¿سے شائع ہوا ہے)

ایک صاحب نے بمل کرشن اشک کی کتاب ”میں فقیر اور وہ“(مطبوعہ۹۷۹۱ئ)پر حال ہی میں تبصرہ لکھا ۔ انھوں نے ہر جگہ بمل کرشن اشک کا نام ”بمل کمار اشک“تحریر فرمایا۔اشک کو مرے آج چھ سال ہورہے ہیں ۔اپنی زندگی ہی میں وہ جدیدشعراءکی صف اوّل میں شمار ہوتے تھے اور جب وہ اللہ کو پیارے ہوئے اس وقت ان کی شاعری کی عمر کم سے کم پچیس سال تھی۔تبصرہ نگار فرماتے ہی کہ اگریہ کتاب ”بمل کماراشک“کاپہلامجموعہ ہے توخاصاکامیاب ہے۔

”ذاکر سے خطاب“کو ذاکر نامی کسی شخص سے خطاب بتانے والے صاحب تدریس کا پیشہ فرماتے ہیں۔ جس رسالے میں”بمل کمار اشک“پر تبصرہ چھپا ہے اس کے مدیر بھی پروفیسر ،محقق نقاد سب کچھ ہیں۔ممکن ہے دونوں مدیران نے مضمون پڑھا نہ ہو اور یوں ہی چھاپ دیا ہو ۔لیکن لکھنے والے؟
ایک اور استاد مکرم جن کو ترقی پسند تنقید کی قیادت کا دعویٰ ہے،انکشاف فرماتے ہیں کہ راشد کا مجموعہ ”لا__انسان“الہٰ آباد سے چھپا۔ان کی تحقیق یہ بھی ہے کہ میراجی نے ”اس نظم میں“نامی اپنی کتاب میںاپنی مشکل نظموں کی تشریح لکھی ہے اور وہ تشریح بھی ایسی ہے کہ اچھے اچھے چکرا جائیں۔واضح رہے کہ راشد کا کوئی مجموعہ الہٰ آباد سے نہیں چھپا۔یہ بھی وضح رہے کہ ”اس نظم میں “مختلف شعراءکی نظموں پر میراجی کے مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔اس میں میرا جی نے اپنی نظموں کی تشریح نہیں کی ہے۔استاد مکرم کا نکشاف البتہ ایسا ہے کہ اچھے اچھے چکرا جائیں۔

اےک بہت بڑے ترقی پسند پروفےسر صاحب نے ساہتےہ اکاڈمی کی انسا ئےکلو پےڈےا کے لےے اردو تنقےد پر مقالہ لکھا۔اس مےں ان کا انکشاف ہے کہ اس وقت جدےد اردو تنقےد مےں سب سے نماےاں نام ہےں سمےع الحق اور تارا چرن رستوگی۔ےہ لوگ کون ہےں اور انھوں نے کےا تنقےد لکھی ہے،اس معلومات کے لےے پروفےسر موصوف سے رجوع کرنا بےکار ہے ۔کےوں کہ تحقےق کے معنی ہی آج کل ےہی ہےں اےسی چےزوں کو بےان کرنا جن کا وجود ان کے درےافت کنندہ کے ذہن مےں بھی نہ ہو۔اسی لےے تو پروفےسر عالی گہرنے”کلےات سودا“(جلد اوّل)کے دےباچہ مےں دوبار لکھا ہے کہ اس مےں نسخہ رچرڈ جانسن کے املا کی خصوصےات بجنسےہ برقرار رکھی گئی ہےں ،جب کہ حقےقت حال ےہ ہے کہ پوری کتاب جدےد املا مےں شائع ہوئی ہے ۔جہاں تک سوال خود آپ کی زبان کا ہے ،تو اس کا حال ےہ ہے کہ چند صفحات کا دےباچہ ہے ،اور اس مےں بھی استاد والا نثراد لغزشوں اور بھونڈے طرز تحرےر سے دامن نہےں بچا سکے ہےں۔محض اےک مثال ملاخطہ ہو:
۔
ان کی سلےقہ مندی اور شوقےن مزاجی کا ثبوت ان کی سگ پروری کے شوق مےں بھی ملتا ہے ۔طرح طرح کے کتے پالتے تھے اور انھےں بڑے اہتمام سے حاصل کرتے ان کی دےکھ بھال کرتے تھے
۔

(۱) سلےقہ مندی اور سگ پروری کا تعلق واضح نہےں ہوا ۔اگر کتاپالنا سلےقہ مندی ہے تو بنجاروں سے زےادہ سلےقہ مند کوئی نہےں ۔

(۲) ”شوقےن مزاج“اےک مخصوص طبقے کے لوگوں کے لےے بولا جاتا ہے۔ےہاں اس کا محل نہےں ۔

(۳) ”شوقےن مزاجی“کے بعد”سگ پروری کا شوق“کہنا بھونڈا اور فضول ہے ۔صرف” سگ پروری “کافی تھا۔

(۴)”ان کی سگ پروری“کی جگہ ”ان کے سگ پروری“کہنا چاہئے تھا۔کےوں کہ ”شوقےن مزاجی“کا ثبوت’ ’شوق“ مےں ہے ،نہ کہ ”سگ پروری“مےں مثلاً”فلاں کو اس کے شراب کے شوق نے مارا ”نہ ،کہ“فلاں کو اس کی شراب کے شوق نے مارا“موصوف کی عبارت ہے :” ثبوت ان کی سگ پروری کے شوق مےں ملتا ہے ۔“ےعنی ”ثبوت “کا ربط”شوق سے ہے اور شوق مذکر ہے ۔ہاں اگر”کے شوق“کا فضول فقرہ نہ ہوتا تو ”کی“درست تھا:ان کی شوقےن مزاجی کا ثبوت ان کی سگ پروری مےں ملتا ہے ۔“

(۵)”پالتے تھے“پہلے لکھا ہے ،پھر لکھا ہے”بڑے اہتمام سے حاصل کرتے تھے“پھر لکھا ہے”ان کی دےکھ بھال کرتے تھے ۔“ترتےب غلط ہے اور مقدمات غلط ہےں ۔ظاہرہے کہ حاصل پہلے کرتے ہوں گے،پھر پالتے ہوں گے ۔ نہ کہ پالتے پہلے تھے اور حاصل بعد مےں کرتے تھے۔”حاصل کرنے“کے لےے”اہتمام“کا لفظ نا مناسب ہے۔”اہتمام“اس وقت ہوتا ہے جب کوئی چےز ہاتھ آجاتی ہے ۔حاصل کرنے کے لےے سعی ہوتی ہے اور حاصل کرنے کے بعد اہتمام ۔ےوں کہنا تھا کہ”ان کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔“ جب کہ”پالنے “کا ذکر کردےا تو پھر دےکھ بھال کرنے کا ذکر محض تکرار ہے۔ظاہر ہے کہ دےکھ بھال کے بغےر پالنا ممکن نہےں۔ہاں ےہ کہہ سکتے تھے کہ”ان کی دےکھ بھال خود کرتے تھے “لےکن اس کے لےے ثبوت درکار تھا۔(وےسے ےہ تقرےباً پوری عبارت ثبوت کی محتاج ہے۔)
ایک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے جن موضوعات پر کام ہواہے یا ہورہا ہے ان کی فہرست حال میں شائع ہوئی ہے۔ اکثر موضوعات ایسے ہیں جو مختصر مضمون کے بھی متحمل نہیں ہوسکتے ۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ تو بڑی بات ہے مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ ہو
:
(۱) امیر الدین وجد ، حیات اور شاعری (۲) عرفان اسلام پوری ، حیات اور شاعری (۳) حکیم عبد الحمید شیدا سہسرامی ، حیات و خدمات (۴) عبد الباری ساقی ، حیات و خدمات (۵) قوس حمزہ پوری ، حیات اور کارنامے (۶)ماہنامہ نگار کے ۵۲ سال (۷) الیاس اسلام پوری ، حیات اور کارنامے (۸) بہاءالدین کلیم ، حیات اور شاعری (۹)ناوک حمزہ پوری ، شخصیت اور خدمات (۰۱) باسط خان اور ان کی خدمات (۱۱) آزادی کے بعد اردو کے غیر مسلم شعراء(۲۱) اردو کے چند سماجی ناولوں کا تنقیدی مطالعہ۔
مادام دا استائیل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو بولنے نہ دیتی تھی اور اس کی گفتگو بے حد دل کش اور محسور کن ہوتی تھی لیکن کولرج کی گفتگو کے سیل بے پایاں کے سامنے اسے بھی سکوت اختیار کرنا پڑا۔ کولرج بے چارے کی نظر سے اگر ہماری یونیورسٹیوں کے تحقیقی مقالوں کی فہرست گزرتی تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتا

ایک صدر شعبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ طالب علم ان کے پاس پی ایچ ڈی میں داخلہ کا فارم منظوری کے لیے لایا۔ موضوع تھا ”قمر رئیس“ استاد نے پوچھا بھائی تم قمر رئیس صاحب کے کس پہلو پر کام کروگے ، یہ تو بتاﺅ ۔ طالب علم نے کچھ سوچ کر کہا” سر ، قمر رئیس ، بحیثیت شاعرکیسا موضوع رہے گا؟“ صدر شعبہ کا بیان ہے کہ میں نے فوراً منظوری دے دی ، کیا کرتا ، پی ایچ ڈی کی ڈگری نوکری کے لیے ضروری ہے ، یہ ضروری نہیں کہ مقالہ کسی قابل ذکر موضوع پر ہو۔ اور اس میں قابل مطالعہ باتیں لکھی جائیں۔
میرے پاس ہر ہفتہ کسی نہ کسی جگہ سے خط آتا ہے کہ میں فلاں موضوع پر پی ایچ ڈی کررہا ہوں کررہی ہوں۔ ایک سوال نامہ منسلک ہے ، براہ کرم اس کا جواب فوراً بھیج دیں تاکہ میں اپنا مقالہ مکمل کرسکوں۔ سوالات کا معیار طفلانہ ہوتا ہے، اس بات پر اتنا رنج نہیں ہوتا جتنا اس بات پر ہوتا ہے کہ اب پی ایچ ڈی کی methodologyیہ ہوگئی ہے کہ ہر شخص کو خط لکھ کر اس سے کچھ اناپ شناپ لکھوا لو اور مقالہ تیار کرلو۔ نہ غور کرنا ہے ، نہ مطالعہ کرنا ہے، نہ اتنی زحمت کرنا ہے کہ جس شخص کوموضوع پر درک ہے اس کے پاس چلے جاﺅ اور بالمشافہ تبادلہ ¿ خیال کرلو۔ خیال ہو تب تو تبادلہ ¿ خیال ہو۔ یہاں تو سب کی اوپری منزل کرائے کے لیے خالی ہے۔
مجھے ان لوگوں سے بھی چڑھ ہے جو دس پانچ افسانوں یا منظومات پر مشتمل مجموعہ چھپواکر صاحبِ تصنیف بن بیٹھے ہیں اور پھر ہر کس و ناکس سے توقع اور تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر توصیفی مضمون لکھے۔ مجھے ان لوگوں سے اور زیادہ چڑھ ہے جو ایسے لوگوں کی فرمائش پوری کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد ہمارے درمیان بڑھتی جارہی ہے جو اچھی خاصی حیثیت رکھنے کے باوجود اپنانام چھپا ہوا دیکھنے کے لیے اس قدر بے قراررہتے ہیں کہ ہر کسی کی فرمائش پوری کردیتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں کسی اصول یا نظریے کی پابندی اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں۔ ایک صاحب کو یہ خبط ہے کہ ان سے بڑا نقاد کوئی پیدا نہ ہوگا اور اس کو ثابت کرنے کے لیے وہ اپنی ہی تعریف میں خود بیان لکھتے ہیں اور اسے دوسروں کے نام سے چھپواتے ہیں۔ ان کی تحریر ژولیدہ بیانات ، مغربی ادب کے ادھ کچرے حوالوں ، بے موقع ناموں اور بے تکی بے پر کی باتوں کا ایسا مجموعہ ہوتی ہے کہ شیکسپیئر کا فاتر العقل مسخرا بھی ان کا خالق ہونا پسند نہ کرے۔ لیکن اس کو کیا کیجئے کہ ان کے دوست ان کی تعریف میں انھیں کے لکھے ہوئے نثری قصائد اپنے نام سے شائع کرتے ہیں ، نقاد موصوف نے ابھی مالیگاﺅں کے کسی شاعر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرتے ہوئے ہم غریبوں پر یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ شاعر موصوف میں مابعد جدیدیت Post Modernismکی جلوہ گری ہے۔ نقاد موصوف کو یہ گمان ہے کہ مابعد جدیدیت کوئی ایسی چیز ہے جو جدیدیت کے بعد وجود میں آئی ۔ یہی غلط فہمی دو پروفیسر صاحبان کو بھی ہے ۔ان کو کون سمجھائے کہ مابعد جدیدیت کی اصطلاح ابھی مغرب میں پوری طرح مقبول نہیں ہوئی ہے اور اس کے واضع مصری نثراد امریکی پروفیسر اہاب حسن نے خود لکھا ہے کہ ۰۲۹۱ءبلکہ اس سے پہلے کی کچھ تحریروں میں بھی Post Modernismکی جلوہ فرمائی ملتی ہے۔ یعنی اہاب حسن کے مطابق Post Modernismکا تصور زمانی نہیں بلکہ ذہنی ہے۔ (پھر بھی ہمارے پروفیسر یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ مغرب میں مابعد جدیدیت کا دور ہے لیکن اردو والے اب تک جدیدیت کے چکّر میں پڑے ہوئے ہیں)

غرض یہ کہ کہاں تک فہرست بناﺅں کہ مجھے کن کن چیزوں سے چڑھ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب مجھے اپنے آپ سے چڑھ ہونے لگی ہے اور یہ کہتے ہوئے شرم آنے لگی ہے کہ میں اردو کا دیب ہو۔
گر مسلمانی ازیں است کہ حافظ دارد
آہ اگر از پئے امروز بود فردائے