Muqaddar Hameed : Shoor Angezi ke Beghair Kahaniyan

Articles

مقدر حمید: شور انگیزی کے بغیر کہانیاں

اقبال مجید

مقدر حمید کا پہلا افسانوی مجموعہ ’زربیل‘ ۸۹ کے اواخر میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ جس میں ڈیڑھ درجن کہانیاں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق آٹھویں دہائی میں سامنے آنے والے افسانہ نگاروں میں کیا جاسکتا ہے۔
اردو فکشن کا باشعور قاری اس حقیقت سے واقف ہے کہ آٹھویں دہائی تک آتے آتے اردو افسانہ دو اہم ادبی رجحانات سے گزر چکا تھا جنھیں ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے رجحان سے پہچانا جاتا ہے۔ ان دونوں رجحانات کی اپنی اپنی خصوصیات تھیں جن پر برسوں بحثیں ہوئی ہیں اور دفتر کے دفتر لکھے گئے ہیں۔
آٹھویں دہائی کے لیے ادب میں نظریہ سازی کا عہد مشکوک ہوچکا تھا اور ادب اور پوسٹر کے لوازمات میں جو فنی فرق تھا اس پر چھائی ہوئی دھند چھٹ چکی تھی اور اس حقیقت پر ایمان لے آیا گیا تھا کہ کسی سیاسی نظریے کی گود میں پلا ہوا ادب اور ادب کی گود میں پلا ہوا کوئی نظریہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور آخر الذکر اوّل الذکر کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحسن ہے۔ افسانے میں در آئے ماضی قریب کے خطیبانہ رویے اور رومانیت زدہ نثر بھی فیشن سے باہر ہوچکی تھی۔ کرشن چندر وغیرہ کے افسانوی سرمائے کو کھنگالا جا چکا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کون سے اجزا ہیں جو افسانے کو فارمولا کہانی بناتے ہیں اور انھیں جذباتیت کی آنچ میں پگھلا کر ان کا حلیہ بگاڑ دیاکرتے ہیں۔ اس پر بھی باتیں ہوچکی تھیں کہ آدھی ادھوری زندگی کی سطح ترجمانی کا کھیل کھیلنایا علامت اور تجریدیت کے مکڑ جال تیا ر کرنے کا نام فکشن نہیں ہے۔ لاشعور کے نہاں خانوں کی سیر و تفریح میں جو بدسلیقگی اور معاشرے کے قومی مزاج کے خلاف جو بے اعتدالی برتی جاچکی تھی اس کے منفی نتائج بھی سامنے آچکے تھے اور اس طرح کی فکشن نگارکی ہی نہیں بلکہ افسانے کے قاری کی بھی جانے انجانے نئی تربیت اور تعلیم ہوچکی تھی۔ اس طرح افسانہ نگار اور افسانے کا قاری اس دہائی میں ایک صورتِ حال سے دوچار ہورہا تھااور قاری کے اپنے عہد کے افسانے سے جو مطالبات ہورہے تھے انھیں مہدی جعفر کے لفظوں میں یو سمیٹ دیا گیا تھا:
’’قاری دیکھے گا کہ افسانے کی پراسس کو جن سطحوں پر لے کر چلا ہے وہ سطحیں بخوبی اُجاگر ہوئی ہیں یا نہیں، اس لیے ہر سطح خوب ہونا چاہیے۔ محض پلاٹ کی بات نہیں ، بیان بھی، محض عمل ہی نہیں ردِّ عمل بھی، محض تفاعل نہیں تشکیل بھی، محض میڈیم ہی نہیں مقناطیسیت بھی ، محض واقعہ نہیں صورتِ حال بھی، محض کہانی نہیں عہدِ حاضر بھی، محض تخلیق نہیں نمائندگیِ اظہار بھی۔‘‘
یہی نہیں سن ۸۰ کی دہائی میں فکشن نگاروں نے زندگی جو کہ ادب کو خام مال مہیا کرتی ہے کی جانب سے لا ابالی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا بھی بند کردیا تھا جس کی جدیدیت کے رجحانات نے بنا ڈالی تھی اور خاطر خواہ پرورش کی تھی۔ یعنی زندگی کو مہمل اور بے معنی شئے بتایا گیا تھا، فرد اور ذات کو اولیت دے کر اس کے ڈھنڈھورے پیٹے گئے تھے جس کے نتیجے میں معاشرے کی خارجی زندگی ٹاٹ باہر ہوچکی تھی اور مزید یہ کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ فن میں ترسیل کا معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتاکیوں کہ ابلاغ کا عمل ایک پیچیدہ اور بعید از امکان عمل ہے۔ جدیدیت کے اندرون کے سیر سپاٹے کی بیماری کی حد تک بڑھ جانے والے شوق نے ادیب سے اس کے سماجی شعور کی پرکھ کرنا یہ کہہ کر بند کردی تھی کہ سماجی شعور پنساری کی دکان ر بھی مل جاتا ہے ، اب یہ بات افسانہ نگاروں کو قبول نہیں رہ گئی تھی۔ آٹھویں دہای کی نسل نے جدیدیت کے ایسے تمام منفی اثرات سے اپنا دامن جھاڑ لیا تھا اس نے افسانے کو پرکھنے کے وہ سارے پیمانے مسترد کردیئے تھے جن سے شاعری کو پرکھا جاتا تھا اور یہ انتظار کرنا بند کردیا تھا کہ نثر میں فکشن کو پرکھنے کے نئے پیمانے مرتب ہوجائیں تو وہ لکھنا شروع کرے کیونکہ ادب کے کاروبار تخلیق کو ہی اکثر تنقید کے آگے آگے چلنا پڑتا ہے۔
اس مختصر سے ادبی پس منظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو مقدر حمید اس دشت نوردی میں کم سے کم ۲۵ سال کا طویل تو پورا کر ہی چکے ہیں۔ انھیں اپنے دوسرے افسانوی مجموعے ’ابرکاری‘ کی اشاعت کے موقع پر غالباً یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے قارئین سے اپنا ادبی موقف اور اپنی ترجیحات کا ذکر کردیں چنانچہ انھوں نے ’عرضِ حال‘ کے طور پر کچھ ایسی پتے کی باتیں کہہ دیں جن سے افسانے میں ان کے فنی رویوں کا سراغ بھی مل جاتا ہے۔ جو ان کے فن کی تعین قدر میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اس کے مطالعے سے ان کا یہ خدشہ سامنے آتا ہے کہ ’ یہ جو مابعد جدیدیت کے زیرِ اثر سماجی سروکار اور سیاسی آگہی کا راگ الاپا جارہا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی زد میں افسانے کی لازوال فنی اور جمالیاتی قدریں آجائیں۔‘انھوں نے افسانے کے ’جادۂ معتبر‘ کی پہچان پہچان بتاتے ہوئے یوں کہا کہ ’’نامیاتی،افسانے کا سروکار زندگی کی بے معنویت سے نہیں بلکہ معنی آفرینی سے ہے، زندگی کو کلی صداقت کے روپ میں تسلیم کرنا اور معنی خیز لمحات کو تابندگی عطا کرنا ہی آج کے افسانے کا جادۂ معتبر ہے۔ ‘‘ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص ادبی تحریک یا رجحان سے نہ تو مرعوب ہیں اور نہ اس کے معتقد۔ ان کا کہنا ہے ’’عقیدت مندی بعض کے نزدیک وصف ہو تو ہو میری نظر میں اندھی عقیدت سے بڑی کوئی خرابی نہیں۔ شعوری طور پر کبھی کسی خاص تحریک ، کسی خاص گروہ کی پیروی کو شعار نہیں کیا، اپنی بات کہنے کے لیے کہانی کی تصویر کو جو بھی فریم راس آئی اسے اپنانے سے احتراز نہیں برتا، ہر تخلیقی سرگرمی تن دہی ، دیانت ، تمام تر محویت بلکہ جنون کی متقاضی ہوتی ہے۔‘‘
مقدر حمید کے افسانوی سفر کے تینوں ادوار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے کہ انھوں نے اپنی کہانیوں کے لیے بیشتر طور پر شفاف بیانیہ کی ہی راہ اپنائی ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کے افسانے زربیل، فریم سے باہر کی تصویریں، اداکار، دوریاں وغیرہ پھر دوسرے افسانوی مجموعے کے افسانے یاد گلی، ابرکاری، بدلتے موسم وغیرہ سب ہی کا بیانیہ صاف ستھرا ہے۔
زربیل سیدھا سیدھا بیانیہ تو ہے لیکن اس افسانے میں Money Plantیعنی زربیل کو آج کے معاشرے پر طنز کرنے کے لیے ایک خوبصورت اور بامعنی استعارہ بنایا گیا ہے۔یعنی جس طرح Money Plant کو دوسرے کے پاس سے چرا کر اپنے یہاں نہ لگایا جائے وہ بیل منفعت بخش ثابت نہیں ہوتی اسی طرح آج کی معیشت میں جب تک چوری چکاری نہ کی جائے وہ آسودہ حالی سے نہیں نوازتی۔ صرف زربیل ہی نہیں بلکہ وہ سارے افسانے جن کے عنوانات اوپر درج کیے گئے ہیں اور پھر نئے افسانوی مجموعے ’جل ترنگ‘ کے نمائندہ افسانے ’نَے چراغے ، نَے گُلے‘ دل کاری، شام نامہ، صبح گاہی ‘ وغیرہ سب ہی آج کے سماجی سروکاروں سے آراستہ ہیں۔
افسانہ ’ابرکاری‘ ایک شفاف بیانیہ ہے، یہاں بھی اگرچہ محیرالعقول واقعہ کو لے کر کہانی بُنی گئی ہے مگر اس کا سروکار اخلاقی اور سماجی ہے۔ مقدر حمید نے پیاسوں کو ان کی پیاس کی شدت میں بے دردی کے ساتھ پانی پلائے بغیر دروازے سے دھتکارتے ہوئے دکھایا ہے پھر ان معنی خیز لمحات کو کہانی کے اختتام میں نئی جلا بخشی ہے۔ کہانی اپنی بین السطور میں کہی ہوئی پائی جاتی ہے کہ دوسروں کو پیاسا رکھو گے تو قدرت تمھیں پیاسا رکھے گی۔ قدرت انسانوں سے ایسی ہی ابرکاری کی توقع رکھتی ہے۔
بدلتے موسم بھی ہمارے آج کے سماجی سروکاروں سے خای نہیں۔ بیٹا ایک غیر مسلم لڑکی سے محبت کی شادی کرنا چاہتا ہے، باپ اگرچہ مخالف ہے مگر لڑکے لڑکی کو ملنے ملانے کی آزادی دیتا ہے۔ لڑکے کی ماں آخرکار لڑکی کو پسند کرنے لگتی ہے مگر کچھ دنوں بعد لڑکا اور لڑکی خود ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان میں خاصی دوریاں ہیں اور شادی کے بندھن میں بندھنا مناسب نہ ہوگا۔افسانہ نگار کی نظر اس افسانے میں محض سماجی سروکاروں کے کسی پیٹنٹ نسخے اور اس کے ترکیب استعمال پر نہیں ہے یا یہ نظریہ سازوں کے کسی گروہ کی جانب سے مہیا کی گئی ساجی حقیقت نگاری کی کوئی لیکھ بھی نہیں ہے جس پر افسانہ نگار کو چلنے کا حکم ملا ہو۔ کہانی میں جواقع ہوا ہے یعنی لڑکے اور لڑکی کا یہ فیصلہ کرنا کہ شادی کرنا مناسب نہ ہوگا یہ افسانے کے کردروں کے اپنے اتصال اور ذہنی و جذباتی تصادم کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک مخصوص صورتِ حال میں جو کچھ واقع ہوا وہ غیر فطری اور قیاس سے باہر نہیں ہے۔ افسانہ اس واقعہ پر قاری کو اعتبار کرلینے پر مجبور کرتے ہوئے مزید غور و فکر کی راہ فراہم کرتا ہے۔ گویا مقدر حمید کے افسانوں کا پہلا وصف ہی یہی ہے کہ وہ خارجی دنیا سے مطابقت رکھتے ہوئے تخلیق میں داخلی ہم آہنگی کو قائم کرتے ہیں۔
مقدر حمید ، سریندر پرکاش کی طرح کبھی کبھی اپنے افسانوں کے عنوانات قائم کرنے میں تازہ کاری سے کام لیتے ہیں مثلاً ’ دل کاری‘ انھوں نے ایک اچھا لفظ گڑھاہے۔ افسانے کے موضوع او اس کے طرزِ اظہار دونوں میں ندرت اور تازگی ہے۔ Chat Shaow کی تکنیک کو استعمال کرکے افسانے کو بتدریج آگے بڑھایا گیا ہے جو دلچسپ بھی اور لائقِ توجہ بھی ، افسانہ بڑی خاموشی سے ایک سوال اپنے قاری سے پوچھ کر ختم ہوجاتا ہے اور وہ سوال ہے کاش سرجری کے ذریعے دل کی رگوں میں جس طرح خون کی روانی میں رکاوٹیں دور کی جاتی ہیں ویسے ہی سرجری کے ذریعے دل کی کدورتوں اور نفرتوں کو بھی کسی طور دور کیا جاسکتا۔
یہاں پر یہ یاس دلاتا چلوں کہ نئے عہد کے سائنٹسٹوں نے انسنا کو فطری طور پر Geniticallyاور Neorologically ناقص بتایا ہے۔ انسان سے ہم مطلوبہ نیکی کا عمل تب ہی چاہ سکتے ہیں جب ہم اس کے Genesمیں تبدیلی کریں۔
ان افسانوں کو پڑھ کر بعض جگہوں پر سب سے پہلے جو بات متوجہ کرتی ہے وہ افسانہ نگار کی زبان ہے۔ مقدر حمید ناصر بغدادی کی طرح کبھی کبھی بھاری بھرکم ، کتابی اور مجلسی ٹھپّے کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیںجو فکشن پڑھتے پڑھتے برک سا لگا دیتی ہے اور قاری ایک پل کو اس لفظ کو رک کر دوچار بار دہراتاہے تب آگے بڑھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کبھی کبھی ایسی نثر موضوع کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پڑھنے والے کویہ محسوس نہ ہونا چاہیے کہ افسانہ نگار نے خود زبان کا چٹخارہ لینے کے لیے عبارت آرائی کی ہے۔ مثلاً ’’ نہ سورج اُگے گا، نہ چاند کی نرم و سبک کرنیں اپنے لمس سے خوابیدہ سر شاریوں کو جگائیں گی۔‘‘
’’لیکن منظر کوئی سا ہو، دلکش، دل رُبا یا ہھر اندوہناک، اسے ثبات کہاں ، بھلے ہی قریب کے لمحات یادیں بن کر سینے میں ہوک اٹھائیں یا لمبی تاریک راتوں کے عفریت دل میں برچھیاں پیوست کریں۔ ‘‘ پرتکلف اور شاعرانہ زبان آج کی کھردری، سفاک اور برہنہ حقیقت بیان کرنے والے افسانوں سے خدا واسطے کا بیر رکھتی ہے اور ٹاٹ میں مخمل کا پیوند معلومہوتی ہیں۔ ان کے روایتی سحر اور حسن سے بچا جائے تو اچھا ہے حالانکہ مقدر حمید کے کئی افسانوں مثلاً زربیل، دوریاں، دلدل، اُڑان، بدلتے موسم وغیرہ کی زبان سادہ اور پُرکار ہے۔ ان لفظوں کے استعمال میں اختصار بھی برتا گیا ہے۔ مقدر حمید کے افسانوں کا وصف خاص طور پر قابلِ توجہ ہے ،اس کی طرف اشارہ کرنا اس موقعے پر ضروری سمجھتا ہوں ۔ بار بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے بعض افسانہ نگاروں کو مختلف ذرائع سے عصرِ حاضر کے مسائل سے متعلق سمیٹی ہوئی معلومات (Information) کو دماغ میں بھر لینے کا شوق ہے۔ ایک حیثیت سے یہ شوق اچھا بھی ہے لیکن اگر کوئی اس معلومات کو افسانے میں صحافتی انداز سے معاشرے کا Big Brother بن کر قے کردینا چاہے اور اسی پر اصرار بھی کرے کہ باقی دوسرے افسانہ نگار اس کے آگے بچے ہیں تو اسے صحافتی معلومات اور تخلیقی آگہی کے درمیان جو بنیادی فرق ہے اور جو ایک اچھے افسانے کو پڑھنے کا انعام ہے ، بتانا ہی چاہیے۔ مقدر حمید افسانے میں علم کے پٹارے اُنڈیل کر افسانے کا حلیہ نہیں بگاڑتے۔ بھلا وہ فن ہی کیا جو حسن پر لاٹھیاں برسانے لگے۔ مقدر حمید کے افسانے ، افسانے اس لیے ہیں کہ وہ افسانوی آگہی کی روشنی سے آراستہ ہیں، ممکن ہے اس روشنی کی تمازت جگنو کی چمک سے زیادہ نہ ہوکیونکہ بیا کے گھونسلے میں جگنو تو چمکایا جاسکتا ہے ، نصف النہار کا تمتماتا ہوا آگ اُگلتا سورج نہیں۔ افسانوی آگہی قاری میں ارتکاز کو بڑھاتی ہے، قاری اپنے اندر کچھ تبدیل سا ہوتا محسوس کرتا ہے، یہ تبدیلی اس میں نرم و نازک اور لطیف احساسات کو جگاتی ہے جو اسے آسودہ خاطر کرتی ہے۔برخلاف اس کے افسانوںمیں علم و معلومات کے وفور سے پیدا کیے جانا والا دبدبہ افسانے میں فنی طور پر جھول پیدا کرکے اسے بوجھل کردیتا ہے۔مقدر حمید کے بیشتر افسانوں میں کہیں جھول نہیں ملتا، وہ اخباری رپورٹنگ اور معلومات کے بوجھل وزن سے افسانے کو بچاتے ہیں۔ کیا نہیں لکھنا ہے اس پہلو پر برابر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے غیر ضروری طور پر طویل نہیں ہوتے ، وہ افسانے میں کسی موضوع کو بھوسے کی ٹھونستے نہیں ہیں بلکہ اسے افسانے کے Spaceکی مناسبت سے اتنی ہی جگہ دیتے ہیں جس میں اس کا دم نہ گھٹے۔ موضوع کو افسانے میں باعزت اور مناسب جگہ ملنا ایک اچھے افسانے کی پہچان ہے۔ اگر اس کی جگہ افسانہ نگار اپنی لیاقت اور قابلیت بگھارنے لگے تو افسان دُم دباکر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ آج ہمارے بعض افسانہ نگاروں میں یہ بد ذوقی عام ہے۔ مقدر حمید کے افسانوں کی بیرونی تشکیل اگرچہ سادہ بیانیہ سی ہوتی ہے لیکن وہ اس بیانیہ میں موقع محل دیکھ کر ایک ہلکا سا استعاراتی اور علامتی رنگ بھی ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کہ افسانہ چیستاں اور بھول بھلیاں نہ بنے۔ علامتوں اور استعاروں کو پر اثر اور تخلیقی اوزار کی طرح استعمال کرنا افسانوی فن کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ افسانے میں مکالمہ نگاری کا معاملہ فلم اور ڈراموں سے مختلف ہے، حالانکہ ایسے دوسرے میڈیم افسانوں کے مکالموں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ مقدر حمید کے افسانوں کے مکالمے ان بے لگام اثرات سے پاک ہیں لیکن افسانوں میں ان کی حیثیت کتنی تخلیقی ہے اور کتنی غیر تخلیقی یعنی مکالمہ برائے مکالمہ ہے یہ ایک الگ مسئلہ ہے ، مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ مکالموں کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
بہر حال اتنا تو طے ہے کہ سن ۸۰ کے افسانہ نگاروں کو اس بات کی نشاندہی کرنا ہنوز باقی ہے کہ وہ کن نمایاں اوصاف کے سبب اپنے سے پہلے کے افسانہ نگاروں سے ادبی طور پر زیادہ پختہ ہیں اور وہ پچھلی قید و بند کون کون سی ہیں جن کی زنجیروں سے واضح طور پر انھوں نے آزادیاں حاصل کرلی ہیں۔ جہاں تک مقدر حمید کا تعلق ہے انھوں نے کئی جہتیں پار کی ہیں جس کی مثال ان کا ایک عمدہ افسانہ ’صبح گاہی‘ ہے۔ قارئین جب اسے پڑھیں گے تو خود ہی محسوس کریں گے کہ آج کی Sensibilitiesکو کتنی خوش اسلوبی سے گرفت میں لیا گیا ہے۔ گاڑی والے کے کردار کی ایمانداری سے عکاسی ہی نہیں کی ہے بلکہ مہاجر پرندوں کی طرح اچھے موسم میں نقل مکانی کررہے اپنے بیٹے کے کردار کے پس منظر میں کتنی فنی چابکدستی سے اس دلچسپ کردار کو اُجاگر کیا ہے اور کسی شور انگیزی کے بغیر کہانی کو موثر طریقے سے انجام تک پہنچایا ہے۔