Qabil Ajmeri ki Aik Naz’m “Yad E Watan”

Articles

قابلؔ اجمیری کی ایک نظم---------یاد وطن

عمران عاکف خان

دیار غریب میں وطن کی یاد اور وطن سے اپنی وابستگی کا اظہار، ہمارے شعرا و ادبا کاقدیم وطیرہ رہا ہے ۔وہ اپنے وطن مالوف سے نکل کرجہاں بھی گئے ،اپنے سرمایوں کے ساتھ’’یادوطن‘‘بھی لے گئے۔اس یادنے ہمیشہ انھیں ’’وطن‘‘سے جوڑے رکھا ۔بلکہ بسااوقات تو ’’وطن‘‘کی نسبت ،ان کے تشخص،ان کے امتیاز اور ان کی شناخت کا ذریعہ بھی بنی ،اسی طرح اس نسبت نے ہم عصروں میںانھیں ایک خاص مقام و مرتبہ بھی عطا کیا۔وہ بھی اپنی مجلسوں میں اس کا ذکر برملا اور فخر سے کر تے ۔پھر اس سے پہلے کہ بات مباہات تک پہنچتی تو دوسروں کے وطن کی تعریف سننے کے لیے خود کو تیار کر لیتے۔اس طرح وہ دوسروں کے وطنوں کی بات سن کر بھی اپنے وطن کی بات کہہ جاتے ۔
اردو شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار مختلف اندازاورمتعدد طریقوں سے ہوا ہے۔ یہاں تک کے اس نے ایک باضابطہ صنف کی شکل اختیار کرلی ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر شعرا کے یہاں وطن سے دوستی ،وطن کی یاد،وطن سے وابستگی جیسے عناصر موجود ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو ان کے مجموعہ ہائے کلام کا سب سے دل ریز حصہ وہی ہوتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں ،وہیں کچھ ایسے گوشے بھی ہوتے ہیں جن پراکثر نظر نہیں ٹھیرتی،ان کوشاعر اپنی فکروں کا موضوع بناتا ہے پھر اس کا اظہار اس طرح کر تا ہے کہ وہ وطن اسی انداز سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا لیتا ہے۔ وطن پرستی ایک مستحسن اور ایمانی جذبہ ہے،جس کا کوئی بدل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔یہی جذبہ، شاعر کو بسااوقات جینے کے حوصلے بھی دیتا ہے ،اسی طرح نئے ردیف و قافیے بھی دیتا ہے اور اس کے کلام کی عظمت دوبالا کردیتا ہے۔نیز اس کلام کوزندگی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔جب تک وطن باقی رہے گا،وہ شاعر اوراس کی وطن نواز نظمیں اورفکریں بھی باقی رہیں گی۔
خدائے سخن میرتقی میرؔ جب دہلی کی بربادی کے بعد لکھنؤ گئے، اس وقت وہاں کے شعری و ادبی حلقوں میں چڑھی ہوئی سوالیہ تیوریوں کے جواب میں انھوں نے اپنے وطن مالوف کا تعارف اس طرح کرایا:
کیا بو دو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے!!
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب!
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے !!
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا !
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے !!
٭٭٭
دلّی کے نہ تھے کوچے،اوراق مصور تھے!
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی!!
یہ وہ احساسات ہیں جو ایک غریب الدیار کو اس کے وطن کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اورجنھیں وہ سوال پوچھنے والوں یا اس کے وطن کے متعلق چہ می گوئیاں کرنے والوں کو بطور جواب دکھلاتا ہے ۔ اس طرح نہ صرف اس شخص کی عظمت دلوں میں بیٹھتی ہے ،اس کے وطن کی عظمت کا اعتراف بھی جاگزیں ہوتا ہے۔دلّی جو ایک شہر تھا،اسے عالم میں متعدد وجوہات سے امتیاز حاصل تھا ۔وہاں روزگار کے منتخب افراد اور ہستیاں رہتی تھیں ۔میر ؔکا یہ جواب سن کر اس کے بعد پورب کے ساکنان نظریں جھکا کر رہ گئے۔
وطن سے دور ،اس دیار غیر میں ان غریبوں کے پاس جو کچھ بھی اپنا ہوتا ہے،وہ وطن کی یادیں ہی ہوتی ہیں ۔جنھیں وہ محسنؔ نقوی کے الفاظ میں کسی مفلس کی پونجی کی طرح سنبھال کر رکھتے جاتے ہیں ،روزگنتے ہیں اور ان میں اضافہ کر نے کے لیے مختلف حیلے اور طریقے ایجاد کر تے ہیں۔اس بات کو اگر فکشن کے نقطۂ نظر سے دیکھاجائے تو پتا چلتا ہے کہ وطن کی یاد اور وطن کا اس طرح ذکر ایک نفسیاتی مسئلہ ہے ،تاہم اچھی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف صاحب مسئلہ کے لیے ہی مضر و مفید ہے،اس کے علاوہ کسی کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔نفسیاتی طور پر وطن سے محروم ایک شاعر ان ہی خیالات میں جتیا ہے اور ان کی روشنی میں اپنی آگے کی منزلیں طے کر تا ہے ۔یاد وطن کی یہ اثر پذیریاں جہاں اس ک ذوق وشوق کو دوبالا کر تی ہیں وہیں ان کے کلام اور ان کی حسن فکر کی بھی عکاسی کر تی ہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شاعر ان ہی وارثتوں اور یادگاروں کو اپنا سب سے قیمتی سرمایہ تصور کر تا ہے اور ان کی حفاظت و صیانت میں اپنی جان کی بھی پروانہیں کر تا۔ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب لاشعور میں موجود حسیات سے انسان کو تقویت اور حوصلہ ملتا ہے۔
کلاسیکی دور سے ہوتے ہوئے یہ روایت، جدید دورکے شعرا و ادبا میں بھی چلی آئی چنانچہ برج نرائن چکبستؔ اپنے وطن کی یاد اور محبت میں اس طرح تڑپے:
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے!
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں!!
لال چند فلک ؔکا انداز اس طرح چھلکا :
دل سے نکلے گی نہ مرکربھی وطن کی الفت!
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی!!
رگھو پتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کا یہ مصرع تو وطن سے جذباتی لگاؤ کابے مثال عنوان ہے:
دیار غیر میں سوز وطن کی آنچ نہ پوچھ!
اخترؔ شیرانی نے تو گویا قلم ہی توڑدیا:
وسعت خلد سے بڑھ کر ہے کہیں حب وطن!
تنگی گور سے بدتر ہے، فضائے غربت!!
کیف ؔبھوپالی کو جب وطن کی یاد آئی تو انھوں نے یوںکہا:
کیفؔ پردیس میں نہ کر یاد اپنا مکاں!
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا!!
اسی سلسلۃ الذہب ،نایاب اور بے نظیر صف میں ایک اہم نام قابلؔ اجمیری (آمد:27اگست1931۔رخصت:30اکتوبر 1962)کا بھی شامل ہے ۔جو اس صف کی اولین قطار میں ہیں ۔ان سے جب وقت ، حالات اور میرؔ کے الفاظ میں ’’فلک‘‘نے وطن چھین لیااور وہ وطن کو نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے خداکی بستی یعنی پاکستان کے شہری بن گئے تو انھیں بھی اپنے وطن کی یادیں آئیں ۔اس وقت انھوں نے اپنے ان جذبات کی تشنگی و تسکین کے لیے ایک نظم ’’یاد وطن‘‘کے عنوان سے لکھی ۔جس کا انداز خود دعوت مطالعہ دیتا ہے ۔ذیل کی سطور میں نظم کا متن مع تجزیہ و تعارف نذرقارئین ہے۔
یـــــاد وطـــــن
فکر چمن نہ پو چھو
یاد وطن نہ پوچھو
دیوانہ پن نہ پوچھو
اکثر فریب کھایا
اجمیر یاد آیا
خواجہ کا آستانہ
دربار خسروانہ
وہ کیف وہ ترانہ
کچھ بھی نہ ساتھ لایا
اجمیر یاد آیا
وہ جھالرے کا پانی
آب بقا کا ثانی
بچپن کا یار جانی
اب ہو گیا پرایا
اجمیر یاد آیا
معنیؔ سا آہ رہبر
ہائے نیاز اطہرؔ
اب کیا کہیں کہ دل پر
کس کس کا داغ کھایا
اجمیر یاد آیا
راتوں کی خامشی میں
تاروں کی روشنی میں
شفاف چاندنی میں
دل نے سکون پایا
اجمیر یاد آیا
جب ابر مست چھایا
پیغام یار لایا
جب پھول مسکرایا
کوئل نے گیت گایا
اجمیر یاد آیا
بلبل نے جب پکارا
اک تیر دل پہ مارا
جذبات کو ابھارا
غم کا غبار چھایا
اجمیر یاد آیا
قابل کی یہ نظم ان کی نارسائیوں کی ایک داستان ہے ،اس کا مصرع مصرع وطن سے محبت کی سرشاری سے عبارت ہے۔آغاز سے ہی دل فگار یادوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔قابل ؔ اجمیری نے جن حالات میں ’’اجمیر‘‘کو خیرآباد کہا ،اس کے بعد جس طرح کے حالات اور امتحان کے پرچے سرزمین پاکستان کی وادیٔ مہران میں ان کے لیے پیش کیے گئے،ان کے تناظر میںاس نظم کے معانی اور مفاہیم اور سوا ہوجاتے ہیں ۔
اس نظم کو اگر تجزیاتی زاویوں سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے دو بڑے پہلو نظر آتے ہیں۔اول یہ کہ یہ نظم قابل ؔ اجمیری کی یاد وطن کا اظہار اور اجمیرسے جدائیگی کا نالۂ فراق ہے۔یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب نئے دیار پاکستان میں انھیں اپنے ہی دوستوں کی بے رُخی اور وقت و حالات کی ستم ظریفیوں کا سامنا کرنا پڑا تو شدت غم سے یہ آنسوں چھلک پڑے۔دوسرا پہلو یہ کہ قابل ؔ نے اس دور اور شعرا کے قدیم طریقے کے طرز پر وطن کی محبت میں شعر کہے اور اپنے وطن کی خصوصیات اس طرح بیان کیں کہ اکبر آباد،دکن،بھوپال،دہلی،رام پور،بنارس ،لکھنؤ کے طرز پر اجمیر کا ذکر بھی تذکروں میں آئے اور اجمیر کے خوب صورت چہرے سے اردو شعرو ادب میں آب و تاب بڑھے۔اس کے شبستان میں ذکر اجمیر سے اجالے دمکیںاور اجمیر کا عنوان جڑے۔یہ پہلو ہو کہ وہ پہلو ہو،خاص بات یہ ہے کہ قابلؔ کا انداز بیان البیلا اور استاذ شعرا کا ہے ۔انھوں نے اپنے اجمیر کا حال اور اس سے جڑے اپنے جذبات کا اظہارصرف ایک شعر یا ایک ہی مصرع میں بیان نہیں کیا بلکہ ایک ایک شعر اور ایک ایک بند میں اجمیرکے سراپے،اجمیر کی رعنائیوں،اجمیر کے احباب،اجمیر کے اساتذہ،اجمیر کے موسم و ماحول ،اجمیر کے جھرنوں اور تالابوں کا ذکر،خواجہ اجمیری کے دربار خسروانہ کا حال سب اس طرح بیان کیا ہے کہ اجمیر کا نقشہ قاری کے سامنے کھنچ جاتا ہے۔جنھوں نے اب تک اجمیر نہیں دیکھا ،ان کے اندر اس نظم کو پڑھ کر اجمیر دیکھنے کی طلب بڑھ جاتی ہے اور جب وہ اجمیر دیکھتے ہیں تو قابلؔ کا فرمایا ہوا مستند ہوجاتا ہے۔
یہ بند قابل ؔ کی گہری نفسیات اور کا بیان ہے اور ان کی محرومی کا وہ تذکرہ جسے وہی محسوس کرسکتے ہیں ۔قاری یا مداح تو صرف سر دھن کر ہی رہتا ہے ،وہ اس شدت اور کر ب کو کسی طور محسوس نہیں کر سکتا ۔
وہ جھالرے کا پانی
آب بقا کا ثانی
بچپن کا یار جانی
اب ہو گیا پرایا
اجمیر یاد آیا
دیار غیر میں اپنے وطن کی مماثلتیں دیکھ کر ایک شاعر ،ایک فکر مند انسان،ایک حساس وجود جس طرح کے خیالات کا اظہار کر تا ہے وہ الفاظ میں اس طرح ڈھلتے ہیں:
راتوں کی خامشی میں
تاروں کی روشنی میں
شفاف چاندنی میں
دل نے سکون پایا
اجمیر یاد آیا
جب ابر مست چھایا
پیغام یار لایا
جب پھول مسکرایا
کوئل نے گیت گایا
اجمیر یاد آیا
حالاں کہ ان کیفیات کا احساس قابلؔ کو حیدرآباد(سندھ)میں ہوتا تھا مگر اپنے وطن کا موسم اپنا ہی ہوتا ہے۔وہاں تو سب کچھ کرائے کا تھا ، اپنے وطن میں سب کچھ اپنا ہونے کا احساس ہی بیش قیمت ہوتا ہے۔راتوں میں خامشی کا منظر ہر جگہ ہوتا ہے،اسی طرح تارے ہرمقام پر روشنی بکھیرتے ہیں،شفاف چاندنی دیار خود میں ہو کہ دیار غیر میں ،یکساں ہی ہوتی ہے۔ابر مست ہر جگہ چھاتا ہے۔پھول ہرمقام پر مسکراتے ہیں اور کوئل کے گیت ہر دیار میں گونجتے ہیں، مگر وہ سب کچھ اپنا نہیں،پرایا لگتا ہے ۔ان کیفیات میں وطن کی یادیں،وطن کا یاد آنا اور وطن سے اپنی وابستگی کا اظہار اس احساس کا ترجمہ ہے جو فطری ہوتا ہے۔
قابل ؔ کی یہ نظم ان کی منجملہ نظموں،غزلوں اور مجموعی کلام کی تمام تر خوبیوں سے سچی ہے۔چھوٹی بحر میں لفظوں کا مناسب انتخاب،وردو کلام، مصرعوں کی سجاوٹ، فضا کی کشید اور ایک شہر کی بیشتر خصوصیات کو جمع کر نا، ان کی وسعت نظر اور وطن سے سچی محبت کی زندہ باد علامتیں ہیں ۔وطن سے دوستی اور محبت کا دعوا اکثر کا ہوتا ہے مگر قابل کا یہ بے پایاں اظہار ابن انشا کے اس حکم نامے کی تصدیق کردیتا ہے:
دل عشق میں بے پایاں،سودا ہوتو ایسا ہو!
قابل ؔاجمیری نے اپنے وطن سے ایسا ہی سودا کیا اور اپنا دل اس کے عشق میں اسی طرح بے پایاں کردیا۔برے حالات کا شکوہ ،نامساعد حالات اور وقت کی برہم زلفوں کی سزا وطن کو کبھی نہیں دی جاتی ،قابلؔ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف تھے ،اسی لیے باوجود اس کے کہ اجمیر شہر اُن کے لیے تنگ ہوگیا تھا ۔وطن کی اپنی مٹی ہی پرائی ہو گئی ،وہ وطن اس وقت دشمنوں کا ہی حامی بن گیا تھا مگر اس کے باوجود بھی قابل ؔ کو وہی شہر عزیز تھا ،ایک باضمیر اور باظرف انسان کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا کہ وہ برسوں کی وفاداریوں کو چند بے رخیوں کے باعث بھلا دے۔شہر نے تو بے وفائی کی مگر قابل ؔنے کبھی بے وفائی نہیں کی ۔اپنی وفاداری اور اپنایت کا اظہار انھوں نے اس نظم کے ذریعے کیا اور اسے ’’یاد وطن‘‘کا بے مثال عنوان دیا۔
٭٭٭
مآخذو مراجع:
پیام فلک۔ویاس پستکالیہ،لاہور۔1914
چاند نگر۔ابن انشا۔نیشنل پبلشرز،کراچی۔1990
کلیات اختر شیرانی۔(مرتب)گوپال متل۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس۔نئی دہلی۔1997
کلیات قابل اجمیری،فریدپبلشرز،نیو اردو بازار،کراچی۔2000


مضمون نگار سے رابطہ:
[email protected]
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067