Qabil Ajmeri ki Naz’m “Iqbal”

Articles

قابلؔ اجمیری کی نظم’’اقبال‘‘

عمران عاکف خان

عـــلامہ سر محمد اقبال ؔ کی عظمت و رفعت ان کے نام کی مانند ہی عظیم و رفیع ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی عظیم و رفیع شخصیت کے آثار اس کے نام سے بھی ظاہر ہونے لگیں اورکانوں میں وہ نام پڑتے ہی وہ پیکر ہمارے سامنے آکھڑا ہو اورہم عقیدت و احترام کے جذبے سے سرشار عالم تصور میں ہی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ عالم مشرق کو اس پر ناز ہے کہ اس نے 19ویں صدی میں اقبالؔ کو اپنی آغوش محبت میں پالا اور ان کے فن کو رشک عالم بنا دیا ۔قوموں نے ان سے حیات نو پائی اوراخلاق و ایمان سے بیمار سینوں میں ان کی حکمت نے کارتریاقی کیا ۔یہی وجہ ہے کہ حیات اقبالؔ سے لے کر آج تک کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب کہیں نہ کہیں ان کی آفاقی فکروں،کلام کے سوزو ساز ،ان کی دیدہ وری ،ان کی جہاندیدگی اور ان کے سمجھائے ہو ئے جہانگیری و جہاں بانی کے اصولوں پر باتیں نہ ہو تی ہوں ۔بلکہ بعض مقامات پر تو باقاعدہ ’’اقبالیات ‘‘پر لیکچر کی مجلسیں سجتی ہیں ۔ان مجلسوں میں ان کے فارسی کلام،اردو کلام ،تقاریر ،خطبات،سیاسی افکارو نظریات،سماجی ہدایات،تمدنی رہ نمائیوں اور ان کی ملت اسلامیہ کے تئیں فکر مندیوں کے متعلق غور و خوض کیا جاتا ہے ،نکات سمجھا ئے جاتے ہیں ،اپنے من میں ڈوب کر زندگانی کے مقاصد کا سراغ لگایا جاتا ہے اور بے راہ رو زندگیوں کو سنوارنے اور اقبال کی فرمودہ تلقینات پر عمل پیرا ہونے کے عہد لیے جاتے ہیں ۔
اقبال کی عظمت کیا ہے اور اقبال کون ہیں ،ان سوالوں کے جواب ہمیں کیا ملیں گے جب خود اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں،باالخصوص ان کا فلسفۂ خودی تو معرکۃ الآرا اور آفاقی قدروں کا حامل ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ ضمیر ، فطرت صالح ،صحت منداندرون اور خودی ،یہ چند عناصر مل کر جس طرح کے انسان کی تعمیر کرتے ہیں ،شاید وہی خودی کا رازداں اور خدا کا ترجماں بنتا ہے۔اگر وہ بھی نہیں تو پھر خدا جانے یہ خود ی کیا بلا ہے ۔خودی کا پرتو جب انسان میں نظر آئے تو وہ کیا بنتا ہے اور جب اس سے عاری ہوتو کیا ؟یہ واقعی فلسفیانہ بحثیں ہیں ۔یہ بحثیں اقبالؔ نے اس وقت چھیڑیں جب ایشیا مئے بے خودی میں مست تھا،اس کی قدریں اس سے چھینی جارہی تھیں، انگریزی سامراج نے اس کی گردن دبوچ رکھی تھی ۔حالات آتش فشاں بن گئے تھے۔ ایسے حالات میں خودی کی بیداری اور اسے فعال کر نااقبالؔ کا اولین فریضہ بن گیا۔یہ فریضہ انھوں نے کبھی میونخ،لندن،ہندوستان،ہسپانیہ ،ایران،کے ریگزاروں اور زمستانی ہواؤں میں ادا کیا تو کبھی پنجاب و بنگال کے کوہستانوں میں،کبھی مسجد قرطبہ کی ٹوٹی دیواروں کے سائے میں ادا کیا۔ہر عہد ،ہر موسم میں کیا۔ان کا یہ فریضہ فصل گل و لالہ کا پابندکبھی نہیں رہا ۔وہ حکم اذاں کے بہار وخزاں ہر موسم میں کاربند رہے۔اقبالؔ کی ان ہی بے لوث قربانیوں اور جانفشاں فکروں نے انھیں عالمی شہرت دلانے کے ساتھ ساتھ اقوام مشرق کا حکیم بھی بنادیا۔جس کا احسان وہ آج تک فراموش نہیں کرسکی ہیں۔
اقبالؔ تفہیم اور اقبالؔ شناسی کے سلسلے، ہماری ادبیات کا خراج ہیں ۔چنانچہ ہمارے شعرا اور ادبا نے پیام اقبالؔ کو دل کھول کر جلا بخشنے اور اسے نئی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ایک فرض اورامانت سمجھ کر اپنے فن اور کلام میں برتاو ادا کیا ہے ۔چنانچہ ہر بڑے شاعرنے اقبالؔ کو اپنے طور پر خراج پیش کیا ہے اور ان کی ملک و ملت سوزی کا اعتراف کیا ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہیں ،بہت حد تک کوشاں بھی۔بعض نے ان کے کلام کی شرحیں لکھیں تو بعض نے ان کی زمینوں میں طبع آزمائی کی ۔جس سے فکر اقبال تک عام قارئین اور نئی نسلوں کی رسائی ممکن ہو سکی۔
عبد الرحیم قابلؔ اجمیری (27 اگست 1931تا30،اکتوبر 1962)کا شمار بھی ان شعرا میں ہوتا ہے۔انھوں نے علامہ اقبال ؔ پر ایک شاندار نظم’’اقبال‘‘ لکھی۔یہ نظم جہاں قابلؔ اجمیری کا اقبالؔ کو ایک بے مثال نذرانۂ عقیدت ہے ،وہیں اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکر اقبال اور اقبالیات میں خصوصی درک رکھتے تھے ۔اقبالیت اور ان کی فکر ،ان کے وجود کا حصہ بن گئی تھی ۔جس کا احساس ان کی غزلوں اور فکر انگیز نظموں میں بھی ہوتا ہے۔چنانچہ جب قابل ؔ’’اندیشۂ سودو زباں‘‘کی ترکیب اپنے اشعار اور غزلوںمیں استعمال کر تے ہیں تو ان میں اقبالؔ اور اقبالیات کا عکس جھلکتا ہے ۔اس لیے کہ ’’سودو زیاں‘‘اقبال ؔکی خاص ترکیب ہے جس کا استعمال انھوں نے اپنی متعدد پیامی نظموں میں مختلف انداز میں کیا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کرتے چلیں :
کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا!
فریب سودوزیاں لاالہ الا اللہ!!
٭٭٭
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی!
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی!!
٭٭٭
کیوں زیاکار بنوں سود فراموش رہوں!
ہم نوامیں گل ہو ںکہ خاموش رہوں!!
زیر مطالعہ نظم اختصار اور جامعیت کا نادر نمونہ ہے نیز اس کا اختصار اور جامع ہونا ہی اس کا وہ کمال ہے جو قابلؔ اجمیری کی شاعری کا خاص جوہر اور امتیازہے ۔قابل ؔ اجمیری جنھیں جدید اردوغزل کے پیش روؤں میں اہم مقام حاصل ہے،ان کا شعری وجدان اور ان کی فکری اپج، اقبالؔ کی ترجمانی اور تشریح میں نئے نکات و جہات کے دروا کر تی ہے ۔یہ نظم قابل ؔ کی کلیات اور ان کے اولین مجموعۂ کلام’’عشق انسان کی ضرورت ہے——‘‘ میں شامل ہے اس کا عنوان ’’اقبال‘‘ہے ۔انھوں نے اقبالؔ کے علاوہ ’’قائد اعظم‘‘——- ’’14اگست‘‘——–’’دریائے نیل‘‘—— ’’ایک عیدایک عہد‘‘——-’’شاعر‘‘ وغیرہ متعدد موضوعاتی نظمیںتحریرکی ہیں جو اُن کی علمیت، فردشناسی اور قومی رہ نماؤںو امور کے تئیں عقیدت تجربے ،احوال سے واقف کاری نیز ان کی فکر مندی کی دلیل ہیں ۔ سردست قابلؔ اجمیری کی نظم’’اقبال‘‘ کا متن اور اس کاتجزیہ‘‘ نذر قارئین ہے:———
اقبــــــال
وہ دیدہ ور کہ جس نے تجلّی نکھار دی!
ذروں کو آفتابِ درخشاں بنا گیا!!
وہ چارہ ساز جس نے کیے تجرباتِ نو!
ہر درد کو ضمانتِ درماں بنا گیا!!
وہ باغباں جو اپنی نسیمِ خیال سے!
شامِ چمن کو صبحِ بہاراں بنا گیا!!
وہ دلربا کہ جس نے بدل دی سرشتِ دل!
تکلیف کو نشاط کا ساماں بنا گیا!!
وہ فلسفی جو اپنی خودی کی تلاش میں!
اربابِ دل کو محرمِ یزداں بنا گیا!!
وہ مردِ حق پرست مٹا کر جو تفرقے!
اسلامیوں کو صرف مسلماں بنا گیا!!
اب کارواں کی بانگِ درا پر نظر نہیں!
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!!
یہ پوری نظم اقبالؔ کی فکر اقبال کے نظریات اور اقبالؔ کی مہمات کی ترجمان ہے۔وہ نوجواں مسلم سے کیا کیا توقعات رکھتے تھے اور اسے کس کس طرح سے بہلا تے تھے ۔اس کی بہبودی کے لیے انھوں نے کیا کیا طریقے اختیار کیے ۔کس کس طرح کی تلمیحات وہ قلزم قرآن و حدیث سے لائے ۔کبھی تو وہ اس کو لوح و قلم اور کتاب کہہ دیتے اور کبھی طائر لاہوتی گر دانتے ۔کبھی وہ اسے شاہین کہتے تو کبھی اس کی نسبت میر عرب اور ان کے جانباز سپاہیوں سے کرتے ۔کبھی وہ اسلامیان کے شاندار ماضی اور ان کے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی تحریکات دیتے اور کبھی طارق بن زیاد کی شجاعت کی کہانیاں سناتے ،یہ نظم ان سب کا نچوڑ ہے۔اس نظم کو جب ہم جز جز کر کے دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ایک شعر اپنے اندر فکر اقبال کے ہزاروں نکات چھپائے ہوئے ہے۔ پہلے شعر میں جس طرح اقبالؔ کی اس کرامت کا ذکر ہے اس سے ہمارے دل یقین سے کہہ اٹھتے ہیںاس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقبالؔ ایسے ہی دیدہ ورتھے جنھوں نے سورج کی نورانیت میں تجلّیات کی رونقیں بھردیں اور بے نام و گمنام ذروں کو اپنی فکر رسا سے درخشاں بنا دیا۔ان کی تلقین جس مسلم نو جوان نے بھی قبول کی وہ شاہین اور ھما بن گیا۔پھراس کی پرواز ستاروں سے آگے کے جہانوں تک بھی پہنچ گئی ۔وہ مہ کامل بھی بنا جس کے عروج سے انجم سہمے اور انھیں اپنا غرور ٹوٹتانظر آیا۔ اس نظم کا ہر شعر اپنی جداگانہ حیثیت بھی رکھتا ہے اور مجموعی طور پر بھی یہ نظم اقبالؔ کو بہترین خراج عقیدت ثابت ہوتی ہے۔بالخصوص اس کا نظم کا پانچواں شعر تو اقبال ؔ کے بنیادی فلسفے کا ترجمہ ہے:
وہ فلسفی جو اپنی خودی کی تلاش میں!
اربابِ دل کو محرمِ یزداں بنا گیا!!
اس شعر میں نیاپن یہ ہے کہ اقبالؔ جہاں ’’خودی‘‘ کی تلاش کی تلقین دوسروں کو کرتے تھے وہیں وہ خود بھی اس کی تلاش میں ہیں ۔ یعنی انھیں بھی اس کی ضرورت ہے۔گویا’’خودی ‘‘ ایسا عنصر ہے جو ہر ایک کی ضرورت ہے اور اس سے متصف ہونا ہر کسی کے لیے ضروری ہے چاہے وہ اقبالؔ ہی کیوں نہ ہوں۔اس شعر کا دوسرا مصرع تو ارباب دل کو’’محرم یزداں ‘‘بنانے کی خبر دیتا ہے۔’’ارباب دل ‘‘ کی ترکیب ’’یزداں‘‘ کے’’ محرم‘‘ ہونے کے قبیل میں نادر ترکیب ہے اسی طرح تفویض امر بھی ہے۔چوں کہ’’ارباب دل‘‘پر ہی اکثر ذمے داریاں ، فرائض اورہوش و خرد کے امور واجب ہوتے ہیں ۔قابل ؔاجمیر ی اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں اور اقبالؔ بھی۔یہاں آکر دونوں کی آرا ایک ہوجاتی ہیں اسی طرح اقبال ؔکی طرح قابل ؔبھی قومی مفکر بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔’’ارباب دل‘‘سے ’’غیر ارباب دل‘‘یعنی مردہ ضمیروں کی صاف نفی ہوتی ہے۔اس سے ان کی ہی محرومی اور بدقماشی ثابت ہوتی ہے اور ان کے لیے ایک یہ خبر یعنی ’’غیر ارباب دل‘‘ہونا ایک تازیانۂ عبرت بھی ہے جو انھیں یہ احساس دلاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم ہو، یہ تمھاری بدقسمتی ہی ہے۔ اس کی تلافی اس طرح ممکن ہے کہ ’’ارباب دل‘‘کی صف میں شامل ہو کر ’’محرم یزداں‘‘ بن جاؤ۔
جیسا کہ ماقبل میں کہا گیااس شعر سے جو نئی بات معلوم ہوتی ہے ،وہ یہ کہ اقبالؔکا فلسفی اور مفکر ہوناخود ان کے لیے بھی بہت ضروری تھا۔ نیزوہ امروز یا ماضی قریب کے مفکرین و فلسفیو ںکی مانند اس سے خود کو ہرگز مبرا نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ وہ اس حکم خداوندی یعنی ’’عرفان خودی‘‘کے خود کو اولین مستحق سمجھتے۔اسی طرح اس شعر میں ’’محرم یزداں‘‘کی ترکیب اس عہد الست کی تلقین اور اس پر ایمان کی تجدید کا استعارہ ہے جس کی مرقوم لوح، ہر انسان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے۔اس کی یاد دہانی کے لیے اس معاہد یعنی خدائے لم یزل نے پچھلے زمانوں میں رسول اور نبی بھیجے پھر یہ ذمے داری امت کے حکما اور مفکرین پر عائد ہوئی۔اقبال ؔکا پیغام خودی بہت واضح اور صاف لفظوں کا بیا ن ہے بس اس احساس کی ضرورت ہے جو قابل ؔ اجمیری نے اپنے انداز میں بتایا ہے۔اس شعر میں قابلؔ نے اقبال ؔکے ان ہی اشعار کی ترجمانی کی ہے جن میں وہ فرماتے ہیں:
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی!
خودی کی خلوتوں میں کبریائی!!
زمین و آسمان و کرسی و عرش!
خودی کی رو میں ہے ساری خدائی!!
اسی طرح قابل ؔ کی اس نظم کا چھٹا شعر ملاحظہ کیجیے:
وہ مردِ حق پرست مٹا کر جو تفرقے!
اسلامیوں کو صرف مسلماں بنا گیا!!
یہ شعر اقبال کے اِن اشعار کا ترجمہ ہے:
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا!
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی!!
اسی طرح:—–
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر!
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!!
اسی طرح وہ آپس میں دست وگریباں قوموں،علاقوں اور خطوں کے افراد سے مخاطب ہیں:
یوں تو سید بھی ہو ،مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو!
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤں تو مسلماں بھی ہو!!
یہ انداز تو لرزا خیز ہی ہے:—–
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں!
کیا زمانے میں پنپے کی یہی باتیں ہیں!!
یہ اور اسی طرح کے متعدد اشعار ہیںجن میں اقبال ؔ،قوم رسول ہاشمی اور ملت کے افراد کو رنگ و نسل اورذات پات سے باز رکھ کر ایک دھارے یعنی ’’مسلمانیت‘‘میں شامل کر نا چاہتے تھے ۔قابلؔ اجمیری نے اس شعر میں اسی کی جانب اشارہ کیا ہے اور اقبالؔ کی اس جرأت رندانہ تذکرہ اسی انداز میں کیا ہے۔یہ شاعر کی بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی مفکر کی فکر کو اسی کے لہجے ،اسی کے اندازاور اسی کے آھنگ میں بیان کردے ۔ اس سے وہ ترجمہ شدہ کلام بھی مضبوط ہوتا ہے اور وہ ترجمانی کا حق بھی اداہوتا ہے ۔
اس نظم کا یہ آخری شعر تو دیکھیے جو چشم بینا کی روشنی کو حسرت و افسوس سے بڑھا دیتا ہے ۔وہ اقبالؔ کی اس فکر کا ترجمان ہے جس نے انھیں آخر میں مایوس کردیا تھا :
اب کارواں کی بانگِ درا پر نظر نہیں!
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!!
یہ یقینی بات ہے کہ اقبالؔ ساری عمر اسلامیان ہند کو اتحاد و اتفاق اور ’’بانگ درا‘‘پر نظر ڈالنے کی تلقین کر تے رہے مگر اس قوم کا جذبۂ قلندرانہ کوئی لے گیا۔ان میں گفتار کے غازی تو بہت تھے مگر کردارکسی کا غازیانہ نہیں تھا۔چنانچہ اس کا نتیجہ جو نکلا ،اس کا ذکر قابل ؔ نے ان ہی کی زبانی کیا:
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!!
اس نظم میں قابلؔ اجمیری نے علامہ اقبالؔ کی زندگی اور ان کی کلیات کے تمام پیغامات کو سمو دیا۔وہ جو’’ بانگ درا‘‘ کی صدا لے کر اٹھے اور ’’بال جبریل‘‘میں اس کوترقی دی نیز’’ضرب کلیم‘‘میں نقطۂ عروج پر لے گئے ،وہی پیغام ’’ارمغان حجاز‘‘تک آتے آتے اپنا اثر کھوبیٹھا حالاں کہ یہاں آکر تو اس کی تپش کو اور تیز ہونا تھا اسی طرح خوابیدہ دل اس سے اور گرماتے ۔مگر ایسا نہیں ہوا اوراقبالؔ دعا کرنے لگے:
یار ب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے!
جو روح کو تڑپا دے جو قلب گر مادے!!
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل!
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے!!
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر!
اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے!!
یہ وہ لہجہ ہے جس میں اداسی اور مایوسی صاف جھلک رہی ہے ۔اس میں بجھے دل سے دعا ہے اور اسی خداسے ہے جو تبدیلیوں اور انقلابات کا حقیقی مالک ہے ۔ وہی رب العالمین ہے اور اسی کے دست قدر ت میں سب کچھ ہے ۔
قابلؔ اجمیری کی اس نظم کا آخری شعر تو پوری نظم کا حاصل ہے ۔ایسا حاصل جس کے بغیر نہ اعداد پورے ہوتے ہیں اور نہ ہندسوں کی تکمیل ممکن ہے۔یہ سبق آموز ’’حاصل ‘‘ اور اختتام قابل ؔ اجمیری کی شعری فکر اور ادبی مطالعے کی عمدہ مثال ہے اور ان کے وجدان شعرو شاعری کی دلیل بھی ہے۔
٭٭٭
مآخذو مراجع
عشق انسان کی ضرورت ہے——-قابل اجمیری۔مجلس یاد گار قابل،حیدرآباد(سندھ)1970
کلیات اقبال——— (ناشر)پرو فیسر شہرت بخاری۔اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور۔1990
کلیات قابل اجمیری———(ناشر)ظفر قابل اجمیری۔مجلس یادگار قابل،کراچی شاخ۔دسمبر۔1990


مضمون نگار سے رابطہ:
[email protected]
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067