Moen Ahsan Jazbi by Sharib Rudaulvi

Articles

ایک کم سخن، کم گو، کم آمیز شاعر

پروفیسر شارب ردولوی

جذبیؔ اپنے ہم عصراردو شعرا میں سب سے کم سخن ، کم گو اور کم آمیز شاعر ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی سب سے الگ نظر آئے ۔ دنیاوی اعتبار سے اپنی کم آمیزی کی وجہ سے جتنے بھی نقصان ہو سکتے تھے وہ انھوں نے برداشت کیے لیکن کبھی شکایت نہیں کی ، سوائے ا یک طنزیہ قصیدے کے ۔ سب میں رہنے کے با وجود وہ کبھی کھلے نہیں ۔ کم ایسے دروںبیں ہوں گے جوخود سے بھی نہیں کھلتے۔ ان کے یہاں احتیاط کی ایک عجیب تہذیب ہے ۔ یہ تہذیب ان کی زندگی اور شاعری دونوں پر ہمیشہ چھائی رہی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بارے میں بھی اظہار سے ہچکچاتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پارہ ہائے قلب و جگر وہ پھول ہیں کہ جو کبھی مر جھانے والے نہیں ہیں ۔ لیکن تہذیب احتیاط انھیں کہنے نہیں دیتی کہ کہیں یہ تعلّی نہ ہو جائے، کہیں لو گ اسے خود ستائی نہ سمجھ لیں ۔ کوئی اسے ادّعا نہ قرار دے اس لیے یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں : جذبیؔ اپنے ہم عصراردو شعرا میں سب سے کم سخن ، کم گو اور کم آمیز شاعر ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی سب سے الگ نظر آئے ۔ دنیاوی اعتبار سے اپنی کم آمیزی کی وجہ سے جتنے بھی نقصان ہو سکتے تھے وہ انھوں نے برداشت کیے لیکن کبھی شکایت نہیں کی ، سوائے ا یک طنزیہ قصیدے کے ۔ سب میں رہنے کے با وجود وہ کبھی کھلے نہیں ۔ کم ایسے دروںبیں ہوں گے جوخود سے بھی نہیں کھلتے۔ ان کے یہاں احتیاط کی ایک عجیب تہذیب ہے ۔ یہ تہذیب ان کی زندگی اور شاعری دونوں پر ہمیشہ چھائی رہی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بارے میں بھی اظہار سے ہچکچاتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پارہ ہائے قلب و جگر وہ پھول ہیں کہ جو کبھی مر جھانے والے نہیں ہیں ۔ لیکن تہذیب احتیاط انھیں کہنے نہیں دیتی کہ کہیں یہ تعلّی نہ ہو جائے، کہیں لو گ اسے خود ستائی نہ سمجھ لیں ۔ کوئی اسے ادّعا نہ قرار دے اس لیے یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں :
چمن کی نذر ہیں یہ پارہ ہائے قلب و جگر
یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مرجھائیں
کم گو اتنے کہ کوئی سال مشکل سے ہی ہو گا جس میں چار چھ سے زیادہ غزلیں کہی ہوں ۔ ’’گدازِ شب‘‘ میں بعض سال ایسے بھی ہیں جس کی کو ئی غزل ہی شامل نہیں ہے ۔
جذبیؔ ؔ کو سمجھنے کے لیے ان کے اس مزاج اور اس تہذیب احتیاط کو اچھی طرح سمجھے بغیر ان کی شاعری کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے ۔ جذبیؔؔ ایک ترقی پسند شاعر اور اردو کے ایک منفرد غزل گو کی حیثیت سے مشہور ہیں ۔ لیکن ان کے یہاں زبان و بیان ، اظہار اور موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں ایسا محتاط رویہ ملتا ہے جو ان کے ہم عصر شاعروں میں بہت کم ہے ۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنے تہذیبی روایت سے اسی طرح وابستہ رہے ہیں کہ ترقی پسندی کے اس عہد میں بھی جس میں الفاظ کی گھن گرج اور موضوعات کی بلند آہنگی اپنے عروج پر تھی ، ان کے لب و لہجے کی متانت اور سنجیدگی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا ۔
جذبیؔ ؔ کی شاعری اس عہد کی نصف صدی سے زائد کو محیط ہے ۔ گداز شب کی پہلی غزل 1929ء کی ہے ۔ اس طرح ان کا ۶۵ سال کا یہ شعری سفر کافی اہم ہے ۔ یہ 65 سال ہندوستان کی ادبی ، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے اہم ترین سال ہیں ۔ جنگِ عظیم کے اثرات اور ان کے ر د عمل کے علاوہ بیشتر بڑی سماجی ، سیاسی اور ادبی تحریکات اسی عہد میں پروان چڑھیں ۔ اکتوبر انقلاب سے لے کر آزادی اور تقسیم ملک تک اس نصف صدی میں نہ جانے کتنے نشیب وفراز دیکھے ۔ ادبی افق پر ترقی پسندی کا عروج بھی دیکھا۔ فرائڈ کی دروں بینی کی مقبولیت بھی دیکھی اور فرانسیسی علامت نگاری کے ساتھ رومانیت اور جدیدیت کا فروغ بھی ۔یہ عہد صرف اردو ہی نہیں ، پورے ہندوستانی ادب میں زبردست تبدیلیوں کا عہد رہا ہے ۔ یہ تبدیلیاں موضوع، مواد ، اظہار، بیان، الفاظ ، زبان ہر چیز میں آئیں ۔
جذبیؔؔ کی شاعری کا ابتدائی زمانہ فانی، جگر اور اصغر کا زمانہ تھا ۔ جس میں جگر کی طوطی اردو شاعری میں 1960ء تک بولتا رہااور ان کی غنائیت، رومانویت اور نغمگی کا اثر ان کے بعد بھی بہت عرصے تک باقی رہا ۔ فانیؔ کی یاسیت اور حرماں نصیبی انسان کو مایوسی کا شکار بنانے والی ذاتی شکستوں اور نا کامیوں کے باوجود تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا زیادہ دنوں ساتھ نہیں دے سکی اور انسان نے جینے کے لیے نئی آرزوؤں اور امنگوں کو سہارا بنایا ۔ اصغرؔ بھی جگرؔ کی نغمگی کے سامنے بہت دور تک نہیں چل سکے ۔ اس زمانے پر سب سے گہرا رنگ انھیں تین شاعروں کا نظر آتاہے۔ اقبال اور جوش ؔ کا ذکر اس جگہ اس لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ اردو شاعری کی دو الگ آوازیں ہیں اور ان کا حلقہ اثر بالکل مختلف ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جذبیؔ کی شاعری پر فانی ؔ کا اثر ہے ، لیکن یہ درست نہیں۔ ان کی 1929ء اور1930ء کی غزلوں میں حزن انگیزی یا غم و یاس کی ایسی کیفیت نہیں ہے جسے فانیؔ کا اثر قرار دیا جا سکے ۔ یوں تو غم کی نفسیات یہ ہے کہ وہ دوسرے جذبات کے مقابلے میں زیادہ زود اثر اور پر اثر ہوتا ہے۔ لیکن جذبیؔؔ نے غم و افسردگی کا اس طرح اظہار اس زمانے میں بھی نہیں کیا جب وہ فانیؔ سے قریب تھے۔ ان کی اس وقت کی غزلوں کے چند اشعار دیکھئے :
ہو نہ ہو دل کو  ترے حسن سے کچھ نسبت ہے
جب اٹھا درد  تو کیوں میںنے  تجھے یاد کیا (۱۹۲۹ء)
سکوں نہیں ،نہ سہی درد انتظار تو ہے
ہزار  شکر کو ئی دل کا غم گسار تو ہے (۱۹۳۰ء)
مزے ناکامیوں کے اس سے پوچھو
جسے کہتے ہیں  سب گم  کردہ منزل (۱۹۲۹ء)
تر ے جلوؤں کی حد ملی تو کب
ہو گئی جب  نظر  بھی لا محدود (۱۹۲۹ء)
طالبِ تسکین و ہمدردی تھے بیزارانِ زیست
ہم فریبِ جوشِ الفت یاد کر کے ہنس دئے        (۱۹۳۰ء)

چاک ہی کرنا ہے  تو دامانِ  وحشت چاک کر
ورنہ کیا ہے دامنوں میں ، کیا گریبانوںمیں ہے (۱۹۳۰ء)
اس زمانے کی غزلوں کے یہ چند اشعار ، اس کے باوجود کہ ان میں دردِ ناکامی بھی ہے اور دردِ انتظار بھی۔ فانیؔ کی تہذیبِ غم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ سوائے اس ایک غزل کے جو 1933ء کی چار اشعار کی غزل ہے :
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو یقینا اس طرح فانیؔ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے کہ اگر مقطع بدل کر فانیؔ کے کلام میں شامل کر دیا جائے تو پڑھنے والوں کو اندازہ کرنا مشکل ہو جائے کہ وہ فانیؔ کی غزل نہیں ہے ۔ جذبیؔؔ کا درد وہ درد ہے جو ہر محبت کرنے والا محسوس کرتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ جذبیؔؔ کی یہ غزلیں روایتی غزلیں ہیں ۔ ان کے بعض اشعار میں روایتی شکوہ و شکایت کا انداز بھی موجود ہے ۔ لیکن انھیں اشعار سے جذبیؔؔ کی انفرادیت اور شائستگی ِ جنوں کا احساس بھی ہوتاہے ۔ ان غزلوں میں اس عہد کی مخصوص رومانویت ہے، لیکن اس میں جذبیؔؔ کا لب و لہجہ ان کے ہم عصر شعراسے مختلف ہے ۔
ڈاکٹر محمد حسن نے جذبیؔؔ کو ’’ سلگتی ہو ئی آتشِ رفتہ‘‘ کا شاعر کہا ہے ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ انھوں نے ’’ آتشِ رفتہ‘‘ کی ترکیب کیوں وضع کی ۔ صرف سلگتی ہو ئی آتش کا شاعر کیوں نہیںکہا ۔ حالانکہ ان کی ساری شاعری سلگتی ہوئی آتش بھی نہیں ہے ۔ ان کے یہاں تو زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہو تی ہے اور زندگی کبھی یکساں نہیں رہتی ۔ وہ کبھی شبنم کی طرح خنک، شفافTransparantہے۔ کبھی کہر کی طرح دھندلی اور کبھی سلگتی ہو ئی آتش جیسے جذبیؔؔ کی تہذیب شعلہ نہیں بننے دیتی :
یوںبڑھی ساعت بہ ساعت لذّتِ دردِ فراق
رفتہ رفتہ میں نے خود کو دشمنِ جاں کردیا
کھنیچ کر اک آہ زیر لب کسی کی بزم میں
مختصر افسانۂ شب ہائے ہجراں کردیا

یہی زندگی مصیبت یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ

مرے قہقہوں کی ز د پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی زد میں کبھی تلخیِ زمانہ
جذبیؔؔ غزل کے شاعر ہیں ۔ انھوں نے نظمیں ضرور کہی ہیں ۔ لیکن ان کی نظموںمیںبھی غزل کی سی نغمگی اور حلاوت ہے ۔ اسی لیے ان کی بیشتر نظموں پر مسلسل غزل کا گمان ہوتا ہے کیونکہ وہ غزل کی غنائیت ، نرمی اور کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔
جذبیؔؔ اپنی ابتدائی شاعری یا یوں کہئے کہ1936ء اور 1937ء کی شاعری تک اصغرؔ اور جگرؔ کی شعری روایت کے شاعر نظر آتے ہیں ، لیکن ترقی پسند تحریک کی ابتدا کے بعد رفتہ رفتہ وہ اس سے قریب ہوتے گئے ۔ ترقی پسند مصنفین سے وابستگی کے بعد ان کی فکر اور لب و لہجے میں فرق ضرور آیا لیکن ان دنوں ترقی پسندی کی جو شناخت تھی ، اس لب ولہجے کو انھو ںنے کبھی نہیں اپنایا۔یوں بھی اگر دیکھا جائے تو ترقی پسند مصنفین میں دو طرح کے ادیب تھے ۔ ایک وہ جنھوں نے سیاسی لب و لہجہ اپنایا اور ادب کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا ۔ چونکہ یہ اندازاس وقت بہت مقبول تھا ۔ اس لیے اس زمانے کی شاعری میں بعض ایسے لوگوں کے یہاں سیاسی بلند آہنگی ملے گی جن کا کوئی تعلق ترقی پسند تحریک سے نہیں تھا اور وہ پھر اس بات کے دعویدار ہوتے تھے کہ ان کے کلام میں بھی حالات حاضرہ کا حوالہ ملتا ہے ۔ یہاں تک کہ خود جگر ؔ صاحب نے کہہ دیا :
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
دوسرے وہ شعرا اور ادیب تھے جو ترقی پسند مصنفین سے واضح نظریاتی وابستگی رکھنے کے با وجود سیاسی بلند آہنگی سے دور رہے ۔ فیض، مجاز،جاں نثار،اختر الایمان، جذبیؔ ؔ ان میں سر فہرست ہیں ۔ شعر و ادب میں سیاسی بلند آہنگی کے خلاف سجاد ظہیر نے بار بار ٹو کا اور اپنے مضامین میں صاف طور پر لکھاکہ :
’’ انقلاب کے اس خونی تصور میں رومانیت جھلکتی ہے ۔ یہ ایک طرح ادبی دہشت انگیزی ہے۔ یہ ایک ذہنی اور جذباتی بلوہ ہے ۔‘‘
اس سے زیادہ سخت بات اور کیا کہی جا سکتی تھی ۔ در اصل یہ رویہ ان لوگوں کا تھا جو Party Activistتھے اور ان کے پہلو بہ پہلو وہ لوگ تھے جنھیں نو ترقی پسند کہہ سکتے ہیں ۔ جن کے متشددانہ رویے سے بعض بہت اچھے ادیب تحریک سے بد دل ہو گئے ۔ سجاد ظہیر نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ انقلاب کو اگر سمجھنا ہو تو اس کے لیے بہت سی اچھی کتابیں ہیں ___شاعری کا کام انقلاب کو سمجھانا یا وعظ دینا نہیں ہے۔ انھو ں نے لکھا تھا :
’’ شاعر کا پہلا کام شاعری ہے ۔ وعظ دینا نہیں ہے ۔ اشتراکیت و انقلاب کے اصول کو سمجھانا نہیں۔ اصول سمجھنے کے لیے کتابیں موجود ہیں ۔ اس کے لیے ہم کو نظمیں نہیں چاہئیں ۔ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے ۔ اگر وہ اپنے تمام ساز و سامان ، تمام رنگ و بو، تمام ترنم و موسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لا ئے گا ۔ اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈا پن ہو گا ۔ اگر وہ ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے سے قاصر ہو گا تو اچھے سے اچھے خیال کا وہی حشر ہو گا جو دانے کا بنجر میں ہو تا ہے ۔‘‘
ظاہر ہے کہ شاعر کی پہلی دنیا اس کے جذبات اور محسوسات کی دنیا ہے اور دوسری دنیا خارج کی دنیا ہے ۔ ان دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لیے کہ سماج، روایت ، ماحول ، تجربے اور مشاہدے کا تعلق خارجی دنیا سے ہے اور یہ فن کار کے جذباتی رد عمل کو متاثر کرتے ہیں ۔ جذبیؔؔ اس راز سے بہت اچھی طرح واقف ہیں بلکہ جذبیؔؔ اس تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جو رسم عاشقی کی تہذیب ہے ۔ جہاں سکوت ،سخن سے زیادہ بہتر ہے اور جہاں گلابی کو بھی خونِ دل میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔ اسی لیے1943ء میں شائع ہونے والے اپنے مجموعے’ فروزاں‘ کے دیباچے میں جو کہ ان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ، جن نکات سے بحث کی گئی ہے وہ بہت اہم ہیں ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :
’’ ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں ۔ لیکن کو ئی تجربہ اس وقت تک مو ضوع سخن نہیں بن سکتا جب تک اس میں شاعر کے جذبے کی شدت او ر احساس کی تازگی یا یقین نہ ہو جائے ۔‘‘( فروزاں )
اس مقدمے کی روشنی میں جذبیؔؔ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ جذبیؔ کی شاعری کی تعریف دو چیزوں یعنی جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی میں پوشیدہ ہے ۔ جذبیؔ کی پوری شاعری جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی کی شاعری ہے ۔ شاید اسی لیے جذبیؔ کم گو ہیں ۔ اس لیے کہ کوئی بھی تجربہ، مشاہدہ ، یہاں تک کہ حادثہ جب تک جذبے کی شدت میں نہیں ڈھل جاتا اسے نظم نہیں کرتے ۔
جذبی نے ایسی بہت سی نظمیں لکھی ہیں جو وقتی موضوعات پر ہیں ۔ کسی دوست کے بارے میں یا کسی دوست کے انتقال پر، اور یہ وہ شخصیتیں اور موضوعات ہیں جن پر اس عہد کے بیشتر شعرا نے نظمیں لکھیں ۔ سب سے پہلے مجازؔ پر ان کی نظم دیکھئے ۔ مجاؔز جذبی کے ہم جماعت تھے ۔ ایک عرصے تک ساتھ رہے تھے اور دوست تھے۔ دوسرے مجاز ؔ اس زمانے کے بڑے محبوب شاعر تھے اور ان کے انتقال پر بہت سے لوگوں نے نظمیں لکھیں ۔ لیکن جذبی نے مجازؔ سے اتنی قربت اور محبت کے با وجود فوراً نظم نہیں لکھی ۔ مجازؔ کا انتقال1955ء میں ہوا اور جذبی نے تین سال بعد نظم لکھی ۔ اگر وہ اسی وقت نظم لکھتے تو شاید ا س میں جذباتی شدت زیادہ ہوتی ، لیکن جذبی ؔ اپنے شدت جذبات کو مرثیہ یا نوحہ نہیں بنانا چاہتے تھے ۔ وہ اس کے احساس کی تازگی میں ڈھل جانے اور ان آنسوؤں کے گلابی رنگ میں تبدیل ہو جانے کا انتظار کرتے رہے۔ اس پوری نظم میں کہیں مجازؔ کا نام نہیں آیا ہے اور نہ مجازؔ کی موت اور ان سماجی حالات کا ذکر ہے ، جس کا مجازؔ کے انتقال کے بعد مضامین، تقاریر، اور نظموں میں بہت ذکر رہا ۔ مجازؔ پر جذبی کی نظم صحیح معنوں میں ایک نازک احساس ہے :
آج اک جادۂ پُر پیچ کا راہی گم ہے
ایک حریفِ المِ لامتناہی گم ہے
اک دہکتا ہوا شعلہ نہیں میخانے میں
اک مہکتی ہوئی سرشار نگاہی گم ہے
حسن والوں کی جبینوں کا اجالا اوجھل
عشق والوں کے نصیبوں کی سیاہی گم ہے
اس نظم کے پہلے حصے کے ہر مصرعے میں کسی چیز کے گم ہو جانے کا ذکر ہے اور اس خوبصورتی سے کہ ہر استعارہ مجازؔ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ کھوئی ہوئی چیز کا تلاش کرنا انسانی فطرت ہے اور اگر وہ کوئی قیمتی چیزہے تو ہر اس جگہ اس کی تلاش کی جا تی ہے جہاں ملنے کا امکان ہو ۔ نظم کے دوسرے حصے میں جذبیؔ اس شاعرِ گم شدہ کو تلاش کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا احسا س دلاتے ہیں کہ مجازؔ ان چیزوں میں اب بھی زندہ ہے :
جن کے سینوں میں ہے تابانیِ صد ماہ تمام
ظلمتِ دہر ذرا ایسے ہلالوں میں تو دیکھ
پوجے جاتے ہیں کہاں حسن و وفا کے اصنام
اے مرے شیخِ حرم اپنے شوالوں میں تو دیکھ
دلِ صد پارۂ مظلوم کی آہوں میں تو ڈھونڈ
شہریاروں کے غضب ناک خیالوں میں تو ڈھونڈ
ناخنِ عقل و جنوں آج بھی عاجز جن سے
ایسے عقدوں سے تو پوچھ ایسے سوالوں میں تو دیکھ
اسی طرح کی ایک نظم’ جرمِ بے گناہی‘ ہے ۔ یہ نظم بھی ایک ایسے حادثے سے متعلق ہے جس پر بہت سی نظمیں لکھی گئیں اور ان سیاسی و سماجی حالات اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف نظموں میں خوب شعلہ بیانی کی گئی ۔ یہ وہ موقع تھا جب راولپنڈی سازش کیس کے تحت سجاد ظہیر اور فیض کو سزا دی گئی ۔ اس موقع پر بھی جذبی نے پوری نظم میں صرف استعارے اور علامت سے کام لیا ہے ۔ نہ کہیں نعرۂ انقلاب ہے نہ فغاں و زاری ۔ نظم کا ہر مصرع ایک خوبصورت اشارہ اور ایک پر کشش تصویر ہے :
شمیم گل سے پریشاں ہے باغباں کا دماغ
یہی خطا ہے مگر بادِ صبح گاہی کی
اور اس شعر کا تو جواب نہیں ہے ۔ اسے جتنی دیر پڑھا جائے اس کی تہہ داری، معنویت ایک نیا لطف دیتی ہے :
نفس میں رندوں کے اتنی ہے بوئے بادۂ شوق
کہ محتسب کو نہیں فکر اب گواہی کی
اسی طرح تقسیم، فیض و سجاد کی گرفتاری پر، نیا سورج وغیرہ ایک خاص موقع یا واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی گئی نظمیں ہیں ، لیکن ان میں ہر نظم واقعہ کے بیان کے بجائے جذبے کا ایک نیا احساس اور نئی کیفیت بن کر سامنے آتی ہے اور یہی جذبی کی انفرادیت ہے ۔
جذبی ؔ کی نظم ہو یا غزل اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا گہرا اور لطیف تاثر ہے جو جذبے کی اوپری سطح کے بجائے اندرونی سطح میں ایسا لطیف ارتعا ش پیدا کرتا ہے جس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے ، بیان کرنا مشکل ہے ۔ اس لیے کہ وہ براہ راست کوئی بات نہیں کرتے بلکہ ان مقامات کو چھو کر گزر جاتے ہیں ، جو لطیف احساسات کو بیدار کرتے ہیں اور ایک اچھی غزل کی یہی خصوصیت بھی ہے کہ وہ اشارہ کرتی ہے ، تفصیل بیان نہیں کرتی ۔ اشارہ جتنا بلیغ ہوگا شعر میں اتنی ہی معنوی وسعت و تہہ داری ہوگی ۔ ان کی غزلوں کے یہ چند شعر ملاحظہ کیجئے :
ان بجلیوں کی چشمک۔ِ باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے

یہ دل کا داغ جو چمکے تو کیسی تاریکی
اسی گھٹا میں چلیں ہم اسی گہن میں چلیں

غمِ حیات بجا ہے مگر غمِ جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ حرف جسے ہے منصور و دار کو نسبت
لبِ جنوں پہ مکرر نہیں تو کچھ بھی نہیں

کہیں عذابِ جفا ہے کہیں نشاطِ وفا
یہیں کہیں سے تماشائے روز گار کریں

بنتی نہیں ہے بات مگر صاحبانِ عقل
پھرتے ہیں ہم سے اہل ِ جنوں کا چلن لیے

اس افق کو کیا کہئے نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی بارہا غبار آیا

آؤ نہ دل کے داغ جلالیں کہ صبح ہو
اختر شماریِ شبِ آلام کیا کریں

کوئی تو قاتلِ نادید کا پتہ دے گا
ہم اپنا زخم زمانے کو لاؤ دکھلائیں
جذبیؔ کے یہاں جس تہذیب درد کا ذکر شروع میں کیا گیا تھا ، ان اشعار میں اس تہذیبِ درد کے تغزل اور جذبے کے احساس میں تبدیل ہونے کی کیفیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اشعار مختلف کیفیتوں کو پیش کرتے ہیں ۔ ان میں بعض اشارے زندگی کے حادثات اور حالات سے متعلق بھی ہیں ۔ لیکن جذبی نے انھیں بڑی فن کاری سے پیش کیا ہے ۔ اسی لیے وہ محدود یا یک رخے مطالب کے اشعار نہیں ہیں بلکہ اس میں معنی کی کئی سطحیں پوشیدہ ہیں ۔
یہ اشعار ارد و غزل میں اپنے عہد کی ایک نئی آواز اور نئے لب و لہجے کا پتہ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں جن اصطلاحات ، علامات اور استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے ۔ وہ سب اردو غزل میں بہت عام ہیں ۔ بجلی، نشیمن، گھٹا، غمِ حیات، غمِ جاناں ، منصور و دار، اہلِ جنوں ، داغِ دل، قاتل ،زخم وغیرہ کا ذکر غزل میں بار بار ہو تا رہا ہے ۔ لیکن ان روایتی اصطلاحات اور علامتوں کو جذبی نے ایسی معنویت اور تہہ داری دی ہے کہ ان پر جتنا غور کرتے جائیں ، شعر کی تہیں کھلتی جاتی ہیں ۔ یہی جذبیؔ کا فن ہے ۔