Qasida E Ghalib ka Tajazia by Dr. Zakir Khan Zakir

Articles

دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں (قصیدۂ غالب : در منقبتِ حضرت علیؓ)

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکرؔ

 

دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
بے دلی ہاے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہاے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم
لغو ہے آئینۂ فرق جنون و تمکیں
نقشِ معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ صورت
سخنِ حق ہمہ پیمانۂ ذوقِ تحسیں
لاف دانش غلط و نفعِ عبادت معلوم
دُردِ یک ساغرِ غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں
مثلِ مضمونِ وفا باد بدست تسلیم
صورتِ نقش قدم خاک بہ فرق تمکیں
عشق بے ربطیِ شیرازۂ اجزاے حواس
وصل زنگارِ رخ آئینۂ حسنِ یقیں
کوہ کن گر سنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بے ستوں آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں
کس نے دیکھا نفس اہلِ وفا آتش خیز
کس نے پایا اثر نالۂ دل ہاے حزیں
سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں لیکن
نہ سر و برگِ ستایش نہ دماغِ نفریں
کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارجِ آدابِ وقار و تمکیں
نقشِ لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یاعلی عرض کر اے فطرتِ وسواس قریں
مظہر فیضِ خدا ،جان و دلِ ختمِ رسل
قبلۂ آلِ نبی کعبۂ ایجادِ یقیں
ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرمِ خرام
ہر کفِ خاک ہے واں گردۂ تصویرِ زمیں
جلوہ پرواز ہو نقشِ قدم اس کا جس جا
وہ کفِ خاک ہے ناموسِ دو عالم کی امیں
نسبتِ نام سے اس کی ہے یہ رتبہ کہ رہے
ابداً پشتِ فلک خم شدۂ نازِ زمیں
فیضِ خُلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے اسد
بوئے گل سے نفسِ بادِ صبا عطر آگیں
بُرّشِ تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہوجائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں
کفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بت خانۂ چیں
جاں پناہا ! دل و جاں فیض رسانا! شاہا
وصی ختمِ رسل تو ہے بہ فتواے یقیں
جسمِ اطہر کو ترے دوش پیمبر منبر
نام نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں
آستاں پر ہے ترے جوہرِ آئینۂ سنگ
رقمِ بندگئ حضرتِ جبریلِ امیں
تیرے در کے لیے اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
تیری مدحت کے لیے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم دست و جبیں
کس سے ہوسکتی ہے مداحئ ممدوح خدا
کس سے ہوسکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں
جنس بازارِ معاصی اسد اللہ اسدؔ
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
شوخئ عرض مطالب میں ہے گستاخِ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بس کہ یقیں
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسن قبول
کہ اِجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
غم شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خون جگر سے مری آنکھیں رنگیں
طبع کو الفت دُلدل میں یہ سرگرمئ شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں
دل الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہِ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں
صرف اعدا ،اثرِ شعلہ و دُود دوزخ
وقف احباب گل و سنبل فردوسِ بریں

تجزیہ
ڈاکٹر ذاکر خان ذاکرؔ
نعتیہ شاعری کی طرح منقبتی شاعری کی ابتدا بھی عربی سے ہوتی ہے ، سب سے پہلی منقبت حضرت امام زین العابدینؓ کی شان میں کی گئی جس کا شرف، فرزدقؔ کو حاصل ہوا۔بقول محمود الٰہی:
’’فرزدقؔ سے عربی میں منقبتی شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ سب سے پہلے حضرت امام زین العابدینؓ کی منقبت میں اس نے شاندار میمیہ قصیدہ لکھا جوآن کی آن میں سارے عرب میں پھیل گیا اور اس کی شہرت میں آج تک کوئی کمی نہیں ہوئی۔‘‘
(اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ،ص ۹۴۔ دوسرااڈیشن:۱۹۹۵ء ؁۔اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ)
فارسی کے ذریعے اردو شاعری میں یہ صنف صوفیائے کرام کے ہاتھوں فروغ پائی اور اردو شاعری کے ابتدائی زمانے ہی سے مثنویوں اور قصائد میں اس کے نقوش ملتے ہیں۔مثنویوں میں تو یہ چلن عام تھا کہ حمد،نعت اور منقبت ہی سے آغاز کیا جاتاتھا۔ غالبؔ کا قصیدہ جس کی ابتدا ’’دہر،جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں‘‘مصرعے سے ہوتی ہے،حضرت علیؓ کی مدح میں ہے۔ جوکہ دیوانِ غالب،مرتب:کالی داس گپتا رضاؔ کی تاریخی ترتیب کے مطابق 1821کی تخلیق ہے۔پہلے دس شعر تشبیب کے ہیں اس کے بعد دو شعر گریز کے،اُنیس شعر منقبتِ علیؓ میں اور باقی دو شعر عقیدت مندانہ اظہار کے خاتمہ پر ہے۔ اس طرح اس قصیدے میں کل ۳۳؍شعرہیں۔
قصیدے کا اصل موضوع تو مدح یا ہجوہے لیکن یہ صنف مدح یاہجوسے زیادہ تشبیب کے لیے شہرت رکھتی ہے۔ تشبیب کی اصطلاح ابتدا میں صرف عشقیہ تمہید کے لیے رائج تھی ، بعد میں اس کا اطلاق قصیدے کی تمہید کے سبھی موضوع پر ہونے لگا۔قصیدے کے فن پر جب بھی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ تشبیب کے موضوع پر ہی زورِ قلم صرف کیا جاتا ہے ۔مدح میں ممدوح کے مرتبے کے لحاظ سے جو بھی خیال باندھا جاتاہے وہ زیادہ ندرت آگیں نہیں ہوتا کیوں کہ نعت و منقبت،یا کسی حاکم یا وہ شخصیت جس سے مداح محبت و عقیدت رکھتا ہو،یا پھر صلہ وانعام، کی غرض سے مدح کرتا ہو، ایک حد سے آگے تجاوز نہیں کرسکتا۔ بس الفاظ اور اپنی قادرالکلامی سے وہ خیال کے اظہار میں خوش بیانی اور اپنی جولانیِ طبع کا مظاہرہ کرتا ہے۔جب کہ تشبیب میں موضوعاتی تنوع کی فراوانی ہوتی ہے۔قصیدے کی کامیابی کا دارومدار عمدہ تشبیب پر ہوتاہے۔محمود الٰہی نے غالبؔ کی ہر تشبیب کوایک’’تیرِ نیم کش‘‘ کہا ہے۔ غالبؔ کے اس قصیدے کی تشبیب کا پہلا ہی شعر سامع یا قاری کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے ، پوری تشبیب،گریز کے ساتھ ملاحظہ ہو:
دہر، جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے، اگر حسن نہ ہوتا خودبیں؟
بے دلی ہائے تماشہ،کہ نہ عبرت ہے‘ نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنا، کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہرزہ ہے، نغمۂ زیروبمِ ہستی وعدم

لغو ہے، آئینۂ فرقِ جنون وتمکیں
نقشِ معنی ہمہ، خمیازۂ عرضِ صورت

سخنِ حق ہمہ، پیمانۂ ذوقِ تحسیں
لافِ دانش غلط، و نفعِ عبادت معلوم

دردِ یک ساغرِ غفلت ہے، چہ دنیا،وچہ دیں
مثلِ مضمونِ وفا، بادبدستِ تسلیم

صورتِ نقشِ قدم، خاک بہ فرقِ تمکیں
عشق، بے ربطیِ شیرازۂ اجزاے حواس

وصل، زنگارِ رخِ آئینۂ حسنِ یقیں
کوہ کن، گُرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب

بے ستوں، آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں
کس نے دیکھا ، نفسِ اہلِ وفا آتش خیز؟

کس نے پایا، اثرِ نالۂ دِلہائے حزیں؟
سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں، لیکن

نہ سرو برگِ ستائش، نہ دماغِ نفریں
کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً بااللہ!

یک قلم خارجِ آدابِ وقارو تمکیں
نقشِ’’لاحول‘‘ لکھ، اے خامۂ ہذیاں تحریر

’’یاعلی‘‘ عرض کر، اے فطرتِ وَسواس قریں
اس تشبیب میں تصوفانہ مضمون باندھا گیا ہے اور تصوف کے ایک خاص رجحان کی نمائندگی اس میں ندرت کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ پہلے شعر میں تصوف کا وہ فلسفہ ہے جس کے مطابق اللہ کو جب اپنے دیدار کی تمنا ہوئی تو اس نے دنیا کو آئینہ بنایا جس میں وہ اپنا عکس دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ دنیا اللہ کی وحدت کی تجلی کے سوا کچھ نہیں اوریہ تجلی اس کی وحدانیت پردلال دیتی ہے۔ یہ دنیا اس کے مظاہر میں سے ہے جس میں اس کی ذات اور صفات جھلکتی ہے،اپنی نمائش اور آرائش کے لیے اس نے دنیا کا آئینہ بنایا جس میں وہ اپنا دیدار کرتاہے۔ اگر اس میں خودبینی کاجذبہ نہ پیدا ہوا ہوتا تویہ عالم نہیں بنایا گیا ہوتا۔ دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ بے دلی اور بے کسی ہم میں اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کے کائنات کے دیدار کی تمنا ہمارے اندر مرگئی ہے۔ یہ دنیا عبرت کے لیے اور اللہ کی جلوہ گری کے لیے انسان کو دعوتِ نظارہ دیتی ہے ۔تماشہ سے مراد یہاں نظارہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے دیدار کی جو تمنا ہے وہ ہمارے اندر مرگئی ہے۔ نہ ہم پوری طرح سے دنیا ہی میں مکمل ہیں اور نہ ہی نا دین میں۔ تیسرے شعر میں زیر، عدم کے لیے اور بم، ہستی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ’’زیرو بم ‘‘موسیقی،نغمہ یا سرتال کی اصطلاح ہے ،جوآوازموٹی اور آہستہ سے نکلتی ہے اسے زیرکہتے ہیں اور جو اونچی تان ہوتی ہے اسے بم کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ لایا گیا ہے کہ یہ دنیا ،یہ کائنات ہو نہ ہو، اس کے اندر جو نغمگی پیدا ہوتی ہے،یا اس کو جاننے کا جو دعویٰ ہے کہ ہم اس کے زیروبم اور اس کی موسیقیت کو سمجھتے ہیں ، یہ وحدت الوجود کا ایک نظریہ ہے جسے تصوف کی اصطلاح میں تسبیحِ قولی کہتے ہیں،اس کی دو قسمیں ہیں ، جو وحدت الوجود کے قائل ہیں وہ قولی تسبیح پر یقین رکھتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جو کچھ زمین وآسمان میں ہے وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، غالبؔ اسی نظریے کے قائل ہیں۔اور جو وحدت الشہود کے ماننے والے ہیں تسبیحِ حالی کومانتے ہیں۔ غالبؔ کہتے ہیں جو لوگ نغمگی کا دعویٰ کر رہے ہیں،اس کے نغمات کو سمجھ رہے ہیں یہ بکواس کر رہے ہیں ان کا دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے۔اسی طرح جنون وتمکین میں جو فرق ہے اس کی آئینہ داری بھی بے بنیاد اور لغو ہے جنون سے مراد عاشق یعنی عشقِ خداوندی کا قائل ،تمکین سے مراددل اور دماغ،تمکنت سے مرادفلسفہ یعنی اہل دنیا،یہ دونوں اہل نظرجوفرق پیدا کرتے ہیں، یعنی جو دین اور دنیا میں فرق ہے،اور جو آئینہ داری کرتے ہیں یعنی تفریق و امتیاز کرتے ہیں یہ سب کے سب بکواس اور غلط کرتے ہیں۔
چوتھے شعر میں،’’ نقشِ معنی ‘‘یعنی اس دینا کی معلومات کے نقوش ’’ خمیازۂ عرضِ صورت‘‘یعنی یہ سب ظاہری ہیں۔ مطلب یہ کہ سمندر میں جو جھاگ اٹھتا ہے وہ سمندر کا حصہ تو ہوتا ہے لیکن پانی نہیں ہے۔سخن حق کی جوبات ہے وہ تو ظاہری بات ہے ،یہاں خمیازہ کی مناسبت سے پیمانۂ ذوقِ تحسیں جو لایا گیا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ ہمارا حسن شناسی کا جو پیمانہ ہے وہ بھی غیر معتبر ہے۔ پانچویں شعرمیں ’’لافِ دانش‘‘ ، دانش یعنی عقل مندی، دنیاوی علوم اورلاف یعنی بکواس ،بے کار کا دعویٰ کرنا ، یعنی عقل مندی اور دنیاوی علوم پر جو عبورکا دعویٰ ہے وہ بھی غلط ہے ۔عبادت اور دین داری کے نفع کی معلومات کا دعویٰ بھی غلط ہے، چاہے دین ہو یا دنیا ان سب کے علم کا دعویٰ لا علمی کے جام کی تلچھٹ ہے۔ چھٹے شعر میں’’بادبدستِ تسلیم‘‘ یعنی تسلیم کے دست پر ہوا،یعنی ہوا ہرچیز کو اڑادیتی ہے،غالبؔ کا فلسفہ یہ ہے کہ دنیا میں وفانام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئی وفادار نہیں ہے۔ ’’مثلِ مضمونِ وفا‘‘ جہاں لفظ وفا لاتے ہیں وہاں وہ معنی یا مضمون کی بات کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کی رضا یا رغبت کے سامنے،تسلیم ہونا یا ایمان لے آنایہ بالکل جھوٹی بات ہے، لہٰذا اللہ سے بھی وفاداری کا سوال پیدا نہیں ہوتایہ سب دعوے غلط ہیں۔ اورتمام دنیاوی علوم و فلسفے کے سر پر خاک ،قدموں کے نقش کی طرح۔یعنی قدم اٹھنے کے بعد خالی نقش رہ جاتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، یہ غالبؔ کا خاص فلسفہ ہے۔ یعنی جو صورت نظر آرہی ہے وہ حقیقت میں نہیں ہے یہ اس کا نقش ہے۔ ساتویں شعر میں عقل و شعور کے تمام اجزا کی شیرازہ بندی یہاں کتاب کی مناسبت سے لایا گیاہے جس طرح کتاب کی طباعت ہوتی ہے تو آٹھ آٹھ صفحے کے جز بنائے جاتے ہیں اور ان جز کو دھاگے کی مدد سے سلنے کو شیرازہ بندی کہتے ہیں ۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے عشق کی کتاب کے شیرازے اکھڑ چکے ہیں ان میں کوئی ربط ہی نہیں ہے۔ یعنی ہمارے عقل و شعور کے اجزاکے بکھر جانے کا نام عشق ہے۔یعنی یہ عشق نہیں ہے اور وصل بھی نہیں ہے اللہ سے عشق کا دعوی بھی غلط ہے۔وصل تب ہوگا جب ہمارے دل کا آئینہ بالکل صاف ہو۔ آئینے پر لگا ہوا مسالہ زنگار کہلاتا ہے جس میں صورت نظرآتی ہے اس میں تلچھٹ پڑی ہونے کی وجہ سے صورت نہیں دیکھ پارہے ہیں۔ وہ صورت نظرنہیں آرہی ہے اس لیے وصل نہیں ہو پارہاہے۔ حسنِ یقین سے مراد یہاں ایمان ہے۔ یعنی ہمارے دل کے آئینے کا زنگار اتنا دھندلا ہو چکا ہے کہ اس میں ذاتِ حقیقی کا چہرہ نظرنہیں آرہاہے۔ آٹھویں شعر میں رقیب سے مراد یہاں خسروپرویز سے ہے۔ طرب گاہ یعنی اس کا محل، گُرسنہ یعنی بھوکا،ہوس پرست، اور کوہ کن،پہاڑ کاٹنے والا یعنی فرہاد۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ فرہاد شیریں سے سچی محبت نہیں کرتا تھا بلکہ پرویز کے عالی شان محل میں مزدوری کرنے کا بھوکا تھا، اس کے دربار میں رہنا چاہتا تھا،اور بے ستوں سے مراد وہ پہاڑ جس پہ خسرو کا محل قائم تھا۔ اس کے بعد ’’آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں‘‘ یہاں ایہام ہے۔ یہاں شیریں کا لفظ گہرا خواب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور فرہاد کی محبوبہ شیریں کے لیے بھی۔یعنی یہاں بھی بیداری نہیں ،غفلت ہی غفلت ہے۔ نویں شعر میں یہ کہا گیا کہ اہل وفا کے نفس کو کس نے شعلہ انگیز دیکھا ہے ، اہل وفا جھوٹے ہیں وفا اس دنیا میں نہیں ہے۔ اور دل دکھے غم زدہ دلوں کے نالوں سے اثر کس نے پایا ہے؟ یعنی یہ بھی جھوٹے ہیں۔ دسویں شعرمیں، چاہے وہ صوفی ہوں ،فلسفی ہوںیا دانشور ، چاہے عاشقِ الٰہی ہوں، میں ان لوگوں کے زمزمے کو سن رہاہوں، لیکن میں خلوص اور محبت سے نہیں سن رہا ، نہ ہی ان لوگوں کی تعریف ستائش کرنے کا مجھے شوق ہے اوردماغ ان لوگوں سے نفرت کررہاہے۔ یعنی میرے نزدیک ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کہ میں اس کو قبول کروں یا مسترد کروں، یعنی ان سے لا تعلق ہوں۔ غالبؔ کی اس تشبیب میں جتنے شعر ہیں سبھی کا لب لباب یہ ہے کہ دینا کی کسی شے میں خلوص وفا نہیں ہے،سب جھوٹی ہیں۔ کیوں کہ انھیں علیؓ سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرنا ہے اس لیے بے ثباتیِ دنیا اور یہاں کی ہر شے سے بیزاری کا ذکر کررہے ہیں۔
اب یہاں اچانک انھیںیہ خیال آیا کہ حضرت علیؓ کے آداب کو میں نے خارج کیا ہے یعنی غلطی اور گستاخی کی ہے اور ہرزہ سرائی یعنی بکواس کیے جارہاہوں اللہ مجھے معاف کرے۔اور میری فطرت میں جو وسوسے آرہے ہیں وہ شیطان کی وجہ سے آرہے ہیں ،لہٰذا،یاعلیؓ، عرض کرکے، لاحول کا نقش لکھ دوں تاکہ شیطان بھاگ جائے اور حضرت علیؓ کی یاد میں دل پختہ ہوجائے۔اس کے بعد حضرت علیؓ کی مدح شروع کرتے ہیں اور انیسویں شعر میں حضرت علیؓ کی سواری ’’دُلدُل‘‘ کی الفت میں اپنی طبع کو اس طرح سرگرمِ شوق رکھنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک اس سے قدم بڑھائے جاسکیں، وہاں تک وہ سجدہ کرتے چلیں گے، یعنی حضرت علیؓ سے بے انتہا محبت وعقیدت ہے انھیں۔
جہاں تک غالبؔ کے قصائد کی بات ہے وہ اس میدان میں بھی اپنے ہم عصروں سے الگ راہ نکالے ہوئے ہیں۔ ان کے اس قصیدے میں برجستگی اور آمد کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس قصیدے کے کئی شعر ایسے ہیں جس میں اردو کے تفاعیل کا استعمال با لکل نہیں ہوا ہے ۔صرف عربی اور فارسی الفاظ کو ترکیبی صورت میں پرویا گیا ہے۔ اس کے باوجود بھی مصرعوں کی روانی میں کوئی رخنہ نہیں آتا اور خیال کی بلندی، معنی ومفہوم کی تفہیم میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ہاں کہیں کہیں پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ جوشِ محبت و عقیدت میں جذباتی ہوکر منقبت کی حد عبور کرکے حمداورنعت کی حدود میں داخل ہوگئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
جلوہ پرداز ہو، نقشِ قدم اس کا ، جس جا

وہ کفِ خاک ہے ناموسِ دوعالم کی امیں
فیضِ خلق اُس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا

بوئے گل سے، نفسِ بادِصبا، عطرآگیں
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول

کہ اِجابت کہے ہر حرف پہ سوبار’’آمیں‘‘
غالبؔ کے عقیدے کا تعلق کس مسلم فرقے سے تھا وہ اس منقبت میں صاف جھلک رہا ہے۔ پچیسویں شعر میں انھوں نے حضرت علیؓ کی مدحت میں دل وجاں، کام وزباں اور تسلیم کے لیے لوح وقلم اور دست وجبیں، سب کچھ وقف کردیا توپھر حمد ونعت کے لیے ان کے پاس بچا ہی کیاہے۔ خود کو یکتا سمجھنے والے غالبؔ بھی دیگر شعرا کی طرح اپنے اعتقاد کی خول سے باہر نہیں نکل پائے۔ اس کے باوجود بھی ان کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
***