Shahper Rasool Ki Muntakhab Ghazlen

Articles

شہپر رسول


شہپر رسول کی منتخب غزلیں

(۱)
بد دعا اس نے مجھے دی تھی دعا دی میں نے
اس نے دیوار اٹھائی تھی گرا دی میں نے

خانۂ خواب سے نکلا تھا مگر وحشت میں
پھر سے زنجیرِ درِ خواب ہلا دی میں نے

شہر سے میرے تعلق کا سبب پوچھا گیا
سادگی میں تری تصویر بنا دی میں نے

چاندنی آئے اسے نور میں نہلا ڈالے
پھر دریچے میں کوئی یاد سجا دی میں نے

اس نے سیلاب کی تصویر بنا بھیجی تھی
اسی کاغذ سے مگر ناؤ بنا دی میں نے
٭٭٭

(۲)
پھیلتا خموشی میں نقطۂ صدا پایا
اک سفید صفحے سے لفظ کا پتا پایا

تم سا اس زمانے میں کس نے معجزہ پایا
شکل بھی بھلی پائی دل بھی آئینہ پایا

فکر تھی بلند اپنی اور قدم خلا میں تھے
جب زمیں پر آئے تب ہم نے راستہ پایا

بس شکایتوں پر ہی دوستی رہی قائم
وہ بھی کتنا آ پائے میں بھی کتنا جا پایا

شوق اور خواہش کا امتیاز تو دیکھو
اک رکا ہے منزل پر اک نے راستہ پایا

یہ تضاد بھی شہپرؔ زندگی نے دیکھا ہے
چال میں انا دیکھی سر جھکا ہوا پایا
٭٭٭

(۳)
دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا
یاد کا بے نام جگنو روشنی بنتا گیا

ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا
ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا

کیا لبا لب روز و شب تھے اور کیا وحشی تھا میں
زندگی سے دور ہوکر آدمی بنتا گیا

کب جنو ں میں کھنچ گئی پیروں سے ارض اعتدال
اور اک یوں ہی سا جذبہ عاشقی بنتا گیا

زندگی نے کیسے رازوں کی پٹاری کھول دی
آگہی کا ہر تیقن گمرہی بنتا گیا

شہر کا چہرہ سمجھ کر دیکھتے تھے سب اُسے
اور وہ خود سے بھی شہپرؔ اجنبی بنتا گیا
٭٭٭

(۴)
نہ آنکھ اُٹّھی کسی لفظِ بے ضرر کی طرف
نہ سنگ آئے کبھی شاخِ بے ثمر کی طرف

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے، قدم سفر کی طرف

اِس ایک وہم میں چُپ چُپ ہیں سوکھتی شاخیں
طیور لوٹ نہ آئیں کہیں شجر کی طرف

چلی ہی آئی بالآخر کئی ارادوں سے
خبر حصار لیے مجھ سے بے خبر کی طرف

یہ معجزہ ہے کہ سنیے میں تیر بیٹھ گیا
اگرچہ اُس کا نشانہ تھا میرے سر کی طرف
٭٭٭

(۵)
خوش یقینی میں یوں خلل آیا
کچھ نکلنا تھا کچھ نکل آیا

میں نے بھی دیکھنے کی حد کر دی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا

آج کل آج کل میں ڈھلتے رہے
آج آیا نہ کوئی کل آیا

خود سے لڑتے رہے الجھتے رہے
صبر آیا کہ حل نکل آیا

مجھ کو تسخیر کرنا تھا شہپرؔ
مجھ سے آگے وہ کیوں نکل آیا
٭٭٭

(۶)
میری نظر کا مدعا اُس کے سوا کچھ بھی نہیں
اُس نے کہا کیا بات ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں

ہر ذہن کو سودا ہوا ہر آنکھ نے کچھ پڑھ لیا
لیکن سرِقرطاسِ جاں میں نے لکھا کچھ بھی نہیں

دیوارِ شہرِ عصر پر کیا قامتیں چسپاں ہوئیں
کوشش تو کچھ میں نے بھی کی لیکن بنا کچھ بھی نہیں

جس سے نہ کہنا تھا کبھی جس سے چھپانا تھا سبھی
سب کچھ اُسی سے کہہ دیا مجھ سے کہا کچھ بھی نہیں

چلنا ہے راہِ زیست میں اپنے ہی ساتھ اک عمر تک
کہنے کو ہے اک واقعہ اور واقعہ کچھ بھی نہیں

اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اُڑ گیا
اب کے بھی سب باتیں ہوئیں لیکن ہُوا کچھ بھی نہیں

دل کو بچانے کے لیے جاں کو سپر کرتے رہے
لوگوں سے آخر کیا کہیں شہپر بچا کچھ بھی نہیں
٭٭٭

(۷)
کہاں کوئی جو زباں بھی جگر بھی رکھتا ہو
پھر اپنے ہاتھ بھی گردن بھی سر بھی رکھتا ہو

خموش ہونٹ بھی عرضِ ہنر بھی رکھتا ہو
تغیرات پہ گہری نظر بھی رکھتا ہو

کئی امیدیں بجھاتا ہو ایک جنبش میں
کئی چراغ سرِ رہگزر بھی رکھتا ہو

لہو میں پلتی ہوں آزادیاں بھی اس کے، مگر
قفس میں خوش بھی ہو اور بال و پَر بھی رکھتا ہو

کبھی تو ہجر کے محور میں قید ہو جائے
کبھی وصال کا لمبا سفر بھی رکھتا ہو

سفر کا شوق بھی رکھتا ہو اپنے سینے میں
عذابِ ہمسفری سے مفر بھی رکھتا ہو
٭٭٭

(۸)
پھر سے وہی حالات ہیں، امکاں بھی وہی ہے
ہم بھی ہیں وہی، مسئلۂ جاں بھی وہی ہے

کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں، کچھ نہیں بدلا
آنکھیں بھی وہی، خوابِ پریشاں بھی وہی ہے

یہ جال بھی اُس نے ہی بچھایا تھا، اُسی نے
خوش خوش بھی وہی شخص تھا، حیراں بھی وہی ہے

اے وقت! کہیں اور نظر ڈال، یہ کیا ہے
مدّت کے وہی ہاتھ، گریباں بھی وہی ہے

ہر تیر اُسی کا ہے، ہر اک زخم اُسی کا
ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے

کل شام جو آنکھوں سے چھلک آیا تھا میری
تم خوش ہو کہ اِس شام کا عنواں بھی وہی ہے

شہپرؔ وہی بھولا ہوا قصّہ ، وہی پھر سے
اچّھا ہے تری شان کے شایاں بھی وہی ہے