Shahr Yaar (Jamaliyaat Ke Tanazur Meim)

Articles

شہریار (جمالیات کے تناظر میں)

ڈاکٹررشیداشرف خان

آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے

ہم نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے
محتاط اور مستند ذرائع کے مطابق یہ کنور اخلاق محمد خاںشہر یا رؔ کا آخری شعر ہے جو انھوں نے اپنی موت سے چند روز پہلے کہا تھا۔ شہر یار کی ولادت ۱۷؍جون ۱۹۳۶کو ان کے آبائی وطن آنولہ ضلع بریلی اترپردیش میں ہوئی تھی۔ان کے آبا واجداد راجپوت تھے ، پرتھوی راج چوہان کے زمانے میں ان کے بزرگ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ شہریار کے والد کا نام کنور ابو محمد خاں تھا اور والدہ بسم اللہ بیگم تھیں۔کنور ابو محمد خاں محکمۂ پولیس میں انسپکٹر تھے ۔ شہر یار کے والد جب بہیڑی ضلع بریلی میں تعینات تھے تو وہیں شہریار کی رسم بسم اللہ ہوئی ۔ مذہبی رسوم کے علاوہ طوائفوں کا ناچ بھی ہوا اور انھیں کے ہاتھوں ان طوائفوں کو انعام و اکرام بھی دلایا گیا۔گھرانا خوش حال تھا ،محلے میں طوائفیں رہتی تھیں اسی لیے شہر یا ر بچپن ہی سے آزاد اور نقشے باز بن گئے تھے۔اپنے ایک انٹر ویو میں شہر یار نے کہا تھا:

’’ امراؤ جان سے میری دلچسپی اور اس کے گانوں میں جو اثرات دکھائی دیتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بچپن میں طوائفوں کے ساتھ میرا بہت رہنا ہوا۔ ہوسکتا ہے اس کا اثر میری شاعری پر بھی پڑا ہو‘‘
( بحوالہ شہر یا ر حیات و خدمات از ڈاکٹر ساجد حسین ص نمبر ۵۰)

ملازمت سے سبک دوشی کے بعد شہر یار کے والدمع اہل وعیال علی گڑھ منتقل ہوگئے اور جمال پور میں مستقل سکونت اختیار کی۔شہر یارنے ۱۹۵۶میں ہائی اسکول پاس کیا اور پی ایچ ڈی تک کی اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ یہیں پر ان کی ملاقات خلیل الرحمن اعظمی سے ہوئی ۔شہر یار کے سوانحی کوائف کا بالاستیعاب مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی اور شہر یار ایک دوسرے سے بے پناہ محبت رکھتے تھے چنانچہ بڑے مبالغہ آمیز انداز میں شہر یار کے بے تکلف دوست بیدار بخت نے عجیب و غریب جملہ لکھا ہے:

’’شہریار کو خلیل الرحمن اعظمی سے اتنی شدید عقیدت اور محبت ہے ،جیسی شاید امیر خسرو ؔ کو اپنے پیر ومرشد نظام الدین اولیا سے رہی ہوگی‘‘

(مضمون : شہر یار مشمولہ سورج کو نکلتا دیکھوں ص ۲۲)

شہر یار کی زندگی کا تانا بانا ان کی زندگی میں ظہور پذیر ہونے والے اہم اور غیر اہم واقعات کی یکجائی یا باہمی موانست کا زائیدہ تھا۔ ممکن ہے کہ بہتوں کو اعتراض ہو کہ یہ کوئی بات نہ ہوئی ، دنیا میں سبھی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے ۔ بہرحال یہ کہنا مبنی بر مبالغہ نہ ہوگا کہ شہر یا ر محض ایک شاعر اورمعمولی عقل وہوش رکھنے والے انسان نہ تھے بلکہ غیر معمولی قوت احساس ، انفرادی فکر اور مشاہدۂ کائنات کاتجزیاتی شعور رکھنے والے عبقری بھی تھے ۔

تقریباََ ۶۸۶ صفحات پر مشتمل کلیات شہر یارمیں غزلوں کے علاوہ مختصر و طویل نظمیں بھی شامل ہیں۔ان کے موضوعات الگ الگ ہیں اور ان کا فنی اسلوب بھی ایک دوسرے سے جداگانہ ہے لیکن موج تہہ نشیں کی طرح بیشتر غزلوں اور نظموں میں جمالیاتی کیفیت قریب قریب سبھی میں نمایاں ہیں۔
اگر ہم فلسفہ ٔ جمالیات کا عمیق مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ’’جمال ‘‘دراصل’’حسن‘‘ کا مترادف نہیں ہے بلکہ یہ ایک قلبی کیفیت ہے جو کسی بھی واقعہ ، کردار یا تجربے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیے:

اے مرے زخم دل نواز ، غم کو خوشی بنائے جا

میں یونہی تڑپے جاؤں گا ، تو یونہی مسکرائے جا

شہر یار کی ذہنی بلوغت اور احساسات و جذبات کی پختگی خالصتاََ ان کی مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دین ہیں ۔’’سورج کو نکلتا دیکھوں ‘‘ شہریار کے جملہ کلام کا پختہ اور بلند انتخاب ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بلند شاعری وہی شاعری کہی جاسکتی ہے جس میں فی الحقیقت جمالیاتی عظمت کی تلاش محسوس کی جاسکتی ہو۔مثلاََشہریار کے پہلے مجموعۂ کلام ’’اسم اعظم‘‘ میں شامل ایک مختصر سی نظم جس کا عنوان ’’موت‘‘ ہے ۔ یہ نظم انھوں نے ۱۹۶۵میں کہی تھی:

ابھی نہیں ، ابھی زنجیر خواب برہم ہے

ابھی نہیں ، ابھی دامن کے چاک کا غم ہے

ابھی نہیں، ابھی درباز ہے امیدوں کا

ابھی نہیں ، ابھی سینے کا داغ جلتا ہے

ابھی نہیں، ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ، ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے

موت کو آنے سے روکنا انسانی فطرت ہے ۔ شہر یا ر کی مذکورہ نظم میں کوئی انہونی بات تو نہیں معلوم ہوتی لیکن جمالیاتی شاعری کے لیے موت کو مختلف بہانوں سے ٹالنا ایک نیا نیا سا پہلو ضرور لگتا ہے ۔ یہ سیدھی سادی روایتی شاعری کی شان نہیں ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ اگر اس نظم کا کوئی بھی مصرع نکال دیں تو نظم کا سارا تاثر ہی ختم ہوجائے گا۔

جرمن مفکر بام گارٹن جس کا زمانۂ حیات ۱۷۱۴ء تا ۱۷۶۲ء تک ہے نے اپنے تحقیقی مقالے Aestheticaمطبوعہ ۱۷۵۰ء میں اپنی علمی تحقیق کا لب لباب یہ پیش کیا تھا کہ حسن کے تمام مظاہراور احساس حسن کی تمام کیفیات جو ہم اپنے حواس خمسہ کی مدد سے محسوس کرسکیں وہ سبھی فلسفۂ جمالیات کے دائرے میں آسکتی ہیں ۔اس زاویہ نظر سے اگر ہم شہر یار کلام کا فنی تجزیہ کریں تو بام گارٹن کی تعریف کا عملی پہلوسامنے آجاتا ہے۔

’’قرب قیامت‘‘ شہر یار کی ایک ایسی نمائندہ نظم ہے جس میں شاعراندھیرے اور اجالے کو اپنے احساس جمال کی عینک سے دیکھتا ہے تو یہ دونوں غیر مرئی اور بظاہر حسیات سے ماورا اشیا بالکل اسی طرح شاعر کی بنیادی توانائی بن جاتی ہیں ۔ ’’قرب قیامت‘‘ کہنے کو تو ایک مختصر سی نظم ہے لیکن اس کے اندر بے پناہ گونج اور شعلگی پوشیدہ ہے:

اندھیرے کا سَر جو، اجالے کی تلوار سے کاٹتی تھی

سیہ بختوں کو روشنی بانٹتی تھی

جو تنہائی کی کھائی کو پاٹتی تھی

اس آواز کو بھی ہوا کھا گئی ہے

قیامت بہت ہی قریب آگئی ہے

نظم کا جمال ’’آواز‘‘ کے غیر واضح ابہام میں پوشیدہ ہے ۔ قاری کے ذہن میں یہ سوال بجلی کی طرح کوند جاتا ہے کہ آخر وہ آواز کیا تھی اور کس کی تھی جس میں اتنی سکت تھی جو اجالے کی تلوار سے اندھیرے کا سر کاٹ دے ، سیہ بختوں کو روشنی بانٹے اور تنہائی کو مٹا دے ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ شاعر کے ضمیر کی آواز ہو لیکن اتنا تو یقین ہے کہ اس پر اسرار آواز کی حقیقت ہم معمولی آلۂ سماعت آلۂ مکبّرالصوت آلۂ ناقل الصوت یا اور کسی جدید ترین سائنسی مشین کی مدد سے نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے لیے تو مطالعۂ باطنی سے کام لینا پڑے گا جو فلسفۂ جمال کی بنیاد ہے۔ شاید اسی کو ہمارے صوفیاے کرام نے ’’وجد‘‘ اور’’جذب‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت ابدی کی طرف اشارہ کیاہے ؎

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی

شہر یار کو اپنی ۷۵سالہ زندگی میں کئی زبردست صدموں سے دوچار ہونا پڑا ۔پانچ بھائی بہن انھیں کے سامنے اللہ کو پیارے ہوگئے ۔والد سے ناراض ہوکر خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ رہنے لگے یہ بات بیگم نجمہ شہریا ر کو ناپسند تھی ،آخر وہ شوہر سے الگ ہوگئیں ۔ پھر شہر یار کے دوستوں میں خلیل الرحمن، مغنی تبسم، وحید اختر، منیر نیازی ، اقبال صدیقی ، اسعد بدایونی اور ہمایوں ظفر زیدی بھی وفات پاگئے۔ان پیہم صدموں کا ردعمل یہ ہوا کہ شراب خوری بڑھ گئی ،رات رات بھر جاگتے اور ہر وقت اداس رہتے ۔ظاہر ہے کہ ایسے میں شاعر کا حساس دل قنوطیت اور مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ شہریار چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معروف انسان تھے اس لیے اپنے جذبات کی تصعید۔ تسہیل کے لیے انھوں اپنی شاعری میں جمالیات کا سہارا لیا۔ دراصل جمال کسی چیز ، شعر ،تعمیر وغیرہ کے ظاہری حسن کا نام نہیں بلکہ اس حسین شے کو دیکھ کر دیکھنے والے یا سننے والے کے دل ودماغ پر جو کیف و سرور ، نشاط وانبساط طاری ہوتا ہے وہی جمال ہے ۔تاج محل میں جو خوبصورتی ہے ،جمال اس کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کی پسندیدگی کو دیکھتا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر حسن موضوعی یا باطنی ہوتا ہے جب کہ جمال خارجی یا مفعولی ہے۔ حسن وجمال کے اس امتیاز کو قسیم ہلوری نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے:

عشق کا حسن کہاں دیکھ سکے اہل جہاں

ورنہ یوسف سے زیادہ تھا زلیخا کا جمال

اپنے مذکورہ بالا نظریہ کی وضاحت کے لیے شہر یار کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

تمھاری ہجرنوازی پہ حرف آئے گا

ہماری مونس و ہمدم اگر شراب ہوئی

وہ میں نہیں عدو سہی ، خوشی یہ ہے کہ دہر میں

کوئی تو سرخرو ہوا ، کوئی تو سر بلند ہے

ایک عالم ہے کہ اس سمت کھنچا جاتا ہے

جانے وہ کون سی خوبی رسن و دار میں ہے

پہلے شعرمیں’’ہجر نوازی‘‘ نہ صرف ایک تازہ ترین ترکیب ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ شاعر کے شدید ’’احساس جمال‘‘ کی غماز بھی ہے یعنی طنز کے ساتھ ساتھ شاعر اپنی بے وفا محبوبہ کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے کہ تم نے میری طرف سے بے اعتنائی کرکے مجھے شراب کی لذت آشنا کیا ۔ اب اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتا ۔ لوگ سمجھیں گے کہ تم نے ’’اذیت کوشی ‘‘ سیکھ لی یا پھر میں نے تمھارا کوئی بدل ڈھونڈ لیا یہ بات آداب محبت کے خلاف ہے لہٰذا مجھے تنہائی میں شراب پینے دو تاکہ ہم دونوں کی محبت پر حرف نہ آئے۔

دوسرے شعر میں شہر یار جمالیاتی حس کی ارفع منزل پر نظر آتے ہیں ۔ عمومی شاعر جو دنیوی محبت کا شکار ہوتا ہے وہ بڑا خود غرض اور کم ظرف ہوتا ہے ۔ کیا مجال ہے کہ اس کے محبوب کو کوئی اپنائیت کی نظر سے دیکھ لے۔ عاشقی میں رقابت کی سرے سے گنجائش نہیں ۔اسے ہمیشہ رقیب روسیاہ کے برے نام سے یا کیا گیا ہے۔ مومن خان مومن نے کیا خوب کہا ہے:

اس نقش پا کے سجدے نے، کیا کیا کیا ، ذلیل

میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

دوسرے شعرا کے برعکس شہریار کا جمالیاتی انداز فکر دیکھیے کہ وہ نہایت صحت مندانہ اور مثبت وضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میرے بجائے وہ میرے دشمن پر مہربان ہیں تو یہ بات میرے لیے عین مسرت کی ہے۔

تیسرے شعر میں شہر یار نے رسن ودار کی تکلیف پر مایوسی یا غم کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے ’’خوبی ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اپنی رجائیت اور دلی مسرت کا ثبوت دیا ہے یہ ان کے عشق جمالیات کا معجزہ ہے کہ انھوں نے رسن ودار کو زندگی کا پیغامبر ثابت کیاہے ۔

کلیات شہریار کا غائر مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انھیں خوابوں سے والہانہ عشق ہے ۔ وہ سوتے جاگتے ، لوگوں سے ملتے جلتے اور لکھنے پڑھنے کے دوران خواب دیکھنے کے عادی ہیں ، نیند کو ان سے چڑ ہے اور انھیں نیند سے نفرت ہے۔ایسا نہیں کہ وہ نفسیاتی بیماری یا بے خوابی کے مریض ہیں بلکہ وہ جان بوجھ کر بے دار رہنا چاہتے ہیں ۔ان کی فطرت ایسے ادھ کچرے اور فیشنبل روڈ سائڈ رومیوز (Road Side Romeos)کی سی نہیں ہے ۔

جو راتوں کو اٹھ اٹھ روتے ہیں ،جب سارا عالم سوتا ہے

ان کی بے داری حادثاتی یا نیوراتی اعصابی عارضہ نہیں ہے بلکہ اس کاسبب جمالیاتی شدت ہے جس کی حقیقت ان کے حسب ذیل شعر کو پڑھ کر اور سمجھ کر معلوم کی جاسکتی ہے:

راتوں کو جاگنے کے سوا اور کیاکیا؟

آنکھیں اگر ملی تھیں ، کوئی خواب دیکھتے

مذکورہ شعر میںبات چھوٹی سی ہے کہ ہمیشہ کہ طرح شاعر کو نیندنہیں آئی بلکہ کمال تو یہ ہے کہ شاعرنے بیانیہ اور ڈرامائی رنگ دے کر خالص جمالیاتی اسلوب میں اپنی مستقل بے خوابی کاافسانہ سنایا ہے جو دلکش بھی ہے اور سامع نواز بھی ۔شاعر نے استعاراتی لب ولہجہ میں اپنی داستان پیش کی ہے جس نے بیان میں قوت اور شعری لطافت پیدا کردی ہے۔جمالیات کے ضمن میں دور حاضر کے ممتاز نقاد شمس الرحمن فاروقی کے یہ جملے اپنے اندر بڑاوزن اور وقار رکھتے ہیں :

’’ پرانی اور نئی شاعری کا فرق دراصل رویہ کا فرق ہے یعنی شاعری کے بیشتر موضوعات تو وہی ہیں ، لیکن ان کے بارے میں شاعر کا رویہ بدل گیا ہے۔ مثلاََ جہاں احترام تھا وہاں استہزا ہے ، جہاں اعتقاد تھا اب وہاں تشکیک ہے۔جہاں اعتقاد تھا وہاں اب خود اپنے اوپر اعتبار نہیں ۔ شاعری اعتقاد کی بنا پر قائم ہوسکتی ہے اور تشکیک کی بنا پر بھی۔‘‘

(اثبات و نفی: مضمون سکوت سنگ اور صداے درد ص ۱۷۵)

<br/
شہر یار نے اپنی شاعری میں ان دونوں رویوں سے کام لیا ہے ۔اس کی سب اہم وجہ یہ ہے کہ وہ بطور خاص جمالیات کے عاشق ہیں۔اس جمالیات کا خمیر اعتقاد اور تشکیک دونوں ہی کے امتزاج سے تیار کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیے جس میں اعتقاد کی کار فرمائی ہے :

جمع کرتے رہے جو اپنے کو ذرہ ذرہ

وہ یہ کیا جانیں ، بکھرنے میں سکوں ملتا ہے
اور یہ شعر شہریارکے جذبۂ تشکیک کی بہترین جمالیاتی تخلیق ہے:

بلندیوں کی ہوس ہی زمین پر لائی

کہو فلک سے کہ اب راستے سے ہٹ جائے

مذکورہ بالا تمام گفتگو اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ باوجودیکہ شہریار نے نہ تو فلسفۂ جمالیات کا باقاعدہ مطالعہ کیا تھا اور نہ ان کے زمانے تک جمالیات کی حقیقت اور اس کے فنی ارتقا کے اصول مرتب ہوئے تھے اور شاید بام گارٹن، ہیگل اور اطالوی عالم کُروچے کی کتابیں بھی نہ پڑھی ہوں گی لیکن ان کا علم سخن وری کتابی کم اور وہبی زیادہ تھا ،اسی لیے قدرت نے انھیں احساس جمال کی ویسی صلاحیت عطا فرمادی تھی جیسی کہ وہ مچھلی کو تیرنے اور پرندوں کو اڑنے کی صلاحیت بخشا کرتی ہے