Ali Imam Naqvi ki Afsana Nigari by Qasim Nadeem

Articles

علی امام نقوی کی افسانہ نگاری

قاسم ندیم

علی امام نقوی کے افسانوں کا فنی تجزیہ کیا جائے تو جو عناصر خاص طور پر متوجہ کرتے ہیں ان میں واقعہ کی فنی بُنت کاری، فضاکی تخلیق اور کردار نگاری کے ساتھ مکالمہ سازی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو چھوتے ہیں اسے محدود نہیں رکھتے یعنی وقوع کو صرف واقعہ کی طرح بیان نہیں کردیتے بلکہ اس میں ایک اکائی پیدا کر دیتے ہیں جس سے خیال اور واقعہ مل کر افسانہ بنتا ہے۔ اس بنا پر افسانے میں ایک ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جس میں کردار خود بخود فطری طریقے سے اپنی شناخت کرواتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں تکنیک اور بُنت کاری کا فن پوری آب و تاب کے ساتھ دمکتا ہے۔ دوسری اہم بات ان کا بیان اور انداز ہے۔ انھوں نے اپنے زیادہ تر افسانے بیانیہ انداز میں تخلیق کیے ہیں۔ باقر مہدی کے رسالے’ اظہار‘میں ’نوسرہار‘ سیّد عارف کے ’جواز‘ میں ’صورتِ حال‘ وغیرہ جیسے خالص علامتی و تجریدی افسانوں سے صرفِ نظر کریں تو ان کا انداز بیانیہ ہی رہا ہے۔مگر ان کا بیانیہ انداز بھی دبازت لیے ہوئے ہے۔ لفظوں کااستعمال اور جملوں کی ساخت کا طریقہ بھی بڑی حد تک نیا ہی ہے۔ اسے ان کے اسلوب کا حصہ کہا جاسکتا ہے۔زیرِ نظر مضمون میں ان کے صرف پانچ افسانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ’تھکے ہارے، کھوئی، ضرورت، وراثت اور نقش‘۔یہ پانچوں افسانے موضوع کے لحاظ سے مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ’تھکے ہارے‘ میں ہجرت کا غم اور ہجرت نہ کرنے کی مسرّت کا رنگ ہے۔ ’کھوئی‘ میں دو تہذیبوں کا تصادم ، جنگ، وفاشعاری اور یادوں کا رنگ ہے۔ ’ضرورت‘ میں سکھ مخالف فسادات کی لہو آمیزی اور مسلم روداری کا رنگ ہے۔ ’وراثت‘ میں رشتے ناتے، ذمہ داریاں اور بھوک کا رنگ ہے اور پانچواں افسانہ ’نقش‘ معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔
محولہ بالا مختلف رنگوں کی بنا پر ان کے افسانہ بیان کرنے کا علیحدہ انداز ابھرا ہے۔ ان افسانوں میں بعض اوقات واقعہ سامنے کا ہوتا ہے اور اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ اپنی پہچان کراتا ہے لیکن افسانے کی مشکل میں ڈھلنے کے بعد اس میں کئی معنوی سطحیں پیدا کردیتا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’تھکے ہارے‘ دہلی سے شائع ہوانے والے رسالے ’کتاب نما‘ میں ستمبر ۱۹۹۰کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس افسانے کی ابتدائی سطر قاری کو مکمل افسانہ پڑھنے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ افسانے کی ابتدا کچھ اس طرح ہوتی ہے:
’’تھکی ہوئی بوڑھی کی آنکھوں میں حسرتیں ہی حسرتیں ہیں ۔اس کا اکلوتا بیٹا ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا۔’سرجھکائے‘ زمانے بھر کی فکریں سجائے ، تھکی ہوئی بوڑھی آنکھوں نے بس ایک مرتبہ بیٹے کے چہرے کو دیکھا تھا۔ پھر وہ بیٹے کے پیروں پہ مرکوز ہوگئیں۔ کولہاپوری چپل کی پالش ماند پڑگئی تھی اور پیر بھی گرد آلود تھے۔‘‘
اس مختصر سے اقتباس سے قاری کے ذہن پر یہ بات عیاں ہونے لگتی ہے کہ اس خاندان پر حسرت و یاس سایہ کیے ہوئے ہے۔ بیٹے کا اپنے چہرے پر زمانے کی فکریں سجانے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بیروزگار ہے یا پھر اچھے روزگار کا متلاشی ہے ۔ کولہاپوری چپل کی پالش کا ماند ہونا مفلوک الحالی کی غمازی کرتا ہے اور پیروں کا گرد آلود ہونا بہتر مستقبل کی تلاش و جستجو کا مظہر ہے۔
اگلے پیرا گراف میں افسانہ نگار اپنے کیمرے سے دو مناظر ہمارے روبرو پیش کرتے ہیں۔ پہلے منظر میں ماں کا وجود ہے جو کہ کمان ہوا جارہا ہے اور پورا سراپا تھکن میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اٹھارہ انیس برس کی بیٹیوں کے تیزی سے تبدیل ہوتے جسموں نے اس کمان زدہ بدن کے اعضا کو مزید کمزور کردیا ہے۔افسانہ نگار اپنے کمیرے کا زاویہ تبدیل کرتے ہیں اور اٹھارہ انیس برس کی بیٹیوں پر مرکوز کردیتے ہیں۔ دونوں بیٹیاں حسرت و یاس کا مجسمہ بنی ہوئی ہیں۔ چھینٹ کی معمولی سی شلوار قمیصوں میں ڈھکی چھپی ، سروں پہ سستے سے دوپٹّے اوڑھے اور آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلائے نہ جانے کس کی منتظر ہیں۔ یہ کمال ہے علی امام نقوی کا کہ وہ اپنے الفاظ کو اور افسانے کے مناظر کو متحرک کردیتے ہیں۔ سارے مناظر میں جان سی پڑجاتی ہے۔ کرداروں کی آواجاہی ذہن کے اسکرین پر جاری رہتی ہے۔ ساتھ ہی افسانہ بھی آگے بڑھتا ہے۔ بیٹے کا یہ کہنا کہ ’’ میں ہار چکا ہوں‘‘ اور تھکی ہوئی آنکھوں کا جواب دینا کہ ’’تلاش ‘‘ نئی نسل کی تقدیر ہے۔
کچھ فقرے یا جملے تاریخی استناد کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ تقریباً آج سے تیس برس قبل ادا کیے ہوئے جملے دورِ حاضر پر بھی صد فی صد صادق آتے ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بے شمار نوجوان بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ اس مار کی بنا پر کئی ٹوٹ جاتے ہیں اور غلط راہوں پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ پورا معاشرہ اُس وقت بھی شکست و ریخت کا شکار تھا موجودہ حالات میں اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت بھی رشوت ستانی اپنے عروج پر تھی آج بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس منظر کو افسانہ نگار نے کس طرح فوکس کیا ہے:
’’ایک ہی محور ہے ماں۔ جسے دفتری زبان میں وسیلہ کہتے ہیں۔
’کیا مطلب؟ـ
پنچانوے فیصد نمبر سے اول درجے کا رزلٹ ، رشوت کے سہارے نوکری دلوانے میں تو کامیاب ہوگیا تھا لیکن ترقی کے لیے وہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔
لیکن تو تو ٹیسٹ میں کامیاب ہوگیا تھا؟
ہاں۔ لیکن اس اسامی پر اونچی ذات کے ایک ہندو کا تقرر ہوا ہے۔
کیوں؟
سرکاری محکمے ان سوالوں کے جوابات نہیں دیتے۔
مطلب یہ کہ اہم اور کلیدی عہدے ہمارے لیے نہیں۔‘‘
یہ پورا منظر نامہ آزادی سے لے کر تادمِ تحریر تبدیل نہیں ہوا اور شاید تبدیل ہونے کے آثار بھی نہیں ہیں۔ اقلیتوں اور نچلی ذات کے افراد بھٹی کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔ ہر محکمے میں حق تلفی کی جارہی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے باضمیر منصف صاحبان کو پریس کانفرنس کرکے اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے معاملات میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ ایک تخلیق کار اپنے زمانے کی تلخیوں ، ترشیوں ، خامیوں اور برائیوں کو فنّی مہارت کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتاردیتا ہے۔
اس افسانے میں پاکستانی مہاجرین کا ذکر کیا گیا ہے۔ دور کے ڈھول سہانے کے مصداق کمان زدہ والدہ سمجھتی ہیں کہ سرحد پار کرکے جانے والے جنّت میں رہتے ہیں۔ ان کے حالات بہتر ہیں اور وہ بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
سرحد پار سے ماموں زاد بھائی کا خط آنے پر وہاں کے حالات سے آگہی ہوتی ہے۔ خطر کچھ اس طرح ہے:
’’ برادرِ عزیز ۔السلام علیکم
تمہارا خط ملا۔ تفصیل پڑھ کر دکھ ہوا۔ اب تک امی اور ابو کے نام پھوپھی کے خط آتے رہے ہیں اور ان کے جوابات امی اور ابو نے جس انداز میں تحریر کروائے ہیں ان کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ امی اور ابو نے پھوپھی کو جنّت کی سیر کروائی ہے اور سچ پوچھو تو ان کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔‘‘
خط سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے لوگ ہر اہم پوسٹ پر قابض ہیں اسی طرح سرحد پار بھی ہر اہم عہدہ اور اسامی پنجابی کو دے دی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے حالات تقریباً ایک جیسے ہیں۔ جو لوگ اپنی مرضی سے نہیں چلتے انھیں وقت کی ٹھوکر چلنے پر مجبور کرتی ہے۔ خط کے اختتام پر تھکی تھکی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ تھکی تھکی آنکھوں میں چمک پیدا ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ درست تھا۔ حسرت و یاس کے مجسموں کا دائیں بائیں دیکھنا ان کی گو مگو کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ لیکن کمان کا مزید جھک جانا آس کو نراس میں تبدیل ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ علی امام نقوی یہ حقیقت بھی اس افسانے کے ذریعے قاری پر عیاں کرتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی اکثریت قومی و ملی تصورِ حیات کی طرف مائل تھی۔ سرحدوں کے دونوں جانب ماضی پرستی کا رجحان غالب رہا۔ چونکہ مملکتِ خدا داد کے انتظام و انصڑام میں ان کو فیصلہ کن کردار عطا ہوا تھا، اس لیے یہ فطری امر ہے کہ مقامیت کے تقاضے مسلسل نظر انداز ہوئے۔ جس سے وہاں صوبائیت اور لسانیت کے مسائل کو ہوا ملی، مقامی لوگوں کے اپنے خواب تھے جو کہ مملکتِ خدا داد کے نظریہ سازوں کے تصورات سے متصادم ہوئے زمینی حقائق پر کسی نے غور نہیں کیا۔ اس افسانے کا اختتام بے حد تلخ ہے جو کہ حقیقت سے قریب تر ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’ضرورت‘ ایوانِ اردو،جون ۱۹۹۰ء؁ کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس افسانے کی بُنت نہایت ہنر مندی سے کی گئی ہے۔ یہ افسانہ سکھ نوجوان درشن سنگھ کے کردار پر مبنی ہے، جوکہ راوی بھی ہے۔ اس افسانے کا پس منظرسکھ مخالف فسادات پر مبنی ہے۔ دہلی اور قرب و جوار میں بھڑک اٹھنے والے سکھ مخالف فسادات میں درشن سنگھ اپنے والدین کی جلی ہوئی لاشوں کو دیکھتا ہے۔ دہلی سے لٹ پٹ کر وہ بیدر جاتا ہے اور خالصہ کالج میں اسے ملازمت مل جاتی ہے لیکن فسادات کی آگ وہاں بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہاں بھی خون کی ندیاں بہتی ہیں، دھواں اٹھتا ہے۔ آگ دھوئیں اور خون خرابے سے بچتا بچاتا وہ پونہ پہنچ جاتا ہے۔ بے حد پریشان حال۔ وہاں اس کی ملاقات ایک خداترس ، مشفق انسان حکیم صاحب سے ہوتی ہے۔ وہ اس کی ڈھارس ہی نہیں بندھاتے بلکہ اپنے مطب کے سامنے والی عمارت میں اس کے رہنے کا انتظام بھی کردیتے ہیں۔ حکیم صاحب، عرف بابا حکمت کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی شغل رکھتے ہیں۔ ان کے آس پاس ہمیشہ ادیبوں اور شاعروں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ حکیم صاحب درشن سنگھ کو کسی اسکول میں بطورِ مدرس رکھوا دیتے ہیں۔
اس افسانے میں موڑ اس وقت آتا ہے جب وہ ایک دن صبح سانولی سلونی نازک لڑکی دیکھتا ہے۔لڑکی اپنے دوپٹے کو اپنے بالائی جسم پر لپیٹ رکھتی ہے۔ تب وہ فلیش بیک میں آگ، دھویں اور خون کے دریا پر عبور کرتا ہوا اپنے گائوں پہنچ جاتا ہیْ گڑھل کے کنارے پیتل کا لوٹا اسے شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ اسی پیتل کے لوٹے سے اس کے والدہ کا تعلق ہے۔ درشن سنگھ کی والدہ اس پیتل کے لوٹے میں پانی لے کر پہلے ہاتھ دھویا کرتی تھیں، پھر پہنچوں تک پانی بہاتیں، نتھنوں میں پانی ڈالتیں۔ افسانہ نگار یہاں یہ عقدہ نہیں کھولتا کہ درشن سنگھ کی والدہ وضو کرتی تھیں۔ البتہ اس کا انکشاف قاری پر ہونے لگتا ہے۔ مگر ایک روز راوی یعنی درشن سنگھ سویرے جاگ اٹھتا ہے تب اس پر یہ راز افشاں ہوتا ہے کہ اس کی والدہ کس مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ افسانہ قاری کے تجسس میں مزید اضافہ کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ صبح سویرے بستر چھوڑتے ہیں سامنے کے مکان کی کھڑکی کی جانب دیکھنا راوی کا معمول بن جاتا ہے ۔ اسے وہاں وہی سانولی سلونی لڑکی سر پر دوپٹہ لپیٹے نماز ادا کرتی نظر آتی لیکن افسانے کی ایک پرت اور کھلتی ہے جب درشن سنگھ پر پڑوس میں تانک جھانک کا الزام لگایا جاتا ہے اور حکیم صاحب اسے سخت سست سناتے ہیں اور یہاں سے کہیں اور چلے جانے کا حکم دیتے ہیں۔ تب کہیں جاکر درشن سنگھ اعتراف کرتا ہے کہ لڑکی میں اسے اپنی والدہ نظر آتی ہیں۔ یہ سن کر تشکیک کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور لڑکی کے والد صاحب دوسری صبح کھڑکی خود اپنے ہاتھوں سے کھول دیتے ہیں۔ اس افسانے کو علی امام نقوی نے بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ ماضی اور حال دونوں ادوار کو فیلش بیک کی مدد سے پیش کرکے اس افسانے کو پر تاثیر بنادیا ہے۔
اس افسانے میں درشن سنگھ کے ساتھ ہی حکیم صاحب کا کردار بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ابھرتا ہے اور قاری کے ذہن پر تادیر نقش ہوجاتا ہے۔ جس دور میں یہ افسانہ تخلیق کیا گیا اس وقت پونہ سے مرحوم حکیم رازی ادیبی سہ ماہی ’’تکلم‘‘ شائع کرتے تھے۔ وہ بھی حکیم تھے۔ ان کے مطب پر بھی شعرا اور ادبا کا مجمع رہتا تھا۔ شاید علی امام نقوی نے یہ جیتا جاگتا کردار اسی مطب سے اخذ کیا ہے اور افسانے کا تانا بانا اسی کے ارد گرد بنا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’کھوئی‘‘ ان کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ افسانہ اپنے رنگ و روپ کے اعتبار سے ان کے دیگر افسانوں سے مختلف ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ’اونیل‘ امریکی دوشیزہ ہے جو کہ سکون کی تلاش میں بطور سیاح ہندوستان آئی ہے۔ ایک دور ہپیوں کا بھی تھا جو اپنے فرسٹریشن اور ڈپریشن کو مختلف نشہ آور اشیاء کا استعمال کرکے کم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اونیل کے ذہنی انتشار کا سبب اس کا منگیتر تھاجو کہ ویت نام کی جنگ میں آگیا تھا۔اونیل اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ اب وہ سکون کی تلاش میں ہندوستان آگئی تھی۔ اس کی ملاقات ایک پب میں ہندوستانی سفارت کار زویری سے ہوتی ہے۔ زویری اس سے دوستی کرلیتا ہے۔ ایک بار وہ تفریح کے لیے سی وے پر جاتے ہیں وہاں اونیل گنّے کی گنڈیریاں کھانے کی فرمائش کرتی ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے:
’’میں نے گنّے کی گنڈیریاں خریدیں اور رومال پھیلا کر گنڈیریاں اس پر منتقل کردیں۔ میں گنڈیریاں کھا کر کھوئی اِدھر اُدھر پھینکتا رہا اور اونیل اس کی کھوئی ایک ہہ جگہ ڈھیر کرتی رہی۔‘‘
جب زویری ، اونیل سے پوچھتا ہے کہ اب تک تمہاری شادی کیوں نہیں ہوئی؟ اونیل جواب میں کہتی ہے کہ ویت نام کی جنگ یاد ہے نا تمہیں؟ اس جنگ کے لیے ہمارے یہاں جبراً فوجی بھرتی ہوئی تھی۔ کم بخت ۔۔۔۔۔۔۔میں خوش ہوں زویری کہ وہ جنگ ختم ہوئی۔ پر تم جانتے ہو وہ اپنے پیچھے کتنا زہر چھوڑ گئی، تمہیں پتہ ہے پچیس ہزار کام آئے ، لاکھوں بھاگ گئے۔ سن کر زویری اسے بانہوں میں بھر کر محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے مگر اونیل بچی کھچی گنڈیریاں ہوا میں اچھال دیتی ہے اور رومال پر کھوئی بٹور کر زویری کی طرف بڑھا دیتی ہے۔ یہی افسانے کا انجام ہونا تھا اور علی امام نقوی نے انتہائی فنکارانہ انداز سے اس افسانے کے انجام کو نقطۂ عروج پر پہنچایا ہے۔ افسانہ ختم ہوکر بھی جاری ہے۔ اس افسانے کا اختتام چونکانے والا قطعی نہیں ہے بلکہ یہ افسانہ قاری کے ذہن میں اپنے اختتام کی بنا پر کئی انمٹ نقوش ثبت کردیتا ہے۔ساتھ ہی کئی سوالات کے جواب کا متقاضی بناقاری کی جانب نہارتا ہے کہ صاحب بتائیے اونیل کا کردار آپ کو کیسا لگا؟ کیا ساری امریکی دوشیزائیں بے وفا ہوتی ہیں؟ کیا انھیں اپنی یادوں کے سہارے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے؟ کیا وہ حقیقی محبت اور جزوقتی شہوانیت میں تفریق نہیں کرسکتیں؟ کیا وہ زویری جیسے کرداروں کے دامِ فریب میں آجاتی ہیں؟یہ افسانہ ایسے بے شمار سوالات قاری کے لیے چھوڑ جاتا ہے ۔ چونکہ افسانہ ایک شعوری تخلیقی عمل ہوتا ہے جو کہ زمان ومکاں کے ابعاد کیاندر تمام تر جزیات ، کیفیات اور زندگی کی متنوع خصوصیات کے ساتھ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ اس میں خواب اور بیداری کا کھیل رچا جاتا ہے اور حقیقت اور گمان کی آمیزش حقیقی زندگی کے دائرے میں زندہ لوگوں سے مربوط رہ کر ہوتی ہے۔ علی امام نقوی نے بھی زندہ لوگوں سے رشتہ استوار رکھا۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ وہ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو مسترد نہیں کرتے۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ اسی سبب اونیل اور زویری جیسے زندہ کردار افسانے کا حصہ بنے اور ’کھوئی‘ جیسا بہترین افسانہ منظرِ عام پر آیا۔ اگر کوئی تخلیق کار زندگی کے کھیل میں شامل ہی نہیں تو پھر وہ افسانہ کس طرح تخلیق کر سکتا ہے؟ افسانہ ہی زندگی ہے اور زندگی بذاتِ خود ایک افسانہ ہے۔ جس کے اجزائے ترکیبی اظہاریت ، تاثریت اور واقعیت ہیں۔ یہ تینوں اجزا ’کھوئی‘ میں موجود ہیں۔
’میراث‘ نئی نویلی دلہن ’صابرہ‘ کا افسانہ ہے۔ جو اپنے ہی قصبے میں بیاہی گئی ہے۔ وہ اپنے گھر اور سسرال کا موازنہ کرتی ہے۔ دیگر خواتین اور بچے اسے چھیڑتے ہیں مگر اس کا سارا دھیان پلائو پکنے کی خوشبو کی طرف ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ وہ جس گھر میں بیاہ کر آئی ہے وہ بے حد کشادہ ہے۔ افرادِ خانہ بھی کئی ہیں ، دو جیٹھ اور جٹھانیا ں ہیں ،ان کے بچے ہیں، ساس ہے۔ شوہر اور دونوں بڑے بھائی رکشہ چلاتے ہیں جو کہ کرائے کے ہیں۔ بڑی جٹھانی کے ہاتھ میں گھر کے کھانے کا انتظام کرناہے اور کھانا کھلانے کی ذمہ داری نئی دلہن صابرہ پر ڈال دی جاتی ہے۔ سب کو کھانا کھلانے کے بعد جو کچھ بچا کھچا ہوتا ہے وہی صابرہ کے حصے میں آتا ہے۔ وہ اپنے شوہر سے شکایت بھرے انداز میں کہتی ہے کہ آپ کوئی دوسرا کام کیجیے جس سے آمدنی میں اضافہ ہو اور کھانے کو بھر پور ملے۔ مگر وہ انکار کردیتا ہے۔ وقت کب کس کے لیے رکا ہے؟ اور زچگی کے دوران بڑی جٹھانی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ گھر میں عورتیں رو روکر براحال کرلیتی ہیں لیکن باورچی کھانے میں بیٹھی صابرہ اپنی بھیگی آنکھوں سے چاول ، سالن کی ڈیگچیوں اور روٹی کو دیکھتی رہتی ہے۔
اس افسانے میں علی امام نقوی نے قصباتی زندگی کی ہو بہو تصویر کشی کی ہے۔ نئی نویلی دلہن جب سسرال آتی ہے اس کی اندرونی کیفیات کو انھوں نے بالکل اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ صابرہ کے ناتواں شانوں پر جلد ہی گھر کی بڑی ذمہ داری لاد دی جاتی ہے۔ کئی بار اسے روکھی سوکھی کھا کر یا بھوکا رہ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے اس بنا پر صابرہ گھٹن کا شکار ہوجاتی ہے۔
جب بڑی بہو کا انتقال ہوتا ہے تب بھیگی آنکھوں سے کھانے کی چیزوں کو دیکھنا یعنی حسرت و یاس کے دوران امید کی کرن پھوٹنے کا اظہار بھی ہوسکتا ہے۔ شاید اسے اب پیٹ بھر کھانے کا موقع ملے۔ انسانی فطرت میں یہ شامل ہے کہ جب بھوک انسان کو اپنے نرغے میں لے لیتی ہے تب خوشی کا موقع ہو یا غم کا ، وہ ان سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا نقطۂ ارتکاز شکم سیری ہوتا ہے۔ علی امام نقوی نے صابرہ کے کردار کو صرف صابرہ تک محدود نہ رکھتے ہوئے ہمارے معاشرے میں زندگی گزارنے والی ایسی لاکھوں خواتین کی گھٹن سے انسلاک کردیا ہے۔ اس افسانے کی اہم بات اس کے چست مکالمے بھی ہیں۔ چند مکالمے ملاحظہ فرمائیں:
٭ عورت کی بھوک میاں کو کھلا کر مٹے ہے بائولی۔
٭ بائولی، کمانے والے کا پیٹ بھرجائے تو ہماری بھوک آدھی ہوجاوے ہے۔
٭ مجھے تو سرم آوے گی۔ رات بے رات اُنگے جاتے ہیں۔
٭ ابھی جائوں ہوں۔ دو نوالے تو ٹھونس لوں۔ بیاہ کا گھر تو شیطان کا گھر بن جاوے ، کھانے کی ہوس نہ پینے کی ۔
ایسے اور اس قسم کے مکالمے اس افسانے میں کئی جگہ موجود ہیں۔ مختلف کرداروں کا لب و لہجہ اس میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ ’میراث‘ علی امام نقوی کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
علی امام نقوی کے افسانوں میں معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کے مظاہر جابہ جہ نظر آتے ہیں۔ وہ زندگی کی لایعنیت سے معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہیں۔ تاریخ کی دروغ گوئی ذہنی و معاشرتی الجھنوں کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بناتے ہیں۔ ابتدائی چند افسانوں کے علاوہ وہ افسانوں میں خود کلامی کے چکرویو میں نہیں گھرے رہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو نئی صورتِ حال میں ڈھال کر افسانے کو خلق کرنے پر قادر رہے۔ ان کے افسانوں میں بنتے ، بگڑتے ، الجھتے رشتے موجود ہیں۔ جیتے جاگتے کردار ہیں اور واقعات کی ترتیب و تزئین بھی ہے۔ ان کے افسانوں کی قرأت کرتے ہوئے قاری کو مطلق احساس نہیں ہوتا کہ افسانے کا پلاٹ یا اس کے کردار افسانہ نگار کی مرضی کے تابع ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو علی امام نقوی کے افسانوں کو فن کا اعتبار عطا کرتی ہے۔
ان کا ایک افسانہ بعنوان ’نقش‘ معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کا عکاس ہے۔ افسانہ بہو، بیٹا، ماں اور ڈاکٹر ان چاروں کرداروں کو لے کر بُنا گیا ہے۔ بہو اور بیٹے کی میڈیکل رپورٹ میں خامی نہ ہونے کے باوجود پانچ برس بیت جانے کے بعد بھی وہ اولاد کی خوشی سے محروم ہیں۔ تینوں کے لیے یہ زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ سارے علاج ہوچکے ، تمام طبی پیتھیوں کو آزمایا جا چکامگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ گیارہویں میڈیکل رپورٹ لے کر وہ ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ان کے گھر جاکر تینوں سے باری باری گفتگو کرتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ماں جو کہ ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی ہے کی بے جا احتیاط برتنے کی بنا پر بیٹا نفسیاتی مرض کا شکار بن گیا ہے۔ وہ ہر معاملے میں محتاط رہتا ہے اسی بنا پر وہ اولاد سے محروم ہے۔
اس افسانے میں بہو اور ڈاکٹر کے چند مکالمے دیکھیے:
٭ نبضیں بھی چپ سادھیں تو تہذیب کا ایک آدھ اصول اُلانگنا پڑتا ہے بی بی۔ دیکھیں میرا بھی سانس پھول رہا ہے، مگر میں مایوس نہیں ہوا کہ زمین کی پیاس سے بات چلی اور سانسوں کے پھولنے تک آپہنچی۔
٭ تو۔۔۔۔۔ تو پھر سن ہی لیجیے ۔ میرا ۔۔۔۔ میرا گھنا گھنگورا بر ۔۔۔۔۔۔ زمین کے بجائے پلنگ پہ بچھی چادر پر برستا ہے۔
٭ہر شخص اپنی زندگی میں ایسی کئی منزلوں سے گزرتا ہے جو عام طور پر امتحان کہی جاتی ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کے کسی خاص امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا۔ وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے، کیونکہ وہ جانتا نہیں کہ اس کے وجود کا جوہر کیا ہے؟
یہ افسانہ ان لوگوں کے لیے آئینہ ہے بلکہ تازیانہ ہے جو کہ زندگی میں ہرقدم پر محتاط رہنے کا رویہ اپناتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھی ڈر و خوف میں مبتلا کر بیٹھتے ہیں۔ جب کچھ کر گزرنے کا وقت آن پڑتا ہے تب بھی وہ احتیاط برتتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی زندگی کامیاب و کامران نہیں ٹھہرتی بلکہ وہ معاشرتی گھٹن اور انسانی رشتوں کی تقدیس پر بھی تشکیک کے بادل چھوڑ جاتی ہے جو کہ کرداروں کو درد و کرب میں مبتلا کردیتی ہے۔
علی امام نقوی جس دور میں معاشرتی زندگی کی آبیاری کررہے تھے وہ دور شدید انتشاری کیفیت کا دور رہا ہے۔ اس دور میں معاشرتی زندگی میں اور ذہنی اعتبار سے بھی بے یقینی ، ہیجان اور اضطراب کی کیفیات طاری رہی ہیں۔ ایسے حالات میں کسی افسانے کے اہم کردار کی ذہنی کیفیت اجاگر کرنا بے حد کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ کردار کے درون میں در آئی پیچیدگیوں کو منعکس کرنا واقعی مشکل کام سمجھا جاتا ہے لیکن علی امام ایسے مشکل ترین مراحل سے بحسن و خوبی گزرے ہیں۔
’نقش‘ ایک ایس افسانہ ہے جو معاشرتی حالات کا شکار ہوکر پیچیدہ نفسیاتی کرداروں میں ڈھل جانے والی بہو، بیٹا اور ماں کا افسانہ ہے۔ ان کا یہ افسانہ اونچے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے اوپری طمطراق اور اندرونی کھوکھلے پن کو نشانہ بنایا ہے۔ افسانے میں کئی مقامات پر معاشرتی محرکات بھی نشان زد کیے گئے ہیں۔ انسان کے داخلی عوامل اور خارجی عوامل اور محرکات کو اشاروں ، کنایوں اور ذاتی استعاروں میں بڑے احسن طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ خارجی زندگی اور داخلی کشمکش یا داخلی واقعیت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ تینوں کرداروں کی ذہنی کیفیات اور انتشار بڑے واضح انداز میں سامنے آتے ہیں۔
علی امام نقوی نے زندگی جینے والے انسانوں کو کئی زاویوں سے دیکھا ہے اور دکھایا ہے۔ وہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا تعارف اور حوالہ ہے۔ ایسی ہی کئی خوبیاں علی امام نقوی کو ایک معتبر افسانہ نگار کے طور پر مستحکم کرتی ہیں۔