Qurratul Haider : The memories

Articles

قرۃالعین حیدر:یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے

جمیل اختر

21 اگست 2018، عینی آپا کو اس دارفانی سے کوچ کیے گیارہ سال ہو جائیں گے۔ وقت کس سرعت کے ساتھ گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ جیسے لگا ابھی کل کی بات ہے۔ ان کی یاد دل میں ایسے بسی ہوئی ہے جیسے لگتا ہے کہ میں عینی آپا کے آس پاس ہی جی رہا ہوں۔ ان کی آواز، ان کے قہقہے، ان کی گفتگو، ان کی شفقت و محبت، ان کا روٹھنا، غصہ کرنا اور مان جانا، ان کے بات کرنے کا انداز، جیسے لگ رہا ہو کہ میں ہر لمحہ ان سے مکالمہ کر رہا ہوں۔ وہ کبھی ہنس کے، کبھی خوش دلی سے، کبھی کچھ خفگی سے، کبھی بے حد ناراض ہو کر مجھ سے ہر موضوع پر گفتگو کرتی جا رہی ہیں۔ ان کا ہنستا بولتا چہرہ اور جیتا جاگتا وجود مجھے اپنے حصار میں ایسے لیے ہوا ہے کہ میں کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اس سے باہر نہیں نکال پاتا۔ اور سچائی یہی ہے کہ میرے شب و روز عینی آپا کے ساتھ ہی بسر ہو رہے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو وہ جاتے جاتے مجھے ایک بڑی ذمہ داری جو سونپ گئیں۔ کلیات کی تحقیق و تدوین و ترتیب کی ذمہ داری۔ جس کی ابتدا ان کی حیات میں ان کی رضامندی سے ہو چکی تھی اور چار جلدیں ان کے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے شائع بھی ہو چکی تھیں۔ اور چند ماہ بعد ہی آپا اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔
چلتے چلتے ایک بات اور گوش گزار کرتا چلوں کہ کلیات کی تدوین کے سلسلے میں بھی اس کام کو کرنے کے لیے کئی لوگوں نے ان سے اجازت چاہی تھی مگر انھوں نے منع کر دیا تھا۔ حتیٰ یہ کہ کونسل بھی یہ کام کرنا چاہتی تھی اور اس نے مخمور سعیدی صاحب کو ان کے پاس ان کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا مگر اس وقت انھوں نے ان کو منع کر دیا تھا۔ اس لیے کونسل کو جب میں نے یہ پروجیکٹ دیا تھا تو کونسل نے پہلی شرط ان سے تحریری اجازت نامہ ہی لینے کو کیا تھا اور جب اس خواہش کا اظہار میں نے آپا سے کیا تو انھوں نے بخوشی تحریری اجازت نامہ لکھ کر دے دیا جس کی پرخاش کئی لوگوں کو ہوئی تھی۔
ایک دن مجھ سے ہم کلام ہوئیں اور کہنے لگیں کلیات کی بقیہ جلدیں کب تک منظر عام پر آئیں گی۔ میں نے کہا آپا! چار جلدوں کی خوشی تو آپ برداشت نہیں کر سکیں کیا بقیہ کا بار آپ اٹھا پائیں گی۔ بولیں بات یہ نہیں ہے کہ میں خوشی برداشت نہیں کر سکی بلکہ سچائی یہ ہے کہ آپ جیسے ذمہ دار اور ایماندار نوجوان محقق کے ہاتھوں میں یہ ذمہ داری سونپ کر میں مطمئن ہو گئی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب تک جس محنت، لگن، ایمانداری اور جذبۂ خلوص سے آپ نے یہ کام کیا ہے آئندہ بھی اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہنے دیں گے (آپا کبھی اپنے کسی عزیز کے لیے بھی تم کا لفظ استعمال نہیں کرتی تھیں۔ یہ ان کی تہذیبی اقدار و روایت کے خلاف تھا اور مجھ جیسے نئے لکھنے والوں کی بے حد قدر اور حوصلہ افزائی کرتی تھیں)۔ جب میری حیات میں آپ نے اتنے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھایا کہ میں خود آپ کی تحقیقی کاوشوں کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ چھپی ہوئی وہ تمام چیزیں جو اب تک رسالوں کے گرد آلود انبار میں چھپی ہوئی تھیں اسے تھپکیاں دے دے کر باہر نکال لائے۔ بغیر کسی مالی مدد کے آپ نے پہاڑ کاٹے تھے اور کئی دریا عبور کیے تھے، تبھی تو گوہر نایاب ادب کے قاری کے لیے نکال کر لائے تھے۔ آج کلیات کی ان چار جلدوں کی ادبی دنیا میں اتنی دھوم مچی ہوئی ہے کہ میری روح اپنے تخلیقی کارنامے پر کم اور آپ کی محققانہ کاوشوں پر زیادہ خوش ہو رہی ہے۔ اور میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ آپ کی سعی و محنت میرے وسیلے سے آپ کی شہرت دوام کا ذریعہ بنے۔ ’آئینۂ جہاں‘ کی یہ چاروں جلدیں ادب کے قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ ہیں۔
پھر گویا ہوئیں بقیہ جلدیں کب تک منظر عام پر آئیں گی۔ میں نے کہا آپ کی اجازت کا انتظار تھا۔ اب مل گئی ہے تو پھر سمجھیے جلد ہی منزل سر ہوگی۔ ویسے ایک بات بتا دوں آپا! میں اس درمیان اس طرف سے غافل ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ خموشی سے اپنا کام کر رہا تھا بالکل آپ کی طرح گوشہ نشیں ہو کر۔ لیکن آپ کا دم بھرنے والے لوگوں یا اداروں کی طرف سے ایسی کوئی آفر نہیں آئی کہ تم کام جاری رکھو ہم تعاون کریں گے۔ آپ کے تعزیتی جلسے میں اردو کے چھوٹے بڑے اداروں نے اپنی بساط سے بڑھ چڑھ کر بڑے بڑے دعوے کیے تھے جیسے وہ آپ کو خوش کرنا چاہتے ہوں کہ دیکھو تم مرنے کے بعد بھی مجھے کس قدر عزیز ہو۔ سبھی دعوے جھوٹے اور کھوکھلے نکلے۔ کسی ادارے نے بھی سوائے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آپ کے شایان شان کوئی کام نہیں کیا۔ جامعہ قابل تعریف ہے اور اس کے وائس چانسلر (اس وقت پروفیسر مشیرالحسن) جنھوں نے آپ کی قدر و قیمت کو پہچانا۔ باب قرۃالعین حیدر، میوزیم، قرۃالعین حیدر چیئر تاکہ آپ پر کام کرنے والا کوئی شخص اس پر فائز ہو کر آپ کی شان کو مزید روشن کر سکے۔ لیکن یہاں بھی مصلحت دنیاداری نے نہ میوزیم کا نگراں اور نہ ہی آپ کے نام قائم چیئر پر کسی ایسے شخص کو فائز کیا جو علم و فضل میں کوئی مرتبہ ہی رکھتا ہو اور جسے آپ کے نام اور کارنامے کا ہی کوئی علم ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ کے گم شدہ ادبی اثاثے کی بازیافت شاید اتنی مشکل نہیں ہوتی اور جوکھم بھری مہم جوئی کو ایک بڑے ادارے کی سرپرستی حاصل ہونے سے دشوار مراحل ذرا آسان ہو جاتے۔ آپ ہی کے لفظوں میں:
رموز مملکت خیش خسرواں دانند
آپ کی قدردانی کی یہ تمام چیزیں مستحکم یادگار کے طور پر کی گئی ہیں۔ بقیوں نے تو صرف ڈھول پیٹا ہے اور کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ کسی رسالے نے ایک خاص نمبر بھی آپ پر ڈھنگ کا نہیں نکالا ہے اور نہ کسی ناقد نے کوئی تازہ بہ تازہ اچھوتا ناقدانہ مضمون ہی آپ پر لکھا جس سے آپ کی عظمت کا اعتراف ہی ہو سکے۔ ہاں، البتہ چند تعزیتی قسم کے مضامین لے کر لوگ دوڑے ضرور جس سے ان کے اور آپ کے روابط پر روشنی پڑتی ہو۔ ورنہ زیادہ تر رسالوں نے پرانے مضامین ہی کو نئے خول میں ڈال کر آپ پر گوشے اور نمبر نکالنے کی ہوڑ میں شامل ہوئے۔ اس لیے کہ یہ منفعت کا سودا تھا۔ آپ پر آپ کی حیات میں جو کچھ لکھا گیا اس شکایت کے باوجود کہ ناقدوں نے آپ کے ساتھ انصاف نہیں کیا اب لکھے جا رہے مضامین سے بدرجہا بہتر ہے۔ اب تو آپ کے بارے میں ناقدوں کی سوچ رک سی گئی ہے۔ کچھ لوگ فہرست میں نام ڈلوانے کے خواہش مند ہیں سو وہ کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی بات دل پر مت لیجیے گا۔
اب رہی کلیات کی بات۔ اگر آپ نے یہ بار گراں اس ناتواں پر ڈال ہی دیا ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ میں دیانت داری کے ساتھ انصاف کروں گا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دوں گا۔
میں نے کلیات کا پورا منصوبہ بھی بنا لیا ہے۔ اور یہ کام آپ ہی کی غائبانہ رہنمائی میں پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ غائبانہ اس لیے کہ جو طریقہ اور سلیقہ آپ کی کلیات کے سلسلے میں میں نے اپنایا ہے اس کی تائید آپ نے کر دی ہے لہٰذا رہنما اصول وہی رہیں گے اور طریق کار بھی وہی جسے آپ نے منظوری دی ہے۔ میرے خزانے میں در نایاب بہت ہیں جس کی چمک قاری کی نظروں کو خیرہ ضرور کریں گی۔ ’پدما ندی کنارے‘ والا رپورتاژ بھی آپ کی نشان دہی پر میں نے حاصل کر لیاہے۔ سنہ ماہ و سال پر آپ کی یہ گرفت۔ آپ کی یاد داشت قابل داد ہے۔ کلیات کی تدوین کے ہر مشکل مرحلے میں، میں آپ سے رجوع کرتا رہوں گا۔ امید ہے آپ کی رہنمائی جاری رہے گی۔
آپا سے ان کی حیات میں اتنے مکالمے کیے کہ اب جب بھی ان کا خیال کرتا ہوں لگتا ہے وہ سامنے بیٹھی مجھ سے گفتگو کر رہی ہیں اور میرے کسی نہ کسی سوال کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ عینی آپا سے میری پہلی ملاقات 1984 میں اس وقت ہوئی تھی جب میں نے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تھا اور فکشن پر میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے مجھے عینی آپا پر کام کرنے کی صلاح دی تھی اور کافی غور و خوض کے بعد ’قرۃالعین حیدر کے فکشن کا تنقیدی مطالعہ‘ میری تحقیق کا موضوع طے پایا تھا۔ پھر مجھے یہ بھی کہا گیا تھا کہ عینی آپا یہیں پر ذاکر باغ میں رہتی ہیں، کبھی وقت لے کر ان سے مل بھی لیجیے گا۔ سن کر بے حد خوش ہوں گی اور شاید کچھ مدد بھی کریں۔ میں نے سوچا ضرور ملوں گا۔ اتنی بڑی ادیبہ سے ملنے کا موقع جو ہاتھ آیا ہے۔ اسی اثنا میں ایک دن میں شعبے کے سامنے کھڑا ہوا اپنے کچھ دوستوں سے محو گفتگو تھا۔ اتنے میں ایک کار شعبے کے سامنے آ کر رکی۔ تین خواتین باہر نکلیں اور شعبہ اردو کی طرف جانے لگیں۔ میں اس وقت تک قرۃالعین حیدر کو نہیں پہچانتا تھا۔ میرے دوستوں میں سے ایک نے کہا دیکھو! یہی ہیں قرۃالعین حیدر۔ دوسری دو خاتون کون تھیں مجھے یاد نہیں۔ اور آپا بھی اس وقت کس لباس میں ملبوس تھیں یہ بھی مجھے یاد نہیں۔ ساڑی یا شلوار قمیض۔ بس کیا تھا میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جن سے ملنے کا پروگرام بنا رہا تھا وہ سامنے کھڑی تھیں۔ میں نے فوراً موقع کا فائدہ اٹھایا اور آگے بڑھا۔ آپا کے قریب پہنچ کر سلام عرض کیا۔ انھوں نے بے حد خوش خلقی سے جواب دیا۔ پھر میں نے عرض کیا آپا میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگیں کس سلسلے میں۔ میں نے کہا میں آپ پر تحقیقی کام کر رہا ہوں اور آپ سے مل کر کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں۔ اتناسننا تھا کہ آپا کا انداز بالکل بدل گیا۔ چہرے پر کچھ ناگواری کے آثار پیدا کرتے ہوئے بولیں نہیں، نہیں آپ مجھ پر پی ایچ ڈی ہرگز نہ کریں۔ کس احمق نے آپ کو یہ موضوع دے دیا ہے۔ میں اپنے بارے میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہرگز نہیں کرتی۔ آپ اپنا موضوع تبدیل کروا لیں اور یہ کہتی ہوئی وہ شعبہ کے اندر چلی گئیں اور میں باہر بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔ ساری بساط ہی الٹ گئی۔مجھے ان سے اس طرح کے سپاٹ جواب کی قطعی توقع نہیں تھی۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ وہ یہ جان کر بے حد خوش ہوں گی اور مجھے گھر پہ ملنے کا وقت بھی دیں گی۔لیکن یہاں تو معاملہ بالکل بے نیازی کا تھا۔ خوشی کی بات تو الگ رہی۔ پہلے بھی بہت سی باتیں ان کے مزاج کے بارے میں لوگ مجھ سے کہہ چکے تھے کہ ذرا نک چڑھی ہیں، جلدی کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں لیکن میں تو ان پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا، پھر ایسا کیوں؟ میں نے شعبے میں اساتذہ سے ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کوئی بات نہیں ہے۔ ہر بڑا ادیب سنکی ہو جاتا ہے وہ بھی ہیں، آپ اپنا کام جاری رکھیے۔ ان سے ملنا اتنا اہم نہیں۔ بات آئی گئی اور پھر ان سے ملنے کا کبھی خیال نہیں آیا۔ قرۃالعین حیدر کی شخصیت کا وہ نقش میرے ذہن پر کچھ اس طرح ثبت ہوا کہ میں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران ان سے ملنے کی پھر دوبارہ کوشش نہیں کی بلکہ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کے روپ رنگ نکھارے اور ان کے فکشن کے مطالعہ سے ان کی انفرادیت اور انوکھے انداز تحریر، نئے تجربے، فکر و فن کے نیاپن اور فکشن کو ان کی دین اور اس میدان میں ان کے مقام و مرتبے کا تعین کیا اور تحقیقی مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے لے لی۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ داخلہ تو جامعہ میں لیا اور ڈگری جے این یو سے لی۔ آخر ماجرا کیا ہے۔ یہاں جامعہ سے جے این یو کی جست کا واقعہ گرچہ خوش گوار نہیں ہے لیکن بہتر ہوگا کہ بتاتا چلوں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
میں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں 1981 میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا تھا۔ 1983 میں میرا ایم اے مکمل ہو گیا۔ اس سال طلبا کے ایجیٹیشن کی وجہ سے یونیورسٹی ایک بحران میں مبتلا ہو گئی۔ وائس چانسلر کے گھر کی ناکہ بندی کی وجہ سے صورت حال اتنی سنگین ہو گئی کہ پولس ایکشن ہوا اور جے این یو کیمپس میں پہلی بار پولس نہ صرف داخل ہوئی بلکہ پورا کیمپس پولس کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک ہزار سے زائد طلبہ نے گرفتاری دی۔ یونیورسٹی سائن ڈائی (غیر معینہ مدت) ہو گئی۔ طلبہ سے چوبیس گھنٹے کے اندر کیمپس خالی کرنے کا آرڈر نکال دیا گیا اور پولس کی مدد سے تمام ساز و سامان کے ساتھ طلبہ سے جبراً ہاسٹل خالی کرا لیے گئے۔ جس کی وجہ سے فائنل امتحانات میں تاخیر ہوئی اور ریزلٹ دیر سے نکلے۔ پھر زیرو سیمسٹر ڈکلیئر کر کے 83-84 کے سیشن میں داخلے نہیں ہوئے اور اسی اثنا میں بہت سے قاعدے قوانین اور داخلہ پالیسی میں ترمیم کی گئی۔ اس درمیان مغنی صاحب انجمن ترقی اردو ہند کی کسی میٹنگ میں شرکت کے لیے دلی تشریف لائے۔ میں نے ان سے ذکر کیا۔ سال ضائع ہوتا دیکھ کر پروفیسر عبدالمغنی صاحب (مرحوم) کے مشورے پر میں نے جامعہ کی طرف رخ کیا۔ مغنی صاحب نے ہی پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب سے میرا پہلا تعارف کرایا۔ نارنگ صاحب نے ہی موضوع طے کیا۔ یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ اسی بیچ نارنگ صاحب کو دہلی یونیورسٹی سے پروفیسر شپ کی آفر ملی۔ جامعہ کے حالات نارنگ صاحب کے لیے اس وقت خوش گوار نہیں تھے۔ پروفیسر عنوان چشتی صدر شعبہ بننے والے تھے اور نارنگ صاحب اور عنوان صاحب میں چھتیس کا آنکڑا تھا۔ نارنگ صاحب نے اب تک حکمرانی کی تھی اب اپنے کسی جونیئر کے ماتحت کام کرنا کیسے گوارا کر سکتے تھے۔ ہیڈ شپ کی روٹیشن کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ جامعہ میں اپنا کوئی روشن مستقبل انھیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ لہٰذا عزت اسی میں تھی کہ جامعہ چھوڑ کر دہلی یونیورسٹی کی آفر منظور کر لی جائے اور نارنگ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ جاتے وقت مجھے نئے صدر شعبہ پروفیسر عنوان چشتی صاحب کے حوالے (زیر نگرانی) کر گئے۔ میں نیا نیا تھا، شعبے کے کسی بھی اساتذہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ یہاں آنے پر معلوم ہوا کہ ریسرچ اسکالر سے نگراں نوکروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں۔ جس نے سپر ڈال دی اور نفس امارہ کو سمجھا لیا، اپنی انا اپنا ضمیر سب کچھ دفن کر دیا وہ کامیاب ڈاکٹر بن کر نکلتا ہے۔ اور جس نے ذرا اکڑفوں دکھلائی اس کی عاقبت خراب۔ ان سب باتوں نے مجھے بالکل دہلا دیا تھا۔ میں تو امت مسلمہ کے اس ادارے میں اپنی عاقبت سنوارنے آیا تھا مگر یہاں تو حالات برعکس تھے۔ جو میرے مزاج سے بالکل میل نہیں کھاتے تھے۔ کہاں جے این یو کی آزادانہ فضائیں و اساتذہ اور طلبا کا دوستانہ ماحول اور کہاں جامعہ کا مولویانہ دقیانوسی ماحول۔ ہر چیز میں ایک گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔ بہر حال 1984 کے مارچ میں میرا داخلہ پی ایچ ڈی میں ہو گیا اور ایم اے فرسٹ ڈویژن ہونے کی وجہ سے فیلوشپ بھی مل گئی۔ میرے ساتھ ارتضیٰ کریم کا بھی داخلہ ہوا۔ ہم دونوں کے نگراں عنوان چشتی صاحب مقرر ہوئے۔ مقرر کیا ہوئے صدر شعبہ کی حیثیت سے ان کے حصے میں آئے۔ ارتضیٰ کریم کو بھی فیلوشپ ملی۔ نارنگ صاحب اپنے پرانے گھر دہلی یونیورسٹی کو لوٹ چکے تھے۔
داخلہ کے کچھ دنوں بعد ارتضیٰ کریم کو جامعہ کے نامساعد حالات کا شاید بہت کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنے روشن مستقبل کے امکانات کی تلاش میں جامعہ سے دہلی یونیورسٹی منتقل ہو گئے اور پروفیسر قمر رئیس صاحب کی زیر نگرانی اپنا داخلہ کرا لیا اور جامعہ کو خیر باد کہہ کر دلی یونیورسٹی کو اپنا نیا اور مستقل مسکن بنایا۔ ہم دونوں ایکد وسرے سے بالکل واقف نہیں تھے۔ وہ بودھ گیا سے ایم اے کر کے آئے تھے اور میں جے این یو سے ایم کر کے گیا تھا۔ ہم دونوں کی شناخت صرف ایک طالب کی تھی۔
پروفیسر عنوان چشتی صاحب کی زیر نگرانی میں واحد ریسرچ اسکالر تھا۔ کچھ دنوں تک تو حالات ٹھیک ٹھاک چلتے رہے۔ مگر جامعہ میں نگراں کو یہ بات ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی ریسرچ اسکالر ان سے روزانہ نہ ملے۔ بلکہ روزانہ گھنٹوں زانوئے ادب تہہ کر کے ان کی خدمت اقدس میں حاضری نہ دے اور گھر سے لے کر باہر تک کے ان کے سارے کام جسے ایک ذاتی نوکر کو کرنا چاہیے نہ بجا لائے تو وہ کامیاب ڈاکٹر بن ہی نہیں سکتا۔ میں نے حکم عدولی کی نگراں کی خدمت میں روزانہ گھنٹوں بیٹھ کر وقت برباد کرنے کے بجائے لائبریری میں وقت گزارنے کو بہتر جانا اور دو تین دنوں پر ایک بار ضرور اپنی صورت نگراں کو دکھلا دیتا تھا۔ مگر وہ اس بات سے خوش نہیں رہتے تھے۔ یہ سلسلہ کھینچ تان کر کسی طرح ایک سال تو چلا پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ میرے نگراں نے مجھے اپنے قابو میں کرنے کے لیے ایک آفیشیل شو کاز نوٹس کا سہارا لیا جس میں میرے ایک سال کے تحقیقی کام پر اپنی عدم اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے جواب طلب کیا۔ نوٹس اور نوٹس کے جواب پر پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ فی الوقت تو اتنا جان لیں کہ یہ حربہ بھی ان کے کام نہ آیا اور میں نے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس نوٹس کا قانونی جواب دینا بہتر سمجھا۔ پھر کیا تھا، جامعہ میں ایک بھونچال آ گیا۔ خط کی کاپی اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر علی اشرف مرحوم اور ڈین آرٹس فیکلٹی پروفیسر انور صدیقی مرحوم کی خدمت میں بھی دے دی تھی۔ جامعہ کی تاریخ میں کسی پروفیسر کے خط کا جواب کسی ریسرچ اسکالر نے پہلی بار دینے کی ہمت کی تھی جس کے چرچے خوب ہوئے۔ تمام پروفیسران اس حمام میں برہنہ ہوتے نظر آئے۔ لہٰذا میرا معاملہ حق بہ جانے ہوتے ہوئے بھی جامعہ کی فضا میرے حق میں عدل و انصاف سے عاری نظر آئی۔ مجھے یہاں کے ماحول میں مزید گھٹن اس واقعے کے بعد محسوس ہونے لگی۔ ہر کوئی پس پردہ میرا ہمدرد تو تھا لیکن سامنے آنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ لہٰذا ماحول کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میں نے جامعہ کو خیر باد کہا اور پھر جے این یو واپس آ گیا۔
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا
(پروین شاکر)
اور پروفیسر محمد حسن کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔
پھر مدتوں قرۃالعین حیدر سے نہ میری ملاقات ہوئی اور نہ میں نے ملاقات کی کوشش کی اور نہ ہی کسی جلسے میں آمنا سامنا ہوا۔ 1991 میں تحقیقی مواد کی فراہمی کے سلسلے میں میں پاکستان گیا تھا اور قرۃالعین حیدر پر اردو اور انگریزی میں بہت سے مضامین، ان کے بہت سے نئے افسانے جو ان کے افسانوی مجموعوں میں نہیں تھے، ان کے مضامین اور ان کی بہت سی ایسی تحریریں جو مختلف رسائل میں بکھری پڑی تھیں ڈھونڈھ کر لایا اور ان افراد سے بھی ملاقات کی جن کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ قرۃالعین حیدر کے قریبی حلقے میں رہے ہیں اور ان سے قرۃالعین حیدر کے بارے میں بہت کچھ معلومات حاصل ہو سکتی ہے۔ اور ایسا ہوا بھی غرض کہ بہت کچھ نیا نیا میں لے کر واپس آیا۔ لیکن تب بھی قرۃالعین حیدر سے ملنے کا خیال میرے ذہن میں پیدا نہیں ہوا۔ وہ تو کہیے کہ کچھ صورت ایسی بن گئی کہ ان سے ملنے کا موقع نکل آیا۔
پاکستان سے لوٹنے کے چند ماہ یا چند سال بعد افتخار عارف دلّی آئے۔ اشوکا ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پاکستان میں میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اور آنے کے بعد کچھ دنوں تک خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اس وقت افتخار عارف ادارہ ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر تھے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ذریعہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ وہ آئے ہوئے ہیں اور اشوکا میں ان کا قیام ہے تو میں نے ان کو فون کر کے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے دوسرے دن صبح ملنے کا وقت دیا۔ میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا۔ انھوں نے پہنچتے ہی کہا کہ عینی آپا سے ملنے جانا ہے اگر تمھارے پاس وقت ہو تو تم بھی چلو۔ اندھا چاہے دو آنکھ۔ میں نے کہا جی ضرور چلوں گا۔ افتخار عارف نے فون کرکے آپا کو اپنے ہندوستان آنے کی اطلاع دی اور ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے کہا فوراً آ جائو۔ افتخار صاحب تیار بیٹھے تھے۔ ہم لوگ فوراً روانہ ہو گئے اور کچھ دیر بعد ذاکر باغ پہنچ گئے۔ ان کے گھر جانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ آپا ذاکر باغ کے ٹاور میں فرسٹ فلور پر رہتی تھیں۔ جب میں ان کے فلیٹ کے سامنے پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جوتے اور چپلوں کا انبار باہر پڑا ہوا ہے اور بہت سے لوگ نیچے سے لے کر اوپر تک مختلف کیفیتوں میں بیٹھے اورلیٹے ہوئے ہیں۔ ماجرا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں ان لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا اور دروازے کی گھنٹی بجائی۔ ان کی خادمہ نے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلا تو اندر ڈرائنگ روم کا منظر بھی ایسا ہی تھا۔ تل رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔ عجیب و غریب قسم کے لوگ، متوحش چہرے، بڑھے ہوئے بال، گلے میں مالائیں، دیوانوں سا انداز۔ میں حیران تھا کہ ان بھانت بھانت کے لوگوں سے عینی آپا کا کیا تعلق۔ ایسے لوگ تو میں نے درگاہوں میں دیکھے تھے۔ ابھی ہم لوگ ڈرائنگ روم میں کھڑے ہی تھے کہ افتخار عارف کی آواز سن کر عینی آپا اپنے کمرے سے نکل کر تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف آتی ہوئی دکھائی دیں۔ افتخار عارف کو گلے لگایا اور دعائیں دیں۔ میں نے بھی سلام عرض کیا۔ اور پھر آپا کے بیٹھنے کے بعد ہم لوگ بھی صوفے پر بیٹھ گئے۔ اس وقت مجھے آپا کی شخصیت کا دوسرا ہی روپ نظر آیا۔ خوش مزاج، باتونی اور قہقہہ لگانے والی۔ پھر آپا نے کہا کہ بھیا جی آئے ہوئے ہیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ عینی آپا کسی پیر کی عقیدت مند بن گئی ہیں اور وہ برابر ان کے یہاں آتے رہتے ہیں اور آپا بھی وہاں جاتی رہتی ہیں۔ ان کے فکشن میں تصوف کی طرف ان کا جھکائو بھیا جی کی وجہ سے ہوا اور آپا نے اس کے حوالے بھی دیے ہیں۔ ان کا اصل نام حضرت سلطان محمد عارف عرف عام میں ’بھیا جی‘ کہلاتے ہیں۔ اس وقت پاک و ہند کے سلسلہ چشتیہ مینائیہ کے سب سے بڑے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ حضرت مخدوم شیخ سارنگ کے صاحب سجادہ حضرت مخدوم مکرم دانش علی کے صاحب زادے ہیں۔ یہ بھیا جی بارہ بنکی والے وہی پیر صاحب ہیں جن کا تذکرہ ’چاندنی بیگم‘ میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ عینی آپا صوفیا کرام کے سلسلے کو نہ صرف مانتی تھیں بلکہ بزرگوں کے مزاروں پر ان کا آنا جانا بھی تھا۔ خود ان کے خاندان میں کئی بزرگ اور صوفیاء گزرے جہاں وہ ہر سال عرس کے موقع پر پابندی سے جاتی تھیں۔ بھیا جی بھی ان کے خاندانی سلسلے کے بزرگ ہیں۔ بھیا جی نے شب بے داری کی تھی لہٰذا وہ دن کے کوئی گیارہ بجے سوئے ہوئے تھے۔ افتخار عارف بھی ان کے عقیدت مندوں میں تھے اس لیے وہ ان کے کمرے میں ان کا دیدار کرنے کے لیے گئے۔ آپا نے انھیں جگانے سے منع کر دیا تھا۔ صوفیائی صفت کے مالک بزرگ تھے افتخار عارف جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے ان کو احساس ہو گیا کہ کوئی آیا ہے، فوراً وہ نیند سے بے دار ہو گئے اور افتخار صاحب کے ساتھ ڈرائنگ روم میں تشریف لے آئے۔ نورانی چہرہ، صاف رنگت، دراز قد، متوسط بدن، داڑھی سے مبرا چہرہ، عمر بھی زیادہ نہیں۔ دیکھنے سے جواں سال لگتے تھے۔ ان کے آتے ہی سارے مریدین اٹھ کھڑے ہوئے اور قدم بوسی کے لیے جھک گئے۔ وہ ہم لوگوں کے درمیان کچھ وقت آ کر بیٹھے۔ افتخار عارف سے جب انھوں نے گفتگو کی تو اس سے اندازہ ہوا کہ علم و ادب کا بھی خاصا ذوق رکھتے ہیں۔ میں نے بھی انھیں سلام کیا، مصافحہ کیا۔ افتخار عارف نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ انھیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ میں عینی آپا پر تحقیقی کام کر رہا ہوں۔ پھر انھوں نے بہت دعائیں دیں۔ چند منٹ سبھوں کے درمیان بیٹھ کر وہ پھر اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے۔ میں نے پہلے سے ان کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ان کے جانے کے بعد افتخار صاحب نے آپا سے میرا تعارف کرایا۔ اور یہ بھی بتلایا کہ یہ آپ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ یہ جان کر اس وقت آپا بے حد خوش ہوئیں۔ اور کہا کہ پھر کبھی آپ آ کر ملیے گا۔ میں نے بھی کہا جی ضرور۔ لیکن اس کے بعد عرصے تک ان سے ملنا نہیں ہوا۔ ہاں البتہ کبھی کبھی ادبی محفلوں میں وہ نظر آ جاتی تھیں۔
ستمبر 2001 میںجب ان کے انٹرویوز کا ایک مجموعہ ترتیب دے رہا تھا تو ان سے ایک انٹرویو کرنے کی غرض سے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ان کے یہاں گیارہ بجے دن میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپا جل وِہار نوئیڈا سیکٹر 20 کی پہلی منزل پر رہتی تھیں۔ سوالنامہ میں نے پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ دس منٹ بعد عینی آپا سامنے آ کر بیٹھیں۔ پہلے میرا تفصیلی تعارف جاننا چاہا۔ میں نے بتلایا۔ تفصیلی تعارف جاننے کے بعد جب انھیں اطمینان ہوا تو پھر انھوں نے سوالات پوچھنے کی اجازت دی۔ اس سے پہلے میں نے انھیں بتلایا کہ میں نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اس پر ڈگری بھی ایوارڈ ہو چکی ہے۔ بے حد خوش ہوئیں۔ پھر میں نے کہا میرے پاس آپ کے بہت سے ایسے افسانے ہیں جو کسی افسانوی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ مضامین، انٹرویوز، خاکے وغیرہ ساتھ ہی ان پر لکھے گئے وہ سینکڑوں مضامین ہیں جو میں نے جمع کیے ہیں۔
آپا یہ سب سن کر بے حد خوش ہوئیں اور کہا کہ آپ نے بہت سی چیزیں جمع کر رکھی ہیں۔ ان چیزوں کو شائع ہونا چاہیے۔ انٹرویو سے پہلے میں نے ماحول کافی خوشگوار بنا دیا۔ پھر انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپا کے مزاج کے بارے میں لوگوں سے میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لہٰذا میری کوشش یہ تھی کہ کوئی بات خلاف مزاج نہ ہو اور کہیں وہ اوروں کی طرح مجھے بھی گھر سے باہر نہ کر دیں۔ میں کہ ٹھہرا ایک طالب علم، فلسفیانہ اور عالمانہ گفتگو تو میں کر نہیں سکتا تھا۔ میں نے تو ان کی تحریروں سے ہی کچھ سوالات تیار کیے تھے اور لے کر گیا تھا جس کی تفہیم تفصیل کی متقاضی تھی۔ لیکن کیا پتہ کون سی بات طبع نازک پر گراں گزرے۔ بہت سے سوالوں میں ایک سوال ان کی تاریخ پیدائش کی گتھیوں کو بھی سلجھانے کے بارے میں تھا۔ جسے میں نے جان بوجھ کر درمیان میں رکھا تھا تاکہ خوشگوار ماحول میں اس سوال کا آسانی سے جواب حاصل کیا جا سکے۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ دوران گفتگو میں نے آپا سے ان کی تاریخ پیدائش جاننی چاہی، بس کیا تھا آپا کا پیمانۂ صبر و شکیب ٹوٹ گیا۔ بے حد خفا ہوئیں اور از حد ناراضگی سے بولیں یہ میری تاریخ پیدائش کا کون سا مقدمہ لے کر بیٹھ گئے۔ میں 1925، 26 یا 27 میں پیدا ہوئی کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ لوگ ایک خاتون سے اس طرح کا سوال کیسے کر سکتے ہیں۔ آپ اس سے کیا اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا جاننا چاہتے ہیں۔ جسے دیکھیے یہ سوال ضرور کرے گا۔ میں خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔ اب یہاں قرۃ العین حیدر کا کچھ اور ہی رنگ تھا۔ وہی رنگ جس کے تزکرے محفلوں میں ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی خاتون ہیں جو نہایت خوش خلقی سے میرے سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔ میں ڈر اکہ کہیں انٹرویو کا سلسلہ یہیں نہ رک جائے اور وہ مجھے جانے کے لیے کہہ دیں۔ لہٰذا بیچ بیچ میں کچھ عاجزی اور کچھ انکساری سے میں عرض کرتا رہا کہ آپا یہ بات نہیں ہے۔ مقصد آپ کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے بلکہ تحقیق کی ضرورت کے پیش نظر میں نے آپ سے یہ جاننا چاہتے تھے۔ اگر آپ مناسب نہیں سمجھتی ہیں تو اس سوال کا جواب ہرگز نہ دیں۔ میری کوشش تھی کہ انٹرویو درمیان میں نہ رک جائے اور ماحول خراب ہونے سے بچا رہے۔ پورے انٹرویو کے دوران جو تقریباً پانچ گھنٹے سے زیادہ چلا، آپا کئی بار آپے سے باہر ہوئیں۔ لیکن میں ہر بار ان کی تعریف کر کے ان کے مزاج کو بگڑنے سے بچاتا رہا میں نے ہر معاملے میں آپا کو بے حد حساس پایا۔ وہ اپنی تعریف سے خوش تو بے حد ہوتی تھیں لیکن نقادوں سے بے حد ناراض تھیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اکثر نقادوں میں فکشن کی سمجھ نہیں ہے۔ وہ لکیر کے فقیر ہیں،انھوں نے خاتون لکھنے والیوں کو اگنور کیا ہے۔ اور اردو میں متوازن تنقید بہت کم لکھی گئی ہے۔ اپنے افسانوں کے متعلق انھوں نے عرض کیا کہ میرے افسانوں میں بہت ویرائٹی ہے، تہہ داری ہے اور ناقدین ان کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکے ہیں سوائے چند ایک کے۔ اردو میں طرز جدید کے افسانے سب سے پہلے میں نے لکھے اور جدیدیوں نے اس کا سہرا انور سجاد کے سر منڈھ دیا۔ یہ اور اس قسم کی ہزارہا باتیں۔
یہ میری قرۃالعین حیدر سے پہلی تفصیلی ملاقات تھی جس میں ان کے مزاج کے کئی رنگ نظر آئے۔ علم و ادب کی کسی بڑی شخصیت سے انٹرویو کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ اور وہ بھی ایک ایسی خاتون سے جس کے علم و فضل کا رعب و دبدبہ تھا۔ جس سے باتیں کرنے میں اچھے اچھوں کی زبان لڑکھڑاتی تھی۔ایسی صورت میں ان سے طویل ترین مکالمے کے لیے ہمت جٹانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جو لوگ آپا کی تنک مزاجی، ان کی حساس طبیعت سے واقف ہیں وہ طویل گفتگو میں پیش آنے والی مشکلات کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
اخلاقی طور پر آپا میں کوئی کمی نہیں۔ ہر کسی سے ملتی تھیں، ان میں وقت کی پابندی بے حد تھی۔جب کسی کو وقت دیتیں تو پہلے سے تیار ہو کر اس کا انتظار کرتی تھیں۔ چائے ناشتے کے ساتھ کھانے کا بھی اہتمام کرتی تھیں۔ میں جب بھی گیا دن کا کھانا ساتھ ہی کھایا۔ کھانا کھائے بغیر واپس نہیں آنے دیا۔ انھیں آم بے حد پسند تھا۔ گوشت خور بھی تھیں اور کہتی تھیں کہ گوشت خوری کے معاملے میں میں خاصی مسلمان ہوں۔ گوبھی گوشت انھیں دل سے پسند تھا۔ ان کے دسترخوان پر زیادہ تر گوشت ہوتا تھا۔ عمر کی اس منزل میں سب کچھ کھاتی تھیں، ہاضمے کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ہاں بینائی بہت کمزور تھی۔سماعت پر بھی اثر پڑا تھا۔ اونچا سنتی تھیں۔ چند سال پہلے آلۂ سماعت بھی خریدا تھا۔ 2001 سے 2007 تک میں وقفے وقفے سے اور کبھی لگاتار بھی ہفتوں گیا ہوں۔ پہلی بارجب میں ’نوائے سروش‘ کے لیے انٹرویو کرنے گیا تھا تو اس وقت وہ J40 سیکٹر 20 نوئیڈا میں تھیں اس وقت بھی کئی دنوں تک میں لگاتار گیا تھا۔ کتاب کا پیش لفظ بھی میری گزارش پر انھوں نے لکھوایا تھا۔ اور کتاب کا نام بھی تجویز کرنے میں میری رہنمائی کی تھی۔ اور جب کتاب چھپ کر نومبر میں آ گئی تو وقت طے کر کے دوسرے دن صبح کتاب لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کتاب دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ کشور ناہید آ گئیں۔ ان کے آنے کا پروگرام غالباً پہلے سے طے نہیں تھا۔ آپا کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ کتاب سامنے رکھی تھی۔ آپا نے کتاب کشور ناہید کی طرف بڑھائی اور میرا تعارف کرایا۔ انھوںنے انٹرویو کے عنوانات جو میں نے آپا کے چبھتے ہوئے جملوں کے دیے تھے، کو دیکھ کر بے حد پسند کیا اور میری کافی ستائش کی اور اس پر آپا کا پیش لفظ دیکھ کر اور بھی خوش ہوئیں۔ عینی آپا کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ بچوں کی طرح کلکاریاں بھر رہی تھیں۔ فوراً اپنی خادمہ سے کہا کہ ان کے (خاکسار) ساتھ میری تصویر بنائو۔ خادمہ نے کہا کہ کیمرے میں ریل نہیں ہے۔ کہا ڈرائیور سے بھیج کر منگوائو۔ ریل آئی اور کئی تصویریں بنائی گئیں۔ یہاں ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ تصویر کف گل فروش میں جو اس وقت زیر ترتیب تھی اس میں شامل بھی کی گئی لیکن کچھ اس طرح کہ اس تصویر سے مجھے الگ کر دیا گیا اور یہ کام ان کے پی اے نے ان کی مرضی جانے بغیر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا۔ کتاب جب شائع ہو کر آئی تو مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوئی اور میں نے آپا سے ذکر کیا تو انھوں نے اپنے پی اے کو اس کی اس حرکت کے لیے سرزنش کی اور بے حد ناراضگی کا اظہار کیا اور پھر بعد میں اسے ہٹا بھی دیا۔ اسے اس بات کی رنجش تھی کہ میں برسوں سے ان کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور کئی بار تصویر کے لیے گزارش کی لیکن ہر بار منع کر دیا۔ اور آج خود ہی جمیل اختر کے ساتھ تصویر بنوائی۔ حاسدانہ مزاج نے اسے یہ کام کرنے پر مجبور کیا۔ میں حیران تھا کہ ابھی چند دن پہلے میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا تو صاف منع کر دیا تھا کہ میں تصویر وغیرہ کھنچوانی پسند نہیں کرتی۔ لیکن آج لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی عینی آپا ہیں۔ کسی سے خوش ہوتیں تو سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار اور ناراض ہوتیں تو دیا ہوا واپس لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ یاد داشت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ پل بھر کی بات یاد نہیں رہتی تھی۔ ماضی کی ہر بات، ایک ایک واقعہ، واقعے کی ایک ایک جزئیات، منظر کشی، کیا مجال جو ایک واقعہ بھی بھول جائیں لیکن بات یاد نہیں رہتی تو سامنے کی۔ میری تین کتابوں کے پیش لفظ انھوںنے لکھوائے تھے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ ان کا ذہن آخر آخر تک کتنا چاق و چوبند تھا۔
عینی آپا سے میری دوسری تفصیلی ملاقات 18 جون 2003 کو ان کے نئے مکان E55، سیکٹر 21 نوئیڈا میں ہوئی۔ یہاں بھی معاملہ ان سے انٹرویو ہی کرنے کا تھا۔ لیکن ایک ایسا انٹرویو جو غیر معمولی ہو اور جس کی مثال بہ شمول اردو دنیا کی کسی زبان میں موجود نہ ہو یعنی طویل سے طویل تر۔ آپا اب کسی حد تک میرے نام سے واقف ہو چکی تھیں لہٰذا انھوں نے آسانی سے وقت دے دیا۔ اس انٹرویو کے لیے سوالنامہ میں نے ادب سے الگ ہٹ ان کی زندگی کے دوسرے پہلوئوں سے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے، سے بنائے تھے۔ صحافت، صحافتی زندگی، موسیقی سے دلچسپی، مصوری کا شوق، سب پر الگ الگ سوالنامہ اور بالتفصیل گفتگو۔ اس گفتگو میں آنے والی دشواریوں کا ذکر میں اپنی کتاب’اندازِ بیاں اور‘ میں کر چکا ہوں، یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ کتاب 2005 میں فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوئی۔ یہ پوری کتاب میری آپا سے ہوئی گفتگو پر مبنی ہے۔ اور بہت سے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھا ہے۔ اس انٹرویو کے لیے میرا ان کے یہاں کئی ماہ تک مسلسل اور کبھی وقفے وقفے سے آنا جانا جاری رہا۔ پھر یہ سلسلہ ’کلیاتِ قرۃالعین حیدر‘ کی تدوین سے جڑ کر بے حد طویل ہو گیا۔ پھر نیا افسانوی مجموعہ جس کا نام ’قندیل چین‘ آپا نے تجویز کیا تھا جو کلیات کی چوتھی جلد کے طور پر شائع ہوا ہے کے سلسلے میں انتقال سے محض چند ماہ قبل تک ملنا جاری تھا۔ ان چند برسوں میں میں نے آپا کے مزاج کے بہت سے رنگ دیکھے۔ کئی بار ایسا لگا کہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا۔ ان کے رخ کو دیکھ کر کبھی کبھی بہت بد دلی بھی ہوتی تھی کہ کہیں محنت رائیگاں نہ چلی جائے اس خیال کے آتے ہی ان کے ہر رخ کو برداشت کرتا رہا۔ ان کی ناز برداری کرتا رہا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ قدرت مجھے سخت ترین آزمائش میں ڈالنے والی ہے اور میں جس چیز سے ڈر رہا تھا وہی ہوا۔ اگست 2005 میں میرا ایک طویل مضمون ’قرۃالعین حیدر ادبی و شخصی خاکہ‘ کے عنوان سے ’آج کل‘ میں شائع ہوا جس میں میں نے ان کی تنک مزاجی اور ان کے والدین کے درمیان خوشگوار رشتوں کی کمی اور نذر سجاد حیدر کے تسلط کا ذکر کیا تھا۔ یہ مضمون آپا کو ان کے ادبی معاون (مجیب احمد خاں) نے نہ جانے کس قرأت میں پڑھ کر سنایا کہ آپا انتہائی کرب و پریشانی میں مبتلا ہو گئیں۔ ان کے دونوں ادبی معاون کو نہ جانے کیوں میرا آپا کے یہاں بار بار آنا جانا پسند نہیں تھا۔ میں ان دنوں نیا افسانوی مجموعہ ’قندیل چین‘ کے پیش لفظ کی ڈکٹیشن لے رہا تھا۔ مضمون سن کر ان کی بے چینی اور بے اطمینانی کافی بڑھ گئی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان کے ادبی معاون نے مضمون کی قرأت کے دوران بہت سے بھڑکیلے جملے جو مضمون میں درج نہیں تھے اپنی طرف سے اضافہ کر کے ان کو سنائے۔ ایسا انھوں نے ہم دونوں کے درمیان 2001 سے چلے آ رہے خوشگوار رشتوں کی بنیاد ہلا دینے کے لیے کیا۔ مضمون کی اشاعت کے کچھ قبل ہی سے میں اپنی عدم مصروفیت کی وجہ سے پندرہ بیس دنوں کا وقفہ گزرا ہوگا جو میں ان کی خدمت سے غیر حاضر رہا۔ بس شیطانوں کو ریشہ دوانیوں کا موقع مل گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ آپا کی کلیات وہ مرتب کریں لیکن آپا ان کو اس کام کے لیے منع کر چکی تھیں اور جب انھوں نے مجھے باضابطہ تحریری اجازت کلیات کی تدوین کے سلسلے میں دی تو ادبی معاون کو یہ بات بے حد ناگوار گزری۔ وہ وقتاً فوقتاً میرے غائبانہ میں آپا کو میرے بارے میں اُکساتے رہتے تھے جس کی اطلاع آپا کی گھریلو معاون مجھے دیتی رہتی تھی۔ لیکن میں نے اس بات کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ لوگ میرے خلاف گہری سازش کر رہے ہیں۔ آخر ان لوگوں کو اس مضمون کے حوالے سے میرے خلاف سازش کرنے کا موقع مل گیا۔ آپا کو اس مضمون کے حوالے سے اس قدر بدظن کیا گیا کہ انھوں نے فون کر کے مجھ سے نہ صفائی مانگی نہ جواب طلب کیا۔ اپنی بھانجی (ہما حیدر) اور ان کے شوہر (رفیع الحسن) کو بلا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی جیسا بڑا قدم اٹھا لیا۔ اور لوگوں کے کہنے کے باوجود کہ آپ جمیل اختر سے پہلے بات کریں اس لیے کہ آپ ان کو اپنی کتاب کا مقدمہ لکھوا رہی ہیں جو ابھی ادھورا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں آپا نے مجھ سے بات نہیں کی یا ان کے معاونین نے مجھ سے رابطہ نہ کرانے کا کوئی حربہ اپنایا واللہ عالم بالصواب۔ ہاں ’آجکل‘ کے ایڈیٹر عابد کرہانی کے پاس آپا کا ناراضگی، غصہ اور انتہائی خفگی بھرا فون ضرور آیا جس میں سخت و سست کہنے کے بعد قانونی چارہ جوئی کا ذکر بھی کیا۔ اس ناگہانی آفت سے عابد کرہانی بے حد پریشان ہوئے اور انھوں نے فوراً مجھے فون کیا۔ میں اس وقت علی گڑھ میں تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپا کا فون آیا تھا۔ آپ کے مضمون سے بے حد برہم ہیں اور رسالہ ’آج کل‘ کو قانونی نوٹس بھیجنے کی بات کہہ رہی ہیں۔ اس وقت تک مجھے ان حالات کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ پہلی اطلاع عابد کرہانی صاحب کے فون سے ملی۔ میں نے پھر بھی اس کو اس قدر سنگین معاملہ نہیں سمجھا اور عابد صاحب سے کہہ دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں، اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر قانونی چارہ جوئی کی جا سکے۔ میں نے سوچا کہ جب میں علی گڑھ سے واپس دلّی جائوں گا تو آپا سے مل کر بات کر لوں گا۔ لہٰذا میں نے اس اطلاع کے باوجود آپا کو بھی فون نہیں کیا اور اطمینان سے رہا۔ تقریباً ہفتہ دس دنوں بعد جب علی گڑھ سے دلی واپس آیا تو پیش لفظ جو ادھورا تھا اس کو مکمل کرانے کے لیے آپا سے وقت طے کرنے کے لیے فون کیا۔ حسب معمول ریحانہ نے فون اٹھایا۔ میں نے کہا کہ آپا سے بات کرائو، میں کل صبح آنا چاہتا ہوں۔ تو اس نے بتایا کہ آپا آپ سے بہت ناراض ہیں اور وہ شاید آپ سے بات بھی نہ کریں۔ تب مجھے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔ ریحانہ نے آپا سے بتایا کہ جمیل اختر ہیں، آپ سے بات کرنی چاہتے ہیں۔ آپا نے فون لیا، بات کی اور وقت بھی دیا۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ آپا مجھ سے اس قدر خفا بھی ہیں۔ ریحانہ کو بھی بے حد حیرانی ہوئی۔ میں مطمئن ہوا کہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ بات کوئی ایسی تھی بھی نہیں کہ معاملہ اس قدر طول پکڑے۔
میں دوسرے دن متعینہ وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے آپا کے دولت کدے پر پہنچا۔ عموماً میں اسی وقت ان کے یہاں جاتا تھا۔ ریحانہ نے دروازہ کھولا اور کہا بیٹھیے۔ پھر اس نے کہا کہ کچھ اور لوگ آنے والے ہیں۔ آپا نے آپ پر اس مضمون کے حوالے سے پنچایت بٹھائی ہے۔ میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ یا اللہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے اس قدر تفصیلی اور تحقیقی مضمون اس لیے تو نہیں لکھا تھا کہ آپا کی دل آزاری ہو۔ لیکن دل بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ مضمون میں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ طبع نازک پہ گراں گزرے۔ بہر حال اسی ادھیڑ بن میں بیٹھا ہوا تھا کہ ریحانہ نے مجھے بتایا کہ آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا چکی ہے اور 25 لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔ ’آج کل‘ کو نوٹس بھیج دی گئی ہے۔ قومی کونسل میں بھی کلیات کی تدوین کے سلسلے میں پروجیکٹ آپ سے واپس لینے کا بھی خط بھیجا جا چکا ہے۔ یہ سننا تھا کہ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ ریحانہ نے آپا کے ادبی معاون کی طرف اشارہ کیا کہ انھوں نے آپا کو آپ کے خلاف بہت بھڑکایا ہے۔ ورنہ آپا شاید اس قدر ناراں نہیں ہوتیں۔ میرے بدخواہوں کو میرے خلاف سازش کا سنہری موقع جو ہاتھ آیا تھا۔ بہر حال، اب اس وقت کیا کیا جا سکتا تھا۔ عدالت لگنے کے انتظار میں بیٹھا رہا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ صغریٰ مہدی اور شمیم حنفی صاحب داخل ہوئے اور میرے پاس ہی آ کر بیٹھ گئے۔ چند منٹ بعد ان کی بھانجی ہما حیدر اور ان کے شوہر رفیع الحسن صاحب تشریف لائے (یہ دونوں اب مرحومین میں شامل ہو چکے ہیں)۔ اور پھر کچھ دیر بعد ایک کرنل صاحب جو آپا کے پڑوس میں رہتے تھے تشریف لائے۔ پھر ریحانہ نے آپا کو جا کر خبر دی کہ تمام لوگ آ چکے ہیں تو پھر آپا تشریف لائیں۔ کچھ دیر تک خاموشی طاری رہی۔ ہر کوئی آپا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور آپا نظریں جھکائے بیٹھی تھیں اور میں باری باری ہر ایک کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ تبھی رفیع الحسن مرحوم نے آپا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہم لوگوں کو کس لیے بلایا ہے، کیا بات ہے۔ تب آپا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے میرے بارے میں جو اس قدر بے ہودہ مضمون لکھا ہے اس کا کیا کیا جائے۔ مجمع میں خاموشی تھی۔ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ تب میں گویا ہوا اور آپا سے پوچھا کہ میرے مضمون کا کون سا جملہ یا میری کون سی بات آپ کی تکلیف کا باعث ہوئی۔ تو آپا نے کہا کہ یہ جو آپ نے میرے والدین کے بارے میں لکھا ہے یہ کیا ہے۔ یہ میں بالکل برداشت نہیں کروں گی۔ میں خاموشی سے آپا کی باتیں سنتا رہا۔ پنچایت میں موجود تمام لوگ بھی آپا کی باتیں سنتے رہے۔ میں نے اس مضمون میں یہ لکھا تھا کہ:
’’قرۃالعین حیدر کی والدہ اگرچہ بہت ہی روشن خیال خاتون تھیں لیکن روایت پرستی بھی ان میں موجود تھی۔ ساتھ ساتھ وہمی، ضدی اور غیر مستقل مزاج بھی تھیں۔ سجاد حیدر ان کی ضد کی آگے ہمیشہ سپر ڈال دیتے تھے۔ زندگی بھر پورا گھر معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے لیے پھریں۔‘‘ (تنقید کے نئے افق، جمیل اختر، صفحہ 51-52)
ایک اور جگہ میں نے پورے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے عینی آپا کی شخصیت پر یوں روشنی ڈالی تھی:
’’جس متضاد قسم کے ماحول میں عینی نے پرورش پائی اس ماحول کا پورا تضاد اور کنفیوژن ان کی شخصیت میں در آیا۔ گھریلو ماحول تمام آسودگی اور خوش حالی کے باوجود اس ناطے ناخوش گوار تھا کہ والدہ کی بے جا ضد سے گھر میں ہر وقت ٹکرائو اور تنائو کی کیفیت رہتی تھی۔ گھر کے اس ماحول کا اثر بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہوا۔ گھر کا یہی تضاد، تنائو اور ماحول کی ناخوشگواری عینی کی شخصیت میں داخل ہو گئی۔ غیر مستقل مزاجی، چڑچڑاپن اور زندگی کی بہت سی بے ضابطگی عینی کی فطرت کا حصہ بن گئیں اور آج بھی ان کی شخصیت میں یہ عناصر نہ صرف موجود ہیں بلکہ سرگرم ہیں اور اکثر اوقات ان کی پوری شخصیت پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ان کے ملنے والوں کو بے حد مایوس کرتے ہیں۔‘‘ (تنقید کے نئے افق، صفحہ 51)
جب آپا خاموش ہوئیں تو سب لوگ میری طرف دیکھنے لگے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مجرم کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ سب جواب طلب نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ پورا ماحول میرے لیے بے حد عجیب سا تھا۔ آج کا دن میرے لیے بڑا تاریخی دن تھا۔ ایک عہد ساز ادیبہ کے رو برو میں ایک ایسی کیفیت میں مبتلا تھا کہ قصور نہ ہونے کے باوجود احساس ندامت اور پشیمانی محسوس کر رہا تھا۔ ندامت اس بات کی کہ اتنی بڑی ادیبہ کو میرے لفظوں سے چوٹ پہنچی ہے اور وہ بھی اتنی کہ اس کی تاب تنہا نہ لا کر اپنے درد میںد و مزید بڑے ادیبوں اور رشتہ داروں اور احباب تک کو شریک کرنا پڑا (اس واقعے کے واحد چشم دید گواہ شمیم حنفی صاحب بقید حیات ہیں۔ صاحب معاملات سمیت تمام لوگ اس دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں)۔ مجھے ان کی بھانجی ہما حیدر مرحومہ جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے اس درد کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ عینی خالہ نے جب سے یہ مضمون سنا ہے بے حد بے چین ہیں۔ ان کے راتوں کی نیند ختم ہو گئی ہے۔ اکثر دیر رات میں فون کر کے درد کی کیفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ میں نے زندگی میں انھیں اس قدر پریشانی اور بے چینی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی بتلایا کہ میں نے آپ کا مضمون خاص طور پر پڑھا ہے تاکہ خالہ کے درد کو سمجھ سکوں۔ مگر وہ جملے جس کا اظہار ابھی خالہ نے کیا ہے وہ بھی مجھے ایسے نہیں لگے کہ اس پر اس قدر پریشان ہوا جائے۔ لیکن آپا بعض معاملات میں بے حد حساس واقع ہوئی ہیں۔ میں نے کہا کہ بعض میں نہیں بلکہ وہ حد درجہ حساس ہیں یہ میں بھی جانتا ہوں مگر مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ میں نے تو اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے بلکہ آپا کے لکھے ہوئے جملوں کا تجزیہ کیا ہے۔ پنچوں کا تجسّس بے قراری میں متبدل ہونے ہی والا تھا کہ میں نے اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر کے سب سے پہلے تو آپا کی طرف دیکھا پھر اوروں پر ایک نظر ڈالی اور آپا کو مخاطب کرتے ہوئے گویا ہوا۔ آپا جن باتوں سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے وہ تمام باتیں میری نہیں بلکہ آپ کی تحریروں میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ پھر میں نے ’کارِ جہاں دراز ہے‘ سے اور ان کے چند مضامین سے اس کا حوالہ کوٹ کرتے ہوئے چند جملے بھی دہرائے اور خود آپا سے سوال کیا کہ کوئی تجزیہ نگار ان جملوں سے کیا نتیجہ اخذ کرے گا۔ جب آپ نے خود ہی اپنی تحریروں میں ان معصومانہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ کوٹیشن سن کر آپا دم بہ خود رہ گئیں اور ٹکٹکی لگا کر مجھے دیکھتی رہیں۔ میرے اس ترکی بہ ترکی جواب سے ماحول میں سکوت طاری ہو گیا اور سبھوں کو سانپ سونگھ گیا۔ میرے جواب کے بعد کسی سے کوئی سوال نہیں بن پڑا۔ سب خاموش بیٹھے رہے۔ میں پھر سکوت کو توڑتا ہوا گویا ہوا۔ آپا آپ مجھ سے بڑی ہیں۔ ہم سب کے لیے قابل قدر، اردو ادب کو آپ پر ناز ہے اور فکشن کی سرتاج ہیں اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں آپ کی صحبت سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ میری اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہوگی کہ آپ کے رو برو بیٹھا ہوا ہوں۔ میرے مضمون سے آپ کی دل آزاری ہوئی آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ میں عمر میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں اور ادب میں میری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں نے کسی بدخواہی کے طور پر یہ جملے نہیں لکھے تھے بلکہ آپ کے جملوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ پھر بھی میرے جملوں اور الفاظ سے جو تکلیف آپ کو پہنچی ہے اس کے لیے میں بے حد معذرت خواہ ہوں۔ غبارے سے ہوا نکل گئی۔ جو لوگ مجھ پر حملہ کرنے کی تاک میں تھے وہ سب نہتے ہو گئے۔ ادبی معاون سے مضمون کی دوبارہ قرأت کے لیے کہا گیا اور ہما مرحومہ نے ان جملوں کو خاص طور پر پڑھنے کے لیے کہا جس نے آگ میں گھی کا کام کیا تھا۔ باوجود تلاش کے وہ جملے جس نے بے قراری اور غصے میں اضافہ کیا تھا اور معاون نے گڑھ کر پڑھے تھے دوبارہ پڑھنے سے قاصر تھا۔ اس لیے کہ صاحب مضمون بھی نظر کے سامنے تھا۔ اس کی بھی گھگھی بندھ گئی۔ تمام لوگوں پر سازش بے نقاب ہو گئی اور میرے جواب نے سب کو لاجواب کر دیا۔
اب پھر رفیع بھائی گویا ہوئے کہ خالہ یہ آپ پر کام کر رہے ہیں اور آپ نے اس کی اجازت انھیں دے رکھی ہے۔ یہ برسوں سے آپ کے پاس آ رہے ہیں۔ ابھی آپ انھیں کلیات کا مقدمہ بھی املا کرا رہی ہیں۔ آپ کی خواہش بھی ہے کہ آپ کی کلیات جلد از جلد آئے۔ آپ سے میں نے کہا تھا کہ جمیل اختر کو بلا کر تمام کارروائی سے پہلے ایک بار بات کر لیں لیکن آپ نہیں مانیں اور عجلت میں تمام کارروائی کر ڈالی۔ بتائیے اب کیا ہوگا۔ آپا نے کہا کہ آپ ہی لوگ بتائیے کہ اب کیا کیا جائے۔ رفیع صاحب نے کہا کہ تمام کارروائیاں روکنی ہوں گی اور کونسل کو جو لیٹر گیا ہے اسے واپس لینا ہوگا اور انھیں اس پروجیکٹ پر حسب سابق کام کرتے رہنے کا خط کونسل کو بھیجنا ہوگا۔ اور کورٹ کی کارروائی کو بھی روکنا ہوگا۔ یہ کام میں ابھی جا کر کروں گا۔ ابر چھٹ گیا، مطلع صاف ہو گیا، گھنگھور گھٹائیں بنا برسے حق و سچائی کی گرج چمک کے سامنے اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئیں۔ ماحول سازگار ہوا۔ سبھوں نے ساتھ میں ظہرانہ پر اس کڑواہٹ کو لذیز کھانوں کے ساتھ نگل لیا۔ کھانے کے بعد آپا آرام کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ شمیم حنفی اور صغریٰ مہدی صاحب کو الوداع کہنے میں باہر تک گیا۔ شمیم حنفی صاحب میرے جواب سے بے حد خوش تھے جس کا اظہار انھوں نے کئی ادبی محفلوں میں کئی لوگوں سے کیا۔ اپنی نوعیت کے اس انوکھے مقدمے کی گونج ہندوستان بھر میں سنائی دی۔ جس کسی نے سنا اسے میری قدآوری پر بے حد فخر ہوا۔ مقدمہ کسی اور نے نہیں ایک عہد ساز ادیبہ نے اس خاکسار پر، جس کی کوئی بساط نہیں تھی، کیا تھا۔ میں بھی بہت دنوں تک اپنے آپ پر ناز کرتا رہا۔
مجھے آگے کی کارروائی کے لیے بیٹھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ دفتری وقت کے مطابق عینی آپا کچھ دیر آرام فرما کر اپنی نشست پر آ بیٹھیں اور گویا ہوئیں اب کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا اردو کونسل کے لیے خط لکھوانا ہے۔ آپا نے خط ڈکٹیٹ کرایا اور بھیجے گئے خط کو واپس لینے اور پروجیکٹ کا سلسلہ بدستور سابق جاری رکھنے کے لیے اردو کونسل کے ڈائریکٹر کو خط لکھوایا۔ رفیع بھائی وکیل کے پاس گئے کہ آگے کی کارروائی نہ ہو۔ اسی اثنا میں ’آج کل‘ کو اس مضمون کو شائع کرنے کا نوٹس وکیل کے ذریعہ بھیجا جا چکا تھا۔’آجکل‘ نے وضاحت نامہ شائع کر کے اپنی جان بچائی۔ اور کچھ دنوں تک میرا مضمون نہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ سب باتیں زیادہ دیرپا اثر قائم نہ رکھ سکیں اور تمام حالات معمول پر لوٹ آئے۔
آپا نے دوسری نشست میں پھر کلیات کا مقدمہ جو ادھورا تھا اسے مکمل کرانے کی شروعات کر دی اور اس دن تقریباً سات بجے شام تک انھوں نے خلاف معمول کام کرایا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور میں روزانہ جانے لگا۔ تقریباً ہفتہ دس دنوں میں یہ کام مکمل ہوا۔ پھر میری جان میں جان آئی۔ اس طرح یہ دشوارگزار مہم دشمنوں کی سازش کے باوجود بہ حسن و خوبی اختتام پذیر ہوئی اور میں نے اطمینان کی سانس لی۔ آپا کے تصدیق نامہ کے ساتھ چار جلدوں کا مسودہ اشاعت کے لیے کونسل میں داخل کر دیا گیا اور چند ماہ بعد شائع بھی ہو گیا۔ لیکن آپا اسے دیکھ پاتیں اس کی مہلت قدرت نے انھیں نہیں دی اور آپا بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہو گئیں اور پھر اس دارفانی سے کوچ کر گئیں۔
ان کی صحبتوں سے مجھے بے حد فیض پہنچا۔ میرے علم میں اضافہ ہوا۔ بہت سی چیزیں میں نے ان سے سیکھیں۔ ان کا انداز تخاطب اور طرز تحریر نے بھی مجھ پر کافی اثر ڈالا۔ میں اپنے کو خوش قسمت سمجھتا ہوں اتنی بڑی ادیبہ اور عہد ساز شخصیت کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ پورے پورے دن ان کی صحبتوں میں بیٹھا۔ ان سے ہر طرح کے موضوعات پر گفتگو کی۔ فراق نے اپنے متعلق کہا تھا:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی اے لوگو
جب بھی تم یہ بتلائو گے میں نے فراق کو دیکھا ہے
عینی آپا کے حوالے سے میں ان لوگوں میں شامل ہو گیا جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آپا ہم کلام ہوئیں کہ کلیات کی بقیہ جلدوں کا کیا رہا۔ میں نے کہا اب رہی کلیات کی بات، تو 2007 کے بعد سے میں مسلسل اس کام میں لگا ہوا ہوں تو کیا میری چاہت کا دم بھرنے والے اداروں نے تمھاری مدد نہیں کی۔ عینی آپا گویا ہوئیں۔ نہیں آپا نہیں بار بار کی یاد دہانی کے باوجود کسی نے بھی مدد کا بھروسہ نہیں دلایا۔ آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے شیریں زبان و دہن سے گفتگو کرنے والے باثروت و بااختیار لوگوں نے اپنی بے بسی کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ یہ ظاہر کر دیا کہ آنکھ بند کرنے کے بعد اس خود غرض دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ میں نے جس کسی سے بھی اس سلسلے میں تھوڑی سی امید نظر آئی تذکرہ ضرور کیا لیکن صرف اور صرف ناامیدی اور ناکامی ہی ہاتھ آئی۔ لیکن اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بساط بھر کوشش کرتا رہا۔ آخر سات آٹھ سالوں کی محنت شاقہ کے بعد اپنی ذاتی کوششوں سے میں نے اتنا کچھ جمع کرنے میں کامیابی حاصل کر لی کہ ایک دو نہیں بلکہ کل سات جلدوں کا مواد جمع ہو گیا۔ پھر میرے حوصلے کو ایسی توانائی ملی جیسے ہمالیہ سر کر کے فتح و نصرت سے ہمکنار ہونے والے لوگوں کو ملتی ہے۔ آپا مستقل مجھے حیرت و استعجاب بھری نظروں سے نہ صرف دیکھے جا رہی تھی بلکہ میری سرشاری کی کیفیت سے وہ بھی محظوظ ہو رہی تھیں۔ پھر زیر لب تبسم پیدا کرتے ہوئے ایک آہ سرد بھری اور بولیں مجھے اس صورت حال کا قطعی اندازہ نہیں تھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ میرے عشاق میری ناز برداری کریں گے اور میرے سرمایہ ادب کی حفاظت دامے، درمے، قدمے کریں گے۔ علامہ اقبال ٹھیک ہی فرما گئے ہیں:
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
لیکن میں ہی بے وقوف تھی دنیاداری کو سمجھ نہیں پائی۔ آپا اس کا تو آپ نے خود ہی اقرار کیا ہے ’’جہاں تک انسان کا تعلق ہے میں انھیں بہت زیادہ نہیں سمجھ پائی ہوں۔ انسان آسانی سے سمجھ میں آنے والی چیز بھی نہیں۔ اس کا ذہنی تجزیہ میرے لیے ناقابل حصول ثابت ہوا۔ آپا اس میں تو کوئی شک نہیں اس لیے تو لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کرداروں کی پیش کش میں بہت کامیاب نہیں ہیں اور اس کی وجہ شاید انسان شناسی ہی ہے۔ تم ٹھیک کہتے ہو میں جلد اعتبار کر لیتی ہوں۔ ہر انسان کی شخصیت کے اندر تہہ در تہہ شخصیتیں ہیں۔ کتنے پہلو دیکھے اَن دیکھے اور اجنبی راز ہیں۔ میرے لیے عورت اور مرد بعض اوقات ایسی پرچھائیاں ہیں جو میرے سامنے سے گزرتی ہیں۔ میں نہایت خوش ہو کر اپنے آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں بھی انھیں پہچان سکتی ہوں۔ لیکن ان کے کسی ایک رویہ، محبت یا نفرت کا تجزیہ کر کے میں ان کے سارے چرتر پر کوئی فیصلہ تھوپ نہیں سکتی۔‘‘ میری یہی کمی کردار کی پیش کش میں حائل ہوتی ہے اور آج تمھاری زبانی زمانے کا احوال سن کر یہ یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ:
مونس ہے بعد مرگ کسی کا جہاں میں کون
دو پھول بھی لحد پہ کوئی دھر نہ جائے گا
اور پچھلے دس سالوں میں میں نے یہ بات محسوس بھی کی ہے۔ اور واقعی حقیقت بھی یہی ہے۔ آپا برصغیر کی نامور ادیبہ آج کسم پرسی کے حالات سے دو چار ہیں جس نے اردو فکشن کو نئے ہیئت و اسالیب سے روشناس کرایا اور بیسویں صدی کے ادبی افق پر جس نے اپنی فکر و فن کی ضیا پاشی سے منور رکھا وہی شخصیت اتنی جلد لوگوں کے دل و دماغ سے محو ہو جائے گی اور نام لیوا بھی باقی نہیں بچیں گے یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی یوم پیدائش اور یوم وفات منانے والے افراد و ادارے کا رویہ بھی آپ کے تئیں سوتیلا ہی ہے۔ حتیٰ کہ جس ادارے کی آغوش میں آپ مدفون ہیں وہاں کے لوگوں کی بے حسی بھی افسوسناک ہے۔ آپا یہ تو غیروں کی باتیں ہوئیں۔ آپ کے اپنوں نے بھی آپ کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا۔ عمر بھر اپنی اور ہندوستانی وراثت کے بکھرے اور مٹتے نقوش کی محافظت کرتے کرتے آپ نے پوری زندگی کھپا دی اور یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آپ کی خود اپنی وراثت کو آپ کے رشتہ دار سنبھال کر چند ماہ بھی نہ رکھ سکے۔ ادبی وراثت کو تو چھوڑیے اسے تو ہم جیسا کوئی عشاق ادب سنبھال ہی دے گا۔ میں تو اس وراثت کی بات کر رہا ہوں جس کا شکوہ آپ ہمیشہ کرتی رہتی تھیں۔ یاد ہے عزیز بانو داراب وفا کے انتقال پر ایک تعزیتی مضمون لکھتے ہوئے آپ نے یہ لکھا تھا کہ:
’’عزیز بانو کا مکان بھی لکھنؤ کے چند اور مکانوں کی طرح نیشنل ہیریٹج میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ میں تو ان کو ضرور یہ رائے دیتی مگر وہ خود ہی غائب ہو گئیں۔
انگلستان، فرانس، جرمنی اور روس کے اہل نظر نے اپنے عہد رفتہ کے مشاہیر کے مکانات کو اس طرح سجا بنا کے رکھا ہے۔ اور میں یہ رونا ہمیشہ روتی ہوں کہ مرزا غالب کے مکان میں کوئلے کی دکان کھل گئی۔‘‘
آپا لگتا ہے کہ آپ کے اپنے رشتہ داروں کو آپ کی اہمیت اور آپ کے قد کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ یا پھر آپ ان کو تہذیبی وراثت کی اہمیت کا کوئی خاص احساس نہیں پیدا کر اسکیں تبھی تو آپ کے مرنے کے محض چند ماہ بعد ہی لوگوں نے اسے فروخت کر دیا۔ آپا انتہائی افسردگی کے ساتھ رقت آمیز لہجے میں بولیں، جب مجھے یہ خبر ملی تھی تو بے حد صدمہ ہوا تھا۔ خود میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ انگلستان میں ادیبوں کے محفوظ مکان کا معائنہ کرنے والی خاتون کی اپنی ذاتی وراثت جسے نیشنل ہیریٹج میں شامل ہونا چاہیے تھا اتنی جلد بے نام و نمود ہو جائے گی۔ آپ کی روح اس حادثے پر کتنی اذیت محسوس کر رہی ہوگی اس کا مجھے اندازہ ہے۔ آپا نہایت سنجیدگی کے ساتھ کرب کو جذب کرتے ہوئے میری بات سن رہی تھیں۔ میں نے کہا، آپ یہی سوچ رہی ہوں گی نا کہ جس بات کے لیے میں زندگی بھر لڑتی رہی، احتجاج کرتی رہی، آج وہی بات، وہی حادثہ، تاریخ کی وہی المناکی میرے ساتھ بھی پیش آئی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ تاریخ کی یہ دردناکی شاید انسان کا مقدر ہے۔ وقت کی جبریت کا قہر جب نازل ہوتا ہے تو سب کچھ تاخت و تاراج کر دیتا ہے۔ تہذیبی اقدار کی پامالی کا احساس موجودہ نسل کو کہاں۔ خود تزئینی کے شغل میں ڈوبے مادیت کے پرستاروں کو اپنی تہذیبی اساس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ محدود فکر اور اوسط سوچ والے یہ لوگ مکر و فریب، مصلحت پسندی، خوشامد پسندی کے حصار میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ تمدن کے قدر شناس نہیں ہو سکتے۔ مفاد پرستی کی اس دنیا میں جہاں ضمیروں اور روحوں کے سودے ہو رہے ہیں، زیاں کا کاروبار کون کرتا ہے۔ تمھاری فکر مندی اپنی جگہ جائز ہے۔ جتنا سوچو گے اس کے پیچھے درد ہی درد ملے گا۔ مجھے تو اپنی زندگی میں نامساعد حالات کا بہت کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ تہذیبی تشخص سے بے اعتنائی اور ان کی بربادی کا نظارہ پوری دنیا میں گھوم گھوم کر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان حالات پر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ اطلاعی ٹیکنالوجی کی برقیاتی لہروں نے انسانی زندگی میں جو انقلاب برپا کیا اس کی تیز تر لہروں نے سماجی رابطے کو افرادی سطح پر ختم کر دیا۔ تہذیبی انقلاب کی آندھی نے مفاد پرستی، خود غرضی، ذاتی اغراض و مقاصد نے رشتوں کی اہمیت کو اپنی اپنی سہولتوں سے طے کرنے کے رویے کی وجہ سے سماج میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اقدار کی جگہ ضرورت نے لے لی ہے۔ زندگی لطف و انبساط سے بظاہر بھرپور ہونے کے باوجود کلبیت کا شکار ہے۔ تہذیب و ثقافت کا وہ تناور ماڈل جو صدیوں کی مشترکہ کوششوں سے وجود میں آیا تھا بدلتے افرادی اور سماجی رویوں سے پارہ پارہ ہو گیا۔ وہ عزت نفس ، وہ غیرت و حمیت، وہ عرفان ذات اگر نہ ہو اور فرد اپنے آپ کو دوسروں کے عکس میں دیکھنے کا عادی ہو جائے تو پھر اسے اپنی اصل حیثیت کا احساس نہیں رہتا۔ آپا کا اشارہ مغربی تہذیب کی نقالی کی طرف تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی تہذیب زوال و انہدام کی طرف گامزن تھی۔ میں سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگا تو پھر کہنے لگیں، جب کسی قوم یا ملک کی تہذیب خود اس کے افراد کے ہاتھوں منہدم ہوتی ہے تو ایک عمومی بے توقیری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج پوری دنیا خاص کر ہندوستان میں مسلمانوں کی بے توقیری اس شکست خوردہ احساس کا نتیجہ کہی جا سکتی ہے۔ صدیوں اس ملک پر حکومت کرنے والی قوم ایک نظری اور فکری تاریکی میں مبتلا ہے۔ فطرت بھی کیا عجیب شے ہے۔ یہ کہہ کر آپا عالم استغراق میں چلی گئیں۔ اور میں سوچنے لگا تاریخ و تہذیب کے متعلق آپا کا یہ کمٹمنٹ ہی تو ہے جس نے آپا کو پوری ادبی دنیا میں ایک انفراد بخشا ہے۔ لوگ اس کے پیچھے ان کے اصل عزائم کا ادراک نہیں کر سکے اور احیائے تہذیب کی ان کی کوششوں کو ماضی کا مرثیہ قرار دے کر ان کے قد کو کم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس سے ان کی شبیہ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا بلکہ ماضی کی تاریخ پر ان کی گہری نظر اور ان کی مدبرانہ اور مفکرانہ بصیرت نے ذہنی خلل کے شکار لوگوں کو اپنا ذہنی توازن درست کرنے پر ضرور آمادہ کیا۔ ابھی میں انہی خیالات میں مستغرق تھا کہ آپا نے پھر پوچھ ہی دیا کہ بھئی ان دس سالوں میں آپ نے آخر کیا کیا۔
آپا کے سوال پر میرے تخیل کا تانا بانا بکھر گیا اور میں پھر ان کی جانب بغور دیکھتے ہوئے بولا۔ آپا کام تو بہت سارے ہوئے اور آپ پر اس دل ناتواں نے خوب خوب کام کیا۔ کاموں کی تفصیل آپ کو بتاتا ہوں۔ آپا بہت اچھا کہہ کر میری جانب دیکھنے لگیں۔ اور آپا کے اشتیاق کو دیکھ کر میں یہ سوچنے لگا کہ گفتگو کی شروعات کہاں سے کروں۔ لیکن آپا کلیات کے بارے میں جاننے کے لیے زیادہ بے قرار تھیں لہٰذا میں نے مناسب یہی سمجھا کہ پہلے کلیات کی تفصیلات سے ہی آپا کو باخبر کر دیا جائے تاکہ ان کی بے قراری کو تھوڑا قرار آئے۔ پھر ان پر جاری اپنے دوسرے کاموں کے بارے میں بتلائوں گا۔ میں گویا ہوا آپا کئی سالوں تک تو آپ کے بچھڑنے کا غم اور مطلبی دنیا کی عیاریوں میں مبتلا رہا۔ پھر آپ کے چھوڑے ہوئے نامکمل ادبی سرمایے جو آپ کی رشتہ داروں کی دسترس میں تھا اس کے حصول کے لیے مستقل کوششیں کرتا رہا لیکن آپ کی بھانجی نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی لیکن وہ دونوں صندوق جس میں آپ کی یہ تمام چیزیں بند تھیں اور جسے ایک بار آپ نے مجھے دکھلایا بھی تھا، میرے سپرد کرنے میں ٹال مٹول سے ہی کام لیا۔ ان کے دنیا سے گزرنے کے بعد ان کے شوہر سے بھی مستقل رابطے میں رہا اور وہ بھی مخلص ثابت نہیں ہوئے۔ آخر ٹالتے ٹالتے وہ بھی ٹل گئے۔ اب تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ نواسے سانپ بن کر ان صندوقوں پر بیٹھے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ میں نے بارہا فون کیا لیکن کبھی کوئی مثبت جواب نہیں دیا بلکہ اپنے والدین کی طرح ان کا رویہ بھی نہایت افسوس ناک ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ ان لوگوں کو آپ کی ادبی وراثت سے کوئی دلچسپی ہے۔ ہاں مالی منفعت کی خاطر نیشنل ہیریٹج کی حامل آپ کی دانش گاہ حیات (مکان) جس کا کونہ کونہ میراث ادب کی یادگار کے طور پر ہزاروں برس روشن رہتا اسے بے نام و نمود کر کے ان لوگوں نے آپ کی روح کو جو اذیت پہنچائی اس کا اندازہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ان لوگوں نے تو اپنی خود غرضی میں آپ کی یادگار ہی مٹا دی۔ اب ادبی وراثت کو مٹانے کے درپے ہیں۔ آپا انتہائی پریشانی اور کرب کے ساتھ میری باتوں کو غور سے سنتی رہیں بلکہ تاسف کا اظہار کرتے ہوئے نہایت دکھے دل کے ساتھ بولیں آپ ہی سے امیدیں ہیں آپ کچھ کیجیے۔ آپ کے علاوہ کوئی اور ان بکھرے اوراق کو ترتیب و تنظیم سے سنوار بھی نہیں پائے گا۔ میں ان کی بے قرار روح کو دیکھ کر گویا ہوا، آپا آپ پریشان نہ ہوں۔ میں کوشش پیہم کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ دیر سے ہی سہی کامیابی کی امید پوری ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ آپا مطمئن ہوتے ہوئے گویا ہوئیں، ویسے تمھاری لگن کی تو میں قائل ہوں۔ تم جس کام کا ارادہ کر لیتے ہو اسے پورا کر کے ہی چھوڑتے ہو۔ تمھارا کمٹمنٹ آف ورک کیا کہنا۔ آپا اس انتظار میں کلیات کے کام میں خاصی تاخیر ہوئی۔ جب کئی سالوں کی محنت و جانفشانی کے بعد ان کے رویے سے مایوسی ہوئی تو پھر میں نے کلیات کی بقیہ جلدوں پر کام کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ بے حد بکھرا ہوا معاملہ تھا لہٰذا اس میں کافی محنت بھی لگی اور وقت بھی اچھا خاصا صرف ہوا۔ لیکن میں صبر و تحمل سے لگا رہا اور ایک ایک چیز کی چھان بین کرتا رہا۔ تقویمی ترتیب کا جو طریقہ میں نے پہلی چار جلدوں میں برتا تھا وہی طریق کار میں نے ان جلدوں میں برقرار رکھا۔ اس طرح ان دس سالوں کی محنت شاقہ کے بعد کل سات جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر آپ کے معتقدین کے ساتھ ساتھ ادب کے عام قاری جنھیں آپ کی تحریریں دل و جان سے پسند ہیں۔ ان کے ادبی ذوق کی تسکین کر رہی ہیں۔ واہ بہت خوب۔ آپا بے ساختہ بول پڑیں۔ متجسس نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں، آخر ان سات جلدوں میں ایسی کون سی سوغات میرے چاہنے والوں کو آپ نے دی ہے۔ آپا پہلی دو جلدوں یعنی پانچ اور چھ میں تو آپ کے رپورتاژ ہیں۔ سات، آٹھ میں مضامین ہیں۔ نو میں خاکے ہیں۔ دس اور گیارہ میں آپ کی ادبی گفتگو یعنی انٹرویوز ہیں۔ سبحان اللہ۔۔۔ بھئی آپ نے تو کمال کر دیا۔ میں تو سن کر حیران ہو رہی ہوں۔ آپ کی ہمت کی داد دیتی ہوں۔ نہ جانے آپ نے کہاں کہاں سے کھود کھاد کر یہ سب چیزیں جمع کی ہوں گی اور پھر اس سلیقے سے کہ ہر موضوع پر الگ جلد۔ میں تو سوچ سوچ کر حیران ہو رہی ہوں۔ آپا یہ تو وہ چیزیں ہیں جو تھوڑی سی جستجو کے بعد مجھے حاصل ہو گئیں۔ ابھی تو آپ کی آدھی سے زیادہ تحریریں منتشر ہیں جن کو جمع کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ جس کے لیے ایک خطیر رقم کے ساتھ ساتھ تحقیقی جانفشانی کی بھی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ وقت طلب اور دقت طلب بھی ہے۔ پاکستان، امریکہ، انگلینڈ کے ساتھ ہندوستان کی اہم لائبریریوں میں مواد کی چھان بین باضابطہ مہم کے طور پر کرنی پڑے گی تب جا کر آپ کے تمام ادبی اور صحافتی سرمایے اردو اور انگریزی دونوں میں جمع ہو سکیں گے۔ آپا میری بات غور سے سن رہی تھیں۔ پھر گویا ہوئیں، آخر اس کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا، کون دے گا۔ یہی سوال تو مجھے بھی پریشان کیے ہوا ہے۔ میں نے کہا۔ میں نے اپنی بساط بھر اداروں اور افراد تک سے گزارش کر کے دیکھ لیا لیکن کوئی مثبت نتیجہ ان دس سالوں میں اب تک میرے سامنے نہیں آ سکا۔ تب ہی کسی قدر ناامید ہو کر میں نے اپنی ذات واحد کی بدولت جو کچھ جمع کر سکا اس کو منظر عام پر لانا مناسب سمجھا تاکہ اور لوگوں کو بھی حوصلہ مل سکے۔ اور کوئی ہم سا ہی عاشق عینی پیدا ہو سکے اور بقیہ بکھری ہوئی وراثت کو یکجا کر کے اس پول میں ڈال سکے۔ اس طرح میرے مقصد کومنزل مل جائے گی۔ یہی سوچ کر میں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہو، آپا بول پڑیں۔ آپ کی قوت خود اعتمادی کی میں داد دیتی ہوں۔ ہمیشہ پرخطر راہوں میں قدم ڈال کر آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جذبے صادق ہوں، لگن میں پختگی ہو، عزم و حوصلے کی بدولت منزل مل ہی جاتی ہے۔ خدا آپ کے اس جذبے کو برقرار رکھے۔ آپا یہ صرف کلیات کی بات ہے۔ میری ادبی فتوحات صرف آپ کے تعلق سے بڑی کامیابیوں سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ وہ کیسے؟ دو بین الاقوامی اداروں سے بھی اس خاکسار کو پذیرائی ملی ہے۔ پہلا ادارہ جہاں سے کتابوں کی اشاعت باعث افتخار و اعزاز سمجھی جاتی ہے اس حقیر فقیر کی کتابیں بھی وہاں سے شائع ہوئی ہیں۔ آپا متوحش نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں اور میرے بے قابو جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کرتے ہوئے بولیں، بھئی مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ تمھیں تمھاری محنتوں کا صلہ خدا نے اس بلندی سے عطا کیا جو ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ آخر یہ بین الاقوامی ادارے کون کون سے ہیں۔ آپا آپ بھی یہ جان کر بے حد خوش ہوں گی۔ پہلا ادارہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی ہے۔ آکسفورڈ کا نام سنتے ہی آپا اچھل پڑیں۔ اور بولیں واقعی یہ تو بڑا اعزاز ہے۔ اور اس پر آپ کی خوشی بجا ہے۔ آپا اس ادارے نے ’اندازِ بیاں اور‘ جو میری اور آپ کی گفتگو پر مبنی ہے، اس کتاب کو 2014 میں شائع کیا۔ اور اس پر طرہ یہ کہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ‘A Singular Voice’ کے نام سے شائع کیا۔ یہ کتاب 2017 میں منظر عام پر آئی اور محض چند ماہ میں 2017 میں پہلا ایڈیشن ختم بھی ہو گیا۔ یہ سنتے ہی آپا کلکاریاں بھرنے لگیں، بلکہ مجھ سے زیادہ خوشی انھیں ہو رہی تھی۔ ہوتی بھی کیوں نہیں، عالمی سطح پر ان کو پذیرائی جو مل رہی تھی۔ بھئی واہ یہ تو کمال ہی ہو گیا۔ واقعی اسے فتوحات ہی کہیں گے۔ آپ کی محنت و لگن اور علمی ارتکاز کی بدولت یہ سب ممکن ہو سکا ہے۔ وہ بھی کسی وسیلے کے بغیر اپنی ذاتی کوششوں سے آپ نے وہ کر دکھایا جو اس دور کے بڑے بڑے مہارتی بھی نہ کر سکے۔ مجھے زیادہ خوشی اسی بات کی ہو رہی کہ ایک انسان بغیر کسی سہارے کے صرف علمی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب ہوا۔ دراصل علم ہی اصل چیز ہے، توقیر اسی سے ملتی ہے۔ خدا نے آپ کی صلاحیتوں کی بدولت آپ کو وہ مرتبہ بخشا۔
آپا دوسرا ادارہ ’سنگ میل‘ ہے جس نے آپ کی کلیات کا پاکستانی ایڈیشن بڑے تزک و اہتمام سے شائع کیا ہے۔ بہت خوب، یہ سب سن کر میری روح سرشار ہو رہی ہے۔ اور میرے اس اعتماد کو مزید قوت مل رہی ہے جو میں نے اپنے کام کے سلسلے میں آپ پر قائم کر رکھا ہے۔ خدا آپ کو صحت دے اور صحت کے ساتھ سلامت بھی رکھے تاکہ آپ علمی و ادبی افق کی تابانی کو اپنے کارنامۂ صد ہزار رنگ سے جگمگائے رکھیں۔ آمین۔ لیکن آپا یہ تو راہ پرخطر ہے۔ اس میں تو انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا۔ ادبی مزدوری کی میزان میں محقق کے حصے میں مالی منفعت تو دور کی بات صرف صفر ہی ملتے ہیں اس کے باوجود یہ ہم لوگوں کا جگر ہے کہ اپنے خون دل سے اس چراغ کی لو کو جلائے رکھتے ہیں بجھنے نہیں دیتے۔ افسردگی کے ساتھ آپا بولیں ہاں یہ بات تو ہے۔ ادارے نام و نمود اور شہرت کمانے میں اتنے مصروف ہیں کہ تحقیق جیسے جاں گسل کام کے لیے ان کے پاس فنڈ ہی نہیں۔ بھلا تحقیق کیسے زندہ رہے گی۔ یہ فکر مندی بھی بجا ہے میں نے عرض کیا۔ اور آپا سوچ میں گم ہو گئیں۔۔۔ اور میں بھی۔۔۔ پھر معاً مجھے خیال آیا کہ آپا کی افسردگی کو ایک نئی خوشی میں تبدیل کر دیا جائے۔ میں نے آپا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، معلوم ہے آپا میں نے کلیات کی تدوین کے ساتھ ساتھ آپ پر ایک کتابچہ (مونوگراف)بھی لکھا ہے۔ یہ کتاب ہندوستانی ادب کے معماروں کی سیریز کے تحت لکھنے کے لیے ہندوستان کے باوقار ادبی و ثقافتی ادارہ ساہتیہ اکادمی نے تفویض کیا تھا۔ آپ پر ایک مختصر کتابچہ لکھنا کوئی سہل کام نہیں تھا۔ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر تھا۔ بہر حال اس خاکسار نے یہ کام پوری جانفشانی سے کیا اور الحمدللہ آپ کے شایان شان کتاب تیار ہوئی۔ اردو حلقوں میں اس کی کافی پذیرائی ہو رہی ہے۔ آکسفورڈ نے بھی اس کتاب کو مزید کچھ اضافے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ہے نا خوشی کی بات۔ ہندوستان میں ساہتیہ اکادمی اور اُدھر آکسفورڈ، دونوں ادارے قابل صد افتخار ہیں اور مجھے یہ اعزاز آپ کی بدولت ہی حاصل ہو سکا ہے۔ یہ تو آپ کی خاکساری اور ذرہ نوازی ہے۔ ورنہ ان اداروں سے کتاب کی اشاعت بین الاقوامی سطح پر ادیب کی شناخت کو استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ اس کی معتبریت کو قائم کرتا ہے۔ آپ کی جملہ علمی صلاحیت نے آپ کو یہ مقام اور اعزاز بخشا ہے۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ جس طرح یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ آپ کے ادبی کارنامے افق ادب پر نمودار ہو رہے ہیں وہ آپ کی ادبی کاوشوں کی گواہ خود ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آپا آپ کی حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ جاتے جاتے ایک خوشخبری اور دیتا جائوں کہ سلسلہ یہیں پر تھما نہیں ہے۔ آپ پر کئی کتابیں زیر منصوبہ ہیں۔ دس جلدوں میں ایک انسائیکلوپیڈیا بھی ’قرۃالعین حیدر کی کائنات فن‘ کے نام سے تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔ آپا بھونچکاں بنی میری طرف دیکھے جا رہی تھیں۔ پھر بول پڑیں، میاں تم انسان ہو یا جنّ، بھلا کوئی انسان بھی اس برق رفتاری کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ تم نے تو نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔ اب ذرا یہ بھی بتا دیں کہ اس انسائیکلوپیڈیا کی تہہ سے کیا اچھلنے والا ہے:
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے
آپا آپ کہتی تھیں نا کہ نقادوں نے خاتون لکھنے والیوں کو اِگنور کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل اس بات کی تردید کرے گی اور اس کا جواب پیش کرے گی۔ پھر آپ کو اندازہ ہوگا میل شونزم کی آپ کی شکایت درست تھی یا نامناسب، پھر آپ کی اس بات کا بھی جواب ملے گا کہ نقادوں نے فکشن کو سراسر نظرانداز کیا ہے۔ یا بیش تر نقادوں میں فکشن کی سمجھ نہیں، آپا میں حیران ہوں دل کو پیٹوں یا جگر کو میں۔۔۔ آپ پر اب تک صرف اردو میں چھے سو سے زائد مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ انگریزی اور ہندی میں الگ۔ جو کسی بھی فکشن رائٹر پر اب تک لکھے گئے مضامین سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ لوگوں کی صدیاں منائی گئیں مگر اس تعداد سے وہ لوگ محروم رہے۔ پھر آپ کا شکوہ۔۔۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ ناقدین آپ پر لکھنا اپنے لیے اعزاز مانتے ہیں۔ یہ سلسلہ آپ کے ابتدائی دنوں سے ہی جاری ہے۔ آپ کے لیے یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ اولین افسانوی مجموعہ اور اولین ناول کی اشاعت کے ساتھ ساتھ تنقید بھی مساوی طور پر اپنا فریضہ انجام دیتی رہی اور اردو کے تقریباً تمام اہم ناقدوں نے آپ کی تحریروں کا جائزہ لیا ہے۔ اور اس وقت جائزہ لیا جب آپ کی تحریریں لوگوں کی سمجھ سے بالا تھیں۔ اس لیے کہ آپ کی آواز میں نہ تو اپنے کسی پیش رو کی گونج شامل تھی، نہ اپنے دور کے رائج الوقت رویوں کی۔ یہ آپ کا اپنی روایت سے بغاوت نہ تھی بلکہ ایک تخلیقی اجتہاد تھا۔ اس اجتہاد کو اساس فراہم کرنے والے عناصر اردو فکشن کی عام روایت سے قطع نظر، آپ کے مغرب آگاہ معاصرین کے لیے بھی اجنبی تھے۔ بقول لارش، چونکہ اجنبی خیالات کو قبولیت ذرا مشکل سے ملتی ہے، اس لیے آپ کو بھی یہ کہہ کر سرے سے رد کرنے کی کوششیں ہوئیں کہ آپ کے خیالات و تجزیات مغرب زدہ ہیں۔ خاص طور پر آپ کی انگریزی آمیز زبان پر بہت سوال اٹھے تھے بلکہ لوگوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ افسانے کی شرح بھی چھپوا دو۔ یہ بات مذاق میں نہیں کہی تھی لوگوں نے بلکہ اس وقت کی سچائی تھی۔ بلکہ آپ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ آپ کا طرز احساس اور طرز اظہار ہی نہیں بلکہ آپ کے ذہن اور جذباتی سروکار بھی ہماری زندگی اور ہمارے زمانے کی سچائی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ آپ کی اولین کتابوں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘ اور ’میرے بھی صنم خانے‘ کی پذیرائی ان کتابوں کی اشاعت کے دور میں یوں کی گئی گویا یہ اظہارات کسی غیر متوقع اور بن بلائے مہمان کی آمد کے اعلانیے ہیں۔ ادب کی نامور ادیبہ نے تو آپ کی اس ادا پر آپ پر مضمون لکھتے ہوئے آپ کو پوم پوم ڈارلنگ کے خطاب سے نوازا تھا اور یکسانیت مضمون کی وجہ سے کہا تھا کہ ایک ہی لکیر کو کب تک پیٹتی رہو گی۔ آپ نے اسی لکیر کو پیٹ پیٹ کر اتنا نکھارا کہ موضوع میں تنوع پیدا ہو گیا۔ پھر لوگ آفریں آفریں کرنے لگے۔ ترقی پسند اور جدیدیوں کے بارے میں آپ کا شکوہ بجا ہے کہ ان کے تمام اہم رائٹر نے آپ کو اگنور کیا لیکن پس از مرگ ترقی پسندوں اور جدیدیوں کے اماموں نے اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کی اور قمر رئیس سمیت کئی ترقی پسندوں نے نوحہ و ماتم کے بعد آپ کی ادبی حیثیت کو مکمل طور پر تسلیم کیا ہے۔ اور بورژوائیت کا لیبل اب آپ سے ہٹا دیا گیا۔ میری نشاندہی پر اب ان افسانوں اور ناولٹوں پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سماج کے متوسط اور انتہائی پسماندہ طبقے کے مسائل اور ان کی حالت زار پر آپ کی فکرمندی کی لوگ قدر کرنے لگے ہیں۔ آپا یہ انسائیکلو پیڈیا مختلف نظریات، طبقے اور تحریکوں اور نظریات سے وابستہ ناقدین کی مختلف آرا کو ایک گلدستہ کی شکل میں قارئین کو فراہم کرایا گیا ہے تاکہ اس زینت چمن سے آپ کی شخصیت، اور آپ کے فکر و خیال کی قوس قزح سے نئی نسل واقف ہو سکے اور آپ کو جس ادبی ناانصافی اور ناقدری کا شکوہ رہا ہے اس کا ازالہ نئی نسل کے ہونہار ناقدین جن کے ہاتھوں میں ادب کی باگ ڈور ہے وہ تمام تعصب سے بالاتر ہو کر آپ کی تخلیقات کا تجزیہ اپنی دانشمندانہ فکر اور مدبرانہ فہم کی بدولت نئے سرے سے کر کے آپ کے ادبی وقار میں اضافہ کر سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو میری یہ کوشش کامیابی سے ہم کنار ہوگی اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ بھئی آپ کے حوصلے کی بھی داد دینی پڑے گی۔ یہاں تو پل بھر کی خبر نہیں اور آپ ہیں کہ طویل مدتی منصوبہ بنا کر اس قدر وقیع و وسیع کام کر رہے ہیں جس کے بارے میں سوچ کر ہی کتنوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ مجھے کسی شاعر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو اس وقت آپ پر بالکل صادق آتا ہے:
تیرا اخلاق دیتا ہے پتہ تیری بلندی کا
تیرا یہ جھک کے ملنا کہہ رہا ہے آسماں تو ہے
میں تو بس اتنی دعا دے سکتی ہوں کہ خدا آپ کے حوصلے کو برقرار رکھے اور آپ کے یقین کی پراعتمادی کو قائم و دائم رکھے۔ آپ کی مجھ سے اس قدر محبت کہ اس کے لیے شکریے کے الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ میری ادبی وراثت کے امین بن کر جس طرح آپ یہ سب کام کر رہے ہیں میں اب پورے طور پر مطمئن ہوں کہ میری ادبی وراثت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپا میری کوشش تو یہی ہے۔ باقی اللہ کی فتح و نصرت پر یقین کامل ہے۔ انشاء اللہ وہ اس بیڑے کو ضرور پار لگائے۔ یقینا۔ اگر نہ ہو یہ امید پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا۔ خدا آپ کی مدد کرے، آپا نے دعا سے نوازا۔ اور گفتگو کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم ہو گیا۔ آپا میری نظروں سے یک بیک غائب ہو گئیں۔ یا میں لاشعور سے شعور کی حالت میں واپس آ گیا۔
عینی آپا سے وابستہ اتنے قصے اور اتنی یادیں ہیں کہ انھیں ایک مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ان پر آئندہ بھی لکھنا جاری رہے گا۔ ان پر کئی کتابیں بھی زیر ترتیب ہیں اور کلیات کو بھی مکمل کرنا ہے۔
ان کی تمام تحریروں کو محفوظ کرنا ہی ان کو صحیح خراج عقیدت پیش کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ تہذیب اور تاریخ کا جتنا مبسوط اور ہمہ گیر ادراک ہمیں قرۃ العین حیدر کے یہاں ملتا ہے اس کی کوئی مثال اردو فکشن میں نظر نہیں آتی۔