Iqbal ka Aik Aham Shaeri Muharrik by Qazi Jamal Husain

Articles

اقبال کا ایک اہم شعری محرک

پروفیسر قاضی جمال حسین

اقبال نے اپنی شاعری کی بنیاد جن افکار پر رکھی ہے، ان کے پیش نظر زمان ومکان کی سرحدیں، قلب و نظر کی تنگ دامانی کا مظہر معلوم ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے علامہ اقبال وطنیت کے موجودہ نئے تصور کو، امت مسلمہ کے حق میں زہر ہلاہل تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام نے عالمگیر انسانی برادری کا جو تصور پیش کیا ہے اسی میں امت مسلمہ کی بقا اور استحکام کا راز پوشیدہ ہے۔ حریت ، اخوت اور مساوات کا تصور، اسلامی معاشرت کی بنیاد ہے۔ امت مسلم کی شوکت اور سربلندی کی بنیاد، توحید، رسالت اور قرآن کریم کی تعلیمات پر استوار ہے اور یہی تصور پوری دنیا میں مسلمانوں کے ملی اتحاد کا سبب ہے۔ مغرب نے قومیت اور وطن پرستی کے تصور کو ، اپنے سیاسی اغراض کے سبب ، جغرافیائی حدود اور رنگ و نسل کی تفریق سے وابستہ کرکے بلادِ اسلامیہ کی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔علامہ اقبال کے کلام کا معتد بہ حصہ، مختلف پیرایوں میں اسی رنج کا اظہار ہے۔ وہ ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو ایک بار پھر یکجا دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں علامہ اقبال نے جمہوریت، قومیت، فسطائیت اور اشتراکیت کے پردے میں چھپے ہوئے خطروں سے ملت اسلامیہ کو بار بار آگاہ کیا ہے۔ مسلم کانفرنس منعقدہ لاہور ۱۹۳۲ء کے خطبۂ صدارت میں اقبال نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ: اقبال نے اپنی شاعری کی بنیاد جن افکار پر رکھی ہے، ان کے پیش نظر زمان ومکان کی سرحدیں، قلب و نظر کی تنگ دامانی کا مظہر معلوم ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے علامہ اقبال وطنیت کے موجودہ نئے تصور کو، امت مسلمہ کے حق میں زہر ہلاہل تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام نے عالمگیر انسانی برادری کا جو تصور پیش کیا ہے اسی میں امت مسلمہ کی بقا اور استحکام کا راز پوشیدہ ہے۔ حریت ، اخوت اور مساوات کا تصور، اسلامی معاشرت کی بنیاد ہے۔ امت مسلم کی شوکت اور سربلندی کی بنیاد، توحید، رسالت اور قرآن کریم کی تعلیمات پر استوار ہے اور یہی تصور پوری دنیا میں مسلمانوں کے ملی اتحاد کا سبب ہے۔ مغرب نے قومیت اور وطن پرستی کے تصور کو ، اپنے سیاسی اغراض کے سبب ، جغرافیائی حدود اور رنگ و نسل کی تفریق سے وابستہ کرکے بلادِ اسلامیہ کی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔علامہ اقبال کے کلام کا معتد بہ حصہ، مختلف پیرایوں میں اسی رنج کا اظہار ہے۔ وہ ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو ایک بار پھر یکجا دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں علامہ اقبال نے جمہوریت، قومیت، فسطائیت اور اشتراکیت کے پردے میں چھپے ہوئے خطروں سے ملت اسلامیہ کو بار بار آگاہ کیا ہے۔ مسلم کانفرنس منعقدہ لاہور ۱۹۳۲ء کے خطبۂ صدارت میں اقبال نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ:
’’میں یورپ کے پیش کردہ نیشنل ازم کا مخالف ہوں اس لیے کہ مجھے اس تحریک میں ’مادیت‘ اور الحاد کے جراثیم نظر آتے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دورِ حاضر کی انسانیت کے لیے شدید ترین خطرات کا سرچشمہ ہیں‘‘ (بحوالہ نقوش اقبال صفحہ ۲۵۳ ، ایڈیشن فروری ۲۰۰۶)
ترکی میں خلافت کے خاتمے کا ایک بڑا سبب بھی وطنیت کا یہی مغربی تصور تھا جس کی زد پر تمام ایشیائی اقوام تھیں۔ اندلس، الجزائر، طرابلس، فلسطین اور مراکش کی جو سلطنتیں ، طویل عرصہ تک مسلمانوں کے زیر نگیں تھیں رفتہ رفتہ ان کی قلمرو سے نکلنے لگیں۔ اس کے اسباب جہاں مسلمانوں کی تن آسانی، خانہ جنگی اور عیش کوشی تھی وہیں ایک بڑا سبب وطنیت کا وہ نیا تصور بھی تھا جس کی بنیاد جغرافیائی حدود اور رنگ و نسل کے امتیاز پر تھی۔ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم ’’خضرِ راہ‘‘ میں ’’دنیائے اسلام‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت خضر کا جواب، مغرب کے ان سیاسی حیلوںکو آشکارا کرتا ہے۔
لے گئے تثلیت کے فرزندمیراثِ خلیل
خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز
ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ، ہیں آج مجبور نیاز
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والاگہر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈکر اسلاف کاتب و جگر
اسی طرح ’’سرمایہ و محنت‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت خضر کا یہ جواب بھی توجہ طلب ہے:
ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیشاور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرانا داں خیالی دیوتاؤں کے لیےسکر کی لذت میں تو لٹواگیا نقد حیات
قومیت کے اسلامی تصور کو علامہ اقبال نے بار بار اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی تاریخ کی ایسی تصویر پیش کی ہے کہ عظمت رفتہ پر حسرت و یاس کے بجائے، بازیابی کا حوصلہ پیدا ہوسکے۔ اسلامی شوکت اور غلبہ کی تاریخ اقبال کی شاعری کا ایک اہم محرک ہے بلکہ خود ان کے بیان کے مطابق ان کی شاعری دراصل اسلاف کی سرگزشت سے عبارت ہے :
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغمیری  تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی  جستجو (نظم۔ ذوق و شوق)
اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے کلام میںان تاریخی مقامات کا ذکر نہایت جذباتی انداز میں ہوا ہے جہاں اسلامی حکومت کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔ قرطبہ ، قسطنطنیہ، ترک، فلسطین ، طرابلس اور غرناطہ کو اقبال اپنے کلام میں ایک ناقابل فراموش یادگار کے طور پر جگہ دیتے ہیں۔ ان مقامات کے بیان میں اقبال نے جو پیرایہ اختیار کیا ہے اور جس طرح کی صفات(Adjectives)استعمال کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملت کے افراد میں آج کن خصوصیات کے آرزو مند ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی و تہذیبی بالادستی کا مضمون ان کے کلام میں شوکت و دبدبہ کی عجب کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ خصوصاً اندلس میں مسلمانوں کی فتوحات اور تہذیبی مظاہر کی عظمت کے پیش نظر ان کی آرزو یہ تھی کہ کاش، مسلمانوں میں غیرت و حمیت کی وہی شان پھر پیدا ہوتی جو فاتح اندلس، طارق بن زیاد کی شخصیت کا امتیاز ہے، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں موسیٰ بن نصیر شہر قیروان کا وائسرائے تھا، طارق بن زیاد انھیں موسیٰ بن نصیر کا آزاد کردہ بربر غلام تھا، موسیٰ بن نصیر نے طارق کی بہادری اور عسکری تنظیم کی غیر معمولی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اسے مراقش کی اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر کردیا تھا۔ موسیٰ بن نصیر نے طارق کو جس وقت اسپین پر حملے کا حکم دیا، مورخین کے بیان کے مطابق اس کے پاس کل ۷ ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج تھی جس میں بربر نسل کے نو مسلم زیادہ اور عرب کم تھے۔ طارق کے پاس کل ۴ کشتیاں تھیں جن میں سوار ہوکر اسلامی فوج کئی بار میں افریقہ سے ہسپانیہ کے ساحل پر پہنچی۔ طارق کی قیادت میں اسلامی لشکر جس پہاڑی پر اترا، اس کا نام Lion’s Rockیا قلۃ الاسدتھا بعد میں اس پہاڑی کو جبل الطارق یا جبرالٹر کہا جانے لگا۔ شاہِ اندلس کو شکست فاش ہوئی۔ کہتے ہیں کہ دریا عبور کرنے کے بعد طارق نے کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا تھا تاکہ فوج کے دل میں واپسی کا موہوم خیال بھی باقی نہ رہے۔ جان کو بچانے کی تدابیر، دراصل احساسِ شکست کا نقطۂ آغاز ہے۔ کشتیاں جلانے کے بعد فوج سے طارق نے جو بات کہی اور جس خود اعتمادی اور اولولعزمی کا مظاہرہ کیا وہی جذبہ علامہ اقبال کی شاعری کا مرکزی حوالہ ہے۔
’’ایّھا الناس، این المفر، البحرمن ورائکم، والعدو امالکم، ولیس لکم واللہ الا الصدق والبصر‘‘(لوگو، کوئی راہِ فرار نہیں، پیچھے سمندر اور سامنے دشمن ہے۔ یہی سچائی اور صبر کا جذبہ ہی واحد راستہ ہے۔ فتح کے علاوہ زندہ بچنے کی کوئی صورت نہیں۔) ۷۱۱ء میں طارق بن زیاد کی یہ فتح صدیوں تک قائم رہنے والی، پائیدار اسلامی حکومت کا نقطۂ آغاز ہے۔
علامہ اقبال کی نظم ’’طارق کی دعا‘‘ کا سب سے زیادہ اہم اور لائق توجہ پہلو شاعر کی وہ ہم احساسی (Empathy)اور طارق کے جذبات سے شاعر کی وہ ہم آہنگی ہے جو اس نے تاریخی کردار طارق بن زیادہ سے قائم کی ہے۔ گمان میں نہیں گزرتا کہ شاعرانہ صداقت نے کس ہنر مندی سے تاریخی صداقت کی جگہ لے لی ہے۔ یہ نظم کل دس اشعار پر مشتمل ہے۔ ان دس شعروں میں حوصلہ مندی اور شوق شہادت کو مسلمانوں کا امتیاز قرار دیا گیا ہے۔ اور آخری شعر میں طارق کی زبان سے اقبال نے اپنی آرزو کا اظہار کیا ہے :
عزائم کو سینوں میں بیدار کردےنگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
نظم کی لفظیات، اس کا صوتی آہنگ اور لہجہ قاری کی رگوں میں خون کی گردش کو تیز کردیتا ہے۔ نظم کے اشعار ہیں :
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنھیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیئت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
دریا عبور کرنے کے بعد، طارق نے کشتیوں کے جلا ڈالنے کا جو بے مثال تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا، اسے علامہ اقبال کے شاعرانہ تخیل نے ایک اور موقع پر نہایت ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ فتح مندی اور غلبہ کے یقین سے سرشار، طارق کا یہ اقدام ، علامہ اقبال کے فکری نظام سے اس درجہ ہم آہنگ ہے کہ اقبال اس واقعہ میںشامل مرد مومن کی تصویر دیکھتے ہیں۔ علامہ اقبال، انسانوں کے خود ساختہ جغرافیائی حدود کو توڑ کر، پورے عالم کو اس مثال مردِ مومن کی مملکت تصور کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو کہ طارق بن زیاد کے پردے میں ، خود علامہ اقبال کی رگوں میں، خون کی رفتار کس قدر تیز ہوگئی ہے:
طارق چوں بر کنارۂ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کارِ توبہ نگاہِ خرد خطا ست
خندید ودست خویش بہ شمشیر مرد و گفت
ہر ملک ملکِ ماست، کم ملک خدائے ماست
طارق کے لبوں پر نمودار ہونے والے اس خفیف سے تبسم میں، اعتماد، عزم اور یقین کی جو سرشاری نظر آتی ہے یہی اقبال کی شاعری کا بنیادی سروکار ہے۔ اسے اقبال نے مختلف پیرایوں میں باربار بیان کیا ہے :
درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
علامہ کے سفر اندلس کی تقریب یہ تھی تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے علامہ اقبال کو انگلستان جانا تھا، یہ کانفرنس ۱۷؍نومبر ۱۹۳۲ء کو شروع ہونے والی تھی لیکن اقبال کانفرنس سے ایک ماہ قبل ۱۷؍اکتوبر کو ہی لاہور سے روانہ ہوگئے، ان کا خیال تھا کہ کانفرنس سے پہلے یورپ کے بعض علمی مراکز میں چند دنوں قیام کریں گے۔ گول میز کانفرنس سے فارغ ہوکر اقبال پہلے فرانس اور پھر ہسپانیہ گئے۔ وہاں انھوں نے میڈرڈ یونیورسٹی میں ’’ہسپانیہ اور عالم انسان کے ذہنی ارتقا‘‘ کے موضوع پر لکچر بھی دیا۔ یہاں ان کی ملاقات پروفیسر اسیں(Prof. Miguel Asin) مصنف ’’ڈیوائن کمیڈی اور اسلام‘‘ سے بھی ہوئی۔ جس نے اطالوی شاعر دانتے کی شہرہ آفاق تصنیف ’’ڈیوائن کمیڈی‘‘ پر آنحضرت کے سفر معراج سے متعلق احادیث کے اثرات کی نشاندہی کی ہے۔ ہسپانیہ سے اقبال اٹلی تشریف لے گئے اور یہاں ان کی ملاقات مسولینی سے ہوئی۔ لیکن اس سفر میں ہسپانیہ سے جو جذباتی وابستگی اقبال نے محسوس کی وہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ نظر نہیں آتی۔ اندلس کے جتنے گہرے نقوش ان کے دل و دماغ پر مرتب ہوئے اس کا کسی قدر اندازہ ، اسپین کے پس منظرمیں کہی گئی نظموں کی تعداد اور اشعار کی کیفیت سے ہوجاتا ہے۔ اقبال نے ایک نظم ’’دعا‘‘ کے عنوان سے کہی ہے۔ یہ نظم بھی مسجد قرطبہ میں کہی گئی ہے۔ نظم کی داخلی ساخت میں اقبال کی حسرت اور دلی آرزو کا رنگ صاف جھلکتا ہوا نظر آتا ہے کہ 750برس سے بھی زیادہ عرصہ تک مسلمانوں کی شاندار حکومت کے بعد ہسپانیہ میں مسلمانوں کے زوال نے انھیں کتنا غم زدہ کیا ہے۔ نظم کے آخر میں اشعار میں گم شدہ عظمت کی یاد، بازیابی کی دعا کا رنگ اختیار کرلیتی ہے:
چشم کرم ساقیا دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو، خلوتیوں کے کدو
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سوں
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو
آخری شعر کا ’’حرفِ تمنا‘‘ اپنے مخصوص سیاق و سباق میں گم شدہ سلطنت و شوکت کو پالینے کی حسرت کا شاعرانہ اظہار ہے۔ جسے برملا اور بے محابہ کہنے میں شاعر کو اس لیے بھی عذر ہے فلسفہ و شعر دونوں کا پیرایۂ اظہار ایمائی اور استعاراتی ہوتا ہے فلسفیانہ مضامین اور شاعرانہ تجربہ دونوں ہی برہنہ گفتاری کے متحمل نہیں ہوتے۔
اندلس کے حوالے سے اقبال کی ایک اور نظم ’’عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت ‘‘ بھی لائق توجہ ہے۔ عبدالرحمن، اندلس میں اموی سلطنت کا بانی ہے۔ سیاسی حالات کے نتیجے میں اسے شام سے نکلنا پڑا مصر و مراکش ہوتا ہوا وہ اندلس آگیا اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور حسن تدبیر سے اندلس میں اس نے اپنی مضبوط حکومت قائم کی۔ اس نے اپنے لیے مسجد قرطبہ کے پاس ہی ایک محل بھی تعمیر کروایا جس کے باغ میں اس نے کھجور کا ایک درخت ایسا بھی لگایا جس کی گٹھلی اس کے وطن ملک شام کی تھی۔ ایک روز کھجور کا یہ درخت دیکھ کر اس کے دل میں وطن کی یاد تازہ ہوگئی۔ عبدالرحمن چونکہ شاعر بھی تھا اس لیے اس نے اسی کیفیت میں بے ساختہ چند اشعار بھی کہے۔ علامہ اقبال کی یہ نظم عبدالرحمن الداخل کے عربی اشعار کا آزاد ترجمہ ہیں۔ لیکن نظم کے دوسرے بند میں زمان و مکان کے اپنے مخصوص تصور سے اقبال نے پہلے بند کی مایوسی اور افسردگی کو ایک نیا تناظر فراہم کردیا ہے۔ پہلے بند میں شاعر کھجور کے درخت سے مخاطب ہے کہ ہم دونوں وطن سے بہت دور ہیں اور پردیس میں ناموری کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ لیکن دوسرے بند میں وطن سے دوری کو ایک نیا موڑ دے کر، جغرافیائی حدود پر مبنی وطن کے محدود تصور کو مسترد کرتے ہیں نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے :
مومن کی جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اسی سلسلہ کی ایک اور نظم ’’قید خانہ میں معتمد کی فریاد‘‘ کے عنوان سے بال جبرئیل میں شامل ہے۔ اندلس میں اسلامی حکومت جب خانہ جنگی اور طوائف الملوکی کے سبب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی تو یہ ریاستیں آپس میں برسرِ پیکار ہوگئیں۔ ان میںایک سلطنت اشبیلیہ (Seville)کی تھی قرطبہ اسی ریاست میں شامل تھا۔ اشبیلیہ کا بادشاہ المعتمد علی اللہ تھا جس نے ۱۰۶۸ء سے ۱۰۹۱ء تک تقریباً ۲۳ برس حکومت کی۔ معتمد نے اسلامی حکومتوں کو اکٹھا کرنے اور اپنی حکومت کو عیسائی بادشاہ الفانسو کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مراکش کے بادشاہ یوسف بن تاشقین سے مدد طلب کی۔ بعض مسلم حکمرانوں نے اندیشہ ظاہر کیا (اور یہ اندیشہ بعد میں سچ ثابت ہوا) کہ اس طرح  بعد میں یوسف خود کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہماری سلطنتوں پر قابض ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں معتمد کا جواب یہ تھا کہ سوروں کا ریوڑ چرانے کے بجائے میں اونٹوں کا چرواہا بننا زیادہ پسند کروں گا۔ مراکش کے حاکم یوسف بن تاشقین نے ۱۰۹۱ء میں معتمد کو مراکش بلوا کر قید کردیا۔ معتمد نے زندگی کے باقی دن قید و بند کی صعوبت میں گزارے، معتمد عربی کا شاعر بھی تھا اس نے اپنی اسیری کے جذبات کو اشعار میں بیان کیا ہے۔ اقبال کی یہ نظم معتمدکے انھیں عربی اشعار کا ترجمہ کہی جاسکتی ہے۔
اقبال کے نظام افکار کے سیاق و سباق میں اس نظم کی معنویت یہ ہے کہ فولادی زنجیروں میں جکڑے، مجبور، معتمد کے دل میں نیزہ اور تلوار و روم کی یادیں اسیری میں بھی تازہ ہیں۔ فولاد سے معتمد کی یہ دلچسپی اقبال کے قوت و شوکت کے تصور سے ہم آہنگ ہے۔ معتمد کے اس قابل رحم انجام کا سبب، عشق کی آگ کا سرد پڑ جانا اور سوزِ ایمانی کا رخصت ہوجانا ہے۔ (۸)آٹھ مصرعوں کی یہ مختصر نظم ملاحظہ ہو :
اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رخصت ہوا جاتی رہی تاثیر بھی
مرد حُر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
میں پشیماں ہوں، پشیماں ہے میری تدبیر بھی
خود بخود زنجیر کی جانب کھینچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغ دو دم تھی، اب مری زنجیر ہے!
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی
تدبیر و تقدیر دونوں کی ناکامی کا افسوس کرنے کے باوجود، نظم کا کلیدی شعر معتمد کی بہادری کو بھی نمایاں کرتا ہے۔

خود بخود زنجیر کی جانب کھینچا جاتا ہے دل

تھی اس فولاد سے شاید مری شمشیر بھی۔

باطل کو زیر کرنے کے علاوہ، فولاد میں کیا منافع ہیں؟ اس کا قدر اندازہ سورہ ’حدید‘ کی آیت ’’و انزلنا الحدید فیہ باش شدید و منافع للناس‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔
اسی سلسلہ کی ایک اور نظم ’’ہسپانیہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ہسپانیہ میں قیام کے دوران اور مختلف تاریخی مقامات دیکھنے کے بعد اقبال کے دل میں جو جذبات پیدا ہوئے۔ یہ نظم انھیں کا شاعرانہ اظہار ہے۔ اندلس میں مسلمانوں کے آمد کا تذکرہ کرکے اقبال نے یورپ میں اسلامی فتوحات کی یاد تازہ کردی ہے۔ سرزمین پر انھیں چشم تخیل سے سجدوں کے نشان نظر آتی ہیں ا ور صبح کی ٹھنڈی ہواؤں میں اذان کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ اقبال ایک بار پھر اندلس میں اسلامی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں:
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی
باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں
کیوں کر خس وخاشاک سے دب جائے مسلماں
مانا وہ تب و تاب نہیں ا س کے شرر میں
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے ولیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں
غرناطہ اندلس میں اسلامی حکومت کی آخری نشانی ہے۔ یہاں کا حاکم ابوعبداللہ اسلامی حمیت سے عاری ایک پست حوصلہ شخص تھا۔ چنانچہ ۱۴۹۲ء میں قصر الحمرا کی کنجیاں عیسائی بادشاہ فرڈی ننڈ اور اس کی ملکہ ازابلا کے حوالے کرکے وہ غرناطہ سے رخصت ہوگیا۔سقوط غرناطہ کے بعد، ہسپانیہ کی اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ۷۱۱ء میں طارق بن زیاد کی آمد سے لے کر ۱۴۹۲ء میں سقوط غرناطہ تک ۷۸۰ برس، ہسپانیہ پر مسلمانوں کی روح بے چین ہو اٹھی۔ چنانچہ نظم بے چینی کے اس تاثر پر ختم ہوتی ہے:
دیکھا بھی دکھایا بھی، سنایا بھی سنا بھی
ہے دل کی تسلی نہ نظریں نہ خبریں
اس سلسلہ کا سب سے عظیم شاہکار اور نہ صرف اقبال بلکہ اردو کی مایہ ناز تخلیق، مسجد قرطبہ کے بغیر اقبال کے اس شعری محرک کا تذکرہ ناتمام ہوتا۔ فلسفیانہ افکار اور آفاقی صداقتوں کے سبب یہ نظم ’نوائے سروش سے کم نہیں، اس مسجد کی بنیاد عبدالرحمن اوّل نے رکھی تھی جو ہسپانیہ میں اموی سلطنت کا بانی ہے۔ برسوں تک اس مسجد میں اضافے ہوتے رہے۔ ابوعامر المنصور نے اس کی تعمیر مکمل کی۔ مسجد کی شوکت و شکوہ کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ۱۴۱۷ ستون ہیں۔ اسلامی فن تعمیر کے اس شاہکار میں اقبال نے درو دیوار کے پس پردہ کیا کچھ دیکھا؟ اور ان کے ردِّ عمل کی سطح کیا تھی؟ اس کا اندازہ نظم کے ایک ایک مصرعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظم اقبال کے فلسفۂ حیات کا جوہر اور ان کے افکار کا آئینہ خانہ ہے۔ نظم کی ساخت یہ ہے کہ نظم کل ۸ بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند ۱۶مصرعوں پر۔ہر بند کا پندرہواں اور سولہواں مصرعہ غزل کے مطلع کی طرح ہم ردیف ہم قافیہ ہے۔ جبکہ بند کا پہلا اور دوسرا مصرعہ ہم قافیہ ہے۔ باقی مصرعوں میں غزل کے اشعار کی طرح ایک ایک مصرعہ کے فصل سے قافیہ کا التزام رکھا گیا ہے۔نظم اپنی اس مخصوص ہیئت کی وجہ سے غایت درجہ خوش آہنگ اور مترنم ہوئی ہے۔ نظم کی بحر میں، ارکان کے درمیان سکوت کا خفیف سا واقعہ خوش خرام موجوں کی طرح، ابھرنے اور ڈوبنے کا خاص پیٹرن (Pattern) بناتا ہے اور قاری اسی آہنگ کے سہارے، جذبے اور خیال کے بہاؤ میں ’ڈوبتا، ابھرتا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نظم کا یہ نغمہ بھی قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہے۔
نظم کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ نظم جس ماورائی فضا اور فلسفیانہ سطح سے شروع ہوتی ہے، طوالت کے باوجود نظم کی یہ فضا آخری مصرعے تک برقرار رہتی ہے۔ بلکہ نظم کا ہر بند ایک نیا افق دریافت کرتا ہے۔ توحید اور ایمان علامہ اقبال کے نزدیک ایسی الوہی کیفیت ہے، جس کے بیان سے جملہ لسانی تعبیرات عاجز ہیں۔ عشق، خون جگر اور شوق کی تعبیر اسی بے پایاں کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اختیار کی گئی ہیں۔ اندلس کے حوالے سے نظم کا توجہ طلب حصہ وہ مصرعے ہیں جن میں عربی شہسواروں کو، ان کی سخت کوشی شوقِ شہادت اور خلق عظیم کے سبب یاد کیا گیا ہے:
کعبۂ ارباب فن سطوت دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
آہ وہ مردانِ حق ! وہ عربی شہسوار
حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل وگرم اختلاط ، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے
لیکن شاندار ماضی کی یادوں سے فقط خوش ہولینے یا سقوط سلطنت سے افسردہ ہونے کے بجائے اقبال ایک رجائی پہلو اختیار کرتے ہیں نظم کے ساتویں بند میں دنیا کی بڑی انقلابی تحریکات کو یاد کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے حق میں چشم تخیل سے گنبد نیلوفر کے رنگ ملانے کا دلکش نظارہ دیکھنے لگتے ہیں۔ نظم کے آخری بند کے اشعار ہیں :
آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
یقین کی حدوں کو چھوتی ہوئی اقبال کی خواہش یہ تھی کہ انقلاب چونکہ قانون قدرت ہے اس لیے امت مسلمہ جو آج مغلوب اور سرنگوں ہے، بہت جلد غالب اور سربلند ہوگی۔ اسلام اپنے عقیدۂ توحید اور سخت کوشی کے سبب دنیا میں قیادت کے لیے آیا ہے۔
نظم اس بیان پر ختم ہوتی ہے کہ ایسے تمام تہذیبی مظاہر اور سبھی نغمے جن کی تخلیق میں خون جگر شامل نہ ہو، نقش ناتمام ہیں۔ نظم کے پہلے بند میں یہ بات کہی گئی تھی کہ :
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات کارِ جہاں بے ثبات
آخری بند میں اس بے ثباتی کا سبب بیان کرکے اقبال نے نظم میں ایک نامیاتی وحدت پیدا کردی ہے۔ یہاں پہونچ کر نظم اپنی ابتدا، نقطۂ عروج اور انجام کا، ایک پورا دائرہ مکمل کرتی ہے :
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سووائے خام خون جگر کے بغیر
علامہ اقبال کے شعور میں اندلس اس درجہ جاگزیں ہے کہ اس پس منظر میں انھوں نے کئی نظمیں کہی ہیں کیوں کہ مسلمانوں کی شوکت، اقتدار اور غلبہ کی عملی تصویریں انھیں مسلمانوں کے بعد حکومت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا تمام کلام  اپنی بنیادی فکر میں اسی عظمتِ رفتہ کی بازیافت سے عبارت ہے۔ان پرانی تصویروں میں نئے نئے دلکش رنگ بھر کر علامہ اقبال قوم میں بے باکی اور اولوالعزمی کی وہی حرارت ایک بار پھر پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے کبھی زمیں کانپ اٹھتی اور پہاڑ تھراتے تھے۔ یورپ کی مادہ پرستی اور علم و دانش کی پرفریب چکاچوند سے ہوشیار رہنے کی تلقین اقبال نے جس کثرت سے کی ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ فتح اندلس کی تاریخ میں اسلام کی سربلندی اور سرخروئی کے علاوہ ، اقبال کو یورپ کی شکست اور پسپائی کے خواب کی تعبیر بھی نظر آتی ہے۔ شعری محرک کی حیثیت سے اندلس کے انتخاب میں یہ نکتہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے:
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں ممبر و محراب
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشۂ سیماب
ہوائے قرطبہ شاید ہے یہ اثر تیرا
مری نوا میں ہے سوز و سرودِ عہد شباب