Salam Bin Razzaq ke Afsano mein Wajoodi Asraat

Articles

سلام بن رزاق کے افسانوں میں وجودی اثرات

میر عابد

اردو ادب میں جدیدیت کا میلان دوسرے میلانات کی طرح مغرب کے زیرِ اثر وجودمیں آیا اور وسیع معنویت کے ساتھ اردو افسانے میں پھیلنے لگا۔ جدیدیت ایک ایسا تخلیقی رویہ ہے جو روایتی انداز کو ردّ کرتا ہے اور ماضی کے مقابلے میں حال کے تقاضوں کو پورا کرنے اور عصری مسائل کو پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ وحید اختر کے حسبِ ذیل اقتباس سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے:
’’اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنے اور اسے تمام امکانات و خطرات کے ساتھ برتنے کا نام جدیدیت ہے۔ ہر عہد میں جدیدیت ہم عصرزندگی کو سمجھنے اور برتنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت ایک مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ‘‘( ’جدیدیت اور ادب ‘۔ وحید اختر ص: ۳۹)
جدیدیت کی ایک فلسفیانہ اساس وجودیت کا فلسفہ ہے جس میں فرد کی ذات کو مرکزیت Centralityحاصل ہے۔ اس فلسفہ کی رو سے فرد کو اپنے وجود معاشرے اور کائنات میں سب سے پہلے اپنے وجود سے متصادم ہونا پڑتا ہے اور وجود کی آگہی کا کرب جھیلنا پڑتا ہے۔ نیز ساری کائنات میں فرد تنہا و بے یار و مددگار ہے اور اس کا کوئی سہارا نہیں۔ وجودی فکر نے بیسویں صدی میں گہری تقویت اور مقبولیت حاصل کی۔ دو عالم گیر جنگوں کی تباہیوں کے نتیجے میں انسان خوف و ہراز کا شکارہوگیا۔ اس کے علاوہ سائنسی ایجادات اور مادی ترقی نے انسانی وجود کی معنویت اور عظمت مشکوک کردی۔ غرض فرد اجتماعی تصورات سے لاتعلق ہوکر اپنی ذات کے خول میں سمٹ گیا۔
جدیدیت اور فلسفہ وجودیت کے تناظر میں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ فلسفہ وجودیت کی ہمہ گیری اور وسعت کے باوجود یہ باور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جدیدیت سے وابسطہ تمام ادبا اور شعرا وجودیت کو فکری طور پر یا اسے نصب العین بناکر ادب کی تخلیق میں سرگرم ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ فلسفہ وجودیت کے عناصر بتدریج شعوری یا غیر شعوری طور پر پھیلے ہیں اور ہمارا افسانوی سرمایہ اس کے حصار میں محصور ہوتا گیا ہے۔ جدید ناقدین ادب نے بارہا اس امر کا اظہار کیا کہ نئے افسانے میں وجودی اثرات بیش از بیش ملتے ہیں۔ ان ناقدین ادب نے اس بات کا بھی احساس دلایا کہ اکثر افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جنھیں اس طرزِ فکر کی باقاعدہ خبر نہیں یا انھوں نے اس فلسفے کا براہ راست مطالعہ نہیںکیا یا اس فلسفے کے فکری محور سے ان کا تعارف نہیں لیکن پھر بھی بہر نوع ان کی تخلیقات میں وجودی اثرات کی بازگشت واضح اور عیاں ہے۔ ڈاکٹر وحید اختر نے اپنی کتاب ’’فلسفہ اور ادبی تنقید‘‘ میں ان امور کی صراحت حسبِ ذیل میں کی ہے:
’’ ہمارے ادب پر وجودیت کے فلسفہ کا براہ راست اثر کم ہے لیکن ہماری فکر میں وہ عناصر جو وجودیت کی تشکیل کرتے ہیں بالواسطہ اور غیر شعوری طور پرخود بخود شامل ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ وجودیت حقیقی معنوں میں آج کا فلسفہ ہے۔ ہائن مان Heinmannکا خیال ہے کہ وجودیت اب مستقبل نظامِ فلسفہ کی حیثیت سے قابلِ قبول نہیں رہی لیکن اس میں آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے جو بنیادی صداقتیں ملتی ہیں وہ اس فلسفے کی مقبولیت کی آج بھی ضامن ہیں۔ ‘‘ (ص:۱۷۳، ۱۷۴)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہمارے اردو ادب میں خصوصاً افسانوی ادب میںایسے عناصر بیش از بیش ملتے ہیں جو فلسفہ وجودیت کی تعمیر اور تشکیل میں معاون ہوتے ہیں۔یہ عناصر جدید حالات کی تفہیم میں معاون ہیں۔ اس کے اندر بنیادی صداقتیں پوشیدہ ہیں۔ یہ ہمارے تجربے کی کسوٹی پر کھرے اتر چکے ہیں اور موجودہ صورتِ حال کے عین مطابق ہیں۔ اس امر کی صراحت آج کے افسانہ نگاروں کی نگارشات سے واضح ہوتی ہے۔ یہاں سلام بن رزاق کے نمائندہ افسانوں کا جائزہ لیاجاتا ہے تاکہ اس امر کی وضاحت ہوسکے کہ کس حد تک وجودی اثرات کی بازگشت ان کے افسانوں میں موجود ہے۔
نئے افسانہ نگاروں کی نسل میں سلام بن رزاق سب سے زیدہ خلاق افسانہ نگار ہیں۔ جدیدیت کے زیرِ اثر ان کی تربیت ہوئی لیکن انھوں نے سریندر پرکاش، بلراج مین را، خالدہ حسین اور انور سجاد کی روایت سے خود کو الگ کرتے ہوئے تجرید، استعارات اور علامات کے ساتھ روایتی بیانیہ کی شمولیت کی ضرورت محسوس کی اور تکنیکی سطح پر میانہ روی کا ثبوت دیتے ہوئے افسانے لکھے۔انھوں نے زیادہ نہیں لکھا لیکن احتیاط کے ساتھ موضوع اور فن کا لحاظ رکھتے ہوئے لکھا۔ ۱۹۶۴ء سے افسانہ نگاری کا جو سفر شروع ہوا وہ اب چار جلدوں میں موجود ہے۔ ننگی دوپہر کا سپاہی، معبر، شکستہ بتوں کے درمیان اور زندگی افسانہ نہیں جیسے افسانوی مجموعوں کے حوالے سے سلام بن رزاق کی افسانہ نگاری کے ارتقائی سفر کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سلام بن رزاق کے یہاں بیانیہ انداز پایا جاتا ہے اور وہ بے جا آرائش و زیبائش سے گریز کرتے ہیں۔ معاشرہ اور اخلاقی اقدار کی زوال پذیری، مذہبی ایقانات کی بے اثری اور فرد کے استحصال کے پس پردہ جو سماجی اور سیاسی محرکات کارفرما ہوتے ہیں انھیں وہ علامتوں کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام کیفیات کو اپنا ذاتی تجربہ بناکر وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کو خود اپنی وارداتِ قلبی معلوم ہوتی ہے۔ وجودی فن کاروں کی طرح ان کی تقریباً تمام کہانیوں میں ایک خاص قسم کا ڈر، خوف، یاسیت اور محرومی مختلف پیرائے میں نظر آتی ہے۔ باطن میں غوطہ زنی کرکے اس کی گہرائیوں تک پہنچ کر ذات کی تلاش کا عمل ان کے یہاں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں وجودی افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے ان کے افسانے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ کو موضوع بنایا جاتا ہے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کس حد تک سلام بن رزاق کے مذکورہ بالا افسانے میں وجودی اثرات کی بازگشت ملتی ہے۔ ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ میں افسانہ نگار نے جدید انسان کے مسائل اور زندگی کی پیچیدگیوں کو موضوع بنایا ہے۔ ماحول کا انتشار، وجودکی آگہی کا کرب، سفر بے سمت، بے مقصدیت ، رشتوں کی مہملیت، قدروں کی شکست و ریخت، خوف و اندیشہ، تنہائی اور اجنبیت اور نہ جانے کتنے ہی ایسے احساسات اس کہانی میں فنی چابکدستی سے برتے گئے ہیں۔ ایک دو اقتباس ملاحظہ ہوں تاکہ یہ احساس ہوسکے کہ سلام بن رزاق انسانی احوال کو پیش کرتے ہوئے وجودی فکر سے کتنے قریب آگئے ہیں:
’’ نہ تم جانتے ہو کہ تم کہاں جارہے ہو ، نہ میں جانتا ہوں کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہم سب کہاں چلے تھے، کہاں جارہے ہیں ، جب سفر ہی زندگی کی شرط ٹھہری تو پھر سفر اکیلے بھی جاری رکھا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا احسان کیوں لوں۔‘‘ (ننگی دوپہر کا سپاہی، مطبوعہ شب خون، مارچ ؍ اپریل ۱۹۷۷ء جلد ۵ ، شمارہ ۱۰۳، ص: ۴)
زندگی ایک طویل سفر کا نام ہے۔ اس سفر کی ابتدا کی نہ خبر ہے اور نہ ہی انتہا معلوم۔ صرف چلے جانا ہے کہاں، کس طرف ، کدھر، کیوں۔ یہ سب سوالات بے معنی ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سفر کا رُخ کیا ہے۔ اس سفر کی منزل کہاں ہے گویا زندگی انسان کا مسئلہ ہے اور وہ اس مسئلے میں کسی کا شریک نہیں۔ وہ اکیلا ہے ، اکیلا ہی اس سفر کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’سب دھوکا ، سب فریب ، عزیز، رشتہ دار ، جائداد ، خاندان ، عزت یہاں تک کہ کتابیں بھی اور زندگی بھی؟ نہیں۔ زندگی ایک سوال کی شکل میں اس کے آگے چل رہی تھی اور وہ دیوانہ اس کے پیچھے لپکا جارہا تھا۔(ایضاً)
ظاہر ہے یہ وجودی احساس ہی تو ہے۔ کیوں کہ دوست، احباب ، عزیز و اقارب ، خاندان ، جائداد سب دھوکا اور فریب قرار دینا اقدار کی شکست و ریخت کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ رشتے کی مہملیت اور بے اعتباری کی کیفیت بھی اس سے آشکارہ ہے۔ بکھرائو و شکستگی کی اس فضا میں ایک ہی شئے ایسی ہے جس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے زندگی ۔ زندگی کے خطرات و مسائل کے درمیان گھر کرنا بھی معنی خیز ہے یہی ایک مستند چیز ہے جس کے پیچھے دیوانہ وار لپکا جاسکتا ہے۔
وجود کی تلاش کا عمل ، تنہائی اور زندگی کی لایعنیت Absurdityکے احساسات جدید دور کی دین ہیں۔ اور ہمارا جدید افسانوی سرمایہ ان ہی موضوعات کے ارد گرد گردش کرتا نظر آتا ہے۔ سلام بن رزاق کے کرداروں کی غالب اکثریت اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ نیز ان کے کردار وجود کی تہوں سے گزر کر وجود ہی کے توسط سے زندگی کے اسرار و رموز کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایسی ہی کہانیوں میں ’البم ‘ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ کہانی بیانیہ نثر کی عمدہ شاہ کار ہے لیکن اس کے پسِ پردہ راوی کے وجود کی کئی پرتیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ کہانی کا ڈھانچہ اس طرح ہے کہ راوی ’البم‘ میں اپنی تصویر چسپاں کرنے کی کوشش کرتا ہے اچانک تصویر میں کئی دوسرے چہرے اسے ماضی کی گم گشتہ یادوں میں گم کرتے ہیں۔ یہ چہرے اس کے عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہیں۔ ان چہروں میں بوڑھی ماں کا چہرہ خستہ ہے اور بڑھاپا ان کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔ ماں کے چہرے کے ساتھ ایک اور چہرہ جڑا ہوا ہے جو بہت ہی اداس اور مضمحل ہے۔ یہ ان کے والد مرحوم کا چہرہ ہے۔ اس کے بعد تصویر میں اس کی بیوی کا چہرہ ہے جب وہ اس کے گھر میں دلہن بن کر آئی تھی۔ غرض ماں ، باپ ، بیوی ، بھائی، عزیز و رشتہ دار کئی پرچھائیاں اس کے ارد گرد منڈلا رہی ہیں۔ وہ ایک آئینہ کی مانند ہے جس میں دوسروں کے عکس گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ یہاں راوی ایک شدید وجودی بحران سے دوچار ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں جو کچھ ہوں دوسروں کے طفیل ہوں، میں خود کہیں نہیں ہوں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پرچھائیوں کے اس ہجوم میں اپنی ذات کی تلاش کی انتھک کوشش نے مجھے چور چور کردیا۔ میں ایک سعادت مند بیٹا ہوں۔ ایک باوفا شوہر ہوں، شفیق باپ ہوں۔ دوست ہوں یعنی جو کچھ بھی ہوں دوسروں کے طفیل ہوں۔ میں خود کہیں کچھ نہیں ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میری ہستی ایک کتاب ہے جس کا میں صرف عنوان ہوں۔ ورق ورق کھنگال ڈالتا ہوں اندر عنوان سے متعلق ایک حرف نہیں ملتا۔ ‘‘ (افسانہ ’البم‘ مشمولہ ’ شکستہ بتوں کے درمیان)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت مترشح ہوجاتی ہے کہ کہانی میں راوی اپنے وجود کی موجود گی کو درج کرانے کے لیے بے چین ہے۔ غرض افسانہ نگار نے افسانے میں یہ تاثر دلانا چاہا کہ عصرِ حاضر کا فرد بے چہرہ ہے اور یہی بے چہرگی موجودہ دور کے فرد کا مقدر بن گئی ہے۔
سلام بن رزاق کی افسانہ نگاری کی جڑیں تمام تر زمین میں پیوست ہیں۔ بے چہرگی ، احساس تنہائی، اپنے وجود کی بازیافت، بے سمتی جو جدید افسانے کے کلیشے بن گئے۔ سلام بن رزاق کے مشاہدے اور نظر کی تیزی جہانِ دیگر کے پردوں کے پار وہ سب دیکھ لیتی ہے جن کے اسرار ذات دوسرے شناور افسانہ نگاروں پر نہیں کھلتے۔ اس حوالے سے سلام بن رزاق کا افسانہ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ افسانہ انسانی وجود اور درد مندی کے جذبے سے تیار کیا گیا ہے۔ مائیکل کی یتیم خانے کے چرچ میں ولادت ہوتی ہے اور پرورش بھی وہیں ہوتی ہے۔ لیکن یتیم خانے کی باہر کی دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات ان مٹ نقش کی طرح گھر کر جاتی ہے۔ میرا کوئی نہیں میں کسی کا نہیں ۔۔۔۔میں خدا کی مانند تنہا ہوں۔ اس کے ہاتھوں سے ریت سے بچے کا مجسمہ بن جانا اور پھر ماں کے سینے سے دودھ پیتے ہوئے مجسمہ بنانا اس کی انتہائی محبت کی محرومی کا وجودی اشارہ ہے۔ اسے کسی کی سرپرستی اور شفقت نہیں ملتی جس کا وہ متلاشی۔ اسے اس بھری دنیا سے سروکار نہیں۔ اسی لیے وہ شکستہ بتوں کے درمیان رہ کر زندگی کو آخری دہانے پر پہنچا کر خود اپنی ذات کے ساتھ ان بتوں کی مانند شکستہ ہوجاتا ہے۔
سلام بن رزاق جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ان کے ہاں انسانی وجود اور شخصیت کی صلابت پر زور ہے۔ جب آدمی اس سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھٹکنا پڑتا ہے۔ ایک دوست اور مصلح کی طرح سلام بن رزاق اس کے وجود کی آواز بن کر ابھرتے ہیں۔ اس کی مثال کے لیے ان کا افسانہ ’’دوسرا قتل‘‘ اہم ہیں۔ دوسرا قتل میں عصرِ حاضر میں روحانیت، مذہبی عقائد اور اخلاقی رویوں کا قتل یا زوال دکھایا گیا ہے۔ غرض یہاں مادہ پرستی کا عروج ہے اور مادہ پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہولناک نتائج کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے یہاں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کسی جرم کو آپ جتنا چھپانا چاہتے ہیں لیکن انسان کے اندر کی آواز یعنی ضمیر اس کی گواہی اتنی ہی شدت سے دیتا ہے۔ اس افسانے میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر ایک باضمیر شخص اپنے ضمیر کا خون کردیتا ہے تو بے ایمانی ، موقع پرستی اس کا نصب العین بن جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ضمیر ہر ممکن موقع پر انسان کو تاکید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خلاصہ کلام یوں ہے کہ اس افسانے میں سلام بن رزاق کا انسانی وجود سماج، اخلاق اور سچائی کے تئیں اعتماد و وابستگی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
سلام بن رزاق نے اپنی تخلیقی انفرادیت کو کثرت سے جدا کرنے کے لیے دلچسپ کہانی بیان کرنے کی واضح صورت پر دھیان مرکوز کیا ہے جس کی بہترین نمائندگی ان کی کہانی ’’آوازِ گریہ‘‘ سے ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے یہاں انسان کے اندر زندہ درگور کیفیات کو منظر نامہ بنادیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔۔۔۔میرا وجود اندھیرے میں تحلیل ہوچکا ہے۔ اس دردناک بے بسی پر مجھے پہلی بار رونا آتا ہے اور میں بے اختیار رونے لگتا ہوں۔ میں رو رہا ہوں، میرے رونے کی آواز منوں مٹی تلے اس طرح گھٹی گھٹی ، پھنسی پھنسی نکل رہی ہے جیسے کسی شکستہ بانسری کے سوراخ میں کوئی سُر اٹک گیا ہو۔ ‘‘( افسانہ ’آوازِ گریہ‘ مشمولہ ’شکستہ بتوں کے درمیان۔ص:۱۵۷)
غرض مذکورہ بالا افسانے میں واحد متکلم اپنے وجود کے اندر پنپتے حادثات کو خواب کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ گویا سلام بن رزاق کے افسانوں میں فکر کا وہی دائرہ ہے جو فلسفۂ وجودیت کا خاصہ ہے اور اس صراحت پچھلے صفحات میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ مادی ترقی اور روحانی بحران کے اس کی دور میں آج کے فرد کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے وجود کی معنویت کی تلاش ہے۔ آج کاانسان بے چہرہ ہے۔ نفسیاتی الجھنوں اور نیوراتیت کا شکار۔ وہ جذباتی اور ذہنی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ وہ اپنے آپ سے لڑ رہا ہے۔ یہ وہ تمام عناصر ہیں جو سلام بن رزاق کے تقریباً سبھی افسانوں میں کم و بیش پائے جاتے ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ سلام بن رزاق کا وجودی مفکروں کے افکار سے براہ راست کوئی تعارف نہیں یا اس فلسفے کے بنیادی افکار سے ان کا سابقہ نہیں اور کسی تخلیق کار کے لیے ضروری بھی نہیں کہ وہ اپنی تخلیقی نگارشات میں کسی مخصوص فکر ہی کو موضوع بحث بنائے۔ لیکن حالات اور زمانے کے مسائل اور کوائف سے متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی افسانہ نگاری کی ساخت الگ الگ ہے لیکن فکری اعتبار سے وجودیت کے دائرے میں ہی گردش کرتا نظر آتا ہے۔