Rajaji ki Ramayan Translated by Prof. Yunus Agaskar

Articles

راجا جی کی راماین:بال کانڈ

ڈاکٹر یونس اگاسکر

راجا جی کی راماین:بال کانڈ
(رام جنم سے سیتا سوlتک)

 

ترجمہ
ڈاکٹر یونس اگاسکر

 

 

اردو چینل ڈاٹ اِن
اندرونِ صفحات

l ابتدائیہ / ڈاکٹر یونس اگاسکر 9
l راجا جی کی راماین اور ترجمۂ یونس اگاسکر/ ڈاکٹر وِدّیا ساگر آنند 12
l راجا جی کی راماین:
¡ پہلا باب : حمل 27
¡ دوسرا باب : رِشی وِشوامتر 32
¡ تیسرا باب : ترشنکو 38
¡ چوتھا باب : رام محل سے سدھارتے ہیں 48

 

¡ پانچواں باب : رام کے ہاتھوں راکشسوں کا قتل 54
¡ چھٹا باب : سیتا 65
¡ ساتواں باب : Aتھ گنگا لاتا ہے 72
¡ آٹھواں باب : اہلیا 78
¡ نواں باب : سیتا سوl 85
¡ دسواں باب : پرشورام کی شکست 90

¡¡
ابتدائیہ

برسوں پرانی بات ہے۔ بھارت بھومی کی ایک ریاست مہاراشٹر میں واقع ُبنکروں اور محنت کشوں کی نگری بھیونڈی میں ایک گریجویٹ نوجوان رہتا تھا۔ اس نے ممبئی کے ایک قدیم کالج سینٹ زیویرس سے اُردواور عربی میں بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے کرنے کی تمنّا کو دِل میں دبائے ہوئے اپنی مادر درس گاہ رئیس ہائی اسکول میں ملازمت کرلی تھی۔ ان دِنوں معاون مدرّس کی اسامی کے لیے تدریس کی سند لازمی نہیں تھی۔ یہاں اُسے اُردو اور عربی کے علاوہ انگریزی اور تاریخ بھی پڑھانی پڑتی تھی۔
ایک دن اسکول کے چند طالب علموں نے جو گیارہویں درجے (ایس ایس سی) میں پڑھتے تھے اور جنھیں وہ انگریزی نہیں پڑھاتا تھا، اُس سے انگریزی کا ٹیوشن پڑھانے کی درخواست کی۔ ٹیوشن کرنا اُس نوجوان کے پسندِ خاطر نہ تھا اس لیے اُس نے معذرت کی اور خصوصاً کسی کے گھر جا کر پڑھانے سے صاف انکار کردیا۔ ساتھ ہی اُس کے اپنے گھر میں بھی اس کی گنجائش نہ ہونے کی بات اُن پر واضح کردی۔ مگر وہ طلبہ نہ مانے اور اُنھوں نے شہر کی قدیم جامع مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت حاصل کر کے اُسے راضی کرلیا۔ چناںچہ صبح کو اسکول شروع ہونے سے پہلے جامع مسجد کی اُوپری منزل کے وسیع ہال میں فرشی کلاس لگنے لگی۔
اُس وقت ایس ایس سی کی مجوّزہ انگریزی درسی کتاب میں سی راج گوپال اچاریہ یعنی راجاجی کی ’راماین‘ کا کچھ ّحصہ شامل تھا جس میں سیتا ہرن اور جٹایو کی راون سے جنگ اور ّہتیا کی حکایت مذکور تھی۔ ’راماین‘ کے قصّے سے واقف ہونے کے باوجود وہ نوجوان استاد جٹایو کی بے مثال قربانی کے واقعے سے متعارف نہ تھا۔ البتہّ سبق پڑھاتے ہوئے راجاجی کے اسلوب کی سلاست و حلاوت نے اُسے اتنا متا ّثر کیا کہ وہ راجاجی کا گرویدہ ہوگیا اور ان کا دِل سے احترام کرنے لگا۔ایک اسلامی عبادت گاہ میں راجاجی کی ’راماین‘ کی قرأت و تدریس کے انوکھے تجربے نے اُس نوجوان استاد کے جذبۂ احترام میں ایک سرشاری پیدا کردی تھی جس کی یاد اب تک برقرار ہے۔
راجاجی کی ’راماین‘ کے ابتدائی دس ابواب یعنی بال کانڈ کا زیرِ نظر ترجمہ اُسی خوب صورت یاد کے نام منسوب کرتے ہوئے راقم الحروف اپنے ملک کی رنگارنگ وراثت اور مذہبی رواداری پر اپنے اعتماد و یقین کو تازہ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ حسین روایت پایندہ تر ہو۔
’راماین‘ کے ان دس ابواب میں جو حکایات و واقعات درج ہیں اور جن اشخاص و اشیا کا تذکرہ ملتا ہے وہ ہندوستانی ادبیات اور مشترکہ تہذیب کا اٹوٹ ّحصہ ہیں۔رِشی وشوامتر جو کئی ّقصوں کے راوی ہیں، ہندو اساطیر کا ایک امر کردار ہیں اور اپنی عظمت کے سبب اقبال کی نظم ’جاویدنامہ‘ میں بھی ’جہاں دوست‘ کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔ ان کے علاوہ رِشیوں میں وسِشٹھ، اگستیہ اور کپل، اوتاروں میں وامن، راجاؤں میں مہابلی،Aتھ، پرشورام اور ترشنکو، راکشسوں میں راون، ماریچ اور تاٹکا، اپسراؤں میں مینکا اور رمبھا، عورتوں میں اہلیا، جانوروں میں کام دھینو، ہتھیاروں میں شیو کی کمان اور برہماستر— یہ سب ہندوستانی ادبیات اور لوک ساہتیہ کے جانے پہچانے نام ہیں جن سے اُردو کے قلم کار اور قاری بھی واقف ہیں اور ہمارے بعض تخلیق کاروں نے ان تلمیحات و اساطیر کو فن کارانہ انداز میں برتا بھی ہے۔
ان دس ابواب کے مطالعے سے یہ احساس اُبھرنے لگتا ہے کہ ہندو مایتھالجی کا ایک نمایاں
ّحصہ ہمارے سامنے مزید اُجاگر ہورہا ہے۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ شری رام اپنے ُگرو رِشی وِشوامتر کی آ ّگیا کا پالن کرتے ہوئے اپنے اوتار کو سوارت کرنے والے متعدّد کارناموں میں سے چند کی تکمیل کر کے جن میںسیتا سوl اور پرشورام کی شکست شامل ہیں، واپس ایودھیا لوٹ رہے ہیں تو ہمارے سامنے ’راماین‘ کا بال کانڈ سمپورن ہوجاتا ہے۔ اس اعتبار سے اس ترجمے کو اپنے آپ میں ّمکمل سمجھنا چاہیے۔
راجاجی کی ’راماین‘ کا ترجمہ ایک بزرگ کی فرمایش پر برسوں پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اِن بزرگ نے ایک بڑے ادارے کی جانب سے اس کی اشاعت کی سبیل پیدا کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا مگر جلد ہی اپنے وعدے سے پھر گئے اور بال کانڈ تک پہنچا ہوا یہ ترجمہ یوں ہی پڑا رہ گیا۔ لیکن ’اَلْاَمُوْرُمَـوْہُـوْنَۃٌ بِاَوْقَاتِـہا‘ یعنی ہرکام کا وقت ّمعین ہے کے مصداق علم و ادب کے حامی و طلب گار اور ’راماین‘ کے عاشقِ زار محترم ڈاکٹر وِدّیا ساگر آنند کی توجّہ نے نہ صرف اشاعت کی منزل کو آسان کردیا بلکہ ان کے گراںقدر مقالے اور کلماتِ تحسین نے اس ترجمے کی قدرومنزلت بڑھائی ہے۔برادرِ گرامی ساحرؔشیوی کی دل چسپی کے سبب یہ ممکن ہوسکا۔ اس لیے ان دونوں مر ّبیوں کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔
اس ترجمے کی اشاعت ہمارے دوست پریم گوپال متّل کے موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی کے زیرِاہتمام ہو رہی ہے، اس لیے یقین ہے کہ معیاری ہوگی۔ چناںچہ ان کا پیشگی شکریہ!
ممبئی/ یکم اپریل ۲۰۰۵ء (پروفیسر) یونس اگاسکر
راجا جی کی راماین اور ترجمۂ یونس اگاسکر

عہدِ جدید میں فاصلے کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ جدید سہولیات نے دُنیا کو ایک بین الاقوامی گا ￿نو کی حیثیت دے دی ہے۔ اب دُور دراز ممالک اور وہاں کے افراد سے واقفیت کے لیے ہمیں لمبے سفر نہیں کرنے پڑتے۔ کمپیوٹر، فیکس، ٹی وی اور ٹیلی کمیونی کیشن کی دیگر نعمتوں نے دُوریاں پاٹ دی ہیں۔ لیکن کیا ہم روحانی اور اخلاقی طور پر بھی ایک دوسرے کے نزدیک آسکے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ بے شمار مال و دولت اور لامحدود تکنیکی وسائنسی تر ّقیات کے باوجود روحانی طور پر ہماری دُنیا بے حد غریب ہے۔ موجودہ معاشرہ شراب نوشی، جنس زدگی، تشدّد اور نشیلی ادویہ میں ڈوب کر اخلاقی اقدار سے کوسوں دُور جاپڑا ہے، خصوصاً معاشی طور پر ترقی یافتہ مغربی دُنیا میں سخت بے چینی و بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ اُسے ایک ایسی فکر، ایک ایسے پارس ّپتھر کی تلاش ہے جسے چھوکر وہ ذہنی سکون و اطمینان حاصل کرسکے۔
لندن میں بسے ہوئے ایک عالمی شہری کی حیثیت سے دُنیا کا دورہ کرتے ہوئے میں نے شدید بے لگام اور بے سمت مادّہ پرستی کے نتائجِ بد دیکھے ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میری ولادت اُس ملک (بھارت) میں ہوئی جس نے ہزاروں برس پہلے مادّیت کے بہاو کے چیلنج کا سامنا کیا۔ اس ملک میں صدیوں سے صوفیوں، سنتوں اور رشیوں کی ایک ایسی روایت رہی ہے جس نے مادّی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو پہلے سے محسوس کرلیا تھا۔ اُن دُور اندیش افراد نے فطرت کی گود میں پوشیدہ تباہ کاریوں کو محسوس کرتے ہوئے دولت کی پوجا کے بُرے اثرات سے ہمیں بہت پہلے آگاہ کردیا تھا— انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ اس طرح ہم پاپ، پریشانی اور ذہن و کردار کی کمزوری کا شکار ہوجائیں گے۔
ہمارے قدیم ّمفکرین نے اس موضوع پر متعدّد گرنتھ تخلیق کیے ہیں، لیکن ان تمام گرنتھوں میں’راماین‘ ہی وہ واحد گرنتھ ہے، جو بے حد مؤثرّ اور واشگاف لفظوں میں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی انسانیت کے سامنے عملی طور پر ان دائمی اور جاوداں حقائق کو پیش کرتا ہے جو اس کے وجود کے ّتحفظ کے لیے لازمی ہیں۔ یہ گرنتھ واہموں کا شکار، مصیبت زدہ انسان کو، چاہے وہ مغرب کا ہو یا مشرق کا، ایک آدرش عالمی انسان بننے کی ترغیب دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
’راماین‘ میں بیان شدہ واقعات میں اس عہد کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے، جب انسان نے حکومتی انتظام، ٹیکس کے نظام، عدل و انصاف اور دیگر ضابطے طے کرکے تاریخ بنائی تھی۔ نئی اقدار کے حامل ایک نئے سماج کی تشکیل کی تھی۔ مذہب نے انسان کو ا ّچھائیوں کی ترغیب تو دی، لیکن محض دھرم کی تبلیغ سے سماج کی اصلاح نہیں ہوجاتی۔ انسان کی اصلاح کے لیے اُس کی فطرت، اُس کے کردار، معاشی و سماجی حیثیت، مختلف اخلاقی معیارات، اُس کی کم علمی، لاعلمی سبھی کی اصلاح ضروری ہے اور اس کی عکاّسی ’راماین‘ میں پوری ّسچائی اور ایمان داری سے ملتی ہے۔
’راماین‘ میں ہیرو بھی ہیں اور وِلن بھی۔ اس میں طاقت ور کمزور، بہادر ڈرپوک، باعلم بے علم، لالچی اور دیش بھگت، فہیم اور کورمغز، سبھی طرح کے کردار ہیں۔ یہاں ہم جھوٹ اور بدصورتی سے نفرت کرتے ہیں اور ّسچائی، حسن، وفاداری اور پاکیزگی کو گلے لگاتے ہیں۔ سیتا سے زیادہ خوب صورت، کومل اور پاکیزہ ہیروئن کہاں ہے؟ کیا رام سے زیادہ مہربان اور رحم دِل ہیرو کوئی ہے؟ بے ریا، بے غرض لکشمن سے بڑھ کر کون بھائی ہوسکتا ہے، جو اخلاص، سوامی بھگتی اور عقیدت کا ّمجسمہ ہو۔
آج ایسے آدرش کرداروں، ہیرو اور ہیروئینوں کا تذکرہ اکثر ہوتا ہے جو ہماری نئی نسل کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ ہندوستان اور برِّاعظم ایشیا میں متعدّد ایسے آدرش عورتیں اور مرد پیدا ہوئے ہیں۔ ایک مشہور عالم کا قول ہے کہ لوک نایک وہ ہوتا ہے جو اپنے لوگوں کے جذبۂ آزادی، خودمختاری اور دلیری کی نمائندگی کرسکے۔ رام کے کردار میں اُن کے لوک نایک ہونے کی ایک اور خصوصیت سامنے آتی ہے۔ وہ جب دنڈک ارنیہ کو پھر سے بساتے ہیں اور دھرتی کو گل و گل زار بنا دیتے ہیں تو ایک Eco-warrior (ماحولیات کے محافظ) کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور اُن کے کردار کی عصری معنویت مزید اُجاگر ہوجاتی ہے۔
ہندوستان کے عہد ساز مہان نیتا جانے اَنجانے ’راماین‘ اور اس میں مذکور قدیم اقدار سے متاثرّ ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی طے کرتے ہوئے ہمارے دانشوروں، خاص طور سے ہمارے ہر دِل عزیز رہنما پنڈت جواہر لال نہرو نے ’راماین‘ میں بیان کیے گئے آدرشوں کو اپنانے کی سعی کی تھی۔ مثال کے طور پر پنچ شیل کا نظریہ ’راماین‘ ہی سے ماخوذ تھا۔ پرامن بقائے باہم، پڑوسیوں سے ا ّچھا برتاو، مذہبی رواداری، خود مختار آزاد قوموں کو سماجی و معاشی ترقیّ کا حق، جنگ سے انحراف ایسے آدرش ہیں جو شدید مصائب سے دو چار اور جدّوجہد کرتی ہوئی دُنیا کے لیے رہنما اور درخشاں ستارے ہیں۔
دُنیا کو سب سے پہلے ہندوستان نے ’غیر جانب داری‘ کا اخلاقی اصول دیا ہے جس میں حق کی طرف داری شامل ہے کیوں کہ ’راماین‘ نے ہمیں سکھایا ہے کہ جب حق و باطل کے درمیان محاذ آرائی ہو، تب غیر جانب داری بے معنی بن جاتی ہے، تب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم حق کے طرف دار ہوں، لیکن اسی کے ساتھ ہمیں رواداری بھی اپنانی ہوگی، ’جیواور جینے دو‘ کا اصول بھی اپنانا ہوگا۔ کسی بھی ملک یا گروہ کو اپنے اعتقادات و نظریات دوسروں پر تھوپنے کا حق قطعی نہیں ہے۔ یہ راستہ تو جنگ کا راستہ ہے۔ واقعتا غیرجانب داری کا مطلب بے عملی اور لا ّتعلقی ہرگز نہیں ہے، غیر جانب داری کا مطلب تو اقوامِ عالم کو کسی ڈر، خوف اور دباو کے بغیر اپنا دوست منتخب کرنے کا حق دینا ہے۔ آدرشوں کی کھینچاتانی میں نہ پڑکر ُپرامن بقاے باہم کے لیے اپنے اثرات کو استعمال کرنا ہے۔ ’راماین‘ نے اس ّسچائی کو ہزاروں برس پہلے بیان کردیا تھا۔ آج کے حالات میں اگر غیر جانب دار تحریک کاوجود نہ ہوتا تو یہ دُنیا کب کی تباہ ہوچکی ہوتی۔ انسانیت کو نگلنے کے لیے جب جب جنگ کی آگ بھڑکی ہے، تب تب اس تحریک نے ’فائر بریگیڈ‘ کا کردار ادا کیا ہے۔
’راماین‘ میں فرماںبرداری، خود فراموشی، دیش بھگتی، شجاعت اور انصاف پسندی کے جن مثالی اوصاف کی تصویر کشی کی گئی ہے، وہ سب اوصاف صدیوں سے ہماری ’’زبانی روایات‘‘ کا ّحصہ ہیں۔ گا ￿نووں میں، جہاں بیش تر افراد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، سب لوگ جگہ جمع ہوکر ست ُیگ کی پریرنا دینے والی کتھائیں سنتے رہے ہیں۔
مدھر، بے مثال اور ُپر از معانی ’راماین‘ کے جذباتی واقعات کی ڈرامائی پیشکش بھی صدیوں سے ہوتی آئی ہے۔ کئی صدیوں پہلے، ہندوستان کے ابتدائی اسٹیج پر قدرتی مناظر کے پس منظر میں ان واقعات کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ رام کتھا کے ُپراز جذبات اور متاثر ُکن واقعات کی پیشکش کے وقت خوںخوار جانور بھی اپنی روش چھوڑ کر ُپر سکون اور شانت ہوکر بیٹھ جاتے تھے— عہدِ وسطیٰ کے گھمکّڑ گایک بھی بستی بستی گھوم گھوم کر رام کتھا کا گاین کرتے اور عوام سب کچھ بھول کر اس میں ڈوب جاتے تھے۔ اس وقت کے لوگوں کے پاس ’راماین‘ جیسی عظیم المرتبت تخلیق کو سننے اور اس سے فلاح حاصل کرنے کا وقت بھی تھا اور دلِ دردمند بھی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ’راماین‘ محض مذہبی تقریبات کے موقع پر ہی نہیں پڑھی جاتی تھی بلکہ ادبی محفلوں میں بھی اس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ آج تک نہ جانے کتنے شاعروں، ادیبوں، ڈراما نگاروں اور سنگیت کی سادھنا کرنے والوں کے لیے ’راماین‘ ترغیب کا باعث رہی ہے۔ آر۔ کے۔ ناراین نے، جنھیں عصری ہندوستان کا ایک مہان ناول نگار مانا جاتا ہے اور گراہم گرین نے جن کا موازنہ معروف روسی ادیب چیخوف سے کیا گیا ہے، اپنی زندگی پر پڑنے والے ’راماین‘ کے اثرات کو بڑی صاف گوئی سے قبول کیا ہے۔ماضی میں کالی داس اور بھوبھوتی جیسے بڑے ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں پر ’راماین‘ کے واضح اثرات کو قبول کیا ہے۔
ہمارے عہد کے جن مترجمین و شارحین نے راماین کی سماجی و اخلاقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اُن میں ہندوستان کے بزرگ نیتا چکرورتی راج گوپال اچاریہ عرف راجاجی کا نام بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے والمیکی اور کمبن کی راماینوں کو پیشِ نظر رکھ کر انگریزی میں جو راماین مرّتب کی ہے، اُس میں جگہ جگہ راماین کے واقعات اور بیانات کی نئی توجیہات پیش کرتے ہوئے ان میں دورِ حاضر سے مطابقت پیدا کی ہے۔ انھوں نے پڑھنے والوں کی ذہنی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔
راجا جی کی ’راماین‘ انسان کے بنیادی وصف، اس کی عظمت اور پاکیزگی میں یقین رکھتی ہے۔ یہاں ’انسان‘ سے مراد مرد اور عورت دونوں ہیں۔ انھوں نے دونوں کے بنیادی جسمانی فرق کو تو قبول کیا ہے لیکن عورت کو کہیں بھی مرد سے کم تر نہیں مانا— سیتا جی کی روشن اور تابناک کردار سازی اس کا ّبین ثبوت ہے۔ ایک آدرش ہندوستانی ناری کی جملہ خوبیاں سیتا میں موجود ہیں۔ سیتا نے اپنے شوہر کو پوری عزّت اور پریم دیا، جس کے عوض شری رام نے بھی انھیں بلند مرتبہ عطا کیا۔ سنگین ترین حالات میں ثابت قدم رہ کر حوصلہ اور ہمّت بنائے رکھنا سیتاجی کو اپنے شوہر کے وجدانی عشق کا مناسب ترین حق دار بناتا ہے۔ رام کے لیے سیتا ایک بیوی، ایک رفیق، ایک دوست ہیں، کوئی کنیز یا محض شہوانی تکمیل کا ذریعہ نہیں ہیں۔
’راجا جی کی راماین‘ مکمّل طور پر آشاوادی گرنتھ ہے۔ اس میں تشکیک اور قنوطیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ یہی تشکیک اور قنوطیت، عقلیت کی آڑ میں انسانی اقدار کو مسخ کرتی ہیں، یہی بُرائی کی توصیف اور ا ّچھائی کی مذ ّمت کرنا سکھاتی ہیں۔ ’راماین‘ کی لاتعداد تفسیریں کی گئی ہیں اور ہر تفسیرنگار نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’راماین‘ میں پوشیدہ عظیم انسانی صداقت کا ایک نہیں، متعدد نقطہ ہاے نظر سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ راجاجی کی دلیل بھی یہی ہے۔ وہ انسان کے ضمیر اور اس کی فہم کو ہراساں کرنا نہیں چاہتے اور نہ کسی اندھی تقلید کے قائل ہیں۔ اُن کا عقیدہ تو یہ ہے کہ خود فکر کرو؛ بس اتنا جان لوکہ کچھ ایسی صداقتیں ہیں جو زندۂ جاوید اور ناقابلِ تسخیر ہیں۔ ’راماین‘ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایسے ہی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی سماج کو ضرر رساں نسلی اقتدار سے نجات دلانے کی سمت میں کافی ترقیّ ہوئی ہے، لیکن اب بھی مذہبی قدامت پرستی کے پروردہ ایسے نام نہاد افراد اور ایسے متعدد طاقت ور گروہ موجود ہیں جو لوگوں کی مذہبی، روحانی اور تہذیبی برتری کی شناخت ’راماین‘ کی روشنی میں کرنے پرُمصر ہیں اور رنگ و نسل کے امتیاز کے لیے اس ّمقدس کتاب کا مطلب پرستانہ حوالہ دیتے ہیں،جب کہ ّسچائی یہ ہے کہ اس مدّلل انسانی رزمیہ میں کہیں ایک سطر بھی ایسی نہیں جو ولادت کی بنیاد پر نسلی امتیاز کی حمایت کرتی ہو۔ راجا جی کی ’راماین‘ واشگاف طور پر کہتی ہے کہ انسان تبھی تک کسی مخصوص امتیاز کا حامل رہ سکتا ہے جب تک وہ اوصافِ حمیدہ سے خود آراستہ رہے۔ جس انسان میں کام، کرودھ، لالچ، غرور اور خودغرضی جیسی اخلاق سوز برائیاں ہوں، اسے اعلا نسب انسان نہیں مانا جاسکتا۔ نسب کا مفہوم صرف جسمانی نہیں، باطنی بھی ہے۔ جہاں انسان کے ظاہر اور باطن میں فرق ہو، وہاں اس کے اعلا نسب ہونے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اعلا نسب میں پیدا ہوکر بھی اگر انسان کا ضمیر آلودہ ہو تو اُسے اعلا نسبی کا احترام پانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہر ذی رُوح کو معیارِ زندگی کی بہتری اور ایک مکمّل انسان بننے کا تہذیبی، سماجی اور معاشی موقع ضرور ملنا چاہیے۔ اگرچہ اس طرح کا کوئی پیغام ’راماین‘ میں واضح لفظوں میں نہیں دیا گیا ہے لیکن راجاجی کے ہاں یہ مفہوم بین ا ّلسطور میں مضمر ضرور ہے، اسی لیے اُن کی ’راماین‘ کو سرسری نظر سے پڑھ لینا کافی نہیں ہے، اس کا مطالعہ بڑی باریک بینی اور گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک صاحبِ فہم و عقل پر راجا جی کی ’راماین‘ کے ہر بار کے مطالعے سے کچھ نئی صداقتیں واشگاف ہوتی ہیں۔
ہماری موجودہ دُنیا میں بیش تر تنازعات اور آلام کا باعث نام نہاد اعلا طبقے کا، کسی وصف اور خوبی کے بغیر، اپنے آپ کو اشرف اور اکمل سمجھنا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے روییّ سے اپنی شرافتِ نفس کا ثبوت دیں تو ان کی اشرفیت کے قبول میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو وہ یہ حق کھو بیٹھتے ہیں۔ انسان کو دوسروں کا احترام تو کرنا ہی چاہیے۔ اسی کے ساتھ اسے آپ اپنی عزّت کرنا بھی سیکھنا چاہیے۔ اپنی عزّت خود کرنا بڑا مشکل کام ہے؛ خصوصاً اُس کے لیے جو کسی بھرم میں گرفتار ہو۔ ایک مقام پر شیکسپیئر نے کہا ہے:
’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان اپنے تئیں ّسچا رہے۔‘‘
لہٰذا جو لوگ رام کے سچیّ پیروکار ہونے کا دعوا کرتے ہیں لیکن رام کے آدرشوں کے برعکس نفرت، نارواداری، تشدّد اور دوسروں کو اذ ّیت کے درپے ہیں، انھیں ایک لمحہ رُک کر اپنے اس روییّ کا احتساب کرنا چاہیے۔ اگر انھیں اپنے اس روییّ پر افسوس اور پشیمانی ہوتی ہے تو وہ یقینا رام راجیہ کے قیام میں اپنا بیش قیمت تعاون دے سکیں گے— ایسا رام راجیہ پھر سے قائم کرسکیں گے جس میں رُوحانی اور اخلاقی آنند ہو۔ وہ اس آنند کے امرت بھرے سرچشمے سے سرشار ہوسکیں گے۔ ’راماین‘ کے آدرشوں کو ُبھلا کر بھیدبھاوکی سیاست کرنے میں مصروف سیاست دانوں کی متشدّدانہ فطرت راکھشسی مزاج کی علامت ہے۔ یہ لوگ رام کے نہیں راون کے پیرو دِکھائی دیتے ہیں۔راجا جی کی راماین ہمیں اُن سے بچنے کا اشارہ دیتی ہے۔
’راماین‘ کا بنیادی سبق ہے ’خاندان کا وقار۔‘ خاندان، سماج کا ایک چھوٹا رُوپ ہے۔ سماج کی طرح ایک خاندان کے بھی روزمرّہ کے کچھ ضابطے ہوتے ہیں۔ خاندان کی یک جہتی کے لیے ایک دوسرے کے تئیں اعتماد اور اخلاص بہت ضروری ہے— ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا بڑی ذمّے داری ہے۔ ہندوستان میں خاندان کی جتنی اہمیت ہے اُتنی دُنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ ہندوستانی سیاق میں خاندان کی اجتماعیت نے ہمیں نسلی تفاوت، غریبی، غیرملک کے حملے اور ناقابلِ قبول تہذیبی خرابیوں کے سامنے سپر ڈالنے نہیں دی ہے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اب ہمارے سماج میں بھی خاندانی اجتماعیت کی اہمیت گھٹ رہی ہے اور اس کی جگہ ذاتی غرض کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ اب ہر شخص سے اپنا راستہ خود بنانے کی تو ّقع کی جاتی ہے۔ جدیدیت کے نام پر بڑوں کا ادب، اخلاقی اقدار کا وقار اور اپنی تہذیب کا سمّان مفقود ہوتا جارہا ہے۔ باپ، بھائی، پڑوسی، شہری، یہاں تک کہ انسان کے افتخار کو گہن لگتا جارہا ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لیے، جن کی زندگی کے کئی برس ہندوستانی سماج میں گزرے ہیں، نامانوس، غیرمحفوظ اور مختلف غیرملکی تہذیبی پس منظر میں خاندان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اہلِ برطانیہ نہ صرف ہم ہندوستانیوں کی سخت کوشی اور کاروباری و تعلیمی لیاقت کے سبب ہمیں عزّت دیتے ہیں بلکہ ہماری خاندانی ہم آہنگی بھی ہمیں ان کی نظروں میں مستحسن بناتی ہے۔ خاندانی ہم آہنگی کا یہی جذبہ ہمیں وہ ّتحفظ، خلوص ، سکون اور باقاعدگی عطا کرتا ہے جس سے خاندان کے ہر فرد میں خوداعتمادی اور رجائیت پیدا ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے جدیدیت کے متزلزل کردینے والے اثرات کے باوجود، ہندوستان سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں میں خاندانی ہم آہنگی کے جذبے کو کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے۔
راجا جی کی’راماین‘ نے بڑی مہارت اور خوبصورتی سے ہمیں خاندان اور سماج کے فوائد سے متعارف کرایا ہے۔ جب تباہ کار مخالف عناصر سے ہمارا واسطہ ہو تب خاندان اور سماج کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ بھگوان رام پر جب مصیبت آئی، تب انھوں نے اپنے خاندان اور سماج کے تعاون سے ہی راون جیسے شہ زور دشمن پر فتح پائی تھی۔
جان ڈن نے لکھا ہے: ’’کوئی شخص ایک الگ جزیرہ نہیں ہوتا۔‘‘ جان ڈن سے ہزاروں برس پہلے ’راماین‘ یہی پیغام دے چکی ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہتے ہیں اور اجتماعی وطبقاتی فروغ کے ذمّے دار ہیں۔ پہاڑوں کے غاروں میں زندگی بسر کرنے والے رِشی مُنیوں کو بھی کبھی کبھار اپنے ُکنج سے باہر آکر سماج سے اپنے لیے غذا اور سماجی ّتحفظات حاصل کرنے پڑتے تھے۔ نجات کے ّمتمنی ان حضرات کی بات چھوڑ بھی دی جائے، جنھوں نے انسانی سماج سے اپنے آپ کو بالکل منقطع کرلیا ہے، تو بھی دیگر سبھی کو کبھی نہ کبھی انسانی سماج سے ّتعلق قائم کرنا ہی پڑتا ہے۔ خصوصاً بااقتدار شخص کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اخلاقیات کا اعلا نصب العین قائم کرتے ہوئے کمزوروں کو ّتحفظ مہیّا کرے۔ شہ زور دشمن ’بالی‘ کے خلاف کمزور ’ ُسگریو‘ کی طرف داری کرکے بھگوان رام نے جس انصاف پسندی کا ثبوت دیا تھا اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ بالی نے ُسگریو کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا۔ بھگوان رام نے انصاف کا ساتھ دیا اور ُسگریو کو اس کا حق دلوایا۔ سچ پوچھا جائے تو دھرم کا تقاضا یہی تھا۔ کوئی شخص بھی، چاہے وہ کتنا ہی بااثر، طاقت ور اور اہل ہو، دھرم سے اُوپر نہیں ہے۔بھگوان رام کی طرح ہر شخص کو حق کاطرف دار اور صداقت پسند ہونا چاہیے۔ راجاجی کی ’راماین‘ میں ان آدرشوں کا بڑا واشگاف بیان آیا ہے۔
آدمی کو دُنیا میں ایک مہمان کی طرح رہنا چاہیے اور اپنے افکار میں بھی ایک مہمان کی مانند ہونا چاہیے۔ اسے ہمیشہ صداقت پر قائم رہنا چاہیے۔ وہ ہے کون؟ حق نے اُسے مٹّی سے گھڑا اور آگ میں تپا کر یہ فانی شریر دیا ہے۔ حق کے بنا وہ مٹّی کے ایک ڈھیلے کی طرح ہے۔ اس کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ مادّی عظمت کا خواہش مند نہ ہو۔ اگر دولت کا خواہش مند ہے تو اخلاص کی دولت جمع کرے، استغنا کی نعمت پائے اور عاجزی کو فروغ دے کر لمحہ بھر میں لافانیت حاصل کرلے۔
جس بھارت بھومی نے تقوے اور حقوقِ انسانی کے دفاع میں ایسا عظیم فلسفیانہ گرنتھ دیا اُسی بھومی پر آج انسانی افتخار کی تذلیل کی جارہی ہے۔ وِشوامتر ہمیں ایسے اعمالِ بد سے آگاہ کرتے ہیں لیکن ہمارے باطن کے دشرتھ ہمارے اندر کے رگھونندن کو ان برائیوں سے لڑنے کے لیے رِشی (ضمیر) کے ساتھ جانے نہیں دیتے۔ اسی لیے موجودہ دُنیا میں شیطانی طاقتیں پوری قوّت سے تانڈو کر رہی ہیں۔ ’راماین‘ کے مطابق جب چھتری بھی صداقت اور مذہب کے دفاع میں ناکام رہے تب پرشورام کی صورت میں ظاہر ہوکر بھگوان نے ان نام نہاد محافظوں کا خاتمہ کیا۔ اور تب بھگوان رام کا جنم ہوا جنھوں نے اپنے برتاو سے ’چھاتردھرم‘ کی مریادا قائم کی۔
دُنیا کے حق اور دھرم سے بھٹک جانے کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر سماج میں سچ اور جھوٹ، ا ّچھائی اور برائی کے درمیان رسّاکشی جاری رہتی ہے، جہاں کسی ایک برائی کو دبایا جاتا ہے وہیں دوسری برائی سر اُٹھانے لگتی ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ یہ برائیاں غالب نہ ہوجائیں اور آخری فتح بہرحال نیکی کی ہو۔ راجاجی کی ’راماین‘ ان لوگوں کے لیے محرّک کی حیثیت رکھتی ہے جو دُنیا کو بہتر، انصاف پرور اور خوبصورت بنانا چاہتے ہیں۔ مثلاً اہلیا کے اُدّھار کے واقعے کی مثال دیتے ہوئے راجا جی فرماتے ہیں:
’’اہلیا کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا پاپ کتنا ہی بڑا ہو،سزا اور پرائشچت سے گزر کر ہم اس سے نجات پانے کی تو ّقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے پاپوں پر انھیں لعنت ملامت کرنے کے بہ جائے ہم خود اپنے دِلوں کو ٹٹولیں اور ہر قسم کے ُبرے خیال سے انھیں پاک کرنے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے جو سب سے نیک ہیں انھیں بھی گناہوں سے بچنے کے لیے ہمیشہ بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔‘‘
مندرجۂ بالا اقتباس میں نے پروفیسر یونس اگاسکر کے اُردو ترجمے سے لیا ہے جو اس وقت میرے زیرِ نظر ہے۔ راجاجی کی انگریزی ’راماین‘ ہمارے عہد کی اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کی سلیس و رواں انگریزی ہمارے دِلوں کو چھو جاتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرّت ہوئی کہ پروفیسر یونس اگاسکر نے نہ صرف اصل کی روانی و سلاست کو بڑی صفائی سے اُردو میں منتقل کیا ہے بلکہ سنسکرت اور ہندی کے الفاظ و تراکیب کو بھی اس خوبی سے برتا ہے کہ ا ّجنبیت کا احساس نہیں ہوتا اور ہم ’راماین‘ سے وابستہ لسانی و ثقافتی ماحول میں پہنچ جاتے ہیں۔
پروفیسر یونس اگاسکر کو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور ملک کی وحدت و سالمیت سے گہرا لگاو رہا ہے۔ اُنھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے مختلف زبانوں خصوصاً مراٹھی اور اُردو بولنے والوں کے درمیان جذباتی، تہذیبی و لسانی قربت و ہم آہنگی پیدا کرنے میں جو یوگ دان کیا ہے وہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔
ممبئی یونی ورسٹی میں انھوں نے ُگرودیو ٹیگور چیئر اور شعبۂ اُردو کے باہم اشتراک سے ’راماین‘ اور ’مہابھارت‘ کی روایات پر جو دو قومی سیمینار کیے ہیں، وہ بھی ہمارے مشترک قومی ورثے کے ّتحفظ میں اُن کی اہم خدمت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ ان دو عظیم رزمیوں سے اُن کی دلچسپی کے پیشِ نظر اُن کے قلم سے راجاجی کی انگریزی ’راماین‘ کا اُردو میں منتقل ہونا ایک فطری عمل معلوم ہوتا ہے، جسے پروفیسر یونس اگاسکر نے بڑی تن دہی اور لگن سے انجام دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ راجاجی کی ’راماین‘ کے بال کانڈ کا یہ ترجمہ، جس میں سری رام کی پیدائش سے لے کر سیتا سوl اور پرشورام کو شکست دے کر اس کا غرور توڑنے تک کے واقعات شامل ہیں، ہمارے اندر رُوحانی تسکین کا احساس پیدا کرتا ہے۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ تقسیم سے قبل شمالی ہند اور پنجاب کے ہندو اور مسلم اُردو ہی میں لکھتے پڑھتے تھے اور ہندوؤں کی ّمقدس کتابیں بھی اُردو زبان یا رسمِ خط میں چھپتی تھیں۔ راقم الحروف نے بھی ’راماین‘ سے پہلی واقفیت اُردو زبان ہی کے توسّط سے حاصل کی تھی۔ لیکن تقسیم کے بعد لسانی ماحول بدل گیا اور اُردو میں ’راماین‘ یا ’مہابھارت‘ وغیرہ کی اشاعت کا سلسلہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔
ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے پروفیسر یونس اگاسکر کا کہ انھوں نے اس حسین روایت کا احیا کیا ہے اور اُردو کے ہندوستانی مزاج کو اُجاگر کرنے میں اپنے قلم کی طاقت اور ذہنی صلاحیت کو صرف کیا ہے۔ کاش کہ وہ ّمکمل ’راماین‘ کا ترجمہ کرپاتے مگر موجودہ صورت میں بھی یہ کتاب شری رام کی زندگی کے ایک اہم موڑ یا سنگِ میل تک ہمیں پہنچاتی ہے اور اس اعتبار سے مکمّل ہے کہ رام جب رِشی وِشوامتر کی آرزو کی تکمیل کر کے سیتاجی کے ہمراہ ایودھیا نگری لوٹتے ہیں تو ہم بھی اپنے من کی ایودھیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اُردو کے ہندو مسلم قارئین، جن میں بچیّ بھی شامل ہوں گے اور ادب کے ماہرین و ناقدین بھی، پروفیسر ُیونس اگاسکر کی اس ادبی و قومی خدمت کی سراہنا کریں گے۔ میری نیک تمنّائیں ان کے ساتھ ہیں۔
(ڈاکٹر) وِدّیا ساگر آنند
لندن

——-v——-
راجا جی کی راماین : بال کانڈ
(رام جنم سے سیتا سوl تک)
——-v——-

 

یہاں دو باتوں کا ذکر ضروری ہے:
اس ترجمے کا دسواں باب پرشورام کی شکست سے ّمتعلق ہے لیکن ’راماین‘ کے واقعات میں سیتاسوlکو غیرمعمولی مقبولیت و شہرت حاصل ہے اور یوں بھی یہ ترجمہ رام اور سیتا کے ایودھیا لوٹنے پر پورا ہوتا ہے اس لیے کتاب کے ذیلی عنوان میں ’سیتا سوl‘ کو ترجیح دی گئی ہے۔
دوسرے یہ کہ ّبچوں، ِتعلیم بالغاں کے تحت اُردو پڑھنے والوں اور غیرملکی طالبِ علموں کی سہولت کی خاطر ترجمے کے متن (Text)کو جلی حرفوں میں چھاپا گیا ہے۔ اُ ّمید کہ ’راماین‘ کے اس ترجمے کے قدردانوں کو یہ بات پسند آئے گی۔
پہلا باب

 

حمل

دریاے گنگا کے شمال میں عظیم کوشل راج واقع تھا جس کی سرزمین کو سریوُندی نے زرخیز بنادیا تھا۔ اس کی راج دھانی ایودھیا تھی جسے سورج بنسی خاندان کے مشہور حکم راں ’’منو‘‘ نے تعمیر کیا تھا۔ والمیکی نے اپنی راماین میں جو تفصیلات دی ہیں، ان سے صاف پتا چلتا ہے کہ قدیم ایودھیا نگری ہمارے جدید شہروں سے کم تر نہیں تھی۔ قدیم بھارت میں بھی شہری تہذیب، اعلا درجے تک تر ّقی کرچکی تھی۔
راجا دشرتھ اپنی راجدھانی ایودھیا سے اس سلطنت پر حکومت کیاکرتے تھے۔ انھوں نے مختلف جنگوں میں دیوتاؤں کا ساتھ دیا تھا اور اپنی شجاعت کی بدولت تینوں لوکوں میں نام کمایا تھا۔ وہ بہادری میں اِندر اور دولت میں ُکبیر کے برابر تھے۔ کوشل راج کی رعایا خوش حال، مطمئن اور راست باز تھی۔ اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک زبردست فوج موجود تھی اور کوئی دشمن اس کی سرحد کے قریب پھٹکنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
سلطنت کی حفاظت کے لیے قلعے بھی تھے جن کے اِرد گرد خندقیں اور دیگر بہت سی ّتحفظاتی تنصیبات تھیں جن کی بدولت ایودھیا اپنے نام ہی کے مصداق دشمنوں کو ناکام بنائے ہوئے تھی۔ (ایودھیا کے معنی ہیں: غیر مفتوح)
راجا دشرتھ کے دس دانش مند وزیر تھے جو انھیں مشورہ دینے اور ان کا حکم بجالانے کے لیے ہر وقت مستعد رہا کرتے تھے۔ وسِشٹھ اور وام دیو جیسے رشی اور دیگر برہمن دھرم کی تعلیم دینے اور مذہبی رسومات اور Bکی تکمیل کے لیے موجود تھے۔ اس ملک میں محصول بہت کم تھے اور جرائم کی سزائیں انصاف پر مبنی تھیں اور خطاکار کی قوّتِ برداشت کے مطابق اس پر عائد کی جاتی تھیں۔ بہترین مشیروں اور سیاست دانوں کی موجودگی کے سبب راجا دشرتھ کی شان و شوکت چڑھتے سورج کی طرح روشن سے روشن تر ہوتی چلی گئی۔
اس طرح کئی سال گذر گئے لیکن ہر قسم کی خوش حالی کے باوجود راجا دشرتھ کو ایک غم کھائے جاتا تھا۔ اُن کے کوئی بیٹا نہ تھا۔
گرمیوں کی ابتدا میں ایک دن انھوں نے سوچا کہ اولاد کے لیے ’اَشومیدھ‘ کیا جائے۔ انھوں نے اپنے مذہبی ُگروؤں سے مشورہ کیا اور ان کی صلاح سے رِشی ’رِشیہ سرنگ‘ کو B کرنے کی دعوت دی۔
یہ B ایک غیر معمولی تقریب تھی جس میں اس وقت کے تمام راجے اور حکمراں مدعو تھے۔ B کی انجام دہی آسان نہ تھی۔ اس کے لیے جگہ کا انتخاب اور قربانی کے لیے منچ کی تعمیر مذہبی صحیفوں میں درج اصولوں کے عین مطابق ہونی چاہیے تھی۔ متعدّد ماہرین سے اس کے انتظامات کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کی گئی۔ چناںچہ طے پایا کہ ایک ایسا شہر بسایا جائے جس میں ہزاروں مہمانوں کے لیے، جن میں شہزادے اور رشی شامل تھے، رہایش، ضیافت اور تفریح کا سامان مہیّا ہو۔ مختصر یہ کہ اس زمانے کے B ہمارے دَور کی ریاستی یا حکومتی سطح کی کانفرنسوں اور نمائشوں سے کم نہ تھے۔جب سارے انتظامات ّمکمل ہوگئے تو شاستروں کی ہدایتوں کے مطابق رسومات کا آغاز کیا گیا۔
جس وقت ایودھیا میں B چل رہا تھا، سورگ میں دیووں کی مجلسِ مشاورت ہورہی تھی۔ دیووں نے برہما سے شکایت کی کہ راکھشسوں کا راجا راون، برہما کے وردان کے سبب حاصل ہونے والی طاقت کے نشے میں انھیں حد سے زیادہ تکلیفیں اور اذ ّیتیں دے رہا تھا۔ انھوں نے برہما کی خدمت میں عرض کیا:
’’یہ ہماری طاقت سے باہر ہے کہ راون پر غلبہ یا فتح حاصل کریں یا اُسے جان سے ماردیں۔ آپ کے وردان کے ّتحفظ کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ شریر اور گستاخ ہوگیا ہے اور سب کے ساتھ، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، نہایت ُبرابرتاو کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اِندر کو تخت سے اُتار دے۔ اب ہمارے لیے آپ کی شرن لینے کے سوائے کوئی چارۂ کار نہیں رہا۔ اب آپ ہی کوئی طریقہ ایسا نکالیے کہ راون کا خاتمہ ہو اور اس کے ظلم و ستم سے سب کو نجات ملے۔‘‘
برہما جانتے تھے کہ راون کی ّتپسیا اور پرارتھنا سے خوش ہوکر انھوں نے اس کا ￿منہ مانگا وردان اسے دیا تھا، جس کے بل پر وہ دیووں، اَسوروں، گندھرووں اور ایسی ہی دیگر مخلوقات کے لیے غیر مفتوح اور ناقابلِ شکست ہوگیا تھا۔ البتہّ اپنے غرور کے نشے میں راون نے انسانوں کے خلاف ّتحفظ مانگنے کی پروا ہی نہیں کی تھی۔ جیسے ہی برہما نے راون کی اس بھیانک غلطی کی نشان دہی کی، سارے دیووں نے خوشیاں منائیں اور وشنو کی طرف روانہ ہوگئے۔
اپنے آپ کو ہری کے قدموں پر نثار کرتے ہوئے سارے دیووں نے ان سے التجا کی کہ انسان کا روپ لے کر پرتھوی پر جنم لیں اور راون اور اس کے اتیاچاروں کا خاتمہ کریں۔ ہری نے اُن کی پرارتھنا مان لی اور دیووں سے وعدہ کیا کہ وہ راجا دشرتھ، جو اس وقت اپنی نسل کے لیے Bکرنے میں مشغول تھے، کے چار پتروں کے روپ میں جنم لیں گے۔
چناںچہ جیسے ہی B کی اگنی میں گھی انڈیلا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوئے، ان شعلوں میں سے ایک پُرشکوہ شبیہ، بلند ہوئی جو دوپہر کے سورج کی طرح روشن تھی اور جس کے ہاتھ میں ایک سونے کا پیالہ تھا۔ راجا دشرتھ کو اس کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے اس شبیہ، نے کہا:
’’دیوتا تم سے پر ّسن ہوئے اور تمھاری پرارتھنا انھوں نے قبول کرلی۔ یہ ’پایسم‘ لوجودیوتاؤں نے تمھاری رانیوں کے لیے بھیجا ہے۔ جب تمھاری رانیاں اس ّمقدس مشروب کو پی لیں گی تو تمھارے یہاں دیوتاؤں کی مہربانی سے لڑکوں کی پیدایش ہوگی۔‘‘
راجا دشرتھ نے بے حد خوش ہوکر اس پیالے کو کسی ّننھے بچیّ کی طرح اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنی تینوں رانیوں کوشلیا، سمترا اور کیکئی کے درمیان وہ پایسم تقسیم کردیا۔ سب سے پہلے انھوں نے کو شلیا سے کہا کہ وہ آدھا پایسم پی لیں۔ پھر بچا ہوا آدھا پایسم انھوں نے سمترا کو دیا۔ سمترا نے اس میں سے آدھا پی لیا تو بچا ہوا پایسم کیکئی کو دیا گیا۔ کیکئی نے پایسم پینے کے بعد آخری بچا ہوا ّحصہ پھر سے سمترا کو دیا۔
راجا دشرتھ کی رانیاں ’پایسم‘ پی کر ایسے خوش ہوگئیں جیسے کسی فقیر کو گڑا ہوا خزانہ مل جائے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد وہ تینوں حاملہ ہوگئیں۔
دوسرا باب

 

رِشی وِشوا ِمتر

کچھ عرصے بعد راجا دشرتھ کے ہاں چار لڑکے پیدا ہوئے۔ کوشلیا اور کیکئی نے رام اور بھرت کو جنم دیا۔ ُسمترا نے دوجڑواں بچوں لکشمن اور شتروگھن کو جنم دیا۔ کیوںکہ انھوں نے دو مرتبہ ’پایسم‘ پیا تھا۔
روایت مشہور ہے کہ راجا دشرتھ کی رانیوں میں سے جس نے جتنی مقدار میں پایسم پیا، اس کی اولاد میں اسی قدر وشنو کی خصوصیات پیدا ہوئیں۔ اس طرح رام آدھے وشنو ہوگئے۔ مگر اس طرح کے قیاسات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس لیے کہ ابدیت کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا۔ شرتی (وید) کے مطابق اس ذاتِ اکبر کا ایک ذرّہ بھی ُکل ہوتا ہے اور اپنی ذات میں ّمکمل ہوتا ہے۔
’’ ُکل کیا ہے۔ یہی ُکل ہے اور جو کچھ ُکل سے نکلا ہے وہ بھی ُکل ہے۔ جب ُکل سے ُکل کو نکالا جاتا ہے تو ُکل ہی باقی رہتا ہے۔‘‘
راجا دشرتھ کے چاروں بیٹوں کو وہ ساری تعلیم و تربیت دی گئی جو راج کماروں کے لیے ضروری تھی۔ رام اور لکشمن میں بڑی ّمحبت تھی۔ اور بھرت اور شتروگھن آپس میں بڑا پیار رکھتے تھے۔ ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس خصوصی لگاو کا سبب وہ طریقہ تھا جس کے تحت ّمقدس پایسم راجا دشرتھ کی رانیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ راجا دشرتھ یہ دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے کہ ان کے بچیّ نہ صرف قوی، صالح، بہادر اور سب کے پیارے ہوگئے تھے بلکہ راج کماروں کی ساری خوبیوں کے حامل تھے۔
ایک روز راجا دشرتھ بیٹھے اپنے ّبچوں کے بیاہ کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ دربانوں نے عظیم رِشی وِشوامتر کی آمد کا اعلان کیا۔ وشوامتر کو رشیوں میں سب سے طاقت ور رشی کی حیثیت سے بڑی عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ایودھیا میں رِشی وِشوامتر کی آمد قطعی غیرمتو ّقع تھی۔ راجا دشرتھ نے اپنے تخت سے اُترکر اور چند قدم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔
وِشوامتر دراصل ایک راجا تھے جنھوں نے کڑی ّتپسیاؤں کے بعد رِشی کا درجہ حاصل کیا تھا۔ بہت عرصے پہلے انھوں نے اپنی روحانی قوّتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نیا برہما اور ایک نئی کاینات تخلیق کرنی شروع کی تھی۔ وہ اپنے اس کام میں یہاں تک آگے بڑھ گئے تھے کہ نئے اجرامِ فلکی تک بنالیے تھے۔ مگر گھبرائے ہوئے دیوتاؤں نے منّت سماجت کرکے انھیں اس ارادے سے باز رکھا۔
قصہ یہ ہوا کہ اپنی حکم رانی کے زمانے میں وِشوامتر ایک مرتبہ اپنی فوج لے کر نکلے تو اچانک وسِشٹھ رشی کے آشرم پہنچ گئے۔ رِشی نے خوش دلی سے اس شاہی مہمان اور اس کی وسیع فوج کا استقبال کیا۔ اور ایسے لذیذ کھانوں سے ان کی تواضع کی کہ راجاوشوامتر کو حیرت ہوئی۔ بھلا جنگل کی ایک کٹیا میں چیزوں کی یہ افراط کہاں سے ہوئی۔ جب انھوں نے وسِشٹھ رِشی سے وضاحت چاہی تو انھوں نے اپنی گائے ’’سبلا‘‘ کو آواز دی اور بتایا کہ یہی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا ￿منبع ہے۔
رِشی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے راجا وِشوامتر نے کہا ’’آپ یہ گائے مجھے دے دیجیے اس لیے کہ یہ میرے لیے آپ سے زیادہ کار آمد ثابت ہوگی۔ قوّت اور دولت کی حامل چیزیں راجاؤں ہی کو زیب دیتی ہیں۔‘‘
وسِشٹھ کے لیے ّمقدس گائے کو چھوڑنا ممکن نہ تھا۔ اُنھوں نے کئی عذر پیش کیے اور راجا سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں اصرار نہ کریں لیکن جوں جوں وسِشٹھ کا انکار بڑھتا گیا، گائے حاصل کرنے کے لیے وِشوامتر کی بے قراری میں اضافہ ہوتا گیا۔ رِشی کو لالچ یا ُپھسلاوا دے کر گائے حاصل کرنے کی کوشش میں ناکام ہونے پر وِشوامتر کو غصّہ آگیا اور انھوں نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ گائے کو زبردستی پکڑ لیں۔
بے چاری سبلا نہیں سمجھ سکی کہ اس کے ساتھ زور زبردستی کیوں کی جارہی ہے۔ وہ خود بھی رشی اور ان کے آشرم سے الگ ہونا نہیں چاہتی تھی۔ آ ￿نسو بہاتے ہوئے وہ حیرانی سے سوچتی رہی کہ اس سے کیا قصور ہوگیا ہے کہ وسِشٹھ ُچپ چاپ کھڑے دیکھ رہے ہیں مگر کھینچ لے جانے والوں سے اسے چھڑا نے کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ آخر گائے نے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور رِشی کے قدموں میں پناہ لی۔اپنی محبوب گائے کی قابل رحم حالت سے وسِشٹھ بڑے متاثرّ ہوئے۔ وہ ان کے لیے چھوٹی بہن کی مانند تھی۔ انھوں نے فرمایش کی:
’’ایک فوج کھڑی کردو جو وشوامتر کی فوج کا مقابلہ کرے۔‘‘
سبلا نے فوراً حکم کی تعمیل کی جس کے نتیجے میں حملہ آوروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ وِشوامتر غضب ناک ہوکر اپنے رتھ پر سوار ہوئے اور اپنی کمان اٹھاکر گائے کی پیدا کی ہوئی فوج پر تیروں کی بارش کردی مگر دُشمن کی طاقت اور تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کے تیر ختم ہوگئے اور ان کی فوج کو مکمّل شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وِشوامتر کے چند لڑکوں نے وسِشٹھ کو نشانہ بنایا مگر وسِشٹھ کی جگہ وہ خود جل کر خاک ہوگئے۔
شکست اور ہزیمت اٹھانے کے بعد وِشوامتر نے اُسی وقت اپنی حکومت اپنے ایک لڑکے کو سونپی اور ّتپسیا کرنے کے لیے ہمالیہ کی طرف چلے گئے تاکہ وسِشٹھ کو نیچا دِکھانے کے لیے شیو کی آرادھنا اور پوجا کریں۔ وِشوامتر نے اپنی ّتپسیاؤں میں وہ ثابت قدمی اور استقلال دکھایا کہ شیو نے خوش ہوکر انھیں درشن دیا۔ بھگوان نے راجا سے پوچھا: ’’تم اپنی ّتپسیا کا کیا پھل چاہتے ہو؟‘‘
وِشوامتر نے جواب دیا: ’’اے اُماپتی! اگر آپ میری ّتپسیا سے مطمئن ہیں تو مجھے آسمانی تیر اور سارے ہتھیار چلانے کی مہارت کا وردان دیجیے۔‘‘
’’تتھاستو!‘‘ شیو نے کہا اور دیووں، گندھرووں، رشیوں، یکشوں اور راکھشسوں کو حاصل سارے ہتھیار وشوامتر کو سو￿نپ دیے۔
فخر سے سمندر کی طرح پھول کر وِشوامتر نے سوچا کہ اب وسِشٹھ کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ سیدھے رِشی کی ُکٹیا کی طرف روانہ ہوگئے۔ وِشوامتر کی غضب ناک شکل دیکھتے ہی وسِشٹھ کے چیلوں اور آشرم کے مویشیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔
وِشوامتر کے اگنی بان نے وسِشٹھ کے آشرم کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ وسِشٹھ کو حالات کا رُخ دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا مگر انھوں نے ّتہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس مغرور راجا کے غرور کو توڑکے رہیں گے۔ چناںچہ انھوں نے اپنی ّمقدس لاٹھی ’’برہما نند‘‘ اٹھائی اور وشوامتر کا مقابلہ کرنے لگے۔ غصّے میں لال پیلے ہوکر وِشوامتر نے سارے آسمانی ہتھیار اُن پر چلائے لیکن وہ سارے کے سارے رشی کی لاٹھی کے نزدیک پہنچتے ہی اس کے اندر سماتے چلے گئے گویا وہ انھیں پی گئی ہو۔
اب تو وِشوامتر کے پاس صرف ایک ہتھیار بچ رہا تھا جو سب سے طاقتور تھا یعنی ’’برہماستر۔‘‘ جیسے ہی انھوں نے وسِشٹھ پر وہ ہتھیار چلایا، ساری دُنیا پر اس طرح غم کی فضا چھا گئی جیسے بہت بڑا سورج گہن لگا ہو اور ساری مخلوق خوف سے کانپنے لگی ہو۔ لیکن وہ خوفناک ہتھیار بھی رِشی کی لاٹھی میں سما گیا۔ جس کے نتیجے میں وہ لاٹھی اور رِشی دونوں اس کی روشنی سے منوّر ہوگئے۔
وِشوامتر بدحواس ہوگئے۔ کھلے طور پر شکست کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
’’ہتھیار چلانے میں ایک چھتری کی مہارت کی حیثیت ہی کیا ہے اگر محض ایک لاٹھی کے ذریعے وسِشٹھ میرے سارے ہتھیاروں کا خاتمہ کردے۔ شیو نے یقینا مجھے بیوقوف بنایا اب میرے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ میں بھی وسِشٹھ ہی کی طرح برہم رِشی بن جاؤں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وِشوامتر میدانِ جنگ سے نکل گئے اور مزید کڑی ّتپسیا کرنے کے لیے جنوب کی طرف چلے گئے۔
سالہا سال تک وِشوامتر نے طرح طرح کی ّتپسیائیں کیں۔ برہما ان کی ریاضت کو دیکھ کر خوش ہوئے، اور انھیں اپنا درشن دیا۔ وِشوامتر کو یہ بشارت دیتے ہوئے کہ وہ اپنی ّتپسیا کی وجہ سے راجاؤں میں رِشی کے مرتبے کو پہنچ چکے ہیں، برہما غائب ہوگئے۔
وِشوامتر کو بڑی مایوسی ہوئی کہ اتنی ساری ریاضت اور ّتپسیا کے باوجود انھیں محض راجا رِشی کا درجہ حاصل ہوسکا۔ اپنے آپ کو برہم رِشی کے اعلا ترین مرتبے تک پہنچانے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو اور کڑی ّتپسیاؤں میں مبتلا کیا تاکہ انھیں وسِشٹھ کی برابری حاصل ہوسکے۔
تیسرا باب

 

ِترشنکو

یہ وہ زمانہ تھا جب سورج بنسی خاندان کا مشہور راجا ترشنکو حکومت کرتا تھا۔ وہ اپنے جسمانی حسن کا اس قدر عاشق تھا کہ مرتے وقت بھی اپنے جسم کو خود سے الگ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ ہی سورگ میں داخل ہو۔
وسِشٹھ نے جو اس کے پروہت تھے اور جن سے اس نے مدد مانگی تھی، اس کی خواہش جان کر اسے سمجھایا کہ اس ناممکن بات کا خیال چھوڑ دے۔ وسِشٹھ کے جواب سے مطمئن نہ ہوکر راجا ترشنکو نے ان کے بیٹوں سے مدد مانگی۔ انھیں اس سے رنج پہنچا کہ جس بات کو ان کے پِتا نے ناممکن بتایا تھا اس کے لیے راجا نے ان کی مدد مانگی۔ چناںچہ انھوں نے اس کی خودبینی کا مذاق اُڑایا اور اسے صاف صاف چلے جانے کے لیے کہا۔ لیکن راجا ترشنکو اپنا ارادہ بدلنے کو تیاّر نہ تھا۔ اس نے طنز کرتے ہوئے کہا ’’تم اور تمھارے ِپتا اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ میری مدد کرسکیں اس لیے میں کچھ اور بلوان رِشیوں کی مدد لوں گا۔‘‘ اب تو وسشٹھ کے بیٹوں کی قوّتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ بولے: ’’بھگوان کرے تم چنڈال ہو جاؤ۔‘‘
اس شراپ کا اثر فوراً ہونے لگا اور دوسری صبح ترشنکو سوکر اٹھاتو اس کی شخصیت پوری طرح تبدیل ہوچکی تھی۔ وہ گندے کپڑوں میں ملبوس ایک بدشکل انسان بن چکا تھا۔ اس کے وزیروں اور محل کے لوگوں نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا۔ نتیجے میں وہ اپنی سلطنت سے نکل کر دربدر بھٹکنے پر مجبور ہوگیا۔ یہاں تک کہ بھوک سے اس کی جان نکلنے کی نوبت آگئی۔ ایسے میں اس کی قسمت نے اسے وِشوامتر کے آشرم تک پہنچا دیا۔ ترشنکو کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر وِشوامتر کا دل پگھل گیا اور انھوں نے پوچھا:
’’تم تو راجاترشنکو ہو۔ تمھاری یہ بُری حالت کیسے ہوگئی؟ کس کا شراپ ہے یہ؟‘‘
ترشنکو نے اس پر جو کچھ بیتی تھی رشی کو کہہ سنائی اور ان کے قدموں پر گرکے بولا:
’’میں ہمیشہ ایک ا ّچھے حکم راں کی طرح حکومت کرتا رہا اور دھرم کے راستے سے کبھی نہیں ہٹا۔ میں نے کوئی پاپ نہیں کیا اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا۔ پھر بھی میرے دھرم ُگرو اور اس کے بیٹوں نے میرا تیاگ کیا اور مجھے شراپ دیا جس کے نتیجے میں آج میں اس حالت میں آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
وِشوامتر کو راجا پر رحم آگیا جو محض ایک شراپ کی وجہ سے چنڈال بن گیا تھا۔ وِشوامتر میں یہ بڑی کم زوری تھی کہ وہ وقتی تاثرّ کے تحت عمل کرتے تھے اور غصّہ، ہم دردی اور پیار کے جذبات سے بہت جلد مغلوب ہوجاتے تھے۔ انھوں نے اپنے شیریں الفاظ سے بادشاہ کو مسرور کردیا۔ وہ بولے:
’’اے راجا، میں نے تمھاری انصاف پر مبنی حکومت کے بارے میں سنا ہے۔میں تمھیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ اب تمھیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ میں خود اس قربانی کا اہتمام کروں گا جس کے سبب تم اپنے جسم کے ساتھ ُسورگ میں داخل ہوسکو گے۔ تم اپنی اسی چنڈال کی شکل میں ُسورگ میں جاؤ گے۔ تمھارے ُگروکا شراپ تمھارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ تمھیں میری بات پر یقین کرلینا چاہیے۔‘‘
چناںچہ انھوں نے ایک نہایت شان دار اور بے مثال B کا اہتمام کیا۔ انھوں نے اپنے چیلوں کو ہدایت کی کہ سارے رِشیوں اور ان کے چیلوں کو اس Bمیں شرکت کی دعوت دیں۔ رِشیوں میں وِشوامتر کی دعوت کو، جو حکم سے کم نہیں تھی، ردّ کرنے کی ہمّت نہیں تھی، اس لیے سب نے شرکت کی ہامی بھرلی۔ مگر وسِشٹھ کے بیٹوں نے دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس B کا یہ کہہ کر مذاق اُڑانے لگے کہ اس میں ایک ایسا شخص ’پروہت‘ ہوگا جو کبھی چھتری تھا اور’یجمان‘ ایک بدبو دار چنڈال ہوگا۔
وِشوامتر اس جواب سے، جو لفظ بہ لفظ اُن تک پہنچایا گیا تھا، سخت غضب ناک ہوئے اور انھوں نے بھڑک کر شراپ دیا ’’وسِشٹھ کے بیٹے سات جنم تک ایسے قبیلے میں پیدا ہوں گے جن کی غذاکتوّں کا گوشت ہوگی۔‘‘
اس کے بعد رِشی وشوامتر نے B شروع کیا۔ ترشنکو کی نمایاں خوبیوں کا بیان کرتے ہوئے وِشوامتر نے دوسرے رِشیوں سے اس بات کی درخواست کی کہ وہ ترشنکو کو اس کے جسم کے ساتھ ُسورگ تک پہنچانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ دعوت میں شریک رِشیوں کو وِشوامتر کی بے پناہ طاقت اور اُن کے آتشی مزاج کا پورا اندازہ تھا اس لیے انھوں نے Bمیں ّحصہ لینے ہی میں عافیت سمجھی اور B کا سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ دیوتاؤں سے دھرتی پر آنے اور نذر و نیاز قبول کرنے کی درخواست کی گئی، لیکن ایک بھی دیوتا نہیں پدھارے۔ صاف ظاہر تھا کہ وشوامتر کا Bناکام ہوچکا تھا۔ اس تقریب میں شامل ہونے والے سبھی لوگ وِشوامتر کی شکست کو دیکھ کر آپس میں ان کا مذاق اُڑانے لگے۔ غصّے میں لال پیلے ہوتے ہوئے وِشوامتر نے گھی کی ڈوئی شعلوں کے اوپر انڈیلی اور کہا:
’’اے راجاترشنکو، اب میری طاقت دیکھو۔ اب میں اپنے سارے کمالات کو تم میں منتقل کرتا ہوں۔ اگر میری ّتپسیاؤں کی کوئی حقیقت ہے تو وہ تمھیں تمھارے جسمانی ڈھانچے کے ساتھ ُسورگ میں لے جائیں گی۔ اگر دیوتاؤں نے میری نذر قبول نہیں کی ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ اے راجا ترشنکو‘ اٹھو!‘‘
پھر کیا تھا، ایک معجزہ ہوگیا۔ سارا مجمع حیرت سے دیکھتا رہا اور راجا ترشنکو چنڈال کے جسم کے ساتھ ُسورگ کی جانب کوچ کرگیا۔ دُنیا نے وِشوامتر کی
ّتپسیا کی قوّت کا نظارہ کیا۔
راجا ترشنکو ُسورگ تک تو پہنچا مگر اِندر دیوتا نے اسے یہ کہہ کر فوراً نیچے دھکیل دیا:اپنے دھرم ُگرو کا شراپ مول لینے والے مورکھ پھر سے دھرتی پر چلاجا۔‘‘
ترشنکو سورگ سے نیچے کی طرف سر کے بل گرنے لگا تو چلاّکر بولا: ’’اے وِشوامتر مجھے بچائیے۔‘‘
یہ دیکھ کر وِشوامتر غصّے سے بے قابو ہوگئے۔ دیوتاؤں کو سبق سکھانے کے ارادے سے انھوں نے چیخ کر ترشنکو سے کہا: ’’وہیں رک جا۔ وہیں رُک جا۔‘‘
سارے لوگ حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔ ترشنکو کا زمین کی جانب گرنا اچانک تھم گیا اور وہ ایک ستارے کی طرح خلا میں معلّق ہوگیا۔ وِشوامتر نے برہماثانی کی طرح جنوب میں ایک نیا ستاروں بھرا اُفق، ایک نیا اِندر اور نئے دیوتا بنانے کی مہم کا آغاز کردیا۔ ان مخلوقات کی برتری کو دیکھ کر دیوتاؤں نے صلح کا ہاتھ بڑھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ ان سے درخواست کی کہ اپنے ارادے سے باز آجائیں۔ انھوں نے کہا:
’’ترشنکو جہاں ہے اسے وہیں رہنے دیجیے۔ آپ کے تخلیق کردہ ستارے بھی آپ کی شہرت اور وقار کی طرح ہمیشہ چمکتے رہیں۔ آپ اپنے غصّے پر قابو پائیے اور ہم سے دوستی کرلیجیے۔‘‘
دیوتاؤں کی ہار سے مطمئن ہوکر تیزی سے بھڑک اُٹھنے اور اتنی ہی جلدی شانت ہو جانے والے وِشوامتر خوش ہوگئے، انھوں نے اپنا تخلیقی کام روک دیا۔ لیکن ان کی ایسی زبردست سرگرمی نے ان کی ساری طاقت کو جو انھوں نے سالہا سال کی ّتپسیا کے بعد حاصل کی تھی، فنا کردیا۔ انھیں اس کا احساس ہوا کہ اب وہ نئے سرے سے ّتپسیا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد وشوامتر نے مغرب میں واقع پُشکر کی طرف سفر کیا اور وہاں پھر سے اپنی ّتپسیا شروع کردی۔ کئی برس تک ان کی ّتپسیا جاری رہی، لیکن عین اس وقت جب کہ ان کی ّتپسیا کا پھل انھیں ملنے والا تھا، کوئی ایسی بات ہوگئی جس کے سبب ان کا ّغصہ پھر عود کر آیا لیکن انھوں نے پوری طرح ّتہیہ کرلیا کہ غصّے کو پھر سے خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ طے کرکے وہ دو بارہ ّتپسیا میں مشغول ہوگئے۔
سالہا سال کی ّتپسیا کے بعد برہما اور دوسرے دیوتا ان کے سامنے نمودار ہوئے اور بولے: ’’اے کوشک، تمھاری ّتپسیا پوری ہوئی اب تم راجاؤں کی صف میں شامل نہیں ہو، تم سچیّ رشی ہوچکے ہو۔‘‘
وِشوامتر کو یہ وردان دے کر برہم واپس آگئے۔ وِشوامتر کے لیے یہ وردان بھی مایوس ُکن تھا۔ وہ تو برہما رِشی بن کر وسِشٹھ کے مدِّ مقابل ہونا چاہتے تھے لیکن انھیں صرف ایک عام رِشی کا درجہ دیا گیا تھا۔ ان کی ّتپسیاؤں کا یہ انعام اُتنا ہی بے مصرف تھا جتنے وہ طاقتور ہتھیار جنھیں وسِشٹھ کی لاٹھی ’’برہمانند‘‘ نگل چکی تھی۔ چناںچہ انھوں نے طے کرلیا کہ وہ اپنی ّتپسیا کو پہلے سے بھی زیادہ کڑی اور سخت بناکر جاری رکھیں گے۔
دیوتاؤں کو ان کی یہ حرکت پسند نہیں آئی۔ انھوں نے ُسورگ کی اپسرا ’’مینکا‘‘ کو روانہ کیا کہ اپنے آسمانی ُحسن اور اداؤں سے وِشوامتر کو بہکائے۔
مینکا پشکر چلی گئی جہاں وِشوامتر ّتپسیا کررہے تھے۔ اُس نے اپنے حسن اور جنسی اشاروں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے انھیں متوجّہ کرنے کی ایسی ایسی کوششیں کیں کہ وِشوامتر اس کی طرف دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ اس کے حسن کے دام میں گرفتار ہوگئے، ان کا عزم اور ان کی ّتپسیا بھنگ ہوگئی۔ وہ دس سال تک خوابِ عیش میں مست رہے اور اپنے بلند عہد کو بھلا بیٹھے۔
آخرکار جب ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے کا ￿نپتی ہوئی مینکا کی طرف اُداسی سے دیکھا اور بولے کہ وہ اسے شراپ نہیں دیں گے کیوںکہ جو کچھ ہوا وہ ان کی اپنی حماقت سے ہوا اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا، انھیں بہکاتے ہوئے وہ اپنے آقا کا حکم بجالا رہی تھی۔ بڑی اُداسی کے ساتھ وِشوامتر نے ہمالیا کی راہ لی تاکہ اپنی بگڑی ہوئی ّتپسیا کو پھر سے شروع کرسکیں۔
انھوں نے وہاں پر اپنے نفس کو پوری طرح قابو میں رکھتے ہوئے ایک ہزار سال تک بڑی سخت ّتپسیا کی۔ اُس وقت دیوتاؤں کی درخواست پر برہما، وِشوامتر کے سامنے نمودار ہوئے اور ان سے شیریں انداز میں بولے:
’’میرے بیٹے، میں ایک مہارِشی کی حیثیت سے تمھارا سواگت کرتا ہوں۔ تمھاری خلوص سے بھری ّتپسیا سے خوش ہوکر میں تمھیں یہ خطاب اور اس سے حاصل ہونے والی بزرگی عطا کرتا ہوں۔‘‘
کام رانی اور مایوسی دونوں سے متاثرّ نہ ہونے والے وِشوامتر نے احتراماً دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کاینات کے ِپتا سے پوچھا: ’’کیا اس وردان کا مطلب اپنی ساری نفسانی خواہشات پر فتح مندی ہے؟‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘ خالق نے کہا۔ ’’اے ُمنیوں میں شیر! نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھو۔‘‘
وِشوامتر نے ّتہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس عظیم ترین فتح مندی کو حاصل کرکے رہیں گے۔ چناںچہ انھوں نے مزید ہزار سال کے لیے پہلے سے بھی کڑی
ّتپسیا کا سلسلہ شروع کردیا جس سے دیوتاؤں میں اور بھی گھبراہٹ پھیل گئی۔
اِندر نے ُسورگ کی رقاصہ رمبھا کو طلب کیا اور دیوتاؤں کی ایک اہم خدمت اس کے سپرد کی۔ وہ خدمت یہ تھی کہ وِشوامتر کو اپنے حسن کے جادُو کا شکار بنائے اور انھیں اپنے مقصد سے بھٹکادے۔
رمبھا یہ کام کرنے سے خوف زدہ تھی مگر اِندرنے اسے یقین دلایا کہ وہ اس فرض کی ادایگی میں تنہا نہیں ہوگی، اس کی مدد کے لیے کام دیو اور بسنت کی دیوی دونوں اس کے ساتھ ہوں گے۔ رمبھابادلِ ناخواستہ روانہ ہوگئی۔ وہ جیسے ہی وِشوامتر کی ُکٹیا کے احاطے میں داخل ہوئی سارا جنگل موسمِ بہار کے ُحسن سے ِکھل اٹھا اور پھولوں کی خوشبو سے بھری ہوئی جنوبی ہوا دھیرے دھیرے بہنے لگی اور کویلیں کوکنے لگیں۔ اس کے ُحسن کی کشش میں اضافہ کرنے کے لیے کام دیو اور بسنت کی دیوی دونوں اپنا اپنا فرض ادا کررہے تھے۔ وِشوامتر نے جواَب تک موسم کی تبدیلیوں سے بے خبر رہے تھے، اچانک مضطرب ہوکر آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ بے مثال حسن کی ملکہ ایک اَپسرا کھڑی مسکرا رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ بہار کی روح اپنے پھولوں، خوشبوؤں اور گیتوں کے ساتھ وہاں چلی آئی ہے۔ اس نرم و گداز ّمجسمۂ شہوت کو دیکھتے ہی وشوامتر نے اندازہ کرلیا کہ اُن سے حسد رکھنے والے دیوتاؤں نے انھیں بہکانے کے لیے ایک اور جنسی ترغیب کا پا ￿نسہ پھینکا ہے۔ ان کے تن بدن میں غصے کا سُرخ شعلہ دوڑ گیا اور انھوں نے رمبھا کو شراپ دیا:
’’اے رمبھا! میں اپنے غصّے (کرودھ) اور نفس (کام) پر قابو پانے کے لیے جدّوجہد کررہا ہوں اور تو مجھے بہکانے کی کوشش کررہی ہے، اس لیے میں تجھے شراپ دیتا ہوں کہ تو دس ہزار سال تک ّپتھر کی مورت بنی رہے گی۔‘‘
جیسے ہی وشوامتر غصّے سے پھٹ پڑے اُنھیں احساس ہوا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیابی کی منزل سے اب تک کافی دُور ہیں۔ چناںچہ بڑی اُداسی کے ساتھ انھوں نے ہمالیائی جنگلوں کو خیر باد کہا اور تنہائی کی تلاش میں مشرق کی طرف چلے گئے۔ وہاں انھوں نے حبسِ دم کیا۔ دنیا کی کل اشیا کا خیال اپنے دل سے نکالا اور ایسی کڑی ّتپسیائیں کیں کہ ان کے جسم سے شعلے اور دُھواں نکلنے لگا اور ساری کائنات ان دونوں کی لپیٹ میں آگئی۔ اِس پر خوف زدہ دیوتاؤں نے برہما سے پرارتھنا کی اور ان کی التجا کو مان کر برہماایک بار پھر وشوامتر کے سامنے نمودار ہوئے اور انھیں برہم رشی کا مقام عطا کیا اور بولے:
’’مبارک ہو برہم رشی، میں تم سے پرسنّ ہوا۔ تمھاری زندگی
ّتقدس سے ُپرہو جائے۔‘‘
وِشوامتر خوش ہوگئے لیکن بڑے انکسار کے ساتھ انھوں نے کہا: ’’میں اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتا جب تک کہ وسِشٹھ کی زبان سے نہ ُسن لوں کہ میں برہم رشی ہوں۔‘‘
وسِشٹھ نے جب سنا تو وشوامتر سے اپنی جنگ کو یاد کرکے مسکرائے اور بولے: ’’تم نے اپنی عظیم ّتپسیاؤں کا پھل پالیا۔ میرے بھائی تم یقینا برہم رِشی ہو۔‘‘
بس پھر کیا تھا ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ناچنے لگیں۔ یہ تھی ساری کہانی اُن رِشی وِشوامتر کی جو راجا دشرتھ کے دربار میں اچانک پدھارے تھے۔
چوتھا باب

 

رام محل سے ِسدھارتے ہیں

راجا دشرتھ نے وِشوامتر کا اُسی طرح استقبال کیا جیسے اِندر برہما کا استقبال کرتے۔ اُن کے پیر چھوتے ہوئے راجا نے کہا:
’’میں یقینا انسانوں میں سب سے خوش نصیب ہوں۔ یہ میرے پُرکھوں کی نیکیوں کا پھل ہے کہ آپ میرے ہاں پدھارے ہیں۔ جس طرح صبح کا سورج اپنی روشنی سے رات کی تاریکیوں کو دُور کرتا ہے، آپ کا دیدار میری آنکھوں میں سرور بھررہا ہے۔ میرا دِل مسرّت سے بھرا ہے۔ آپ پیدایش کے اعتبار سے راجا تھے لیکن اپنی ّتپسیا کے بل پر برہم رِشی ہوگئے اور اب خود چل کر میرے گھر مہمان بن کر آئے ہیں۔ بتائیے میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ جو کچھ میرے اختیار میں ہوگا آپ کے لیے کر گزروں گا۔ آپ حکم کیجیے، میں آپ کا حکم بجالاؤں گا۔‘‘
راجا دشرتھ کے یہ الفاظ سن کر وِشوامتر بہت خوش ہوئے اور ان کا چہرہ دمکنے لگا۔ وہ بولے:
’’اے راجا! تمھارے الفاظ یقینا تمھارے شایانِ شان ہیں۔ ’اِکش واکو‘ ُکل (نسل) میں جنم لے کر اور وِسِشٹھ جیسا ُگرو پانے کے بعد تمھیں ایسا ہی کہنا چاہیے۔ تم نے میرے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی تکمیل کی ہامی بھرلی ہے۔ میرا دِل اس بات سے بہت خوش ہوا۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے اپنی آمد کا مقصد صاف صاف بتادیا۔ وہ بولے:
’’میں ایک B کرنے میں لگاہوا ہوں لیکن جیسے ہی یہ B تکمیل کو پہنچنے لگتا ہے، ماریچ اور ُسباہو نام کے دو طاقتور راکشس اُسے ناپاک کردیتے ہیں۔ وہ ّمقدس آگ پر گندے گوشت اور خون کی بارش کردیتے ہیں۔ دوسرے رشیوں کی طرح ہم بھی انھیں شراپ دے کر برباد کرسکتے ہیں۔ مگر اس سے ہماری ّتپسیا بھی برباد ہوجائے گی۔
اگر تم اپنے جنگجو بیٹوں میں سے بڑے بیٹے رام کو ہمارے ساتھ روانہ کردو تو ہماری ساری مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ میری تربیت اس کے شاہی درجات کو اور بلند کردے گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ راکشسوں کا خاتمہ کردے گا اور اس کا نام اور مشہور ہوجائے گا۔
تم رام کو کچھ دِنوں کے لیے میرے زیر تربیت دے دو۔ دیکھو میری درخواست کو رد نہ کرنا۔ میرے سوال کرنے سے پہلے ہی تم نے میری درخواست کو قبول کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا کرو۔ جہاں تک رام کے ّتحفظ کا سوال ہے، تمھیں کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا کرنے سے تمھیں تینوں لوکوں میں لافانی شہرت حاصل ہوگی۔ رِشی و سشٹھ اور تمھارے منتری میری بات سے ا ّتفاق کریں گے۔‘‘
راجا دشرتھ یہ سن کر اضطراب اور خوف سے کا ￿نپ اٹھے۔ ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا۔ اگر وہ وِشوامتر کی بات مان لیتے ہیں تو اپنے راج دلارے بیٹے کو راکشسوں کے مقابلے کے لیے بھیج کر اس کی جان سے ہاتھ دھولینے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ اور اگر نہیں مانتے ہیں تو وِشوامتر کے بھیانک غصّے کا شکار ہوسکتے ہیں۔
راجا دشرتھ پر گویا بجلی سی گرپڑی اور ذہنی صدمے کی وجہ سے وہ سکتے میں آگئے لیکن جلد ہی اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے انھوں نے رشی سے التجا کی کہ اپنی مانگ پر ُ ِمصر نہ ہوں۔ وہ بولے:
’’رام تو ابھی سولہ سال کا بھی نہیں ہوا۔ وہ بھلا راکشسوں سے کیسے لڑے گا؟ آپ کے ساتھ اُس کو روانہ کرنا مفید نہ ہوگا۔ راکشسوں کے مکرو فریب کا اسے اندازہ ہی کیا ہے؟ مجھے یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ ایک لڑکے کو اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کروں۔ میں خود موجود ہوں اور میری فوج بھی ان سے لڑنے کے لیے مستعد ہے۔ ایک لڑکا آپ کی اور آپ کے Bکی حفاظت کیسے کرسکے گا؟ مجھے آپ اپنے دشمنوں کے بارے میں ساری باتیں بتائیے۔ میں خود فوج کی سربراہی کرتے ہوئے آپ کے ساتھ چلوں گا، اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کی مشکل حل کروں گا۔ مجھے B کو ناپاک کرنے والوں کے بارے میں معلومات دیجیے۔‘‘
وِشوامتر نے ماریچ، سباہو اور ان کے آقا راون سے ّمتعلق تفصیل بتائی اور اپنی مانگ کو دہرایا کہ رام کو ان کے ساتھ روانہ کیا جائے۔ مگر دشرتھ اپنے انکار پر قائم رہے، انھوں نے کہا:
’’رام کی جدائی میری موت کا باعث ہوگی۔ میں چلوں گا آپ کے ساتھ۔ میں اور میری فوج دونوں۔ کیوںکہ آپ کا تجویز کیا ہوا کام مجھ اکیلے کے لیے بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں میرا بیٹا اُسے کیسے انجام دے سکے گا۔ میں اسے ہرگز نہیں بھیج سکتا۔ آپ کا حکم ہوتو میں اور میری فوج حاضر ہیں۔‘‘
اپنے وعدے سے ِپھر جانے کی دشرتھ کی کوشش سے وِشوامتر کو غصّہ آگیا۔ راجا کی التجاؤں اور تاویلوں نے ان کے غصّے کی آگ پر تیل کا کام کیا۔
’’تمھارا یہ عمل تمھارے ُکل کے لیے باعثِ شرم ہے۔‘‘اُنھوں نے کہا۔ ’’صاف صاف بتاؤ کیا یہی تمھارا فیصلہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں جس راستے سے آیا ہوں اسی راستے سے واپس چلا جاتا ہوں۔ ّسچائی کے راستے سے ڈگمگانے والے راجا! تم اور تمھارے خاندان کی عمر دراز ہو۔‘‘
دھرتی کا ￿نپ اٹھی اور رشی کے غصّے کے نتائج کے خوف سے دیوتا لرزگئے۔
اس وقت رشی وسِشٹھ نے راجا کی طرف دیکھا اور نرمی سے بولے:
’’اے راجا! تمھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وعدے سے ِپھر جاؤ۔ اکشوا کو ُکل میں جنم لینے کے بعد تم ایسا نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلینے کے بعد تمھیں اسے پورا کرنا ہی ہوگا۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمھاری ساری عظیم خوبیاں اور سارے ا ّچھے کرم نشٹ ہوجائیں گے۔
رام کو رشی وشوامتر کے ساتھ روانہ کردو اور لکشمن کو بھی۔ ان کی حفاظت کے لیے تمھیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں جب انھیں وِشوامتر کا ّتحفظ حاصل ہے تو کوئی راکشس ان کا بال ِبیکا نہیں کرسکتا۔ جس طرح دیوتاؤں کے مشروب کی حفاظت اگنی چکر کرتا ہے اسی طرح رام کی حفاظت وِشوامتر کریں گے۔ تمھیں وِشوامتر کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ وہ انسانی روپ میں ّمجسم ّتپسیا ہیں۔ وہ ویروں کے ویر اور گیانیوں کے گیانی ہیں۔ وہ ہر ہتھیار چلانے کے ماہر ہیں، تینوں لوکوں میں جنگی اور روحانی شجاعت کے معاملے میں نہ تو ان کا کوئی ثانی ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ وہ جب راجا تھے تو انھوں نے دیوتاؤں سے سارے ہتھیار چلانے میں مہارت کا وردان پایا تھا۔وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تمھیں ّتعجب ہوکہ اتنا سب ہونے کے باوجود وہ راجکماروں کو کیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے Bکی حفاظت کرسکتے ہیں۔ دراصل تمھارے بیٹوں کی بھلائی کی خاطر وہ یہاں آئے ہیں اور تم سے مدد کے طالب ہوئے ہیں۔ ہچکچاؤ نہیں۔ اپنے بیٹوں کو ان کے ساتھ کردو۔‘‘
وِسِشٹھ جیسے گیانی رِشی کی بات سن کر راجا دشرتھ کی آنکھیں کھل گئیں اور انھوں نے رام اور لکشمن کو وِشوامتر کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ دونوں شہزادوں کو رِشی کے سامنے پیش کیا گیا۔ پھر راجا، ان کی رانیوں اور رِشی وسِشٹھ نے آشیرواد دے کر انھیں وِشوامتر کے ساتھ روانہ کردیا۔
نہایت خوشگوار ہوا چلنے لگی اور دیولوک سے پھولوں کی بارش ہوئی۔ مبارک باد کی آوازیں سنائی دیں۔ ہاتھوں میں کمان لیے ہوئے دونوں شہزادے رِشی کے دونوں پہلوؤں میں فخر سے چلتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔
والمیکی اور کمبن دونوں نے بڑے مزے لے لے کر اُس منظر کی تصویر کشی کی ہے۔ دونوں راج کمار اپنی پہلی مہم پر روانہ ہورہے ہیں اور ایک ایسے عظیم رشی کی رہنمائی میں جو خود ایک مشہور سورما رہ چکا ہے اور ایک ایسا ُگرو ہے جو ایک نئی دُنیا تخلیق کرسکتا ہے۔ وِشوامتر کے پہلوؤں میں فخر سے سر اُٹھائے دو شاہی شاگرد چل رہے ہیں جن کا جنم راکشسوں کی نسل کے خاتمے کے لیے ہوا ہے۔ کمر سے فتح کی تلواریں لٹکائے ہوئے اور مضبوط کندھوں پر تیر اور کمان لیے ہوئے وہ دونوں اس طرح چل رہے تھے جیسے تین سروں والے ناگ پھن اٹھائے ہوئے چل رہے ہوں۔
پانچواں باب

 

رام کے ہاتھوں راکشسوں کا قتل

مہارشی وِشوامتر اور دونوں راج کماروں نے َسریوُ ندی کے کنارے رات بسر کی۔ سونے سے پہلے وِشوامتر نے دونوں راج کماروں کو ’’بل‘‘ اور ’’اتی بل‘‘ نام کے دو خفیہ منتر سکھائے جو دونوں کو تھکن اور آفت سے بچانے کی خوبی رکھتے تھے۔ ندی کے سرسبز کنارے پر رات بسر کرکے وہ لوگ صبح تڑکے اُٹھ کر آگے کے سفر پر روانہ ہوئے۔ وہ اَنگ دیش کے کام آشرم پہنچے۔ وِشوامتر نے دونوں راج کماروں کو وہاں کے رِشیوں کی خدمت میں پیش کیا اور پھر ان کو اس آشرم کی کہانی سنائی۔ انھوں نے کہا:
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں بھگوان شیو نے مدّت تک ّتپسیا کی ہے۔ یہیں پر احمق کام دیو مَن متھ نے شیو کو اپنے تیر کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور ان کے کرودھ سے جل کر خاک ہوگیا۔ اسی لیے اس جگہ کو کام آشرم کہا جاتا ہے۔‘‘
اس رات وہ لوگ رشیوں کے مہمان رہے اور اگلی صبح روز مرّہ کی پوجاپاٹ کے بعد وِشوامتر اور ان کے شاگرد اگلے سفر پر روانہ ہوکر گنگا پہنچے اور رشیوں کے بنائے ہوئے با ￿نسوں کے ٹھاٹھے پر سوار ہوکر ندی پارکر گئے۔ لیکن ندی پار کرتے ہوئے بیچ دھارے میں راج کماروں کو کچھ شور سا سنائی دیا۔ انھوں نے وِشوامتر سے اس کے بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ دراصل َسریوُ ندی کا پانی ہے جو گنگا میں ملتے وقت آواز پیدا کررہا ہے۔ راج کماروں نے دونوں ّمقدس ندیوں کے سنگم کو خاموش شردھا نجلی پیش کی۔
چاہے ندی ہو یا پہاڑ، درخت ہو یا بادل، بے شک فطرت کے حسن کا کوئی بھی مظہر ہو، انسان کو ذاتِ مطلق کے بارے میں ّتفکر اور اس کی عبادت پر آمادہ کرسکتا ہے۔ خاص طور سے ّمقدس ندیاں، مندر اور مورتیاں، جن کی صدیوں سے بھکتی اور عبادت کی گئی ہے، اس قوّت کی حامل ہوتی ہیں کیوںکہ انھوں نے ّمقدس افکار کا نہ صرف مشاہدہ کیا ہے بلکہ انھیں اس طرح جذب کررکھا ہے جیسے کپڑے خوشبوؤں کو اپنے اندر سمولیتے ہیں۔
گنگا پار کرنے کے بعد وِشوامتر اور دونوں راج کمار ایک ایسے گھنے جنگل سے گزرنے لگے جہاں جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔ وِشوامتر نے کہا:
’’یہ دنڈک نام کا جنگل ہے۔ اس بھیانک جنگل کی جگہ کبھی ایک بھرا پُرا ملک تھا۔ ایک مرتبہ اِندر کو وِرترا کی ہتّیا کا پاپ لگ گیا تھا، جسے دھونے کے لیے اسے دیولوک سے ہجرت کرنی پڑی تھی۔ دیوتاؤں نے اِندر کے پاپ کو دھونے کی مہم شروع کی۔ وہ ّمقدس ندیوں کا پانی لائے اور منتر پڑھتے ہوئے اِندر کو نہلانے لگے۔ اِندر کے پاپ کو دھونے والا پانی اس کے بدن سے بہہ کر زمین میں جذب ہوگیا جس سے دھرتی زرخیز ہوگئی اور سارا علاقہ ہرابھرا ہوگیا۔
ساری مردہ اشیا مثلاً بدبودار کوڑا کرکٹ یاسٹرتی ہوئی لاشیں جب دوبارہ مٹی میں مل جاتی ہیں تو مظاہرِ حسن میں تبدیل ہوکر نمایاں ہوتی ہیں جیسے پھول، پھل اور زندگی کو پروان چڑھانے والی صحت بخش اشیا۔ ایسی ہے ہماری دھرتی ماتا کی کیمیاگری۔‘‘
وِشوامتر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’ایک لمبے عرصے تک لوگ یہاں ￿ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے مگر تاٹکا ( ُشنڈ نامی یکش کی بیوی) اور اس کے بیٹے ماریچ نے یہاں تباہی مچادی اور اس بستی کو موجودہ خوف ناک جنگل میں بدل دیا۔ اب وہی اس جنگل میں بستے ہیں۔ تاٹکا کے ڈر سے کوئی یہاں قدم رکھنے کی ہمّت نہیں کرتا۔ اس میں بیس ہاتھیوں کا َبل ہے۔ میں تمھیں یہاں اس لیے لایا ہوں کہ تم اس جنگل کو اس بھیانک دُشمن سے نجات دلادو۔ مجھے یقین ہے کہ رشیوں کو تکلیف دینے والی یہ راکشسنی تمھارے ہاتھوں ماری جائے گی۔‘‘
رام نے، جو غور سے رِشی کی باتیں سن رہے تھے، ان سے پوچھا:
’’آپ کہتے ہیں کہ وہ یکش ہے۔ میں نے یکشوںکے بارے میں کبھی نہیں سنا کہ ان میں غیر معمولی طاقت ہوتی ہے اور مزید حیرت اس بات پر ہے کہ ایک عورت کو اتنی طاقت کیسے حاصل ہوگئی؟‘‘
وِشوامتر نے جواب دیا: ’’تم نے نہایت مناسب سوال کیا ہے۔ اسے یہ طاقت برہما کے ایک وردان کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ سُکیتو نام کا ایک یکش تھا جس کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس لیے اس نے ّتپسیا کی اور برہما سے یہ وردان حاصل کیا کہ اس کے ہاں ایک خوب صورت بیٹی پیدا ہوگی جو غیرمعمولی جسمانی طاقت کی مالک ہوگی۔ مگر اس کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہوگا۔ سُکیتو کی خوب صورت اور طاقت ور بیٹی تاٹکا کی شادی شنڈنامی یکش سے ہوئی۔ ماریچ انھیں کا بیٹا ہے۔
شُنڈ ایک مرتبہ رشی اگستیہ کے شراپ کا شکار ہوکر چل بسا۔ اس سے برہم ہوکر تاٹکا اور ماریچ نے اگستیہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اگستیہ نے انھیں شراپ دیا کہ وہ راکشس بن جائیں گے اور مردہ انسانوں کو کھاکر زندہ رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ تاٹکا ایک بدصورت راکشسنی ہوگئی ہے۔
تب سے تاٹکا اور ماریچ اگستیہ کے علاقے میں بسنے والے لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ تم اس بات کا خیال کرکے کہ کسی عورت کو مارنا چھتری دھرم کے خلاف ہے، اس کا خاتمہ کرنے سے ہچکچانا نہیں۔ راجا کا فرض ہے کہ شر پسندوں کو، خواہ مرد ہوں یا عورت، سزا دے۔ اس کا مارنا ایسا ہی صحیح اور درست ہے جیسے انسانوں کی حفاظت کے لیے کسی جنگلی جانور کو مارنا۔ حکمرانوں کے لیے ایسا کرنا فرض ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سی عورتوں کو ان کے بُرے کرموں کے لیے موت کی سزا دی گئی ہے۔ اس لیے تم بھی ایسا کرنے سے ہچکچانا مت۔‘‘
رام نے وِشوامتر سے کہا: ’’ہمارے پتا کا حکم ہے کہ ہم آپ کا حکم بے چون و چرا بجالائیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں اور سب کی فلاح کے لیے ہم تاٹکا کو قتل کریں گے۔‘‘
ایسا کہتے ہوئے رام نے اپنی کمان چڑھائی اور اس کی ڈور کو اس طرح کھینچا کہ اس کی تیز آواز سے سارا جنگل گونج اُٹھا اور جنگلی جانور خوف زدہ ہوکر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اس کی آواز تاٹکا کی مضبوط کمین گاہ میں بھی پہنچی اور وہ اس گستاخ مداخلت کار کی ّہمت پر ّتعجب کرنے لگی جس نے اس کی حکومت میں داخل ہونے کی جرأت کی تھی۔ غصّے سے بے قابو ہوتے ہوئے وہ اُس سمت دوڑ پڑی جدھر سے کمان کی آواز آئی تھی۔ اور رام کو دیکھتے ہی اس پر پل پڑی۔ دونوں میں جنگ شروع ہوگئی۔
پہلے تو رام نے سوچا کہ اس کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالیں اور اس کی جان نہ لیں۔ مگر تاٹکا نے بڑا خوف ناک حملہ کیا اور آسمان میں بلند ہوکر رام اور لکشمن پر ّپتھروں کی بارش کرنے لگی۔ دونوں راج کماروں نے اس حملے کا ￿منہ توڑ جواب دیا۔ جنگ جاری رہی۔ وِشوامتر نے رام کو تاکید کی کہ اس راکشسنی کو مارنے میں دیر نہ کریں۔
’’وہ ہمدردی کی مستحق نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’سورج ڈوبنے والا ہے اور یاد رکھو کہ سورج ڈوبنے کے بعد راکشسوں کی طاقت دوگنی ہوجاتی ہے۔ اس لیے اسے مارنے میں دیر نہ کرو۔‘‘
وِشوامتر کی نصیحت پر رام نے تاٹکا کے قتل کا فیصلہ کرلیا اور اپنے قاتلانہ تیر سے اس کے سینے کو نشانہ بنایا۔ تیر لگتے ہی وہ پہاڑ جیسی بد صورت دیونی مردہ ہوکر گرپڑی۔
دیولوک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وِشوامتر نے جوشِ مسرّت میں رام کو سینے سے لگاکر آشیرواد دیا۔
تاٹکا کی ّہتیا کے بعد سارا جنگل اس کے شراپ سے آزاد ہوگیا اور پھر سے خوب صورت بن گیا۔ راج کماروں نے وہ رات وہیں گزاری اور اگلی صبح کو وِشوامتر کے آشرم کی طرف چل پڑے۔
چلنے سے پہلے وِشوامتر نے رام کو اپنے پاس بلایا اور اُنھیں آشیرواد دیتے ہوئے کہا:
’’میں تم سے بہت خوش ہوں۔ تم نے جو کچھ کیا ہے اس کے بدلے میں میں تمھیں کیا دوں۔ آؤ تمھیں تمام ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ بتاؤں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وشوامتر نے وہ سارے ہتھیار جو انھوں نے اپنی ّتپسیا کے بل پر حاصل کیے تھے، شری رام چندر کو دے دیے۔ وِشوامتر نے رام کو ان کا استعمال، ان پر قابو رکھنے اور انھیں واپس لوٹانے کا طریقہ سکھایا، اور رام نے یہ ساری باتیں لکشمن کو سکھادیں۔
اپنے سفر کے دوران رام نے ایک اونچے پہاڑ کی جانب، جس کی ڈھلانوں پر خوب صورت جنگل اُگا ہوا تھا، اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے اور وہ بدمعاش کون ہیں جو آپ کے B میں رخنہ ڈالتے ہیں؟ مجھے ان کا خاتمہ کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔‘‘
رام چندر جی راکشسوں سے لڑکر رِشی کا آشیرواد پانے کے لیے بے چین ہو اٹھے تھے۔
’’ہاں یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے۔‘‘ وِشوامتر نے جواب دیا۔ ’’وہیں پر بھگوان ناراین نے ّتپسیا کی تھی اور وامن اوتار کے روپ میں جنم لیا تھا۔ اس جگہ کو سِدّھ آشرم کہا جاتا ہے۔
وِروچن کا بیٹا اور نیک دل اَ ُسر پرلہاد کا پوتا مہابلی، اتنا طاقت ور حکمراں تھا کہ دیوتا بھی اس سے خوف کھاتے تھے۔ مہابلی نے اپنے نیک کرموں کے سبب خود اِندر کی طاقت حاصل کرلی تھی۔ کشیپ اور ان کی بیوی اَدیتی نے، وشنو کی پرارتھنا کی اور ان سے درخواست کی کہ ان کے بیٹے کی حیثیت سے جنم لے کر اِندر اور دوسرے دیووں کو مہابلی سے بچائیں۔ ان کی التجا کو مان کر وِشنو نے ادِیتی کی کوکھ سے وامن کے روپ میں جنم لیا۔
وامن نے ایک نوجوان شاگرد کا روپ دھارا اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں مہابلی Bکررہا تھا اور سب کوُکھلی دعوت تھی کہ وہاں پر جو جی چاہے مانگے اور حاصل کرے۔ جب وامن نے اپنے آپ کو ایک اُ ّمیدوار کی حیثیت سے پیش کیا تو آشوروں کے پروہت اور مہابلی کے ُگرو ُشکر اچاریہ اُسے پہچان گئے اور مہابلی کو خبردار کیا کہ اس کی درخواست پوری کرنے کا وعدہ نہ کر بیٹھے کیونکہ حقیقت میں وہ بھگوان تھے جو بھیس بدل کر اسے ناکام بنانے کے لیے وہاں آئے تھے۔
لیکن مہابلی نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا۔ مہابلی کسی کی درخواست رد کرنے کا عادی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ دلی طور پر وہ بھگوان کا بھکت تھا اور یہ محسوس کررہا تھا کہ بھگوان نے اگر اس کے تحفے کو قبول کیا تو خود اسی پر ان کا کرم ہوجائے گا۔ چناںچہ مسکراتے ہوئے مہابلی نے وامن سے بغیر ہچکچاہٹ کے جو جی چاہے مانگنے کے لیے کہا: ’میرے پاس جو کچھ ہے میں آپ کے قدموں میں رکھتا ہوں۔ دولت، ہیرے، جواہر، یہ وسیع ملک اور اس سے پیدا ہونے والی ساری چیزیں آپ کے سامنے حاضر ہیں۔‘
وامن نے جواب میں کہا کہ ’دولت اس کے کس کام کی، اسے تو صرف اتنی ہی زمین چاہیے جتنی وہ تین قدم چل کرلے سکے۔‘ راجا نے مسکراکر پستہ قد برہم چاری کے پیروں کو دیکھا اور بولا: ’ایسا ہی ہوگا، چلو اور لے لو۔‘
وہ چھوٹا سا ￿کنوارا شاگرد اچانک اتنا اونچا ہوگیا کہ تری وکرم میں بدل گیا اور ایک قدم میں ساری زمین طے کرکے دوسرے قدم میں آکاش کو بھی پار کرگیا۔ اب تیسرا قدم رکھنے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچی اس لیے دانی راجا مہابلی نے اپنا سر جھکا دیا اور وامن نے اپنے بھکت کے سر پر اپنا قدم رکھ دیا۔ بھگوان کی نظروں میں ایک بھکت کا سرزمین اور آسمان کے برابر ہوتا ہے۔ راجا مہابلی کو جب ناراین کے قدم نے چھوا تو وہ بھی کاینات کے سات امر لوگوں میں سے ایک ہوگیا۔‘‘
راجا مہابلی کی کہانی سنانے کے بعد وشوامتر نے کہا: ’’یہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے ناراین نے اور پھر کشیپ نے ّتپسیا کی جس کے سبب بھگوان نے وامن کا اوتار لیا۔ اس ّمقدس جگہ پر میں رہتا ہوں مگر راکشس یہاں آکر ہماری پوجا اور ّتپسیا میں رُکاوٹ ڈالتے ہیں۔ تم اس برائی کا خاتمہ کرنے کے لیے یہاں آئے ہو۔‘‘
’’ایسا ہی ہوگا۔‘‘ رام نے کہا۔
وِشوامتر اور دونوں راج کماروں کی آمد سے آشرم میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ رِشیوں نے رسم کے مطابق انھیں جل اور پھل پیش کیے۔ رام نے وِشوامتر سے درخواست کی کہ وہ فوراً ہی Bکی تیاّریاں کریں، اور وِشوامتر نے اسی رات ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا۔
اگلی صبح بہت سویرے اُٹھ کر دونوں راج کمار وشوامتر کے پاس گئے اور ان سے دریافت کیا کہ راکشس کب تک آئیں گے تاکہ وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاّر رہیں۔ مگر وشوامتر نے تو مون دھارن کرنے کا برت لے لیا تھا۔ اس لیے وہ جواب نہیں دے سکے ا ّلبتہ ان سے کم درجے کے رشیوں نے راج کماروں کو بتایا کہ انھیں چھے رات اور چھے دن تک اٹوٹ پہرا دینا ہوگا تاکہ Bکی حفاظت کرسکیں۔
ہتھیاروں سے لیس ہوکر دونوں نے چھے رات اور چھے دن پہرا دیا۔ چھٹے دن کی صبح رام نے لکشمن سے کہا: ’’ ّبھیا! دشمنوں کے آنے کا وقت ہوگیا ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘
جیسے ہی رام کا جملہ پورا ہوا B کی اگنی کے شعلے بلند ہوئے کیونکہ آگ کے دیوتا اگنی کو راکشسوں کی آمد کا پتا چل چکا تھا۔ ادھر مذہبی رسمیں ادا ہورہی تھیں کہ اچانک آسمان سے ایک بھیانک گرج سنائی دی۔
رام نے اوپر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ماریچ اور سبا ہو اور ان کے چیلے B کی آگ پر ناپاک چیزیں پھینکنے کی تیاّری کررہے ہیں۔ راکشسوں کی فوج نے سارے آسمان کو بڑے کالے بادل کی طرح ڈھک لیا تھا۔
رام نے کہا: ’’لکشمن، ہوشیار!‘‘ اور مانواستر سے ماریچ پر حملہ کردیا۔ رام کا ارادہ ماریچ کو قتل کرنے کا تھا لیکن مانواستر نے اسے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے کر اس طرح اُچھال دیا کہ وہ ایک سو پوجن کے فاصلے پر سمندر کے کنارے جاگرا۔ رام نے اگنی استر سے سُباہوکا خاتمہ کردیا اور پھر دونوں راج کماروں نے راکشسوں کی پوری فوج کو ملیامیٹ کردیا۔ آسمان پھر سے روشن ہوگیا۔
B کی تکمیل پر وشوامتر انتہائی خوش ہوئے اور بولے: ’’میں راجا دشرتھ کا شکر گذار ہوں۔ راجکمارو! تم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ میں تمھاری ّہمت کی قدر کرتا ہوں۔ تم دونوں کی وجہ سے یہ آشرم نئے سرے سے فتح کی جگہ یعنی سِدّھ آشرم بن چکا ہے۔ (سدھ کے معنی ہیں فتح مند یا کام یاب)۔
اگلی صبح پوجا پاٹ کے بعد رام اور لکشمن وِشوامتر کے پاس گئے اور ان سے اگلے احکامات کے لیے درخواست کی۔ رشی وشوامتر سے رام کی پیدائش کا مقصد پوشیدہ نہیں تھا۔ اور انھیں اس کا بھی پتا تھا کہ انھوں نے رام کو جو ہتھیار دیے ہیں ان میں کتنی طاقت ہے۔ پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ کسی چیز کا عملی تجربہ اُس چیز سے وابستہ توقعات سے زیادہ بامعنی ہوتا ہے۔ رشی وشوامتر کی خوشی الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کا چہرہ اگنی کی طرح روشن ہوگیا۔ انھیں خیال آیا کہ اب تک انھوں نے رام کی وہ سیوا نہیں کی ہے جو اُن پر فرض ہے یعنی راج کمار کی سیتا سے شادی۔
آس پاس جمع رشیوں نے رام سے کہا: ’’ہم وِدیہا راج کی طرف جانے کا ارادہ کررہے ہیں جس کی راج دھانی مِتھیلا میں ممتاز اور دانش مند راجا جنک ایک عظیم B کرنے کا ارادہ کررہا ہے۔ ہم سب وہیں جارہے ہیں۔ ا ّچھا ہوگا اگر تم اور تمھارا راج کمار بھائی دونوں ہمارے ساتھ چلے چلو— بہت مناسب اور موزوں رہے گا کہ ایودھیا کا راج کمار راجا جنک کے دربار میں رکھی ہوئی حیرت انگیز کمان کو چل کر دیکھے۔‘‘
چناںچہ یہی طے ہوا اور رشی وشوامتر کے ساتھ رام اور لکشمن راجا جنک کی راج دھانی مِتھیلا کی طرف چل پڑے۔
چھٹا باب

 

سیتا

متھیلا کا راجا جنک ایک آدرش حکمراں تھا۔ وہ راجا دشرتھ کا انتہائی محترم دوست تھا جسے راجا دشرتھ نے اپنے B کے وقت قاصدوں کے بجائے اپنے وزیروں کو متھیلا بھیج کر B میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
جنک صرف ایک بہادر حکمراں ہی نہیں تھا بلکہ شاستروں اور ویدوں میں کسی رِشی کی سی مہارت رکھتا تھا اور رشی یاگیہ ولکیہ کاجنھوں نے اسے برہم گیان کی تعلیم دی تھی، محبوب شاگرد تھا۔ یہ گیان دراصل ’’برہد ارنیک اُپنشد‘‘ کا خلاصہ تھا۔ بھگو دگیتا میں شری کرشن نے کرم یوگی کی حیثیت سے راجا جنک کی مثال دی ہے۔ اس لحاظ سے راجا جنک سیتا کا پتا ہونے کی لیاقت رکھتا تھا۔ کیوںکہ سیتا جی دراصل وشنو کی جنھوں نے زمین پر رام کے روپ میں جنم لیا تھا پتنی ہونے والی تھیں۔
ایک مرتبہ B کی ّنیت سے جنک نے ایک منتخب جگہ پر ہل چلایا تھا اور جیسا کہ رسم ہے، اس نے یہ کام اپنے ہاتھوں انجام دیا تھا۔ جس وقت زمین صاف اور ہموار کی جارہی تھی، راجا جنک کو جھاڑیوں میں ایک بہت ہی خوبصورت ّبچی دِکھائی دی۔ جنک لاولد تھا اس لیے اس نے اِس معصوم ّبچی کو دھرتی ماتا کا دان سمجھ کر اپنا لیا۔ اس ّبچی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر وہ اپنی محبوب بیوی کے پاس گیا اور بولا۔ ’’دیکھو ہمیں ایک خزانہ مل گیا ہے۔ مجھے B کی جگہ پر یہ بچی ملی ہے جسے ہم اپنی بیٹی کی طرح پالیں گے۔‘‘
رانی نے بڑی مسرّت کے ساتھ یہ بات قبول کرلی۔
ہماری مادّی آنکھیں دھرتی کی دیوی کے حسن کو پوری طرح نہیں دیکھ سکتیں۔ مگر جب ہم اپنے شکر گذار دل کی آنکھوں سے موسمِ بہار کی ہریالی اور مو ِسم خزاں کے سنہری کھیتوں کو دیکھتے ہیں یا حیرت اور احترام سے پہاڑوں، وادیوں، ندیوں اور سمندروں کی عظمت پر نظر ڈالتے ہیں تو اِس حسن کی جھلکیاں ہمیں دِکھائی دیتی ہیں۔
دھرتی ماتا کا یہ حسن سیتا میں پوری طرح اُتر آیا تھا۔ کمبن نے بیان کیا ہے کہ سیتا کے حسن نے لکشمی کے حسن کو، جو دودھ کے سمندر کے منتھن کے وقت امرت کے ساتھ باہر آئی تھیں، ماند کردیا تھا۔ آسمانی حسن کی مالک یہ ّبچی راجا جنک اور اس کی رانی کے ہاتھوں پروان چڑھ کر جوان ہوئی تھی۔
جب سیتا جی شادی کی عمر کو پہنچیں تو راجا جنک اس خیال سے اُداس ہوگئے کہ اب انھیں سیتا کو اپنے سے جدا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے بہت کوشش کی مگر سیتا کے لایق کوئی راج کمار انھیں نہیں مل سکا۔ بہت سے راجا متھیلا پہنچے تاکہ سیتا کا ہاتھ مانگ سکیں لیکن راجا جنک کی نظروں میں ان میں سے کوئی بھی سیتا کے لایق نہیں تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اس مسئلے پر بڑی تشویش کے ساتھ غور کیا اور ایک فیصلہ کرلیا۔
بہت عرصہ پہلے جنک کے Bسے خوش ہوکر ورُون دیوتا نے انھیں رُدر کی کمان اور دوترکش عطا کیے تھے۔ یہ ایک بہت قدیم آسمانی کمان تھی جسے کوئی عام انسان اٹھا بھی نہیں سکتا تھا۔ راجا جنک نے اس کمان کو ایک محترم موروثی شے کی طرح محفوظ رکھا تھا۔ راجا جنک کے نزدیک کوئی غیرمعمولی آدمی ہی سیتا کو بیاہنے کا اہل ہوسکتا تھا اس لیے انھوں نے یہ اعلان جاری کیا۔ ’’میری بیٹی سیتا سے وہی راجکمار بیاہ کرسکتا ہے جو شیو کی کمان کو، جسے ورون دیوتانے مجھے عطا کیا ہے، اٹھاسکے، موڑ سکے اور اس میں چلاّ چڑھاسکے۔‘‘
بہت سے راج کمار سیتا کی خوب صورتی کا ذکر سن کے اسے بیاہنے کے لیے متھیلا پہنچے اور ناکام اور مایوس لوٹ گئے۔ راجا جنک کی شرط کوئی بھی پوری نہ کرسکا۔
وِشوامتر کی سربراہی میں سِدّھ آشرم کے رشی بیل گاڑیوں پر سامان لاد کر متھیلا جارہے تھے۔ آشرم کے مویشی اور پرندے بھی وشوامتر کے پیچھے آنے لگے۔ تب انھوں نے نرمی سے انھیں رُک جانے کے لیے کہا۔
جب وہ لوگ سون ندی کے کنارے پہنچے تو شام ہورہی تھی اس لیے انھوں نے رات کو وہیں بسیرا کیا اور وشوامتر نے رام اور لکشمن کو اس مقام کی تاریخ بتائی۔ صبح اٹھتے ہی انھوں نے دو بارہ سفر شروع کیا اور ایک اور ندی پار کی جو زیادہ گہری نہیں تھی۔ دوپہر تک وہ لوگ گنگا کنارے پہنچ چکے تھے۔
سب نے اس پوتر ندی میں اشنان کیا اور رشیوں نے اپنے آبا و اجداد کی روحوں کو اس کے ّمقدس پانی کے ذریعے گناہوں سے پاک کیا۔ انھوں نے وہاں ایک آشرم بنایا، پوجا کی اور پھر کھانا پکایا۔ کھانا کھانے کے بعد سب وِشوامتر کے اِرد گرد بیٹھ گئے تب دونوں راج کماروں کی درخواست پر وشوامتر نے گنگا کی کہانی سنائی:
’’پربتوں کے راجا ہم وان اور اس کی رانی منورما کے دو بیٹیاں تھیں جن میں بڑی کانام تھا گنگا۔ دیوتاؤں کی درخواست پر ہم وان نے گنگا کو ُسورگ میں بھیج دیا اور وہ وہیں رہنے لگی۔ ان کی دوسری بیٹی اُما کو شیو نے پسند کرلیا اور وہ ان کی بیاہتا ہوگئی۔
ایودھیا کے ایک سابق راجا سگر کے کوئی بیٹا نہیں تھا۔ وہ اپنی دو بیویوں کیسنی اور سُمتی کے ساتھ ہمالیا میں جاکر ّتپسیا کرنے لگا۔ رشی بھرگونے اُس سے خوش ہوکر آشیرواد دیتے ہوئے کہا: ’تمھاری بہت سی اولادیں ہونگیں جو امر شہرت حاصل کریں گی۔ تمھاری دو بیویوں میں سے ایک کے یہاں اکلوتا بیٹا پیدا ہوگا جس سے تمھارا کل چلے گا۔ اور تمھاری دوسری رانی ساٹھ ہزار بلوان لڑکوں کو جنم دے گی۔‘
سگر کی رانیوں نے رشی کو جھک کر نمسکار کیا اور پوچھا کہ ان میں سے کس کے ہاں ایک بیٹا اور کس کی کوکھ سے ساٹھ ہزار بیٹے جنم لیں گے۔ رشی بھر گونے اُن دونوں سے اُن کی خواہش کے بارے میں پوچھا۔ کیسنی نے کہا کہ وہ صرف ایک بیٹے کی ماں بن کر خوش رہے گی۔کیوںکہ اُس سے راجا سُگر کی نسل چلے گی۔ سمتی نے ساٹھ ہزار لڑکوں کی ماں بننا قبول کرلیا۔
’ایسا ہی ہوگا۔‘ رِشی نے کہا۔
راجا اور اس کی دونوں رانیوں نے مطمئن ہوکر رشی سے واپس جانے کی اجازت مانگی اور ایودھیا لوٹ آئے۔ کچھ عرصے بعد کیسنی کے ہاں اسمنجس پیدا ہوا اور سُمتی نے باریک باریک ریشوں کے ایسے لوتھڑے کو جنم دیا جو ساٹھ ہزار ّبچوں میں تقسیم ہوگیا۔ ّبچوں کی اس فوج کی مناسب دیکھ بھال کے لیے ہزاروں دائیوں کا بندوبست کیا گیا۔
کئی سال بیت گئے۔ اور وہ ساٹھ ہزار لڑکے مضبوط اور خوب صورت راج کماروں میں بدل گئے جب کہ اسمنجس ایک بے رحم، جنونی انسان بن گیا۔ اُس کی تفریح یہ تھی کہ چھوٹے ّبچوں کو ندی میں پھینکے اور جب وہ باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارتے ہوئے ڈوبنے لگیں تو ان کا تماشا دیکھ کر قہقہے لگائے۔ ظاہر ہے کہ لوگ اس پاگل سے سخت نفرت کرنے لگے اور انھوں نے اسمنجس کو دیش سے باہر نکال دیا۔ سب کو یہ دیکھ کر بڑی تسلّی ہوئی کہ اسمنجس کا بیٹا اَم سمان اپنے باپ کی ضد تھا۔ وہ ایک بہادر، نیک اور ملن سار راج کمار تھا۔
مہاراج سگر نے ایک بہت بڑا اَشو میدھ شروع کیا اور قربانی کے گھوڑے کی دیکھ بھال راج کمار اَم ُسمان کو سو ￿نپی۔ لیکن اِندر نے راکشس کا بھیس بدل کر گھوڑے کو چُرالیا۔ دراصل دیوتا انسانوں کے Bکو اپنی فوقیت کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے اور اس کام میں رُکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس کے باوجود ساری رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے انسان B کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو دیوتا ان کے نذرانے کو قبول کرنے اور Bکرنے والے کو مناسب انعام واکرام سے نوازنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
راجا سُگر یہ جان کر بڑا دکھی ہوا کہ قربانی کا گھوڑا چرالیا گیا ہے۔ اس نے سُمتی کے ساٹھ ہزار بیٹوں کو اس کی تلاش میں روانہ کیا تاکہ وہ ساری دھرتی کو چھان ماریں اور اُسے واپس لوٹا لائیں۔ اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: ’گھوڑے کا ُچرایا جانا محض B میں رُکاوٹ کا سبب نہیں ہے، اس سے ہم سب پر پاپ اور ذ ّلت کی مار بھی پڑے گی۔ اس لیے تم سب کا فرض ہے کہ گھوڑے کو، چاہے وہ کہیں بھی چھپایا گیا ہو، تلاش کرکے واپس لے آؤ۔‘
راجا سُگر کے بیٹوں نے بڑی بے تابی کے ساتھ ساری دھرتی پر گھوڑے کی تلاش شروع کردی مگر اس کا کہیں پتا نہ چلا۔ یہاں تک کہ انھوں نے دھرتی کو اس طرح کھودنا شروع کیا جیسے پوشیدہ خزانہ ڈھونڈ رہے ہوں اور اس اضطرابی کوشش میں مقامات اور اشخاص کی عزّت کا خیال بھی انھوں نے کھو دیا، جس کے نتیجے میں لوگ ان سے نفرت کرنے لگے۔ اس کے باوجود گھوڑا نہ ملا۔ جب انھوں نے راجا سُگر کو اپنی ناکامی کی اطلاع دی تو اس نے پاتال کو بھی تہہ و بالا کرنے کا حکم دیا۔ راج کماروں نے حکم کی تعمیل کی تو انھیں وہ گھوڑا پاتال میں واقع ایک آشرم کے کنارے گھاس چرتا ہوا مل گیا۔ وہیں پاس میں رشی کپل، جو دراصل وشنو تھے، دھیان میں بیٹھے ہوئے تھے۔
راج کماروں نے بغیر سوچے سمجھے یہ نتیجہ نکالا کہ انھیں نہ صرف گھوڑا ملا ہے بلکہ چور بھی مل گیا ہے اور یہ سوچ کر وہ سب چیختے چلاتے ہوئے رشی کپل کی طرف دوڑ پڑے۔
’وہ دیکھو چور! یوگی کا سوانگ رچائے بیٹھا ہے۔‘
رشی کپل کے دھیان میں خلل پڑا اور انھوں نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں، ساٹھ ہزار راج کمار راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ گھوڑے کا اصلی چور تو اِندر تھا جس نے اسی مقصد کے تحت اسے بڑی چالاکی سے یہاں لاکر چھوڑ دیا تھا۔‘‘
ساتواں باب

 

Aتھ گنگا لاتا ہے

راجا سُگر قربانی کے گھوڑے کی تلاش میں نکلے ہوئے راج کماروں کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ آخر تھک ہار کر اس نے چند روز بعد اپنے پوتے اَم ُسمان کو بلایا اور کہا: ’’میں یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں کہ پاتال میں جانے والے راج کماروں کا کیا ہوا۔ تم بہادر ہو، ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہاں جاؤ اور معلوم کرو کہ کیا ہوا۔ اور یاد رکھو کامیاب ہوکر ہی لوٹنا۔‘‘
راج کماروں کے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے اَم سُمان پاتال میں جاپہنچا۔ جہاں اُسے چاروں کونوں پر جسیم ہاتھی کھڑے نظر آئے۔ اس نے انھیں پرنام کیا۔ چاروں کونوں کے ان محافظوں نے اس کی ہمّت بڑھائی اور یقین دلایا کہ وہ اپنی مہم میں کامیاب ہوگا۔
جب اَم سُمان پاتال میں اِدھر اُدھر گھومنے لگا تو اسے قربانی کا گھوڑا بڑے مزے سے گھاس چرتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوگیا لیکن جیسے ہی اس کی نظر چاروں طرف بکھرے ہوئے راکھ کے ٹیلوں پر پڑی تو وہ حیران اور مضطرب ہوگیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اس کے بہادرچاچاؤں کی راکھ ہو۔
سُگر کی دوسری بیوی سمتی کا بھائی پرندوں کا راجا گروڈ جو ا ّتفاق سے وہاں موجود تھا، اَم سمان سے بولا: ’’ ُسگر کے ساٹھ ہزار لڑکوں کا وجود بس یہی راکھ کا ڈھیر ہے۔ کیونکہ انھیں رشی کپل کی عتاب بھری نظر نے جلاکر خاک کردیا ہے۔ میرے بچیّ! گھوڑے کو لے جاؤ اور Bپورا کرو۔ ا ّلبتہ رسم کے مطابق مرنے والوں کی آتماؤں کو شانتی ملنے کے لیے راکھ کے ان ڈھیروں پر پانی چھڑکنا ہوتو دیوتاؤں کی سرزمین سے گنگا کو نیچے اُتارنا ہوگا۔‘‘
اَم ُسمان گھوڑے کو لے کر تیزی سے گھر لوٹا اور جو کچھ اس نے دیکھا اور جانا تھا، راجا سے بیان کیا۔ یہ سن کر ُسگر غم میں ڈوب گیا. اس کی بدقسمتی نے اس کی اولاد کو فنا کردیا تھا۔ بہرحال گھوڑا واپس مل چکا تھا۔ اس لیے Bپورا کرلیا گیا مگر اپنے بیٹوں کی موت اور گنگا کو پاتال میں اُتارنے میں ناکامی کے غم میں اس کی موت واقع ہوگئی۔
والمیکی کی راماین کے مطابق راجا ُسگر کی عمر ۳۰ ؍ہزار سال تھی۔ تیس ہزار یا ساٹھ ہزار جیسے اعداد سے ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تیس ہزار سے مراد محض ایک لمبی یا صرف تیس سال کی مدّت بھی ہوسکتی ہے۔ البتہّ ہمارا جی چاہے تو ہم ان اعداد کو حرف بہ حرف صحیح بھی تسلیم کرسکتے ہیں۔
سُگر کے بعد ایودھیا کے راجا کی حیثیت سے اَم ُسمان تخت پر بیٹھا اور اس کے بعد دلیپ کو راج گدّی ملی۔ دلیپ کے بعد Aتھ راجا بنا۔ اَم سُمان اور دلیپ اگرچہ زندگی کے اور معاملات میں خوش نصیب اور خوش حال تھے مگر آخری دم تک اُنھیں یہی غم رہا کہ وہ اپنے بزرگوں کی نجات کے لیے گنگا کو پاتال تک نہیں لاسکے۔
اُن کا وارث Aتھ ایک بہادر راجا تھا مگر اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اولاد کے حصول اور گنگا کو زمین پر لانے کی اُ ّمید میں اس نے ّتپسیا کی ّنیت سے اپنی حکومت اپنے وزیروں کے ہاتھوں میں سو ￿نپی اور گو کرن کی راہ لی۔ Aتھ نے کڑی ّتپسیائیں کیں۔ چاروں طرف آگ جلاکر اور تپتی ہوئی دھوپ میں کھلے سربیٹھ کر اور مہینے میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاکر اس نے اپنی ّتپسیا جاری رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نیک کام میں کی جانے والی سخت کوشش کے لیے Aتھ کی جدّوجہد کی مثال دی جاتی ہے۔
Aتھ کی ّتپسیا سے خوش ہوکر برہما نے اسے درشن دیا۔ اور پوچھا: ’’مانگو کیا مانگتے ہو۔‘‘
Aتھ نے برہما سے دو وردان مانگے۔ وہ بولا: ’’اگر آپ کو مجھ پر دَیا آتی ہے تو مجھے اولاد سے نوازیے، تاکہ میرے آباو اجداد کی نسل چلتی رہے۔ دوسرے یہ کہ کپل منی کے شراپ کی وجہ سے میرے پرکھے پاتال میں راکھ کا ڈھیر بنے پڑے ہیں۔ اگر اس راکھ کو گنگا کا پوتر پانی دھودیتا ہے تو میرے پُرکھوں کی آتمائیں ُسورگ میں جاسکیں گی۔ آپ مہربانی کرکے گنگا کو وہاں جانے کا حکم دیجیے۔‘‘
برہما نے جواب دیا: ’’دیوتا تمھاری ّتپسیا سے خوش ہوئے۔ تمھاری دونوں خواہشیں پوری کی جاتی ہیں۔ لیکن ایک مشکل ہے۔ یہ دھرتی گنگا کے اوترن کے زور کو برداشت نہیں کرسکے گی، صرف شیو میں یہ طاقت ہے کہ ُسورگ سے اُترنے والی گنگا کا زور سہارسکیں۔ اس لیے تم شیو کو منانے کے لیے ّتپسیا اور پوجا کرو۔‘‘
Aتھ نے نئے سرے سے ّتپسیا کرنا شروع کی اور ایک لمبے عرصے تک بغیر کھائے پیے ّتپسیا کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے شیو کی خوشنودی حاصل ہوگئی۔ شیو نے اس کے سامنے نمودار ہوکر کہا: ’’میں تمھاری خواہش پوری کروں گا، میں گنگا کو اپنے سرپہ لوں گا۔ تم پر گنگا کی کرپا ہو۔‘‘
جب مہادیو نے Aتھ کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تو گنگا نے برہما کے اشارے پر ُسورگ سے نیچے اُترنا شروع کیا۔ اس نے اپنے غرور میں سوچا کہ میں مہادیو کے سرپہ زور سے گروں گی اور انھیں بھی پاتال کی اور بہالے جاؤں گی۔ تین آنکھوں کے مالک بھگوان شیو نے بھی گنگا کو سبق سکھانے کی سوچی۔ مہادیو کے ارادہ کرتے ہی ان کے سرپر گرنے والے پانی کے دھارے کو ان کے الجھے ہوئے بالوں نے ایک پُرنہ ہونے والے برتن کی طرح اپنے اندر سمولیا۔ گنگا نے اپنی پوری کوشش کی کہ باہر آجائے مگر شیو کی الجھی ہوئی لٹوں کے جال میں سے اس کا ایک قطرہ بھی باہر نہ آسکا۔
یہ گنگا کے لیے ایک سبق ضرور تھا مگر Aتھ کے لیے دل توڑ دینے والی مایوسی کا سبب بھی تھا۔ اب اس کے لیے نئے سرے سے ّتپسیا کرکے شیو کو منانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اس نے ایک نیک کام کی خاطر یہ کڑی محنت کی تھی اس لیے شیو نے اُس پر رحم کھاکر گنگا کے پانی کو آہستہ سے ’’بندو سارس‘‘ میں اتار دیا۔ یہاں سے وہ سات چھوٹے چھوٹے چشموں کی شکل میں بہہ نکلی۔ ان میں سے تین چشمے مغرب کی طرف اور تین مشرق کی طرف بہہ گئے۔ اور ایک ندی Aتھ کے پیچھے پیچھے چلنے لگی جو اپنے پُرکھوں کی نجات کو قریب دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔
گنگا Aتھ کے فاتح رتھ کے پیچھے چلنے لگی۔ جیسے جیسے ندی اپنا راستہ طے کرتی گئی اس کا پانی اچھلتا ہوا اور بجلی کی طرح چمکتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ اس خوبصورت منظر کا نظارہ کرنے کے لیے آسمان میں دیوتا اور گندھرو جمع ہوگئے۔ کبھی آہستہ تو کبھی تیز، کبھی سرکتے ہوئے تو کبھی اُچھلتے ہوئے، گنگا Aتھ کے رتھ کے پیچھے ناچتی گاتی چلتی رہی اور دیولوک کے رہنے والے اس منظر کا لطف اٹھاتے رہے۔
گنگا نے اپنے راستے میں آنے والے جہنورشی کے B کے لیے نصب کیے ہوئے مچان کو نقصان پہنچایا۔ نتیجے میں رشی جہنونے گنگا کا ساراپانی اپنے چلّو میں بھرلیا اور اسے پی گئے۔ گنگا پھر سے Aتھ کو دُکھی اور پریشان چھوڑ کر غائب ہوگئی۔
دیوتا اور دوسرے رشیوں نے جہنو کے پاس جاکر ان سے درخواست کی کہ گنگا کو معاف کردیں اورAتھ کو اپنی ّتپسیاؤں اور ریاضتوں کا پھل بھوگنے کی اجازت دیں۔ رِشی نے ان کی بات مان لی اور گنگا کو اپنے سیدھے کان سے باہر نکال دیا۔ دیوتا خوش ہوگئے اور انھوں نے گنگا کو اس طرح آشیرواد دیا:
’’رشی جہنو کے بدن سے تم اس طرح نکلی ہو جیسے ماں کی کوکھ سے بچہّ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے تم جاہنوی ہو یعنی جہنو کی بیٹی۔‘‘
اس کے بعد نہ تو کوئی رُکاوٹ پیش آئی اور نہ کوئی حادثہ ہوا اور سمندر کے راستے گنگا پاتال تک پہنچ گئی۔ گنگا کے پوتر پانی سے Aتھ نے اپنے پُرکھوں کا کریا کرم کیا جس سے ُسورگ میں اُن کا داخلہ یقینی ہوگیا۔Aتھ کی کوششوں سے گنگا دھرتی پر آئی اس لیے اُسے بھاگیرتھی کہا جاتا ہے۔‘‘
اپنی کہانی ختم کرتے ہوئے وِشوامتر نے راج کماروں کو آشیرواد دیا۔ اور بولے:
’’سورج غروب ہورہا ہے۔ چلو ہم اپنی شام کی پوجا گنگا کے پانی سے کریں جسے تمھارا ایک پُرکھا زمین پر لایا ہے۔‘‘
وہ لوگ جو گنگا کے پوتر پانی میں اشنان کرتے ہیں یا بھکتی بھاونا سے اِس مقدّس کہانی کو پڑھتے یا سنتے ہیں ان کے سارے پاپ دُھل جاتے ہیں اور انھیں نیکی، استحکام اور ان تھک جوش حاصل ہوتا ہے۔
آٹھواں باب

 

اہلیا

شہر وشال میں ایک دن ٹھہرنے کے بعد وشوامتر اپنی جماعت کے ساتھ متھیلا روانہ ہوگئے۔ متھیلا سے قریب ایک جگہ انھوں نے ایک خوب صورت آشرم دیکھا۔ لیکن یہاں کسی آشرم واسی کا پتا نہیں تھا۔ رام نے وشوامتر سے پوچھا: ’’اتنے پرانے درختوں سے گھرا ہوا یہ کس کا آشرم ہے؟ ایسی خوب صورت جگہ کو یہاں کے رہنے والے کیوں چھوڑ گئے؟‘‘
وِشوامتر نے جواب دیا: ’’دراصل یہ آشرم ایک شراپ کا شکار ہوگیا ہے۔ یہاں رشی گوتم اپنی بیوی اہلیا کے ساتھ رہتے تھے، اور دلی سکون کے ساتھ دھیان گیان میں اپنے دن بتاتے تھے۔ ایک دن جب کہ رشی آشرم سے دُور تھے، اِندر نے خوب صورت اہلیا کے لیے ناپاک خواہش سے مغلوب ہوکر رِشی گوتم کا بھیس بدلا اور اہلیا سے فوری وصال کا طالب ہوا۔ اہلیا نے گوتم کے بھیس میں بھی اِندر کو پہچان لیا مگر اپنی خوب صورتی کے غرور میں اور اس بات پر فخر کا احساس کرتے ہوئے کہ دیولوک کا راجا اِندر اس کی محبت میں گرفتار ہے، وہ اپنا توازن کھو بیٹھی اور اِندر کی بات مان گئی۔
گناہ کا ارتکاب کرتے ہی اُسے احساس ہوا کہ اس نے نہ صرف ایک گھناونا پاپ کیا ہے بلکہ زبردست روحانی طاقت کے مالک شوہر کو دھوکا دیا ہے۔ چناںچہ اس نے اِندر کو اس کے تباہ کن نتیجے سے آگاہ کرتے ہوئے اس سے منّت کی کہ وہ وہاں سے فوراً نکل جائے۔
اِندر شدید احساسِ جرم کی گھبراہٹ میں وہاں سے بھاگنے لگا لیکن بدقسمتی سے اشنان کرکے واپس آنے والے گوتم رشی سے، جو گیلے کپڑوں اور روحانی نور میں لپٹے سامنے کھڑے تھے، قریب قریب ٹکراگیا۔ اِندر نے جب دیکھا کہ سرو گیانی گوتم کے سامنے ڈھونگ رچانا بے کار ہوگا تو اس نے فوراً حقیرانہ عاجزی کے ساتھ اُنھیں نمسکار کیا اور ان کے قدموں میں گرکر رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ رشی نے غصّے اور نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور شراپ دیا: ’تم ایک خواہشوں کے غلام جانور ہو جسے ستیہ اور نیکی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اس لیے تم اپنی مردانگی سے محروم ہوجاؤگے۔‘
’’اِندر فوراً ایک زنخے میں تبدیل ہوگیا اور ذ ّلت آمیز شرمندگی کے ساتھ دیوتاؤں کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے بعد رشی نے اپنی غلط کار بیوی کی طرف دیکھا اور اسے ایک طویل پرائشچت کی بد دعا دی۔ انھوں نے کہا: ’ایک طویل مدّت تک تم صرف ہوا پر زندہ رہوگی اور کوئی تمھیں دیکھ نہیں سکے گا جب تک کہ دشرتھ کا بیٹا اس راہ سے نہ گزرے۔ جب وہ اس آشرم میں قدم رکھے گا تو اس شراپ سے تم آزاد ہوجاؤ گی۔ ایک مہمان کی طرح اس کا سواگت اور اس کی خدمت کرنا۔ ایسا کرنے پر تم اپنی کھوئی ہوئی عصمت اور خوب صورتی کو واپس حاصل کرسکو گی۔‘
یہ کہہ کر رِشی گو تم نے اپنا وہ آشرم، جس کی حرمت کو برباد کردیا گیا تھا، ترک کردیا اور ّتپسیائیں کرنے کے لیے ہمالیا کی طرف چلے گئے۔‘‘
وِشوامتر نے رام سے کہا: ’’آؤ اس آشرم میں چلیں۔ تم اہلیا کو اس کے شراپ سے نجات دلاؤگے اور رِشی کے کیے ہوئے وعدے کے مطابق اس کا حسن اور اس کی عصمت اسے واپس مل جائے گی۔‘‘
چناںچہ وہ لوگ آشرم میں داخل ہوئے۔ جیسے ہی رام نے آشرم میں قدم رکھا اُن کے چرنوں کے اسپرش سے شراپ کا خاتمہ ہوگیا اور اہلیا اپنی تمام تر خوب صورتی کے ساتھ ان کے سامنے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ جھاڑیوں اور پتوّں میں چھپی رہنے اور سالہا سال تک اپنی حالت پر قایم رہنے کے سبب رام کی موجودگی میں وہ ایسی تاب ناک لگنے لگی جیسے بدلی سے باہر آنے والا چاند، یا جیسے دُھوئیں سے اُٹھنے والا شعلہ یا جیسے مچلتے ہوئے پانی میں سورج کی کرنوں کا انعکاس ہو۔
رام اور لکشمن نے پرائشچت کے بعد پوتر ہوجانے والی رشی کی بیوی کے پیر چھوئے۔ اُس نے بھی مہمان نوازی کے تمام رسمی آداب کے ساتھ ان دیوتا صفت راج کماروں کا سواگت کیا۔ گناہوں سے پاک ہونے کے بعد اہلیا ایک دیوی کی طرح پُرنور ہوگئی اور آسمانوں سے اس پر پھولوں کی بارش ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ رِشی گوتم بھی آشرم میں لوٹ آئے، اور انھوں نے گناہ پر شرم سار اور دوبارہ پوتر ہوجانے والی بیوی کو اپنی محبت کے دائرے میں واپس لے لیا۔
یہ والمیکی کی بیان کی ہوئی اہلیا کی کہانی ہے۔ اگرچہ پُرانوں میں اور عوامی حکایتوں میں اس کہانی کے کسی قدر مختلف روپ ملتے ہیں لیکن ان اختلافات سے ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
میں اپنے زمانے کے ان لوگوں سے، جو راماین، مہابھارت اور دوسرے پُرانوں کا مطالعہ کرتے ہیں، چند باتیں کہنا چاہوں گا۔ ان صحیفوں میں جگہ جگہ دیوتاؤں اور راکشسوں کا ذکر ملتا ہے۔ راکشس شریر تھے، دھرم کی خلاف ورزی کرتے تھے اور ادھرم کے کاموں میں مسرّت محسوس کرتے تھے۔ اَسور بھی راکشسوں ہی کے مانند تھے۔ لیکن خود راکشسوں میں دانش مند اور نیک لوگ بھی ہوا کرتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہترین نسل کے لوگوں میں بُرے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور بُروں میں ا ّچھے جنم لیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسور اور راکشس دراصل وہ لوگ تھے جو بُرے کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ افسوس ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے اَسوروں اور راکشسوں کو قدیم ہندوستان کے جنگلی قبیلوں اور وحشی نسلوں کے لوگ سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ کسی پرانے ادب یا روایت یا تاریخ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے جس سے اس خیال کی تائید ہوسکے۔ غیر ملکیوں کا یہ قیاس کہ راکشسوں سے مراد دراوڑی نسل کے لوگ ہیں، کسی تامل ّمصنف یا ادبی تصنیف سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ تامل باشندے اَسوروں یا راکشسوں کی نسل سے نہیں ہیں۔
دیوتا عام طور پر دھرم کے محافظ ہوتے تھے اور راکشسوں کو شکست دینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ُپرانوں کے مطابق راکشسوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھیں بعض اوقات دھرم کے خلاف بھی قدم اٹھانا پڑتا تھا کیونکہ بعض راکشس اپنی ّتپسیاؤں کے سبب غیر معمولی قوّت کے مالک ہواکرتے تھے۔
دیوتا عموماً نیک چلن ہواکرتے تھے اور جو نیک چلنی کے راستے سے بھٹک جاتے تھے انھیں اس کا پرائشچت کرنا پڑتا تھا۔ دیوتاؤں کے لیے دھرم یا شریعت کا کوئی الگ ضابطۂ عمل نہیں تھا۔ کرم کا اصول دیوتاؤں اور دوسری مخلوقات میں فرق نہیں کرتا۔ دھرم کا قانون دیوتاؤں اور دوسری مخلوقات پر یکساں لاگو تھا۔
دیوتاؤں کے ساتھ نیکی کا تصوّر لازمی تھا اس لیے ان کی چھوٹی سی لغزش بھی ہمیں سفید کپڑے پر لگے ہوئے داغ کی طرح نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اور راکشسوں سے بُرے کرموں ہی کی تو ّقع کی جاتی ہے، اس لیے ان کے بُرے عمل کالے کپڑے پر لگے دھبّوں کی طرح نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نیک انسان اگر بہک جائے تو ہماری ہم دردی کا مستحق ہونا چاہیے، لیکن دنیا کا چلن یہ ہے— حالانکہ یہ غلط چلن ہے— کہ ہم نیک لوگوں کی چھوٹی سی لغزشوں پر بھی انھیں سخت لفظوں میں پھٹکارتے ہیں اور مستقل خطاکرنے والوں کو آسانی سے برداشت کرلیتے ہیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ پُرانوں میں ہم دیوتاؤں کو دھرم اور ادھرم کی کشمکش میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ اِندر اور دوسرے دیوتاؤں کو ُپرانوں میں سنگین پاپ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ آخر اُن رِشیوں نے جو ان پُرانوں کے ّمصنف ہیں، ایسی باتیں بیان کرکے اپنے لیے مشکلات کیوں پیدا کرلیں؟ دراصل ان کا مقصد لوگوں کو دھرم پر چلنے کی راہ کے خطرات سے آگاہ کرنا تھا۔ ورنہ انھیں کیا ضرورت تھی کہ اپنے ہی مثالی کرداروں کے ساتھ جان بوجھ کر پاپ کرموں کو جوڑتے اور اپنی تعلیم کی راہ میں مشکلات حائل کرلیتے؟
کچھ لوگ پُرانوں میں بیان کردہ واقعات سے فوری غلط نتائج نکالنے میں مسرّت محسوس کرتے ہیں۔ ان کی دلیل ہوتی ہے: ’’راون ایک بہت ا ّچھا حکمراں تھا۔ والمیکی نے غلطی سے بُرے کاموں کا الزام اس کے سر ڈال دیا ہے۔‘‘ وہ پوچھتے ہیں: ’’کیا فلاں موقع پر رام نے بھی ناانصافی سے کام نہیں لیا؟ کیا سیتا جی نے فلاں موقع پر جھوٹ نہیں کہا؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
والمیکی چاہتے تو بڑی آسانی سے ان واقعات کو حذف کرسکتے تھے جن سے لوگوں کو روحانی درس نہیں ملتا۔ رام اور راون دونوں کا ذکر سب سے پہلے کوی والمیکی ہی نے کیا ہے۔ والمیکی کی راماین سے پہلے لکھی گئی کوئی ایسی تصنیف نہیں ملتی جس میں راون کا ذکر ہو اور جس کے حوالے سے والمیکی کے بیان کی تردید کرکے انھیں رام، سیتا اور دیوتاؤں کا طرف دار اور واقعات کو توڑ مروڑ کر لوگوں کو دھوکا دینے کا قصو وار قرار دیا جاسکے۔
اس قسم کے واقعات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ راماین میں ہماری روز مرّہ کی زندگی کے ملتے جلتے مسائل ہی کا عکس ملتا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم پرانوں میں بیان کردہ اخلاقی آزمائشوں سے سبق سیکھیں۔ مثلاً اہلیا کے واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا پاپ کتنا ہی بڑا ہو، سزا اور پرائشچت سے گزر کر ہم اس سے نجات پانے کی تو ّقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے پاپوں پر انھیں لعنت ملامت کرنے کے بجائے ہم خود اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور ہر قسم کے بُرے خیال سے انھیں پاک کرنے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے جو سب سے نیک ہیں انھیں گناہوں سے بچنے کے لیے ہمیشہ بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔ اہلیا کی خطا سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
نواں باب

 

سیتا سوl

جنک کے B کی ساری تیاّریاں ّمکمل ہوچکی تھیں اور مختلف ریاستوں کے رشی منی اور برہمن وہاں پدھار چکے تھے۔ وشوامتر اور ان کے ہم راہ آئے ہوئے راج کماروں کا مناسب سواگت کیا گیا۔ راجا جنک کے پروہت (دھرم ُگرو) شانند نے سب سے پہلے وِشوامتر کو تعظیم دی۔ پھر جنک نے ان کی تقلید کی، راجانے رشی سے کہا: ’’یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ میرے B میں شریک ہیں۔‘‘
رام اور لکشمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنک نے وِشوامتر سے پوچھا: ’’یہ دونوں دیوتا صورت نوجوان کون ہیں جن کی صورتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور جو تجربہ کار ُسورماؤں کی طرح اپنے ہتھیاروں کو فخریہ بے پروائی کے ساتھ اُٹھائے ہوئے ہیں؟ وہ کون خوش نصیب باپ ہے جس کے یہ بیٹے ہیں؟‘‘
وِشوامتر نے جنک کو بتایا کہ وہ دونوں راجا دشرتھ کے بیٹے رام اور لکشمن ہیں۔ انھوں نے ان دونوں کے راکشسوں کو تباہ کرنے اور ان کے Bکو بچانے کی بات بھی بتائی: ’’یہ دونوں یہاں اس لیے آئے ہیں کہ ممکن ہوتو تمھارے محل میں رکھی ہوئی رُدر کی کمان کے درشن کرسکیں۔‘‘
جنک وِشوامتر کے الفاظ کا مطلب سمجھ گئے اور دِل ہی دل میں خوش ہوئے، وہ بولے:
’’کمان دیکھنے کے لیے راج کمار کا سواگت ہے۔ اگر وہ اس پر چلاّ چڑھا سکے تو میری بیٹی کو جیت لے گا۔ بہت سے راج کمار آئے جنھوں نے اس کمان کو دیکھا اور واپس چلے گئے کیوںکہ وہ اسے اپنے جگہ سے ہلا بھی نہیں سکے تھے۔ مجھے سچ مچ بڑی خوشی ہوگی اگر یہ راج کمار وہ کام کر دکھائے جس میں اتنے راج کمار ناکام رہے ہیں، تاکہ میں اپنی سیتا کا بیاہ اس سے کرسکوں۔‘‘
اس کے بعد جنک نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ بڑی حفاظت اور تقدّس کے ساتھ ایک لوہے کے صندوق میں رکھی ہوئی کمان کو وہاں لے آئیں۔ چناںچہ یاترا کے موقع پر نکالے جانے والے مندروں کے رتھ کی طرح آٹھ ّپہیوں والے رتھ پر رکھ کر وہ کمان وہاں لائی گئی۔
’’یہ رہی وہ رُدر کی کمان جسے میں اور میرے پُرکھے پوجتے چلے آئے ہیں۔‘‘ جنک نے کہا: ’’رام آئیں اور اس کے درشن کریں۔‘‘
وِشوامتر اور راجا جنک کی اجازت پاکر رام اس لوہے کے صندوق کے پاس گئے جس میں کمان رکھی ہوئی تھی۔ اس وقت سبھی کی آنکھیں پر اُ ّمید انداز میں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ صندوق کو کھولتے ہوئے انھوں نے بڑی آسانی سے کمان کو اٹھالیا گویا وہ پھولوں کا ہار ہو۔ پھر اس کا ایک سرا اپنے پیر کے پنجے میں پکڑکر انھوں نے اسے موڑا اور اس پر چلاّ چڑھا دیا۔ پھر کمان کی ڈور کو ایسی زبردست قوّت کے ساتھ کھینچا کہ وہ مضبوط کمان بجلی کی کڑک کی آواز کے ساتھ دو ٹکڑے ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آسمان سے پھولوں کی بارش ہوئی۔
جنک نے اعلان کیا: ’’میری پیاری بیٹی کا بیاہ اس راج کمارسے ہوگا۔‘‘
وِشوامتر نے جنک سے کہا: ’’ اپنے سب سے تیز رفتار قاصدوں کو ایودھیا روانہ کرو تاکہ وہ راجا دشرتھ کو اس بات کی اطلاع اور بیاہ میں شرکت کا نیوتا دے سکیں۔‘‘
جنک کے قاصد تیسرے ہی دن ایودھیا پہنچ گئے۔ انھوں نے اِندر کی طرح دربار لگاکر بیٹھے ہوئے راجا دشرتھ کے حضور میں حاضری دی اور عرض کی:
’’مہاراج! رشی وشوامتر اور راجا جنک نے آپ کے لیے خوش خبری بھیجی ہے۔ آپ کے بیٹے رام نے جو میتھلا پدھارے تھے، ہماری راج کماری سیتا کو، انھیں حاصل کرنے کی شرط پوری کرکے، جیت لیا ہے۔ انھوں نے رُدر کی کمان پر، جسے اُن سے پہلے کوئی ہلا بھی نہیں سکا تھا، نہ صرف چلاّچڑھایا بلکہ اس کو اس طرح موڑا کہ وہ اپنے غرور کے ساتھ دو ٹکڑے ہوگئی۔ راجا جنک اس بیاہ کے لیے آپ کی کریمانہ اجازت اور اس تقریب میں آپ کی شرکت اور آشیرواد کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ آپ سے التجا ہے کہ اپنے جاہ و حشم کے ساتھ متھیلا کے لیے روانہ ہوں۔‘‘
راجا دشرتھ، جنھوں نے رام کو رشی وشوامتر کے ساتھ ان کی یقین دہانی کے باوجود بڑے فکر مند دل کے ساتھ روانہ کیا تھا، یہ خوش خبری سن کر خوشی سے اُچھل پڑے۔ انھوں نے اپنے وزیروں کو حکم دیا کہ فوراً سفر کی تیاّری کریں۔ اور دوسرے ہی دن وہ راجا جنک کی راجدھانی کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب راجا دشرتھ، ان کے درباری اور نوکر چاکر متھیلا پہنچے تو گرم جوشی سے ان کا سواگت کیا گیا۔ آپسی نمسکار اور تواضع کے بعد جنک نے دشرتھ سے کہا: ’’میرا B جلد ہی پورا ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ B ختم ہوتے ہی دونوں کا بیاہ کرنا بہتر ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے دشرتھ کی منظوری کے لیے ان کی طرف دیکھا۔
’’آپ لڑکی کے ِپتا ہیں اور آپ ہی کو اس کا ادھیکار ہے کہ جس طرح چاہیں رسم پوری کریں۔‘‘ راجا دشرتھ نے جواب دیا۔
مقرّرہ دن اور گھڑی پر راجا جنک نے سیتا کو رام سے بیاہ دیا اور بولے: ’’میری بیٹی سیتا اب آپ کے حوالے ہے جو دھرم کے راستے پر آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رہنا۔ سعادت مندی اور عقیدت مندی کے ساتھ وہ آپ کا سایہ بن کر چلے گی۔‘‘
اس طرح جنک نے سیتا کو رام سے بیاہ دیا۔ کیا وہ دونوں ازلی پریمی نہیں تھے جو دھرتی پر پھر سے مل گئے؟ چناں چہ وہ دونوں اس ملن پر ایسے ہی مسرور ہوئے جیسے بچھڑے ہوئے پریمی ایک مدّت کے بعد ملے ہوں۔
دسواں باب

 

پرشورام کی شکست

ایودھیا میں وِشوامتر کے حوالے کیے گئے دونوں راج کماروں کو انھوں نے حفاظت کے ساتھ مِتھیلا میں راجا دشرتھ کے حوالے کیا۔ پھر بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنے کے بعد انھوں نے دونوں سے رخصت لی اور ہمالیا کی طرف چلے گئے۔ راماین میں اس کے بعد وِشوامتر کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
وِشوامتر کو راماین کی کتھا کے مندر کا سنگِ بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ چناںچہ مِتھیلا میں رام کے بیاہ کے بعد وہ ہمیں پھر کہیں نظر نہیں آتے۔ خیال رہے کہ والمیکی راماین کی ایک فصل یا کانڈ میں جو کردار نمایاں اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ، دوسری فصل میں وہ نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وِشوامتر جو بال کانڈ میں سب سے اہم کردار ہیں، پھر نظر نہیں آتے۔ اس طرح کیکئی اور گہا صرف ایودھیا کانڈ ہی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ بھرت کے بارے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے جو چترکوٹ کی ملاقات اور رام کی ایودھیا کو واپسی کے درمیان کے ابواب میں کہیں دِکھائی نہیں دیتے۔ رام کے بن باس کے زمانے میں کوی والمیکی نے بھرت کو شاذ ہی کہیں پیش کیا ہے۔ والمیکی راماین کے کردار ہمارے سامنے بار بار نہیں آتے جیسا کہ مہابھارت اور دوسرے عام ناٹکوں اور کتھاؤں میں دِکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے نقاّدوں کو والمیکی کے رزمیے کی اس عمومی خاصیت کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔
راجا دشرتھ اپنے تام جھام کے ساتھ ایودھیا لوٹے۔ راستے میں کچھ برُے شگون بھی سامنے آئے اور پریشان دشرتھ نے وِسِشٹھ سے ان کی تعبیریں پوچھیں۔ وسِشٹھ نے جواب میں راجا کو مطمئن رہنے کے لیے کہا۔ کیوںکہ فضا میں اُڑتے پرندے آنے والی آفت کی نشان دہی کر رہے تھے۔ مگر زمین کے جانور رام اور سیتا کی خوش گوار بیاہتا زندگی کا یقین دلا رہے تھے۔
دشرتھ اور وسِشٹھ کے درمیان بات چیت چل رہی تھی کہ اچانک آندھی شروع ہوگئی۔ درخت اُکھڑ کر گرنے لگے، زمین ہلنے لگی اور آندھی کے ساتھ اُٹھنے والے گردوغبار کے بادلوں نے سورج کو بھی چھپا لیا۔ چاروں طرف گہری تاریکی چھا گئی۔ ہر شخص خوف زدہ ہوگیا۔ جلد ہی انھیں اس عجیب قدرتی مظہر کی وجہ معلوم ہوگئی۔ان کے سامنے خوف زدہ کرنے والی پرشورام کی عظیم شبیہ، کھڑی تھی۔ چھتریوں کا جانی دشمن پرشورام ایک کاندھے پر کمان اور دوسرے پر جنگی کلہاڑی (تبر) اور ہاتھ میں بجلی کی طرح چمکتا ہوا تیر لیے ہوئے تھا۔ خوفناک چہرے کے ساتھ اور اُلجھی ہوئی جٹاؤں کو سر کے اوپر باندھے ہوئے وہ ایسا لگ رہا تھا جیسے تری پرا کو تباہ کرنے میں فخر کا احساس کرنے والا رُدر ہو۔ اس کے چہرے کی چمک شعلوں جیسی تھی۔ رِشی جمداگنی کا یہ بیٹا چھتریوں میں، جن کی کئی نسلوں کو وہ برباد کر چکا تھا، خوف کی لہر دوڑا دیتا تھا۔ وہ جہاں کہیں جاتا اس سے پہلے آندھی اور زلزلہ آتا تھا اور چھتری ُکل کے لوگ خوف سے کا ￿نپنے لگتے تھے۔
راجا دشرتھ کی شاہی سواری میں شامل برہمن ایک دوسرے سے کہنے لگے:
’’پرشورام کے باپ کو ایک چھتری راجا نے قتل کردیا تھا اس لیے اس نے قسم کھائی کہ چھتریوں کو برباد کر کے رہے گا۔ ہم یہ اُ ّمید کرچلے تھے کہ اس نے بے شمار راجاؤں کا خون بہانے کے بعد اپنے انتقامی غصّے کی آگ کو ٹھنڈا کرلیا ہوگا، لیکن اس نے تو اپنی ظالمانہ سرگرمی پھر سے شروع کردی۔‘‘
بہرحال برہمنوں نے رسمی طور پر احتراماً اسے جل ارپن کیا۔ اُن کی پیش کش قبول کر کے پرشورام نے رام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’دشرتھ کے بیٹے! میں نے تمھاری جواں مردی کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ مجھے یہ جان کر تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی کہ تم نے راجا جنک کے دربار میں رکھی ہوئی کمان پر چلاّ چڑھایا اور اس کی ڈور کو اس طرح کھینچا کہ وہ دوٹکڑے ہوگئی۔ یہ رہی میری کمان جو ہر مقابلے میں تمھاری توڑی ہوئی کمان کی برابری کرسکتی ہے۔ یہ وشنو کی کمان ہے جو میرے باپ کو دی گئی تھی۔ اگر تم اس کمان پر چلاّ چڑھاسکے تو میں تمھیں اپنے سے مقابلہ کرنے کے لایق سمجھوں گا۔‘‘
ماحول کو اس طرح بدلتے دیکھ کر راجا دشرتھ پریشان ہوگئے اور انھوں نے پرشورام سے التجا کرنی شروع کی کہ رام کو اس آزمایش میں نہ ڈالیں۔ انھوں نے پرشورام سے کہا: ’’تم ایک برہمن ہو، ہم نے سنا تھا کہ اِندر کو دیے ہوئے قول کے مطابق اپنی جیتی ہوئی دھرتی کاشیپ کو دینے اور اپنے انتقام کی پیاس بجھا لینے کے بعد تم پھر سے اپنے دھرم کے مطابق ّتپسیا میں مصروف ہوگئے ہو۔ کیا یہ مناسب ہے کہ تم اپنی قسم کو توڑو اور ایک کم عمر راج کمار کو، جس نے تمھارا کچھ نہیں بگاڑا ہے اور جو ہمیں جان سے زیادہ پیارا ہے، نقصان پہنچانے کا بہانہ تلاش کرو۔‘‘
پرشورام نے دشرتھ کی بات سنی اَن سنی کردی اور اُن کی طرف دیکھے بغیر صرف رام سے اس طرح مخاطب رہا جیسے دوسرے لوگ وجود ہی نہ رکھتے ہوں:
’’وشوکرما نے اصل میں ایک جیسی دو کمانیں بنائی تھیں۔ ایک رُودر کو دی گئی اور دوسری وِشنو کو۔ یہ وِشنو کو دی ہوئی کمان ہے۔ اور جس کمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تم نے اس پر چلاّ چڑھایا اور یہاں تک موڑا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے، دراصل شیو کی کمان تھی۔ اب وِشنو کی کمان کو توڑنے کی کوشش کرو۔ اگر تم نے ایسا کرلیا تو یہ تمھاری مہارت اور طاقت کا ثبوت ہوگا اور میں تم سے مقابلہ کر کے تمھاری عزّت بڑھاؤں گا۔‘‘
پرشورام نے بلند اور پرغرور لہجہ میں یہ بات کہی مگر رام نے اس کی بات کا بڑے پر اخلاق مگر مستحکم لہجہ میں جواب دیا:
’’جمداگنی کے بیٹے! تم اس لیے انتقام پر اُتارو ہوگئے ہو کہ تمھارے باپ کو کسی راجا نے قتل کردیا تھا۔ میں تمھیں اس بات کے لیے الزام نہیں دوں گا۔ لیکن تم مجھے صرف اس لیے نہیں ہراسکتے کہ مجھ سے پہلے بہت سوں کو ہراچکے ہو۔ لاؤ! اپنی کمان مجھے دینے کی کرپا کرو۔‘‘
اپنی بات ختم کر کے رام نے پرشورام سے تیر اور کمان لے لیے۔ انھوں نے کمان پر چلاّ چڑھایا اور تیر جوڑ کر کمان کو کھینچا۔ پرشورام سے خطاب کرتے ہوئے وہ مسکراکر بولے:
’’وِشنو کا یہ زبردست تیر کمان پر چڑھنے کے بعد یونہی واپس ترکش میں نہیں جاسکتا۔ اس سے کسی نہ کسی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ بتاؤ! کیا اس سے تمھاری رفتار کی طاقتوں کا خاتمہ کیا جائے یا تمھاری ّتپسیا کا پھل اس سے توڑ دیا جائے۔‘‘
جیسے ہی دشرتھ کے بیٹے نے وِشنو کی کمان پر چلاّ چڑھایا، پرشورام کے چہرے کی آب و تب جاتی رہی اور وہ جنگجو فاتح کی بجائے ایک منکسرمزاج رِشی کی مانند کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ کیونکہ پرشورام کے اوتار کا مقصد ہی پورا ہوچکا تھا۔
پرشورام نے بڑی نرمی کے ساتھ ایودھیا کے راج کمار سے کہا:
’’میں جان گیا آپ کون ہیں۔ مجھے کوئی افسوس نہیں کہ آپ نے میری غرور کی آگ کو ٹھنڈا کردیا۔ میری ساری ّتپسیا آپ پر قربان، مگر کاشیپ سے کیے گئے وعدے کے سبب میں اس کی مملکت میں ٹھہر نہیں سکتا اور سورج غروب ہونے سے پہلے مہندر کے پہاڑوں میں لوٹ جانا میرے لیے ضروری ہے۔ مجھے صرف اس کام کے لیے اپنی قوّتِ رفتار کو استعمال کرنے کی اجازت دیجیے۔ صرف اس بات کو چھوڑ کر آپ کا چڑھایا ہوا تیر میری ّتپسیا کے زور پر کمائی ہوئی طاقت کو ختم کردے تو مجھے غم نہ ہوگا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے پرشورام نے احتراماً راج کمار کا طواف کیا اور وہاں سے چلا گیا۔

ایودھیا کی جنتا میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ راجا دشرتھ اور دونوں راج کمار راجدھانی لوٹ رہے ہیں۔ سارا شہر پھولوں سے سجا دیا گیا اور دیولوک کی طرح سندر لگنے لگا۔
رام اور سیتا ￿ہنسی خوشی بارہ سال تک ایودھیا میں رہے۔ رام سیتا پر اپنا دِل نچھاور کرچکے تھے۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ اُن دونوں کی ّمحبت میں اُن کی نیکیوں کے سبب اضافہ ہو رہا تھا یا اس میں ان کے جسمانی حسن کو دخل تھا۔ وہ ￿منہ سے لفظ ادا کیے بغیر اپنے دِل کی مدد سے ایک دوسرے سے اپنی بات کہتے تھے۔ رام کی ّمحبت میں سرشار سیتا دیولوک کی لکشمی کی مانند سندر لگتی تھیں۔
کافی عرصے بعد جب دونوں بن باس گئے تو عظیم رِشی اَتری کی پاک باز بیوی اَن ُسویا نے رام کے لیے سیتا کے پریم کی تعریف کی۔ تب سیتا نے کہا:
’’بھلا اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا۔ رام تو ایک ّمکمل انسان ہیں۔ میرے لیے اُن کی ّمحبت میری ّمحبت کی برابری کرتی ہے۔ ان کا پیار بدلتا نہیں۔ ایک پاک اور پوتر دِل کے مالک ہونے کی وجہ سے انھوں نے اپنی ساری خواہشات پر قابو پالیا ہے۔‘‘

¡¡