Jazbi ki Shairi Kainaat by Qamar Siddiqui

Articles

جذبی کی شعری کائنات

قمر صدیقی

معین احسن جذبی کا شعری کینواس مختلف رنگوں سے مزّین ہے اور اِن میں احساس کی تازگی اور جذبے کی شدت کا رنگ سب سے گہرا ہے۔ یہی جذبات و احساسات کی شدت انھیں اپنے دیگر ترقی پسند معاصر شعرا سے منفرد کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جذبی کا شعری رویہ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی مستحکم ہوچکا تھا۔ وہ اپنی مشہور غزل ’’ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے‘‘1933ء میں نہ صرف لکھ چکے تھے بلکہ اس غزل کے حوالے سے اُن کی شناخت بھی قائم ہوچکی تھی۔ ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز کے بعد، تحریک سے ان کی واضح وابستگی کا پتہ ہمیں نظم ’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘سے ملتا ہے۔ یہ نظم 1937ء میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے بعدان کے یہاں ترقی پسند نظریات سے وابستگی دھیرے دھیرے پختہ ہوتی گئی۔ البتہ 1942ء کے بعد جذبی کے شعری اظہار میں ترقی پسند نظریات کی بندش ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔ 1943ء کی ایک مشہور غزل جس کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے: معین احسن جذبی کا شعری کینواس مختلف رنگوں سے مزّین ہے اور اِن میں احساس کی تازگی اور جذبے کی شدت کا رنگ سب سے گہرا ہے۔ یہی جذبات و احساسات کی شدت انھیں اپنے دیگر ترقی پسند معاصر شعرا سے منفرد کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جذبی کا شعری رویہ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی مستحکم ہوچکا تھا۔ وہ اپنی مشہور غزل ’’ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے‘‘1933ء میں نہ صرف لکھ چکے تھے بلکہ اس غزل کے حوالے سے اُن کی شناخت بھی قائم ہوچکی تھی۔ ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز کے بعد، تحریک سے ان کی واضح وابستگی کا پتہ ہمیں نظم ’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘سے ملتا ہے۔ یہ نظم 1937ء میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے بعدان کے یہاں ترقی پسند نظریات سے وابستگی دھیرے دھیرے پختہ ہوتی گئی۔ البتہ 1942ء کے بعد جذبی کے شعری اظہار میں ترقی پسند نظریات کی بندش ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔ 1943ء کی ایک مشہور غزل جس کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے:
اے موجِ بلا ! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
مذکورہ شعر کے علاوہ جس میں ہلکی سے نظریاتی وابستگی کا احساس ہوتا ہے پوری غزل پر کلاسیکی لہجہ حاوی ہے۔ ہرچند کہ 1943ء سے 1956ء تک جذبی کے کلام میں ترقی پسند تحریک سے نظریاتی وابستگی کسی نہ کسی صورت نظر آجاتی ہے البتہ اِس کی لو کا دھیما پن صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ منزل تک ، میرے سوا، نیاسورج وغیرہ نظموں اور اُس دور کی غزلوں کے مطالعے سے اس امر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ اُس دور میں کلاسیکی تہذیب سے مربوط دھیما دھیما مگر خوش آہنگ لہجہ جو جذبی کی اصل شناخت ہے بہت صاف اور روشن نظر آتا ہے:
بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
ہے آج بھی نگاہِ محبت کی آرزو
پر ایسی اک نگاہ کی قیمت کہاں سے لائیں

کوچۂ یار میں اب جانے گزر ہو کہ نہ ہو
وہی وحشت ، وہی سودا ، وہی سر ہو کہ نہ ہو
جانے اک رنگ سا اب رخ پہ ترے آئے نہ آئے
نفسِ شوق سے گل شعلۂ تر ہو کہ نہ ہو

یہ دل کا داغ جو چمکے تو کیسی تاریکی
اسی گھٹا میں چلیں ہم اسی گہن میں چلیں

شمیم زلف و گلِ تر نہیں تو کچھ بھی نہیں
دماغِ عشق معطر نہیں تو کچھ بھی نہیں
غم حیات بجا ہے ، مگر غم جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
مذکورہ بالا اشعار اس احساس کے غماز ہیں کہ اُن کا خالق اردو غزل کی روایت سے کماحقہ‘ واقفیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اُسے اِس روایت کے ساتھ چلنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔اپنے تخلیقی مزاج اور ذہنی ہم آہنگی کے سبب جذبی مشرقی شعریات اور اردو کے شعری آداب و رسوم کے دلدادہ تھے۔ تاہم ایک جنیوئین شاعر ہونے کی وجہ سے ان کی بالغ نظری اور ان کا مشاہدہ کائناتی تھا۔ اگر 1936ء میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز نہ بھی ہوا ہوتا تب بھی جذبی کا تجسس سے بھرپور خلاقانہ ذہن اور شگفتہ لہجہ صبح نو کی نوید کا ایسا ہی پیامبر ہوتا جیسا کہ وہ آج ہے:
ان بجلیوں کی چشمک باہم کو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے
یہ دل کا داغ جو چمکے تو کیسی تاریکی
اسی گھٹا میں چلیں ہم اسی گہن میں چلیں

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسمِ بہار آیا
اِس افق کو کیا کہیے ، نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی ، بارہا غبار آیا

دنیا سنے تو قصۂ غم ہے بہت طویل
ہاں تم سنو تو قصۂ غم مختصر بھی ہے
مذکورہ بالا اشعار اشاراتی و علامتی طور پر اپنے عہد کے معاصر رویوں و رجحانات کے ترجمان تو ہیں ہی تاہم یہ اشعار اردو غزل کی بہت ہی توانا شعری روایت سے رنگ و روشنی اخذ کرتے ہوئے بھی معلوم ہوتے ہیں۔ پرانے چراغوں کی مدد سے نئے چراغ روشن کرنے کا یہ عمل جذبی کے یہاں اس ہنر مندی سے برتا گیا ہے کہ شیشے میں بال پڑنے کا احتمال بھی نظر نہیں آتا۔غور کریں تو یہ اشعار روایتی لفظیات مثلاً بجلی ، بجلیوں کی چشمک باہم اور نشیمن، دل کا داغ اور اس داغ کی روشنی کی وجہ سے تاریکی و گہن کی فضا میں رفت کا اہتمام ، گل و نگاہ ، نکھار و بہار ، افق ، نور ، دھندلکا اور پھر کرن اور غبار ، قصۂ غم کا طولانی ہونا اور اسی قصۂ غم کا اختصار وغیرہ سے منور ہیں۔ اس طرح کی لفظیات کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ امتداد زمانہ اور کثرتِ استعمال کی وجہ سے یہ اپنا آب و رنگ کھو دیتے ہیں۔ جذبی کی فنکاری یہ ہے کہ انھوں نے ایسے بے آب و رنگ لفظیات کو اپنے جوہر ذاتی کے ذریعے ایک نئے اور انوکھے شعری تجربے میں ڈھال دیا ہے۔لغت اور شاعری میں یہی فرق ہے کہ لغت میں لفظ جامد ، ٹھہرا ہوا اور کم امکان نظر آتا ہے جبکہ شعر میں وہی لفظ معنی کے نت نئے دروازے وا کرتا ہے۔
جذبی کی شعری کائنات میں جذبے اور رنگ کی فراوانی کم تو نہیں ہے لیکن اس کی حدیں متیعن ہیںالبتہ یہ جس مقدار میں بھی ہیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہیں۔ شاید جذبی نے ایک محدود دائرے میں رہتے ہوئے اپنی پرواز کی وسعتیں خود ہی طے کرلی تھیں۔ یہ حدیں قدیم شعری روایت سے آگہی و آشنائی ، زندگی کی تلخیوں میں عزم و حوصلے کے جذبے کی نمو کو قدرے جمالیاتی و حسی ادراک کے ساتھ پیش کرنے سے عبارت ہیں:
عذابِ درد پہ نازاں ہیں اہل درد مگر
نشاطِ درد میسر نہیں تو کچھ بھی نہیں
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں

ہوائے گرم ! کچھ مہلت دے ان معصوم غنچوں کو
کہ تھوڑی دیر تو نظارۂ رنگِ جہاں کرلیں

وہ خراشِ دل جو اے جذبی مری ہمراز تھی
آج اسے بھی زخم بن کر مسکرانا آگیا ہے
جذبی کی کلاسیکی شعریات سے وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہنگامی اور سیاسی شاعری کی حیثیت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس کی وقعت اور قدر و قیمت بھی پہچانتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس کی فضا کلاسیکیت کی خوشبوسے معطر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ادب میں جذبی کا مقام و مرتبہ اور اعتبارترقی پسند تحریک کے طفیل نہیں بلکہ ترقی پسند تحریک کا اعتبارو استناد جذبی جیسے شعرا سے قائم ہے۔