Mushtaq Momin ki Afsana Nigari by Dr. Raunaq Raees

Articles

مشتاق مومن کی افسانہ نگاری

ڈاکٹر رونق رئیس

بنکروں کی بستی اور ہندوستان کا مانچسٹر کہلانے والا شہر بھیونڈی کے واجد محلہ میں پیدا ہونے والے مشتاق مومن اپنے افسانوں کے خوبصورب اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں ۔انھوں نےاپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ممبئی کا رُخ کیا اور اسماعیل یوسف کالج ، جوگیشوری ممبئی میں داخلہ لیا ۔یہیں سے ان کی ادبی سرگرمیاں شروع ہوئیں ۔
حالانکہ۱۹۸۴ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ رت جگوں کا زوال ‘‘ منظر عام پر آیا لیکن ان کے افسانے رسائل و جرائد میں پہلے سے شائع ہورہے تھے اور مشتاق مومن کا شمار ۱۹۷۰ کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ہونے لگا تھا ۔ افسانوی مجموعہ ’’رت جگوں کا زوال ‘‘ کے بعد کے افسانے ان کی موت کے بعد ۲۰۱۳ء میں ان کی بیگم فریدہ نے شائع کروائیں ۔ اس مجموعے کا نام ’’تازہ خون میں ملی ہوئی مٹی ‘‘ ہے ۔ فریدہ مومن نے ’’ بھولی بسری یادو ں ‘‘ کے عنوان سے مشتاق مومن کی زندگی کے واقعات پر روشنی ڈالی ہے ۔
ساجد رشید ہی کی طرح مشتاق مومن بھی ممبئی کے ایک حساس افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’’رت جگوں کا زوال‘‘ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کامظہر ہے۔ اس میں کل چودہ افسانے اور سریندر پرکاش کا تحریرکردہ دیباچہ شامل ہے۔ سریندرپرکاش نے اپنے دیباچہ میں مشتاق مومن کی افسانہ نگاری کی تحسین کرتے ہوئے اردو افسانہ کے حوالے سے عالمی افسانہ کی صورتِ حال کا جائزہ لیا ہے۔
مشتاق مومن کے افسانوں میں سماجی وجدان کی فضا پائی جاتی ہے۔وہ مشکل پسندی سے زیادہ سہل اور سادہ اسلوب کو پسند کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں انسانی اقدار میں تنزل سے بیزاری اور قتل وغارت گری سے تنفر،سیاسی چال بازیوںکے خلاف احتجاج اور نیچر سے محبت کی کہانیاں ملتی ہیں۔بحیثیت افسانہ نگار ان کا شمار ۱۹۷۰ء کے بعد کے اہم لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔مشتاق مومن کے افسانوںمیںتہذیب کی انحطاط پذیری ،اخلاقی قدروں کی گراوٹ ، ریاکاری جیسے اہم موضوعات پائے جاتے ہیںاور ان موضوعات کے اظہار کے لیے ایک احتجاجی و انحرافی اسلوب کو متعارف کروانے کی کوشش نظر آتی ہے۔انھوں نے تمثیلی ،استعاراتی اور بیانیہ افسانوں کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کی۔
رت جگوں کا زوال، کریم لگا بسکٹ اور چیونٹیاں ،فرذوق کہاںجائے گا؟، قصۂ جدید حاتم طائی میںاپنے عہد کی سماجی برائیوں پر نشتر زنی کی گئی ہے۔ان کے افسانے اپنے عہد کے تاریخی ،سماجی، معاشی ا وراقتصادی تجربات کے پس منظر کو پیش کرتے ہیں۔
ان کا افسانہ ’’کریم لگا بسکٹ اور چیونٹیاں ‘‘ ایک بیانیہ افسانہ ہے۔اس میں قربانی کے جذبے کی ایک انوکھی داستان بیان کی گئی ہے۔افسانہ نگار نے اس افسانے میں نہایت خلاقی سے ایک جلے ہوئے مزدور کے احساسات کو کہانی کے روپ میں پیش کیا ہے۔ بری طرح جل جانے کے باوجود زندہ رہنے والامزدور اسپتال کی تنہائی میںاپنے ہاتھوں سے اپنے نتھنوں میں لگی ہوئی آکسیجن کی نلی اس امید پر ہٹا دیتا ہے کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں کوایک موٹی رقم بطور معاوضہ مل جائے گی۔
وہ دھاراوی میں رہنے والا ایک غریب انسان ہے جوہربار اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اورہربار نیچے گرجاتا ہے۔ گھر میں اس کی بیوی اور جوان بیٹیاں ہیںجن کاسارادارومداراس غریب مزدورپرہے۔غریبی اور ناداری کے علاوہ حالات کی مار نے اس کی بیوی کواپنے وقت سے پہلے بوڑھابنادیا ہے۔ بیٹیاں ایک پہاڑ کی طرح اس کے سینے پر سوار ہیں۔ان کی شادی کی فکر اسے ہر وقت اور لمحہ ستاتی ہے۔اس کے علاوہ ایک پکے گھر کی تعمیر کا خواب آنکھوں میں لیے وہ اپنی زندگی سے جھوجھ رہاہے۔ حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ ایک دن وہ ٹرین کے حادثے میں بری طرح جل جانے کے بعد اسپتال میں داخل ہوجاتاہے ۔ اسپتال کے قریب ایک نیم کا پیڑہے جسے وہ تکتا رہتاہے اور اس کے سرہانے تپائی یا ٹیبل پر رینگتی ہوئی چیونٹیاں ہمیشہ اس کی نظروں کامحور بنی رہتی ہیں۔
یہاں افسانہ نگار نے کہانی کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک دن وہ پلیٹ میں ایک کریم لگا ہوا بسکٹ رکھ دیتا ہے اور پھر اس پلیٹ کو دوسری پلیٹ جس میں پانی بھراہوتا ہے، میں رکھ دیتا ہے اوردیکھتا ہے کہ چیونٹیا ں پلیٹ کے آس پاس رینگنا شروع کردیتی ہیں۔ بسکٹ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں چیونٹیوں کو پانی پر سے گزرنا ہے۔اس عمل میںکئی چیونٹیاں مرجاتی ہیںاور مری ہوئی یہ چیونٹیاں دوسری چیونٹیوںکے لیے پانی پر پل کاکام دیتی ہیں اس طرح یہ مردہ چیونٹیاں ان زندہ چیونٹیوںکے لیے روزی روٹی کا سبب بنتی ہیں۔
دراصل چیونٹیوں کاعمل عام انسان کے لیے جدوجہد کی علامت ہے۔ اسی وقت افسانے کے کردارکے ذہن میںیہ خیال آتا ہے کہ اسے بھی اپنی جان کانذرانہ پیش کرکے اپنے گھر والوں کی بہتری اور خوشحالی کاذریعہ بننا چاہیے ۔اسے اس بات کاعلم ہے کہ ٹرین میں ہلاک ہونے والوں کو حکومت کچھ معاوضہ دینے والی ہے۔لہٰذا وہ آکسیجن کی نلی کواپنے نتھنوں سے ہٹا دیتا ہے اور گھر والوں کے لیے قربانی کامظہربن جاتا ہے۔
ان کادوسراافسانہ’’ ایک لمبی قبر‘‘ بھی بیانیہ افسانہ ہے۔اس کی کہانی ماضی کے واقعات کے سہارے آگے بڑھتی ہے اورجب حال میں لوٹتی ہے تو جنازہ ،قبر ،قبرستان اور شریک جنازہ لوگوں کے حالات کاپتہ دیتی ہے۔ اس میں میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین کے حوالے سے کہانی کو اثرانگیز بنایاگیا ہے۔ بچپن کی یادوں کے حوالے سے راوی اس افسانے کے مرکزی کردار کی ذہانت ، حالاتِ زندگی ، اس کی مالی مجبوری اور بالآخر موت کو خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے۔ جس میں عام مذہبی انسانوں کی دو رخی زندگی پر چوٹ کی گئی ہے۔ بچپن میں دین سے تعلق اور جوانی میں دین سے بیگانگی اور بے راہ روی ، مذہب کو محض ایک رسمی شے سمجھنے والوں پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔مشتاق مومن نے تدفین کے منظر میں ایک کرب کی کیفیت بھردی ہے۔ کہانی کا اختتام جہاں ایک دوست کے احساسِ ندامت کو پیش کرتا ہے ،وہیں پر قاری کو اپنے سماجی رویے پر خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے۔
افسانہ ’’آسیب‘‘ غربت ،حالات کے جبر اور معاشی وسیاسی نظام پر گہراطنز ہے۔ افسانہ کا کردار ایک آسیب سے ڈرا ہوا ہے۔دراصل یہ ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ ہے۔آسیب اس کردار کے گھر دکھائی دیتا ہے۔کبھی وہ پیسہ رکھنے کے ڈبے میں گھس جاتا ہے ،کبھی راشن کے ڈبے میں،تو کبھی کپڑے کی پیٹی میںاور ہر دن اس کے گھر کی تمام اشیا مقدار میں کم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔دیکھا جائے تو آج کی اس مہنگائی کے دور میں ہر آدمی اس آسیب کے سحر میں ہے۔جب اس کردار کو خبر ملتی ہے کہ آسیب پر قابو پالیا گیا ہے تو وہ وہاں جاکر دیکھتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ آسیب کا پکڑا جانا صرف لوگوں کے دلوںکو تسلی دینا اور اس خیال سے بہلانا ہے۔ وہاںباقاعدہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ آسیب پر قابو پالیا گیا ہے لیکن حقیقتاًایسا کچھ بھی نہیںہے۔یہ افسانہ سیاسی نظام اور اس کی پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔اس میں افسانہ نگارنے افسانے کے فن اور اس کے تقاضوں کواشارے اور کنائے کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے برتا ہے اورفنی مہارت وفنی چابکدستی سے کہانی کی بنت کی ہے۔دراصل ہمارے ملک میںایسے کرداروں کی کوئی کمی نہیں ۔عام آدمی رات دن غریبی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔وہ تلاشِ معاش میں سرگرداں رہتا ہے۔غریبی کی سطح کے نیچے زندگی گزارتاہے۔اس کے گھرپرتنگدستی ہمیشہ دستک دیتی ہے۔اکثر وہ بھوکا سوتا ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار وہی عام آدمی ہے ۔وہ ملک کے لاکھوں لوگوں کی ذہنی صورتِ حال کا نمائندہ بن کرسامنے آتا ہے۔ اس کہانی کا تعلق اقتصادی ومعاشی بدحالی ہے اور کہانی میں سائے کو گرفت میں لینے کی کوشش اورسسٹم کی جانب سے پیدا کیا گیا ابہام کہانی کے موضوع کو دلچسپ بناتا ہے اور Stablishment پر ایک گہراوارکرتا ہے۔
’’دوسرے انسان کا زوال‘‘یہ افسانہ ایک تخلیق کار کے کرب کا بیانیہ ہے ۔اس افسانے کا موضوع کہانی کی تلاش ہے۔یہاں تخلیق کار نے اپنی خلاقانہ بصیرت کا بھرپوراستعمال کیا ہے اور مختلف مقامات پر بڑے ہی معنی خیز لیکن ہلکے اشارے کیے ہیں۔
ان کاافسانہ’’موز‘‘ کی کہانی ایک شریف عورت کی دردناک کہانی ہے جوغربت سے تنگ آکر مجبوری کی حالت میں گلف چلی جاتی ہے اور عرب آقا کے ہاتھوں عصمت گنواکر واپس لوٹتی ہے۔ یہ عورت جب ہندوستان میںرہتی ہے تو انتہائی کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزارتی ہے اور جب گلف سے لوٹتی ہے تو اس کی مالی حالت، اس کا لباس، اس کے گھر کی آرائش کو دیکھ کر سب کی نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں۔تمام لوگ اسے دیکھ کر رشک کرتے ہیں۔اپنی نظروں سے اسے سراہتے ہیںلیکن کبھی اس کے دل کی حالت سمجھ نہیں پاتے۔ یہاں تک کہ اس کا بے روزگار اور تپ دق کے مرض میںمبتلا شوہراس سے بے اعتنائی کا اظہار کرتا ہے تب وہ تڑپ کر رہ جاتی ہے ۔اسے ہمیشہ اس کاضمیر کچوکے لگاتے رہتا ہے۔گلف میںاپنے جنسی استحصال کے واقعے کووہ فراموش نہیں کرپاتی۔اندرہی اندر وہ کڑھتی رہتی ہے۔وہ اپنی عفت اور عصمت کے تار تار ہونے کا ذکر بھی کسی سے نہیں کرپاتی۔ اسی کشمکش کو افسانہ نگار نے نہایت خوبصورت اور مناسب پیرائے میں بیان کیا ہے۔
اس افسانے کاکردار عائشہ اپنی معاشی مجبوری کے تحت مڈل ایسٹ اس لیے جاتی ہے کہ وہ اپنے بیمار شوہرکاباقاعدہ علاج کرسکے لیکن گلف کی زندگی اس کے لیے ذلت کاباعث بنتی ہے۔دولت کی دیوی اس کے در پر دستک تودیتی ہے، شوہربھی تندرست ہوجاتاہے مگر وہی شوہرعائشہ کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے اور پیراسائٹ بن کرعائشہ کاخون چوس چوس کرزندہ رہتا ہے۔
ان کےافسانوی مجموعہ ’’رت جگوں کا زوال ‘‘کے بیشترافسانے تلخ حقیقت نگاری کی واضح مثال ہیں۔ سلام بن رزاق نے اپنے مضمون ’’مشتاق مومن اور رت جگوں کا زوال‘‘میں تحریرکیا ہے۔
’’ سماجی حقیقت نگاری اردوافسانے کی تاریخ میںکوئی نئی چیز نہیںہے۔۔۔۔۔پریم چند سے لے کر کرشن چندر تک اور اس کے بعد بھی کئی افسانہ نگار وں نے زندگی کے بے شمار گوشوںکوحقیقت نگاری کے چراغوں سے روشن کیا گیا ہے۔مشتاق مومن نے بھی انہیں چراغوں سے اپنا چراغ جلایا ہے تا ہم اس چراغ کی روشنی میں زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کی نگاہ ان کی اپنی ہے۔‘‘
اس افسانے میں کردار حافظ رحمت علی کاذکرہے جو نہایت نیک ،سادہ لوح اور دردمند ہے۔وہ مخالفین کی بدگمانی اور ان کی گھنائونی سازش کی وجہ سے بدنام ہوجاتا ہے اوراسے سماج میںبدکردارکے طورپرپیش کیاجاتاہے۔افسانہ نگارنے اس کہانی میںبچپن کی یادوںکواجاگرکیاہے اور سماجی واخلاقی قدروںکی پامالی پرچوٹ کی ہے۔ساتھ ہی ساتھ سسٹم کی بدعنوانیوںکو بھی طنز کانشانہ بنایا ہے۔اس کہانی میں فساد ات برپاہونے سے پیشتر جوتنائوپیداہوتاہے اس ماحول کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ ان کے افسانے ’’ہرے بھرے درخت، شطرنج،پرندے اور انقلاب‘‘ کمزور افسانوںکے زمرے میںآتے ہیں۔ان میں علامتوں کاسہارالے کرافسانہ نگار نے ایک تاثرپیداکرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔یہ افسانے علامتی افسانوں کے معیارپرپورے نہیں اترتے۔ البتہ اس میں اس عہدکا کرب اور حسیت کودیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے افسانے قاری کے لیے ابلاغ کا مسئلہ نہیں پیدا کرتے۔ وہ زندگی کی بے ثباتی کو علامت اور استعارے کی عینک سے دیکھنے کے بجائے برہنہ آنکھوں سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ انہیں کہانی کہنے کا فن آتا ہے اورا ن کے یہاں ان جذبوں کی کارفرمائی شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے ۔ان کے پاس خلاقانہ بصیرت ہے اور وہ اس کا استعمال بھی نہایت فن کارانہ اندازمیں کرتے ہیں۔وہ افسانہ نگاری کے اصولوں کوبروئے کار لاتے ہوئے کہانی پراپنی مضبوط گرفت رکھتے ہیںنیزان کے یہاں سیاسی نظام کے خلاف احتجاج کی صدا صاف طورپر سنائی دیتی ہے۔
ان کاافسانہ ’’فرذوق کہاں جائے گا ؟‘‘ ہمارے عہد کے سیاسی جبرکا بیانیہ ہے۔ افسانے کا کردار فرذوق کے پیر میں لگا ہواپلاسٹراوراس میں کھٹملوں کی افزائش، ہمارے سماج پرایک تازیانے کی حیثیت رکھتاہے۔کھٹمل جوخون پرپلتے ہیںاوراپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔فرذوق راوی کا دوست ہے لیکن کسی کوبھی فرذوق کے پیر میں فریکچر آنے کی وجہ نہیں معلوم۔ دراصل یہاں افسانہ نگار نے بیانیہ طرز پر اشاراتی اسلوب کااستعمال کیا ہے۔دراصل فرذوق کے پلاسٹر میں گھُسے ہوئے ایک کھٹمل نے کئی کھٹملوں کااضافہ کردیا ہے اور ان کھٹملوں نے بہت سارے انڈے دیے ہیں جن سے ان کی نسل بڑھنے والی ہے۔
یہ افسانہ انتہائی دلچسپ ہے ۔ کہانی پیچیدگی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ یوں بھی زندگی ایک بوجھ ہی تو ہے جسے خوشی کے ساتھ کوئی اٹھانا نہیں چاہتا۔ ہر گام پر وہ اس بار گراں کو نہ چاہتے ہوئے بھی گھسیٹتا رہتا ہے جس سے اس کی ذات اور اس کی روح فریکچر ہوجاتی ہے اور اس فریکچر کی کوئی ایک وجہ نہیںہوتی۔اس کہانی میں تہہ داری کا عنصر نمایاں ہے۔
افسانہ ’’ادھوراگیان‘‘ قدیم ہندوستانی فلسفے اور موجودہ سماجی ،سیاسی شعور کے تقابل سے تیارکی گئی ایک کہانی ہے جس میں مہاتما گوتم بدھ کی تعلیم اور فلسفے کو عصر حاضر کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔اس کہانی میں فنکار نے تخلیقی بصیرت اور خلاقانہ ذہنیت کاخوبصورت ثبوت پیش کیا ہے۔اس کہانی کا کردار سدھارماایک گہری ہیجان میں مبتلا ہے۔ اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، خواہشات اس کے سامنے دست بستہ کھڑی رہتی ہیں۔پھر بھی وہ راج گرو کی اس بات سے پریشان ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیز کی خواہش نہ کرو جو تمہاری پہنچ سے باہر ہو۔ ایک حادثہ میں رانی سلونی سدھا رما کی ماں رانی چندرا کی جان بچاتی ہے۔تب رانی چندرا اس سے کہتی ہے’’جو مانگنا ہو مانگو۔‘‘ تب موقع سے فائدہ اٹھا کر رانی سلوچنا اپنے بیٹے کے لیے راج گدی کی مانگ کرتی ہے۔ دراصل جس کا اختیار سدھا رما کوتھا اور سدھا رما جب جنگل سے گرفتار کرکے لائے جاتے ہیں تو ان کی شخصیت میں کافی تبدیلی آچکی ہوتی ہے۔ رانی اسے سمجھاتی ہے کہ اسے خاندانی بادشاہت کاسلسلہ قائم رکھنا ہوگا۔اس لیے اسے بادشاہ بننا ہوگا۔وہ کہتی ہے کہ پرجا اور راجا ندی کے دوکنارے ہیںجو کبھی آپس میں نہیں مل سکتے۔ندی کے وجود کے لیے دونوں کا نہ ملنا ہی ٹھیک ہے۔
یہاں افسانے کی ہیئت اور کردار کے تجزیہ کی صورت میںایک نیا تاثر پیداہوتا ہے۔ سدھارماکے لیے یہ ہیجانی کیفیت جس میں وہ مبتلا ہے اس سے انصاف کا تقاضا کرتی ہے ۔سدھا رتھ کی طرح وہ جاننا چاہتا ہے کہ شانتی اور گیان سے موہ مایا کی طرف جایا جائے یا موہ مایا کو تج کرگیان اور شانتی میں دھیان لگایا جائے اورپھر سدھارما راج گدی پر اپنے ادھیکار کی بات کرتا ہے ۔تب راج گرو ہڑبڑا کر سوال پوچھ بیٹھتے ہیں کہ تمہارے گیان کا کیا ہوگا؟جواب میں سدھا رما کہتے ہیںکہ ہر یگ کو اس کے حساب سے گیان کی ضرورت ہوتی ہے۔اس یگ کے لیے یہی گیان کافی ہے۔
دراصل یہ کہانی ہمارے سماجی اور علمی اسٹرکچر پر تنقید کرتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ہمارے عہدکے سیاسی پس منظر کا پردہ بھی فاش کرتی ہے۔
افسانہ ’’مردم گزیدہ‘‘ میں مشتاق مومن نے ایک کتے ’’ڈاگی ‘‘کے حوالے سے ظلم کے خلاف فطری ردعمل کوظاہر کیا ہے۔ کہانی کی شروعات ڈاگی کی پیدائش سے ہوتی ہے۔
’’ ایک عورت نے جس کی شادی نہیں ہوئی تھی ایک بچے کو جنم دیااورخودمرگئی۔ پڑوسیوں کو اس کی اطلاع ہرگز نہ ہوتی لیکن ہنگامہ اس طرح شروع ہواکہ پہلے ۔۔۔۔۔
نوزائیدہ بچہ رویا۔۔۔۔۔
پھر اس کی ماں روئی۔۔۔۔۔
پھر دائی روئی اور اس کے بعد بہت ساری عورتوں نے رونا شروع کردیااور جب تمس زور سے چیخا تو چند سوئے ہوئے لوگ بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔دراصل چند رنا ایک کچرا چننے والی عورت تھی اور تمس کا گزر بسر چندرنا کی کمائی پر ہوتا تھااور اس کا بچہ اس کی دونوں ٹانگیں پتلی پتلی تھیں جسے دیکھ کر تمس کو غصہ آجاتا ہے کہ اب اس کو کماکر کون کھلائے گا۔ اس لیے وہ بچے کی دونوں ٹانگیں پھینک دینا چاہتا تھا۔ چندرنا کی منھ بولی بہن کُنتی بچے کو دوپہر کا دودھ پلاتی اور تمس سے کہتی :
’’اس گل گوتھنے بچے کو سنبھال میت پڑے، بڑے برے دنوں میں یہی تیرے کام آئے گا۔‘‘
’’تیرا آدھا جسم تو سڑا ہوا ہے رے۔۔۔۔۔‘‘
مصنف نے ڈاگی کے محروم بچپن کاتذکرہ بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔چندرنا کی منھ بولی بہن جب باہر جاتی تو ڈاگی کے پائوں میں رسی باندھ کراس کاایک سرا کھاٹ سے باندھ دیتی۔ایک د ن شہر میں فساد پھوٹ پڑتاہے۔ اکیلا بچہ کھاٹ سے بندھا ہوا بھوکا پیاسا روتا رہتا وہیں پر کُنتی کی پالتو کتیا بھربھری زمین پر گڈھابنائے،پیر پسارے لیٹی تھی۔ کتیا کے پلے دودھ پی رہے تھے۔ دودھ کی میٹھی خوشبو اور بھوک نے اسے اس کتیا کے دودھ کے پینے پر مجبور کردیا۔ کتیا نے ایک نظر اس کو مڑ کر دیکھا ، پھر آسمان کی طرف سر اٹھاکر رونے لگی گویا کہ انسان اور اس کی محرومیوں کاشکوہ خداسے کررہی ہے۔جب تک شہر میں فساد رہا،وہ اسی کتیا کے دودھ سے سیراب ہوتا رہا۔ جب یہ بچہ چلنے لگا،تمس نے اس کے ہاتھ میں بھیک مانگنے کی پیالی تھما دی۔
بچے کا کتیا کے دودھ پر پلنا،کہانی کو ناقابلِ یقین بناتا ہے اور کس طرح ڈاگی کی نفسیات متاثر ہوتی ہے اور اس کے اندر کتوں کی جبلت کے نقوش نمودار ہوتے ہیں ،اس سے برطرف اگر چہ دیکھا جائے تو یہ کہانی معاشی بدحالی اور انسان کے جانور میں بدل جانے کی کرب ناک کہانی ہے اور مردو عورت کے رشتے کی ایک انتہائی تکلیف دہ صداقت کی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔انسانی بحران کا ذمہ دار انسان ہی ہے یا کوئی اور ؟ یہ قاری کو طے کرنا ہے۔مغنی تبسم ’’مردم گزیدہ ‘‘ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’دورِ حاضر میں انسانی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید آدمی اس کرہ ارض پر سب سے ارذل مخلوق ہے اور یہ قول متناقص ہے کہ خود کو اشرف المخلوقات کہتااورسمجھتا ہے۔فطرت اور حیوانی دنیا سے ایک غیر فطری اور جارحانہ علیٰحدگی کا عمل مسلسل ہے جسے ہم انسانی تہذیب کے ارتقا کانام دیتے ہیں۔ نام نہاد انسانیت کا نصب العین اعلیٰ حیوانی قدروں سے دست بردار ہوجاناہے۔ چنانچہ آج انسان اپنا مستندوجود کھو کر ایک تجرید بن گیا ہے۔ مشتاق مومن کی کہانی ہم کو موجودہ دور کی اسی انسانی صورتِ حال کے دوبدو لاکھڑا کرتی ہے۔‘‘
افسانہ ’’ہرے بھرے کھیت ‘‘اس آدمی کی کہانی ہے جو نہایت سادگی اور عدم تشدد سے زندگی گزارناچاہتا ہے۔ اس نے کبھی کسی پرندے کو نہیں مارا، کبھی کسی ہرے بھرے درخت کو نہیںکاٹا۔اس لیے وہ ساتھیوں میں بیمار کہلاتا ہے۔ مصنف نے یہاں ایک مشہور لوک کہانی سے استفادہ کیا ہے۔جس میں ایک غریب آدمی کی کلہاڑی ندی میں گرجاتی ہے۔پھر ایک پری نمودار ہوتی ہے۔وہ پہلے اسے ندی سے ایک سونے کی کلہاڑی لاکر دیتی ہے۔غریب شخص ایماندار ہے،کہتا ہے یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔پھر وہ اسے چاندی کی کلہاڑی لاکر دیتی ہے۔وہ شخص اسے بھی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کلہاڑی بھی اس کی نہیں ہے۔پھر وہ پری اسے لوہے کی کلہاڑی دیتی ہے۔تب وہ شخص اس کلہاڑی کولے لیتا ہے۔اسی دوران ایک انجانی آواز اس کے کانوں میں کہتی ہے کہ تم اس کلہاڑی سے ہرے بھرے درختوں کوکاٹ دینا چاہتے ہوجبکہ ہرے بھرے درخت زندگی کی علامت ہیں۔چونکہ اس غریب شخص کادل ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔تب وہ سوچتا ہے کیونکر وہ کسی پر ظلم کرسکتا ہے۔جبکہ اس نے کبھی کسی جاندار شے کونہیں مارا۔اس سے یہ خطا کس طرح سرزد ہوسکتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فتوحات کے سلسلے ظلم وجبر اور سفاک راہوں سے گزر کر طے کیے جاتے ہیں۔ہر عہد میں جابر کی فتح اور مظلوم کی شکست فاش ہوتی آئی ہے۔غریب شخص پرجب یہ عقدۂ راز کھل جاتا ہے تب وہ خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ ظاہری طور پر یہ کہانی حقیقت سے دورمعلوم ہوتی ہے۔البتہ انجانی آواز کے حوالے سے فنکار نے زندگی کی سچائیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
افسانہ ’’شطرنج،پرندے اور انقلاب ‘‘میںایک بادشاہ ہے جواپنے محل میں شطرنج کھیل رہا ہے۔ شطرنج کی بساط پر مہروں کی جگہ وزیر ، غلام ، کنیز ، ہاتھی، اونٹ ، پیادے کا روپ لیے کھڑ ے ہیں اور تبھی بادشاہ کو پتا چلتا ہے کہ عوام نے بغاوت کردی ہے۔ بادشاہ کو اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے اس بات کا افسوس ہے کہ عوام باغی ہوچکی ہے، بلکہ یہاں افسانہ نگار بادشاہ کے ذریعہ اس تصویر کو دکھاتا ہے جو دیوار پر چسپاں ہےجس میں ایک دبلا پتلا گورا آدمی دوانتہائی طاقت ور اور تندرست بیلوں پر سوار ہے اور انہیں متواتر چابک ماررہا ہے اور بیل چابک کی سان پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔
مصنف نے یہاں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ برسراقتداراپنے کامیاب اور کارآمد حربے کب استعمال کرسکتا ہے۔ اس کہانی میں ابہام کی فضا موجودہے۔اس ابہام کے پردے میں افسانہ نگار نے فنکارانہ تخلیقیت کا سہارا لے کر ایک سادہ خیال کو قصے کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ جب بادشاہ اس تصویر کو دیکھتا ہے تووہ مسکراتا ہے اور ایک چال چلتا ہے ۔ دوسرے ہی لمحے بیگم کابادشاہ ،چاروںخانے چت ہوجاتا ہےجسے دیکھ کر بیگم حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔یہ کہانی عصرحاضرمیںسیاسی حربوں کے استعمال اور اسکے دائوں پیچ کی زندہ مثال بن کر سامنے آتی ہے۔اسے ماضی اور حال کے تناظر میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔
’’جاتے ہوئے لوگ‘‘ نامی افسانہ جنگ کی تباہ کاری اور بربادی کا تذکرہ ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ جنگ کے ذریعے مسئلوں کوحل کیا جاسکتا ہے لیکن بقول ساحرلدھیانوی ’’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے‘‘
جنگ کے سبب انسان مصائب کے دلدل میں دھنس جاتا ہے اور بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتا ہے۔جنگ آدمی کے ذریعے آدمی کے استحصال کادوسرا نام ہے۔جس سے انسانیت شرمندہ ہوتی ہے۔مشتاق مومن کی یہ کہانی عام آدمی کے ضمیر اور اس کی زخمی روح کی پکار ہے۔انھوں نے فوجیوں کی گفتگو کے حوالے سے اس کہانی کا خمیرتیار کیا ہے اور اس سپاہی کے دل کے درد کوبھی بیان کیاہے جو جنگ کی ہولناکیوں سے نالاں ہے۔
مشتاق مومن نے اپنی کہانیوں کا آغاز بھیونڈی سے کیا ۔فسادات کے موضوع پر’’ مردم گزیدہ‘‘ جیسا خوبصورت افسانہ لکھا۔ دھیرے دھیرے جب انھوں نے ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تو یہاں کا ماحول اور یہاں کی زندگی ان کے افسانوں کے موضوعات میں شامل ہوگئی۔ ۱۷؍ رجب ۱۴۰۳ہجری اسی شہر بے خلوص کی کہانی ہے جس میں تُرسکر نام کاکردار ایک مظلوم انسان ہے۔ صنعت کاروں کی مکاریاں اور غریبوںاورمزدورطبقے کی بے بسی کو اس کہانی میں مشتاق مومن کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں اسٹیم رولر میں دب کر ٹورسکر جو ممبئی کے ہندو متوسط طبقے کا ایک فر دہے،دم توڑ چکاہے اور اس بھرے پرے شہر میں اپنی پتنی اور دو بچوں کو بے سہارا ،بے یارومددگار چھوڑ کر جاچکا ہے۔اس افسانے میں انھوںنے لال باغ کے نچلے ہندو طبقے کی عکاسی کی ہے۔ لال باغ مزدوروں، مل مزدوروں اور غریبوں کی بستی ہے۔
’’رت جگوں کا زوال ‘‘مجموعے کاٹائٹل افسانہ ہے۔اس کی جزئیات میں مسلم معاشرہ اور مذہبی اقدار کی بھرپور نمائندگی کااظہار ہے۔ رحمت علی نامی کردارکاخاندان تقسیم کے دوران بکھر جاتا ہے۔ان کابڑا بھائی پاکستان اورمنجھلا بھائی مغربی پاکستان (جو اب بنگلہ دیش ہے) ہجرت کرچکا ۔ رحمت علی ہر وقت اکھنڈ بھارت کی یادوں کو سینے سے لگائے رہتا ہے۔ اسے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب سے محبت ہے۔وہ اسے اپنی میراث سمجھتا ہے۔ اس کہانی میں فسادات کے سبب دو فرقوں کے درمیان مذہب کی حائل خلیج کا ذکر ہے۔یہاں مسجد ذاتی مفاد کا ذریعہ بن جاتی ہے۔انسان کی ارزل صفات اس کہانی کا مرکزہے اور وہ دوسرے کردار امام بخش کے حوالے سے ظاہر ہے۔
مشتاق مومن ممبئی کے کلچر کی خصوصیات اور یہاں کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی جھلکیوں کے ذریعہ ممبئی کی ایک مکمل تصویر سامنے رکھ دیتے ہیں مثلاً کولہا پوری تمباکو اور چونانکال کر ہاتھوں پر مسلنے والا کردار ٹورسکر کی کھولی میں شری ہنومان کی تصویرپر جوایک پہاڑ ہاتھ میں اٹھائے ہوا میں اڑ رہاہے۔ نچلے طبقے کے گھروں میں ٹیپ ریکارڈ کا بجنا، ہندماتا ٹاکیز کا ذکر، مل مزدور وں کی ہڑتال ، وشنو بیڑی اور شیواجی بیڑی کا تذکرہ، اشتعال انگیز نعرے ۔۔۔ ’رام ہوگا روٹی ہوگی ، جن سنگھ کی یہ نیتی ہوگی‘۔۔۔کے علاوہ زندگی کے مختلف گھنائونے پہلوئوں کی تصویر کشی میں مشتاق مومن جزیات کو نہیں بھولتے اور سماجی حقیقت نگاری سے کام لیتے ہیں۔