Mualana Abul Kalam Azad ki Basirat aur Asri Ma’nuwiat by Arbar Mujeeb

Articles

مولانا آزاد کی بصیرت اور عصری معنویت

ابرار مجیب

مولانا آزاد کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ایک طرف وہ سیاسی رہنما ہیں ، دوسری طرف مفکر، تیسری طرف اسلامیات کے بہترین عالم، چوتھی طرف ایک عظیم صحافی ۔بظاہر مولانا کی شخصیت کے یہ تمام پہلو الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن بغور جائزہ لینے سے یہ علم ہوتا ہے کہ مولانا اور پرنور سورج میں کوئی فرق نہیں جس سے کروڑوں کرنیں نکل کر دنیا کو ضیا بار کرتی ہیں۔یہ تمام پہلو مولانا جیسے عظیم مفکر کے عملی اور علمی اظہار ہیں جو ہمیں الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن یہ سب ایک ہی دھاگے میں پروئے قیمتی ہیرے ہیں۔غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ میں دو شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے سیاسی اور سماجی سطح پر خاص طور سے مسلمانوں کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔یہاں سرسید احمد خاں کے ترقی پسندانہ نظریات اور ان کی خدمات سے الگ مولانا آزاد اور علامہ اقبال کے نظریات کے اختلاف پر ایک نظر ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ۔اسلامی فکر کے دونوں ہی شارح ہیں ۔اقبال اپنی شاعری میں انقلابی اسلام کی عظمت کے گن گاتے نہیں تھکتے اور ماضی کے قصے سنا کر مسلمانوں کی روح کو گرمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔وہ مسلمان میں شاھین اور مردِ مومن تلاش کرتے ہیں ، مسلمانوں کے رزم و بزم کی یاد دلاتے ہیں اور حال کی زبوں حالی پر نوحہ کرتے ہیں ۔علامہ اقبال ہی ہیں جنہوں نے آلہ آباد کے مسلم لیگ کے اجلاس کے اپنے خطبہ صدارت میں اسلامی مملکت کا نظریہ پیش کیا تھا اور مسلمانوں کو ہندو سے الگ ایک قوم قرار دیا۔ایک اسلامی مملکت کے قیام کے سلسلے میں انہوں نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ہندوستان کے مسلمان حالات اور نظریات سے مجبور تھے کہ ھندؤں سے الگ ایک ریاست قائم کریں۔ جہاں ان کی اکثریت ہواور جہاں نہ صرف اسلام کا اخلاقی نظام بلکہ اسلام کا معاشی نظام بھی آزاد ہو۔ اسلام کو بحیثیت ایک قوت کے ہندوستان میں زندہ رکھنے کے لیے الگ مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔‘‘
علامہ اقبال مزید کہتے ہیں :
’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک (برصغیر )میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے۔‘‘
غور کریں تو علامہ کا استدلال قیام ریاست اسلامیہ کے سلسلے میں یہ ہے کہ مسلمان حالات و نظریات سے مجبور تھے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کاقیام عمل میں لائیں ، اسلام کو بحیثیت ایک قوت زندہ رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست قائم کی جائے اور اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت قائم رہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا وجود عمل میں آجائے۔اس بات سے قطع نظر کہ اسلام اور اسلامی تمدن کیا ہے اور مختلف جغرافیائی خطوں کے کلچرل اور تہذیبی وراثت نے اسلام کے عربی روپ پر کیا اثر ڈالااس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ صدیوں سے چلے آرہے بھائی چارہ اور آپسی محبت کی فضا میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کتنا جائز تھا ؟ اس مطالبے نے اکثریتی طبقہ کی فکر پر کتنا منفی اثر ڈالا ہوگا۔اقبا ل اسلام کے تمدنی پہلو کی شناخت ہندوستانی مشترکہ تہذیب سے الگ کیوں کرنا چاہتے تھے۔ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ اور قیام پاکستان کے کیا نتائج نکلے یہ تو ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن اسلام کے پیرو کاروں کو ایک قوم کا درجہ دینے کی قلعی بہت پہلے مولانا آزاد کھول چکے تھے۔قومیت کے تصور کو مذہب کے ساتھ وابستہ کرنا ایسی فاش غلطی تھی جس کا ازالہ تقریباّ’’ ناممکن ہے۔یہی وہ وش بیج ہے جو آج ایک تناور درخت بن گیا اور دونوں طبقوں میں منافرت کی سیاست کرنے والے اس زہریلے درخت کے پھل ہمیں پیش کررہے ہیں۔ اس معاملے میں مولانا آزاد کی دور اندیشی اور فکری نہج بالکل واضح تھی۔ ان کے مطابق مذہب کے نام پر کسی ریاست کا قیام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ۔کلچر ہی وہ بنیادی پہلو ہے جو قومیت کے تصور میں سب سے اہم ہے۔زبان، لباس، خوراک ، تہوار ، کھیل ، ادب ، شاعری ، فلسفہ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کے کلچر کا مشترکہ حصہ ہیں نہ کہ مذہب۔اس ضمن میں مولانا آزاد اپنی مشہور زمانہ کتاب انڈیا ونس فری ڈم میں رقم طراز ہیں:
’’اسکیم(قیام پاکستان)کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجموعی اعتبار سے ہندوستان کے لیے ہی نہیں ، مسلمانوں کے لیے خاص طور پر مضرت رساں ہے۔اور واقعہ یہ ہے کہ جتنے مسئلے حل کرتی ہے اس سے زیادہ مسئلے پیدا کرتی ہے۔‘‘
مولانا کی اس گہری فکری بصیرت سے سرسری صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہے ۔خاص طور سے جب ہم آج کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمان تین حصوں میں منقسم زبوں حالی اور کس مپرسی کا شکار ہے۔ پاکستان جو اسلامی قومیت کے تصور پر بنا ،یکجا نہ رہ سکا اور کلچر و زبان کے نام پر یہی اسلامی پاکستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا ۔ ایک نئے ملک کا وجود عمل میں آیا جس نے مذہبی بنیادوں پر نہیں کلچرل اور زبان کی بنیاد پر اپنے وجود کے جواز کو ساری دنیا سے تسلیم کروا لیا۔ایک اہم بات جو مولانا آزاد نے لکھی ہے وہ یہ کہ :
’’مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ پاکستان کی اصطلاح ہی میری طبیعیت کے خلاف ہے۔اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے ناپاک ہیں ۔جب کہ کچھ پاک ہیں۔پاک اور ناپاک میں علاقوں کی یہ تقسیم غیر اسلامی ہے اور راسخ العقیدہ برہمنیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے جو انسانوں اور ملکوں کو مقدس اور نجس میں بانٹتی ہے۔‘‘
مولانا آزاد کی فکری بصیرت جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی شامل ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم جب غور کرتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالنے میں مشکل نہیں ہوتی کہ پاکستان کی اصطلاح کے تعلق سے مولانا کی رائے غیر واجب نہیں بلکہ عین اسلامی فکر کے مطابق ہے۔ ایک طرف اسلامی تعلیمات میں زمین خدا کی ہے اور اس کا کوئی حصہ پاک اور کوئی ناپاک نہیں ہوسکتا ۔ ساری زمین پاک ہے اور اتنی
پاک کہ بلا کسی تردد نماز اداکی جاسکتی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو جدید منظر نامے میں رکھ کر سمجھنے کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہے وہ نہ اب ہے نہ اس وقت تھی ، گوکہ اس وقت اقبال اور جناح جیسے جید عالم اور فلاسفر موجو د تھے۔اگر بعض لوگ اس کی سمجھ رکھتے بھی تھے تو مصلحتا’’ سیاسی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ پاک اور ناپاک سرزمین کی ذیلی بحث سے آگے مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ مذہب کے بجائے کلچر انسانوں کو ایک ڈور میں باندھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔زبان نمایاں رول ادا کرتی ہے۔ ایک اردو بولنے والاپشتو زبان بولنے والے سے اس قدر قربت محسوس نہیں کرسکتا جتنا اردو یا ہندی بولنے والے سے ۔ایک بنگالی اردو والے سے اتنا نزدیک نہیں ہوسکتا جتنا ایک بنگالی سے چاہے وہ بنگالی ہندو ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان بننے کے بعد ہم سب نے اس کا انجام دیکھا۔کس طرح زبان اور کلچر نے مذہبی قومیت کے تصور کو غلط ثابت کردیا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔مولانا آزاد کی دور اندیشی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان اور ہندو کو کاندھے سے کاندھاملا کر ملک کی ترقی میں بے مثال رول ادا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔وہ برصغیر کا مستقبل ہندو مسلم اخوت میں دیکھتے تھے ۔ عصری صورت حال پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں تقسیم کے نتیجے میں جو دو ملک وجود میں آئے وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ آزادی کے بعد ہندوپاک کے درمیان تین جنگیں ہوچکیں اور لاکھوں انسان لقمہ ء اجل بن گئے ۔خود پاکستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ ہندوستان میں ہندو مسلم منافرت کو ہوا دی گئی اور سیاسی روٹی سینکی جانے لگی ۔ فسادات کا ایک نا مختتم سلسلہ شروع ہوگیا۔ تصور کریں اگر مولانا آزاد کی خواہش کے مطابق ہندوپاک کا بٹوارہ نہ ہوا ہوتا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچتا۔ بلاشبہ مسلمانوں کو ۔ ایک عظیم ملک کا حصہ ہونے کی وجہ سے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان زیادہ خوش حال ہوتے ۔ ساتھ ہی سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ان کی اہمیت زیادہ ہوتی کیوں کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بھی مسلمان چالیس فیصد سے کم نہیں ہوتے۔آج منقسم برصغیر میں مسلمانوں کی حالت دگر گوں ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور بنگلہ دیش میں راسخ العقیدگی نے اپنی جڑیں جما لی ہیں۔ہندوستان میں مسلمان بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر غربت اور بے روزگار ی کا شکار ہیں۔ ان کی وفاداری سخت گیر ہندو جماعتوں کی نظر میں مشکوک ہے۔مولانا آزاد مستقبل کی اس پریشاں حالی کے اشاروں کو سمجھ رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان بننے کی پرزور مخالفت کی ۔ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں مولانا آزاد کے خیالات کو سمجھنے کے لیے ان کی تقریر کا ایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’۔۔۔۔آج اگر فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور کھڑا ہوکر اعلان کردے کہ سورا ج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاؤں گا۔مگر اس سے دست بردار نہ ہوں کیوں کہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالمِ انسانیت کا نقصان ہوگا۔‘‘
مولانا کی مندرجہ بالا گفتگو کے پس منظر میں غور کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوراج یا حکومت کرنے کی آزادی یا وسیع تناظر میں آزادی ہے کیا؟ اس آزادی کا کسی ملک کے رہنے والوں کے درمیان اتحاد سے کیا رشتہ ہے ۔ کیا آزادی بغیر اتحاد کے قائم رہ سکتی ہے؟آزادی کے کے لیے پہلی شرط کیا ہے؟ ان بنیادی سوالوں پر غور کریں تو یہ بات صاف ہوتی نظر آتی ہے کہ غلامی کی اسیر کوئی قوم اس وقت آزادی حاصل نہیں کرسکتی جب تک وہ متحد نہیں ہو۔ ایک بکھری ہوئی آپس میں برسر پیکار قوم غلام بنانے والوں سے آزادی کس طرح حاصل کرسکتی ہے ۔ اس لیے مولانا آزاد کی نظر میں آزادی کے لیے پہلی شرط اتحاد ہے۔ہندو مسلم اتحاد ، یہ دو مذاہب کے ماننے والے اگر متحد نہیں ہوتے تو آزادی کا خٰواب دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتا۔دوسری طرف مولانا آزادکی اس اہم گفتگو میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ آزادی کے حصول کے لیے اتحاد ضروری ہے تو اسے مستقل قائم رکھنے کے لیے بھی ہندو مسلم اتحاد قائم کرنا ضروری ہے۔ایک آزاد معاشرے میں مذہبی گروہ اگر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں تو ایک ہی آزادی باقی رہ جاتی ہے اور وہ آزادی ہے جنون کی ، پاگل پن کی ، قتل و غارت گری کی ۔غور کریں کہ مولانا آزاد فرشتے کے اس اعلان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں سوراج کی بشارت دی جارہی ہے بلکہ وہ ہندو مسلم اتحاد کو اولیت دیتے ہیں ۔ ذرا ہمارے عہد کے منظر نامے پر غور کریں اور مولانا آزاد کے ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت کو سامنے رکھیں ۔
تقسیم ہند ، آزادی اور فسادات کے یک انسانیت سوز دورکے بعد ہم دیکھتے ہیں دو ملک ایک پاکستان جو اسلامی جمہوریہ کہلایا ، ظاہر ہے کہ یہ ایک تھیوکریٹک اسٹیٹ بنا جس میں مذہب کو اولیت حاصل ہے جبکہ ہندوستان ایک غیر مذہبی ، جمہوری ، سوشلسٹ ملک بنا۔نظریاتی سطح پر ممالک تو بن گئے لیکن ہندوستان میں بھی تقسیم ہند کے بعد بعض ہندو انتہا پسند جماعت مسلم مخالفت کی بنیاد پر سیاست میں قدم جمانے لگیں ۔ یہ کہا گیا کہ ہندوستان کے بٹوارے میں مسلمانوں کا ہاتھ تھا۔تاریخی واقعات مثلا’’ بابر سے بابری مسجد کا تعلق جوڑ کر رام جنم بھومی کی تحریک ، مختلف تاریخی شہروں کے ناموں کی تبدیلی اور ہر بات کو ہندومسلم تنازعہ بنانے کی روش ۔ ایک سیاسی ماحول ایسا بن گیا جہاں ہندوستانی مسلمانوں کی توہین کے بغیر ہندوستانی سیاست آگے بڑھ ہی نہیں سکتی ۔آج کے پس منظر میں مولانا آزاد کی پیش گوئیاں بہت بامعنی نظر آتی ہیں ۔میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مولانا آزاد نے پاکستان کے قیام کی صورت میں اس قسم کی صورت حال کے پیدا ہونے کی وضاحت بہت پہلے کردی تھی ۔ اس کے باوجود مولانا نے تقسیم کے فورا’’بعد مسلمانوں کی ہجرت کی مخالفت کرتے ہوئے جامع مسجد سے وہ تاریخی تقریر کی تھی جس میں زو ر اس بات پر تھا کہ تم اپنی ثقافتی اور تاریخی وراثت کو کس کے بھروسے چھوڑ کر جارہے ہو۔ مولانا آزاد کا یہ خیال بھی تھا کہ مہاجروں کو پاکستان میں پہلے سے بسے سندھی ، پنجابی ، بلوچی اور پختون مسلمان وہ عزت نہیں دیں جو عزت انہیں آزاد ہندوستان میں حاصل ہے۔مولانا نے اپنی تاریخیٰ تقریر میں کہا تھا:
’’یہ دیکھو، مسجد کے بلند مینار اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا ، ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلے نے وضو کیا تھااور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے ۔پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو اس پر مسکرائے ، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھے تو اس کا رخ پھیر دیا۔آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ۔ یہ ایماں کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔‘‘اس جوشیلی تقریر اور آزاد کی تھرتھرا دینے والی آواز کا تصور کریں تو مجلس میں موجود حاضرین پر اس کے اثر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اگر اسے منطقی سطح پر دیکھیں تو یہ تقریر بے مغز جذباتیت سے بھرپور ہے۔اس تقریر سے کوئی علمی خزانہ یا کوئی ایسا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاسکتا جو مستقبل کے اندھیرے میں رہنما بن سکے۔یہ ایک ہنگامی صورت حال میں کی گئی انتہائی جذباتی تقریر تھی۔ لوگ اپنی طنابیں کھول کر ایسی زمینوں کی طرف رخت سفر باندھ رہے تھے جنہیں انہوں نے کبھی دیکھا نہیں ۔ جہاں کے موسموں کی سختی یا نرمی سے وہ واقف نہیں تھے۔جہاں کی ہواؤں کو وہ جانتے نہیں تھے ، جہاں کے لوگ اجنبی تھی۔ لوگ رخت سفر باندھ رہے تھے اپنے بزرگوں کے مزاروں ، اپنی تاریخی عمارتوں ، اپنے علمی وراثت کو چھوڑ کر۔ ایسی صورت حال میں لوگوں کو علمی منطق سے روکنا ممکن نہیں تھا۔ یہ آزاد کا جینئس تھا کہ انہوں نے ایک جذباتی ، دل کو گرما دینے والی تقریر کی اور جانے والوں کے قدم رک گئے۔آج ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد ہمیں آزاد کی کوششوں کی یاد دلاتی ہے۔دوسری طرف ہجرت کرکے جانے والے ہندوستانی مسلمان آج پاکستان میں جس قسم کی منافرت اور لسانی عصبیت سے گزر رہے ہیں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔ اس بات کی پیش گوئی آزاد نے بہت واضح طور پر کی تھی۔
مختلف حوالوں سے دراصل ہم مولانا آزاد کی آج کے عہد میں فکری معنویت پر غور کررہے ہیں ۔ان مذہبی افکار کے تعلق سے طویل گفتگو ہوسکتی جس میں زمانے اور حالات کے مطابق دینی احکام کو دیکھنے اور سمجھنے کا عمل ملتا۔جس نے ترجمان القران گہرائی سے پڑھا وہ پہلی جلد سورۃ فاتحہ کی تشریح سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس طرح مولانا آزاد نے اس سورۃ کے حوالے قرآن الحکیم کی روح کو ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی تشریح اور تفسیر کے حوالے سے انہوں نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو ہمارے سامنے پیش کردیا ۔ہماری معاشی زندگی ، اخلاقی زندگی ، سماجی زندگی ، دوسرے مذاہب سے ہمارے رشتے ،جدید دنیا میں مسلمانوں کا رول ، علم اور عمل کے اصول و ضوابط۔غرض کہ قران الحکیم کو سامنے رکھتے ہوئے آزاد نے ہمیں وہ آئینہ دکھایا جس میں جدید دنیا میں ایک مسلمان کو راسخ العقید گی کی بجائے وسیع القلبی ، جمود کی جگہ تحرک اور جہالت کی جگہ علم کے فروغ پر توجہ دینی چاہئے۔غور کیجئے آج مسلم معاشرہ کہاں کھڑا ہے۔علم کی اس بدلتی دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے۔معاشی سطح پر دنیا کے منظرنامے پر ہم کہاں ہیں۔ عورتوں کے سماجی مقام کا تعئین ہم کیسے کررہے ہیں۔زندگی کی ہر سطح پر آخر ہم پیچھے کیوں ہیں ۔ ظاہر ہے ایک طرف ہم دین کی بنیادی تعلیم کی وسعت کو راسخ العقیدگی کی عینک میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید علوم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ مولانا آزاد کی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اگر ہم اپنا سفر شروع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں ہم اپنا مقام حاصل نہ کرسکیں۔اس معاملے میں سرسید اور آزاد ہم نوا نظر آتے ہیں۔خود آزادی کے بعد مولانا آزاد ہندوستانی ریاست کے دس سالوں تک وزیر تعلیم رہے اور جدید ہندوستان کے تعلیمی نظام کا جو جدید روپ آج ہمیں نظر آرہا ہے وہ مولانا آزاد کی فراست اور فکر کا نتیجہ ہی ہے۔آئی آئی ٹی سے لے کر عظیم یونیورسیٹیوں کے قیام تک مولانا آزاد کے تصور تعلیم کے حقیقی روپ کے جلوے نظر آتے ہیں۔
اس مختصر مضمون میں مولانا آزاد کی فکری معنویت اور اس معنویت کی عصری اہمیت کا پوری گہرائی سے جائزہ لینا ممکن نہیں ۔ یہ موضوع ایک مکمل کتاب کا متقاضی ہے لیکن مختصرا’’مولانا آزاد کی فکر میں تعلیم ، اتحاد، اورجدید فکر سے ہم آہنگی کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر انپہلوؤں کو ساتھ لے کر ہم آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کی دوڑمیں ہم پیچھے رہ جائیں۔
———————————————————————————————–
جناب ابرار مجیب اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور نقاد ہیں