Bayania ka Jadogar Anwar Khan by Qamar Siddiqui

Articles

بیانیہ کا جادوگر انور خان

ڈاکٹرقمر صدیقی

 

ممبئی کے افسانہ نگاروں کا مجموعی رویہ جدیدیت سے ہم آہنگی کے ساتھ حقیقت پسندانہ اسلوب سے رغبت کا رہا ہے۔ انور خان ان میں سب سے نمایاں ہیں۔ان کا افسانہ ’’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ ، ’فنکاری‘، ’ کتاب دار کا خواب‘ ، ’یاد بسیرے‘ اور ’فرار‘ جیسے افسانے ان کے شاندار تخلیقی سفر کا اشاریہ ہیں۔ انور خان کے افسانوں کا بنیادی رویہ علامتی ہے اور ابہام کا خلاقانہ استعمال افسانوں کی معنوی تہوں کو مجلا کرتا ہے۔ وارث علوی نے انور خان کی اس فنّی خاصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
’’انور خان کے تمثیلی افسانوں میں ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ اور ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘ نہایت کامیاب افسانے ہیں۔ بوڑھا خدا کی علامت بھی ہوسکتا ہے، اخلاقی روایت کی بھی، ضمیر کی بھی، بہرحال اس کے ابہام میں اس کی آرکی ٹائپل حسن اور معنویت ہے۔ ‘‘ (’تین مضمون نگار‘ مشمولہ ’’جواز‘‘ مالیگائوں، شمارہ ۱۷ ص:۸۹)
بلاشبہ ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ ایک شاہکار افسانہ ہے۔ اس افسانے میں ابتدا سے لے کر اختتام تک انور خان معاشرتی برائیوں کی پرتیں کھولتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے کہانی کے اختتام میں انورخان نے گویا کہانی میں جان ڈال دی ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’وائرلیس گاڑیاں شب و روز دوڑ رہی ہیں۔ طیارے فضا میں منڈلا رہے ہیں۔ ساحل پر بحری افواج چوکس ہیں۔ صنعت کار ہراساں ہیں۔ انڈر ورلڈ کے سلاطین پریشان اور بوڑھے کے نقش پا شہر کے چپے چپے پر بکھرے ہوئے۔ وہ شہر میں بے خطر گھوم رہا ہے۔ کبھی ایسا سننے میں آتا ہے کہ بوڑھا گرفتار ہوگیا ہے۔ کوئی کہتا ہے وہ پھر سیٹھ دیوان چند کے ڈرائنگ روم میں لگے فریم میں لوٹ گیا ہے لیکن لوگ یقین نہیں کرتے جب تک آسمان نیلا ہے، گھاس ہری اور چائے ذائقہ دار۔‘‘ (مشمولہ مجموعہ’ راستے اور کھڑکیاں‘ ص: ۱۰۲)
انور خان کے تین افسانوی مجموعے ’راستے اور کھڑکیاں‘ ، ’فنکاری‘ اور ’یاد بسیرے‘ شائع ہوئے ۔ا ن مجموعوں کی بیشتر سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو پر مشتمل ہے۔ یہ افسانے ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کے فریم سے باہر کردیے گئے انسان اور انسانی قدروں کا بیانیہ ہیں۔ ان افسانوں میں ممبئی کا ماحول، یہاں کی زندگی، یہاں کے لوگوں کے طور طریقے اور مزاج و عادات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ فلم ، ٹی وی اور دیگر تفریحی و تشہیری ذرائع کی مدد سے ممبئی کا جونقشہ مرتب ہوتا ہے وہ خاصا محدود ہے۔ چاندنی بکھیرتے چاند چہروں سے منور جگ مگ کرتا یہ شہر دراصل شہر نہیں شہر کے وہ امیجیز ہیںجنھیں فلم اور ٹی وی اسکرین کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اصل شہر تو انور خان کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ افسانہ ’شام رنگ‘ میں انسانوں کی بھیڑ چیونٹیوں کی قطار کی طرح گلیوں اور سڑکوں پر وقت اور ضرورت کے مردہ جھینگر کو سوت سوت سرکاتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’صدائوں سے بنا آدمی‘ میں انور خان زندگی کی تمام تر سفاکیوں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کرکے بتاتے ہیں کہ جو آدمی ایک دن میں کروڑپتی بنتا ہے وہ ایک ہی دن میں فقیر بھی بن سکتا ہے۔ افسانے کی یہ سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’کھلونے کی مانند خوبصورت بنگلہ اسے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
____بنگلہ کمروں میں منقسم ہے۔ کمروں میں ٹیلی فون براجمان ہیں۔ گھنٹیاں اعداد و شمار اگلتی ہیں۔ اعداد و شمار نے بینک کی پاس بُک بنائی۔ بینک کی پاس بُک نے بنایا سیمنٹ کا نکریٹ کی اونچی عمارتوں کا جنگل جو ہونٹوں پر پتھریلی چپ لیے بنگلے کے عقب سے تک رہا ہے۔
____ اس کے قدم غلط پڑگئے۔
____وہ بے دھیانی میں یہ حرکت کر بیٹھا۔
____وہ ہمیشہ سے سڑک پر ہے۔
جینتی لال نہیں۔ وہ صرف ٹیلی فون کی گھنٹیوں کی زبان سمجھتا ہے۔ ‘‘
(مشمولہ مجموعہ’ راستے اور کھڑکیاں‘ ص: ۴۲)
انور خان کا افسانہ ’’فنکاری ‘‘جسے باقر مہدی نے Circularکہانی قراردیا ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ یہیCircularity اس کہانی کا حسن ہے۔۔۔۔۔ہر بار ہوٹل والا شیٹی ،چائے کے داموں میں اضافہ کردیتا ہے۔ہربار ہوٹل کے گاہکوں میں برہمی پیدا ہوتی ہے اور ہر بار تھوڑی جدوجہد اور احتجاج کے بعد سب شانت ہوجاتا ہے۔یہ کسی ایک شہر ،ایک قصبہ یا ایک ملک کی بات نہیں ہے بلکہ پوری تیسری دنیا کا منظر نامہ ہے ۔باقر صاحب نے اس کہانی پر گفتگو کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ یہ ہندی فلموں کا خاص موضوع رہا ہے لہٰذا فلمی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ کیا زندگی کی بھی اپنی Locationنہیں ہوتی؟جس کی مناسبت سے ہمارے واسطے اور وسیلے ،رہائش کے طور طریقے ،رہن سہن کے آداب،وقت گزاری کے مشاغل ،دیگر دلچسپیاں اور مواقعے ،ساتھ بیٹھنے والے حلقۂ احباب اور نہ جانے کون کون سی چیزوں کے دائرہ کار کا انتخاب اور تعین ہوتا ہے۔افسانہ ’فنکاری‘ احتجاج کا افسانہ ہے اور اس کا کردار استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کی لذت بغاوت کی آب کو ماند کردیتی ہے۔ افسانہ نگار یہ بتانے میں کامیاب ہے کہ احتجاج کس طرح نمائش کی چیز بن جاتا ہے۔ صارفیت اور اشتہاریت کس درجہ سماج پر اثر انداز ہورہے ہیں اور ہمارے آج کے میڈیا اساس سماج میں احتجاج اور بغاوت کو کس طرح نمائشی بلکہ سازشی بنادیا گیا ہے یہ کہانی اس کی ترجمان ہے۔
انور خان نے اپنے افسانوں میں بیانیہ کے مختلف طریقوں کو کامیابی سے برتا ہے۔ شروعات کے افسانوں میں بیانیہ کا Diegtic انداز حاوی ہے اور یہی انداز انور خان کی شناخت بھی بنا مثلاً’ کوئوں سے ڈھکا آسمان‘میں واقعہ نگاری کا اسلوب ہی افسانے کی روح ہے۔ پورے افسانے میں آواز ہی آوازہے،اپنے پورے وجود کے ساتھ ۔یخ بستہ رات،پہلاآدمی ،دوسرا آدمی، تیسرا اور چوتھاآدمی ،گلابی صبح ،ہنستا بچہ،شرماتی لڑکی، پھونس کا مکان،مٹھی بھر چاول،مچھلی کا شوربہ، روئی کی دلائی،کوّوں سے ڈھکا آسمان اور کہانی کے آخر میں کارپوریشن کی گاڑی ،سڑک کا موڑ، شدید سردی کے باعث برہنہ اکڑے ہوئے چند جسم، ان کا گاڑی میں لادے جانا اور گاڑی کا چل دینا۔۔۔۔۔۔یعنی کہانی اندر کہانی ۔انور خان ایسے ہی قصہ گو تھے۔لوگ زمان ومکان سے بے پرواہ منہ کھولے بس سنتے جائیں،گویا کسی نئی دنیا کا سیاح کوئی اجنبی واقعات بیان کررہا ہو!!حالانکہ ان کی کہانیوں کا ہر لفظ اپنے اطراف اوراپنے ماحول کا عکاس ہے۔انور خان کے یہاں بیانیہ کا Mimeticاسلوب جس میں کہانی پر ڈرامائیت غالب ہوتی ہے بھی ملتا ہے ۔اس نوع کے افسانوں میں ’شام رنگ‘، صدائوں سے بنا آدمی‘، ’ لمحوں کی موت‘ ، ’بول بچن‘ اور کسی حد تک ’فنکاری ‘ کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ افسانہ ’’ برف باری‘‘ بیانیہ کے Interal Monologueاسلوب کا عکاس ہے۔ تقریباً آدھا افسانہ راست بیانیہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے باقی آدھا افسانہ داخلی خود کلامی یعنی Interal Monologueکے اسلوب میں۔ ایک ہی افسانے میں دو تکنیکوں کا ادغام افسانے کی ترتیب و ترسیل دونوں کے لیے چیلنچ ہوتا ہے۔ یہاں فن پر اپنی دسترس کی وجہ سے انور خان اس رہِ حاجر و حاجز پر سبک روی سے گزر گئے ہیں۔
ادب کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق تحریروں کا مطالعہ انور خان کا پسندیدہ مشغلہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا تخلیقی کینوس بھی خاصا وسیع ہے۔ روز مرہ کی زندگی ، جبر و استحصال ، ہماری ظاہری وباطنی دنیا ، انور خان کے افسانوں کی یہی رنگا رنگی انھیں معاصر افسانہ میں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔ ان تمام رنگوں میں ایک رنگ صوفیانہ افکار و خیالات کا بھی ہے۔ تلاشِ حق کی یہ جستجو ، یہ تڑپ انور خان کے مزاج کا حصہ تھی۔اپنے پہلے مجموعے کی اشاعت سے تقریباً سات آٹھ سال قبل انھوں نے انورقمر کے نام ایک خط میں تحریر کیا تھا کہ :
’’ میںجاننا چاہتا تھا، دنیا میںیہ اونچ نیچ کیوںہے؟ نیکی کیا ہے؟ بدی کیا ہے؟ نیکی کیوںکی جائے؟ بدی کیوں نہ کی جائے؟ اس دنیا میںمیری حقیقت کیا ہے؟ خود اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ میںکیا کرسکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میںکیا کروں؟ ‘‘(مشمولہ ششماہی ’’اردو نامہ‘‘مدیر: پروفیسر صاحب علی ،مضمون’ انور خان کی فنکاری‘ از: ڈاکٹر جمال رضوی، شمارہ:۷ بابت نومبر ۲۰۱۶ ص: ۲۷۸)
تلاش و جستجو کے اس جذبے نے انورخان سے تصوف کے موضوع پر بھی افسانے لکھوائے۔ اس ضمن میں افسانہ ’’چھاپ تلک‘‘ بہت اہم ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے تصوف کی ظاہری علامات مثلاً درگاہ، پیر و مرشد، محفلِ سماع وغیرہ کے مناظر پیش کرتے ہوئے تصوف کی تعلیمات کا مثبت پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح افسانہ ’بلاوہ‘ میں انھوں نے فنا و بقا کے مسئلے کے علاوہ مابعد الطبیعاتی حقیقتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کا ایک مشاہدہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرا چھا گیا جیسے سورج بدلی میں گھر گیا ہو۔ اْس نے دیکھا وہ ایک بہت بڑے سوراخ کے دہانے پر کھڑا ہے اور تمام چیزیں اْس سوراخ میںکھینچتی چلی جارہی ہیں۔ہرے بھرے درخت ، فضا میں اْڑتے پرندے ، مکانات ، بجلی کے قمقمے ، موٹریں ، گاڑیاں ، ڈاک کا ڈبہ ، خوش پوش راہگیر ، سڑک پر کھیلتے بچے ، سبک اندام حسینائیں، بازار ، رکشائیں ، سب ہی اپنی ملی جلی آوازوں سمیت جذب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔ سوراخ سے مسلسل ایک ڈرائونی سی کھوں کھوں کی آواز آرہی تھی۔ ‘‘
تصوف کی بنیاد بشمول زندگی ، کائنات کے دیگر مظاہر کو التباس (Simulacra) تسلیم کرلیے جانے پر قائم ہے۔ انور خان نے یہاں کمالِ فن سے مختلف تہذیبوں میں رائج فنا کے بیانیوں کی تشکیلِ نو کی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو یہ افسانہ بین المطونیت کی بھی ایک عمدل مثال بن جاتا ہے۔ اس نہج کے دیگر افسانوں میں ’بھیڑیں‘ اور ’عرفان‘ وغیرہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ افسانہ ’کمپیوٹر‘ میں انور خان نے گوکہ وجود ، عدم ، خالقِ کائنات جیسے صوفیانہ/بھکتی افکار کو ہی موضوع بنایا ہے ۔لیکن اس افسانے کی خاصیت یہ ہے کہ ہماری روایتی بصیرتوں کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدیہ خصوصاً سائنسی بصیرتوں کی آمیزش اور انسان اور مشین کے ربط سے پیدا ہونے والی کارکردگی کو اجاگر کرکے ایک نئی منطق کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ سائنس فکشن نہیں بلکہ یہ جدید دنیا کی نئی بوطیقا ہے جس میں مشین کے ذریعے قادرِ مطلق تک رسائی کو درشانے کی سعی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر افسانے کا یہ حصہ پیش کیا جارہا ہے:
’’وہ دھیان کے آسن میں بیٹھ گیا اور اْسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ دھیان میں چلا گیا۔ اُس نے دیکھا اُس کے گرو دروازے پر کھڑے اْسے بلا رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے اْٹھا اور ایک بے جان معمول کی طرح گرو کے ساتھ چل پڑا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر تک چلتے رہے کم از کم رمیش کو یہی محسوس ہوا جیسے وہ صدیوں سے چل رہا ہو ، یہاں تک کہ اُس نے دیکھا کہ وہ بالکل دھرتی کے سرے پر آگئے ہیں۔ اُسے خوف محسوس ہوا مگر وینکٹ چلم ( گرو ) نے اُسے تسلّی آمیز نگاہوں سے دیکھا کہ گھبرائو مت ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ دوسرے ہی لمحے وہ خلا میں تھے۔ حسب معمول وہ سفید روشنیوں میں سے گزرے ، پھر زرد، گہری، نیلی، سبز اور ہلکی آسمانی روشنیوں سے گزرتے ، سرخ روشنیوں میں آگئے۔ آسمانی اور سرخ روشنیوں سے گزرنے کا رمیش کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ ان روشنیوں سے گزرتے ہوئے رمیش کو ایک ہیجان سا محسوس ہوا جو جلد ختم ہوگیا کیونکہ اب وہ ایک بے رنگ وادی سے گزررہے تھے۔ اس وادی میں قدم رکھتے ہی اُنھیں محسوس ہوا کہ اُن پر پھول برس رہے ہیں۔ سکون اور خوشبو کی لپٹو ں نے اُنھیں اپنے ہالے میں لے لیا ہے اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ اُس نے اپنے گرو کی طرف دیکھا۔گرو نے مسکراتے ہوئے اُسے اُفق پر دیکھنے کا اشارہ کیا۔ گرو کے حکم کی تعمیل میں رمیش نے اُفق کی طرف دیکھا۔ گہری سیاہی مائل روشنی نے اچانک ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رمیش نے اس روشنی کو اپنے اندر اُترتامحسوس کیا اور اُس نے دیکھا کہ وہ اور اُس کا گرو اب مجسم روشن ہوچکے ہیں۔ اب وہ سرتاپا آنند تھے۔ بڑی دیر تک وہ یونہی کھڑے رہے یہاں تک کے گرو وینکٹ چلم نے اشارے سے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے اور اگلے ہی لمحے اْس نے خود کو روشنیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پایا۔ رمیش نے آنکھیں کھولیں۔ ہر چیز ویسی ہی تھی اور ابھی رات ہی تو تھی۔ جیسے اْس نے ایک جھپکی لی ہو۔‘‘
یہ اور اس قبیل کے دوسرے افسانوں کی ایک خصوصیت ان کا بیانیہ بھی ہے۔علاوہ ازیں افسانہ ’’کمپیوٹر‘‘ میں زبان کا خلاقانہ استعمال بیانیہ کو مزید جاذبیت عطا کرتا ہے۔ خاص طور سے مابعد الطبیعاتی بیان کے لیے اس کی مناسبت سے زبان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔انور خان نے حقیقت اور علامت کی باہمی آمیزش سے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے جو متنوع اور خیال انگیز ہے۔ انور خان نے بیانیہ میں منظری (Scenic)اور غیر منظری (Non Scenic) دونوں طریقوں کا استعمال کیا ملتاہے۔ کرداروں کے بجائے واقعات کو اہمیت دیتے ہوئے انھوں نے اپنے کئی کامیاب افسانے منظری (Scenic) اسلوب میں تحریر کیے۔مثلاً ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘، ’ صدائوں سے بنا آدمی، ’ شکستگی‘ اور’ سیاہ و سفید‘ وغیرہ ۔ زبان کا معروضی استعمال اور ڈسکورس کے دوران سوال قائم کرنے کا انداز انورخان کے بیانیہ کو پرکشش بناتا ہے۔ سوالات قائم کرنے کا یہ حوصلہ انور خان کی اصل طاقت ہے اور ان کے فنی رویے کی مخصوص پہچان بھی۔ان کے افسانوں میں استفہامی انداز کے علاوہ متن میں موجود صورتِ حال کے نتیجے میں بھی سوالات قائم ہوتے ہیں۔ یہ سوال اساس بیانیہ افسانوں میں معنی کی تکثیریت کو انگیز کرتا ہے۔ انور خان کے یہاں حقیقت نگاری، سادہ اور تاثراتی بیانیہ کے افسانوں کے علاوہ بیانیہ کے حوالے سے قدرے مشکل تمثیلی اور ایک سے زیادہ راویوں کی مدد سے بیانیہ تشکیل دینے کی تکنیکوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’ہوا‘‘ اس کی اچھی مثال ہے۔ تمثیلی بیانیہ میں زندگی کے داخلی و معنوی حقائق بیان کرتے ہوئے اس کے ابدی حقائق پر بھی توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔ تمثیلی قصے میں اخلاقی مضامین کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے مضامین شامل کیے جاسکتے ہیں۔ تمثیل ایک طرح سے استعارہ در استعارہ یا استعارہ بالتصریح سے قریب ترہے لہٰذا اسے فن کے لیے ایک کارگر وسیلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ افسانہ ’’ہوا‘‘ میں انور خان نے اسی وسیلے کے ذریعے بھیڑ یا اجتماع کی نفسیات کے منفی اثرات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
انور خان کے افسانوں میں تکنیک کے تجربات بھی ملتے ہیں۔ اس تعلق سے ان کے کئی افسانوں پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘ ان کا مقبول افسانہ ہے۔ اس میں انھوں نے کٹ اپ کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ کٹ اپ تکنیک میں پہلے جملے کے اختتام سے دوسرے جملے کو شروع کیا جاتا ہے۔ اس سے بیان میں شدت اور تاثر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر یہ چند سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’شہر کی بجلی فیل ہوگئی ہے۔‘‘ کہانی جمع کرنے والا ۔
’’بجلی فیل ہوگئی ہے۔‘‘ پہلا آدمی آگ میں گرتے گرتے بچا۔
’’بجلی فیل ہوگئی ہے۔دوسرا ہڑبڑایا۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ اب صبح نہیں ہوگی۔‘‘(مشمولہ ’راستے اور کھڑکیاں ‘ ،ص: ۱۱)
اس طرح کے کٹ اپ تکنیک کا استعمال افسانے میں کئی بار نظر آتا ہے۔ دراصل اس افسانے میں انورخان نے اس تکنیک کی مدد سے ماحول کے بوجھل پن کے تاثر کو مزید گہرا کردیا ہے۔افسانہ ’ کتاب دار کا خواب‘‘ میں منظر کو ساکن (Freeze Frame)کردینے والی تکنیک کا استعمال کیا گیاہے۔ افسانے میں کسی فلم کی طرح انور خان بہتیرے مناظر کو ہماری آنکھوں کے سامنے بالکل ساکن کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’کتاب دارکا خواب‘ میں دیکھیے:
’’______یکایک سارا شہر تھم گیا ہے۔
_______ آسمان گیند کی شکل میں سر پر ہے۔
_______ غنچہ پھول بنتے بنتے ادھ کھلا رہ گیا ہے۔
_______پرندے ہوا میں اڑتے اڑتے ساکت ہوگئے ہیں۔
_______نوزائیدہ بچہ جس نے ابھی ابھی آنکھ کھولی ہے ، ہاتھ پیر پٹخ کر روتے ہوئے ویسے ہی ٹھہر گیا ہے۔‘‘ (مشمولہ ’’فنکاری ‘‘ ، ص:۲۴)
افسانہ نگار نے اس افسانے میں آثارِ قدیمہ کے توسط سے ایک ایسا تجربہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں پورا منظر ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے اور قاری اپنے آپ کو کتاب دار کے ساتھ ہی ساکت محسوس کرنے لگتا ہے۔ تکنیک کے تجربے کے اعتبار سے دیگر افسانوں میں ہوا، برف باری، نرسری، اپنائیت ، گونج، بول بچن اور میونسپل پارک کا ذکر بھی ضروری ہے۔ خاص طور سے ’’میونسپل پارک‘‘اس میں تو ایک جہان دگر آباد ہے۔افسانہ ’بول بچن‘ کو موضوعی سطح پر ایک عام سا افسانہ گردانا گیا ہے تاہم اس افسانے میں ممبئی کی علاقائی زبان کے الفاظ (slang) کااستعمال ہمیں منٹو کا افسانہ ’’ممد بھائی‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ ظاہرہے اس طرح کے تجربات اردو افسانے میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں لہٰذا یہ افسانہ اس حوالے سے بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ اِس افسانے میں انور خان نے منظری (Scenic) اسلوب استعمال کرتے ہوئے ڈرامائیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’’شاٹ‘‘ میں انورخان نے واقعات کو خاص زمانی ترتیب سے نہ بیان کرتے ہوئے ماضی سے حال کے انسلاک کے لیے فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ فلیش بیک تکنیک کا تعلق بنیادی طور فلم سے ہے ، یہاں ایک ندرت یہ بھی ہے کہ یہ افسانہ فلم کے ایک سین کا بیانیہ ہے جس میں فلیش بیک کے لیے ٹیلی گرام کے حروف ’’ کل مامی کا انتقال ہوگیا ہے‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ایک جملے سے پوری کہانی کی تعمیر و تشکیل کی گئی ہے۔ قاری جب اس کہانی کو Disconstruct کرتا ہے تو اسے زندگی کے بعض ایسے حقائق سے آنکھیں چار کرنی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے تئیں اپنی ترجیحات پر از سرِ نو غور کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔
انور خان انسانی نفسیات کے پارکھ تھے اور انھوں نے اپنے افسانوں میں اس کا بخوبی اظہار بھی کیا ہے ۔انھوں نے ہمارے اطراف و اکناف میں بکھرے چھوٹے چھوٹے واقعات سے کہانیاں بُنیں اور زندگی کے انھیںچھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑی بڑی حقیقتوں کے انکشاف کا وسیلہ بنایا ۔