Mutala-e- Chakbast Ki Ek Nai Jehat

Articles

مطالعہ ٔ چکبستؔ کی ایک نئی جہت

ڈاکٹرجمال رضوی

مطالعہ ٔ چکبستؔ کی ایک نئی جہت

پنڈت برج نرائن چکبستؔ کا شمار نشاۃ الثانیہ کی اردو شاعری کے قابل ذکر شعرا میں ہوتا ہے۔ عددی اعتبار سے چکبستؔ کا شعری سرمایہ گرچہ مختصر ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے قوم پرستی اور حب وطن کو اپنی شاعری کا بنیادی موضوع بنایا اور اس موضوع کی تشریح و توضیح مختلف حوالوں سے کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ انسان کی کامیابی و کامرانی کا راز وطن کی ترقی میں مضمر ہے۔ چکبستؔ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں اور رباعیات بھی کہی ہیں۔چکبست ؔ کی شاعری اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات و مسائل کا بیانیہ ہے لیکن انھوں نے ان موضوعات کو جس انداز میں برتا ہے ایک حد تک ان کی معنویت آج بھی باقی ہے ۔ چکبستؔ کا شمار اردو کے ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے قلیل سے شعری سرمایہ کے باوصف نمایاں شہرت حاصل کی۔چکبستؔ کی زندگی کے شب و روز بھی محض ۴۴؍ برس کی مدت پر محیط ہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے اگر ان کی عمر طویل ہوتی تو ان کا شعری سرمایہ بھی نسبتاً زیادہ ہوتا۔ چکبستؔ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز نظم گوئی سے ہوا۔ انھوں نے مشق سخن کا آغاز ۱۸۹۴ء میں اس نظم سے کیا تھا جو کشمیری پنڈتوں کی سوشل کانفرنس کے چوتھے اجلاس میں پڑھی گئی تھی جبکہ پہلی غزل انھوں نے ۱۹۰۸ء میں کہی تھی۔ اردو کی شعری روایت پر نظر ڈالیں تو ایسے شعرا بہت کم تعداد میں ملیں گے جن کی شاعری کا آغاز موضوعاتی شاعری سے ہوا ہو۔ بیشتر شعرا ، شاعری کا آغاز عموماً غزل سے کرتے ہیں اور بعد ازاں شاعری کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ غالباً یہی سبب ہے کہ اردو شعرا کا ذکر کرتے ہوئے بیشتر نے اس طرح کے روایتی جملے لکھے ہیں کہ ’’ شاعری کا آغاز غزل گوئی سے ہوا اور بعد میں نظمیں بھی لکھیں ۔‘‘ چکبستؔ کے بارے میں بھی ادبی تاریخ کے بعض مرتبین نے اسی روایت کو باقی رکھا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والوں میں نورالحسن نقوی کا بھی شمار ہوتا ہے اور ان کی کتاب ’’ تاریخ ادب اردو‘ کو مستند کتاب مانا جاتا ہے۔نقوی صاحب نے بھی چکبستؔ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ چکبستؔ نے روایتی انداز سے شاعری شروع کی اور غزلیں بھی کہیں مگر جلد ہی طبیعت کا اصلی رجحان غالب آگیا۔ وہ نظم گوئی کی طرف متوجہ ہو گیے اور وطن پرستی کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔‘‘ ؎۱اسی طرح چکبستؔ کی جائے پیدائش بھی مذکورہ کتاب میں غلط درج ہے لیکن جو عبارت ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلطی مرتب کی نہیں کاتب کی ہے۔ عبارت اس طرح ہے:’’ برج نرائن کے بزرگوں کا وطن لکھنؤ تھا لیکن ان کی ولادت ۱۸۸۲ء میں لکھنؤ میں ہوئی ۔‘‘ ؎۲
چکبستؔ کی شاعری میں موضوعات کا تنوع نہیں ہے لیکن زبان و بیان پر ان کی ماہرانہ قدرت انھیں اردو کے چند نمایاں شعرا میں جگہ دیتی ہے۔ ان کی شاعری پر انیسؔ اور غالبؔ کا رنگ بہت گہرا ہے اور بعض مقامات پر آتشؔ کا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ بعض ناقدین نے تو چکبستؔ کو انیسؔ و غالبؔ کا خوشہ چیں تک کہا ہے۔ پروفیسر شبیہ الحسن نے اپنے مضمون ’’ مرانیسؔ کی خوشہ چینی اور ان کے خوشہ چین‘ میں چکبستؔ کو واضح طور پر انیسؔ کا خوشہ چیں قرار دیتے ہوئے لکھا ہے’’ چکبستؔ کی منظر نگاری ہر چند کہ انیسؔ کی منظر نگاری کے مقابلے میں کارچوب کی الٹی سمت ہے لیکن اسلوب و خاکہ میر انیسؔ کا ہی رکھتی ہے۔‘‘ ؎۳میرانیسؔ کی منظر نگاری کے علاوہ انیسؔ کی شاعری کے رزمیہ عنصر نے بھی چکبستؔ کو بہت گہرائی تک متاثر کیا تھا اور چکبستؔ کی بعض نظموں میں اس کی باز گشت صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ شعری اسلوب کے معاملے میں بھی چکبستؔ، انیسؔ و غالبؔ سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ خصوصاً ان کی نظموں میں بعض مصرعوں میں ہوبہو انیسؔ کا رنگ نمایاں ہے۔ نظمیہ شاعری میں چکبستؔ نے صرف اسلوب کی سطح پر ہی انیسؔ سے استفادہ نہیں کیا بلکہ ہیئت بھی بیشتر وہی اختیار کی جو انیسؔ کے مرثیوں کی ہے۔غزلوں میں چکبستؔ نے بیشتر غالبؔ سے استفادہ کیا ہے اور کئی غزلیں ان کی زمین میں کہی ہیں جس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔
چکبستؔ کے سیاسی و سماجی تصورات سے اختلاف کے باوصف اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حب وطن اور قوم پرستی ان کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ ان کی زندگی تصنع اور ظاہر پرستی سے مبرا تھی اور ان کی شخصیت کو بجا طور پر مشرقی اقدار حیات کا آئینہ دار کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف شاعری بلکہ عملی طور پر بھی اصلاح معاشرہ کے لیے صالح کوششیں کیں۔ چکبستؔ کشمیری مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے عمر بھر سرگرم عمل رہے ۔ جہاں تک ان کے سیاسی و سماجی تصورات کی بات ہے تو اس میں اتنا عمق اور وسعت نہیں جو ہندوستان جیسے کثیر مذہبی و ثقافتی ملک کے لیے بہت زیادہ کار آمد ثابت ہو۔وہ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت کے مخالف تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر انگریز ہندوستانیوں کے استحصال سے باز آجائیں اور ملکی نظام ہندوستانیوں کے سپرد کردیں تو ان کے یہاں رہنے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ سیاست اور سماج کے متعلق ان کا نظریہ بہت سیدھا اور سپاٹ تھا جو کہ بیسویں صدی کے پیچیدہ ہندوستانی معاشرہ کے لیے بہت موزوں نہیں کہا جا سکتا۔
چکبستؔ ہندوستان کے قومی وثقافتی تشخص پر فخر کرنے کے ساتھ ہی نئی تہذیب کے صالح اور کار آمد عناصر کو بھی قبول کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ وہ نئے زمانے کی ان ایجادات سے بھی استفادہ کرنے کا مشورہ دیتے تھے جو کہ انسانی تمدن کی تاریخ میں ترقی کے نئے باب وا کریں۔ وہ صنعتی انقلاب اور سائنسی ایجادات کے مثبت پہلوؤں پر زور دیتے تھے ۔ اس معاملے میں ان کا انداز فکر اکبر ؔ الہ آبادی سے مختلف تھا۔ اکبرؔ نے مغربی تہذیب کی پروردہ عریانیت اور فحاشی کو ہدف بنانے کے علاوہ ان تمام چیزوں کی مخالفت کی جو مغرب کے ذریعہ ہندوستان میں آئی تھیں اور انگریزی تعلیم بھی ان میں شامل تھی۔چکبستؔ نے نہ صرف جدید تعلیم کے حصول پر زور دیا بلکہ ان فرسودہ روایات کی پرزور مخالفت بھی کی جن سے ترقی کی راہ مسدود ہوتی تھی۔ بحیثیت شاعر چکبستؔ کو اردو کے ان شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے جن کے شعری افکار کا محور وطن پرستی اور قوم پرستی ہے۔ چکبستؔ کی شعری کائنات کی تشکیل میں ان دو اجزا کے علاوہ جو تیسرا عنصر ہے وہ مظاہر قدرت کا بیان ہے۔چکبستؔ کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے حالیؔ اور آزادؔ کی ان اصلاحی کوششوں کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا جن کی وجہ سے اردو شاعری اسلوب اور موضوع ہر دو اعتبار سے نیا قالب اختیار کر رہی تھی ۔ ان اصلاحی کوششوں میں آورد، تصنع اور مبالغہ کو معیوب قرار دیا گیا تھااور ایسی شاعری کو بہتر اور معیاری کہا گیا تھا جس میں انسان اور سماج کا حقیقی عکس نظر آئے۔ چکبست ؔ کی شاعری انسانی سماج کا حقیقی عکس نظر تو آتا ہے لیکن انھوں نے جس مخصوص زاویہ سے معاشرہ کا مشاہدہ کیا تھا اسے مجموعی حقیقت نہیں کہا جا سکتا ۔
شاعر کی حیثیت سے چکبستؔ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کی مشق سخن کا آغاز موضوعاتی شاعری سے ہوا تھا۔ ۱۸۹۴ء میں ۱۲؍ برس کی عمر میں انھوں نے ایک نظم ’ حب قومی‘ کے عنوان سے لکھی تھی ۔ اس نظم میں وطن پرستی اور قومی یکجہتی پرزور دیتے ہوئے کشمیری افراد کو تلقین کی گئی ہے کہ اتحاد و اتفاق سے ہی زندگی کامیاب و کامراں ہوتی ہے۔ یہ نظم گرچہ چکبستؔ کی پہلی کاوش ہے لیکن اس کے بعض اشعار فن شاعری سے ان کی کماحقہ واقفیت کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں ۔ مثلاً:
لطف یکتائی میں جو ہے وہ دوئی میں ہے کہاں
برخلاف اس کے جو ہو سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے
نخل الفت جن کی کوشش سے اگا ہے قوم میں
قابل تعریف ان کی ہمت مردانہ ہے
نظموں کی بہ نسبت غزلیہ شاعری کی طرف چکبستؔ کی توجہ تاخیر سے ہوئی۔ ان کی پہلی غزل ۱۹۰۸ء کی ہے ۔اس طرح نظم نگاری میں تقریباً ۱۵؍ برس تک مختلف موضوعات کو ضبط قلم میں لانے کے بعد وہ غزل کی طرف متوجہ ہوئے۔ نظم اور غزل کے علاوہ چکبستؔ نے رباعیات بھی کہی ہیں ۔ چکبستؔ کا مجموعہ ٔ کلام ’صبح وطن‘ کے نام سے ۱۹۲۶ء میں ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا تھا جس پر سر تیج بہادر سپرو نے مقدمہ لکھا تھا۔ ان کے مجموعہ ٔ کلام کی اشاعت کے سلسلے میں ڈاکٹر عطیہ نشاط نے چکبستؔ کے ڈراما’ کملا‘ کے مقدمے میں اور سرراس مسعود نے ’انتخاب زریں‘ میں لکھا ہے کہ اس کی اولین اشاعت ۱۹۱۸ء میں ہوئی تھی۔ اس مجموعے میں شامل کلام اور چکبستؔ کی دیگر شعری تخلیقات کو یکجا کر کے کالی داس گپتا رضاؔ نے ۱۹۸۱ء میں ’کلیات چکبستؔ‘ شائع کیا تھا۔ اس کلیات میں نظموں کی تعداد ۴۵؍، غزلیں ۴۴؍ اور ۱۰؍ رباعیات شامل ہیں۔
کلیات چکبستؔ میں شامل ۱۰؍ رباعیات میں سے ایک رباعی ان کی وکالت کے ابتدائی دنوں کے حالات کی ترجمانی کرتی ہے:
کرسی سے عیاں جنبش یک پائی ہے
میز ایسی ہے گویا کہ پڑی پائی ہے
منشی کا ہے خطرہ نہ موکل کا گزر
آفس بھی عجب گوشہ ٔ تنہائی ہے
ایک رباعی میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے انتقال پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے چکبستؔ نے لکھا ہے:
سرشارِ فصح و نکتہ پرور نہیں رہا
سرمایہ ٔ نازِ اہل جوہر نہیں رہا
اعجاز قلم کے جس کے سب قائل تھے
وہ نثر کا اردو کی پیمبر نہیں رہا
غالباً یہ رباعی ۱۹۰۲ء کی تخلیق ہے کیوں کہ اسی سن میں سرشار کا انتقال حیدرآباد میں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ باقی ۸؍رباعیوں میں دنیا کی بے ثباتی ، زندگی میں عزم وعمل کی اہمیت، قوم کی ناعاقبت اندیشی ، معاشرتی زندگی میں حلم، مروت، خلق و اخلاص اور محبت کی ضرورت کو موضوع بنایا ہے۔چکبستؔ کی غزلوں میں بھی بیشتر یہی موضوعات نظر آتے ہیں۔ان کی غزلوں پر غالبؔ اور آتشؔ کا رنگ نمایاں ہے۔ انھوں نے کئی غزلیں ان شعرا کی زمین میں کہی ہیں۔ چکبستؔ کی غزلوں کی زبان پر کلاسیکی شعرا کا رنگ غالب ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے ان کی غزلیں ماقبل اور معاصرین شعرا کے درمیان اپنی انفرادیت قائم کرتی ہیں۔چکبستؔ کی غزلوں میں عشق کا روایتی تصور نظر نہیں آتا بلکہ یہ وہ عشق ہے جو انسان کو کچھ ایسا کارہائے نمایاں کرنے کی ترغیب دیتا ہے جو اس کے ، اس کی قوم اور اس کے وطن کی سرخروی کا ضامن بنے۔
چکبستؔ کی غزلوں میں عشق کا بیان وطن اور قوم سے محبت کے حوالے سے ہی بیشتر ہوا ہے۔ ان کی غزلوں میں جس عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ محبوب کے قرب کا خواہاں ہونے کے بجائے وطن کی محبت سے سرشار اور کی ترقی و نیک نامی کا متمنی ہے۔ اگر کسی غزل میں چکبستؔ نے قیس و فرہاد اور لیلیٰ و شریں کا ذکر کیا بھی ہے تو وہ روایتی اندا ز میں ہے۔ اس قبیل کے اشعار اس امر کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ شاعر اردو کی شعری روایت کو نبھانے کی غرض سے عشق کا بیان ان تمثیلات کے حوالے سے کر رہا ہے۔ چکبستؔ نے وطن اور قوم سے وابستہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار جن اشعار میں کیا ہے وہاں ان کی تخلیقیت اپنے فطری پن کے ساتھ نظر آتی ہے۔ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ چکبستؔ کو خود اپنی بھی پروا نہیں رہتی :
قوم کا غم مول لے کر دل کا یہ عالم ہوا
یاد بھی آتی نہیں اپنی پریشانی مجھے
چکبستؔ کی بیشتر غزلوں میں یہی تخلیقی رجحان نظر آتا ہے۔
انسان کی حیات اور موت کے متعلق چکبستؔ کا وہ مشہور شعر جوان کی شاعری میں ایک ناگزیر حوالے کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی غالبؔ کی زمین میں ہے ۔یہ غزل ۱۹۰۹ء کی تخلیق ہے۔ اس غزل کا مطلع غالبؔ کے مطلعے کا جواب معلوم ہوتا ہے بلکہ چکبستؔ نے غالبؔ کے خیال کی تردید کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ آدمی کا انسان ہونا کوئی مشکل امر نہیں ہے اس کے لیے بس کچھ صفات کو اپنی ذات کا جزو بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن خیال کی جو سطح غالبؔکے مطلعے میں ہے چکبستؔ اس سطح تک نہیں پہنچ پائے۔ چکبستؔ کا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ زندگی اور معاملات زندگی کے بارے میں ایک مثالی تصور قایم کر لیتے تھے اور پھر اسی تصور کو شعری پیکر عطا کر دیتے تھے۔بعض اوقات ان کے قایم کردہ تصورات انسان کی ذات اور اس کے متعلقات سے بالکل برعکس بھی ہوتے ہیں اور یہی کچھ اس غزل کے مطلعے میں بھی ہے۔پہلے غالبؔ کی غزل کا مطلع دیکھیے:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اب چکسبتؔ کا مطلع ملاحظہ ہو:
دردِ دل، پاسِ وفا، جذبہ ٔ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا
غالبؔ کا مطلع فطرت انسانی کی نیرنگیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ چکبستؔ کا مطلع غالبؔ کے مطلعے کی معنویت اور بہ ظاہر سادہ سے شعر میں خیال کی نزاکت اور تہہ داری کو مزید نمایاں کر دیتا ہے۔ چکبستؔ نے انسان ہونے کے لیے جن صفات کا ذکر کیا ہے ان سے متصف اشخاص بھی اکثر ایسے کام کر گزرتے ہیں جو انسانیت کے منافی ہوتے ہیں۔ غالبؔ نے مصرعہ ٔ اولیٰ میں ’ہر کام‘ کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی اعمال کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ غالبؔ نے اس شعر کے ذریعہ ان اسباب و محرکات کے اثرات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو مختلف حالات کے تحت انسان کی شخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔
چکبستؔ کی غزلوں میں اصلاح ذات و معاشرہ اور قوم و وطن پرستی کے علاوہ جو موضوع اپنی طرف متوجہ کرتا ہے وہ منظر نگاری خصوصاً مظاہر قدرت کی عکاسی ہے۔ ان کی غزلوں کے علاوہ نظموں میں بھی یہ موضوع اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس قبیل کی شاعری سے ان کی مشاہداتی قوت کا پتہ چلتا ہے ۔ وہ جس منظر کو بیان کرتے ہیں اس کی واضح تصویر نظروں میں پھر جاتی ہے۔ انھوں نے غزلوں میں اکثر ایسے اشعار کہے ہیں جو کسی منظر کو بیان کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں ان کی غزل جس کی ردیف ہی ’ بہار ‘ ہے قابل ذکر ہے۔ یوں تو اس غزل کے تمام شعر بہار کی مختلف کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن ذیل کے شعر کو منظریہ شاعری میں امیجری کی بہترین مثال کہا جا سکتا ہے:
عکسِ مہ قطرہ ٔ شبنم میں ہے شبنم گل پر
پردہ ٔ شب میں چمک اٹّھی ہے تقدیر بہار
بہار کے حوالے سے صبح کے سماں کا بیان اردو کے اکثر شعرا کے یہاں ملتا ہے لیکن رات کے حوالے سے یہ ذکر چکبستؔ کی انفرادیت ہے۔ حالیؔ نے شاعر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے مطالعہ ٔ کائنات کے جس نکتے کو اپنے مقدمے میں بیان کیا ہے وہ چکبستؔ کی اس قبیل کی شاعری میںجابجا نظر آتا ہے۔ چکبستؔ کی غزلوں کو اردو کی کلاسیکی شعری روایت کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری کا ڈھانچہ انھیں لوازم سے تعمیر ہوتا ہے جو فارسی شاعری کے ذریعہ اردو میں آئے تھے۔ چکبستؔ کی غزلوں کی تفہیم کے لیے اردو غزل کی روایت ، اس روایت سے وابستہ تصورات اور ان تصورات کی ترجمانی کرنے والی مخصوص زبان سے واقفیت ضروری ہے۔
چکبست ؔ کی اصل شہرت ان کی نظموں کی وجہ سے ہے ۔ ان کی نظموں کو ہندوستان کی قومی شاعری میں نماماں مقام حاصل ہوا۔یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ چکبستؔ کی شاعری کا آغازہی موضوعاتی شاعری سے ہوا تھا ۔ صنف نظم سے ان کی رغبت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے شاعری کے ذریعہ جن مقاصد کے حصول کو نصب العین بنایا تھا اس کے لیے وہی شاعری موزوں ہو سکتی تھی جس میں اپنی بات کو اشاروں اور کنایوں میں کہنے کے بجائے تشریح و توضیح کے ساتھ بیان کیا جائے۔ چکبستؔ کی شاعری بحیثیت مجموعی مقصدی شاعری ہے لیکن نظموں میں یہ رنگ نسبتاً زیادہ نمایاں ہے۔ان کی نظمیہ شاعری کے بین السطور شاعری سے متعلق حالیؔ کے اس تصور کو محسوس کیا جا سکتا ہے جس کی رو سے شاعری گرچہ براہ راست یا قصداً اخلاق کی تربیت یا سماج کی اصلاح کا فریضہ نہیں انجام دیتی لیکن معیاری شاعری کے ذریعہ ان مقاصد کی بھی تکمیل ہوتی ہے۔ ہر چند کہ شاعر معلم اخلاق نہیں ہوتا لیکن سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے ملک و معاشرہ سے وہ بالکل لاتعلق ہو کر بھی نہیں رہ سکتا۔ اس اعتبار سے چکبستؔ کے یہاں یہ شعوری کوشش نظر آتی ہے کہ ملک و معاشرہ سے مسلسل ربط قائم رکھتے ہوئے وہ ان کی بہتری کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ اپنی پہلی نظم ’ حب قومی‘ میں چکبستؔ نے قوم سے اپنے والہانہ لگاؤ کا ذکر بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے ۔ اس کے بعد دوسری تصنیف ’ جلوہ ٔ صبح‘ (۱۸۹۸ء)میں صبح کی آمد کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے ۔ اس نظم میں چکبستؔ نے جس کمال فن کے ساتھ جزئیات نگاری کو برتا ہے وہ ان کی مشاہداتی قوت اور پھر خیالات و جذبات کی موزوں زبان میں شعری تجسیم کی بہترین مثال ہے۔یہ نظم مسدس کی ہیئت میں ہے اور اس کے بعض بند اس صبح کا منظر پیش کرتے ہیں جو انیسؔ کے مرثیوں میں نظر آتی ہے۔ ذیل کے دو بند میں چکبستؔ نے مصرعوں کی ترتیب و تنظیم میں جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے وہ ان کے افکار پر انیسؔ کے اثر کی واضح عکاسی کرتے ہیں:
والشمس تھا کندہ شہ خاور کے نگیں پر
واللیل کا باقی تھا نشاں بھی نہ کہیں پر
تھی مہر کی پھیلی جو ضیا چرخ بریں پر
آنے لگا رہ رہ کے وہی نور زمیں پر
ذروں کا ستارہ بھی چمکتا نظر آیا
پیمانہ ٔ خورشید چھلکتا نظر آیا
وہ صبح کا عالم وہ چمن زار کا عالم
مرغانِ ہوا نغمہ زنی کرتے تھے باہم
ہنگام سحر بادِ سحر چلتی تھی پیہم
آرام میں سبزہ تھا تہ چادر شبنم
ہر سمت بندھی نعرہ ٔ بلبل کی صدا تھی
غنچوں کی نسیم سحری عقدہ کشا تھی
اس نظم میں چکبستؔ نے جو استعارے اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ بھی طرز انیسؔ سے اثرپذیری کا صاف پتہ دیتی ہیں۔ صبح صادق کے وقت آسمان کا دامن ستاروں سے خالی ہونے کا نقشہ کھینچتے ہوئے چکبستؔ نے ایک نادر ترکیب’ خرمن انجم‘ استعمال کی ہے۔ یہ ترکیب نظم کے پہلے بند کی بیت کے مصرعہ ٔ ثانی میں آئی ہے اور مصرعہ ٔ اولیٰ میں نور سحر کی آمد کو بجلی سے تشبیہ دے کر چکبستؔ نے خرمن انجم کی ترکیب کی معنویت کو واضح کردیا ہے:
جب زنگِ شبِ آئینہ ٔ ہستی ہوا دور
ہنگام سحر کون و مکاں ہوگیے پرنور
تبدیل ہوئی صورت کوہ شب دیجور
چمکا وہ تجلّے سحر سے صفت طور
بجلی کی طرح چرخ پر نور سحر آیا
آنکھوں کو نہ پھر خرمن انجم نظر آیا
’جلوۂ صبح‘ کے بعد چکبستؔ کی دوسری اہم نظم ’ مرقع ٔ عبرت‘ ہے ۔ یہ نظم بھی ۱۸۹۸ء کی تخلیق ہے۔ کلیات چکبستؔ کے مرتب کالی داس گپتا رضا کے مطابق اس نظم کے ۵۲؍ بند اکتوبر ۱۹۰۵ء کے ’زمانہ‘ میں شائع ہوئے تھے اور پھر جب یہ نظم ’ صبح وطن‘ میں شائع ہوئی تو اس میں ۹؍ بندوں کا اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ نظم خصوصی طور سے انجمن نوجوانانِ کشمیر کی کانفرنس کے لیے کہی گئی تھی۔ اس طویل نظم کا آغاز بہت کچھ انیسؔ کے طرز پر ہے جس میں شاعر اپنے سخن کی مقبولیت کی خواہش کرتے ہوئے اپنی قادرالکلامی کے مستند ہونے کا ذکر کرتا ہے۔اس کے بعد کشمیر کے خوبصورت مناظر کو بیان کرتے ہوئے چکبستؔ نے اپنی قوم اور خصوصاً نوجوانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نظم میں چکبستؔ نے ان کشمیری نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے جنھیں اپنے وطن کو چھوڑ کر ملک کے مختلف علاقوں کو اپنا مستقر بنانا پڑا تھا۔ ان نوجوانوں کی بے عملی پر طنز کرتے ہوئے چکبستؔ نے کہا تھا کہ عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے حالات و مسائل سے آگاہی اور ان کے تدارک کے لیے مخلصانہ سعی کرنا لازمی ہے۔ کسی قوم کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے دولت کو لازمی قرار دیتے ہوئے چکبستؔ نے کئی بندوں میں دولت کے مثبت و منفی استعمال سے انسانی سماج کو ہونے والے فوائد اور نقصانات بیان کیے ہیں ۔اس طرز کے دو بند ذیل میں ملاحظہ کریں:
۱۔ کوشش کبھی زر دار کی جاتی نہیں بے سود
رہتا ہے سدا سایہ فگن طالع ٔ مسعود
انسان کی نیت میں اگر شر نہ ہو موجود
زر ہاتھ میں اس کے ہے کلید در مقصود
کب گوہر امید کو رولا نہیں اس نے
تھا کون سا در بند جو کھولا نہیں اس نے

۲۔ لیکن وہ زر و مال نہیں قابل تحسیں
انساں کو بنا دے جو شکم پرور و خود بیں
زردار وہ ہے جس میں شرافت کے ہوں آئیں
ہو بزم ِ محبت کے لیے باعثِ تزئیں
سرسبز رہے قوم، یہ انعام ہو اس کا
باراں کی طرح فیض کرم عام ہو اس کا
اس نظم کے علاوہ اور بھی کئی نظمیں چکبستؔ نے مذکورہ کانفرنس میں پڑھنے کے لیے کہی تھیں۔ان نظموں کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے احیا کے لیے بہت فکر مند تھے اور اس کے لیے وہ شاعری کے علاوہ عملی طور پربھی کوشش کرتے رہتے تھے۔انھوں نے کشمیری مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے عملی طور پر بہت سے کام کیے۔
چکبستؔ کی نظمیہ شاعری کے سرمایہ میں ایسی نظموں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے جس میں شاعر نے وطن سے اپنی محبت کا اظہا ر کیا ہے۔ اس قبیل کی نظموں میں سیاسی و سماجی حوالوں نیز تاریخ ہند کی سربرآوردہ شخصیات کا ذکر کرنے کے علاوہ منظریہ شاعری کے بھی بہترین نمونے پیش کیے ہیں۔وطن پرستی کے جذبات کی عکاسی کرنے والی ۲؍ایسی نظمیں بھی چکبستؔ کے شعری سرمایہ میں شامل ہیں جو خصوصی طور سے بچوں کے لیے کہی تھی۔ ان نظموں کے عنوانات ‘وطن کو ہم، وطن ہم کو مبارک‘ اور ’ہمارا وطن دل سے پیارا وطن‘ ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کے لیے ایک نظم ’ پھول مالا‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ اس میں بھی زبان کے استعمال میں چکبستؔ نے فنکارانہ مہارت کا اظہار کیا ہے لیکن اپنی مشہور زمانہ نظم ’رامائن کا ایک سین‘ میں وہ کردار اور حالات کے حسب حال زبان کا استعمال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس نظم پر بارہا یہ اعتراض کیا گیا کہ اس نظم کی تخلیق کے دوران چکبستؔ پوری طرح انیسؔ کے فنکارانہ طلسم میں اسیر نظر آئے۔ انھوں نے رام چندر جی کے بن باس پر جانے اور اپنی والدہ سے رخصت ہونے کا جو منظر بیان کیا ہے اس میں رام کے اجودھیا چھوڑ کر جانے سے زیادہ مراثی ٔ انیسؔ میں گروہ حسینی کے کسی جوان کے میدان کارزار میں جانے کا تاثر زیادہ نمایاں ہے۔
چکبستؔ کی سنجیدہ شاعری میں اکثر مقامات پر مزاح کا رنگ نظر آتا ہے۔ اس رنگ کے ہونے کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی بیشتر نظموں میں سماج یا انسانی رویہ کو ہدف بنایا اور پھر اس کے اظہار کے لیے جو طرز اختیار کیا اس میں طنز کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہے۔ لیکن چکبستؔ نے باقاعدہ طور پر ظریفانہ رنگ میں ایک نظم ’ لارڈ کرزن سے جھپٹ‘ کہی تھی۔ یہ نظم ادوھ پنچ کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین کی فرمائش پر کہی گئی تھی۔ اس نظم میں چکبستؔ نے لارڈ کرزن کی قابلیت پر سوال کرتے ہوئے اسے انگریزی حکومت کا ایک ناائل افسر قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف شخصیات پر ان کی نظمیں خصوصاً مسز اینی بسنٹ کے نام، مہادیو گووند رانا ڈے، گوپال کرشن گوکھلے اور بشن نرائن درؔ پر لکھی گئی نظمیں فکر و فن ہر دو لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔
چکبستؔ کی شاعری کے متعلق بعض ارباب ادب کی رائے ہے کہ حالیؔ وآزادؔ کی اصلاحی کوششوں کا رنگ ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے تخلیق شعر کا جو انداز اختیار کیا تھا اس پر بھی حالیؔ کے مقدمہ ٔ شعر و شاعری میں بیان کردہ شعری اصولوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ شعر و ادب کے ایسے رمز شناسوں کا اصرار ہے کہ بہترین اور معیاری شاعری کے لیے حالیؔ نے سادگی، جوش اور اصلیت کی جو شرط قایم کی ہے وہ چکبستؔ کے کلام میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن چکبستؔ کی شاعری کے سلسلے میں اسے کلیہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیوں کہ بعض نظموں میں اگر یہ لوازم نظر آتے ہیں تو دیگر کئی میں اس کے برعکس تصنع اور مبالغہ شاعر کے مافی الضمیر کے ترسیلی عمل کو متاثر کرتا ہے۔ چکبستؔ نے حب قوم اور وطن پرستی کے موضوع کو مختلف حوالوں سے نظموں میں بیان کیا ہے اور اس موضوع کا تقاضا بھی یہ تھا کہ اس کی شعری تجسیم میں ان لوازم کو مد نظر رکھا جائے لیکن اس مرحلے پر چکبستؔ اکثر جذباتی ہیجان کا شکار ہو گیے ہیں جس کی وجہ سے شاعری میں بیان کردہ حقائق بھی اصلی لگنے کے بجائے بناوٹی محسوس ہوتے ہیں۔
چکبستؔ کی شاعری میں جوش کی فراوانی تو ایک حد تک ہے لیکن اصلیت اور سادگی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ قوم اور وطن کی محبت پر آمادہ کرنے والے اشعار میں انداز بیان پر جوش ہونا ضروری بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اصلیت اور سادگی بھی لازمی ہوتی ہے۔ ان میں سادگی کا تعلق بڑی حدتک اسلوب شاعری سے ہوتا ہے ۔ شاعر کا طرز بیان ہی شعر کو سادہ یا پرتکلف بناتا ہے ۔ اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ چکبستؔ نے جس شعری ماحول میں تربیت پائی تھی وہاں شاعری میں سادگی کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ غدر کے بعد لکھنؤ کے حالات یکسر تبدیل ہو گیے تھے اور شاعری میں بھی وہ روایتیں اب باقی نہیں رہی تھیں جو کہ اس دبستان کا امتیاز سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن اس عہد میں بھی شاعری کو بڑی حد تک مرصع سازی سمجھا جاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ چکبستؔ اور ان کے معاصرین لکھنوی شعرا کے یہاں بھی شعر میں ظاہری حسن پیدا کرنے کے لیے نادر تشبیہیں، استعارات اور تراکیب و ضع کرنے کا رجحان نظر آتا ہے ۔ چکبستؔ کی شاعری بھی اس رجحان سے متاثر نظر آتی ہے وہ کسی ایک خیال کو بیان کرتے وقت مختلف زاویہ سے اس کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور اس کے لیے وہ تشبیہ، استعارہ اور تمثیل کا سہارا لیتے ہیں جن کی وجہ سے شعر میں ظاہری حسن تو پیدا ہوتا ہے لیکن سادگی اور اثر پذیری متاثر ہونے کے علاوہ بعض اوقات شاعر کے بیان میں تضاد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے ان کی دو نظموں خاک ہند (۱۹۰۵ء)اور فریاد قوم(۱۹۱۴ء)کا ذکر بطور خاص کیا جا سکتا ہے۔ ان نظموں میں چکبستؔ نے وطن اور قوم کے حالات بیان کرتے ہوئے تاریخ ہند کی جن چند اہم شخصیات کا ذکر کیا ہے ان میں مغل حکمراں اکبر بھی شامل ہے۔ پہلی نظم میں وہ اکبر کو ہندوستان میں محبت و الفت کو رواج دینے والے حکمراں کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن دوسری نظم میں جس انداز میں اکبر کا ذکر ہے وہ اولذکر کے برعکس نظر آتا ہے۔
ان نظموں سے چکبستؔ کے تاریخی شعور کی عدم پختگی کا بھی اظہار ہوتاہے۔ وہ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے نمایاں کارناموں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہند کی عظمت کو صرف اپنے ہم مسلک حکمرانوں سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ عمل ایک طرح سے تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے اور ہندوستان جیسے ملک کی ترقی کے خواہاں شاعر کے افکار کی محدودیت اور تنگ نظری اسے سچا محب وطن بنانے کے بجائے ایک ایسے شاعر کے طور پر منعکس کرتی ہے جو ہذہبی عقیدت کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہتا۔ ان کی نظموں میں جوش اور ولولہ تو ہے لیکن اکثر ان کا حقائق سے سروکار نہیں ہوتا۔ اس کی ایک نمایاں مثال ان کی نظم ’گائے‘(۱۹۱۲ء) ہے۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق گائے ایک مقدس جانور ہے اور اس کے وجود سے ایک ماں کی محبت و شفقت ظاہر ہوتی ہے ۔ ہندو اپنے مذہبی عقیدے کی بنا پراس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ یہاں مذہبی عقیدے سے بحث نہیں چکبستؔ کی ا س نظم میں دوچیزوں کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ گائے کا ذکر کرتے ہوئے بعض مقامات پر اس قدر مبالغہ آرائی کی گئی ہے کہ وہ گائے کے بجائے ایسی مخلوق نظر آتی ہے جس کے مرتبے کا اندازہ ذہن انسانی کے حدود سے باہر ہے ۔گائے نے نوع انساں کو کس طرح فائدہ پہنچایا اس نظم میں اسے بیان کرنے کے علاوہ چکبستؔنے گائے سے خود کے مستفید ہونے کا ذکر اس قدر مبالغہ آمیز زبان میں کیا ہے جس کا حقیقت سے تعلق بہت کم رہ جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بند ملاحظہ ہو:
میرے دل میں ہے محبت کا تری سرمایا
ماں کے دامن سے ہے بڑھ کر مجھے تیرا سایا
یاد ہے فیض طبیعت نے جو تجھ سے پایا
عین قسمت جو ترا نام زباں پر آیا
اس حلاوت سے داعوائے سخن گوئی ہے
دودھ سے تیرے لڑکپن میں زباں دھوئی ہے
درج بالا بند کے دوسرے مصرعے میں چکبستؔ کا مبالغہ غلو کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ اس نظم سے متعلق جو دوسری اہم بات ہے وہ یہ کہ گرچہ نے چکبستؔ نے براہ راست مسلمانوں کو ہدف نہیں بنایا ہے لیکن نظم کے بین السطور میں اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ وہ گائے کے ذبیحہ کے متعلق انگریزوں کے ذریعہ پیدا کیے گیے تنازع کے دام میں پوری طرح گرفتار ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے انگریزوں نے اس تنازع کو بھی استعمال کیا تھا۔
چکبست ؔنے غزلوں اور نظموں میں جس طرح کے موضوعات منتخب کیے ان کا بیشتر تعلق سماج اور سیاست سے رہا ہے۔ انھوں نے ان موضوعات کو کامیابی کے ساتھ برتنے کی کوشش بھی کی لیکن ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایت کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی فکر میں وہ وسعت نہیں تھی جو کہ ہندوستان جیسے تکثیری ملک کے لیے ضروری ہے۔شاعری کو اعتبار تبھی حاصل ہوتا ہے جب شاعر ایسے تحفظات سے بالاتر ہو کر کسی بھی موضوع یا مسئلے کے تمام تر پہلوؤں کا غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لے۔اس ضمن میں چکبستؔ کے ہی ہمعصر اقبال ؔ کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن کی شاعری کا بنیادی موضوع گرچہ مسلمانوں کے حالات و مسائل تھے لیکن انھوں نے قوم کے علاوہ وطن کا ذکر بھی اسی انداز میں کیا ہے اور خاص طور سے ہندوستانی تہذیب و تمدن سے وابستہ ان کے شعری افکار میںعصبیت یا جانب داری نہیں نظر آتی ۔چکبست ؔسیاست کا بھی اتنا پختہ شعور نہیں رکھتے تھے جتنا کہ اکبر آلہ آبادی اور حسر ت موہانی کے یہاں نظر آتا ہے۔ وہ وطن کی محبت کے نغمے تو گاتے ہیں لیکن ان نغموں میں بھی صرف ایک مخصوص قوم اور اس کے کارناموں کا ذکر ہی بیشتر ہوتا ہے۔ افکار کی یہ محدودیت شاعری کی اثر پذیری کو بھی متاثر کرتی ہے اور پھر یہ شاعری قاری کے جذبات کو گہرائی تک متاثر کرنے کے بجائے اوپر اوپر سے گزر جاتی ہے۔ چکبستؔ نے اپنی فکر و نظر میں وسعت کو راہ دی ہوتی تو بلاشبہ ان کی شاعری کے اثرات لافانی ہوتے۔
————–
ؔؔؔؔؔؔ ؎۱ تاریخ ادب اردو، نورالحسن نقوی صفحہ ۱۵۹؍
ؔؔ ؎۲ ایضاً صفحہ ۱۵۸؍
؎۳ انیسؔ شناسی ، مرتبہ گوپی چند نارنگ صفحہ ۱۹۳؍