Jazbi Chand Ta’ssurat by Zubair Rizvi

Articles

جذبیؔ ___چند تاثرات

زبیر رضوی

جذبیؔ کی مقبول غزل کا ایک شعر ہے :
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جعفر علی خاںاثر ؔ نے اس غزل اور اس شعر کو پوری ترقی پسند شاعری کے ہم پایہ قرار دیا تھا ۔ ایسے اور اسی طرح کے مبالغہ آمیز بیانات نے شعر کی پرکھ اور تفہیم میں بے شمار گمراہیوں کو رواج دیا ہے ۔ مومنؔ کے ایک شعر کے عوض اپنا تمام تر شعری سرمایہ سپرد کرنے کی جو بات محمد حسین آزاد نے بغیر کسی ثبوت کے غالبؔ جیسے کج کلاہ شاعر سے منسو ب کی وہ چو نکہ چٹخارے دار تھی ، اس لیے زبان زد ہو گئی ۔ جعفر علی خاں اثرؔ کا ترقی پسندی سے بیر چونکہ جانا پہچانا تھا ، اس لیے ان کی اس بات پر طول کلامی کی نوبت نہیں آئی ۔ خدا لگتی بات تو یہ بھی ہے کہ جذبیؔؔ کی یہ غزل زمانے کا اتنا سرد و گرم سہہ لینے کے بعد بھی ہمارے حافظے سے محو نہیں ہو پائی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے ادبی ذوق کی تربیت میں ہمارے دور کے مقبول ادب پاروں کا بڑا ہاتھ تھا ۔ اس وقت فیض، جعفری، مخدوم، جذبیؔ جو کچھ لکھ رہے تھے وہ بطور قاری ہماری ادبی گفتگو اور مزاج کا حصہ بنتا جا رہا تھا اور ہم ان کے شاہکار ادب پاروں کے ساتھ اپنے ادبی ذوق کے سانولے سلونے سالوں میں قدم رکھ رہے تھے ۔ ادب کے ساتھ اپنی جنوں آمیز وابستگی کی نیو رکھنے کا یہی وہ زمانہ تھا ، جب جذبیؔ ؔ کی ’ فروزاں‘ مجاز کی ’ آہنگ‘ مخدوم کا ’ سرخ سویرا ‘ فیض کی ’ نقش فریادی‘ اور جعفری کی ’ خون کی لکیر‘ ازبر ہو گئے تھے ۔ اس طلسم سے باہر نکلنے میں برس تو لگ گئے ۔ لیکن بعض ادب پارے ہمارے حافظوں کی سطحوں سے چپک کر رہ گئے ۔ جذبیؔ کی نظم’ موت‘ اور ان کی کچھ غزلیں اس وقت بھی سامنے آکر یوں کھڑی ہو گئی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں : ہماری اثر آفرینی سے انکار کرو تو جانیں ۔ جذبیؔ کے سارے لکھے ہوئے کو اب جو پڑھنے کی فرصت نکالی تو لگا جذبیؔ سامنے بیٹھے ہیں ۔ منھ میں سگار ہے۔ سلیقے سے سلی ہوئی شیروانی ۔ اسی کپڑے کی اونچی دیوار کی ٹوپی ،بڑے پائچے کا پاجامہ ، کم آمیز، کم گواور سوچتی ہوئی آنکھیں ، اپنائیت میں ڈوبا ہوا لہجہ ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملنے ملانے اور باتیں کرنے میں سر خوشی کا احساس ہوتا تھا ۔ جذبیؔ جن سالوں میں اپنی مقبول ہوتی ہوئی غزلوں کی داد سمیٹ رہے تھے وہ میری پیدائش کے آس پاس کے سال تھے ۔ عمر کے اس فرق کے با وجودجذبیؔ یوں ملتے جیسے برابر کے ہوں۔ ان کے لہجے میں ایسی اپنائیت ہو تی کہ بہت جلد فاصلے پگھل جاتے ۔ تکلف اور حجاب بس اتنا رہتا جتنا ربط اور تعلق کی یک گونہ سرخوشی کے لیے نمک کی صورت ضروری سمجھا جاتا ۔ دلی میں ا ن کی آمد کبھی کسی مشاعرے میں ہو تی یا ریڈیو پروگرام کے لیے یا پھر علی گڑھ سے کسی شہر میں آتے جاتے وہ دلی رکتے ۔ یا پھر ہم علی گڑھ جاتے کہ اس زمانے میں علی گڑھ جانا ادبی فیشن بھی تھا کہ علی گڑھ میں آل احمد سرور، رشید احمد صدیقی ، مجنوں گورکھپوری، جذبیؔ، خورشیدلاسلام ، منیب الرحمن ، اختر انصاری کے ساتھ ساتھ خلیل الرحمن اعظمی ، وحید اختر، انور عظیم، امین اشرف،جاوید کمال نئے لکھنے والوں کے لیے کشش کا باعث تھے ۔ خلیل کو علی گڑھ ہی میں نہیں ، اس وقت کے پورے منظر نامے میں کلیدی حیثیت حاصل تھی ۔ جذبیؔ ،خلیل کے اور خلیل، جذبیؔ کے گرویدہ تھے۔جذبیؔ ہمیشہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں نئے لکھنے والوں کی صحبت کو ترجیح دیتے ۔ موقع ہوتا تو خود بھی شعر سناتے ، مگر نئے لکھنے والوں سے کچھ تازہ لکھنے کا اصرار ضرور کرتے ۔ گفتگو کا زیادہ حصہ ادھر اُدھر کے موضوعات کو گھیر لیتا ، لیکن جب ہم ان سے کرید کرید کر سوال کرتے تو ان کی کم گوئی میں تھوڑی سی لچک آتی اور وہ اپنے ہم عصروں کی عیب جوئی سے زیادہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ۔ اپنے سے بزرگ شاعروں کے ساتھ اپنی یا دوں کو تازہ کرتے اور ان کم حیثیت سخن شناسوں کا بھی ذکر کرتے جو کسی چائے خانے میں بیٹھ کر جذبیؔ سے پرتجسس انداز میں با ت کرتے اور مشورہ دیتے کہ اگر فلاں غزل میں فلاں لفظ یوں ہو جاتا تو شعر کس قیامت کا ہوجاتا ۔ جذبیؔ مولانا آزاد کی طرح اپنی گفتگو میں ایسے دو تین گمنام لوگوں کاذکر ضرور کرتے جن کے مشورے کو درست سمجھ کے انھو ںنے ’ ساحل کی تمنا کون کرے‘‘ جیسی مقبول غزلوں میں ایک دو حرف بدلنے میں اپنی شاعرانہ انا کو عناں گیر ہونے نہیں دیا تھا ۔ یہ خوبی بھی انھیں میں دیکھی کہ ریڈیو کے مشاعرے میں کلام سنانے کا دعوت نامہ بھیجا گیا ہے اور اس معذرت کے ساتھ واپس آگیا ہے کہ چونکہ تازہ کلام نہیں اس لیے پرانے سنا کر ریڈیو کے قواعد کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا ۔ جذبیؔ سال میں ایک یا دو اور کبھی کبھی تو کئی سالوں میں کچھ کہہ پا تے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تمام تر ادبی سرمایہ ڈیڑھ سو صفحات سے آگے نہیں بڑھ پایا ۔ اپنی کم گوئی کا جواز انھوں نے یہی دیا کہ وہ سوچ سمجھ کر اور خوب مانجھ کر غزل/ نظم کہتے ہیں اور جب تک ان کا اعتماد اور اطمینان آخری سرے پر کھڑے ہوئے ہری جھنڈی ہلا نہیں دیتا وہ غزل کو سرکولیشن میں آنے نہیں دیتے ۔ ان کی کم گوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے بدلتے ہوئے ادبی منظر نامے پر بھی نظر رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی مباحث ، تحریک یا سرگرمی کی صورت میں ہو رہا ہوتا ہے اسی کے شور میں خود کو گم کر دینے سے مزاجاً گریز کرتے ہیں اور پھر اپنے کہے ہو ئے کا احتساب کرتے ہیں ۔ اپنا لکھاہوا اس دوران اگر جی سے نہ اترا تو پھر اسے اپنی بیاض میں زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں ۔ وہ ترقی پسند تحریک پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس خیال کو اکثر دہراتے ہیں :
’’ ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیزسب سے اہم ہے، وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں ، لیکن کوئی تجربہ اس وقت تک موضوع سخن نہیں بنتا جب تک اس میں شاعر کو جذباتی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہو جائے ۔ یہی دونوں چیزیں شاعر کو قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں اور اگر شاعر کے پاس اپنا کوئی نقطۂ نظر ہے تو اس کی جھلک اس کے جذبات میں نظر آئے گی ۔ یہ جھلک کبھی ہلکی ہو گی کبھی گہری ، لیکن ہو گی ضرور ۔ کیونکہ جذبات و احساسات شاعر کی تنقیدی قوتوں سے بچ کر نہیں نکل سکتے ۔ عقل انھیں شعوری طور پرپرکھتی ہے ۔ اس عمل کے بعد شاعر کے نقطۂ نظر کا جذبات و احساسات میں سرایت کر جانا لازمی ہے ۔ یہاں ’’ حل‘‘ کی وضاحت ضروری نہیں ۔ اندا ز ِ بیان خود کی غمازی کرتا ہے ۔ دریا کا بہاؤ درست ہو نا چاہئے کشتی کشاں کشاں کنارے سے آ لگے گی ۔‘ ‘ ( دیباچہ فروزاں)
اس روشنی میں اگر فروزاں کو ہی پڑھا جائے تو کئی جگہ یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ جذبیؔ ترقی پسندی کی رائج کردہ شعری بوطیقا سے انحراف کرنے کی ہمت نہ کرسکے ۔ یہ بات خاص طور سے ان کی ان نظموں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جنھیں آل احمد سرور اور خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی ابتدائی تنقیدی اور تاثراتی تحریروں میں ’’ اہم ‘‘ قرار دیا ہے ۔ جذبیؔ نے اپنی گفتگو میں ہمیں یہ بات اکثر سجھائی کہ شاعری میں مکمل صداقت اور اس کے اظہار کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ان کی تین اہم گنی جانے والی نظمیں ’ ہلالِ عید‘ ، ’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘ اور ’ نیا سورج‘جذبیؔ کے اس شعری ایقان کی کھلی اور واضح تردید ہیں جسے میں نے نقل کیا ہے ۔ عید کا چاند برسوں سے طبقاتی تقسیم کے بغیر روزہ داروں کے لیے یکساں خوشی کا باعث رہا ہے ۔ غالب نے تو از راہ شوخی خس خانہ و برفاب نہ ہو نے کا ذکر کر کے روزہ رکھنے کے ثواب سے خود کو محروم رکھنے کا جواز پیدا کر لیا تھا ۔ لیکن جذبیؔ کے نزدیک ہلال عید تو در اصل روزہ داروں کے لیے نکلا ہے۔ کیو نکہ بقول ان کے جیب میں جتنے زیادہ پیسے ہوں گے ، عید کی مسرتیں بھی اتنی ہی بھاری بھرکم ہوں گی ۔ ایک غریب بے چارہ کیا عید منائے گا ۔ ایک مذہبی عقیدے کی رومانیت کو ترقی پسندی کی بھینٹ چڑھا دینے کی اس سے بھونڈی مثال اور کیا ہوگی ۔ اسی طرح فطرت اور اس کا حسن اس لیے ایک نادار کے لیے لا یعنی ہے کیونکہ وہ غریب ہے ۔ جب جیب میں پیسے ہوں اور کھانے کو روٹی میسر ہو تو ہر ٹوٹا پھوٹا منظر بھی تاج محل کی دید کا لطف دیتا ہے ۔
جذبیؔ کے یہاں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر فروغ پانے والا یہ زاویہ 34ء ، 37ء میں بڑا توانا تھا جو کئی برس بعد ساحر لدھیانوی کی نظم تاج محل میں ایک فن تعمیر اور اس کی خوبصورتی کی نفی کے طور پر مقبول ہوا تھا ۔’’ فروزاں‘ ‘ کے دیباچے میں جذبیؔ نے خود اس رویے کو ہدف بنایا جوترقی پسند شاعروں نے 1947ء میں ملک کو ملنے والی آزادی کے سلسلے میں اپنایا تھا ۔ لیکن ان کی نظم ’’ نیاسورج‘‘ آزادی کا پر جوش خیر مقدم نہیں کرتی ۔ یہاں پر کمیونسٹ پارٹی کا منشور ِ آزادی، شاعر کے نظم کے Textکا تعین کرتا ہے ۔
’’ فرزواں‘‘ کی ابتدائی غزلوں میں لوگ فانی کے حزنیہ لہجے کو دریافت کر کے سمندر سے موتی نکالنے والوں کی طرح شور و غوغا کرتے ہیں ۔ لیکن جذبیؔ بھی یہ جانتے ہیں کہ شعری وجدان کی سطح پر فانی سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے کیونکہ جذبیؔ نے شروع میں ملال ؔ تخلص کیا تھا اور آگرہ میں وہ فانیؔ کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے تھے ۔ اس لیے ان کے کسی قدر حزنیہ لہجے کے حسب نسب کو فانی تک ملا دینا آسان تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اردو کی لمبی چوڑی شعری روایت کے تسلسل میں کسی شاعر کا فانیؔ کے رنگ میں شعر کہنا باعثِ افتخار ہے؟ دوسرے معنی میں فانیؔ کیا خود ہماری شاعری کی پوری روایت میں ’’ تتبع کیے جانے ‘‘ کی شعری توانائی رکھتے ہیں ؟
جذبیؔ چونکہ اپنی شعری جہتوں سے واقف تھے ، انھوں نے جلد ہی نظم ترک کر دی اور غزل کو ایک نئے انداز سے قبول کیا ۔’’ فروزاں‘‘ میں ’دل‘ کو کلیدی لفظ اور کسی حد تک استعارے کی حیثیت حاصل تھی ، لیکن ’’ شب گذار‘‘ تک آتے آتے جذبیؔ کی غزل ایک دوسرے ہی لہجے سے آشنا ہوتی ہے جو دیوار پر لگے پرانے پلستر کو ناخنوں سے کھرچتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ 1950ء کے بعد جذبیؔ کی غزل، خلق کرنے کی ایسی حدوں میں قدم رکھتی ہے جہاں پہنچ کر ان کی غزلوں کے لیے مرجھانے کے مہ و سال نہیں آتے ۔
جذبیؔ 1950ء کے بعد نئی شعری آبادیاں بساتے ہیں اور ہم جیسے غزل کے موہ میں گرفتار ان آبادیوں میں سیر کرتے ہوئے ان کے انہدام کی نہیں بلکہ ان کے رونقوں کے فزوں تر ہونے کی تمنا کرنے لگتے ہیں ۔چند شعر:
جاگ اے نسیم خندۂ گلشن قریب ہے
اٹھ اے شکستہ بال نشیمن قریب ہے
شریکِ محفلِ دار و رسن کچھ اور بھی ہیں
ستم گرو ابھی اہل کفن کچھ اور بھی ہیں
جب بھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا
ڈھونڈو تو کچھ ستارے ابھی ہوں گے عرش پر
دیکھو تو حریفِ شبِ تار کیا ہوئے
چمن کی نذر ہیں یہ پارہ ہائے قلب و جگر
یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مرجھائیں
جذبیؔ نے اس آخری شعر کو ’’ گدازِ شب‘‘ کے پہلے صفحے پر لکھا ہے اور اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’ فروزاں‘‘ (مطبوعہ 1943ء) کے انتساب والے صفحہ پر یہ شعر لکھا ہے :
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں
لگتا ہے جذبیؔ نے چمن کو ہمیشہ ہی زندگی کا استعارہ سمجھا ہے اور سموم، نسیم اور پھول ان کے شعری اظہار کے مختلف پیرائے رہے ہیں ۔