Iqbal: Azamat E Insani ka Hudi Khwan by Dr. Jamal Rizvi

Articles

اقبال: عظمتِ انسانی کا حُدی خواں

ڈاکٹر جمال رضوی

علامہ اقبال کا شمار ان برگزیدہ شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے انسانی معاشرے کو کئی سطحوں پر متاثر کیا ہے ۔ اقبال کے سلسلے میں ایک بدیہی حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے افکار و خیالات کی معنویت کو کسی مخصوص عہد یا حالات کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔یہ ضرور ہے کہ اقبال کی شاعری کی نمود میں بعض مخصوص حالات و واقعات سے اثر پذیری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم اقبال نے ان مخصوص حالات و واقعات کی شعری تعبیر کچھ اس انداز میں کی ہے کہ ہردور کا انسانی سماج اس سے استفادہ کر سکتا ہے ۔اردو ادب میں اقبال کی شناخت ایک ایسے شاعر کے طور پر ہے جو حیات و کائنات کے متعلق ایک واضح فکری نظام کے تحت شعر کے تخلیقی مراحل کو طے کرتا ہے۔اس نظام فکر کی بنیاد بلاشبہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن سے اقبال کو عبد و معبود شناسی کا ایسا ادراک حاصل ہوا جس نے انھیں اس روئے زمین کی زیب وزین کے امین حضرت انسان کی عظمت و رفعت کی آگہی عطا کی۔اقبال کی شاعری کا کل سرمایہ ان کی فکر و نظر کے ارتقا کی روداد ہے۔ اس روداد میں کئی ایسے مراحل آتے ہیں جو بعض امور میں اقبال کے زاویۂ نظر سے اختلاف کی گنجائش پیدا کرتے ہیں لیکن اس کے باوصف اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ان کی شاعری میں سماجی و سیاسی انسلاکات کی متغیر کیفیت کے باوجود عظمت انسانی کی نقش گری کا رجحان ہر دور میں تقریباً یکساں نظر آتا ہے۔
اقبال کی ۶۱؍سالہ زندگی(پیدائش ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء۔وفات ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء)میں مذہب، ادب اور سیاست کے مثلث نے انھیں فکری بالیدگی عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۶۱؍ سال کا یہ دورانیہ نہ صرف بر صغیر کی تاریخ بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسے تغیرپذیر حالات کا مظہر ہے جس کے سبب اقبال کے افکار و نظریات میں تبدیلی کا وہ عمل نظر آتا ہے جو ان کی فکر کی ہمہ گیریت کو ایک مخصوص سیاسی و سماجی دائرے سے آزاد کر کے اسے عرص�ۂ کائنات پر محیط کر دیتا ہے۔یورپ کے سفر سے قبل اقبال کی شاعری کا انداز اور اس سفر سے واپسی کے بعد ان کی شاعری کے موضوعات اور ایک حد تک طرز بیان میں تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔اقبال کی شاعری میں اس تبدیلی پر بعض ارباب نقد و نظر اس لیے معترض ہیں کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں جیسی نظم کا خالق اپنی فکر کو ایک مخصوص دائرے میں اس قدر محصور کر لیتا ہے کہ اسے اسلام اور مسلمان کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اعتراض کرنے والوں کے نزدیک یہ اقبال کی فکر کی محدودیت کی علامت ہے جبکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے اندر ایسی فکری پختگی پیدا ہونی چاہیے جو ترانۂ ہندی سے بھی بہتر نظم کی تخلیق کا سبب بنتی۔اقبال نے اپنے افکار و نظریات میں پیداہوئی اس تبدیلی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سبب کی وضاحت بھی کی ہے ۔ انھوں نے بیسویں صدی کے عالمی انسانی معاشرہ میں رائج وطن پرستی اور قوم پرستی کے اس تصور کو اس کا سبب قرار دیا ہے جو جغرافیائی حدود کا اس قدر پابند ہے کہ اس کے باہر کی دنیا سے اسے کوئی سروکار نہیں۔جب ان کی فکر نوع انساں کی عظمت کے نشانات تلاش کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے تو اقوام عالم کے مابین مختلف قسم کے امتیازات کی ایسی سنگین شکل نظر آتی ہے جو اس عظمت کو پاش پاش کر دینے کے درپے ہے۔حیات اقبال سے وابستہ اس دور کی ایک دلچسپ سچائی یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں دنیامیں امن و آشتی کے قیام کی پائیداری کو یقینی بنانے کی جس قدر کوشش ہو رہی تھی جنگ اور غارت گری کا عفریت اسی قدر انسانی معاشرہ کو اپنے مہیب سایہ میں لے رہا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ یہ سایہ دراز ہوتا جارہا تھاجس کا ایک بڑا سبب مختلف قسم کے امتیازات کے سبب انسانی برادری کے درمیان تفریق و انتشار کی وہ کیفیت تھی جسے نام نہاد ترقی پذیر دنیا کے فرمانروا سیاست اور سماج اور بعض اوقات مذہب کی وہ ترقی یافتہ صورت قرار دے رہے تھے جو انسانی ارتقا کے سفر کی ضامن ہے۔ قومیت اور وطنیت کا یہ تصور حب جاہ کے خواہاں افراد کے لیے وہ نسخۂ کیمیا تھا جو ان کی خواہش کی تکمیل کی راہ کو قدرے آسان بنا دیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ اتحاد انسانی کے لیے ایسا خطرہ ہے جس سے انسانی عظمت کے زائل ہونے کا اندیشہ قوی ہو جاتا ہے۔ان حالات میں اقبال عظمت انسانی کی بقا کے لیے اسلام کے اس نظام حیات کی تائید کو ضروری قرار دیتے ہیں جو حریت و مساوات کی راہ میں رنگ و نسل کے امتیازات سے ماورا نوع انساں کو ایک مرکز اتحاد پر مجتمع کرنے کا ذریعہ ہے ۔ اپنے اس نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:
’’ اسلام ایک قدم ہے نو ع انسانی کے اتحاد کی طرف۔ یہ ایک سوشل نظام ہے جو حریت و مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے ۔پس جو کچھ
میں اسلام کے متعلق لکھتا ہوں اس سے میری غرض محض خدمتِ بنی نوع ہے اور کچھ نہیں اور میرے نزدیک عملی نقطۂ خیال سے صرف
اسلام ہی Humanitarian Ideal کو Acheive کرنے کا ایک کارگر ذریعہ ہے۔ باقی ذرائع محض فلسفہ ہیں۔ خوشنما
ضرور ہیں مگر ناقابل عمل۔‘‘ (مکتوب بنام سید محمد سعید الدین جعفری مشمولہ خطوط اقبال صفحہ ۱۶۶؍ مرتبہ رفیع الدین باشمی)
اقبال کے خط کا یہ اقتباس شاعری میں ان کے فکری سروکار کو واضح کرتا ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات کی اساس پر استوار اپنے فکری نظام کو نوع انساں کے درمیان اتحاد کا ایک وسیلہ قرار دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ ہی وہ عظمت انسانی کے اس تصور کو آشکار کرنے کی سعی کرتے ہیں جوخلقت کائنات کا سبب ہے۔اقبال کی شاعری میں موضوعی سطح پر اس طرز فکر میں ان کے اس خاندانی پس منظر کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا جو ان کی ذہنی تربیت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔اقبال کی شخصیت کا مطالعہ اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے رچے بسے گھریلو ماحول سے باہر نکل کر جب وہ تعلیمی مراحل بتدریج طے کرتے ہیں تو یہاں ایک بالکل مختلف بلکہ گھریلو ماحول سے متضاد صورتحال ان کے سامنے ہوتی ہے۔مابعد الطبعیات فلسفے کا ارتقا کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے باوصف وہ مذہب کے تئیں اپنے پختہ افکار میں کسی قسم کی تشکیک میں مبتلا نہیں ہوئے۔مذہب اور فلسفہ کے درمیان تفاوتِ توجیہی یقینی امر ہے۔ اگر چہ دونوں حیات و کائنات کے اسرار ہائے سربستہ کی گرہ کشائی کا کام انجام دیتے ہیں تاہم عملی و عقلی استنباط دونوں کے مابین ایک واضح فرق قایم کرتا ہے۔اقبال کے افکار میں مذہب اور فلسفہ سے استفادہ کی وہ شکل نظر آتی ہے جو حیات و کائنات کی ماہیت و افادیت کو دریافت کرنے کی ایسی راہ روشن کرتی ہے جو انسانی عظمت کے پرنور چراغوں سے منور ہے۔وہ کائنات کی خلقت کے سبب کا سراغ پانے کی سعی کے عمل میں ان حقائق سے واقف ہوتے ہیں جو انھیں نوع انساں کی تخلیق کے راز سے متعارف کراتی ہے۔
عطا ہوئی ہے تجھے روز وشب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
سنا ہے خاک سے تیری نمو د ہے لیکن
تری سر شت میں ہے کوکبی و مہتابی
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی
اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی
تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی (نظم ’ فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘)
اس روئے زمین پر ورودِ آدم کے پس منظر میں لکھی گئی اس مختصر سی نظم میں اقبال نے انسانی عظمت کو اس انداز سے نمایاں کیا ہے کہ جنت سے اخراج اس کی فضیلت کا سبب ٹھہرتا ہے۔ اقبال عالم بے کاخ و کو سے عالم رنگ و بو میں آدم کی آمد کو کن فیکون کا حاصل تسلیم کرتے ہوئے نوع انسان سے اس بھرم کے باقی رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں جو تخلیق کائنات کے اہم مقصد کی بنیاد ہے۔اقبال کی شاعری اسی نظام فکر کی ترجمان ہے جو اس بنیاد کے مستحکم کرنے کی تدبیر سے آشنا کرتی ہے اور اس کا مدار عرفانِ ذات کا وہ اہم نکتہ ہے جو نوع انساں کو دنیا و مافیہا کے ان اسرار و رموز کو دریافت کرنے پر آمادہ کرتا ہے جن سے خود اسے اپنی حقیقت و رفعت کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔لیکن اس مقام تک رسائی کچھ ایسی آسان بھی نہیں کہ مدتوں ایک عمل پیہم کے بعد اس کے آثار ہویدا ہوتے ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کی خواہش کی تکمیل میں کئی ایسے مراحل بھی آتے ہیں جو دلسوزی اور جاں سوزی کی سخت و دشوار گزار راہوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ ان راہوں پرثبات قدم سے ہی عظمت انسانی کے امکان روشن ہوتے ہیں لیکن تاریخ انسانی میں کئی ایسے ابواب بھی نظر آتے ہیں جبکہ نوع انساں کے قدموں کی لغزش نہ صرف منزل سے اس کی محرومی کا سبب بنی بلکہ اس کی کوتاہیِ عزم و عمل نے اس راہ کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا۔اقبال اس سفر کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے انسان کے قلب و نظر کو حقیقت یزدانی کے نور سے معمور ہونے پر اصرا ر کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ ان برگزیدہ و بابرکت شخصیات کے کردار و عمل کو منبعِ فیضان قرار دیتے ہیں جنھوں نے اپنی حیات ارضی کو اس عظیم مقصد کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس مقام پر وہ اسلام کے عہد رفتہ کی درخشاں تاریخ کے صفحات پر ثبت ان جلیل القدر نا موں کے حوالے سے اپنے افکار کی ترجمانی کرتے ہیں جن کی زندگی حیات ارضی کی کامیابی و کامرانی کی ایک روشن مثلا ل ہے۔
اقبال نے شاعری میں اپنی فکری جہت کی وضاحت کرتے ہوئے بارہا یہ کہاہے کہ قرآن و احادیث ہی میری شاعری کے موضوعات کا ماخذہے اور میں ان کے حوالے سے ہی عصر حاضر کے مسائل و معاملات کا تجزیہ کرتا ہوں۔بیسویں صدی میں مادی ترقی کے ہوش ربا مظاہر سے مبہوت انسانی معاشرہ میں اس طرز فکر کو اگر اقبال کی قدامت پسندی اور ماضی پرستی سے تعبیر کیا گیا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔چونکہ اقبال نے اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کے لیے ادب کو بطور وسیلہ اختیار کیا تھا لہٰذا اس ضمن میں اس دور کی ادبی صورتحال کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔اس زمانے کا ادبی منظرنامہ تخلیق ادب کے نظریاتی و اصولی مباحث میں دوباہم متضاد رویہ سے عبارت ہے۔ایک ادب برائے زندگی کا قائل اور دوسرا ادب برائے ادب کا گرویدہ ۔ان حالات میں گرچہ معاصر سیاسی و سماجی حالات کے سبب ادب اور زندگی کے ربط باہم کو مستحکم بنانے کی شعوری کوشش اہل ادب کے یہاں نظر آتی ہے تاہم اس کوشش میں کئی سارے ایسے قدیم معاشرتی تصورات شکست و ریخت سے دوچار ہوئے جو ماقبل انسانی و سماجی اخلاقیات کی اساس تھے۔ اس کے علاوہ اہل ادب کے نزدیک مذہبی اقدار کی نوعیت اور اس کی افادیت کے تصورات پر بھی مادی ترقی کی سحر انگیزی اثر انداز ہوئی۔ اپنے گرد و اطراف میں افکار و افعال کی اس قدرے پیچیدہ صورتحال کے درمیان اقبال نے اپنے لیے ایسی شاہراہ کا انتخاب کیا جس نے دنیا و عقبیٰ کے متعلق ان کی فکر کوایک واضح سمت عطا کی۔ان کی شاعری میں فکر و فلسفہ کے مرکب سے جو قصر تعمیر ہوتا ہے اس کے ہر ستون پر عظمت انسانی کے چراغ روشن نظر آتے ہیں۔شاعری میں اپنے منفرد طرز بیان اور موضوعات کی تخصیص کے متعلق انھوں نے لکھا ہے :
’’ الفاظ کے انتخاب میں لکھنے والا (شاعر)اپنی حسِّ موسیقیت سے کام لیتا ہے اور مضامین کے انتخاب میں اپنے فطری
جذبات کی پیروی پر مجبور ہوتا ہے۔ اس امر میں کسی دوسرے شخص کے مشورے پر خواہ وہ کتنا ہی نیک مشورہ کیوں نہ ہو ، عمل
نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (مکتوب بنام سید محمد سعید الدین جعفری مشمولہ خطوط اقبال صفحہ ۱۶۵؍ مرتبہ رفیع الدین باشمی)
(خطوط اقبال)
اقبال کے اس بیان سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے شاعری میں جن موضوعات کو برتا ہے ان سے اقبال کا رابطہ صرف خارجی سطح پر ہی نہیں ہے بلکہ وہ موضوعات بجائے خود ان کی شخصیت کی تعمیرو تشکیل میں جزو لاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کا خاص وصف غور وفکر کی راہوں کو روشن کرنا ہے ۔ انسانی معاشرہ میں شاعری کے اس افادی پہلو پر ان کی بھر پور نگاہ تھی اسی لیے وہ شاعر کو محض تخیلات کا پابند تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ ان کے نزدیک شاعر کا منصب اس قدر بلند و ارفع ہے جو اپنے کلام سے خوابیدہ سماج میں بیداری کی رمق پیدا کر سکتا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جابجا شاعر کی ذات سے منسوب اس قدر کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے اس موقف کی وضاحت درج ذیل اس مختصر سی نظم سے ہو جاتی ہے جس کا عنوان ہی شاعر ہے ؂
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفلِ نظمِ حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو ، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
شاعر کی شخصیت کے لیے آنکھ کی یہ تمثیل معنویت کی کئی جہتوں کی حامل ہے ۔یہ جہات انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں تاہم اس کا محور و مرکز عظمت انسانی کے وہ مظاہر ہیں جو گردش ایام کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے تا ابد کے لیے جاودانی حاصل کر لیتے ہیں۔اقبال کے یہاں انسان کامل کے تصور کے ڈانڈے انہی مظاہر سے ملتے ہیں۔ یہ تصور ہی اقبال کواس مشت خاک میں تسخیر کائنات کاولولہ و جوش دکھاتا ہے اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں ؂
منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محرومِ عمل نرگس، مجبورِ تماشا ہے
رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنا ہے
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوت، سرگرمِ تقاضا ہے
اس ذرہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہردم
یہ ذرہ نہیں، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے ، بینا ہے توانا ہے (نظم ’انسان‘)
چمنستاں کی ہیئت کو بدل ڈالنے کی توفیق اسی صورت میں اس مشت خاک کا مقدر بنتی ہے جبکہ وہ اپنی ذات میں پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مصروف عمل رہے۔اقبال کی شاعری میں انسانی عظمت کا تصور ان کے نظام فکر کی اس فلسفیانہ تعبیر سے وابستہ ہے جس میں عمل پیہم اور یقین محکم کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کے نزدیک اگر انسان عمل کی قوت اور یقین کی دولت سے محروم ہے تو وہ زندگی کے ان تقاضوں کی تکمیل نہیں کر سکتا جن سے کامیابی و کامرانی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔اقبال انسان کی حیات ارضی کی کامیابی کا دار و مدار اس کے مسلسل سرگرم عمل رہنے میں دیکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی شاعری میں ان حوالوں سے بھی کام لیتے ہیں جو عقائد کی رو سے گرچہ ان کی فکر سے متضاد نظر آتے ہیں تاہم جہد و عمل کے ذریعہ حصول مقصد کا ایک مثالی نمونہ ہیں۔ فکر اقبال کا یہ اجتہادی انداز ابلیس کے کردار کو بھی ایک علامت کے طور پر پیش کر کے نوع انساں کو اس سے جہد و عمل کی تحریک حاصل کرنے کا پیغام دیتا ہے۔اس کردار کے ذریعہ وہ تقدیر پر قانع رہنے کے بجائے تدبیر کے میدان میں زور آزمائی کی تلقین کرتے ہیں۔وہ بارگاہِ یزدی سے ابلیس کے نکالے جانے کو اس کی درماندگی کے بجائے اس کی بلند حوصلگی قرار دیتے ہیں اور اس جراتِ بیباکانہ کو اس کے اندر پوشیدہ جہد و عمل کی قوت کو بروئے کار لانے کا وسیلہ تسلیم کرتے ہیں۔اقبال نے اپنی کئی نظموں میں ابلیس کے کردار کے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے ۔ اس سلسلے کی ان کی نظم ’ مکالم�ۂ جبریل و ابلیس‘ ایک شاہکار ہے۔ اس نظم میں انھوں نے جہد و عمل کی قوت سے سرشار ابلیس کو اپنے مقصد کی حصول یابی میں اس قدر سرگرم عمل دکھایا ہے کہ وہ ہر مشکل اور خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اپنے مقصد سے رو گردانی اسے کسی طوربھی قبول نہیں حتیٰ کہ وہ اپنے قدرے آسودہ و لذت بخش ماضی سے بھی اپنے حال کو بہتر قرار دیتا ہے۔اس نظم کے ذریعہ اقبال اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسائل و مشکلات سے نبر د آزمائی میں ہی شخصیت کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں۔موضوع کی اس انفرادیت کے علاوہ اس نظم کا اسلوب بھی اقبال کے کمال شاعری کا بین ثبوت ہے۔جبریل و ابلیس کے مکالموں سے اس نظم کے تار و پود کچھ اس انداز میں بنے گیے ہیں کہ اس کا آہنگ براہ راست دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس نظم کا آخری اقتباس جو ابلیس کے مکالمے کی صورت میں ہے اس میں اقبال نے شورشِ ابلیس کو دنیا کی حرکت و عمل کا سبب قرار دیا ہے گرچہ اس کا مقصد نیک نہ ہو تاہم یہ ابلیس کو ہمہ وقت آمادۂ عمل رکھتا ہے ۔ اس نظم کے ذریعہ اقبال نے عزم و عمل کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے اس لطیف پہلو کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اگر دل جہد و عمل کی قوت سے تہی ہو تو کسی نیک مقصد سے وابستگی بھی اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔وہ جہد و عمل کی اس قوت کے نمو پانے کے لیے طوفانِ حوادث سے مقابلہ آرائی کو ضروری قرار دیتے ہیں ؂
ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ میں کہ تو؟
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست وپا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا ، جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو،اللہ ہو
اقبال نے اس نظم کے علاوہ اپنی دیگر تخلیقات میں بھی ابلیس کے کردار کو جہد و عمل کا ایک استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔وہ اس کردار کے ذریعہ نہ صرف نوع انساں کے دلوں میں جذبۂ عمل کی حرارت پیدا کرنے کے خواہاں ہیں بلکہ عصر حاضر کی انسانی تہذیب کی اس مصنوعی چکا چوند پر بھی طنزکرتے ہیں جو بنامِ ارتقا انسانوں کے طرز حیات میں ان مضرت رساں عوامل کی آمیزش کرتی ہے جن سے شیرازۂ حیات کے منتشر ہو جانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں اقبال نے عہد نو کے انسانی معاشرے میں مذہب و سیاست پر مادہ پرستی کی اس ملمع کاری کو ہدف بنایا ہے جو در حقیقت ابلیسی منصوبے کو بتدریج کامیابی سے ہمکنار کرتی نظر آتی ہے۔اقبال کی یہ نظم خصوصی طور پر ان کے سیاسی شعور کی پختگی کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔ انھوں نے اس نظم میں ابلیس کے مشیروں کی تعدا د کا جو تعین کیا ہے وہ گرچہ ان کی شعری ضرورت کا تقاضا رہا ہو لیکن اس پہلو کو اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی سیاست کے بدلے ہوئے رنگ و آہنگ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت دو چند ہو جاتی ہے۔
اقبال از آدم تا ایندم انسانی تاریخ کو ارتقا کا ایک ایسا سلسلہ قرار دیتے ہیں جو بطن گیتی و افلاک میں پوشیدہ ان اسرار نہانی کی گرہ کشائی کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنی عظمت و سربلندی کی سبیل کرتا ہے لیکن اس مرتبہ تک پہنچنے کے لیے وہ راز ہستی سے شناسائی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔عظمت انسانی کے متعلق فکر اقبال کی موثر ترجمانی کے طور پر ان کی نظم سرگزشت آدم کو پیش کیا جا سکتا ہے ؂
سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے
بھلایا قصۂ پیمانِ اولیں میں نے
لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں
پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے
رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
دکھایا اوجِ خیال فلک نشیں میں نے
ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کیا فلک کو سفر چھوڑ کر زمیں میں نے
کبھی میں غار حرا میں چھیا رہا برسوں
دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے
سنایا ہند میں آکر سرود ربانی
پسند کی کبھی یوناں کی سرزمیں میں نے
دیار ہند نے جس دم مری صدانہ سنی
بسایا خط�ۂ جاپان و ملک چیں میں نے
بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلافِ معن�ئ تعلیمِ اہل دیں میں نے
لہو سے لال کیا سیکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئل�ۂ گردش زمیں میں نے
کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
لگا کے آئین�ۂ عقل دور بیں میں نے
کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو
بنا دی غیرت جنت یہ سرزمیں میں نے
مگر خبر نہ ملی آہ راز ہستی کی
کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے
ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر
توپایا خان�ۂ دل میں اسے مکیں میں نے
اس نظم میں دور قدیم سے عصر حاضر تک کی انسانی تاریخ کے ہر وہ اہم حوالے آگیے ہیں جو انسانی تہذیب و ثقافت، مذہب و معاشرت کے مختلف مراحل کی وہ روداد بیان کرتے ہیں جن سے انسانی سفر ارتقا کی داستان مرتب ہوتی ہے۔یہ طرز فکر اقبال کی شاعری میں عمومی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ مختلف النوع موضوعات کے حوالے سے عظمت انسانی کی ترجمانی کا ایسا پہلو دریافت کر لیتے ہیں جو ان کے تصور حیات کی تائید کرتے ہوئے انسانی فضیلت کے نقوش اجاگر کرتا ہے۔اقبال نے ان نقوش کی درخشندگی و تابندگی کے لیے ان اقدار حیات کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے جن سے معاشرہ میں محبت ، اخوت اور اتحاد و یگانگت کی روایت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔اقبال کا سرمایۂ کلام اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس روئے زمین پر آمد آدم کو اس عظیم مقصد کی تعبیر تصور کرتے تھے جو اس دنیا کی زینت و زیبائش سے وابستہ ہے۔یہ ضرور ہے کہ وہ اس زینت و زیبائش کے لیے کارزار حیات کے ان دشوار گزار مرحلوں سے گزرنے کو بھی لازمی قرار دیتے ہیں جن سے خود شناسی و خداشناسی تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی کے جس تصور کی ترجمانی کی ہے وہ دراصل ان دشوار گزار مرحلوں سے سرخرو گزرنے میں نوع انساں کی معاونت کرتا ہے اور اس سے حوصلہ و تقویت حاصل کرنے کے بعد انسان کی عظمت و رفعت اوجِ ثریا سے ہمکنار نظر آتی ہے۔اقبال نے انسانی تہذیب و تمدن کا جو تصور اپنی شاعری میں پیش کیا ہے اس میں ان عارضی مفاہمتوں اور سیاسی مصلحتوں کا گزر نہیں جو بنام ارتقا انسانوں کے ذریعہ انسانوں کے ہی استحصال کو روا رکھنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ان کے نزدیک جدید دنیا کے مسائل کی ایک وجہ وہ نام نہاد تہذیبی ارتقا کا مفروضہ ہے جس نے نوع انساں کے افکار و افعال میں انتشار و خلفشار برپا کر دیا ہے اور اس اضطراب آمیز کیفیت کو اس مادی ترقی نے دو چند کرد یا ہے جس کے سبب انسانی اخلاقیات سے صالح عناصر عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال کی انسان شناسی ان کے اس مخصوص نظام فکر کی مرہون ہے جس کی اساس اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات ہیں۔اقبال کی شاعرانہ عظمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دور کے مسائل و معاملات پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ہی آئندہ کے انسانی سماج کو درپیش ممکنہ مسائل سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے۔چونکہ ان کی شخصیت شاعر اور مفکر کے مرکب سے تعمیر ہوئی تھی لہٰذا ان کی فکر میں ایسی آفافیت و ہمہ گیریت کا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔
عظمت انسانی کے بنیادی موضوع کی ترجمانی میں اقبال نے جن دیگر ضمنی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے ان کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی تعبیر میں ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف کے امکان کو سر دست مسترد نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ امکان اس وقت مزید قوی ہو جاتا ہے جبکہ معاصر انسانی معاشرہ میں جدید تعلیمی افکار کے سبب مذہبی اقدار پر انسانی ذہن کی اس یلغار سے متاثر ہو کر کلام اقبال کا مطالعہ کیا جائے جو کہ مذہبی تعلیمات و احکامات کو انسانی ارتقا کے لیے غیر مفید تصور کرتا ہے۔اس کے باوجود کلام اقبال کی مقبولیت کا ایک بڑا راز یہ ہے کہ ہر مکتب فکر سے وابستہ افراد کو اس میں اپنی تسکین قلب کا سامان ملتا ہے اور اگر نظریاتی سطح پر اختلاف کے باوصف اقبال کی شاعری اپنے اندر ایسی جاذبیت و تاثیر رکھتی ہے تو اس کا واحد سبب یہ ہے کہ اس میں عظمت انسانی کی ترجمانی انتہائی دل پذیر اور موثر انداز میں کی گئی ہے۔
*****